Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

اجتہادی مسائل میں ادب الاختلاف: علامہ غلام رسول سعیدی کے منہج کا مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_496

Pages

146-159

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/113

Subjects

Quranic Education Religious Seminaries Teaching Methods Strategies Non-Traditional Institutes.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

علامہ غلام رسول سعیدی ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۵۶ ھ بمطابق ۱۴ نومبر ۱۹۳۷ء بروز جمعۃ المبارک ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ نے۱۹۴۷ میں اپنےوالدین کےساتھ پاکستان ہجرت کی اورایک پرنٹنگ پریس میں محنت مزدوری کی۔اسی دوران اللہ تعالی نے آپ کے دل کو علوم دینیہ کی طرف مائل فرمایا تو آپ نے جامعہ محمدیہ رضویہ رحیم یار خان، جامعہ سراج العلوم خانپور، جامعہ نعیمیہ لاہور،دارالعلوم امدادیہ مظہریہ بندیال اور جامعہ

قادریہ فیصل آباد سے علومِ دینیہ کی تکمیل کی۔۱۹۵۸ ء میں غزالی ٔ زماں علامہ سید احمد سعید کاظمیؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے ۔۱۹۶۶ ء میں آپ نے لاہورسے اپنی دینی خدمات کا آغاز کیا۔پوری زندگی تعلیم و تدریس میں گزاری۔آپ نے تفسیر تبیان القرآن ، تفسیر تبیان الفرقان ، نعمۃالباری شرح صحیح بخاری ، نعم الباری شرح صحیح بخاری اور شرح صحیح مسلم جیسی شہرۂ آفاق کتب تحریر کیں۔ آپ کا انتقال ۲۵ ربیع الثانی ۱۴۳۷ ھ بمطابق ۴ فروری ۲۰۱۶ء شب جمعہ کراچی میں ہوا۔ جامعہ نعیمیہ کے نزدیک جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں آپ کی تدفین کی گئی ۔زیر نظر مقالے میں علامہ غلام رسول سعیدی کےاجتہادی امورمیں اختلاف رائے کے آداب پیش کیے گئے ہیں۔مقالے کے اختتام پر نتائج اورسفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔

مقالہ کے بنیادی مباحث

  • اسلام میں اظہارِ رائے کی آزادی
  • عہدِ نبوی ﷺ میں اختلاف رائے کی آزادی
  • عہدِصحابہ میں اختلاف رائے کی آزادی
  • عہد حاضر میں اختلاف رائے کی نوعیت
  • علامہ غلام رسول سعیدی کےاختلاف رائے کی نوعیت
  • کتاب و سنت اور اجماع کی اولیت کی بابت علامہ سعیدی کاموقف
  • علامہ سعیدی کے اجتہادی تفردات
  • علامہ غلام رسول سعیدی کا ادب الاختلاف
  • نسخ کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف
  • اولیاءاللہ سے استعانت کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف
  • علوم اسلامیہ کی تعلیم پر اجرت کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف
  • بحالتِ روزہ انجکشن لگوانے کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف

اسلام میں اظہارِ رائے کی آزادی

اسلام نے فکر ودانش پر کوئی قدغن نہیں لگائی ہے۔اظہار رائے اجتماعی زندگی کا ایک اہم جزوہے ۔ اس کا استعمال مثبت انداز میں اور اصول و آداب کی رعایت کرتے ہوئے کیا جائے تو اس کے نتیجے میں انسانی تمدن ارتقا پذیر ہوتا ہے، بصورت دیگر اختلاف تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔اظہار رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے اور اسلام نے اختلاف رائے سے منع نہیں کیا۔ اسلام ہی نے اختلاف ِ رائے کے اصول و ضوابط اور آداب مقرر کیے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان اصول و آداب کا شعور بیدار کیا اوراس بارے میں ہدایات عطا فرمائیں۔ان کی رعایت کی اور انھیں عملی جامہ پہناتے ہوئے انسانیت کے لیے ایک عمدہ نمونہ پیش کیا ۔ جس سے رہنمائی حاصل کر کے اختلاف رائے کو ایک مفید عمل بنایا جا سکتا ہے ۔

اسلام مظاہر قدرت پر غور فکر کی دعوت دیتا ہے اور کائنات کو مسخر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔غوروفکر صاحبانِ علم وفضل کا کام ہے اور انہیں ہی زیب دیتا ہے۔قرآنِ مجید ایسے لوگوں کو علما اور اولوالامر کے ناموں سے موسوم کرتا ہے۔ان دل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔یہ صاحبانِ علم اولوالامر ہوتے ہیں جو اربابِ دانش اورصائب الرائے کہلاتے ہیں۔ان کا کام اپنی خداداد بصیرت کو بروئے کار لاکرقوم کو ہر طرح کے بحران سے نکالنا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا،ملی وحدت کو قائم و متحد رکھنا،قوم میں یکجہتی و ہم آہنگی پیدا کرنا اور ملک و ملت کی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔گویا یہ وہ قومی قیادت ہوتی ہے جس کی سوچ قومی و اجتماعی ہوتی ہے۔ اسے اپنے شعبۂ اختصاص سے متعلق امور و معاملات کی خوب بصیرت ہوتی ہے۔ یہ قومی سطح پر درپیش مسائل کا ایسا جامع و پائیدار حل تجویز کرتی ہے جس سے پوری قوم امن و عافیت حاصل کر لیتی ہے۔ اس کے پاس اپنے عہد کے مسائل و معاملات کاحل اور مستقبل کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے مسائل و معاملات کے حل کے لیے ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ([1])

”اور جب ان کے پاس کوئی معاملہ امن یا خوف کا آئے تو وہ اس کا چرچا کردیتے ہیں،اگر وہ اس معاملے کو رسول اللہ ﷺ اور اپنے صاحب ِبصیرت لوگوں کے سامنے پیش کردیتے تو معاملات کی تہہ تک پہنچ جانے والے یہ لوگ ضرور اس معاملے کی حقیقت کو جان لیتے۔“

یہ حقیقت ہے کہ قرآن و سنت نے اصولی مباحث کو قطعیت کے ساتھ طے کردیا ہے جبکہ فروعی مباحث اور نئے پیش آمدہ مسائل کو انسانی فہم وشعور پر چھوڑدیا ہے اور اس معاملے میں رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کومنبع و مدارقراردیا ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام کےسوا ہر انسان سے فروعی مباحث اور نئے پیش آمدہ مسائل کے حل میں فکری خطا کا شائبہ موجود رہتا ہے۔اور اسی لیے انسانی فکرونظرمیں غلطی کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے عظیم اسلاف نے فروعی اور پیش آمدہ مسائل میں رد و قبول کو دلائلِ شرعیہ کے ساتھ جاری رکھا ۔اسی بابت امام احمدرضا قادریؒ لکھتے ہیں:”سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہلِ حق کا یہ معمول رہا ہے کہ ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاتا ہے اور اس کو رد بھی کیا جاتا ہے،ماسوا نبی ﷺ کے۔“([2])

مفتی نوراللہ نعیمیٖؒ فقہائےامت کے درمیان فکری اختلاف کی بابت ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں:”حضرت امام اعظم ؓ کے محققانہ اقوال و فتاویٰ شرعیہ کی موجودگی میں حضرات صاحبین وغیرہمااوراجلہ تلامذہ بلکہ متاخرین کے بھی بکثرت ایسے اقوال و فتاویٰ ہیں،جو ان کے خلاف ہیں جن کی بنا قول صوری و ضروری وغیرہ اصولِ ستہ پر ہے۔“([3])

مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں:”جہاں عقل بھی ہواور دیانت بھی یہ ممکن نہیں کہ ان میں اختلافِ رائے نہ ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ اختلافِ رائے عقل و دیانت سے پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کو اپنی ذات کے اعتبار سے مذموم نہیں کہا جاسکتا اور اگر حالات و معاملات کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اختلافِ رائے اگر اپنی حدود کے اندر ہے تو وہ کبھی کسی قوم و جماعت کے لیے مضر نہیں ہوتا بلکہ بہت سے مفید نتائج پیدا کرتا ہے۔ اسلام میں مشورےکے تکریم اور تاکید فرمانے کا یہی منشا ہے کہ معاملے کے متعلق مختلف پہلو اور مختلف آراسامنے آجائیں تو فیصلہ بصیرت کے ساتھ کیا جاسکے۔ اگر اختلافِ رائےمذموم سمجھا جائے تو مشورے کا فائدہ ہی ختم ہو جاتاہے۔“([4])

مفتی نوراللہ نعیمی جدیدمسائل میں اختلاف کی بجائے اتفاق کے خوہاں ہیں،لکھتے ہیں:”یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ کسی ناجائز اور غلط چیز کو اپنے مفاد اور منشا سے جائز و مباح کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔مگر شرعاً اجازت ہوتو عدم جواز کی رٹ لگانا بھی جائز نہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ذمے دار علمائے کرام محض اللہ تعالیٰ کے لیے نفسانیت سے بلندوبالا سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی جزئیات کے فیصلے کریں۔“([5])

علامہ غلام رسول سعیدی اکابرین امت سے فکری اختلاف کی بابت لکھتے ہیں:”اکابر کا کوئی قول اگر قرآن مجید اور حدیثِ صحیح کے خلاف ہو تواصاغر کے لیے یہ جائز ہے کہ اس قول سے اختلاف کریں۔اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں ان کے قول کو قبول نہ کریں۔اور اس میں ان کی کوئی بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بڑائی کا اظہار ہے۔“([6])

اہل علم کی تصریحات کے پیش نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ علمی و فکری اختلاف کی روایت بہت قدیم ہے۔ اصاغر نے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اکابرسے دلائل کی روشنی میں ادب کے ساتھ اختلاف کیا ہے اور حق کو واضح کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔

عہدِ نبوی ﷺ میں اختلاف رائے کی آزادی

اسلام آداب و اخلاقِ کامل کی تعلیم وتربیت دیتا ہے۔معلم الاخلاق ﷺ نے ہمیشہ اخلاق عظیمہ پر عمل کیا اور اپنے صحابہ و اہل بیت کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم دی۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے فکری اختلاف پر نہ تو کوئی پابندی لگائی اور نہ ہی اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اگر صحابہ کرام ؓ آپ ﷺ کے پاس حاضر نہ ہوتےاور مسئلہ میں اجتہاد کرتے ، یا کسی مسئلے میں ان کے درمیان اختلافِ رائے ہو جاتا تو وہ آپ ﷺ کی طرف رجوع کرتے اور آپ ﷺ مسئلے کی وضاحت فرمادیتے اور یوں یہ اختلاف رفع ہو جاتا۔جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیا تھا:

مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ([7])

”اگر تمھارے درمیان کسی بات میں اختلاف ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو۔“

شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں :”آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہر قسم کے علم سے متعلق لوگوں کی نگاہیں آنحضرت ﷺ کے جمال ِ مبارک پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کے کان حضور ﷺ کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ جہاد کی مصلحتوں ، صلح و جزیہ کا معاملہ ، فقہی احکام،زہد کے متعلق علوم وغیرہ کے متعلق جو باتیں پیش آتی تھیں وہ آپ ﷺ سے دریافت کر لیتے تھے۔“([8])

اگر آپ ﷺ اپنی رائے سے کوئی حکم دیتے اور اس مسئلے کی بابت کوئی حکم الٰہی نازل نہ ہو چکا ہوتا یا آپﷺ صحابہ سے کوئی مشورہ کرتے تو بعض اوقات صحابہ کرام آپ ﷺ سے اختلافِ رائے بھی کرتے تھے اور آپ ﷺ ان کے اختلافِ رائے کو تسلیم بھی فرماتے تھے۔جیسا کہ غزوہ ٔبدر میں اسلامی لشکر کے پڑاؤ کے سلسلے میں حضرت حباب بن منذررضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیاآپﷺ اس مقام پر اللہ کے حکم سے اترے ہیں یا اس سے آگے پیچھے ہٹنے کا اختیار ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ محض جنگی حکمت عملی کے طور پر ہے،تو انھوں نے کہا کہ پھر یہ مقام مناسب نہیں ہے۔ آپﷺ آگے تشریف لے چلیں اور جو چشمہ قریش کے لشکر کے قریب ہےوہاں پڑاؤ ڈالیں۔ہم بقیہ چشمے کاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا:“لقد اشربت بالرائی۔“([9]) (تم نے بہت مناسب رائے دی)

اگر کسی انفرادی معاملے میں آپﷺ کسی کو کوئی مشورہ دیتے اور یہ جان کر کہ یہ آپ ﷺ کا مشورہ ہےحکم نہیں ہےتوصحابہ کرام اس انفرادی معاملے میں آپ ﷺ سے اختلافِ رائے کرتےتھےجیسا کہ حضرت بریرہؓ نے کیا۔ حضرت بریرہؓ اورحضرت مغیثؓ دونوں میاں بیوی غلام تھے۔جب حضرت بریرہ ؓ آزادہوگئیں تو انھوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی کافیصلہ کر لیا۔ حضرت مغیث ؓچاہتے تھے کہ بریرہ ؓ اپنا فیصلہ بدل دیں ۔ جب معاملہ آپ ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپ ﷺ نے حضرت بریرہؓ سے فرمایاکہ تم اس کی طرف رجوع کر لو۔ کہنے لگیں یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کا حکم ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔تو بریرہ ؓنے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ بریرہ ؓ کے اس فیصلے کے بعد آپ ﷺ نے ان کے درمیان علیحدگی فرمادی۔([10])

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نہ صرف صحابہ کرام کو اختلافِ رائے کی اجازت اور آزادی دیتے تھے بلکہ ان کے اختلافِ رائے کو تسلیم بھی کرتے تھے۔

عہدِصحابہ میں اختلاف رائے کی آزادی

اسلام کی زریں روایات میں سے ایک روایت اختلاف رائے کی ہے جوعہد صحابہ میں جاری رہی اور امت کے لیےرحمت کا باعث بنی۔مفتی محمدشفیع لکھتےہیں:” قرآن و سنت کے مجملات اور مبھمات کی تشریح و تعبیر کے اختلافات کو”رحمت“ کہا گیا ہے ۔یہ اختلافات اسلام کے عہدِ اول سے صحابہ و تابعین اور پھر ائمہ مجتہدین میں چلے آئے ہیں۔([11]) انتظامی اور تجرباتی امور میں اختلافِ رائے خود رسول اللہ ﷺ کے عہد میں آپ ﷺ کی مجلس میں بھی ہوتا رہا، اور خلفائے راشدین اور عام صحابہ کے عہد میں امور انتظامیہ کے علاوہ جب نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل سامنے آئے جن کا قرآن و حدیث میں صراحۃ ذکر نہ تھا۔“([12])

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ صحابۂ کرام کی مختلف مسائل میں مختلف آراء ہوتی تھی اورہرایک کواپنی رائے دینےکی مکمل آزادی بھی ہوتی تھی۔یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ ہررائے کااحترام کیاجاتاتھااورباہمی مشورے کے بعد جس رائے کوصائب سمجھاجاتاسی کواختیارکیاجاتاتھا۔بطورنمونہ چندمثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں تاکہ عہدصحابہ میں اختلاف رائے کی آزادی اورباہمی مشورہ کی کیفیت واضح ہوجائے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے درمیان کئی امور میں اختلاف رائے پیدا ہوا ۔مثلاً: حضرت ابو بکر صدیقؓ کا مؤقف تھا کہ مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں جیسا کہ عہدِ رسالت مااب ﷺ میں دستور تھا۔ لیکن حضرت عمر فاروق ؓنے عراق کی فتح کے بعد مؤقف اختیار کیا کہ یہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ وقف ہوں گی۔ بہت سے صحابہ نے اس سے اختلاف کیا لیکن شوریٰ میں حضرت عمر فاروقؓ کی رائے کو تسلیم کرلیا گیا۔([13])

اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں تمام صحابہ کرام کو بیت المال سے برابر وظیفہ جاری ہوتا تھا،اس میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن حضرت عمر نے اپنے دور میں اسلام میں سبقت اور دینی خدمات کومدِ نظر رکھتے ہوئے وظائف میں کمی بیشی کر دی۔([14])

حضرت عمر ؓ کے پاس ایک عورت آئی ور اس نےکہا کہ میرے شوہر کی وفات کے بعد عدت کے ایام پورے ہونے سے قبل میرےہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے کہا کہ زیادہ مدت والی عدت پوری کرویعنی وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں جو زیادہ عدت بنتی ہےاسےپوراکرو۔وہ عورت اس کے بعد حضرت ابی ؓ بن کعب کے پاس چلی گئی اور ان کو حضرت عمر ؓ کا فیصلہ سنایا۔ حضرت ابیٔ بن کعب نے اس سے کہا کہ ان کے پاس واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ تمھاری عدت پوری ہو گئی ہے۔وہ عورت حضرت عمر ؓ کے پاس دوبارہ گئی اور حضرت ابی کا فیصلہ سنایا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے ابی بن کعب کو بلایا اور ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا تھااور یہ آیت پڑھی:وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ([15]) حضرت عمر ؓ نے یہ سنا تو اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔([16])

عہد صحابہ میں اگرچہ فکری اختلاف موجود تھا لیکن یہ اختلاف علمی و فکری آداب کا عالی نمونہ تھا ۔ان مبارک نفوس نے قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھا اسے نہایت شائستگی کے ساتھ بیان کیا ،ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ رکھا اور آپس میں محبت واخوت کو فروغ دیا۔چنانچہ ان کا علمی و فکری اختلاف امت کے لیے رحمت کے دریچے کھول گیا۔

عہد حاضر میں اختلاف رائے کی نوعیت

گزشتہ صدی سے مسلمانوں میں اختلاف رائے کی بجائے اختلاف کا سلسلہ بڑھا ہے اور شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہواہے۔ فرقہ واریت عام ہوئی ہے اور قتل و غارت کا میدان گرم ہوا ہے۔اسلام دشمن عالمی سامراج مسلم امّہ کو رنگ،نسل،زبان اور وطنیت کے نام پر تقسیم کرنے،مسلمانوں کو فرقہ واریت میں مبتلا رکھنےاور ان کی وحدت پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔موجودہ زمانے میں ہرکوئی اپنی رائے کوصائب سمجھتا ہے ،اسے منوانا چاہتا ہے اور اپنے ہمنواؤں کی کثیرتعدادکادعویداربھی ہے۔اگر کوئی اس رائے کے خلاف رائے دے دے تو معاملہ ذاتیات تک پہنچ جاتا ہے۔یہ طرزِعمل نہ تو ہمارے اسلاف کا تھا اور نہ ہی مہذب معاشروں میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی وفکری اختلاف ایسے مہذب،مؤدب اورشائستہ اندازسے ہو جو امت کے لیےرحمت کا باعث ہو اوراس اختلاف سے بچنا چاہیے جو امت کے درمیان تفریق کا باعث ہو۔وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان باہمی اختلاف کو ترک کر کے اپنی عالمگیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کریں اور اسلامی بھائی چارے کو فروغ دیں۔

علامہ غلام رسول سعیدی کےاختلاف رائے کی نوعیت

علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے شرعی مسائل کے استنباط و استخراج میں متقدمین اور معاصرین اہل علم سے دلائل کی بناپر اختلاف کیا ہے ،آپ لکھتے ہیں:” میں نے بعض مقامات پر چند اکابر علماء کی تحقیق سے دلائل کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ اس پر بعض جمود پسند لوگوں نے برا منایا اور یہ کہا گیا کہ کیا یہ ان سے بڑے عالم ہیں؟ کیا ان اکابر کو ان دلائل کا علم نہیں تھا ؟ علم اور تحقیق کی روشنی میں یہ بہت کمزور بات ہے ۔آخر ان اکابر نے بھی تو اپنے متقدمین اکابرین سے اختلاف کیا ہے جن کا علم و فضل مسلّم اور ان سے زیادہ تھا۔ ان میں ائمہ مجتہدین ،تابعین اور صحابۂ کرام سب ہی شامل ہیں، تو کیا ان اکابر علماء کا علم ائمہ مجتہدین اورصحابہ کرام سے زیادہ تھا ،یا ائمہ مجتہدین اور صحابہ کرام کو ان دلائل کا علم نہیں تھا ۔پھر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہر دور میں تحقیق کرنے والے علماء کو جمود پسندوں سے واسطہ پڑا ہے اور وہ ان کے اعتراضات کا نشانہ بنے ہیں۔ ملا علی قاری نے ابن حجر مکی کی تحقیقات سے اختلاف کیا تو ان کو بھی ایسے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔“([17])

کتاب و سنت اور اجماع کی اولیت کی بابت علامہ سعیدی کاموقف

علامہ غلام رسول سعیدی نے کتاب و سنت اور علماء کے اجماع کو ہمیشہ اولیت دی۔ آپ نے اپنی تحقیق کو کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف حجت قرار نہیں دیا۔اس بابت آپ لکھتے ہیں:”میں نے جن عصری مسائل میں کوئی رائے قائم کی ہے اس کی اساس قرآن مجید، مستند احادیث اور اجماع ہے اور بعض جگہ قیاس سے بھی استدلال کیا ہے۔ تاہم اگر کسی مسئلہ میں میری رائے سنت یا اجماع کے خلاف ہو تو اصل حجت کتاب و سنت اور اجماع ہے۔ میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اور جن مواضع میں میں نے امام اعظم کے قول یا دوسرے علمائے احناف سے اختلاف کیا ہے اس کی وجہ نظریۂ ضرورت ہے اور ہمارے فقہائے احناف نے ضرورت کی بنا ءپردوسرے آئمہ کے قول پر فتویٰ دینے کو جائز قرار دیا ہے۔یا اس (اختلافِ رائے)کی وجہ اتباعِ حدیث ہے۔ ۔۔اسی طرح جن بعض تراجم اور مسائل میں میں نےدوسرے علماء سے اختلاف کیا ہے ان کی بنیاد قوی دلائل ہیں تاہم اگر کوئی شخص میرے ذکر کردہ دلائل سے مطمئن نہیں ہے تو وہ جس قول کی دلیل سے مطمئن ہو اس پر عمل کرے۔“([18])

علامہ سعیدی کے اجتہادی تفردات

علامہ غلام رسول سعیدی اکیسویں صدی کے عظیم مجتہد ،مفسر،محدث اورفقیہ تھے۔ علامہ سعیدی نے اپنی اجتہادی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے علوم اسلامیہ کے اہم ترین شعبوں یعنی تفسیر قرآن، علم حدیث اورعلمِ فقہ میں بیش قیمت خدات انجام دیں ۔آپ نے شرعی مسائل کے حل کے لیے اجتہادات کیے۔آپ کے اجتہادی تفردات کی فہرست بہت طویل ہے ۔چنداجتہادات کے عنوانات حسب ذیل ہیں:

”روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے کی تحقیق،چلتی ریل گاڑی اورہوائی جہاز میں نماز پڑھنے کے مسئلہ میں تحقیق ،قطبین میں نماز اور روزہ کے مسائل میں تحقیق،، شہید پر تحقیق،اعضا کی پیوند کاری پر تحقیق، عطیۂ خون اور انتقال خون پر تحقیق،جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر تحقیق ، پوسٹ مارٹم پر تحقیق ،ضبط تولید پر تحقیق، ٹیسٹ ٹیوب بےبی پر تحقیق ،بینک نوٹ پر تحقیق، بین الاقوامی کرنسی پر تحقیق، پرائز بانڈ پر تحقیق، سود پر تحقیق،پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ کی تحقیق،انشورنس اور بیمہ پر تحقیق اورخواتین کی ملازمت پر تحقیق۔آپ نے عصری مسائل پر تحقیقی اجتہادات کرکے اہل علم کوتحقیق کی طرف مائل کیا اور تحقیق کی نئی نئی جہات متعارف کرائیں۔“

علامہ غلام رسول سعیدی کا ادب الاختلاف

علامہ سعیدیؒ کا ادب الاختلاف آپ کی تصانیف میں بآسانی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔آپ ؒ نے متقدمین و معاصرین سے شرعی مسائل میں شائستگی کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔رواداری اور اخلاقِ عالیہ کا مظاہرہ کیا ہے۔آپ نے کسی طرح بھی اپنی تحقیق کو ناشائستگی کا شکار نہیں ہونے دیا۔مخالف آرا کو بھی احترام دیا ہے اور اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے۔علامہ سعیدی کےآداب الاختلاف بکثرت ہیں جنھیں ان کی شہرہ آفاق تصانیف ”تبیان القرآن،تبیان الفرقان،شرح صحیح مسلم ،نعمۃ الباری اورنعم الباری“ میں ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔مقالہ ہذاچونکہ طوالت کامتحمل نہیں ہے اس لیے ہم یہاں چند مباحث میں آپ کے ادب الاختلاف کوذیلی عنوانات کےتحت زیربحث لارہے ہیں ملاحظہ کیجیے:

نسخ کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف

علوم القرآن اور اصولِ تفسیر کے مباحث میں سے ایک اہم مبحث نسخ ہے۔علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن وسنت کی روشنی میں نسخ کی جامع تحقیق کی ہے اور اس سلسلے میں بھی اختلافِ رائے کے آداب کو ملحوظ رکھا ہے ملاحظہ کیجیے:

غلام احمد پرویزنے قرآن مجید میں نسخ کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے:”اس عقیدے (نسخ) کی رو سے اب دیکھیے کہ خدا،قرآن کریم اور رسول اللہ کے متعلق کس قسم کا تصور پیدا ہوتا ہے۔خدا کا تصور اس قسم کا ہے کہ وہ آج ایک حکم صادر کرتا ہے لیکن بعد کے حالات بتادیتے ہیں کہ وہ حکم ٹھیک نہیں تھا۔اس لیے وہ قرآن کریم کے اس حکم کو منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم دے دیتا ہے۔“([19])

علامہ سعیدی نے غلام احمد پرویزکی رائےسے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:”قائلینِ نسخ کے نزدیک نسخ کی یہ تعبیر ہرگز نہیں ہے جو پرویز صاحب نےبیان کی ہے۔بلکہ نسخ کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن حالات میں جوصحیح تھا۔اور جب حالات بدل گئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم بدل دیا اور بعد کے حالات میں وہی حکم صحیح اور برحق ہے۔“([20])

علما میں ناسخ ومنسوخ آیات کی تعداد میں اختلاف رائے ہے۔مثلاًعلامہ جلال الدین سیوطی کے نزدیک قرآن مجید کی بیس آیات کا حکم منسوخ ہے۔([21]) شاہ ولی اللہ دہلوی کے نزدیک یہ تعداد پانچ ہے۔([22])

علامہ سعیدی نے نسخ کی تعداد سے متعلق علما کی آرا سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:”ہمارے نزدیک قرآن مجید کی بارہ آیتوں کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔۔۔بعض علما نےبائیس آیات لکھی ہیں لیکن ہم نے باقی دس آیتوں میں غور کیا تو ان میں ایسا تعارض نہیں ہے کہ ان کو جمع کرنا اور ان میں تطبیق دینا ممکن نہ ہو۔“([23])

اولیاءاللہ سے استعانت کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف

علامہ سعیدی نے اولیا ء اللہ سے استعانت کی تحقیق میں علامہ مراغی سے اختلاف رائے کیا ہے۔علامہ مراغی نے اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر میں لکھا:”اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہ کریں اور کسی کام کو پورا کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی اور سے طلب نہ کریں۔سوا ان اسباب کے جن کا کسب کرنا اور انھیں حاصل کرنا عام اسباب میں مشروع ہے۔لہذا جو شخص اپنی حاجات پوری کرانے کے لیے،کسی بیمار کی شفا کے لیے،دشمن پرغلبہ کے لیے یا اولاد کی طلب کے لیے اولیاء اللہ کے مزارات پرجاکران سے مدد طلب کرتا ہےوہ سیدھی راہ سے گمراہ ہوگیا ۔اس نے اللہ کی شریعت سے اعراض کیا اور زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں جیسا کام کیا۔“([24])

علامہ غلام رسول سعیدی ،علامہ مراغی سے اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ہمارے نزدیک علامہ مراغی کا یہ فتویٰ علی الاطلاق صحیح نہیں ہے۔زمانۂ جاہلیت کے کفار بتوں کومستحقِ عبادت قرار دیتے تھے اوراسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرتے تھے۔لیکن جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتاہو، اور نہ اولیاء اللہ کومتصرف بالذات سمجھتا ہو،نہ ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو،بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاءاللہ، اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اِذن سے کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے۔تاہم ہمارےنزدیک شریعت کااصل تقاضایہی ہے کہ ان تمام امورمیں اللہ تعالیٰ سےاستعانت کرنی چاہیے۔“([25])

علوم اسلامیہ کی تعلیم پر اجرت کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف

علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے قرآن مجید کی تعلیم،علوم اسلامیہ کی تعلیم،اذان،امامت و خطابت،تعلیمِ حج اور دیگر عبادات پر اجرت یا معاوضہ لینے کو جائز قرار دیا ہے اور دلائل کی بنا پر علما سے اختلاف رائے کیا ہے۔آپ لکھتے ہیں:”اس آیتوَلَا تَشْتَرُوا بِآَيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ([26]) سے بعض علما نے یہ استدلال کیا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔لیکن واضح رہے کہ اس آیت میں اجرت لینے سے منع نہیں کیا بلکہ متاع کے بدلے میں اللہ کی آیات کو چھپانے سے منع کیا ہے۔“([27])علامہ سعیدی نے تعلیم قرآن و دیگر عبادات پر معاوضہ لینے اور اس کے جائز ہونے پر الجامع الصحیح بخاری کی اس روایت کو بہ طور دلیل پیش کیا ہے:

قال ابن عباس عن النبی ﷺ احق مااخذتم علیہ اجراکتاب اللہ ([28])

”حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سےمروی ہے نبی کریم ﷺ نےفرمایاجن چیزوں پرتم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب سب سےزیادہ اجر کی مستحق ہے۔“

بحالتِ روزہ انجکشن لگوانے کی تحقیق میں علامہ سعیدی کا ادب الاختلاف

علامہ غلام رسول سعیدی نے روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے پرتحقیق سب سے پہلے شرح صحیح مسلم میں کی۔اس کے بعد قرآن مجید کی تفسیر تبیان القرآن میں بھی اس مسئلہ پر مزید تحقیق کی ۔ شرح صحیح مسلم کی جلد سوم میں اس موضوع پر ایک ضمیمہ شائع کیا اور اس کا عنوان یہ دیا گیا ”روزے میں انجکشن لگوانے سےروزہ ٹوٹنے کے سلسلہ میں حرف آخر“ آپ نےاس عنوان کے تحت لکھا:”الفتاویٰ الاسلامیہ ، الفقہ الاسلامی و ادلتہ اور فتاوی نوریہ میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ روزےمیں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور دلیل یہ قائم کی ہے کہ ہمارے فقہاء کے نزدیک منافذ اصلیہ کے علاوہ کسی اور سوراخ سے معدے اور دماغ کے علاوہ جسم کے کسی حصے میں دوا یا غذا پہنچ جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ قدیم فقہاء کے زمانے میں گلوکوز کے خون میں شامل ہونےیاحیا تین اور معدنیات یا دوا کے خون میں شامل ہونے کا معروف اور عام طریقہ صرف معدے کاعملِ ہضم تھا اس لیے انھوں نے دوایاغذا کے لیے معدے میں پہنچنے کی قید لگائی۔اگران کےزمانے میں کیمیاوی طریقوں سے معدے کی وساطت کے بغیر براہ راست گلوکوز کے خون میں شامل ہونے یا حیاتین اور ادویات کےبراہ راست خون میں شامل ہونے کا معروف اور عام طریقہ ہوتا تو وہ اس سے روزہ ٹوٹنے کا حکم بطریق اولیٰ لگاتے۔۔۔اسی طرح معدے میں غذایادوا جانے کے بعد کھانے پینے کامقصدتب پوراہوتاہے جب گلوکوزاوردواخون میں شامل ہوجائے اور یہ مقصد انجکشن کے ذریعے بدرجہ اتم پورا ہوتا ہےاورجب مقصد دونوں میں مشترک ہے تو دونوں سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔البتہ روزےمیں انجکشن لگوانے سےصرف روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔“([29])

ضمیمہ کے آخر میں سعیدی نے لکھا:” اگر یہ حق اور صواب ہے تو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی جانب سے ہے۔ ورنہ میری فکرکی غلطی ہے۔اللہ تعالی اور اس کا رسول ﷺ اس سے بری ہیں۔“([30])

تبیان القرآن جلد اول میں اسی مسئلے پر تحقیق کرتے ہوئے علامہ سعیدی لکھتے ہیں:”تحقیق یہ ہے کہ انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔قدیم فقہا ءکے دور میں انسانی جسم کی اور اس کے تمام اعضا کی مکمل تحقیق نہیں ہوئی تھی اور ان کے نطریات محض مفروضات پرمبنی تھے۔انھوں نےانسان کے جسم کا مکمل مشاہدہ اور تجزیہ نہیں کیا تھا۔اور اب تحقیق و تجربہ سے ان کے کئی نظریات غلط ثابت ہوچکے ہیں مثلاً ان کا مفروضہ تھا کہ دماغ اور معدے کے درمیان ایک منفذ(راستہ)ہے۔اور دماغ سے معدےمیں یا معدے سے دماغ میں کوئی چیز چلی جاتی ہے حالانکہ دماغ اور معدے میں کوئی منفذ نہیں ہے۔نیز ان کا مفروضہ تھا کہ کان اور معدے میں منفذ ہے حالانکہ کان اور معدے میں کوئی منفذ نہیں ہے۔انھیں مفروضات کی بنا پر انھوں نے کہاکہ جوفِ معدہ یا جوفِ دماغ میں کوئی دوا یا غذا چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔لیکن یہ فقہا اس غلطی میں معذور تھے کیونکہ اس زمانے میں پوسٹ مارٹم کے ذریعے جسم کے تمام رگ وریشہ کا مطالعہ ومشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔۔۔بعض علما یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ پھر مچھریابھڑ کے ڈنک لگانے سے روزہ کیوں نہیں ٹوٹتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روزہ ٹوٹنے کا مدار اس پر ہے کہ انسان اپنے قصد اوراختیارسےکوئی دوا یاغذا جسم میں پہنچائے۔ اور مچھریا بھڑ کے کاٹنے میں اس کا قصد اور اختیارنہیں ہے۔ثانیاً ان کے ڈنک سے جو زہر جسم میں پہنچتا ہے وہ دوا یاغذ انہیں ہے نہ اس میں جسم کی منفعت ہے۔بلکہ اس سے جسم کوضرر لاحق ہوتا ہے۔“([31])

متذکرہ بالا مسائل میں علامہ سعیدی کا متقدمین و معاصرین علما سے ادب الاختلاف دلائل کی بنیاد پر نکھر کر سامنے آگیا ہے۔آپ نے دلائل کےساتھ شائستہ انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔متقدمین فقہاء کے مفروضات کو جدید میڈیکل سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں رد کیا ہے اور ان حضرات کی معذوری کو بھی اچھے اسلوب میں بیان کردیا ہے۔نیز معاصرین کے شبہات کا بھی دلائل کے ساتھ ازالہ کردیا ہےاور مستقبل کے محققین کے لیےاجتہادی امورمیں ادب الاختلاف کا مثالی نمونہ فراہم کردیا ہے۔

نتائج وسفارشات

اظہار رائے اجتماعی زندگی کا ایک اہم جزوہے ۔ اس کا استعمال مثبت انداز میں اور اصول و آداب کی رعایت کرتے ہوئے کیا جائے تو اس کے نتیجے میں انسانی تمدن ارتقا پذیر ہوتا ہے، بصورت دیگر اختلاف تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے جس سےبچنابہت ضروری ہے۔

اظہار رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے اور اسلام نے اختلاف رائے سے منع نہیں کیا۔لیکن اسلام نے اختلاف ِ رائے کے اصول و ضوابط اور آداب مقرر کیے ہیں جن پرعمل کرکےاس روایت کوشانداربنایاجاسکتاہے ۔

نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان اصول و آداب کا شعور بیدار کیا اوراس بارے میں ہدایات عطا فرمائیں۔ان کی رعایت کی اور انھیں عملی جامہ پہناتے ہوئے انسانیت کے لئے ایک عمدہ نمونہ پیش کیا ۔ جس سے رہنمائی حاصل کر کے اختلاف رائے کو ایک مفید عمل بنایا جا سکتا ہے ۔* قرآن و سنت نے اصولی مباحث کو قطعیت کے ساتھ طے کردیا ہے ۔جبکہ فروعی مباحث اور نئے پیش آمدہ مسائل کو انسانی فہم وشعور پر چھوڑدیا ہے اور اس معاملہ میں رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کومنبع و مدارقراردیا ہے۔

  • انبیائے کرام علیہم السلام کےسوا ہر انسان سے فروعی مباحث اور نئے پیش آمدہ مسائل کے حل میں فکری خطا کا شائبہ موجود رہتا ہے۔ اسی لیے انسانی فکرونظرمیں غلطی کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے فروعی اور پیش آمدہ مسائل میں رد و قبول کو دلائلِ شرعیہ کے ساتھ جاری رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی وفکری اختلاف ایسے مہذب،مؤدب اورشائستہ اندازسے ہو جو امت کے لیےرحمت کا باعث ہو اوراس اختلاف سے بچنا چاہیے جو امت کے درمیان تفریق کا باعث ہو۔
  • علامہ غلام رسول سعیدی اکیسویں صدی کے عظیم مجتہد ،مفسر،محدث اورفقیہ تھے۔ علامہ سعیدی نے اپنی اجتہادی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے علوم اسلامیہ کے اہم ترین شعبوں یعنی تفسیر قرآن، علم حدیث اورعلمِ فقہ میں بیش قیمت خدات انجام دیں ۔
  • آپ نے شرعی مسائل کے حل کے لیے اجتہادات کیے۔ آپ نے عصری مسائل پر تحقیق و اجتہادات کرکے اہل علم کوتحقیق کی طرف مائل کیا اور تحقیق کی نئی نئی جہات متعارف کرائیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ دورکے محققین اس سےاستفادہ کریں اورامت مسلمہ کےلیے آسانیاں پیداکریں۔
  • علامہ سعیدی نے متقدمین و معاصرین علما ءسے دلائل کی بنیاد پر ادب کےساتھ اختلاف کرکےنظیرقائم کی ہے۔
  • آپ نے دلائل کےساتھ شائستہ انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔متقدمین فقہاء کے مفروضات کو جدید میڈیکل سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں رد کیا ہے اور ان حضرات کی معذوری کو بھی اچھے اسلوب میں بیان کردیا ہے۔
  • آپ نےمعاصرین کے شبہات کا بھی دلائل کے ساتھ ازالہ کردیا ہےاور مستقبل کے محققین کے لیےاجتہادی امورمیں ادب الاختلاف کا مثالی نمونہ فراہم کردیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ دورکے علماء ومحققین اس روایت کوفروغ دےکرعلمی سرمایہ میں باوقاراضافہ کریں۔

 

 

حوالہ جات

  1. ۔النسا : ۸۳
  2. ۔بریلوی،مولانااحمدرضا خان،فتاویٰ رضویہ ،مکتبہ رضویہ، کراچی ،۲۰۰۶ء،ج۶،ص۲۸۳
  3. ۔نعیمی،مفتی نوراللہ،فتاویٰ نوریہ ،دارالعلوم حنفیہ فریدیہ،بصیرپور ،۲۰۰۳ء،ج۳،ص۴۶۹
  4. ۔ محمد شفیع،مفتی، وحدۃ امت، مکتبہ انجمن خدام القرآن،لاہور،۱۹۸۸ء ،ص ۹
  5. ۔ نعیمی،مفتی نوراللہ،فتاویٰ نوریہ ،محولہ بالا،ج۳،ص۴۷۰
  6. ۔سعیدی،علامہ غلام رسول،تبیان القرآن،ضیا القرآن پبلی کیشنز ،لاہور،۲۰۱۲ء،ج۲،ص۷۰۸
  7. ۔ النساء: ٥٩
  8. ۔دہلوی، شاہ ولی اللہ،ازالۃ الخفاء فی خلافۃ الخلفاء،سہیل اکیڈمی،لاہور،۱۹۸۹ء ،ج۲، ص١٤۰
  9. ۔ ابنِ ہشام،عبد الملک بن ہشام،السیرۃ النبویہ ، شیخ غلام علی اینڈسنز، لاہور ،١٩۶۶ء، ج١، ص،۶۷۴
  10. ۔ بخاری، محمد بن اسماعیل ،امام،الجامع الصحیح، قدیمی کتب خانہ،کراچی،۱۳۵۷ھ ،باب شفاعۃ النبی ﷺ
  11. ۔شفیع ، مفتی محمد ، وحدۃ امت، محولہ بالا، ص ۴۴۔۴۵
  12. ۔ایضاً،ص ١۰۔
  13. ۔ابو یوسف ،امام، کتاب الخراج ، دار المعرفہ، بیروت ، ۱۴۰۶ھ، ص٢٤
  14. ۔ایضاً ،ص٤٢
  15. ۔الطلاق: ٤
  16. ۔ابن ہمام، امام عبد الرزاق ، المصنف، المکتب الاسلامی،بیروت، ١٩۷۶ء، ج ۶،ص ٤۷٢
  17. ۔سعیدی،علامہ غلام رسول،شرح صحیح مسلم،فرید بک سٹال،لاہور،۲۰۰۶ء،ج۱،ص ۳۸
  18. ۔ ایضاً ، ص ۴۰ ملخصاً
  19. ۔ پرویز، غلام احمد،لغات القرآن،ادارہ طلوع اسلام،لاہور،۱۹۸۴ ء،ص ۱۶۰۸
  20. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول ،تبیان القرآن،محولہ بالا،ج ۱ ،ص ۷۲،۷۳
  21. ۔ سیوطی، علامہ جلال الدین،الاتقان،سہیل اکیڈمی،لاہور،۲۰۱۰ء،ج۲ ،ص۲۳
  22. ۔ولی اللہ، شاہ ،الفوزالکبیر،ایچ ایم سعیدکمپنی،کراچی،۱۹۶۰ ء،ص۹۶
  23. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول ،تبیان القرآن،محولہ بالا،ج ۱ ،ص ۸۰ ملخصاً۔علامہ سعیدی کےنزدیک ناسخ ومنسوخ آیات کی تفصیل تبیان القرآن ،ج ۱،ص ۷۸ تا ۸۰ پرملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
  24. ۔مراغی، احمدمصطفیٰ،تفسیرالمرغی،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۴۲۲ھ،ج ۱ ،ص۳۴
  25. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول تبیان القرآن،محولہ بالا،ج ۱،ص ۱۹۳۔۱۹۴
  26. ۔سورۃالبقرۃ : ۴۱
  27. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول تبیان القرآن، محولہ بالا ،ج ۱،ص۳۸۴
  28. ۔بخاری ، امام ،الجامع الصحیح ، کتاب الاجارہ،باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاءالعرب بفاتحہ الکتاب
  29. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول ،شرح صحیح مسلم ،محولہ بالا ،ج ۳ ،ص ۱۱۵۸
  30. ۔ایضاً،ص ۱۱۵۸
  31. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول ،تبیان القرآن، محولہ بالا ،ج ۱ ،ص ۷۰۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...