Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

ترجمۃ القرآن از عبد السلام بن محمد کے خصائص و ممیزات اور تفسیر القرآن کا تحقیقی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_654

Pages

40-61

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/128

Subjects

Translation tafsir ul Quran al Karim Abdul Salam bin Muhammad Sub-continent idiomatic.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

تعارف

برِصغیر میں ترجمہ قرآن کی جس روایت کا آغاز خانوادہ شاہ ولی اللٰہی نے کیا اس کے اثرات پاک وہند کے تمام مکاتبِ فکر پر مرتب ہوئے۔ قرآن مجید کے تراجم کی ضرورت و اہمیت کو محض مسلم علماء نے ہی محسوس نہ کیا بلکہ غیر مسلم محققین نے بھی اس فن میں خوب داد وصول کی۔ اسی طرح دنیا کی ہر مشہور زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا اور اس فن کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو چہار سو پہنچانے کی غرض سے روز بروز ترقی ملتی رہی۔تاہم یہ بات بہت حد تک اب عیاں ہوتی چلی جارہی ہے کہ اکثر تراجم ِ قرآنی جو ابتدائی حیثیت سے منصہ شہود پر آئے وہ ایک ’’ضرورت‘‘ کے تحت تھے کہ لوگوں کو قرآن کی تعلیمات ان کی ہی زبان میں بہم پہنچائی جاسکیں اور وہ خود اس کے اسرار و رموز پر مطلع ہوسکیں۔اس زاویہ نگاہ کی تائید بذاتِ خود ان تراجم کو دیکھنے سے ہوتی ہے ،نیز مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی اس رجحان کو مزید تقویت دیتا ہے۔ راقم الحروف اس سلسلہ میں متعدد تراجم اور ان کے اسبابِ ترجمہ کو دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچاہے کہ تراجم میں تنوع اکثر اوقات مسلکی،علاقائی، یا محض ترجمانی احوال کے پیشِ نظر ہوا ہے ۔اسی طرح بعض غیر مسلموں کے یہاں مذموم مقاصد پیشِ نظر تھے جس کے لیے انھوں نے اپنی مرضی سے قرآن کے تراجم کیے اور پھر اعتراضات و اشکالات وارد کیے۔ پیشِ نظر مضمون پاکستان کے ایک معروف عالمِ دین اور استاذِ القرآن والحدیث مولانا عبدالسلام بن محمد (بھٹوی) حفظہ اللہ کے ترجمہ قرآن کے خصائص و ممیزات کو بیا ن کرنے کے متعلق ہے۔

موصوف عرصہ ۴۵ سال سے قرآن و حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں اور فی الوقت مرکز طیبہ مریدکے میں پچھلے تیس سال سے صحیح البخاری کا درس دے رہے ہیں ۔([1])یہ ترجمہ و تفسیر ان کی اس پورے دورانیہ میں کی گئی محنتِ شاقہ کا نچوڑ اور حاصلِ مطالعہ ہے۔ اولاً انہوں نے ترجمہ ہی کیا تھا جو سن ۲۰۰۷ ء میں پہلی بار طبع ہواتھا بعد ازاں لوگوں کے اصرار پر تفسیر القرآن الکریم لکھی جو حد درجہ مقبول ہوئی۔ تفسیر دعوۃ القرآن از ابو نعمان سیف اللہ خالد میں بھی انہی کا ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔اس تحریر میں موصوف کے اسی ترجمہ کی خصوصیات و امتیازات اورتفسیر کا منہج واسلوب بھی پیش کیا جائے گا تاہم اصلاً ترجمہ قرآن کو موضوع بنا کر اس کی افادیت کو واضح کیا جائے اور اس کی ممیزات پیش کی جائیں گی، تبعاً ان کی تفسیر کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

مولانا عبدالسلام بن محمد کی تفسیر کے صفحہ کی ترتیب یہ ہے کہ اوپر قرآنِ مجید کا متن، اس کے نیچے ترجمہ اور پھر اس کے نیچے تفسیر ہے۔ چنانچہ ہماری اس تحقیق میں اول ترجمہ کو focus کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ تفسیر سے توضیحات ذکر کی جائیں گی۔ اس کے بعد ایک الگ مبحث(جو مستقل ایک مضمون کی شکل ہے) قائم کرتے ہوئے تفسیر القرآن الکریم کا عمومی منہج و اسلوب پیش کیاجائے گا۔

ترجمہ کی ضرورت اور اسباب

مترجم(مولانا عبدالسلام بن محمد ) نے ترجمہ کے شروع’عرضِ مترجم‘کے عنوان سے اپنے ترجمہ کی ضرورت واسباب اور خصوصیات پر روشنی ڈالی ہےاور پھر تفسیر کے شروع میں اسی عرضِ مترجم کو دوبارہ نقل کردیا ہے ۔ ترجمہ قرآن کی ضرورت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اکثر حضرات کے تراجم بامحاورہ اور چند ایک لفظی ہیں، مگر ان تمام تراجم کے باوجود کام کی گنجائش باقی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں آنے والا کوئی لفظ کوئی حرف بے مقصد نہیں ہوسکتا،مگر اکثر تراجم میں کئی الفاظ کو چھو ڑدیا گیا ہے،الفاظ کی کمی بیشی کو ترجمے کے وقت ملحوظ نہیں رکھا گیا،الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے معنیٰ میں جو تاکید یا حصر پیدا ہوتا ہے اس کا خیال نہیں کیا گیااور بعض تراجم میں ایک جگہ ان میں سے کسی چیز کا خیال رکھا گیا ہے تو دوسری جگہ اس کا خیال نہیں کیا گیا ۔اس کے علاوہ بعض تراجم میں قرآن کے الفاظ سے زائد الفاظ ترجمے میں داخل کردیے گئے ہیں،جنہیں تشریح کہا جاسکتا ہے، کلام اللہ کا ترجمہ نہیں۔‘‘([2])

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مترجم کے پیشِ نظر ایک وقیع اور جان دار سبب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے قرآن کا ایک اور ترجمہ لکھنا شروع کیا،بلکہ وہ خود دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس لیے ایسے ترجمے کی ضرورت باقی ہے جس میں قرآنِ مجید کے کسی لفظ کا ترجمہ نہ چھوڑا گیا ہو اور اس سے زائد ترجمہ داخل نہ کیا گیا ہو۔ میں نے اپنی طاقت کے مطابق یہ کام کیا ہے ،مگر مجھے اعتراف ہے کہ میں حق ادا نہیں کرسکا اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص یہ حق ادا نہیں کرسکتا،کیونکہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ سو فیصد ممکن نہیں۔‘‘([3])

الغرض ، مترجم نے جس قدر جانفشانی اور عرق ریزی سے یہ ترجمہ کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔برصغیر میں لکھے گئے قدیم و جدید تمام تراجم کے ساتھ اس کے تقابلی مطالعہ کی روشنی میں اس کی افادیت بہت زیادہ نظر آئی۔ راقم الحروف نے گیارہ بامحاورہ و لفظی تراجم کے ساتھ مقارنہ کیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاک و ہند میں لکھے گئے اکثر تراجم کی بہ نسبت یہ ترجمہ قرآن فائق اور زیادہ موزوں برائے مطالعہ و تدریس ہے اور مترجم یقیناً اپنے دعویٰ اور کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ذیل میں اس ترجمہ کی خصوصیات اور مترجم کی تفسیر القرآن الکریم کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔اس سلسلہ میں راقم نے اپنی معروضات کو ذیلی محاور و مباحث کے تحت پیش کیا ہے؛

۱۔مبحث اول؛ترجمہ قرآن کے صرفی لحاظ سے خصائص۔

۲۔مبحث دوم؛ترجمہ قرآن کے نحوی لحاظ سے خصائص۔

۳۔مبحث سوم؛ترجمہ قرآن کی لفظی معنویت اور اثرات۔

۴۔ مبحث چہارم:تفسیر القرآن الکریم کا منہج و اسلوب اور امتیازات۔(اس مضمون کا حصہ دوم ملاحظہ ہو)

۵۔خاتمہ البحث و نتائج

مبحث اول:ترجمہ قرآن کے صرفی لحاظ سے خصائص

۱۔ الفاظ کی بناوٹ میں حروفِ زوائد کی رعایت

عربی زبان میں ایک معنیٰ کی ادئیگی کے لیے چونکہ کئی الفاظ ہوتے ہیں اس لیے ان کی معنویت کا اثر عام طور پر مترجمین پیشِ نظر نہیں رکھتے۔ حالانکہ ذرا سا غوروفکر ان کے معنیٰ کی تعیین اور اس میں موجود تنوع کو واضح کردیتاہے۔ مثال کے طور پر اسم فاعل،صفتِ مشبہ ،صیغہ مبالغہ اور اسم تفضیل کے معانی اشتقاقی لحاظ سے تو یکساں ہوں گے تاہم ان میں یک گونہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ اسم فاعل محض کام کرنے والی ذات کو ظاہر کرتا ہے، صفتِ مشبہ اس فعل میں دوام کو ظاہر کرتا ہے، صیغہ مبالغہ فاعلیت اور فعلیت کے معنیٰ میں حددرجہ زیادتی کو ثابت کرتاہے جبکہ اسمِ تفضیل فاعلیت کے معنیٰ میں نسبتاً اور کسی کے مقابلہ میں اضافہ کو متضمن ہوتاہے۔ ([4])چنانچہ مترجم موصوف نے ان سب کی رعایت رکھی ہے۔ بلکہ ابواب میں حروف کے اضافے کو بھی انہوں نے ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔اگر کسی جگہ ثلاثی مزید فیہ کا صیغہ آیا ہے تو ترجمہ اسی کے مطابق کیا ہے۔ اسی طرح افعال میں معنوی تاکید پیدا کرنے کےلیے عربوں کے ہاں جو نون (ثقیلہ و خفیفہ ) استعمال کیے جاتے ہیں مترجم نے ان کی معنویت کو بھی خوب واضح کیاہے۔یہ اور اس قبیل کے دیگر امور کی تفصی درج ذیل ہیں:

الف:صیغہ مبالغہ کا ترجمہ

صیغہ مبالغہ میں ایک تو معروف ’فعّالٌ یا فَعُولٌ ‘ کا وزن ہے اور دوسرا علماء صرف صفتِ مشبہ کو بھی دوام کے معنیٰ کو متضمن ہونے کی وجہ سے مبالغہ فی المعنیٰ کی علامت تصور کرتے ہیں۔ ا س لیے فاعلٌ،فَعِیلٌ اور فعّالٌ میں معنوی فرق ہوتا ہے۔ اردو مترجمین نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا تاہم موصوف مترجم نے اس کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’بعض حضرات نے کچھ الفاظ کے ترجمے میں اس کا خیال رکھا ہے کچھ میں نہیں رکھا ،بعض نے ایک لفظ کے ترجمہ میں ایک جگہ یہ بات ملحوظ رکھی ہے اور دوسرے مقامات پر ملحوظ نہیں رکھی۔ میں نے ’رحمان، رحیم، علیم، حکیم، عزیز ، عفوٌ،غفور،توّاب‘ اور دوسرے تمام الفاظ میں،جہاں وہ آئے ہیں،اس بات کا خیال رکھا ہے‘‘ ([5])

مثال کے طور پر باب / لفظ ’غفَر یغفِر غُفراناً ‘کے ذیلی مشتقات میں اس کو ملاحظہ کیا جائے۔

اسم فاعل : آیتِ کریمہ ’ غَافِرِ الذَّنْبِ ‘ میں لفظِ غافر کا ترجمہ ’’گناہ بخشنے والا‘ کیا ہے ۔([6])

صفتِ مشبہ:آیتِ کریمہ’ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ‘ میں لفظِ غفور کا ترجمہ صفتِ مشبہ ہونے کی وجہ سے ’بے حد بخشنے والا‘ کیا گیا ہے۔([7])

مبالغہ :آیتِ کریمہ’ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ‘ میں لفظِ غفّار کا ترجمہ صیغہ مبالغہ ہونے کی وجہ سے’بہت بخشنے والا‘ کیا گیا ہے۔ ([8])

اس کی مزید تفصیل سورۃ الفاتحہ کی آیتِ ’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘ میں الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘ کے تحت ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں موصوف نے غزیرالفائدہ او راصولی بحث کی ہے۔([9])

ب۔ خاصیات ِ ابواب (ثلاثی مزید فیہ وغیرہ) کا لحاظ

اہلِ عرب کے ہاں الفاظ کی بناوٹ کا معانی پر خاص اثر مرتب ہوتاہے۔اسی لیے انہوں نے یہ اصول وضع کیا ہےکہ’’زيادة المباني دليل على زيادة المعاني ‘‘ کہ الفاظ کی زیادتی معنیٰ کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ ([10] )اگر کوئی لفظ باب ثلاثی مجرد (تین حرفی) میں سے ہے تو باب ثلاثی مزید فیہ (تین سے زائد حرفی) میں جانے کی صورت میں اس کا معنیٰ فعلیت میں زیادتی ہوجائے گی۔ چنانچہ مترجم موصوف نے اس اصول کا ہر اس لفظ پر پیشِ نظر رکھا ہے جہاں یہ قاعدہ منطبق ہوتاہے۔ اس کی امثلہ ان کی ترجمہ میں بیسیوں مقامات پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ذیل میں چند ایک بطورِ نمونہ پیش کی جارہی ہیں:

۱۔ لفظ ’ اسْ۔تَوْقَدَ‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسْ ـ تَوْقَدَ نَارًا ” اَوْ قَدَ نَارًا “ کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی۔ ” اسْ ـ تَوْقَدَ “ میں سین اور تاء زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے اس کا ترجمہ ” خوب بھڑکائی “ کیا ہے۔ ‘‘([11])

۲۔ لفظِ ’ مُّطَهَّرَةٌ ‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مُّطَهَّرَةٌ :باب تفعیل سے اسم مفعول ہے۔ ایک حرف کے اضافے کی وجہ سے ” نہایت پاک صاف “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی وہ ہر قسم کی ظاہری آلائشوں، مثلاً پیشاب، پاخانہ، تھوک، حیض وغیرہ سے اور باطنی آلائشوں مثلاً جھوٹ، حسد، کینہ وغیرہ سے پاک ہوں گی۔‘‘([12])

۳۔ لفظِ ’ يُّقَتَّلُوْا‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : باب تفعیل کی وجہ سے معنی میں زیادتی کے اظہار کے لیے ترجمہ میں ” بری طرح “ کا اضافہ کیا گیا ہے، اسی طرح ” اَوْ يُصَلَّبُوْٓا‘ اور ” اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ “ میں بھی باب کا خیال رکھا گیا ہے۔ ‘‘ ([13])

اسی طرح مترجم نے اکثر مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے دلیل کے طور پر ابواب کی خاصیات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر لفظِ يُخٰدِعُوْنَ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ يُخٰدِعُوْنَ باب مفاعلہ سے ہے جس میں مشارکت پائی جاتی ہے، اس لیے ترجمہ ” دھوکا بازی “ کیا گیا ہے۔ ‘‘([14])

بسااوقات فائدے کے طور پر ابواب سے متعلق کوئی نکتہ بھی لکھ دیتے ہیں۔ مثلاً الْمُمْتَرِيْنَ کے ذیل میں لکھتے ہیں؛

’’الْمُمْتَرِيْنَ یہ ” اِمْتِرَاءٌ“ یعنی باب افتعال سے اسم فاعل کی جمع ہے، مصدر ” مِرْیَةٌ“ (بمعنی شک) سے فعل مجرد نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ باب افتعال سے آتا ہے۔ ‘‘([15])

اسی طرح لفظ کے معنوی اثر کو بیان کرتے ہوئے اس کی تفسیر بھی لفظ کے مطابق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ِ يُّحَادِدِ کی توضیح یہ کرتے ہیں:

’’ اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّهُ مَنْ يُّحَادِدِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ :” يُّحَادِدِ “ یہ ” حَدٌّ“ سے مشتق ہے جس کا معنی ”جانب “ ہے۔ باب مفاعلہ عموماً مقابلے کے لیے آتا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول ایک جانب ہوں اور یہ اس کے مقابلے میں دوسری جانب ہوں۔ آگے سوال کے طور پر ان کا انجام ذکر فرمایا کہ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ؟ سوال کا مقصد پوچھنا نہیں بلکہ بتانا ہے کہ یہ بات اتنی واضح ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے مقابلے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔‘‘([16])

الغرض ، ترجمہ میں الفاظ کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے مترجم نے اس کو اپنی تفسیر میں جابجا واضح بھی کیا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر میں معنویت کا بھرپور اظہار بھی کیا ہے۔

ج۔ الفاظِ تاکید کا معنیٰ

جن الفاظ یا افعال کے صیغوں کے معنیٰ میں تاکید پیدا کرنا مقصود ہو عربی زبان میں اس کے کئی طریقے ہیں۔ ان سب میں کسی حرف کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ اٖضافہ مقصود بہا لفظ کے شروع میں ،بسااوقات درمیان میں (جیساکہ ابواب کی خاصیات بارے بیان ہوچکا ہے) یا پھر آخر میں کیا جاتاہے۔ شروع میں جن الفاظ کا اضافہ ہوتاہے ان میں خاص طور پر الفاظِ تاکید’ اِنّ،أَنّ،لامِ تاکید،حروفِ قسم‘ وغیرہ ہوتے ہیں اور آخر میں نون التوکید (ثقیلہ و خفیفہ) شامل ہیں۔ مترجم (عبدالسلام بن محمد)لکھتے ہیں:

’’میں نے تاکید کے عام مستعمل الفاظ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مثلاً ’لام تاکید،نون ثقیلہ و خفیفہ ، اِنَّ اور قد ‘ کے لیے ’ضرور،بے شک،یقیناً،بلاشبہ، کوئی شک نہیں،ہر صورت،حقیقت یہ ہے ،واقعہ یہ ہے، لازماً،فی الواقع، واقعی‘ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں اور بعض اوقات لفظِ ’تو‘ کا استعمال کیا ہے،مثلاً یوسف ؑ کے قول ’’ اِنَّا اذاً لَظٰلِمُونَ‘‘ کا ترجمہ ’’ یقیناً ہم تو اس وقت ظالم ہوں گے‘‘(کیا ہے)۔ ‘‘([17])

مترجم نے نونِ تاکید کی دونوں اقسام ، لامِ تاکید اور اسی طرح أداۃِ تاکید( اِنَّ و اَنّ ) کا ہر جگہ خیال رکھا ہے۔ ان کی امثلہ ذیل میں ملاحظہ کی جائیں؛

نونِ تاکید ثقیلہ:آیتِ کریمہ’ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ‘ کا ترجمہ ’میں ضرور ہی تمہارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا‘ کیا ہے۔([18])

نونِ تاکید خفیفہ:آیتِ کریمہ’ لَنَسْفَعًا (اصل میں لَنَسْفَعَن ہے) کا ترجمہ ’’ہم ضرور اسے پیشانی کے بالوں کے ساتھ گھسیٹیں گے‘ کیا ہے۔([19])

لام تاکید :سورہ یٰس کی آیاتِ کریمہ ’ إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ‘ اور ’ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ‘ کے تراجم میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اول الذکر کا ترجمہ’ بے شک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں‘ کیا ہے اور ثانی الذکر کا ترجمہ’ ہم تمہاری طرف ضرور بھیجے ہوئے ہیں‘ کیا ہے۔([20])اس کی توجیہ کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ سورہ یٰس میں إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ اور إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ کا ایک ہی ترجمہ کیا گیا ہے،ظاہر ہے کہ اس سے دوسری آیت میں ’لام‘ محض بے فائدہ ٹھہرتا ہے،جبکہ ایسا خیال کرنا بھی درست نہیں۔ ‘‘([21])

اگر حروفِ تاکید میں کسی قاعدہ و قانون کی رو سے تخفیف ہوتو اس کو بھی بیان کردیتےہیں اور ترجمہ میں اس کی اصل کی رعایت کرتے ہوئے تاکیدی معنیٰ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرآیتِ کریمہ’وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِه‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ یہ اِنْ “ دراصل ” اِنَّکَ “ تھا، تخفیف کے لیے کاف کو حذف کردیا اور ” اِنَّ “ کو ” اِ نْ “ کردیا۔ اس کی دلیل ” لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ “ پر آنے والا لام ہے اور یہ عربی کا مسلمہ قاعدہ ہے، اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” اِنْ “ اور لام کے ساتھ تاکید اس لیے کی ہے کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ آپ یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے تھے، جیسا کہ ہمارے کئی نادان بھائی کہتے ہیں، بلکہ دوسری جگہ فرمایا : (تِلْكَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هذَا) [ ھود : ٤٩ ]” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ ‘‘([22])

د۔الفاظ کی ساخت میں حروفِ زائدہ و محذوفہ کی وضاحت

دوارنِ ترجمہ مترجم (مولانا عبدالسلام بن محمد) نے قرآن مجید میں مذکور الفاظ کی ساخت کو بہت زیادہ مدِنظر رکھا ہے۔ اگر کوئی لفظ اپنی اصل سے زائد حروف پر مشتمل ہے تو ا س کے معنیٰ میں اس کو شامل کردیتے ہیں۔ اور اگر کوئی حرف حذف ہوگیا ہے تو اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کو واضح کردیتے ہیں۔ان کی امثلہ درج ذیل ہیں:

۱۔ لفظ کی زیادتی: آیتِ کریمہ ’ اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ‘ میں لفظِ ’’ مَلَكُوْتِ ‘‘ کا ترجمہ ’عظیم الشان سلطنت‘ کیا ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ : ” مَلَكُوْتِ “ یہ ” مُلْکٌ“ کے لفظ میں واؤ اور تاء کا اضافہ معنی میں وسعت کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” عظیم الشان سلطنت “ کیا گیا ہے۔‘‘([23])

اس کی دوسری مثال: آیتِ کریمہ ’ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا‘ میں لفظ ’ اَثَامًا‘ہے۔ جس کا ترجمہ ’سخت گناہ ‘ کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ إِثْمٌ “ میں الف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، ” سخت گناہ۔ “ اس کا معنی گناہ کی جزا بھی آتا ہے، یعنی سخت گناہ کی سزا پائے گا۔ ‘‘([24])

۲۔ لفظ کا حذف:آیتِ کریمہ’ وَاِلَيْهِ مَاٰبِ‘ کا ترجمہ ’ اور اس کی طرف ہی میرا لوٹنا ہے‘ کیا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ وَاِلَيْهِ مَاٰبِ : ” مَاٰبِ “ یہ ” اٰبَ یَؤُوْبُ “ (ن، اجوف واوی) سے مصدر میمی ہے، اصل ” مَاٰبِیْ “ تھا، یعنی میرا لوٹنا، ” یاء “ حذف کر کے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا ہے۔ ‘‘([25])

نیز ترجمہ میں حصر یعنی لفظِ ’ہی‘ کا اضافہ اس لیے کیا کہ خبر مقدم اور مبتدا مؤخر ہے۔اسی طرح زوائد کی مزیدتفصیل لفظِ ’طاغوت ‘اور حذف کی الفاظِ’ وعیدی، عقابی‘ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

ھ۔مصدری معنیٰ کی وضاحت

قرآنِ مجید میں مذکور مصادر کی معانی میں عام طور پر مختلف تراجم میں معنوی اختلاف سامنے آتا ہے۔ ایک ہی لفظ کو بعض مترجم مصدر،بعض اسمِ ظرف سمجھ لیتے ہیں ۔اسی طرح بسا اوقات مصدر اسم فاعل کے معنیٰ کو متضمن ہوتا ہے ،یا پھر صفتِ مشبہ یا مبالغہ کے طور پر۔ ان وجوہات کی بناء پر معنیٰ میں سقم آجاتا ہے۔ موصوف نے اس قبیل کے الفاظ ومصادر کی توجیہات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا درست محل و معنیٰ بھی کیا ہے۔ اس کی امثلہ درج ذیل ہیں؛

۱۔ سورہ الفاتحہ میں آیتِ کریمہ’’ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ کے لفظِ ربّ کے ترجمہ میں بہت زیادہ اختلاف اور توجیہات ہیں۔ اس میں انہوں نے ترجمہ ایسی توجیہ کی ہے کہ اختلاف رہتا ہی نہیں اور تمام اقوال میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا ترجمہ مبالغہ کے معنیٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے’ پیدائش سے کمال تک پہنچانے والا‘ کیا ہے۔ جبکہ تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: رَبِّ کا معنی ہے سردار جس کی اطاعت ہوتی ہو اور مالک اور پرورش کرنے والا۔ یہ ” رَبَّ یَرُبُّ (ن) پرورش کرنا( میں سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے، یا مصدر ہے جو مبالغہ کے لیے اسم فاعل کی جگہ استعمال ہوا ہے، جیسے ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ ” زَیْدٌ عَادِلٌ“ کی جگہ استعمال ہوتا ہے، یعنی زید اتنا عادل ہے کہ اس کا وجود ہی عدل ہے۔) اللہ تعالیٰ میں یہ تینوں صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں، اس سے بڑا سید کوئی نہیں، وہی سب کا مالک ہے اور ہر ایک کو پیدائش سے کمال تک پہنچانے والا اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے والا بھی وہی ہے، گویا وہ ذات پاک سراپا پرورش ہے۔ ‘‘([26])

۲۔آیتِ کریمہ ’ یَسئَلُونَکَ عَن الْمَحِيْضِ‘‘ میں لفظِ المحیض کی بابت لکھتے ہیں:

’’حَاضَ یَحِیْضُ (ض) سے اسم مصدر ہے، اس کا اصل معنی ” بہنا “ ہے۔ مراد عورت کا وہ خون ہے جو ہر ماہ عادت کے مطابق آتا ہے۔ عادت کے خلاف جو خون آئے وہ استحاضہ (بیماری) ہے۔‘‘([27])

۳۔ آیتِ کریمہ’ قال معاذ الله‘ میں لفظ معاذ کو مصدرِ میمی قرار دیتےہوئے اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مَعَاذَ‘‘مصدر میمی ہے، معنی ہے:” أَعُوْذُ باللّٰهِ مَعَاذًا مِمَّا تُرِیْدِیْنَ “یعنی تم جو چاہتی ہو میں اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر اس سے بچا لے۔ ([28])

و۔صیغوں کے ابواب اور ان اثرات کی تفصیل

دورانِ ترجمہ مولانا موصوف مختلف الفاظ اور صیغوں کے ابواب اور ان کی بناوٹ میں جو اصول کارفرما ہوتے ہیں ان کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ترجمہ کرتے ہیں اور تفسیرِ قرآن میں ان کے اثرات کو بھی واضح کرتے ہیں بلکہ ان کی توجیہات کا بھی ذکر فرمادیتے ہیں۔اس کی امثلہ درج ذیل ہیں:

۱۔ آیتِ کریمہ ’ فَاِذَا تَطَهّرنَ ‘میں تطھرن کا ترجمہ ’ خوب پاک ہوجائیں ‘ کیا اور ’ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ ‘ کے بارے لکھتے ہیں:

’’حَتّٰى يَـطْهُرْنَ : یہ باب ” نَصَرَ “ اور ” کَرُمَ “ سے ہے، بمعنی پاک ہوجائیں ” تَطَهّرنَ “ باب تفعل ہے، جس میں مبالغہ ہے، یعنی ” خوب پاک ہوجائیں “ غسل کرلیں۔ ” حَتّٰى يَـطْهُرْنَ “ سے معلوم ہوا کہ حیض سے پاک ہونے تک جماع منع ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے جماع کی اجازت ” تَطَهَّرْنَ “ (یعنی غسل کرنے) کے بعد دی ہے۔‘‘ ([29])

۲۔ اسی طرح آیتِ کریمہ’ لَا تُضَارَّ‘ کا ترجمہ’ نہ تکلیف دی جائے‘ کیا ہے تاہم تفسیر دو طرح کی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

لَا تُضَارَّ : یہ ” ضَرَرَ “ سے باب مفاعلہ کا واحد مؤنث نہی حاضر مجہول کا صیغہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ نہی حاضر معلوم بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” ماں کو تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ مثلاً اپنے بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر باپ زبردستی چھین لے، یا یہ کہ اسے دودھ پلانے پر مجبور کرے اور خرچہ نہ دے اور باپ کو تکلیف دینا یہ ہے کہ ماں بچے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دے، یا دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا بھاری اخراجات کا مطالبہ کرے جو باپ کی وسعت سے باہر ہوں۔ “ آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے : ” نہ ماں بچے کی وجہ سے ضرر پہنچا کر باپ کو تکلیف دے اور نہ باپ بچے کی وجہ سے ماں کو ضرر پہنچائے۔ “ پہلی صورت میں ” لَا تُضَارَّ “ صیغہ فعل مجہول کا ہوگا۔ دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے صیغہ معروف، نتیجہ ایک ہی ہے۔‘‘([30])

۳۔ آیتِ کریمہ ’وَجَاءَ الْمُعَذِّرُوْنَ‘ میں الْمُعَذِّرُوْنَ کا ترجمہ’ جھوٹے بہانے بنانے والے‘ کیا ہے۔ جبکہ اکثر مترجمین نے محض ’بہانے بنانے والے‘ کیا ہے۔ اس کی وجہ بایں الفاظ لکھتے ہیں:

’’بعض مفسرین نے ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ سے مراد جھوٹے بہانے اور باطل عذر پیش کرنے والے لیے ہیں۔ زمخشری (رض) نے اس رائے کی تائید کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ باب تفعیل سے ہو تو ” عَذَّرَ فِی الْأَمْرِ “ کا معنی ہی یہ ہے کہ اس نے کام میں سستی کی، اس کی کوشش ہی نہیں کی اور ظاہر یہ کیا کہ اس کا عذر تھا، حالانکہ اس کا عذر کوئی نہ تھا اور اگر ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ باب افتعال سے ہو اور اس کا اصل ”مُعْتَذِرُوْنَ “ ہو پھر بھی جھوٹے بہانے ہی مراد ہیں، جیسا کہ آگے صاف آ رہا ہے : (يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ ) [ التوبۃ : ٩٤ ] ” تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے۔ “([31])

موصوف کے اختیار کردہ ترجمہ کی روشنی میں مندرجہ بالا دو تفسیریں سامنے آتی ہیں جیساکہ انہوں نے ذکر کیا ہے۔ ان میں سے پہلی تفسیر کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ہر عذر والا جھوٹا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود اگلی آیت میں کئی عذر والوں کو گناہ سے بری قرار دیا ہے اور اس آیت میں بھی دونوں قسموں میں سے’’ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ ہی کو عذاب کی وعید سنائی ہے، اگرچہ ترجمے کا رجحان دوسری تفسیر کی طرف ہے، یہ حافظ امام ابن کثیر (رض) کا موقف ہے جس میں وزن معلوم ہوتا ہے۔ ( ایضاً)

الفاظ کے صلات کابیان

یہ عربی زبان کا مسلّم اصول اور قاعدہ ہے کہ افعال کا اگر صلہ (وہ حرف جس کے ساتھ فعل کے متعلقات جڑے ہوں اور وہ فعل ان متعلقات کے مطابق معنی دے ،اگر وہ) بدل دیا جائے تو معنی میں تبدیلی لازم آتی ہے۔ دورانِ ترجمہ موصوف نے اس امر کا بھرپور خیال رکھا ہے اور ترجمہ کرتے ہوئے صلہ کی تبدیلی کا اثر خوب ظاہر کیا ہے۔ اس کی امثلہ درج ذیل ہیں:

۱۔ آیتِ کریمہ ’ومن یرغب عن ملة ابراهيم ‘‘ میں لفظِ یرغب کا ترجمہ ’ اور جو ابراہیم کے دین سے بے رغبتی کرے ‘ کیا ہے۔ اس کی تعجیہ یوں بیان کرتے ہیں:

” رَغِبَ یَرْغَبُ “ کے بعد اگر ” فی “ آئے تو اس کا معنی کسی چیز میں رغبت رکھنا اور اگر ”عن “ آئے تو اس کا معنی بےرغبتی ہوتا ہے۔‘‘([32])

۲۔ ’اسْتَوٰٓى ‘ کا ترجمہ الیٰ کے صلہ کی وجہ سے ّپھر آسمان کی طرف متوجہ ہو‘ کیا ہے۔ معنی کے اس تفاوت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ابن کثیرنے فرمایا : یہاں ”اسْتَوٰٓى“ کے ضمن میں ارادہ کرنے اور متوجہ ہونے کا معنی رکھا گیا ہے، کیونکہ اسے ” اِلَى“ کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے۔‘‘([33])

۳۔ آیتِ کریمہ ’ وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرىهَا وَمُرْسٰىهَا‘ میں لفظِ ’ارکبوا‘ کا معنی ’ اس میں سوار ہوجاؤ‘ کیا ہے۔ اس کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں:

’’ارْكَبُوْا فِيْهَا‘‘ عام طور پر سوار ہونے کے لیے ” رَکِبَ عَلَیْہِ “ آتا ہے، یہاں ” اِرْکَبُوْا عَلَیْھَا “ کی جگہ ” ارْكَبُوْا فِيْهَا “ اس لیے فرمایا کہ کشتی میں کمرے کی طرح داخل ہو کر بیٹھا جاتا ہے، جب کہ گھوڑے وغیرہ کے اوپر سوار ہوتے ہیں۔ ‘‘([34])

۲۔مبحث دوم:ترجمہ قرآن کے نحوی لحاظ سے خصائص

الف۔ حروف ِ عاملہ زائدہ کا ترجمہ اور اس کی توجیہات

عربی زبان میں کئی حروفِ عاملہ ایسے ہیں جن کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہےکہ وہ زائد ہیں اور ان کا کلام میں کوئی اثر نہیں۔ حالانکہ جمہور مفسرین کے یہاں یہ نظریہ غلط ہے۔ برصغیر میں اکثر تراجم ِ قرآنی کا مطالعہ کیا جائے تو ان حروفِ زائدہ خاص طور پر مِن اور باء حروفِ جارہ کا سرے سے کوئی معنیٰ ہی نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ حروف عاملہ (مابعد کو زیر دیتے)ہیں۔ چنانچہ فاضل مترجم نے اس امر کا حددرجہ خیال رکھا ہے کہ کوئی حرف زائد قرار پائے اور اس کا ترجمہ نا ہوسکے بلکہ انہوں نے ہر حرف کا مقصد اور تفسیری اثر واضح کیا ہے۔ مثال کے طور پر حرفِ جرّ ’مِن‘ کے بارے لکھتے ہیں:

’’ لفظِ مِن بھی کئی معانی میں مستعمل کے لیے ہوتا ہے مثلاً بیان کے لیے، بعض کا معنیٰ دینے کے لیے، تاکید کے معنیٰ کے لیے، تعلیل وغیرہ کے لیے‘‘ ([35])

یہ اور اس قبیل کے دیگر الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے موصوف نے بہت محنت سے کام کیا ہے۔ ان کی امثلہ درج ذیل ہیں:

۱۔ مِن حرفِ جر

الف۔آیتِ کریمہ’ وابتغوا من فضل الله ‘ کا ترجمہ ’ اور اللہ کے فضل سے (حصہ) تلاش کرو‘ کیا ہے۔([36])

ب۔آیتِ کریمہ’ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ‘ میں لفظ غمٍ کا ترجمہ ’ سخت گھٹن ‘ کیا ہے۔([37])

۲۔ باء حرفِ جر

الف۔ آیتِ کریمہ ’’وَمَا هُم بِخٰرِجِيْنَ مِن النَارِ ‘‘میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’ وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں ‘ کیا ہے۔([38])

ب۔ آیتِ کریمہ’ وما أنت بمُسمعٍ مَن فی القبور‘ میں بمُسمِعٍ کے لحاظ سے ترجمہ ’اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے‘ کیاہے۔ ([39])

اسی طرح اگر مذکورہ بالا کے سوا کوئی اور حروفِ عاملہ کلام میں موجود ہوں لیکن اشتباہ لاحق ہورہا ہو تو ترجمہ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اشتباہ ختم ہوجاتا ہے اور اسی پھر تفسیر میں خود ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا ‘ میں ’الَّا تتخذوا ‘ کا ترجمہ ’ اور یہ کہ نا تم بناؤ‘ کیا ہے جس میں لفظِ ’یہ کہ‘ ان کا ترجمہ ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا :” اَلَّا تَتَّخِذُوْا “ اصل میں ” أَنْ لَا تَتَّخِذُوْا “ ہے۔ یہاں ” أَنْ “ کو مصدریہ مان کر اس سے پہلے لام محذوف مانیں گے، یعنی ” لئَلَّا تَتَّخِذُوْا “ (تاکہ تم۔۔ ) یا ” أَنْ “ بمعنی ” أَیْ “ (تفسیر یہ) ہے۔‘‘([40])

۳۔ أَن زائدہ کا ترجمہ

اَن زائدہ کا ترجمہ کسی مترجم نے نہیں کیا بلکہ اس کو مہمل سمجھ کا صرفِ نظر کیا ہے۔ راقم نے گیارہ تراجم کو دیکھا ہے کسی میں بھی اس کا ترجمہ ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ دراصل ان زائدہ کا ترجمہ کرنے کی بابت اصول یہ ہے کہ اگر ایک ہی جملہ دوبار آئے اور ان میں سے دوسرے میں اس کو ذکر کیا گیا ہوتو مقصود معنیٰ کی تاکید اور تیقّن ہوتی ہے۔ موصوف کے ترجمہ میں اس کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہے:

۱۔سورہ ھود کی آیتِ کریمہ’ ولمّا جَاءَت رُسُلنا لوطاً‘ کا ترجمہ ’اور جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے ‘ کیا ہے( [41]) اور ’ ولمّا أَن جَاءَت رُسُلنا لوطاً ‘ کا ترجمہ ’اور جیسے ہی ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے‘ کیا ہے۔ ([42])

۲۔اسی طرح سورہ یوسف کی آیتِ کریمہ’ فلما ان جاء البشیر‘ کا ترجمہ بھی مترجم نے اسی تیقّن کے معنیٰ کو شامل کرتے ہوئے ’ پھر جیسے ہی خوشخبری دینے والا آیا‘کیا ہے۔([43])

۴۔ اِذَامَا کا ترجمہ

عربی میں اذا (جب، جس وقت)ظرفیت کا معنیٰ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں زمان کا معنیٰ ہوتا ہے جو فعل کو کسی وقت کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ لیکن بسا اوقات اس کے ساتھ لفظِ ’ما ‘ کا اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اکثر مفسرین ومترجمین نے اس کو زائد قرار دے کر کوئی معنیٰ نہیں کیا۔ تاہم مفسرین میں سے امام زمخشری اور انہی سے استفادہ کرتے ہوئے مترجم (عبدالسلام بن محمد) نے اس کا ترجمہ تاکید کے طورپر کیاہے۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’ أَثمّ اذَا مَا وَقَعَ آمَنتُم بِهِ ‘ کا ترجمہ تاکیدی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے’ کیا پھر جونہی وہ (عذاب ) آپڑے گا تو اس پر ایمان لے آؤ گے؟‘ کیا ہے۔ ([44])

ب۔صیغہ جمع وتثنیہ کی وضاحت

معنیٰ کی درست تعیین میں الفاظ کی وضع کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ جو لفظ واحد ہے اس میں اکائی، تثنیہ میں دو ،اور جمع میں دو سے زائد کا معنیٰ عربوں کے یہاں لفظ کی وضع میں ملحوظ ہوتا ہے۔ بسااوقات لفظ ظاہری طور پر لفظ واحد معلوم ہورہا ہوتا ہے لیکن اس کا معنیٰ جمع کا ہوتا ہے۔ ا س قبیل کے الفاظ کو اسم جمع کہتے ہیں۔ تاہم جمعِ حقیقی یا تثنیہ ہو تواور ان کی توضیح بھی ہوجائے تو ترجمہ میں درستی ہوجاتی ہے۔

مثال کے طور پر سورہ یوسف میں ’ يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ‘ کا ترجمہ اکثر مفسرین و مترجمین نے ’ اے میرےجیل کے ساتھیو‘ کیا ہے جو غلط ہے۔جبکہ ہمارے پیشِ نظر مترجم نے اس کا ترجمہ’ اے قید خانے کے دو ساتھیو !‘ کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

’’يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ :” صَاحِبَیِ“ اصل میں ” صَاحِبَیْنِ “ تھا جو ” صَاحِبٌ“ (ساتھی) کی تثنیہ ہے۔ ” السِّجْنِ “ کی طرف مضاف کیا تو نون تثنیہ گرگیا اور یاء کو کسرہ دے کر آگے ملا دیا گیا، یہ یاء متکلم کی نہیں، اس لیے معنی ہے ” اے قید خانے کے دو ساتھیو ! ‘‘ ([45])

اسی طرح لفظِ ’غُزًّى‘ کا ترجمہ واحد ’لڑائی کرنے والا‘ کیا جاتا ہے جبکہ یہ لفظ جمع کا ہے۔ اس کی توضیح و ترجمہ مترجم( مولاناموصوف) نے یوں کیاہے:

’’یہ ” غَازٍ “ کی جمع ہے، جو ” غَزَا یَغْزُ “ سے اسم فاعل ہے، بمعنی لڑنے والے، جیسے ” رَاکِعٌ“ کی جمع ”رُکَّعٌ“ آتی ہے۔( [46])

تثنیہ کی ایک اور مثال جس میں اکثر اوقات تفسیری اختلاف بھی دیکھنے کو ملتا ہے ،لفظِ ’ وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘ ہے۔ اس کا ترجمہ و تفسیر کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:

’’(اس )سے مراد زنا کرنے والے مرد عورت ہیں۔ علاوہ ازیں ” يَاْتِيٰنِهَا “ میں ” ہا “ کی ضمیر پچھلی آیت میں مذکور الفاحشہ کی طرف جا رہی ہے جس سے اس مقام پر مراد زنا ہے۔ اس فاحشہ سے مراد قوم لوط کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ رہا ” اللذان “ تثنیہ مذکر کا لفظ تو دو افراد اگر مذکر و مؤنث ہوں تو ان کے لیے تثنیہ مذکر کی ضمیر عام استعمال ہوتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ‘‘([47])

ج۔حصری و تاکیدی الفاظ و حروفِ غیر زائدہ کا ترجمہ

اس نوع میں وہ الفاظ شامل ہیں جو اصلاً تاکید کے لیے یا کسی دوسری خاص غرض کے لیے لائے جاتے ہیں تاہم اکثر مترجمین نے ان سے اغماض برتا ہو۔

اولاً مفعول مطلق:جیساکہ قاعدہ معلوم ہے کہ اگر مذکورہ (سابقہ) فعل سے مصدر ذکر کیا جائے تو وہ مفعول مطلق ہوتا ہے اور تاکید کے معنیٰ کو متضمن ہوتا ہے۔اکثر مترجمین اس کا لفظی ترجمہ تو کردیتے ہیں تاہم اس میں تاکیدی معنیٰ کو ملحوظ ہی نہیں رکھتے یا بامحاورہ ترجمہ مشکل ہونے کی وجہ سے ترک کردیتے ہیں جس سے کلام کا حسن خراب ہوجاتا ہے اور مقصد فوت ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’وکلّ شیئ فصّلناه تفصیلاً ‘ کا ترجمہ اکثر نے ’ اور ہم نے ہرچیز کو کھول کر بیان کیا ہے، بیان کرنا‘ کیا ہے۔ حالانکہ یہ ترجمہ بالکل غلط اور ناموزوں ہے۔ موصوف نے اس کا ترجمہ’ اور ہرچیز، ہم نے اسے کھول کر بیان کردیاہے، خوب کھول کر بیان کرنا‘ کیا ہے جو ہر اعتبار سے بہترین اور کلام کے عین مطابق ہے۔([48])

ثانیاًالف لام :جو تعریف ،تخصیص ، استغراق،بیانِ جنس اور عہد کے معنیٰ کو متضمن ہوتا ہے اس کے مطابق ترجمہ کرنا، برصغیر کے عمومی تراجمِ قرآنیہ میں اس رجحان کا فقدان ہے، ماسوائے ان جگہوں کے جو معروف ہیں، لیکن وہاں بھی بین القوسین تشریحی انداز میں الفاظ لکھ دی جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ ’فَعَصیٰ فِرعَون ُالرَّسُول‘ کا ترجمہ ’ پس فرعون نے رسول (موسیٰؑ) کی نافرمانی کی‘ کیا گیا ہے۔ تاہم موصوف نے اس کا ترجمہ’ سو فرعون نے اُس پیغام پہنچانے والے کی نافرمانی کی ‘ کیا ہے۔([49])

اس کی دوسری مثال جس میں الف لام استغراق کی معنیٰ دیتاہے،آیتِ کریمہ’ الحمد لله رب العٰلمین‘ ہے جس میں الحمد کا ترجمہ موصوف نے ’ سب تعریف ‘ کیا ہے۔ ([50])

تیسری مثال جس میں الف لام عہد ذہنی(یعنی ذہن میں ایک فرد یا شخص غیر متعین ہو) کا داخل تھا اور اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے ملحوظ رکھا گیا ہے، آیتِ کریمہ’ وأخاف أن یأکله الذئب‘ ہے جس کا ترجمہ تقریباً سبھی مترجمین نے’ بھیڑیا‘ کیا ہے جبکہ عبدالسلام بن محمدنے اس کا ترجمہ ’کوئی بھیڑیا‘ کیا ہے۔([51])جب کہ عہدِ خارجی( خارج یعنی ذہن میں ایک فرد یا شئے متعین ہو) کی مثال آیتِ کریمہ’ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ‘ میں لفظِ العباد کا ترجمہ ’ ان بندوں ‘ کیا ہے ۔([52])دوسری مثال آیتِ کریمہ’ وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الأِرضِ‘ میں لفظ الارض ہے جس کا ترجمہ فاضل مترجم نے ’ اُس زمین‘ کیا ہے اور تفسیر میں وضاحت کی:

’’اَلْاَرْضَ “ میں الف لام عہد کا ہے، مراد ارض مکہ ہے‘‘([53])

ثالثاً حصرکا مفہوم :عام طور پر الفاظ کی تقدیم و تاخیر یا زیادتی سے حاصل ہوتاہے۔مثال کے طور پر خبر اپنے مبتدا سے مقدم ہو،یا خبر پر الف لام داخل ہو جو حصر کا تقاضا کرے ۔ اِس ترجمہ میں انہوں نے یہ سب امور پیشِ نظر رکھے ہیں۔ امثلہ درج ذیل ہیں:

اول الذکر کی مثال: آیتِ کریمہ’ وَاِلَيْهِ مَاٰبِ‘ کا ترجمہ ’ اور اس کی طرف ہی میرا لوٹنا ہے‘ کیا ہے جس میں حصر یعنی لفظِ ’ہی‘ کا اضافہ اس لیے کیا کہ خبر مقدم اور مبتدا مؤخر ہے۔([54])

ثانی الذکر کی مثال: آیتِ کریمہ’وهو العزيز الغفور‘ کا ترجمہ ’ اوروہی سب پر غالب ،بے حد بخشنے والا ہے‘ کیا ہے اس لیے کہ مبتدا کی دونوں خبروں پر الف لام ہے۔ ([55])

رابعاً تخصیص کا معنی :بھی الفاظ کی تقدیم و تاخیر یا اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ مفعول بہ کا مقدم آنا بھی ہے۔ مفعول کے مقدم آنے سے معنی میں حصر پیدا ہوتا ہے اس کی مثال آیتِ کریمہ’ ایّاک نعبد وایّاک نستعین‘ ہے۔اس کا ترجمہ فاضل مترجم نے ’ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں‘ کیاہے۔ چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس میں بھی ” اِيَّاكَ “ پہلےآنےکی وجہ سےحصرہے،یعنی ہم تجھ سےمددمانگتےہیں،کسی دوسرےسےنہیں۔یہاں سے بندے کی درخواست شروع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قبول ہوچکی۔‘‘ ([56])

د۔کان و ماکان کا ترجمہ

تقریباً ۹۰ فیصد مترجمین نے لفظِ کان کا ترجمہ ’تھا یا ہے‘ صیغہ ماضی کے طورپرکیا ہے۔ کسی نے بھی اس امر کا خیال نہیں رکھا کہ کان کا ذکر کلام اللہ میں ایک خاص معنویت اور سیاق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے برصغیر کے ہرکس وناکس کی زبان پر کان کا ترجمہ’ہے یا تھا ‘ مشہور ہے۔ حالانکہ یہ لفظ مختلف معانی کو متضمن ہوتا ہے۔ اس کے ان معانی کو درج ذیل امثلہ سے اجاگر کیا جاتاہے جو مولانا عبدالسلام بن محمد کےترجمہ میں موجود ہیں:

کان بمعنیٰ ماضی: آیتِ کریمہ’وکان الله غفوراً رحیماً ‘ کا ترجمہ ’ اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا،نہایت مہربان ہے‘ کیا ہے۔ ([57])

کان بمعنیٰ استمرار: آیتِ کریمہ’ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ‘ کا ترجمہ ’ وہ اس سے قبل بہت زیادہ برائیاں کیا کرتے تھے‘ کیا ہے۔ اس کی توجیہ یوں بیان کرتے ہیں:

’’ فعل مضارع پر ” کَانَ “ آئے تو استمرار اور ہمیشگی کا معنی دیتا ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل ہو۔ ‘‘([58])

کان بمعنیٰ لَم یَزَل:آیتِ کریمہ’ کیف نکلّم من کان فی المهد صبیاً ‘ کا ترجمہ ’ ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے‘ کیا ہے۔([59])اس ترجمہ سے کان کی معنویت کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے کہ مخاطبین کو یہ بات سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی کہ عیسیٰ ؑ اس وقت بچے تھے۔

کان بمعنیٰ لَایَنبَغِی: آیتِ کریمہ ’وما کان لمومن ولا مومنة‘ کا ترجمہ ’اور کبھی نا کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا‘ کیا ہے۔ ([60])اس ترجمہ میں لفظِ کبھی سے کان کی زمانی اور لفظِ حق سے لفظی ترجمہ واضح ہوگیا ہے۔

کان کے ساتھ حرفِ نفی کا ترجمہ: اس حوالے سے مترجم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’کان کے ساتھ نفی کا ترجمہ شاید ہی کسی مترجم نے کیا ہو‘ ۔ ان کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔ اس لیے کہ راقم کے پیشِ نظرتراجم ِ قرآن میں ایک بھی ایسا نہیں جس میں کان کے ساتھ حرفِ نفی کی موجودگی کا وہ ترجمہ کیا ہو جا خالصتاً اصولی بنیادوں پر فاضل مترجم نے کیا ہے۔ اس کی مثال آیتِ کریمہ’ وما کان عطاء ربک محظوراً ‘ کا ترجمہ ’اور تیری رب کی بخشش کبھی بھی بند کی ہوئے نہیں‘ کیا ہے جو کہ زمانی و لفظی ہر دو اعتبار سے درست اور اصولی ہے۔ ([61])

ھ۔تنوین کی انواع اور ان کے معنوی اثرات

قرآن مجید میں جو الفاظ نکرہ استعمال ہوئے ہیں ان پر آنے والی تنوین کی کئی اقسام ہیں۔ اور انہی اقسام کے تحت الفاظ کا ترجمہ کیا جائے تو ان کی تفسیر و تشریح بہتر سمجھ آتی ہے۔مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے تنوین کی جملہ اقسام کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے اور ان کے تحت ہی تفسیر میں توضیحات پیش کی ہیں۔تنوین کی ان اقسام میں تنوینِ تقلیل، تحقیر،تعظیم اور تنکیر شامل ہیں۔ ان سب کی امثلہ درج ذیل ہیں:

۱۔ تنوینِ تحقیر: آیتِ کریمہ’ جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ‘ میں ’جُنْدٌ ‘ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے اس لیے ترجمہ ’ایک حقیر سا لشکر‘ کیا ہے۔([62])

۲۔ تنوینِ تعظیم : آیتِ کریمہ’فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه‘میں ’ بِحَرْبٍ ‘ پر تنوین ِتعظیم ہے، اس لیے ترجمہ ’بڑی جنگ ‘ کیا ہے۔([63])

۳۔ تنوینِ تقلیل: آیتِ کریمہ’ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ علیه تراب‘ میں’ تُرَابٌ‘ پر تنوین تقلیل کی ہے اس لیے ترجمہ ’تھوڑی سی مٹی جمی ہوئی ‘ کیا ہے(تاکہ دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے)۔([64])

۴۔ تنوین تنکیر:آیتِ کریمہ ’مَتَاعٌ‘ میں لفظِ متاع کا ترجمہ ’کچھ (زندگی کا )سامان ‘ کیا ہے کیونکہ تنوین تنکیر سے معلوم ہوا ۔([65])

۳۔مبحث سوم؛ترجمہ قرآن کی لفظی معنویت اور اثرات

۱۔ صیغے کے مطابق ترجمہ

مترجم (عبدالسلام بن محمد)نے صیغے کے مطابق ممکنہ تمام معانی اور حقیقی وآسان اردو ترجمہ کی حتی الوسع کوشش کی ہے اور یہ کوشش بلامبالغہ ان کے ترجمہ سے چھلکتی ہے۔اس بات کا مفصل تذکرہ ابواب کی خاصیات اور زوائدِ حروف کی بحث میں ہوچکا ہے کہ حرف یا لفظ کی زیادتی معنیٰ کی زیادتی کو لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے جہاں بھی اس اصول کوپایا وہاں اس کا اطلاق کرتے ہوئے لفظ کا قریب تر یں ترجمہ کیا ہے۔ اور تفسیر میں اس امر کی وضاحت بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر’يَسْتَفْتِحُوْنَ ‘ کا ترجمہ ’فتح و نصرت طلب کرتے تھے‘ کیا ہے۔جبکہ تفسیر اس کا ایک اور ترجمہ بھی کیا ہے جس کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ یعنی نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے جب یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوتے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! نبی آخر الزمان جلد ظاہر ہوں، تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں۔ (طبری)” يَسْتَفْتِحُوْنَ ‘‘ کا دوسرا معنی ہے : ” یَفْتَحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘ فَتَحَ عَلَیْهِ ( کا معنی ہے خبر دینا اور سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہے، یعنی کافروں کو خوب کھول کر بتاتے تھے۔)‘‘ ([66])

اسی طرح کسی بھی لفظ کے ممکنہ تمام تراجم کو مدِنظر کرھتے ہیں تاہم ترجمہ میں اس کا اقرب اللفظ ہی ذکر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْن أحصٰی ‘ میں ’احصیٰ ‘ کا ترجمہ ’زیادہ یاد رکھنے والا ‘ کیا ہے۔ تفسیر میں اس کی توجیہ بیان کرتےے ہوئے لکھتے ہیں؛

’’ یہ ترجمہ اس وقت ہے جب ” اَحْصٰى“ کو اسم تفضیل مانیں اور یہ معنی راجح ہے، کیونکہ باب افعال سے بھی ” أَفْعَلُ “ کے وزن پر اسم تفضیل آجاتا ہے۔ دوسرا معنی اس صورت میں ہے کہ ” اَحْصٰى“ کو ماضی معروف قرار دیں، اس وقت معنی یہ ہوگا کہ دونوں گروہوں میں سے کون ہے جس نے اس مدت کو یاد رکھا ہے جو وہ ٹھہرے ہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو گزشتہ، موجودہ اور آئندہ ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہوا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا، مگر ظاہر ہے کہ یہ علم کہ فلاں کام واقع ہوچکا ہے، اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ کام واقع ہوجائے، یعنی تاکہ ہم اپنے علم کے مطابق اس کا واقع ہونا جان لیں۔ ‘‘([67])

اسی طرح اگر ایک لفظ کا استعمال کئی معانی میں ایک ہی وضع کی وجہ سے ہوتو اس میں بھی اقرب الی اللفظ معنیٰ ترجمہ میں سمو دیتے ہیں اور بقیہ کا تذکرہ تفسیر میں کردیتے ہیں۔ مثال کے طورپر آیتِ کریمہ’وَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ‘ میں لفظِ ’ مَسْجِدٍ‘ کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں:

’’(یہ)مصدر میمی، ظرف زمان اور ظرف مکان تینوں مراد ہوسکتے ہیں۔ مصدر میمی ہو تو اس کا معنی سجدہ بھی ہے اور نماز بھی، جیسے ” رَکْعَۃٌ“ کا معنی رکوع بھی ہے اور نماز میں قیام، رکوع، قومہ، سجدہ اور قراءت وغیرہ کے مجموعہ کو بھی ” رَکْعَۃٌ“ کہا جاتا ہے اور سجدہ بھی اور قیام بھی۔ یعنی جز بول کر کل مراد لیا جاتا ہے، تو معنی ہوگا ہر نماز میں۔ اگر مراد زمان ہو تو ہر سجدے یا نماز کے وقت اور مکان ہو تو ہر سجدے یا نماز کی جگہ اپنے رخ سیدھے کرلو، یعنی قبلہ کی طرف، یا جیسے اللہ کے رسول نے حکم دیا ہے اس طرح اپنے چہروں، یعنی اپنے آپ کو سیدھا کرلو اور ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز پڑھو۔ ([68])

لفظ کے حقیقی معنی کو متعین کرکے ترجمہ میں راجح ہی شامل کرتے ہیں، جبکہ اس میں اختلافی معنیٰ کو تفسیر میں جگہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّه لِلْجَبِيْنِ ‘ میں جبین کا معنیٰ ’کنپٹی یا ماتھے کی جانب‘ کیا ہے۔ اس کو مرجوح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں؛

’’عام طور پر مفسرین نے ” اَلْجَبِیْنُ “ کا ترجمہ پیشانی یا ماتھا کیا ہے…….اس مقام پر جبین سے مراد ماتھا لینا بہت بعید ہے، کیونکہ جبین کا معنی ” جَبْھَۃٌ ‘ماتھے کی ایک جانب ہے۔ ہر آدمی کی دو جبینیں ہوتی ہیں۔ طبری نے اس قسم کی روایتیں نقل کرنے کے باوجود خود ” وَتَلَّه لِلْجَبِيْنِ “ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : وَ صَرَعَهُ لِلْجَبِیْنِ وَالْجَبِیْنَانِ مَا عَنْ یَمِیْنِ الْجَبْهَةِ وَ عَنْ شِمَالِهَا وَلِلْوَجْهِ جَبِیْنَانِ وَالْجَبْهَةُ بَیْنَهُمَا “ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے اسے جبین پر گرا لیا اور دو جبینیں وہ ہیں جو ” جَبْھَۃٌ“ پیشانی کے دائیں اور بائیں طرف ہوتی ہیں اور چہرے کی دو جبینیں ہوتی ہیں اور ” جَبْھَۃٌ “ پیشانی ان دونوں کے درمیان ہوتی ہے۔([69])

اسی طرح آیاتِ قرآنیہ میں وارد مختلف اور مشکل الفاظ کی معنوی تعیین بھی کرتے ہیں۔اور ان کے مترادفات کو بھی ذکر کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’ وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ ‘ کی درج ذیل وضاحت کرتے ہیں:

” النَّخِيْلِ “ اور ” اَلنَّخْلُ “ اسم جنس ہیں، کھجور کا درخت۔ اگر ایک درخت واضح کرنا ہو تو ” تاء “ لگا دیتے ہیں، ” نَخِیْلَةٌ“ اور ” نَخْلَةٌ“۔ ” نَخَلَ یَنْخُلُ “ کا معنی ہے چھان کر عمدہ حصہ الگ کرنا، چھاننا۔ اس لیے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ چونکہ کھجور پھلوں میں منتخب ترین پھل ہے، اس لیے اسے ” نَخِیْلٌ“ کہتے ہیں۔ اس کے پھل کے مختلف وقتوں کے لحاظ سے الگ الگ نام ہیں، ” اَلْبَلَحُ “ پھر ” اَلْبُسْرُ “ پھر ” اَلرُّطَبُ “ پھر ” اَلتَّمْرُ “۔ اس لیے اس کے درخت کا نام لیا اور انگور کے پھل کا نام جمع کے ساتھ ”وَالْاَعْنَابِ “ لیا، کیونکہ انگور کی بیشمار قسمیں ہیں، البتہ اس کی بیل کو عربی میں ” اَلْکَرْمُ “ کہتے ہیں۔ ”سَكَرًا “ نشہ آور چیز، یہ سَکَرٌ“ اور ” سُکْرٌ“ دونوں طرح پڑھا جاتا ہے، جیسے ” رَشَدٌ“ اور ”رُشْدٌ۔([70])

لفظ کے معنیٰ کو مزید بہتر بنانے کے لیے دورانِ ترجمہ مترجم (عبدالسلام بن محمد) نے دو مزید امور کا بھی خیال رکھاہے۔اولاً ترجمہ میں آسان اردو الفاظ کا استعمال کیا ہے اور دوم انہوں نے فعلِ امر پر داخل ہونے والے لامِ امر کا ترجمہ’ چاہیے کہ ‘ کی بجائے لازمی اور طلب والے الفاظ سے ادا کیا ہے۔

اول الذکر نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ترجمہ زیادہ سے زیادہ آسان اردو میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے،فارسی یا عربی الفاظ میں ترجمہ سے مطلب ادا ہوبھی جائے تو عام آدمی فائدہ نہیں اٹھاسکتا،مثلاً بعض اردو ترجمہ کرنے والوں نے ’ مرسلون‘ کا ترجمہ ’فرستادگانِ الہٰی ‘ ’کذّاب أشرّ‘ کا ترجمہ برخود غلط ’الحمید‘ کا ترجمہ ’ستودہ‘ اور ’ریب المنون‘ کا ترجمہ حوادثِ دہر کیا ہے ، اس لیے احتراز کیا گیا ہے۔‘‘ ([71])

چنانچہ انہوں نے خود ’کذابّ أشر‘ کا ترجمہ ’ بہت جھوٹا ،متکبر‘ ’الحمید‘ کا ترجمہ’بے حد تعریف والا‘ ’ریب المنون کا ترجمہ’زمانے کے حوادث ‘ کیا ہے۔

جبکہ ثانی الذکر( لامِ امر کا ترجمہ کرتے ہوئے اس )کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’عام طور پر امر غائب کا ترجمہ لفظ’ چاہیے ‘ سے شروع کیا جاتا ہے۔ مثلاً ’ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ‘ اور چاہیے کہ اہلِ انجیل اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے، میں نے کوشش کی ہے کہ لفظ ’چاہیے‘ کے بغیر امر کا مفہوم ادا ہوجائے یا پھر چاہیے کے بجائے ’لازم ہے‘ استعمال کیاجائے۔ چنانچہ اس آیت کا ترجمہ ہوگا’ اور لازم ہے کہ انجیل والے اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے‘۔‘‘([72])

الغرض مترجم نے ازحد محنت اور دقتِ نظری سے کام لیتے ہوئے قرآنِ مجید میں آنے والے ہر لفظ کا ترجمہ اس کے صیغے کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور فعلِ ماضی، مضارع،امر ،اسم فاعل،مفعول،صفتِ مشبہ و مبالغہ وغیرہ کا ترجمہ ،اسی طرح سیاق وسباق کی رعایت،شرط و جزا کے معنوی تعلق کا عین اصولوں کے مطابق کرنے کی سعی کی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

۵۔ خاتمۃ البحث و نتائجَ تحقیق

مذکورہ بالا تمام تحقیق کی روشنی میں درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

۱۔ ترجمۃ القرآن از مولانا عبدالسلام بن محمد کی افادیت اور اس کا اسلوب برصغیر میں کیے گئے دیگر تراجمِ قرآنی کی نسبت بہت زیادہ مفید اور خصائص و امتیازات کی بناء پر نمایاں ہے۔

۲۔ موصوف نے ترجمہ میں اصولی ولغوی قواعد کا بھرپور خیال رکھا ہے اور ہر لفظ کا معنی اس پر داخل عوامل (الف لام،تنوین، حروفِ تاکید وغیرہ) کو مدِنظر رکھ کر کیا ہے۔

۳۔دورانِ ترجمہ الفاظ کو حقیقت سے قریب تر اورآسان و جدید اردو کے معانی و مطالب کا جامہ پہنایا ہے۔دیگر تراجم کی بہ نسبت اس ترجمہ میں لفظی جدت ، معنویت میں خوبصورتی اور لفظ کے accurate معنی کو درج کرنے کی سعی کی ہے۔

۴۔ حروفِ زوائد کے ترجمہ کا اہتمام بھی کیا ہے اور ان کی مقصدیت کے پیشِ نظر ان کو معانی درج کیے ہیں، مثلاً باء حرفِ جارہ ،مفعول مطلق وغیرہ کا معنیٰ تاکیدمقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا ہے۔ اسی طرح مبالغہ کے صیغوں کے معانی بھی اسی (کثرت کی) معنویت سے کیے ہیں۔

۵۔ دورانِ ترجمہ تشریحی و توضیحی اسلوب کو اختیار کرنے سے مکمل طور پر احتراز کیا ہے اور بلاواسطہ حقیقی معنیٰ پر ہی دھیان مرکوز رکھا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ موصوف کا تفصیلی ترجمہ ملاحظہ ہو:بھٹوی، محمد طیب، تذکرہ و خدمات علماء و شیخ الحدیث بھٹہ محبت، ابوہریرہ اکیڈمی ، لاہور ، ۲۰۱۰ء، ص ۶۳
  2. ۔ عبدالسلام بن محمد، حافظ ،تفسیر القرآن الکریم،دارالاندلس، لاہور،۲۰۱۴ء، جلد ۱، ص ۱۵
  3. ۔تفسیر القرآن الکریم، جلد ۱، ص ۱۵
  4. ۔مختار احمدسلفی، مولانا، مختار النحو، دارالسلام، لاہور،۲۰۱۱ء، ص ۱۳۲
  5. ۔ تفسیرالقرآن الکریم،جلد۱، ص ۱۶
  6. ۔ جلد ۳، ص۷
  7. ۔ جلد۱، ص۱۳۹
  8. ۔ جلد ۳، ص۸۴۲
  9. ۔ جلد۱، ص ۳۲
  10. ۔ فاضل صالح، ڈاکٹر، معانی النحو، دارالفکر، اردن، ۲۰۰۰ء، جلد ۱، ص ۱۱
  11. ۔ تفسیرالقرآن الکریم،جلد۱، ص۵۴
  12. ۔ جلد ۱، ص ۵۹
  13. ۔ جلد ۱، ص۴۶۸
  14. ۔ جلد ۱، ص ۵۱
  15. ۔ جلد ۱، ص۱۲۶)
  16. ۔ جلد ۱، ص ۸۲۰
  17. ۔ جلد ۱، ص۱۰
  18. ۔ جلد ۱، ص ۳۷۳
  19. ۔ جلد ۴، ص ۹۷۲
  20. ۔ جلد۳، ص ۷۴۱۔۷۴۲
  21. ۔ جلد۱، ص ۱۰
  22. ۔ جلد ۲، ص۱۵۹
  23. ۔ جلد ۱، ص ۷۰۹
  24. ۔ جلد ۳،ص۲۱۰
  25. ۔ جلد ۲ ، ص۲۷۴
  26. ۔ جلد ۱، ص۳
  27. ۔ جلد ۱، ص۱۸۱
  28. ۔ جلد ۲، ص ۱۷
  29. ۔ جلد ۱، ص۱۸۲
  30. ۔ جلد ۱، ص۱۹۱
  31. ۔ جلد۱، ص ۸۳۴
  32. ۔ جلد ۱، ص۱۱
  33. ۔ جلد ۱، ص۶۰
  34. ۔ جلد۲، ص ۱۰
  35. ۔ جلد۱، ص۱
  36. ۔ جلد ۴، ص ۶۹۸
  37. ۔ جلد ۲، ص ۸۰۲
  38. ۔ جلد ۱،ص ۱۳۶
  39. ۔ جلد ۳، ص۷۱۵
  40. ۔ جلد ۲، ص۴۴۷
  41. ۔ جلد۲، ص۱۲۳
  42. ۔ جلد ۳، ص ۴۴۲
  43. ۔ جلد ۲، ص۲۲۸
  44. ۔ جلد ۲، ص۳۷
  45. ۔ جلد ۲، ص ۱۹۵
  46. ۔ جلد ۲، ص ۳۱۱
  47. ۔ جلد۱، ص ۳۴۶
  48. ۔ جلد ۲، ص۴۵۵
  49. ۔ جلد ۴، ص۸۳۹
  50. ۔ جلد۱، ص ۳۲
  51. ۔ جلد۲، ص ۱۶۹
  52. ۔ جلد ۱، ص ۱۶۶
  53. ۔ جلد۲، ص ۴۹۹
  54. ۔ جلد ۲ ، ص۲۷
  55. ۔ جلد ۲، ص ۷۰
  56. ۔ جلد ۱، ص ۳۹
  57. ۔ جلد ۲، ص۳۹
  58. ۔ جلد جلد ۲، ص ۱۲۵
  59. ۔ جلد ۲، ص ۵۹۲
  60. ۔ جلد ۳، ص ۶۱۱
  61. ۔ جلد ۲، ص۴۶۵
  62. ۔جلد ۳، ص ۸۱
  63. ۔ جلد ۱، ص ۲۳۰
  64. ۔ جلد ۱، ص ۲۱۷
  65. ۔ جلد ۱، ص۶۱
  66. ۔ جلد ۱، ص ۹۴
  67. ۔ جلد ۲، ص ۵۲۵
  68. ۔ جلد ۱، ص ۶۲۰
  69. ۔ جلد ۳، ص ۷۹۶
  70. ۔ جلد ۲، ص ۳۹۶
  71. ۔ جلد ۱، ص ۱۴
  72. ۔ جلد ۱، ص ۱۴
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...