Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 32 Issue 1 of Al-Tafseer

تفسیر اشاری کی روایت و منہج کا اختصاصی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060084478_656

Pages

08-21

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/55

Subjects

Qura’anic Exegesis Tafsir Ishari Al-Tustari Abu Abd al-Rahman alSulami Ruzbihan al-Baqli al-Shirazi.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تفسیر اشاری کی روایت

نصِ قرآنی کی تفہیم کے معروف طریقوں میں سے اس کے ظاہراور باطن کا مطالعہ ہے۔علمائےکرام ظاہر ِنص جبکہ صوفیہ نص کے باطنی معانی و اسرار سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ حقائق کو سمجھنے کے لیے یہ دونوں طریقہ ہائے کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حقائق کی تفہیم کے مختلف درجات ہیں جن کی بنیاد پر انسانی شعور حقیقت مطلقہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حوالے سے امام جعفر صادق ؒ (م ١٤٨ھ/٧٦٥ء) کا قول بہت دلچسپ ہے کہ قرآن مجید چار چیزوں سے عبارت ہے۔۱۔ عبارات۲۔اشارات۳۔ لطائف۴۔ حقائق۔ عبارات لفظی معانی کی تفہیم ہے۔ نصِ قرآنی کے الفاظ کوسمجھنا تفہیم کا ابتدائی مرحلہ ہے جبکہ دوسرا مرحلہ اشارات ہے جو کہ خواص کے لیے ہے جس میں الفاظ کے ظاہری معانی کے ساتھ بین السطور اسرار و حکمت کو سمجھا جاتا ہے۔تیسرا مرحلہ نص میں پائے جانے والے لطائف کا ہے۔ اس سے مراد وہ خفیہ معانی ہیں جو بلند مرتبہ اولیاء اللہ کے لیے ہیں جبکہ چوتھا مرحلہ حقائق کی تفہیم کا ہے اور اس مرحلے کو طے صرف انبیائے کرام کرتے ہیں۔([1])

اسی ضمن میں حضرت علیؓ کا قول بھی نقل کیا جاتا ہے جس میں آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بھی قرآنی آیت ایسی نہیں جس میں چار معانی نہ پائے جاتے ہوں۔۱۔ ظاہر ۲۔ باطن ۳۔ حد۴۔مطلع۔ظاہر سے مراد نصِ قرآنی کی زبانی تلاوت ہے جبکہ باطن سے مراد اس کی تفہیم ہے۔ حد سے مراد نص کا واضح مفہوم ہے جس سے حلال و حرام کے احکام سمجھے جاتے ہیں جبکہ مطلع سے مراد وعدہ و وعید ہے جو درحقیقت وہ الہٰی منصوبہ ہے جو انسانیت کے حوالے سے خدا ارادہ کرتا ہے۔([2]) قرآنی تفسیر کے حوالے سے حضرت علیؓ اور امام جعفر صادق ؒ کے مندرجہ بالابیان کردہ چار نکات میں سے آخری تین کا تعلق ایک حوالے سے تفسیر اشاری سے ہے۔

ماہرین تفسیر نے تفسیر اشاری کی روایت کے مطالعے کے لیے ادوار بندی کی ہے۔ اس حوالے سے گرہارڈ بورنگ (Gerhard Bowering) نے تفسیر اشاری کی روایت کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور دوسری صدی ہجری/ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی ہجری تک ہے۔ اس دور کے مزید دو حصے ہیں:

1۔ وہ بنیادی متقدمین صوفیہ جنھوں نے اشاری تفسیر کے حوالے سے تعبیرات اور اسرار و رموز بیان کیے۔

2۔ دوسرا عہد جس میں شیخ ابو عبد الرحمن سلمی ؒ (م۴۱۲ھ/۱۰۲۱ء) اور دیگر صوفی مفسرین جنھوں نے متقدمین صوفیہ کے اقوال کی جمع و تدوین کی۔

متقدمین صوفیہ میں حضرت حسن بصری ؒ (م۱۱۰ھ/۷۲۸ء)، امام جعفر صادق ؒ،حضرت سفیان ثوری ؒ (م١٦١ھ/٧٧٨ء)خاص طور پر قابل ذکر ہیں جبکہ دوسرے طبقے میں شیخ ذو النون مصری ؒ(م۲۴6ھ/۸۶۱ء)، امام سہل تستری ؒ (م۲۸۳ھ/۸۹۶ء)، شیخ ابو سعید خراز ؒ (م۲۸۶ھ/۸۹۹ء)، شیخ جنید بغدادی ؒ (م۲۹۸ھ/۹۱۰ء)، شیخ ابن عطاء آمدی ؒ (م۳۱۱ھ/۹۲۳ء) شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جنھوں نے اپنے طور پر کبھی کوئی تفسیر مدون نہیں کی۔

دوسرا دور پانچویں صدی ہجری/ گیارھویں صدی عیسوی سے ساتویں صدی ہجری / تیرھویں صدی عیسوی تک کو محیط ہے۔ اس دور میں تین قسم کی اشاری تفاسیر سامنے آئیں:

1۔معتدل صوفی تفاسیر

2۔صوفی تفاسیر جن میں باطنی تعبیرات بہت زیادہ موجود ہیں جن کی بنیاد بیشتر شیخ سلمی کی تفسیر ہے۔

3۔قرآن کی فارسی تفاسیر

تیسرا دور ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی سے بارھویں صدی کے وسط/ اٹھارویں صدی پر مشتمل ہے جس میں ایسی تفاسیر پائی جاتی ہیں جن کا واضح تشخص صوفیانہ تصورات پر مبنی ہے۔ چوتھا دور ان تفاسیر پر مبنی ہے جو برصغیر ہند، خلافت عثمانیہ اورتیموری سلطنت میں لکھی گئیں یعنی ایران کی حدود سے باہر غیر عربی ممالک میں لکھی گئی تفاسیر۔ پانچواں عہد تیرھویں صدی ہجری/انیسویں صدی عیسوی کے آخر سے لے کر عصرِ حاضر پر مبنی ہے جس کو بوورنگ دورِ انحطاط سے تعبیر کرتا ہے۔([3])

اسی طرح ترک دانشور سلیمان عطش (Suleyman Ates) نے بھی تفسیر صوفی کے ارتقاء کو پانچ ادوار میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کے نزدیک پہلا دورتشکیلی دور ہے۔ دوسرا دور باضابطہ ابتدائی تدوینی دور ہے۔ تیسرا دور باضابطہ مستقل تدوینی دور ہے جس میں صوفی تفاسیر میں بھر پور ترقی آئی۔ جبکہ چوتھا دور وہ ہے جس میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ(م٦٣٨ھ/١٢٤٠ء)کے تصور وحدت الوجود کو خاص پذیرائی ملی جس کے زیر اثر صوفیہ نے صوفی تفاسیر لکھیں۔پانچواں دور عثمانیوں کا عہد ہے جس میں تفسیر صوفی لکھی گئی۔([4])

مندرجہ بالا دونوں دانشوروں نے تفسیر اشاری کی روایت کو پانچ ادوار میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جمال جے الیاس نے ان دونوں دانشوروں کی آراء میں پائے جانے والے خلا کی نشاندہی کی ہے۔بوورنگ کی تفسیر اشاری کی ادوار بندی کے حوالے سے ان کی رائے ہے کہ یہ بہت عمومی اور تخیلاتی ہے۔ اور اس طرح کی ادوار بندی نہ صرف تفسیر اشاری بلکہ دیگر اسلامی علوم مثلاً فقہ، علم الکلام اور دیگر سماجی و علمی اداروں کی تفہیم کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ ایک عمومی تقسیم ہے اوراس سے یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ ان مختلف ادوار میں لکھی گئی اشاری تفاسیر کے مندرجات کیا ہیں اور اُن کا اُس عہد کے معاشرے سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ تفسیر اشاری کو اس کے متن کے ذریعے سمجھنےکی کوشش کی جائے۔ ([5]) سلیمان عطش کی ادوار بندی صوفی تفاسیر کے مطالعے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک عمومی نوعیت کی تقسیم ہے جو مسلم علوم و فنون کے ارتقاء کے حوالے سے کی جاتی ہے۔جمال جےالیاس لکھتے ہیں کہ صوفی تعبیرات بحیثیت تفسیری منہج مابعد کی تشکیل ہے اور متقدمین صوفیہ کے کام کو ایک امتیازی تفسیری منہج کے طور پر لینا مناسب نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تفسیر اشاری کے ضمن میں صوفی اور تصوف کا لفظ باضابطہ طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا۔جب ہم ایک منہج کی بات کرتے ہیں تو اُس سے مراد ایک ایسا طریقہ کار ہوتا ہے جو ایک جیسے متن اور اس کی تعبیرات سے نتائج اخذ کرنے کے حوالے سے بنایا جاتا ہے۔

صوفی تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا کوئی ایک مشترک ڈھانچہ یا ایسے امتیازی معیارات نہیں ہیں جس کی بنیاد پر اُن کو دیگر تفسیری ادب سے ممتاز کیا جاسکے بلکہ اُن میں سے کئی ایک تفاسیر ایسی ہیں جن میں انھوں نے غیرصوفی تفاسیر پر انحصار کیا ہے جیسا کہ امام ابو القاسم قشیری ؒ (م٤٦٥ھ/١٠٧٢ء)کی ’’لطائف الاشارات‘‘ کا خاصا مواد امام ابوجعفرطبری ؒ (م۳۱۰ھ/۹۲۳ء) کی تفسیر سے ماخوذ ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے شیخ سلمی ؒ اور امام تستری ؒ کی صوفی تعبیرات سے بھی استفادہ کیا ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ صوفی تفاسیر کے لیے کوئی امتیازی ڈھانچہ اور قوانین وضع نہیں کیے گئے جن کی روشنی میں وہ تفاسیر لکھی گئی ہوں۔ جمال جے الیاس کی آراء اس لحاظ سے بہت وقیع ہیں کہ تفسیر اشاری کے متنوع اسالیب ہیں لیکن اس کے لیے ایک باضابطہ امتیازی منہج قائم نہیں کیا گیا۔([6]) تاہم اشاری تفاسیر میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تفاسیر بنیادی طور پر وہ روحانی تعبیرات ہیں جن کو صوفی اپنی حالت تقرب الہٰیہ میں سمجھتا ہے اور یہ خیالات عالم غیب سے اُس کے دل پر القا ہوتے ہیں۔تفسیر اشاری کو اس وجہ سے تفسیر فیضی بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں ارباب سلوک پر ایسےپوشیدہ اشارات ظاہر ہوتے ہیں جو کہ عمومی طور پر متن کے ظاہری معنی سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاہم ماہرین علم اصول تفسیر نے یہ شرط عائد کی ہے کہ صوفی اشارات ایسے ہوں کہ ان کا کلام اللہ کے ظاہری مفہوم کے ساتھ تطبیق کرنا درست ہو،جیسا کہ امام زرقانی ؒ لکھتے ہیں کہ تفسیر اشاری سے مراد ہے: ھو تاویل القرآن بغیر ظاہرہ لاشارۃ خفیۃ تظھر لأرباب السلوک والتصوف ویمکن الجمع بینھا وبین الظاہر المراد ایضاً ([7]) اس لحاظ سےتفسیر اشاری قرآن کی ایسی تاویل ہے جو اُس کے ظاہری متن کے مفہوم سے مختلف ہو اور اس کی بنیاددرحقیقت اہل علم اور ارباب سلوک پر منکشف ہونے والے وہ اشارات ہیں جو مجاہدہ نفس کی وجہ سے اُن پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جس کی بنیاد پر وہ قرآن مجید کے اسرار کی تفہیم کرتے ہیں اوراُن کے ذہنوں میں وہ باریک نکات ، الہام الہٰی یا فتح ربانی کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اُن کی تعبیرات اور نص کے ظاہری مفہوم میں مطابقت کی جا سکتی ہے۔([8]) صوفیہ کرام نے تفسیر اشاری میں مقدمات علمیہ پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ روحانی ریاضت کی بنیاد پر جو اشارات قدسیہ ان پرواضح ہوئے اُنھیں اپنی تفسیرات کا ماخذ بنایا چنانچہ صوفیہ مفسرین کے لیے مفسر کے بجائے اہل اشارہ ، اہل معرفہ اور ارباب سلوک کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس طرح کی تعبیرات کا منبع امام قشیری ؒ کی ’’لطائف الاشارات‘‘ ہے۔

تفسیر اشاری : منہج و معیارات اور تنقیدات

علمائےکرام کی تفسیر اشاری کے بارے میں متنوع آرا وجود ہیں۔ اُن میں سے بعض ایسی تفسیر کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اِس کو عمدہ ترین تعبیر قرار دیتے ہیں جبکہ ایک طبقۂ فکر کے ہاں ایسی تعبیرات درست نہیں ہیں اور یہ اللہ کے دین سے انحراف کا باعث بنتی ہیں۔ اگرچہ وہ اس امر کے قائل ہیں کہ قرآن مجید کے نہ ختم ہونے والے اسرار و عجائب اِس بات کے متقاضی ہیں کہ قرآنی عبارت کے اندر ایسی صلاحیت موجود ہے جو اسے اِس قابل بناتی ہے کہ ہر دور کے علماء اپنی فکر کے مطابق اس کی تفہیم کریں اور درپیش مسئلے میں اِس سے رہنمائی حاصل کریں۔یہ تحقیق بنیادی طور پر تفسیر اشاری کے مطالعے پر مرکوز ہےجبکہ تفسیر صوفی نظری اور اس کی مباحث کو اس تحقیق میں زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔

تاہم اختصار کے ساتھ یہ بیان کر دینا فائدے سے خالی نہ ہو گاکہ تفسیر صوفی نظری کی بنیاد مقدمات علمیہ پر ہوتی ہے جو نظری اور فلسفیانہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسین ذہبی ؒ کے نزدیک اس طرز کی کوئی تفسیر ایسی نہیں ملتی جو پورے قرآن کے مطالعےپرمشتمل ہوتاہم شیخ ابن عربی ؒ کی تفسیر اور ان کی کتب ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ میں کئی ایک آیات کی تفسیر اس رجحان کے تحت کی گئی ہے۔([9])

اسی طرح قرآن مجید کی وہ تفاسیر جو باطنیہ نے کی ہیں وہ بھی اس تحقیق کے دائرے سے باہر ہیں کیونکہ ان کے ہاں نصِ قرآنی کی باطنی تعبیرات درست ہیں خواہ وہ نصِ قرآنی کے ظاہری معانی سے متعارض ہی کیوں نہ ہوں۔عمومی طور پر تفسیر نظری اور تفسیر باطنی کو بھی تفسیر صوفی کے ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے اور تفسیر اشاری کو تفسیر باطنی کے طور پر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اشاری تعبیرات کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے جو کہ خلط مبحث ہے۔ خود صوفیہ کے حلقے میں بھی اس حوالے سے رد عمل پایا جاتا ہے۔ امام غزالی ؒ (م٥٠٥ھ/١١١١ء) نے اپنی تحریروں میں باطنیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔([10]) اسی طرح نویں صدی کے شمالی افریقہ کے محدث صوفی شیخ احمد زروق ؒ (م٨٩٩ھ/١٤٩٣ء)نے ’’قواعدالتصوف‘‘ میں صوفیہ اور تفسیر اشاری کی تائید میں بحث کی ہے۔ اس حوالہ سے ان کا نقطۂ نظر ہے کہ معاملات کے حوالے سے صوفیہ کی بصیرت فقہا سے زیادہ خاص ہے۔ فقیہ معاملات کو اس انداز سے دیکھتا ہے کہ جس سے حرج ساقط ہو جبکہ صوفی کے پیش نظر یہ ہے کہ کمال کس طرح حاصل کیا جائے۔اسی طرح صوفی کی نظر اصولی سے زیادہ خاص ہوتی ہے۔ اصولی کے پیش نظر اعتقادات کی تصحیح ہوتی ہے جبکہ صوفی کے پیش نظر یہ ہے کہ کس طرح اعتقادات میں یقین کی کیفیت پیدا کی جائے۔ اسی طرح شیخ احمد زروق ؒ کے نزدیک صوفی مفسر اور محدث سے بھی زیادہ دقیق النظر ہے کیونکہ مؤمخر الذکر صرف حکم اور معنی کا اعتبار کرتے ہیں تاہم صوفی ان سے ایک قدم آگے چلتا ہے۔ وہ حدیث و تفسیر سے ثابت شدہ معتبرات کے اثبات کے بعد اللہ تعالیٰ سے مزید فتح و اشارہ کا طلب گار ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ باطنی ہے اور شریعت سے روگردانی کرنے والا ہے چہ جائیکہ اس کو حلقہ صوفیہ میں شمار کیا جائے۔([11] ) ایک اور مقام پر وہ شیخ ابو عبداللہ ابن عباد الرندی ؒ (م۷۳۳ھ/۱۳۸۹ء) کا قول نقل کرتے ہیں کہ اہل ظاہر کو اہل باطن کے خلاف بطور حجت پیش نہ کرو۔ شیخ زروق ؒ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل باطن کے خلاف اہل ظاہر کی آراکو پیش نہ کرو بلکہ اہل ظاہر کے دلائل سے اہل باطن کی تائید کرو کیونکہ ہر وہ باطنی تعبیر جو نص کے ظاہر کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی ہے وہ باطل ہے اور حقیقت وہ ہے جو شریعت سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔([12]) تفسیر اشاری درحقیقت جیساامام محمد بن عبد اللہ زرکشی (م٧٩٤ھ/ ١٣٩٢ء) لکھتے ہیں کہ: بعض صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ تفسیر نہیں ہے بلکہ یہ قرآن مجید کے وہ معانی ہیں جو دوران تلاوت اُن پر منکشف ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض صوفیائے کرام نےقرآن مجید کی آیت: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ([13])کے حوالے سے لکھا ہے کہ انسان کو اپنے نفس کے خلاف قتال کرنا چاہیے کیونکہ انسانی نفس ہی سب سے قریب ترین دشمن ہے جو اُس کو شر کی طرف لے جاتا ہے۔

امام ابن صلاح ؒ(م٦٤٣ھ/١٢٤٥ء) اپنے فتاویٰ میں اِس حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام ابو الحسن ؒ (م٤٦٨ھ/١٠٧٦ء)نے لکھا ہے کہ شیخ عبدالرحمٰن سلمی ؒ نے حقائق التفسیر کے نام سےایک تفسیر لکھی ہے اور جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ ایک تفسیرہے تو وہ درحقیقت کفر کرتا ہے امام ابن صلاح کی رائے میں ان اصحاب نے درحقیقت باطنیوں کے طریقۂ کار پر چلتے ہوئے قرآن کے مفہوم کو بدل دیا ہے۔ اگر مذکورہ بالا آیت میں نفس کے خلاف بات ہوتی تو آیت میں اِس کا ذکر ہوتا نہ کہ کفار کے ساتھ قتال کی آیات کو نفس کے خلاف قتال پر محمول کیا جاتا۔([14]) اس حوالے سے امام جلال الدین سیوطیؒ (م٩١١ھ/١٥٠٥ء) نے صوفیہ کی آراکابھی ذکرکیاہے۔وہ شیخ ابن عطاء اللہ اسکندری ؒ (م٧٠٩ھ/١٣١٠ء)کی رائے کا ذکر کرتے ہیں کہ صوفیہ کی تفسیر میں اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو قطعاً لفظ کے ظاہری معنیٰ سے پھیرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ظاہری معنیٰ اِس سے سمجھا جاتا ہے جس کے حوالے سے وہ آیت وارد ہوئی اور اس میں ایسے مخفی مفہومات کو سمجھنے کی کو شش کی جاتی ہے جن کا صدور اللہ کی جانب سے قلب پر وارد ہوتا ہے۔اور حدیث میں ہے:لکل آیۃ ظھر وبطن لہٰذا ایسے معانی سے کسی معترض کے اعتراض کی وجہ سے انکار نہیں کیا جا سکتابلکہ کلام اللہ اور کلام الرسول کو اُس کے معنی سے یہ پھیرنے کے مترادف ہے اگر اُس کو صرف ظاہری معنوں پر ہی محمول کیا جائے۔یا یہ کہا جائے کہ آیت کا صرف یہی معنی ہے جو وہ مراد لیتے ہیں تاہم صوفیہ آیت کے متن کو پڑھتے ہیں اور جو اس کا ظاہری معنی ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں اور آیت کا وہ مفہوم سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سمجھا یا جاتا ہے۔([15])

امام زرقانی ؒ نے تفسیر اشاری کے حوالے سے مختلف آرابیان کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ تفسیر اشاری پانچ شرائط کےساتھ درست ہے۔

۱۔ یہ نظم قرآن کے منافی نہ ہو۔

۲۔ اس میں یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ صرف یہی مراد الہٰی ہے۔

۳۔ اِس میں تاویل بہت بعید کی نہ ہو جیسا کہ بعض مفسرین اللہ تعالیٰ کے فرمان :’’وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ‘‘([16]) میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’لمع‘‘ فعل ماضی ہے اور ’’محسنین‘‘ اس کا مفعول ہے۔

۴۔ یہ شرعی اور عقلی اصولوں کے مخالف نہ ہو۔

۵۔ شرعی اصول اس تاویل کی تائید کرتے ہوں۔([17])

اہل علم کے نزدیک وہ تفسیر اشاری جو ان شروط پر پوری اترتی ہو وہ درست ہے۔تاہم اگر وہ ظاہر نص کے خلاف ہو اور اِس بات پر اصرار نہ کیا جائے کہ صرف وہی مراد الہٰی ہے اور یہ کہ اُس میں تاویلات بعیدہ نہ ہوں اور وہ عقلی اور شرعی اصولوں کےمنافی نہ ہو تو ایسی تفسیر مقبول ہے اور اُس کا انکار درست نہیں ہے۔ تاہم چونکہ یہ تفسیر وجدانیات سے تعلق رکھتی ہے اور وجدانیات کا تعلق قلب پر وارد ہونے والی روحانی کیفیات سے ہے لہٰذا اس کی بنیاد دلیل کے بجائے وجدان پر ہے جس کا صحیح تناظر صوفی ہی جان سکتا ہے چنانچہ ایسی تاویل صرف انھی صوفیہ کے لیے قابل عمل ہے جن پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے۔

تفسیر اشاری کا متنی مطالعہ

ذیل میں تین نمائندہ صوفی مفسرین (تستری ؒ، سلمی ؒ، روز بہان بقلی شیرازیؒ) کی تفاسیر سے ایک ایک آیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ تفسیر اشاری کی نوعیت اور منہج و اسلوب کااندازہ کیاجا سکے۔

۱۔تفسیر اشاری کے حوالے سے امام تستری ؒ کا نام سر فہرست ہے۔آپ کا پورا نام ابو محمد سہل بن عبداللہ تستری ؒ ہے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ہے۔یہ مکمل تفسیر نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کی اُن آیات کی تفسیر ہے جس میں کوئی صوفی اشارہ یا روحانی رمز پائی جاتی ہیں۔ان آیات کی تعداد مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ تفسیر امام تستری ؒ نے خود نہیں لکھی بلکہ انھوں نے اپنی علمی مجالس میں ان صوفی نکات کو بیان کیا جن کو بعد میں اُن کے شاگردوں میں سے کسی نے مرتب کر دیا۔ اس بات کا غالب گمان ہے کہ یہ تفسیرچوتھی صدی کے آخر تک مرتب ہو گئی تھی کیونکہ امام تستری ؒکے کئی ایک اقوال امام سلمی ؒ کی تفسیر ’’حقائق التفسیر ‘‘میں لفظ بلفظ ملتے ہیں۔مزیدبر آں امام سلمی ؒ کے ہاں امام تستری ؒ کے روایت کردہ کئی ایک ایسے حوالے بھی ملتے ہیں جو ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘میں نہیں پائے جاتے۔ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام تستری ؒ کے اقوال اس تفسیر کے علاوہ بھی اہل علم میں متداول تھے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ امام تستری ؒ کی جامع تفسیر بھی ہو گی جو مرورِ زمانہ کے ساتھ ناپید ہو گئی ہو۔بوورنگ (Bowering)کا یہ خیال ہے کہ امام تستری ؒ نے مختلف علمی مجالس میں قرآن مجید کی قرأت کے دوران یہ تفسیر ی نکات بیان کیے ہیں۔([18])یہ تفسیر اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ مابعدصوفی تفاسیر کا مصدر بنی۔مثلاً امام سلمی ؒ کی’’حقائق التفسیر‘‘، ابو الفضل رشید الدین میبودی ؒ(م٥٢٠ھ/ ١١٢٦ء)کی ’’کشف الاسرار و عدۃ الابرار‘‘اور رو ز بہان شیرازی ؒ (م ۶۰۶ھ/١٢٠٩ء)کی تفسیر ’’عرائس البیان فی حقائق القرآن‘‘ میں امام تستری ؒ کے کئی ایک حوالہ جات منقول ہیں۔([19])

امام تستری ؒ قرآن مجید کی آیت: وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖیمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ۭقَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ ۭ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ([20]) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شک تھا کہ انھوں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ وہ کوئی معجزہ دکھائے تاکہ اُن کا ایمان درست ہو جائے۔ آپ کا سوال کسی شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وہ اس بات کے طالب تھے کہ اللہ کی قدرت اور تکوین خلقت پر آپ کا یقین مستحکم ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا آپ کا یقین نہیں تو اُنھوں نے جواب دیا ’’بلیٰ‘‘ اگر آپ کے دل میں شک ہوتا تو اس کا جواب ’’بلیٰ‘‘کے ساتھ نہ دیا جاتا۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو شک نہیں تھا، اگر انھیں شک ہوتا تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کی کیفیت کو جاننے والا ہے ان کے جواب’’بلیٰ‘‘ کی تردید کر دیتا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سوال کے ذریعے اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے کہ کیا اللہ تعالی نے انھیں خلیل اللہ کے منصب پر فائز کیا ہوا ہے یا نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ آپ کو خلیل کہتے تھے۔([21]) امام تستری ؒ کی اس بحث سےیہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال ایمان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ایقان اور عرفان کے لیے تھا۔

۲۔ امام ابو عبدالرحمٰن محمد بن الحسین بن موسیٰ ازدی سلمی ؒ کی’’حقائق التفسیر‘‘ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کی تفسیر بیان کی گئی ہےلیکن تمام آیات کے بجائے صرف اُن آیات کو زیر بحث لایا گیا جن کا تعلق صوفی اور روحانی رموز سے ہے۔یہ تفسیر اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں متقدمین صوفیہ کے اقوال پائے جاتے ہیں۔تاہم اس تفسیر کے حوالے سے علمائےکرام کی متنازع آراء منقول ہیں۔ امام سیوطی ؒ، اورا مام واحدی ؒ اس کے شدید ناقدین میں سے ہیں۔امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب ’’طبقات المفسرین‘‘ میں اس تفسیر کوتفسیر غیر محمود قرار دیا جو بدعات پر مشتمل ہے۔([22]) اسی طرح امام واحدی ؒ نے تو اس سے بھی شدید ترین رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ جو شخص اس بات کا اعتقاد رکھے کہ یہ تفسیر ہے تو گویا اس نے کفر اختیار کیا۔تاہم بعض دیگر علماء مثلاً امام سبکی ؒ اس تفسیر میں بیان کردہ صوفی تاویلات کی تائید کرتے ہیں اور اس میں بیان کردہ حقائق کی صحت کے قائل نظر آتے ہیں۔([23])

امام سلمی ؒ سورۃ حج کی آیت اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ ([24]) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ بعض صوفیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ رحمت کا پانی ہے جو قربت کے بادل نازل کرتے ہیں۔ اور اس رحمت کے پانی سے اللہ کے نیک بندوں کے دلوں سے چشمے جاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ معرفت کی خوبصورتی اور ایمان کےساتھ ثمر بار ہوتے ہیں۔ پس توحید سے ان کے دل سر شار ہو جاتے ہیں اور حب الہٰی سے وہ چمک اٹھتے ہیں اور اپنے رب کی زیارت کے مشتاق ہوتے ہیں۔أنزل میاہ الرحمۃ من سحآئب القربۃ، وفتح الی قلوب عبادہ عیوناً من ماء الرحمۃ، فأنبتت فاخضرت بزینۃ المعرفۃ وأثمرت الایمان، وأینعت التوحید۔ أضاءت بالمحبۃ فھامت الی سیدھا، واشتاقت الی ربھا فطارت بھمتھا، وأناخت بین یدیہ، وعکفت فأقبلت علیہ، وانقطعت عن الأکوان أجمع، ذاک آواھا الحق الیہ، وفتح لھا خزائن أنوارہ، وأطلق لھا الخیرۃ فی بساتین الأُنس، وریاض الشوق والقدس([25])

اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان: فِيْهَا فَاكِهَةٌ ٍوَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ([26]) کی تفسیر میں امام جعفر صادق ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کے دلوں کو اپنی محبت کا باغ بنایا ہے جس میں وہ معرفت کے درخت اگاتا ہے جن کے تنے اسرار کے ساتھ مضبوط ہوتے ہیں اور جن کی شاخیں حالت شہود کے ساتھ سر سبز رہتی ہیں۔([27]) ایک اور مقام پرامام سلمی ؒ قرآن مجید کی آیت: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ([28]) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ارباب سلوک کے ہاں اِس میں یہ اِشارہ پایا جاتا ہے کہ مواہب الہٰیہ دلوں پر اُس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ سالک فقرکی منازل کو طے نہ کر لے۔ اور وہ مادی چیزوں سے قطع تعلق کر کے ایک فقیر کی طرح اللہ کی طرف سے فیض کا منتظر نہ ہو۔ چنانچہ سالک جب تک فقیر نہیں بن جاتا فیضان الہٰی کی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہو سکتا۔([29]) یہ وہ نکتہ ہے جو صوفیہ اِس آیت سے اخذ کرتے ہیں۔

۳۔ ابو محمد روزبہان بن ابو نصر بقلی شیرازی ؒ کی تفسیر’’عرائس البیان فی حقائق القرآن‘‘ ایک اہم ترین اشاری تفسیر شمار کی جاتی ہے۔ مقدمے میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ازلی ہے جس کے ظاہر و باطن اور اسرار و معانی کی کوئی انتہا نہیں اور کوئی بھی شخص اس کے کمال او راس کے معانی کی غایت کو نہیں پہنچ سکتا۔ قرآن کے حروف میں سے ہر حرف میں اسرارو انوار کے سمندر ہیں کیونکہ یہ وصف قدیم کے ساتھ متصف ہےجو ایک ایسا کمال جس کی کوئی انتہا نہیں نہ ذاتی طور پر اور نہ صفاتی طورپر ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے:

وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ‘‘([30]) قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ ([31])

شیخ شیرازیؒ لکھتے ہیں کہ انھوں نے اس تفسیر میں یہ کوشش کی ہے کہ ازلی سمندروں میں غوطہ زن ہو کر کچھ ازلی و ابدی احکام نکالیں جن کو علماء کے فہم اور حکماء کی عقلیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اولیاء کی اقتداء، خلفاء کے اسوہ اور اصفیاء کے طریقہ کار کو اختیار کیا اور حقائق القرآن تصنیف کی جس میں لطائف اور اشارات ربانی بیان کیے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں:

’’ میں نے کئی مقامات پر ایسی تفسیر کی ہے جو اس سے پہلے مشائخ نے نہیں کی پھر میں نے اپنے مشائخ کےان اقوال و لطائف کو ذکر کیا جن کی تفہیم انھیں مطالعۂ قرآن کے دوران ہوئی۔ اور میں نے ان کی کئی ایک تفسیری تعبیرات اور علمی نکات حذ ف کر دیے ہیں تاکہ میری کتاب مختصر رہے ۔ میں اللہ سے اعانت طلب کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے یہ اس کی مراد کے مطابق ہواور سنت رسول اور صحابہ او راولیائے امت کے فہم سے موافق ہواور اللہ تعالیٰ ہی میرے لیے کافی ہےاور میں نے اس کتاب کا نام ’’عرائس البیان فی حقائق القرآن‘‘ رکھا ہے۔‘‘ ([32])

شیرازی کے نزدیک قرآن مجید کی آیت:لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى([33]) میں ’’الضُّعَفَاۗءِ‘‘اور ’’الْمَرْضٰى ‘‘سے مراد اہل مراقبہ کا وہ گروہ ہے جس نے خود کو ازلیات کے سمندر میں مستغرق کر دیا ہے اورجن کے جسم مجاہدہ کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں اور ریاضت کی وجہ سے جن کے نفوس بیمار پڑ گئے ہیں۔ ان کے دل مسلسل ذکر کرنے کی وجہ سے پگھل چکے ہیں اور وہ اپنے خالص عقائد کی وجہ سے لازوال مشاہدہ حق میں ایسے مگن ہیں کہ فانی دنیا ان کے دلوں سے نکل چکی ہے اور انھوں نے دنیا و ی امورسے خود کو علیحدہ کر کے حقائق اور توحید کو دل میں خالص کر لیا ہے۔اس لیے ان پر کوئی ’’حرج‘‘ نہیں۔بندگی ومجاہدہ کے حوالے سے ان پر کوئی عتاب نہیں کیونکہ وہ کشتۂ محبت الہٰیہ ہیں اور وہ وصل کے دروازے پر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے اٹھنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ وہ مریض محبت ہیں اور تسلیم و رضا نے ان کو فقیر بنا دیا ہے۔([34])

مندرجہ بالا تین نمائندہ اشاری تفاسیر کی دی گئی مثالوں کے مطالعےسے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تفسیر اشاری میں مفسرین قرآنی آیات سے کچھ لطیف نکات کشید کرتے ہیں جو کہ ظاہر نص کے مفہوم سے مختلف ہیں جیسا کہ امام سلمی ؒ جنت کے حوالے سے بیان کردہ آیت: فِيْهَا فَاكِهَةٌ ۽وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ([35]) کو جنت کے بجائے اولیاء کے دلوں کو قرار دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کے درخت اگتے ہیں۔اسی طرح شیخ شیرازیؒ کی بیان کردہ مثال لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى([36]) میں درحقیقت ظاہر نص میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ قتال میں شمولیت سے کمزور اور بیمار لوگ مستثنیٰ ہیں ۔ جب کہ شیخ شیرازی ؒ نے اس کو یکسر مختلف تناظر میں دیکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ قرار دیے ہیں جن کو محبت الہٰیہ نے کمزور کر دیا ہے اور وہ مریض محبت الہٰیہ ہیں اور وہ سلوک کی منازل کو طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں مجاہدہ و ریاضت کی پابندیاں ان پر اس طرح نہیں جس طرح ابتدائی سالک کے لیے ہوا کرتی ہیں۔یہ مثالیں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ یہ نصِ قرآنی کی تعبیر ظاہری سے بالکل مختلف ہیں۔ ایسی صورت میں اگر یہ تعبیرات ظاہر نص کے منافی نہیں اور دیگر شرائط پر پورا اترتی ہیں جن کا تعین ماہرین اصول تفسیر نے کیا ہے تو ان کو ماننے میں کوئی قباحت نہیں۔

مندرجہ بالا بحث اس نتیجے پر پہنچاتی ہےکہ تفسیر اشاری درحقیقت وہ روحانی تعبیرات ہیں جو ارباب تصوف بیان کرتے ہیں جو ظاہر نص سے ایک مختلف تعبیر ہوتی ہے اس لیے علمائے اصول تفسیر اس کو صرف اسی صورت میں صحیح قرار دیتے ہیں جب یہ قرآن کے ظاہری معانی کے مخالف نہ ہو اور اس حوالے سے انھوں نے اصول وضع کیے ہیں جن کے مطابق وہ تعبیر نظم قرآن کے منافی نہ ہو اور اس بات کا دعویٰ نہ ہو کہ یہی مراد الٰہی ہے اور اس میں تاویلات بعیدہ نہ ہوں اور وہ شرعی اور عقلی اصولوں کے مخالف نہ ہوں بلکہ شریعت میں ان تعبیرات کی تائید موجود ہو۔جہاں تک تفسیر اشاری کی روایت کا تعلق ہے تو اس کے بنیادی مآخذ قرون اولی کے صوفی اقوال ہیں جو وہ مطالعہ قرآن کے دوران سمجھتے تھے۔چوتھی صدی سے تفسیر اشاری کی ایک با ضابطہ روایت نظرآتی ہے جس میں امام تستری ؒ کی ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ اور امام قشیری ؒ کی ’’لطائف الاشارات‘‘سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔بعدازاں تفسیر اشاری ایک امتیازی طرزتفسیر کے طور پرحلقہ علم میں متعارف ہوئی لیکن درحقیقت اس منہج کے بنیادی اصول وضع نہیں کیے گئے جن کی بنیاد پر اس طرز کی تفاسیر کے معیار کوپرکھا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منہجِ تفسیر علمی کے بجائے فیضی ہے جو ارباب تصوف کے ذوق اور وجدان پر مبنی ہے۔

حوالہ جات

  1. () السلمی، ابو عبدالرحمٰن محمد بن حسین، حقائق التفسیر، تحقیق: سید عمران (بیروت: دار الکتب العلمیہ)، ص: ۲۱
  2. ()السلمی، حقائق التفسیر، ص: ۲۳۔۲۲
  3. () Gerhard Bowering, The Quran Commentary of As.Sulami in W.B Hallaq and D.B. Little (eds.) Islam Studies presented to Charles J. Adams, (Leiden: Brill, 1991), pp. 41-56.
  4. Suleyman Ates, Ishari Tefsir Okulu, Ankara Universitesi Ilahiyat Fakultesi Yayinlari, () (Ankara: Ankara Universitesi Basimevi, 1974), p. 122.
  5. () This is a familiar scheme used to conceptualize Sufi history, but it is equally applicable to law, theology and many other Islamic social and intellectual institutions. There is nothing about this conceptual framework that historical period, their content, their relationship to the society around them, or anything else other than the very obvious fact that later works frequently draw on earlier ones. (Jamal J. Elias, Sufi tafsir Reconsidered: Exploring the Development of a Genre, Journal of Quranic Studies 12 (2010), Edinburgh University Press, pp. 41-55 at p. 43).
  6. () Jamal J. Elias notes: Commentaries on the Quran written by Sufis do not follow a shared structure, nor do they reflect identical concerns or motivations in the acts and processes of commentary. (Sufi tafsir Reconsidered: p. 45)
  7. ()الزرقانی، محمد عبد العظیم،مناہل العرفان فی علوم القرآن، (بیروت: مطبع عیسیٰ البابی الحلبی وشرکائہ)، ۲/۷۸
  8. () قال الصابونی: فالتفسیر الاشاری ھو ان یری المفسر معنی آخر، غیر معنی الظاھر تحتملہ الآیۃ الکریمۃ ولکنہ لا یظھر لکل انسان وانما یظھر لمن فتح اللہ قلبہ وانار بصیرتہ وسلکہ فی ضمن عبادۃ الصالحین الذین منھم اللہ الفھم والادراک۔ الصابونی، محمد علی: التبیان فی علوم القرآن، مترجم: مولانا سیف الدین (کراچی، دار الاشاعت، ۲۰۱۰ء)، ص: ۲۳۷
  9. ()الذہبی، التفسیر والمفسرون،(القاہرہ: مکتبہ و ہبۃ،٠٠٠ ٢ء) ٢/٢٧٠ نوٹ:شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ اندلس کے شہر مرسیہ میں ٥٦٠ ھ کو پیدا ہوئے اور دمشق میں ۶۳۸ ھ کو وفات پائی۔ تصوف کی تاریخ میں ابن عربی ایک منفرد اور متنازع شخصیت تھے۔اُن کی تفسیر قرآنی، اُن کے صوفی ذوق کی عکاسی کرتی ہے۔یہ تفسیر دو جلدوں پر مشتمل ہے جو مطبع الامیریۃ نے ۱۲۸۷ھ میں طبع کی۔ اپنی تفسیر کے خطبے میں مقاصد تفسیر بیان کرتےہوئے وہ رسول اللہﷺکا مندرجہ ذیل قول نقل کرتے ہیں:’’مامن القرآن آیۃ الاولھا ظھر وبطن ولکل حرف حد ولکل حد مطلع‘‘۔ (امام عبدالرحمٰن سلمی ؒ نے یہ حدیث حضرت علی بن ابی طالب کے قول کے طور پر نقل کی ہے۔السلمی، حقائق التفسیر، ص: ۲۲،۲۳؛ البغوی، شرح السنۃ، باب الخصوم فی القرآن، رقم : ۱۲۲( اور لکھتے ہیں کہ جو کچھ میں اس حدیث سے سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ظاہر سے مراد تفسیر ہے اور باطن سے مراد تاویل ہے اور حد سے مراد کلام کا وہ معنیٰ ہے جو سمجھا جا رہا ہوتا ہے اور مطلع سے مراد ذہن اور فہم کا وہ ترفع ہے جس کے ذریعے خدائے بزرگ و برتر کی نشانیوں تک آگاہی حاصل ہوتی ہے۔انھوں نے امام جعفر صادق ؒ کا بھی قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے جب وہ اس کی گفتگو کرتے ہیں لیکن وہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ان کے بارے میں یہ بات روایت ہے کہ وہ نما زکے دوران غش کھا کر گر گئے تو ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا میں نے آیت کو بار بار دہرایا یہاں تک کہ میں نے آیت کو اس کے متکلم سے سن لیا۔ ) الزرقانی، مناہل العرفان ، ۲/۶۹( شیخ اکبر کی یہ تفسیر بھی پورے قرآن کی تفسیر نہیں ہے بلکہ منتخب آیات کی تفسیر ہے جن میں وہ صوفیانہ اسرار و رموز بیان کرتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًاۭقَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ )البقرۃ: ۶۷( کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں کہ بقرۃ سے مراد نفس حیوانی ہے۔لہٰذا خواہشات نفس کو ریاضت کی چھری کے ساتھ ذبح کرنا چاہیے تاکہ مقصود حقیقی حاصل ہو سکے۔امام نیشاپوری ؒ بھی اس آیت کی تفسیر میں امام ابن عربی ؒ کی متابعت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ گائے کے ذبح سے مراد ذبح نفس بھیمہ لیتے ہیں جو کہ حیات روحانی کے لیے ایک ضروری امر ہے۔ مزید برآں قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ گائے نہ تو بہت بوڑھی ہو نہ ہی بہت جوان (فارض ولا بکر) تو اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی مجاہدہ نفس نہ تو بڑھاپے میں کرے کہ وہ اس قابل ہی نہ ہو کہ افضل طریقہ کے وظائف ادا کر سکے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ صوفی چالیس سال بعد اپنی طبعی تمازت کھو دیتا ہے اور نہ ہی وہ عنفوان شباب میں کثرت مجاہدہ کرے کہ حالتِ سکر اس پر غالب آنے کا اندیشہ ہے لہٰذا مناسب ہے کہ درمیانی عمر میں مجاہدہ نفس کرے۔ ) الزرقانی، مناھل العرفان، ۲/ ۷۰۔۶۹ اور وہ قرآن مجید کی آیت :وَاَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۔فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ )الانبیاء: ۸۳،۸۴( ان آیات کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں کہ نفس مطمئنہ کو مختلف قسم کی آزمائشوں سے پرکھا گیاتاکہ مجاہدےاور ریاضت کے ساتھ اس کا تزکیہ ہو جائے۔پس جب حضرت ایوبؑ نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے عجز و انکساری اور کمزوری لاحق ہے اور تو سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہےتاکہ میری کمزوری دور ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں جواب دیا ان کے روحانی احوال کو تبدیل کرنے کے ساتھ اور ان پر سکینت نازل کی جس کی وجہ سےا نھیں کمال طمانیت حاصل ہوئی اور جو ریاضت کی تکلیف تھی اس کو نورِ ہدایت کے ساتھ دور کر دیا اور ان کے دل پر ایسا نور نازل کیا جس سے تکلیف کی ظلمت دور ہو گئی اور وہ مزید لکھتے ہیں کہ’’وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ‘‘ میں ’’اَهْلَهٗ ‘‘سے مراد وہ نفسی قویٰ ہیں جن کا ہم نے ان کو مالک بنایا اور حیات حقیقی کے ساتھ ان کو زندہ کر دیا۔اور ’’وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ‘‘سے مراد وہ امدادی قویٰ روحانیہ اور قلبی صفات کو منور کرنا ہے اور یہ کہ ہم نے ان کو بہت زیادہ فضائل خلقیہ کے اسباب اور علوم نافعیہ کے احوال سے کثیر حصہ دیا ہے۔) الزرقانی، مناہل العرفان، ۲/۷۰(
  10. ( )الغزالی، محمد، المنقذ من الضلال (بیروت: دارالاندلس للطباعۃ والنشر)،ص: ١١٧،٦٩،٦٢
  11. () زروق، احمد، قواعد التصوف، تحقیق: غلام شمس الرحمٰن، مقالہ پی ایچ ڈی، جامعہ ایگزیٹر، ۲۰۱۰ء)، ۲/۵۷
  12. ( )زروق، قواعد التصوف، ۲/۲۷
  13. ( )التوبہ: ۱۲۳
  14. (15 )الزرقانی، مناہل العرفان، ۲/۶۲ ؛الزرکشی، محمد بن عبد اللہ، البرہان فی علوم القرآن ، تحقیق :ابوالفضل الدمیاطی (القاہرہ: دارالحدیث ، ٢٠٠٦) ص، ٤٣٠-٤٢٩
  15. ( )السیوطی، جلال الدین: الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق: فواز احمد زمرلی، (بیروت: دارالکتاب العربی، ٢٠١١)، ص٨٧٤
  16. () العنکبوت: ۶۹
  17. () الزرقانی، مناھل العرفان، ۲/۶۴
  18. ( )Bowering, Mystical Vision,PP.26-113.
  19. ( )المیبودی، ابو الفضل رشید الدین، کشف الاسرار وعدۃ الابرار، (تہران، ۶۰۔۱۹۵۲)؛الشیرازی، روز بہان بن ابی نصر البقلی، عرائس البیان فی حقائق القرآن،) بیروت: دارالکتاب العلمیۃ(
  20. () البقرۃ: ۲۶۰
  21. ( )التستری، سھل بن عبد اللہ، امام، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: طہ عبد الروف سعد و سعد حسن محمد علی، (القاھرۃ ، دارالکتاب، ٢٠٠٤)، ص، ١٠٨-١٠٧؛ Al-Tustari, Sahl b. Abd Allah, Tafsir al-Tustari, trans. Annabel Keeler and Ali Keeler, (Fons Vitae, Louisville, KY, 2011), pp. 29-30.
  22. () السیوطی، جلال الدین، طبقات المفسرین، (لیدن: ١٨٣٩) ص، ٣١
  23. ()الزرقانی، مناھل العرفان، ۲/۶۲؛ الذھبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، (القاھرۃ: مکتبۃ وھبۃ)، ۲/۸۶۔۲۸۴
  24. ()الحج: ۶۳
  25. () السلمی، حقائق التفسیر ، ص: ۳۸ ۱
  26. () الرحمٰن: ۱۱
  27. () السلمی، حقائق التفسیر ، ص: ۳۴۴
  28. () التوبہ: ۶۰
  29. ()القشیری، عبدالکریم بن ہوازن، لطائف الاشارات، تحقیق: ابراہیم بسیونی، (مصر: الھیئۃ المصریۃ العامۃ لکتاب۔) ٢/٤٠-٣٧
  30. () لقمان: ۲۷
  31. () الکہف: ۱۰۹
  32. () الشیرازی، ابو محمد روز بہان بن ابی نصر، عرائس البیان فی حقائق القرآن، (بیروت: دار الکتب العلمیہ)، ۱/۱۳۔۱۲
  33. ()1لتوبہ: ۹۱
  34. () الشیرازی، عرائس البیان، ۲/ ۶۳
  35. () الرحمٰن: ۱۱
  36. ()التوبہ: ۹۱
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...