Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

سنت ترکیہ کی شرعی حیثیت: ایک تحقیقی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_848

Pages

240-253

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/107

Subjects

Sunnat-e-Turkia Shariah Prophet Muhammad (S.A.W.)

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Sunnat-e- Tarkia is a specific term. It refers to the deeds of Prophet Muhammad ﷺ which he willingly gave up due to certain aims of Shariah. According to Islamic Shariah, in the chapter of worship, Sunnat-e-Tarkia is as significant and compulsory worship as the other deeds and commands of Prophet Muhammadﷺ . It is not possible to follow commands and prohibitions of Muhammad ﷺ until we understand Sunnat-e-Tarkia and Sunnat-e- Fa'ilia. So, both of these are required in Islamic Shariah, none of these can be ignored. So it is necessary to elaborate the legal value of Sunnate-Tarkia in Islam.

دین کی تعلیم اور تفہیم کا کام نبی اکرم ﷺ کے بنیادی اور اولین فرائض میں شامل تھا جس کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔آپﷺ نے اس فریضۂ دعوت و تبلیغِ دین کو کما حقہٗ ادا کیا کیونکہ آپﷺ کی تعلیمات کے بغیر دین کو اس کی صحیح اور کامل شکل میں سمجھنا ممکن نہ تھا۔نبی اکرم ﷺ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور وضاحت و تبیین کا کام کسی ایک خاص صورت پر نہیں کیا بلکہ حالات و واقعات کے پیش نظر آپ نے مختلف اسالیب و مناہج کو اختیار کیا۔ بعض اوقات قول و ارشاد کی صورت زیادہ کارگر ہوتی تو بعض حالات میں عملی نمونہ پیش کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ بعض اوقات معاشرے کے افراد کی اصلاح کی خاطر زبان نبوت حرکت میں آتی اور بعض اوقات کسی کے جائزکام کو دیکھ کر محض خاموش رہ کر اس کام کو وجہ جواز فراہم فرما دیتے۔غرض آپﷺ نے دین کی تشریح اور تفسیر کو مختلف

انداز سے پیش کیا۔ دین کی شرح و تفسیر کی یہ ساری صورتیں اپنی گونا گوں حیثیتوں اور نوعیتوں کے ساتھ اہل علم کے ہاں معروف اور معلوم ہیں جس پر اپنے وسیع مفہوم میں "سنت" کا اطلاق کیا جاتا ہے، جو قول و فعل اور تقریر و عمل کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

تاہم دینِ متین کی وضاحت کے ضمن میں آپﷺ کی سنت کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سے مسائل میں رسول اکرم ﷺ سے ترک ثابت ہے۔آپﷺ نے اپنے عہد مبارک میں ان امور کو سر انجام نہیں دیا، یعنی فعلی اور عملی سنت کی طرح وہ کام آپ کے عمل کا حصہ نہیں بنا بلکہ آپﷺنےاسےترک کیاہے۔ علمائے اصول ا س کو سنتِ ترکیہ کی اصطلاح سے موسوم کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پیش آمدہ لا محدود مسائل کو حل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ترک کو بطور دلیل اور حجت لیا جاسکتا ہےیا نہیں؟ ایک مجتہد اپنے اجتہاد کے دوران اس ترک کو بنیاد بنا کر کسی شرعی مسئلے کا استخراج کر سکتاہے یا نہیں؟ یا ترک کی وجہ سے کسی مسئلے کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ زیر نظر بحث میں ﷺآپ کی سنت ترک کو بنیاد بنا کر اسی بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کا ترک کسی فعل کے جواز کی دلیل بن سکتا ہے یا نہیں؟سنت ترکیہ کن امور میں دلیل بن سکتی ہے اور کون سے امور اس سے خارج ہیں؟ذیل میں اس بحث کو ذرا کھول کر بیان کیا جاتا ہے تاکہ مسئلے کی صحیح نوعیت سامنے آ سکے۔

سنت کی اقسام

محدثین کے ہاں سنت یا حدیث کی تین اقسام ہیں:

قولی: اس کا اطلاق نبی اکرم ﷺ کے اقوال و ارشادات پر ہوتا ہے۔

فعلی: اس کا اطلاق نبی اکرم ﷺ کے افعال پر ہوتا ہے۔

تقریری: اس سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے کوئی کام ہوا یا آپ کے عہد مبارک میں کوئی کام کیا گیا اور آپ کو اس کا علم بھی ہوا لیکن آپ نے اس کا انکا ر نہ کیا ہو۔(۱)

ترک بھی فعل ہے

جمہور علمائے اصول نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ترک بھی فعل میں شامل ہے۔ ترک کے فعل میں شامل ہونے کے دلائل کتاب و سنت اور لغت عرب میں موجود ہیں، چند دلائل حسب ذیل ہیں:

۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْأحْبَار عَنْ قَوْلِهِمُ الْإثْمَ وَأكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ (۲)

”ان کے مشائخ اور علماء ان یہود کو گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے ؟ بہت برا ہے جو وہ لوگ کیا کرتے تھے ۔“

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے علماء اور احبار کے نھی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کرنے پر " صنع " کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ لفظ "فعل" کی نسبت لفظ" صنع" خاص لفظ ہے،کیونکہ "صنع" میں فعل کو عمدگی سے کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے، اس اعتبار سے ہر" صنع" تو فعل ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر فعل "صنع" بھی ہو۔ (۳)

ارشاد باری ہے:

كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكِرٍ فَعَلُوْهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ (۴)

”وہ ان برائیوں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے، برا ہے جو وہ عمل کرتے تھے۔“ہ محمد امین شنقیطی رقمطراز ہیں:مین شنقیطی رقمطراز ہیں:

” اقسام:ل ہے:سٹیت (ایک تحقیقی مطالعہ)

اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ محمد امین شنقیطی رقمطراز ہیں:

"اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کے نہی عن المنکر ترک کرنے کو عمل سے تعبیر کیا ہے اور یہ لفظ اپنی دلالت میں بالکل واضح ہے۔"(۵)

۳۔ سنت میں اس کی مثال وہ روایت ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده۔ (۶)

”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“

اس حدیث میں دوسرے مسلمانوں کو ایذا پہنچانے کے عمل کوترک کرنے پر لفظ اسلام کا اطلاق کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ترک بھی فعل میں شامل ہے۔

۴۔ عربی لغت میں بھی ترک فعل پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر ایک انصاری صحابی نے کہا تھا:

لئن قعدنا و النبی یعمللذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم بیٹھے رہے اور نبی اکرم ﷺ کام کرتے رہے تو ہمارا یہ عمل درست نہ ہو گا۔)

اس آیت کی وضاحت میں علامہ شنقیطی نے لکھا ہے:

یہاں "قعدنا" کا معنی تعمیر کی مشغولیت کو ترک کر دینا ہے اور اسی ترک کو دوسرے مصرعے میں عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔صاحب المراقی نے کہا ہے:

فکلنا بالنهي مطلوب النبیوالترک فعل فی صحیح المذهب(۷)

(منہی عنہ احکام میں ہم سب نبی اکرم ﷺ کے مطلوب ہیں اور صحیح مذہب کے مطابق ترک بھی فعل ہے۔)

سنت کی مزید دو اقسام

مذکورہ بالا دلائل سے جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ترک بھی فعل میں شامل ہےتو کام کرنے یا اسے ترک کرنے کے اعتبار سے سنت مزید دو اقسام میں تقسیم ہو جاتی ہے اور وہ دو اقسام یہ ہیں:

۱۔ سنت فعلیہ

۲۔ سنت ترکیہ(۸)

سنت فعلیہ کا مفہوم تو بالکل واضح ہے، اس میں نبی اکرمﷺ کی عبادات اور معمولات کو بیان کیا جاتا ہے، مثلاً آپﷺ نےنماز اس طرح ادا کی، ذکر یوں کیا وغیرہ۔لوگوں میں سنت فعلیہ کو نقل و بیان کرنے کا عموما رجحان بھی زیادہ رہا ہے،تاہم یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سنت فعلیہ کی طرح سنت ترکیہ بھی ہوتی ہے جس کی معرفت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے، خاص طور پر سنت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور پہچان سنت کی مذکورہ دونوں اقسام کے علم اور تعارف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے ترک کی اقسام

سنتِ ترکیہ کی تعریف سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ترک کی مختلف اقسام کا جائزہ لے لیا جائے تاکہ زیر بحث موضوع کے تمام پہلو اپنی پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آ جائیں ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ کے ترک کی اقسام درج ذیل ہیں:

۱۔ وہ افعال جن کو نبی اکرم ﷺ نے جبلت اور عادت کے تحت ترک کیا، مثال کے طور پر" ضب" کا گوشت نہ کھانا(۹)، کسی کام کو بھول جانا وغیرہ۔(۱۰)

۲۔وہ افعال جو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص تھے اور آپ نے اسی خصوصیت کے پیش نظر انہیں ترک کیا، مثلا لہسن نہ کھانا وغیرہ۔(۱۱)

۳۔وہ افعال جن کو آپ نے کسی شرعی رکاوٹ یا شرعی مصلحت کے پیش نظر ترک کیا، مثلا رمضان میں نماز تراویح باجماعت پڑھانا ترک کر دیا اس ڈر سے کہ کہیں وہ فرض نہ ہو جائے(۱۲)، خانہ کعبہ کو مسمار کر کے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا خیال ترک کر دیا اس لیے کہ قریش مکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ان کی تالیف قلب مقصود تھی وغیرہ۔(۱۳)

۴۔ وہ افعال جن کو آپ نے تشریعی مقاصد کو پورا کرنے اور شریعت کی وضاحت و بیان کی خاطر ترک کیا ، مثلاً عیدین کے لیے اذان اور اقامت ترک کرنا وغیرہ ۔(۱۴)

سنت ترکیہ کی اصطلاح جب استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد ترک کی یہی چوتھی قسم ہوتی ہے، یعنی جن امور کو نبی اکرم ﷺ نے تشریعی مقاصد کی خاطر چھوڑا اور ترک کیا ہے آپ کا وہ ترک ہمارے لیےاسی طرح قابل حجت ہے جس طرح آپ کا فعل ہمارے لیے قابل حجت ہے۔(۱۵)

سنت ترکیہ کی تعریف

مختلف علماء نے اس کی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہے جن کا مدعا اور مفہوم تقریبا ایک ہی ہے۔ذیل میں ہم ایک تعریف نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اور دیگر علماء نے اختیار کیا ہے:

"سبب موجود ہو اور مانع کوئی نہ ہو اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ غیر فطری فعل سے سکوت اختیا ر کریں تو اس فعل کو سنت ترکیہ کہا جائے گا۔" (۱۶)

اس تعریف کی رو سے وہ تمام امور سنت ترکیہ سے خارج ہوتے ہیں جن کو نبی اکرم ﷺ نے عدم قدرت کی بنا پر ترک کیاہے یا جن کو ترک کرنے کے اس وقت کے حالات متقاضی تھے یا موانع موجود تھے یا جن کو کسی عادت ، جبلت یا خصوصیت کی وجہ سے ترک کیاہے۔

سنت ترکیہ کی شرائط

مندرجہ بالا تعریف سے سنت ترکیہ کی درج ذیل شرائط مترشح ہوتی ہیں:

۱۔سبب کا موجود ہونا۲۔ مانع کا نہ ہونا۳۔ فعل کا عادی اور جبلی نہ ہونا

اب ہم ان شرائط کو ذرا وضاحت سے بیان کرتے ہیں:

۱۔ سبب کا موجود ہونا

اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فعل کا سبب موجود تھا مگر باوجود اس سبب کے پائے جانے کے آپ نے اس فعل کو سر انجام نہیں دیا، مثال کے طور پر نماز عید با جماعت مشروع ہے اور لوگوں کو باجماعت جمع کرنے کے لیے اعلان کی ضرورت ہے ، یہ اعلان اذان کی صورت میں دیگر نمازوں کے لیے موجود تھا۔ اب نماز عید کے لیے اذان دینے کا سبب ( لوگوں کو جمع کرنا) عہد رسالت میں موجود تھا مگر اس کے باوجود آپ نے اذان نہیں کہی تو یہ اذان نہ کہنا سنت ترکیہ ہے جس کی تعمیل لازمی ہے۔امام شاطبی ؒنے فرمایا:

أن يسكت عنه وموجبه المقتضي له قائم، فلم يقرر فيه حكم عند نزول النازلة زائد على ما كان في ذلك الزمان؛ فهذا الضرب السكوت فيه كالنص على أن قصد الشارع أن لا يزاد فيه ولا ينقص لأنه لما كان هذا المعنى الموجب لشرع الحكم العملي موجودا ثم لم يشرع الحكم دلالة عليه؛ كان ذلك صريحا في أن الزائد على ما كان هنالك بدعة زائدة، ومخالفة لما قصده. (۱۷)

”سبب ہونے کے باوجود شارع نے کسی فعل سے سکوت اختیا ر فرمایاہے اور نزول حوادث کے باوجود اس میں کوئی نیا حکم جاری نہیں کیا تو ایسے احکام میں شارع کا سکوت نص کی طرح ہے اور شارع کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ اس میں نہ کمی کی جائے اور نہ زیادتی۔ کیونکہ جب کسی عملی حکم میں سبب موجود ہے لیکن اس سبب کے باوجود شارع نے اس کو مشروع قرار نہیں دیا تو یہ صریح دلالت ہے کہ وہ فعل بدعت ہے اور شارع کی منشا کے خلاف ہے۔“

۲۔ مانع کا نہ ہونا

دوسری شرط یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس فعل پر عمل کرنے کی راہ میں کوئی مانع نہ ہو۔ کیونکہ مانع کے نہ ہونے کے باوجود جب آپﷺ نے وہ کام نہیں کیا تو اس کا صاف مطلب یہی ہےکہ شریعت ہم سے بھی وہ عمل ترک کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔اگر عہد رسالت میں کوئی مانع یا رکاوٹ موجود تھی جس کی وجہ سے آپﷺ نے اس فعل کو ترک کیا تو اس صورت میں اس فعل کا شمار سنت ترکیہ میں نہیں ہو گا، یعنی اس کی تعمیل لازمی اور ضروری نہیں ہو گی۔

مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے نمازتراویح باجماعت ادا کرنا ترک کر دی تھی اس ڈر سے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے۔ تو اس میں "فرض ہونا" ایک مانع تھا جس کی وجہ سے آپﷺ نے نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنا ترک کیا تھا۔ یہ مانع رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زائل ہو گیا اور نماز تراویح کو باجماعت ادا کیا جانے لگا۔ لہٰذا اس مسئلے میں رسول اللہ ﷺ کے اس ترک کو دلیل بنا کر نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کو ناجائز کہنا درست نہیں ہے کیونکہ عہد رسالت میں مانع کے پائے جانے کی وجہ سے آپﷺ کا یہ ترک سنت ترکیہ میں شامل نہیں ہے۔

۳۔فعل کا عاد ی اور جبلی نہ ہونا

تیسری شرط یہ ہے کہ اس فعل کا تعلق جبلی اور عادی افعال سے نہ ہو بلکہ اس کا تعلق عبادات سے ہو۔ عادی افعال ، مثلا: سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھنا پینا وغیرہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کی امت کے لیے مباح ہیں ، یہ سنت ترکیہ میں شامل نہیں ہیں۔(۱۸)

سنت ترکیہ کو نقل کرنے کے طریقے

سنت ترکیہ کو نقل کرنے اور پہچاننے کے دو طریقے ہیں جو درج ذیل ہیں:

۱۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ کسی صحابی کی طرف سے صریح نص آ جائے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس عمل کو چھوڑا اور ترک کیا ۔ مثال کے طور پر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز عید اذان اور اقامت کے بغیر ادا کی۔(۱۹)

اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو رکن یمانی کے علاوہ کسی رکن کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔(۲۰)

۲۔ ترک کو پہچاننے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی نقل و روایت اور دعوت و تبلیغ کی شدید خواہش کے باوجود کسی صحابی سے اس فعل کا منقول نہ ہونا ہے۔یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وہ فعل سر انجام نہیں دیا۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے اس فعل کو سرانجام دیا ہوتا تو صحابہ کی کوششوں اور اسباب و دواعی کے بھر پور پائے جانے کی وجہ سے کوئی ایک صحابی یا کئی صحابہؓ اسے ضرور نقل فرماتے ۔ جب کسی محفل میں اس کے متعلق بات نہیں ہوئی نہ کسی صحابیؓ نے اسے نقل کیا تو معلوم ہوا کہ وہ فعل سرزد نہیں ہوا ۔(۲۱)

لہٰذا اس صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ اس فعل کو اسی طرح ترک کیا جائے جس طرح نبی اکرم ﷺ نے اسے چھوڑا اور ترک کیا ہے۔

سنت ترکیہ کے محمولات

جن احکام پر سنت ترکیہ کا اطلاق ہوتا ہے ان کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ عبادات۲۔ عادات

۱۔ عبادات

عبادات میں اصل توقیف ہے، صرف وہی عبادات مشروع ہیں جن کو شارع نے جائز اور مشروع کہا ہے اور جن عبادات کو شارع نے چھوڑا یا سکوت اختیار کیا ہے ان کو چھوڑنا ہی واجب ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زجر و توبیخ کی ہے جنہوں نے شریعت سازی کو اپنے ہاتھوں میں لیا، چنانچہ فرمایا:

أمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَأذَنْ بِهِ الله۔(۲۲)

”کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے دین میں ایسے طریقے وضع کر لیے جن کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔“

نیز رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد۔(۲۳)

”جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے امام احمدؒ اور جمہور فقہائے محدثین کے حوالے سے نقل فرمایا ہے:

إن الأصل في العبادات التوقيف، فلا يشرع منها إلا ما شرعه الله تعالى۔(۲۴)

”عبادات میں اصل توقیف ہے،وہی عبادات جائز ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیاہے۔“

اسی طرح حافظ ابن قیمؒ رقمطراز ہیں:

ولا دينا إلا ما شرعه الله، فالأصل في العبادات البطلان حتى يقوم دليل على الأمر۔(۲۵)

”دین وہی ہے جس کو شارع نے مشروع قرار دیا، جب تک عبادات کو بجا لانے کا حکم نہ آ جائے اس وقت تک ان میں اصل بطلان ہے۔“

چنانچہ ثابت ہوا کہ عبادات وہی مشروع ہیں جن کو شارع نے جائز قرار دیا ہے اور جن عبادات کو آپﷺ نے ترک کیا یا چھوڑا ہے ان میں آپﷺ کا ترک ہمارے لیے حجت اور واجب العمل ہے۔

۲۔ عادات

عادات میں اصل یہ ہے کہ عادی اور جبلی امور مباح ہیں جب تک ان کی حرمت کی دلیل نہ آ جائے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأرْضِ جَمِيْعاً۔(۲۶)

”اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔“

اس قاعدے کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتےہیں:

والعادات الأصل فيها العفو، فلا يحظر منها إلا ما حرمه۔(۲۷)

”عادات میں اصل "عفو" ہے ، صرف وہی عادی امور ممنوع ہیں جن سے اللہ نے منع کیاہے۔“

اور امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں:

والأصل في العقود والمعاملات الصحة حتى يقوم دليل على البطلان والتحريم۔(۲۸)

”عقود اور معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ صحیح ہیں جب تک ان کے حرام اور باطل ہونے کی دلیل قائم نہ ہو جائے۔“

لہٰذا جبلی اور عادی افعال کی حرمت کے بارے میں جب تک دلیل نہیں آجاتی وہ حلال اور مباح ہیں ، یعنی عادی اور جبلی امور میں آپ کا ترک ہمارے لیے حجت اور واجب العمل نہیں ہے۔

سنت ترکیہ اور عبادات کی صورتیں

ہم شریعت میں عبادات سے متعلقہ احکام کا مطالعہ کرتے ہیں تو دو طرح کے احکام ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ غیر معقول المعنی

۲۔ معقول المعنی

۱۔ غیر معقول المعنی

اس سے مراد ایسے احکام ہیں جن کی علتوں کا ادراک ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔ ان افعال کو بعینہٖ اسی طرح ترک کرنا واجب ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ترک کیا اور اگر ہم ان کا ارتکاب کریں گے تو وہ عین بدعت ہو گی کیونکہ اس سنت ترکیہ پر عمل کرنے والے کا مقصد اللہ تعالی کا تقرب ہے، یہ سبب ( تقرب الہٰی) رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے سبب کے پائے جانے کے باوجود اس فعل کو نہیں کیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ فعل عبادت اور قرب الہٰی کا باعث بالکل بھی نہیں ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا:

فأما ما تركه من جنس العبادات مع أنه لو كان مشروعا لفعله أو أذن فيه ولفعله الخلفاء بعده والصحابة، فيجب القطع بأن فعله بدعة وضلالة، ويمتنع القياس بمثله۔(۲۹)

”عبادات میں سے جن کو رسول اللہ ﷺ نے ترک کیا اگر وہ متروک عبادات جائز ہوتیں تو آپ ﷺ ان کو ضرور سر انجام دیتے یا آپ اس کی اجازت دے دیتے اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام اس پر عمل کرتے (جب ایسا نہیں ہے ) تو قطعی طور پر وہ فعل بدعت اور ضلالت ہے اور اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔“

اس کی مزید وضاحت ایک مثال سے بھی کی جاسکتی ہے کہ فرض نمازوں کے لیے اذان مشروع ہے اور عیدین کے لیے نبی ﷺ نے اذان کا حکم نہیں دیا۔ اب عیدین کے لیے اذان کیوں نہیں؟ اس کی علت غیر معقول المعنی ہے اس لیے اگر کوئی شخص عیدین کے لیے اذان کہے گا تووہ عین بدعت کا مرتکب ہو گا۔امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا:

”جب شارع نے جمعہ کے لیے اذان کا حکم دیا ہے اور عیدین کی نماز بغیر اذان اور بغیر اقامت کے ادا کی ہے تو آپ کا ترک اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عیدین میں اذان کا ترک کرنا ہی سنت ہے۔ اب کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس میں اضافہ کرے۔ اس میں اضافہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے نمازوں اور رکعات کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔“ (۳۰)

۲۔ معقول المعنی

اس سے مراد وہ افعال ہیں جن کی علت کا ادراک انسانی عقل کر سکتی ہے، چونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایسا کوئی سبب سامنے نہیں آیا جس کی بنا پر اس فعل کو سر انجام دیا جاتا یا کوئی مانع موجود تھا جس کی وجہ سے اس کا ظہور نہیں ہو سکا۔

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب اس فعل کا سبب ظاہر ہوگا یا وہ مانع دور ہو جائے گا تو اس کا حل شریعت کے اصول اور کلی قواعد کی روشنی میں تلاش کیا جائے گا۔ اگر ان کا حل شریعت میں مل جائے تو وہ افعال بھی منصوص علیہ کی طرح ہیں اور اس کے حکم میں شامل ہیں۔امام شاطبیؒ نے فرمایا:

”اس قسم کو مسکوت عنہ کا نام دیا گیا ہے ، حالانکہ یہ مسکوت عنہ نہیں ہے بلکہ منصوص ہے یا منصوص پر قیاس ہے یا نصوص کےعموم میں شامل ہے کیونکہ شریعت کے قواعد و مقاصد اس کے حکم پر دلالت کرتے ہیں۔“ (۳۱)

امام ابن تیمیہؒ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”رسول اللہ ﷺ کا کسی فعل کو ہمیشہ چھوڑنا بھی سنت ہے اور کسی فعل کو ہمیشہ کرنا بھی سنت ہے ( ہمارے لیے سنت ترکیہ میں ترک سنت ہے اور سنت فعلیہ میں فعل سنت ہے) البتہ وہ افعال جن کو اسباب و شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے یا مانع کے پائے جانے کی وجہ سے ترک کیا اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وہ اسباب و شرائط پائی گئیں یا موانع دور ہو گئے اور شریعت میں اس فعل کے کرنے کی دلیل موجود ہے تو پھر اس سنت ترکیہ پر عمل کرنا خلاف سنت نہیں ہے، جیسا کہ مصاحف میں قرآن حکیم کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔“ (۳۲)

اس مسئلے کو سمجھنے میں بعض لوگوں نے غلطی کی ہے اور اس کو بدعات میں شمار کر دیا ہے، بعد ازاں جب ان کے سامنے جمع القرآن جیسے اہم مسائل آئے تو انھوں نے مزید الجھ کر بدعات کو واجب ، مستحب اور مباح میں تقسیم کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مصالح مرسلہ کی ایک صورت ہے جس کی اصل شریعت میں موجود ہوتی ہے اور شریعت کے کلی قواعد اس کو شامل ہوتے ہیں۔

ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اجتہاد کا دروازہ بھی انھی احکا م کی طرف کھلتا ہے۔ بعض اوقات شارع کسی ایسے فعل سے سکوت اختیار کرتا ہے جس کا داعیہ اور سبب موجود نہیں ہوتا، بعد ازاں جب اس کے اسباب و دواعی پیدا ہو جاتے ہیں تو اہل فکر و نظر کو ان میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہےاور شریعت کے کلی اصول و قواعد کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد قرآن مجید کو جمع کرنے اور علوم کو مدون کرنے جیسے جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کا تعلق اسی قسم سے ہے۔ ان تمام فروعی مسائل کو شریعت کے طے شدہ اور مقررہ اصولوں کی روشنی ہی میں دیکھا جائے گا۔اگر ان کی علتیں سابقہ شرعی احکام کی علتوں اور مصلحتوں کے موافق ہوں گی تو ان کو بھی منصوص علیہ ہی شمار کیا جائے گا۔(۳۳)

سنت ترکیہ اور عادات کی خاص صورتیں

عادی امور مباح ہیں ، جب تک ان کی حرمت کی دلیل نہیں مل جاتی وہ جائز ہیں ، لیکن دو حالتیں ایسی ہیں جن میں عادی امور کا ترک حرام اور ناجائز ہو جاتا ہے:

۱۔ پہلی حالت یہ ہے کہ مباحات کو حرام سمجھ کر ترک کیا جائے تو اس صورت میں ان کا ترک حرام ہے ۔

۲۔دوسری حالت یہ ہے کہ انہیں بغرض عبادت ترک کیا جائے یا ان عادی امور میں تقرب پایا جائے اور شریعت کے التزام کے بغیر کسی چیز کی پابندی کر کے اس پر اجر و ثواب کی امید رکھی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گفتگو کرنا اور خاموش رہنا دونوں مباح ہیں لیکن اگر کوئی شخص خاموش رہنے کو عبادت سمجھے اور اس پر اجر و ثواب کی امید رکھے اور اس کو سنت قرار دے تو اس اعتبار سے اس کا یہ عمل درست نہیں ہو گا۔صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ابو اسرائیل نامی شخص نے نذر مان لی کہ وہ گفتگو نہیں کرے گا، سایہ میں نہیں بیٹھے گا،روزہ افطار نہیں کرے گا اور ہمیشہ کھڑا ہی رہے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مره فليتكلم وليستظل وليقعد وليتم صومه۔(۳۴)

”اس کو حکم دو کہ کلام کرے، بیٹھ جائے، سایہ میں چلا جائے اور روزہ مکمل کرنے کے بعد افطار کرے۔“

اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ رقمطراز ہیں:

”ہمیشہ خاموش رہنا بدعت ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔“ (۳۵)

لہٰذا جو امور مباح ہیں ان کو مباح سمجھ کرہی کرنا چاہیے۔

سنت ترکیہ کی حجیت کے دلائل

اسلامی شریعت میں سنت ترکیہ کے حجت ہونے کے چند دلائل درج ذیل ہیں:

۱۔ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے تین صحابہ آپﷺ کے گھر آتے ہیں اور سیدہ عائشہ سے آپ کی عبادت کی بابت دریافت کرتے ہیں۔جب انہیں ﷺآپ کی عبادت کے بارے بتایا گیا تو انہوں نے آپﷺ کی عبادت کو کم خیال کیا اور کہنے لگے: کہاں ہم جیسے گناہ گار اور کہاں نبی اکرم ﷺ کی ذات والا صفات! اللہ نے تو آپﷺ کے اگلے پچھلے سارے گناہوں کو بخش دیا ہے۔چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات قیام کروں گا اور آرام نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہاکہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہاکہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ نبی اکرم ﷺ کو پتہ چلا تو آپﷺ نے ان کی تحسین اور تعریف کے بجائے فرمایا:

” کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟ اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہوں، اس کے باوجود میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں اور میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ لہٰذا جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے۔“ (۳۶)

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان صحابہ نے نبی اکرم ﷺ کی سنت ترکیہ کو دلیل خیال نہیں کیا اور اسی بنیاد پر آپ کی سنت ترکیہ کے خلاف عمل کرنے کا ارادہ کیاجس پر نبی اکرم ﷺ نے انھیں خبردار کیا اور سنت ترکیہ کی حجیت اور حیثیت کو ان کے سامنے واضح کیا۔

۲۔ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ میں شیبہ کے پاس اس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے کہا : میرے پاس حضرت عمرؓتمہاری اسی بیٹھنے کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہاں سونا چاندی کچھ بھی نہ چھوڑوں بلکہ اس کو مسلمانوں میں بانٹ دوں۔ میں نے کہا: آپؓ ایسا نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا: کیوں ؟ میں نے کہا : اس لیے کہ آپؓ کے دونوں ساتھیوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ دونوں ایسے تھے جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔ (۳۷)

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں میں مال تقسیم کرنا چاہا، مگر جب شیبہ نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپﷺ کے بعد سیدنا ابو بکرؓ نے یہ کام نہیں کیا تو حضرت عمر ؓنے ان کے عمل کے خلاف عمل کرنے کا خیال تک دل سے نکال دیا ۔ اس لیے کہ سیدنا عمرؓ کا عقیدہ تھا کہ ان دونوں کی اقتدا واجب ہے۔ “ (۳۸)

اس روایت سے اور حافظ ابن حجرؒ کی وضاحت سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ترک بھی دلیل اور حجت ہے جسے سنت ترکیہ کہا جاتا ہے۔

۳۔ معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : حائضہ عورت کا کیا معاملہ ہے؟وہ روزے کی قضا دیتی ہے جبکہ نماز کی قضا نہیں دیتی؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا جبکہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔(۳۹)

اس روایت میں حضرت عائشہؓ نے نماز کی قضا نہ دینے کے حکم کی بنیاد سنت ترکیہ کو قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ سنت ترکیہ بھی حجت اور قابل اعتبار ہے۔

اہل علم کے اقوال

سنت ترکیہ کی حجیت کو بے شمار علماء نے تسلیم کیا اور اس کے اثبات پر بحث کی ہے۔ چند علماء کے اقوال حسب ذیل ہیں:

۱۔ امام شافعیؒ نے فرمایا:

وللناس تبر غيره من نحاس وحديد ورصاص، فلما لم يأخذ منه رسول الله ولا أحد بعده زكاة تركناه اتباعا بتركه۔(۴۰)

” لوگوں کے پاس دوسری دھاتیں مثلا پیتل، لوہا اور سیسہ بھی تھیں، ان پر نہ رسول اللہ ﷺ نے اور نہ آپ کے بعد کسی حکمران نے زکاۃ عائد کی تو ہم بھی آپ کی اتباع میں ان کی زکاۃ ترک کر دیں گے۔“

۲۔ اما م ابن خزیمہؒ نے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ میں سنت ترکیہ کی حجیت کو ثابت کرنے کے لیے ایک باب قائم کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

باب ترك الصلاة في المصلى قبل العيدين وبعدها اقتداء بالنبي واستنانا به۔(۴۱)

” نبی اکرم ﷺ کی اقتدا اور آپ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے عید گاہ میں نماز عید سے پہلے اور بعد میں نماز نہ پڑھنا۔“

۳۔ امام زرکشیؒ رقمطراز ہیں:المتابعة كما تكون في الأفعال تكون في التروك۔(۴۲)

” جس طرح افعال میں پیروی ہوتی ہے اسی طرح ترک میں پیروی ہوتی ہے۔“

۴۔علا مہ شوکانیؒ نے فرمایا:تركهﷺ للشيء، كفعله له في التأسي به فيه۔(۴۳)

” اقتدا کرنے میں نبی اکرم ﷺ کا ترک آپ کے فعل کی طرح ہے۔“

درج بالا دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح سنت فعلیہ حجت ہے اسی طرح سنت ترکیہ بھی حجت ہے۔ لہٰذا جب سنت ترکیہ اپنی تمام شرائط پر پوری اتر رہی ہوتو اس پر بھی اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح سنت فعلیہ پر عمل کیا جاتا ہے۔ اسلامی شریعت میں دونوں ہی مطلوب العمل ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو کما حقہ سمجھنا اور پھر اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنا ممکن نہیں ہے۔

zz

حوالہ جات

۱۔دہلوی، عبد الحق، مقدمۃ فی اصول الحدیث،دار البشائر الاسلاميۃ ، بیروت،الطبعۃ الثانيۃ ،۱۴۰۶ھ،ص۳۷

۲۔المائدہ:۶۳

۳۔مناوی، زین الدین، عبد الرؤف بن تاج العارفین، التوقیف علی مہمات التعریف، باب الصاد، فصل النون]الصنع[ ،قاہرہ، عالم الکتب،۱۴۱۰ھ،ص۴۶۳

۴۔المائدہ:۶۳

۵۔شنقیطی، محمد امین بن محمد مختار، علامہ، مذکرۃ فی اصول الفقہ، المدینۃ المنورۃ،مکتبۃ العلوم والحکم،ص۳۹

۶۔بخاری، محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح، دارالسلام للنشر والتوزیع،الریاض،الطبعۃ الثانیۃ ۱۹۹۹ء،ص۵ ،رقم الحدیث۱۰

۷۔شنقیطی، مذکرۃ فی اصول الفقہ ، ص۳۹

۸۔ابن قیم، محمد بن ابو بکر، اعلام الموقعین عن رب العٰلمین، بیروت، دار الجیل،۱۹۷۳ء،۲؍۳۹۰

۹۔بخاری، الجامع الصحیح ،رقم الحدیث:۵۳۹۱، ص۹۶۳

۱۰۔ایضاً،رقم الحدیث:۴۰۱، ص۷۰

۱۱۔ایضاً،رقم الحدیث:۷۳۵۹،ص۱۲۶۵

۱۲۔ ایضاً،رقم الحدیث:۷۲۹۰، ص۱۲۵۴

۱۳۔ ایضاً،رقم الحدیث:۳۳۶۸، ص۵۶۴

۱۴۔ ایضاً، رقم الحدیث:۹۵۹۔۹۶۰،ص۱۵۴

۱۵۔ جیزانی، محمد بن حسین، سنۃ الترک و دلالتھا علی الاحکام، دار ابن الجوزی، بیروت،۱۴۳۱ ھ، ص۳۱

۱۶۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، اقتضاء الصراط المستقیم، تحقیق:د. ناصر عبدالكريم العقل،مكتبۃ الرشد،الریاض،۲؍۱۰۳

۱۷۔شاطبی، ابراہیم بن موسی ،الموافقات،دار ابن عفان،قاہرہ،۱۴۱۷ھ،۳؍۱۵۷

۱۸۔ غامدی، سعید بن ناصر،حقیقۃ البدعۃو احکامھا، مکتبہ الرشد،الریاض،الطبعۃ الثالثۃ۱۴۱۹ ھ،۲؍۴۴

۱۹۔ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث،السنن، دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض،۲۰۰۹ء،رقم الحدیث:۱۱۴۷،ص۲۳۷

۲۰۔ مسلم بن الحجاج، الجامع الصحیح، دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض، الطبعۃ الثانیۃ،۲۰۰۰ء، رقم الحدیث:۱۲۶۹، ص۵۳۵

۲۱۔ ابن قیم، اعلام الموقعين ،۲؍۳۸۹ ـ ۳۹۱

۲۲۔الشوری:۴۲

۲۳۔بخاری، الجامع الصحیح، ص:۴۴۰، رقم الحدیث : ۲۶۹۷۔

۲۴۔ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی،اسکندریہ،دارالوفاء،۱۴۲۶ھ،۲۹؍۱۷

۲۵۔ابن قیم، اعلام الموقعين ، ۱؍۳۴۴

۲۶۔البقرۃ:۲۹

۲۷۔ابن تیمیہ ، مجموع الفتاوی، ۲۹؍۱۶ـ۱۷

۲۸۔ابن قیم، اعلام الموقعين ، ۱؍۳۴۴

۲۹۔ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، القواعد النورانیۃ الفقہیۃ، قاہرہ،مكتبۃ السنۃ المحمديۃ ،۱۳۷۰ھ،قاہرہ،ص۱۰۲

۳۰۔ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم، ۲؍۱۰۳

۳۱۔شاطبی، الموافقات، ۱؍۱۷۳

۳۲۔ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ۲۶؍۱۷۲

۳۳۔شاطبی، الموافقات، ۳؍۱۵۷

۳۴۔بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث :۶۷۰۴،ص۴۴۲

۳۵۔ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ۱۱؍۲۰۰

۳۶۔بخاری، الجامع الصحیح ،رقم الحدیث:۵۱۶۳، ص۹۲۳

۳۷۔ ایضاً، رقم الحدیث: ۷۲۷۵،ص۱۲۵۲

۳۸۔ ابن حجر، احمد بن علی ، فتح الباری،دار المعرفۃ،۱۳۷۹ھ،بیروت،۱۳؍۲۶۶

۳۹۔ مسلم، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۳۳۵،ص149

۴۰۔شافعی، محمد بن ادریس، امام، الرسالۃ،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،ص۱۹۴

۴۱۔ابن خزیمہ ، محمد بن اسحاق، صحیح ابن خزیمہ،تحقيق : د. محمد مصطفى الاعظمی، المكتب الاسلامی ،بیروت،۱۳۹۰ھ،۲؍۳۴۵

۴۲۔زرکشی، محمد بن بہادر،البحر المحیط فی اصول الفقہ،دار الكتب العلميۃ ،بیروت،۱۴۲۱ھ،۳؍۲۶۰

۴۳۔شوکانی، محمد بن علی، ارشاد الفحول الي تحقيق الحق من علم الاصول،دار الكتاب العربي،لبنان،۱۴۱۹ھ، ص۱۱۹

 

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...