Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

سودی نظام کے بعض اہم شبہات اور ان کا رد |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_850

Pages

160-173

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/112

Subjects

Usury Islamic Injunctions Misconception Assessment Counter measure

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

دنیا میں دو معاشی نظاموں کی باہمی سرد جنگ میں اشتراکیت کوشکست ہونے پر عالمی سطح پرسرمایہ دارانہ نظام کے جابرانہ تسلط کے سامنے اگر کوئی نظام سدّ سکندری باندھ سکتا ہے تو وہ اسلامی معاشی نظام ہے آج ایک طرف معیشت پر سودی اداروں کا غلبہ ہے اور دوسری طرف مسلم معیشت دان گذشتہ 50 برس سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کوشاں ہیں کہ اسلامی غیر سودی نظام معیشت کے خدوخال واضح کر کے انہیں معیشت کے لیےقابل عمل اور فائدہ مند بنا کر دنیا کے

معاشی مسائل کو حل کیا جائے تا کہ دنیاوی ترقی بھی قابل فخر ہو اور اخروی کامیابی بھی انسان کا زیور ہو۔ ظہور اسلام سے بہت پہلے قائم ہونے والے سودی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس کے کارندے بہت ہوشیار ہیں اور ہر زمانے میں وہ انسانی نفسیات کا مطالعہ کر کے ایسی ایسی نئی سودی ایجادات معاشرے میں متعارف کرواتے ہیں کہ عام انسان ان کی طرف کشاں کشاں کھنچا چلا جاتا ہے۔ اس لیے آج تک یہ نظام عالمی معیشت پر غالب و منتشر ہے۔ اس کے علاوہ اپنے مد مقابل نظاموں کے خلاف ان کی ہر طرح کی تشہیری مہمات عا مۃ الناس کو کسی بھی متبادل نظام سے دور رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہیں۔

سود کا نظام عتیق مسلسل تشکیک کے ہتھیار پر بھی بہت زیادہ اعتماد کرتے ہوئے لوگوں کو تشویش میں مبتلا رکھنے میں بہت حد تک کامیاب ہے۔ ہر سطح پر مختلف شبہات کی ترویج کے ذریعے یہ لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان میں سے چند اہم شبہات کو اس مقالہ کا محور قرار دیا گیا ہے تاکہ اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے جوابات دیے جائیں۔ ابتداء سود کے حوالے سے شرعی نکتہ نظر اور اس کے دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ آمد کے بعد سود کو معاشرے سے ختم کرنے کا حکم دیا کیونکہ یہ ایک ایسی وبا‌ تشکیل دیتا ہے جس کا سدّ باب کرنے کے لیے قرآن و سنت نے ہر امکان کو بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ سودی نظام کو اللہ و رسولﷺ کی مخالفت اور جنگ قرار دیا گیا ہے۔یہ سود ہے کیا؟

ائمہ کرام نے قرضے پر اضافی رقم بوجہ تاخیرِ وصولی کو سود سے تعبیر کیا ہے۔ احناف کے نزدیک:

الربا هو الفضل الخالی عن العوض فی البیع

” ربا خریدوفروخت میں کسی مقابل کے بغیر زیادہ رقم وصول کرنا ہے۔“([1])

هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال

”اس سے مراد مال کے تبادلے میں بغیر عوض کے زیادہ مال وصول کرنا ہے۔“ ([2])

اضافے اور وقت کے تعلق سے ہی سود کا اعتبار کیا جاتا ہے حتی کہ وقت کے ساتھ ساتھ سود میں اضافہ اُسے کئی گنا ”اضعافا مضاعفہ“کی صفت سے متصف کر دیتا ہے جس سے انسانیت کا استحصال جنم لیتا ہے اس کے معاشی ، معاشرتی سیاسی اور دینی مفاسد ہر سطح پر انسانی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں جنکی تفصیل الگ تحریروں کی متقاضی ہے۔ جس طرح تمام احکام ِ شریعت میں تدریج کے اصول کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے تاکہ برائی کا خاتمہ آسانی سے ممکن ہواسی طرح بالتدریج قرآن و سنت کی نصوص ِ قطعیہ ، اجماع ِ امت اور دليلِ معقول سے ربا کی حرمت ثابت ہے۔ قرآن ِ کریم کی چار آیات اس بارے میں درج ذیل ہیں:

۱۔سورۃ الروم میں کراہیت کا اظہار کیا گیا ہے۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ([3])

” اور جو روپیہ تم دیتے ہو بیاج پر تاکہ وہ بڑھتا رہے لوگوں کے مالوں میں (سن لو) اﷲ کے نزدیک یہ نہیں بڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو رضائے الہٰی کے طلبگار بن کر ، پس یہی لوگ ہیں (جواپنے مالوں کو) کئی گنا کر لیتے ہیں۔“

۲۔دوسری آیت میں تحریم ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ([4])

”اے ایمان والو! نہ کھاؤ سود دو گنا اور چوگنا کر کے، اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم فلاح پا جا ؤ۔“

۳۔تیسری آیت میں اللہ و رسول ﷺ سے جنگ کی وعید ہے۔

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ([5])

”جو لوگ سود کھایا کرتے ہیں وہ نہیں کھڑے ہوں گے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ جسے پاگل بنا ہو شیطان نے چُھو کر ،یہ حالت اس لیے ہو گی کہ وہ کہا کرتے تہے کہ سود اگری بھی سود کی مانند ہے حلال فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو اور حرام کیا سود کو ،پس جس کے پاس آئی نصیحت اپنے رب کی طرف سے تو وہ سود سے رُک گیا تو جائز ہے اس کے لیے جو گزر چکا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور جو شخص پھر سود کھانے لگے تو وہ لوگ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا کی تفسیر میں امام طبری مجاہد سے روایت کرتے ہیں([6]) کہ اگر زمانہ جاہلیت میں اگر کسی آدمی کا دوسرے آدمی پر قرض ہوتا تو وہ کہتا اتنے پیسے اور بڑھا دو اور ادائیگی کا وقت بھی بڑھا دو۔

دوسری روایت قتادہ سے ہے کہ ایک مقرہ مدت تک کوئی آدمی کوئی چیز فروخت کرتا اگر خریدار قیمت ادا نہ کر پاتا تو دوکاندار وہ پیسے بڑھا دیتا اور مدت ادائیگی بھی۔

تیسری روایت ”سدی“ سے ہے کہ(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) کی آیت عباس بن عبدالمطلب کے بارے میں نازل ہوئی وہ اور بنی مغیرہ کا ایک آدمی مل کر بنی ثقیف کو سود پر رقم دیتے تھے۔

چوتھی روایت امام ضحاک سے ہےکہ جا ہلیت پر خریدوفروخت ہوتی تھی جب لوگ مسلمان ہوئے تواُنہیں صرف اپنا مال لینے کا حکم ہوا۔

سنت مطہرہ بھی سود کو مہلک امراض میں سے شمار کرتے ہوے رہنمائی فرماتی ہے،ارشاد نبوی ہے :

اجتنبوا السبع الموبقات - يعني المهلكات - قلنا: وما هن يا رسول الله؟ قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات الغافلات المؤمنات ([7])

”سات مہلک چیزوں سے بچو، ہم نے کہا: یا رسول ﷺ وہ کیا ہیں؟ تو فرمایا: شرک، جادو، قتل بغیر حق ، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ سے بھاگنا، پاک دامن مومن غافل عورتوں پر تہمت لگانا۔“

اور صحیح مسلم کی روایت ہے: لعن الله آكل الربا ومؤكله وشاهده وكاتبه ([8])

” اللہ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، گواہ اور کاتب پر لعنت کی ہے۔“

اور امام احمد کی روایت ہے:

لیاتينّ علی الناس زمان يأكلون فيه الربا،قيل يا رسول الله: الناس كلّهم؟قال: من لم يأكله ناله من غباره ([9])  

”لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جب وہ سود کھائیں گے، کہا گیا کیا سب لوگ یارسولﷺ؟ فرمایا: جو کھائے گا نہیں اُسے بھی اس کا غبار پہنچے گا۔“

ایک بات جواصول ربا کے طور پر مشہور تھی وہ یہ تھی کہ: امّا ان تقضی و امّا ان تُربی”یا تو قرض ادا کرو یا پھر رقم میں اضافہ کرو۔“

۴۔چوتھی آیت میں یہود کی سود خوری اور اس کا انجام مذکور ہے"

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ كَثِيرًا ([10])

”سو بوجہ ظلم ڈھانے یہود کے ہم نے حرام کر دیں ان پر وہ پاکیزہ چیزیں جو حلال کی گئی تھیں ان کے لیے اور بوجہ روکنے یہود کے اللہ کے راستے سے بہت سے لوگوں کو، اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ منع کیے گئے تھے اس سے، اور بوجہ ان کے کھانے کے لوگوں کے مال ناحق، اور تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے لیے ان میں سے عذاب دردناک۔“ ([11])

امام رازي حرمتِ ربا کی حکمت کے بارے فرماتے ہیں ([12])* ربا سے انسان دوسرے کا مال بلا عوض ہتھیا لیتا ہے کیونکہ جو ایک کے بدلے دو درہم لیتا ہے دوسرا درہم بغیر عوض کے لیتا ہے اور انسانی مال کی بڑی حرمت ہے کیونکہ یہ اس کی ضرورتوں کے متعلق ہے اللہ تعالیٰ نے سود اس لیے حرام قرار دیا ہے کیونکہ کسب رزق کیلیے محنت سے آتا ہے جب صاحب مال کو ربا سے پیسہ حاصل ہو تا ہے تو وہ کام تجارت اور صنعت کی مشقت اُٹھانے سے گریز کرتا ہے جبکہ انہی چیزوں پر دنیا کی مصلحتیں قائم ہیں ۔

  • کہا گیا ہے کہ ربا کی حرمت میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ اس کے لوگوں کے مابین باہمی تعاون و اُخوت کی نفی ہو تی ہے کیونکہ ضرورت مندہی کو قرض کی حاجت ہو تی ہے ۔
  • غالبا قرض خواہ امیر اور مقروض غریب ہو تا ہے سود کے جواد سے گویا امیر کو غریب مال ہتھیانے کی اجازت دی جا رہی ہے ۔
  • حرمت ربا نص سےثابت ہے اور ہر حکم کی علت و حکمت کا تمام مخلوق کو معلوم ہو نا ضروری نہیں پس سود حرام ہے خواہ اس کی وجہ ہمیں معلوم نہ ہو۔

دور حاضر میں مجمع بحوث اسلامیہ الازھر یونیورسٹی نے اپنی عالمی کانفرنس منعقده 1965ءمیں سود کی قطعی حرمت کا فتوی صادر کیا ہے اور دیگر فقہی مجامع نے بھی یہی قول کیا ہے جو اپنے اپنے مقاما ت پر مذکور ہے۔([13])

اس تمہیدی بحث کے بعد ہم اُن شبہات کا جائزہ لیتے ہيں جو سود روا رکھنے والے افراد اور ادارے ہمیشہ لوگوں کے ذہن کی تیاری کے لیےپھیلاتے رہتے ہیں۔

لفظ ربا مجمل ہے

بعض اصحاب کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں ربا کا ذکر تو ہے لیکن اجمالی طور پر اس کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ایسی صورت میں اس کی ہر دلالت ظنی ہو گی۔کتب فقہ میں سود کی تعریف یوں ہے۔الزیادۃ فی اموال مخصوصة مطلقا([14] ) اس لیے قطعی حرمت کا حکم لگانا محل ِنظر ہے۔

اولاً: ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم فقہی و قانونی تعریفات کی کتاب نہیں اس لیے الگ کتب موجو دہیں۔ مثال کے طور پر علامہ جرجانی کی کتاب ”التعریفات “ ،قرآن کریم میں تو نماز روزہ حج زکوۃ سب کے احکام اجمالا ذکر کیے گئے ہیں۔

ثانیاً۔قرآن کریم کے پہلے مخاطبین عرب تھے جن کی زبان میں ربا کا لفظ بالکل واضح الدلالۃ تھا اس لیے کسی صحابی نے یہ سوال نہ کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ربا کیا چیز ہوتی ہے؟۔ سابق شامی وزیر اعظم ڈاکٹر معروف دوالیبی نے کہا تھاکہ قرآنی لفظ ربا کا معنی سود نہیں تو اور پھر کیا ہے بتائیے؟

ثالثاً: قرآن کریم تو ایک نظام اور اس کے اصول و ضوابط اجمالا فراہم کرتا ہے جن کی تقصیل سنت مطہرۃ میں کثرت سے آئی ہے اس لیے نبی کریم ﷺنے جب فرمایا :الا ان ُکل ربا موضوع([15]) تو بات بالکل واضح تھی اور خطبہ حجۃ الوداع میں اس سے پہلے قرآن کریم نے اس کی حرمت بیان فرمائی تو بھی لوگوں کو علم تھا کہ بات کیا ہو رہی ہے اور یہ کس مسئلہ کا حل پیش کیا جا رہا ہے۔

رابعاً: حضور نبی رحمت ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر پالتو گدھو ں ، متعہ اور سود کی حرمت کا حکم فرمایا جو کتب صحاح میں تفصیل سے مذکور ہے۔([16])

خامساً: ربا الفضل کو حدیث بلال رضی اللہ میں ذکر کر دیا گیا کہ ایک کلو اچھی کھجوردو کلو ردی کھجور کے عوض لینا درست نہیں۔([17])

اضعافا مضاعفہ ربا کی توصیف و تخصیص ہے

سود کے حوالے سے یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا ہر ہر لفظ حجت ہے کوئی حرف بھی لغو یا اضافی نہیں ہے اس لیے صرف وہ سود جس میں اضعافا ( کئی گنا )کی صفت پائی جائے گی وہ حرام ہو گا ، عام سود نہیں کیونکہ اس لفظ کا بھی اپنا مدلول ہے جو کہ اس کے سود کی صفت ہونے کی حیثیت ہےپس جہاں سود کی یہ صفت پائی جائے گی وہ حرام ہو گا، عام سود نہیں کیوں کہ اس لفظ کا بھی اپنا مدلول ہے ہے یا یہ پہلے مذکور ”سود“ کی تخصیص کیلیے آیا ہے یعنی عام نہیں خاص سود ۔

ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب بیان معجزہ ہے۔ اس میں بعض چیزوں کی تاکید و تشنیع کے لیے چند الفاظ آتے ہیں اس کی مثالیں کئی جگہوں پر موجود ہیں۔ مثلا ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

یعنی اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہوں تو یہ اس کام کی بشاعت وشناعت کا اظہار کرنے کااسلوب ہے کہ وہ تو پاک دامنی کا ارادہ رکھتی ہے اور تم انہیں بدکاری پر مجبور کرتے ہو یہ کتنی بُری بات ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر وہ پاک دامنی کا ارادہ نہ رکھتی ہو ں بلکہ بدکاری کرنا چاہتی ہوں تو بیشک اُنہیں ایسا کرنے دو یا اس پر اُنہیں اکساؤ اور مجبور کرو۔

اس طرح سود کی صفت( اضعافا مضاعفۃ)اس کی مذمت مزید کے لیے آئی ہے کہ سود کو کم لینا بھی حرام ہے لیکن آپ تو کئی گنا لے کر کھا جاتے ہو ۔دوسری مثال بھی ارشاد باری تعالی ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءًا كَبِيرًا جس کا معنی ہے اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کیا کرو ،اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اگر افلاس کا ڈرنہ ہو تو بیشک تم اپنی اولاد کو قتل کر سکتے ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اولاد کا قتل توویسے بھی جائز نہیں لیکن افلاس کے ڈر سے ان کاقتل تو بہت بُری بات ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رزق پہنچانا ہے یہ آپ کے ذمہ ہے ہی نہیں۔

ضرورت و حاجت کے لیے قرض لینا

یہ شبہ بھی بہت قوی ہے کہتےہیں کہ کوئی انسان ضرورت و حاجت کےلیےقرض لینا چاہے تو بغیر سود کے نہیں ملتا تو وہ کیا کرے فقہائےکرام نے شرعی ضرورت و حاجت کی تعریف یہ کی ہے کہ ضرورت کی ایسی حالت جو اگر پوری نہ کی جائے تو انسان کا عضوتلف ہو نے یا ہلاک ہو نے کاخدشہ ہو ایسی صورت میں جان بچانے کیلے خنزیر کا گوشت کھانے کے لیے اور شراب پینے کے لیے جائز ہے اور ضرورت کو اس کی حد کے اندر رکھا جاے گا والضرورة تقدر بقدرھا ([18]) کے اصول کے مطابق۔

فردی اور پیداواری قرض میں فرق

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فردی قرضہ پر سود نہیں ہونا چاہیے لیکن پیداواری پر لینا جائز ہونا چاہیے۔ کیونكہ مؤخر الذکر تو منافع کماتا ہے۔اس نقطہ ٔنظر سے پتہ چلتا ہے کہ سود کی حرمت کی علت کسی فرد واحد کی ضرورت کا استحصال ہے جبکہ حکم شرعی ([19]) علت منضبطہ پر قائم ہوتا ہے نہ کہ حکمت مضطرب پر اور علت منضبطہ سے مراد وہ وصف ظاہر و منضبط ہے جو بالاستمرار حکم کے ساتھ قائم بھی رہے فقہائےکرام نے نصوص قران و حدیث سے ربا کی جو علت متعین فرمائی ہے وہ ایسی معروف زیادہ مقدار مثال ہے جو قرضہ پر فرض کر دی جائے مقروض کی حالت کو مد نظر رکھنے کے بغیر وگرنہ تو حضرت عباس خوشحال تھےاور آپ کے کاروبار میں بھی سود کا رواج تھا جسے نبی اکرم ﷺنے منسوخ([20]) فرمایا علاوہ ازیں شریعت محکمۃ نے سود کی حرمت میں دونوں مذکور اقسام میں فرق نہیں کیا بلکہ ہر طرح کے سودکو حرام قرار دیا ہے ۔

بنک ایک اقتصادی ضرورت ہے

چند حضرات نے بنکوں کو ایک ناگزیر اقتصادی ضرورت قرار دیا ہے کہ یہ عروق معیشت میں رواں خون کی مانند ہیں ان کے بغیر کوئی معیشت چل نہیں سکتی اگر غور کیا جائے تو بنکوں کا کام اصلی کام قرضہ پر سود لینا اور دینا ہے دیگر سہولتیں اورخدمات بھی یہ سرانجام دیتے ہیں مثلاً ترسیل رقم و غیرہ لیکن شریعت مطہرہ میں مال کا جو مقصود ذکرکیا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ جمع نہ کیا جائے بلکہ تجارت کی صورت میں یہ گردش کناں رہے۔كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ([21])

جب کہ بنک جمع مال، قرضے کے لیے استعمال اورپھر استحصال کا نام ہے۔ قرون اولیٰ کی معیشت بلکہ اشتراکیت بھی سود کے بغیراپنا نظام چلاتی رہی ہےآج اسلامی بنک سود کی نفی کے ساتھ معاشرے کی خدمت میں مصروف ہیں اس طرح اصل مقصود مال تو اس کی سرمایہ کاری اور ترویج تجارت ہے نہ کہ زر اندوزی اور استحصال فردی۔

کرنسی نوٹ بلا وزن ہے

اس شبہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے چونکہ ربا کا وجود سونے اور چاندی کے سکوں کے ساتھ منسلک تھا اور ان میں وزن کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ لیکن کرنسی نوٹ تو بلا وزن ہیں ان میں وزنیت کا وجود نہیں اس لیے یہاں ربا بھی اس طرح متصورنہیں ہونا چاہیے اور اس نقطہ ٔنظر کو تقویت ملتی ہے حدیث نبویؐ سے لاتبیعواالدینار بالدینارَین([22]) ” کہ ایک دینار کو و و دیناروں کے بدلے فروخت نہ کرو۔“

یہاں بادئ النظر میں اگر دیکھا جائے تو ربا کی علت وزنیت یعنی کسی چیز کا صاحب وزن ہونا قرار دیا جا رہا ہے جبکہ علت ربا تو قرض میں معروف اضافے کا نام ہے ۔ اس کے علاوہ بھی مجمع فقہ اسلامی جدہ نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ کرنسی نوٹ بلا شک نقدین کا بدل ہیں اور یہاں اشیاء کی اصطلاحی قیمت بھی ہیں ، اس لیے ان میں وہی احکام جاری ہوں گے جو سونا و چاندی میں جاری ہوتے تھے۔([23])

اموال بنک کے پاس قابل استعمال ودیعت (امانت) ہیں

نیشنل بنک مصر کے چیئرمین کے مطابق لوگوں کے مال بنک کے پاس ایسی امانت ہوتے ہیں جس کے استعمال کی اجازت انہوں نے دے رکھی ہوتی ہے ۔ یہ قرضہ نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں سیونگ اکاونٹ ، سیونگ سرٹیفیکیٹ اور سرمایہ کاری بانڈز وغیرہ یہ سب نفع بخش قرض ہیں اور ہر وہ قرٖض جو نفع بخش ہو وہ ربا ہے۔

ان اموال کو عاریہ مستعار چیزنہیں شمار کیا جاسکتا کیونکہ اس عقد کی اپنی شروط ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مستعار چیز کے عین کو لوٹایا جائےاور نقدی کو بعینہ لوٹایا نہیں جاتا بلکہ اس کی مثل لوٹائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فقہائے کرام اس پر متفق ہیں کہ نقدی کو عاریۃً دینا قرٖض ہے۔([24])

ان اموال کو ودیعت ( امانت) اس لیے بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ امانت کو استعمال کرنا جائز نہیں اگر کیا تو ضامن ہو گا۔ ضمانت ہوئی تو یہ قرض ہو گا۔ اور نہ ہی ان اموال کو ہم مضاربہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس عقد میں منافع کمائی پر ہوتا ہے نہ کہ راس مال پر۔ اور مضارب شریک عمل ہوتا ہے نہ کہ ضامن سوائے اس کے کہ وہ جان بوجھ کر مال میں تعدی کرے تو پھر ضامن ہوگا ۔

جمع پونجی بھی حکما بڑھو تری میں ہے

ایک تجارتی سوچ کے مطابق مال بنفسہ بڑھتا رہتا ہے۔ خواہ وہ کسی کی جیب میں ہی پڑا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مال کی موجودگی میں ایک گونہ اطمنان و سکون میں ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت وہ یہ مال استعمال کر سکتا ہے اس اطمینان و تونگری کی کیفیت کی بھی ایک قیمت و وقعت ہے۔ اس لیے مال کو بغیر نفع کے کسی دوسرے کو دینا درست نہیں۔ اور نفع کے ساتھ دینا گویا اپنے اطمینان کو بیچنا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے مال بنفسہ کا سب ( کمانے والا) نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل کو شریک کرنا ہو گا اور یہ مضاربہ کا شکل میں بھی ممکن ہے اور دیگر شرعی عقود میں بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خسارہ کا خطرہ بھی مول لینا ہو گا تب کہیں مال کا نفع جا کے حلال ہوتا ہے۔ گھر بیٹھے بٹھائے مال کو قرض پر دینا اور نفع ( سود ) کمانا مقصود تخلیق مال اور مشیت الہی کی خلاف ورزی ہے۔

قرض خواہ کا نفع متعین وطلب کرنا حرام لیکن مقروض کا ایسا کرنا درست ہے

بادئ النظر میں اگر قرض خواہ ( عام انسان ) منافع مال متعین مقرر کرے تو زیادتی ہے لیکن اگر مقروض (بنک) بخوشی کچھ منافع متعین کر دے تو حلال ہونا چاہیے۔ کیونکہ امیں کسی کی ضرورت کا استحصال نہیں پایا جاتا۔ اس شبہ کا اظہار بھی سودی اداروں کے کارکنان کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعا لی اور اس کے رسولؐ نے جب سود کو حرام قرار دیا تو یہ نہیں فرمایا کہ اس کا تعین کون کرے گا ، قرض خواہ یا مقروض بلکہ سود مطلقاًحرام ہے کوئی بھی اس کو مقرر کرے اور علامہ جصاص نے بھی اپنی تفیسر احکام القرآن میں ربا کے تحت یہ ذکر فرمایا ہے کہ ربا سے مراد (قرض خواہ و مقروض ) دونوں کی طرف سے متفق علیہ اضافی رقم ہے۔ خواہ کسی طرف سے بھی متعین ہو اس کی تخصیص نہیں۔

مال کا منافع متعین کرنے میں ضرر نہیں

یہ شبہ بھی گزشتہ سے پیوستہ ہے کہ جانبین اتفاق رائے سے منافع مال متعین کرتےہیں اس میں کسی کا ضرر نہیں۔ تو بھی یہ نفع جائز ہونا چاہیے۔ہم کہتے ہیں کہ حرمت ربا کی علت ضرر نہیں بتائی گئی بلکہ قرضے پر معروف اضافی مال ہے اس لیے ربا حرام ہے خواہ اس میں بظاہر ضرر کسی کا نہ ہو ا ورضرر بھی حرام ہے خواہ ربا میں نہ ہو کسی اور شے میں ہو۔ بدلیل حدیث شریف:(لاضررولاضرار)” نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ نہ تمہیں ضرر پہنچے۔“ قافلہ قریش کی سرمایہ کاری میں کسی کا ضرر نہیں تھا بلکہ وہ نفع بخش مشارکت تھی لیکن بوجہ سود حرام تھی۔

ربا اصناف ستہ میں محصور ہے

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ربا صرف اصناف ستہ میں ہے جن کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے۔ الذھب بالذھب۔([25])

سونا سونے کے بدلے ، چاندی چاندی کے بدلے، آٹا، جو ، گندم، کھجور اور نمک ہر چیز اپنے مقابل کے برابر ہاتھو ں ہاتھ لین دین جس نے زیادہ کیا یا زیادہ طلب کیا اس نے سود کھایااس لیے سود کے احکام صرف انہی اصناف پر لاگو ہوں گے، چونکہ یہ چیزیں لوگوں کےطعام و رزق میں آتی ہیں اس کے علاوہ کچھ اور پر سود کا اطلاق نہیں ہو گا، خصوصاً کرنسی پر۔

ہم نے مجمع فقہ اسلامی جدہ کا فتوی ذکر کیا یہ کرنسی نوٹ سونے و چاندی کا مؤثر بدل ہیں ان پر سود کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور جب تک نقود بحیثیت نقود موثر ہیں ان پر شرعی احکام بعینہ لاگو ہوں گے۔ جس طرح مفہوم موافق و مخالف سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں، والدین کے بارے ارشاد باری تعالٰ ہے:فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا([26])

یہاں مفہوم موافق سے والدین کو اُف تک نہ کہنا اور سخت کلام نہ کرنا ثابت ہے۔ تو کیا انہیں مارنا جائز ہو گا بلکہ وہ مفہوم مخالف سے بدرجہ اولیٰ منع ہو گا۔ اگر سود کو اصناف ستہ میں مذکور کیا گیا ہے تو دیگر مواضع پر بھی یہ اس طرح حرام ہو گا جہاں اس کی شدت کہیں بڑ ھ جاتی ہے۔

اصلی و غیر اصلی نقدی میں فرق

یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ فقہائے کرام نے اصلی پیدائشی نقود ( سونا و چاندی) اور غیر اصلی مصنوعی نقود (تانبا ، برونز، کاغذی نوٹ) میں فرق کیا ہے ۔ پہلی قسم میں ربا کا اعتبار کیا گیا ہے جبکہ دوسری میں نہیں۔

مالکیہ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ: لاتجوز الفلوس بالزھب والفضۃ ([27]) کہ جھوٹے پیسوں (سکوں )کا تبادلہ بھی تفاضل کے ساتھ جائز نہیں خواہ وہ ایک پیسہ دو کے برابر لیا دیا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ مصنوعی نقدی مقصودبالذات نہیں بلکہ وہ تو اصلی نقدی ہی ہے اور بوقت ضرورت تبادلہ اشیاء کے لیے مصنوعی نقدی کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ ابن تیمیہ اور صاحب فتح القدیر کی بھی یہی رائے ہے ۔ معاصر فقہی مراکز نے بھی کرنسی کو نقدین کا متبادل قرار دیا ہے۔([28])

ربا کرنسی کی قیمت میں کمی کا معاوضہ ہے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ آئے دن کرنسی کی قیمت میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے اس لیے سال کے آخر میں روپے پیسے کی قیمت خاطر خواہ کم ہو جاتی ہے اس لیے بھی اگر مقروض رقم پر کچھ زیادہ دیاجائے تو وہ اس کمی کا بدل ہو سکتا ہے نہ کہ سود کی زیادتی۔

اس میں شک نہیں کہ کرنسی کی قیمت میں ڈالر وغیرہ کے مقابلےمیں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے جو کہ کرنسی مارکیٹ کے حالات میں تغیر و تبدل کے نتیجہ میں سامنے آتی ہے لیکن عالمی سطح پر عموما اکثر ممالک کی کرنسی کی قدر یکساں رہتی ہے۔ا ور جو معاوضہ قرضے پر دیا جاتا ہے وہ وقت کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر کرنسی کی قیمت بڑھ جائے جیسا کہ ہمارے ہاں گزشتہ عرصے میں ہو اتو لوگوں کو قرضہ کی رقم کم کرکے واپس کرنی چاہیے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا ۔ اس لیے اس بہانے سود کو جائز کہنا کس صورت میں درست نہیں۔

بنک لوگوں سے رقم طلب نہیں کرتا بلکہ وہ خود رکھتے ہیں

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرض تو لوگ خود مانگتےہیں اس میں سود وارد ہو سکتا ہے لیکن بنک لوگوں سے مال رکھوانے کی درخواست تو نہیں کرتا بلکہ یہ خود ان کی ضروت ہے بنک کوئی مقروض تو نہیں۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ بنک لوگوں سے مال طلب نہیں کرتا۔ یہ آئے دن کے اعلانات و منشورات کس چیز کی طرف لوگوں کو کھینچ رہے ہوتے ہیں ۔ ایک سے ایک بڑھ کر بنک سود کا اعلان کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کے پاس مال رکھو ائیں اور پھر دوسرے کاروباری لوگ ان سےزیادہ سود پر قرضہ لیں اور بنکوں کا کاروبار چلتا رہے ۔ سڑکوں ، گلیوں میں لگے پوسٹرز اور روزانہ کے اخبار اس بات پر شاہد عادل ہیں کہ بنک لوگوں کو دعوتِ سود دے رہے ہوتے ہیں۔

بنکوں میں رقم رکھنا مصلحت ہے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بنکوں میں پیسہ رکھنے میں لوگوں کی مصلحت ہے، گھروں میں پیسہ غیر محفوظ ، ضائع و خرچ ہوجانے کا خطرہ اور فکر ِ حفاظت کے پیشِ نظرہی رقوم بنکوں میں رکھو ائی جاتی ہیں جہاں وہ محفوظ بھی ہیں اور منافع بھی دیتی ہیں۔مصلحت ایک شرعی اصطلاح ہے اس میں چند شروط کا پایا جانا ضروری ہے ۔([29])

۱۔مصلحت اور اصولِ شریعت کے مابین مطابقت ضروری ہے۔

۲۔مصلحت معقول ہونی چاہیے۔

۳۔مصلحت کسی حرج ِ لازم کو رفع کرنے کے لیے ہو۔

پھر مصلحت کی تین اقسام ہیں:

۱۔مصلحتِ معتبرہ(جو شرعاً معتبر ہو)جیسا کہ قیاس ہے۔

۲۔مصلحت ملغاۃ(جو شرعاً ملغى ہو) جیسا کہ جماع رمضان میں کسی امیر پر عتق ِ رقبہ کے مقا بلے میں روزے فر ض کرنا کیونکہ پہلا کام اس کے لیے آسان ہے۔

۳۔مصلحت مرسلہ: جس میں عام لوگوں کا فائدہ ہو جیسا کہ ہسپتال، سڑکیں وغیرہ۔

اگر سودی معاملہ کو غور سے دیکھیں تو یہ مصالح شرعیہ اس میں موجود نظر نہیں آتیں،البتہ واضح شرعی احکام اور شارع کریم کی مخالفت ضرور نظر آتی ہے۔ اس لیے شرعاً اس مصلحت کا اعتبار نہ ہوگا۔

سرکاری کمپنیوں کا منافع بھی مقرر ہوتا ہے

بعض کمپنیاں جو حکومتی سرپرستی میں قائم ہوتی ہیں۔مثلاً بجلی،ٹرنسپورٹ،کوئلہ وغیرہ کے شعبے ان کی سرمایہ کاری کے لیے حکومت متعین منافع کے ساتھ بانڈز وغیرہ جاری کرتی ہے۔تاکہ رقم اکھٹی ہو۔یہاں بھی تو متعین منافع کے جواز کا قول کیا جاتا ہے۔تو بنکوں کا متعین منافع کیونکر حرام ہو؟

اصل بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے حکومت تشجیعی انعامات کے ذریعے رقم اکٹھی کر سکتی ہے۔ مصالح عامہ کےلیے- بغیر کسی منافع کے بھی اسے ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ نیز یہ منصوبےحقیقی ہوتے ہیں۔جن میں اگر منافع ہو تو حکومت کمی بیشی کے اختیار کے ساتھ لوگوں کو نفع بھی دے سکتی ہے ۔ لیکن بنک حقیقی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی بجائے محض پیسہ کی تجارت و مداينت پر انحصار کرتے ہیں۔جس سے کوئی حقیقی منصوبہ تکمیل نہیں پاتا۔بلکہ ساہو کاری رواج و عروج پاتی ہے۔

بنک کا منافع بھی مثلاً۱۰ فیصد قابلِ نفع و خسارہ ہو سکتا ہے

گذشتہ حکومتی منصوبوں پر متعین یا غیر متعین منافع پر قیاس کرتے ہوئے یہ شعبہ بھی وارد کیا جاتا ہے۔کہ بنک بھی قابل ِ نفع و خسارہ متعین سود دے سکتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے۔کہ بنک اصلاً پیسے کی ریل پیل کو کنٹرول کرتا ہے۔اور اس میں سے نفع لگا لیتا ہے۔ اور متعین سود کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اسمیں کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہوتی۔بلکہ متفق علیہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔جبکہ حکومت کے پاس اپنے منصوبوں کے لیے مال جمع کرنے کا شرعاً جواز ہوتا ہے۔

حکومت و رعیت کا تعلق ماں باپ جیسا ہے۔ان کے درمیان سود نہیں

سرکا ری بنکوں کے حوالے سے یہ شبہہ وارد کیا جاتا ہے۔کہ حکومتی سرپرستی میں قائم مرکزی بنک اور اس کے ذیلی ادارے چونکہ حکومت کی ملکیت ہیں۔اور رعایا و حکومت کا تعلق اولاد و والدین جیسا ہے۔ اس لیے ان کے مابین سود نہیں شمار ہو گا۔یہ قیاس مع الفارق ہے۔اس لیے کہ مقیس علیہ کی علت منصوص ہے۔جہاں بھی ہو گی۔وہاں حرمت کا حکم ہو گا دوسری بات یہ ہےکہ عملی سطح پر آج یہ تعلق ثابت نہیں وگرنہ وراثت کے احکام میں بھی یہ تعلق لاگو ہوتا۔

زیادہ سود اور غریب سے لینا جائز نہیں

انگریز فلاسفر برٹرانڈ رسل([30]) نے کہا تھا کہ سود(یوزری) سے مراد سود فاحش ہے۔اور خصوصاً جب غریب سے لیا جائے۔امیروں سے لینا درست ہے۔اس شبہ کے جواب میں ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی کا ہی قول ہےکہ سود سے مراد قرض پر منافع لینا ہے۔صرف بہت زیادہ ریٹ پر ہی نہیں۔

مفصل طریقِ کار کی عدم موجودگی

سودی ادارے یہ بات بھی بڑے زور شورسے کرتے ہیں کہ سود کا خاتمہ کیونکر ممکن ہو جبکہ غیر سودی نظام کے نفاذ کا مفصل طریقِ کار مطلوب ہےاور وہ موجود نہیں ۔ہمارے خیال میں غیر سودی نظام کو عہدِنبوی میں قائم کر دیا گیا تھا اوریہ صدیوں تک مسلمان کی ترقی وخوشحالی کا باعث رہاہے اس کے قواعد وضوابط ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں جس پر تمام اِداروں سے سود کا خاتمہ ممکن ہے علامہ اقبال نے1936ءمیں قائداعظم کو اسلامی اقتصادی نظام کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا کہ نئی مملکت اسلامیہ کا نظام اقتصاد اپنا ہو گا 1948ءمیں سٹیٹ بنک کے افتتاحی خطبہ میں بھی قائداعظم نے اسی پہلو پر روشنی ڈالی ۔اسی سلسلے میں سٹیٹ بنک کا شعبہ تحقیق اِسلامی نظام اقتصاد کو نافذ العمل بنانے کا پابند ہے اور ہر بنک میں اِسلامی بنکاری کے لیے شریعت کے مطابق رہنمائی کے لیے شریعہ سکالر کا لازمی تعیَن بھی اِسی کا حصہ ہےاس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ پہلے مفصل طریقِ کار موجود ہو پھر غیر سودی نظام کار آمد ہو گا ۔اصل بات پختہ اِرادہ و غنیمت کی ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہےوگرنہ شرعی عقودمرابحہ،مشارکہ،مضاربہ ،اِجارہ،بیع مؤجل،سلم ، استصناع ، مساقاۃ ،مزارعہ ،کراء وغیرہ کی متبادل شکلیں ہماری تمام اقتصادی ضروریات کی کفیل ہے۔

خلاصۂ کلام

گذشتہ بیسویں صدی کے دوسرےنصف میں استعماری قوتیں اقتصادی قوتوں میں بدل گئیں اور اسی عرصے میں اسلامی بنکاری کا افتتاح ہوا اور آج تک اِسلامی ممالک اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں تاہم سودی نظام کے عالمی پھیلاوَ کے سامنے یہ کاوشیں اپنوں اور بیگانوں کی دسیسہ کاریوں کا بھی شکار ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ علوم اقتصاد کی ازسر نو تدوین وترویج کے لیے مسلم سکالرز تحقیق وتصنیف کے میدان میں اُتریں اور اِسلامی نظام ِ اقتصاد کا وسیع ودقیق مطالعہ کر کے اسے آج کی اقتصادی مشینری کے لیے قابل عمل بناکر پیش کریں ۔ہمیں یقین ہے کہ اسلام کے ازلی و ابدی اصول ہر زمانہ کے لیے انسانی رہنمائی کے کفیل ہیں صرف اِن کی ہمہ گیر فائدہ مندی کو ثابت کرنا علماے اُمت پر ایک فرض ہے جو جتنی جلدی ادا ہو اتنا ہی بہتر اورشوکتِ اسلام کا مظہر ثابت ہو گا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔المبسوط، امام سرخسي 12/109
  2. ۔ رد المحتار 4/184
  3. ۔ سورۃ الروم : ۳۹
  4. ۔ آل عمران:۱۳۰
  5. ۔ البقرۃ:۲۷۵۔۲۷۹
  6. ۔تفسير طبري،6/7،تحقيق محمود محمد شاكر،مصر
  7. ۔أبي هريرة عن متفق عليه
  8. ۔ صحيح مسلم كتاب المساقاة،باب لعن آكل الربا ومؤكله،1598ء،3/1219
  9. .۔ مسند الإمام أحمد برقم 10191
  10. ۔ النساء:160- 161
  11. ۔ ترجمہ جمال القرآن ، پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ،ضياء القرآن،لاہور،2015ء، ص ۱۲۵
  12. ۔ التفسير الكبير،الامام الرازي،7/94،طبع أول،مطبعة بهية، مصر،1938ء
  13. ۔ هيئة كبار العلماء بالمملكة العربية السعودية، أبحاث هيئة كبار العلماء،عدد الأجزاء : 7 أجزاء، مصدر الكتاب : موقع الرئاسة العامة للبحوث http://www.alifta.com العلمية والإفتاء،ص84۔ 85
  14. ۔ڈاکٹر یوسف الشبیلی، لیکچر مالی معاملات کی بعض معاصر تطبیقات، حفر باطن،سعودی عرب، 1426ھ
  15. ۔مسلم( 1218)
  16. ۔ متفق علیہ، بخاری( 4217)، مسلم ( 14.8)
  17. ۔ متفق علیہ، بخاری کتاب الوکالۃ، باب اذاباع الوکیل شیئا فبیعه مردود ( 133/3) مسلم ، کتاب المساقاۃ ، باب الربا( 3/ 1215)
  18. ۔الشاطبی ، کتاب الاعتصام( 2/122)
  19. ۔الغزالی، المستصفٰی( 2/380)
  20. ۔ صحیح مسلم( 1218)
  21. ۔ الحشر:8
  22. ۔مسند احمد 2/109، مجمع الزوائد 3/105
  23. ۔قرارات مجمع الفقہ الاسلامی، جدہ، قرارداد نمبر9 ، دورۃ منعقدۃ عمان الاردن ، 3-8 صفر 1407ھ
  24. ۔فتاوی ھندیہ 4/363 موسوعۃ فقهیۃ کویتیۃ 40/193(نقود)
  25. ۔صحیح مسلم کتاب الساقاۃ، باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقدا(مرجع سابق)
  26. ۔الِاسراء:23
  27. ۔المدونۃ 3/390
  28. ۔مجلۃ البحوث الاسلامیۃ ( 31/373) ، /73851t majlis.alukah.net/
  29. ۔ الموافقات 5/179،دار ابن عفان،الخبر،المملكة السعودية،1997.
  30. ۔ The History of Western Philosophy. Bertrand Russell, Simon & Schuster Inc., N.Y, p.782. ،imon & Schuster Inc. ,N.Y.l,صر.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...