Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 32 Issue 1 of Al-Tafseer

شاہ ولی اللہ کی قرآنی خدمات کا تحقیقی جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060084478_882

Pages

36-49

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/57

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

پس منظر

اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں اکبری عہد کے الحاد اور اباحیت کا قلع قمع کردیا تھا اور مجدد الف ثانی ؒکے خانوادۂ گرامی کے زیر اثر ہندوستان میں ایسی صورت حال پیدا کردی تھی کہ اگر ان کے جانشین ذرا بھی ہوش وعقل سے کام لیتے تو اس ملک میں نہ ان کے اقتدار کو زوال لاحق ہوتا اور نہ معتقدات کو لیکن اورنگزیب کے جانشین عیش کوش، دوں ہمت اور حکمرانی کی تمام اعلیٰ صلاحیتوں سے عاری نکلے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد فتنوں کا جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا۔ ملک میں طوائف الملو کی پھیل گئی۔ اقتدار کی باہمی کشاکش، سازشوں پر سازشیں اور امراء کی دھڑے بازیاں شروع ہو گئیں پھر تو ایسا خونی انقلاب آیا کہ دلی خون میں نہا گئی۔ نادر شاہ شامتِ اعمال بن کر نازل ہوا اور اس نے دلی کے سہاگ کی چادر کو تار تار کردیا، مرہٹوں کی تاخت وتاراج، جاٹوں کی لوٹ مار اور سکھوں کے مظالم کی داستانیں آج بھی مؤرخین کو خون کے آنسو رلاتی ہیں۔

مسجدیں ویران تھیں، خانقاہوں میں اندھیرا اچھا یا ہوا تھا، محل سازشوں کی آماجگاہ، عیاشیوں اور ہوس پرستی کے مراکز بنے ہوئے تھے، مغلوں کے اقتدار کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، صرف ایک جھونکے کا انتظار تھا ان حالات کو دیکھ کر انگریزوں، پرتگالیوں اور فرانسیسیوں کی حرص آلود نگاہیں ہندوستان پر پڑ رہی تھیں۔ غرض یہ کہ ہر طرف تاریکی تھی، ایک بھیانک تاریکی، نشان منزل گم اور چراغ راہ بجھا ہوا تھا۔

ایسے حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مسلمانان ہند کی دینی، سیاسی اور اصلاحی خدمات کا بیڑہ اٹھایا۔ ملکی حالات وسیاسیات پر آپ کی گہری نظر تھی۔ مسلمانان بر صغیر کے مسائل ہر وقت آپ کے پیش نظر رہے اور آپ نے ہمیشہ ان کے مسائل کے حل کی راہ نکالی۔ آپ نے احیائے دین، اشاعت کتاب وسنت، اسرار ومقاصد شریعت کی توضیع وتنقیح، تربیت وارشاد اور ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے تحفظ کا علم اٹھایا اور اصلاح وتجدید کی مختلف تحریکوں کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسلامی اقدار کی حفاظت، سیاسی تبدیلیوں اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا اور ان میں ملت کے تحفظ اور تشخص کے بقا کی تدبیریں کیں۔ آپ کے بعد آپ کے چار ہونہار اور یگانگۂ روزگار فرزندوں اور بے شمار تلامذہ نے آپ کی تحریک کو آگے بڑھا کر ایسی گر انقدر اور عظیم الشان خدمات انجام دیں کہ جن کے اثرات آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ بر صغیر پاک وہند کے دینی ادارے ہوں یا علوم دینیہ کے مراکز، اسلام کی سربلندی کی کوششیں اور تحریکات ہوں یا دینی علمی اور تصنیفی سرگرمیاں، یہ سب خانوادۂ شاہ ولی اللہ ؒ کی انھی خدمات کا ثمرہ ہیں۔زیر نظر مقالہ’’ شاہ ولی اللہؒ کی قرآنی خدمات کاتحقیقی جائزہ‘‘شاہ صاحبؒ کی ایسی ہی خدمات کی ایک جہت ہےاللہ تعالی قبول ومنظورفرمائے۔آ مین

شاہ ولی اللہ ؒ کی خدماتِ قرآنی کی اہمیت

شاہ صاحبؒ کی خدمات میں سے خدماتِ قرآنی کے عنوان کے انتخاب کاسبب یہ بناکہ تجدید دین و اصلاح امت کا کام کسی دور اور کسی ملک میں بھی شروع کیا جائے تو قرآن ہی کو اولیت حاصل ہوگی اور اس کے بغیر احیائے دین و ملت کی جو کوشش بھی کی جائے گی وہ نقش بر آب اور عمارت بے اساس ہوگی۔قرآن نے انبیاء علیہم السلام کے واقعات و مکالمات سے اور مستند تاریخ نے نائبین انبیاء اور علماء ربانیین کے طرز عمل اور ترتیب کار سے اسی حقیقت کو ثابت کیا ہے اور قیامت تک یہ ہر اس اصلاح و تجدید کا دستور العمل رہے گا،جس کا مزاج نبویﷺ اور جس کا نظام قرآنی ہوگا۔

بارھویں صدی ہجری میں ہندوستان کی مذہبی حالت

بارھویں صدی ہجری کے ہندوستان کی مذہبی حالت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے،جہاں اسلام ترکستان،ایران اور افغانستان کا چکر کاٹ کر اور اپنی بہت کچھ تازگی و توانائی کھو کر ان لوگوں کے ذریعے پہنچا جو براہ راست فیضان نبوت سے مستفیض نہیں ہوئے تھےاور جن میں سے بہت سے اپنے نسلی اور قومی اثرات سے بالکلیہ آزاد نہیں ہوسکے تھے۔پھر ہندوستان میں ہزاروں برس سے ایک ایسا مذہب،فلسفہ اور تہذیب حکمرانی کررہے تھے جن کے رگ و پے میں وثنیت اور شرک جاری و ساری تھا اور جو ان آخری صدیوں میں وثنیت کا سب سے بڑا نمائندہ اور جاہلیت قدیم کا امین و محافظ رہ گیا تھا،یہاں برہمنیت اور دوسرے مشرکانہ ماحول سے منتقل ہو کر ہندوستان کی مسلمان آبادی کا ایک بڑا حصہ آغوش اسلام میں آیا تھا۔پھر یہ بھی ذہن میں تازہ رہے کہ اس ملک کا (طویل تر مدت میں) قرآن و حدیث سے براہ راست وہ رابطہ نہیں رہا تھا۔جو ایران کے اثر سے علوم حکمت اور فلسفہ ء یونان سے رہا۔علوم دینیہ میں اگر اس کا علمی و درسی طور پر رابطہ رہا تو فقہ،اصول فقہ و علم کلام سے جن کا موضوع اور میدان بحث،مسائل و جزئیات اور اصول استنباط مسائل اور عقائد پر فلسفیانہ بحث سے ہے،عقائد کی اصلاح اور توحید کی ابتدائی دعوت نہیں۔

ہندوستان کے مذاہب ،فلسفوں اور یہاں کے رسوم و عادات کا دسویں صدی ہی میں مسلم معاشرے پر جو اثر پڑچکا تھا،اس کا اندازہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات سے لگایاجاسکتا ہے۔جس سے آثارمشرک کی تعظیم،غیر اللہ سے استمداد اور طلب حوائج کے مشرکانہ عقیدے اہل کفر کے تہواروں کی تعظیم اور ان کے رسوم و عادات کی تقلید،بزرگوں کے لیے حیوانات کو نذر و ذبح کرنے،پیروں اور بیبیوں کی نیت سے روزے رکھنے اور سیتلا سے خوف اور اس کی تعظیم (جس کو چیچک کی بیماری کی ذمہ داردیبی سمجھا جاتا ہے) تک کی ہندوانہ ذہنیت اور تو ہم پرستی کا اندازہ ہوتا ہے،جو مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوچکی تھی۔اس عہد پر اور سو(۱۰۰)برس گزر جانے کے بعد اور قرآن و حدیث سے براہ راست قوی اور عام رابطہ نہ پیدا ہونے کی وجہ سے عقائد میں جو خلل غیر اسلامی بلکہ منافیٔ اسلام عقائد و اعمال کا جو اثر اچھے اچھے گھرانوں پر پڑاہو،اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒؒؒ کے زمانے میں غیر مسلموں کے اثرات،قرآن و حدیث سے ناواقفیت اور دوری نےہندوستان میں جو صورت حال پیدا کردی تھی اور دین حنفی کے(جس میں شرک کی کسی پرچھائیں کی گنجائش نہ تھی)متوازی جو نظام عقائد اور مسلم معاشرے میں جاہلیت کا جو سبزہ خود رو پیدا ہو گیا تھا،اس کا کچھ اندازہ خود شاہ صاحبؒؒؒ کی کتابوں کے بعض اقتباسات سے ہوسکتا ہے۔

شاہ صاحبؒؒ تفہیمات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ تم مسلمان بھی آخر کار اپنے سے پہلے کی امتوں کے طریقے اختیار کرلوگے،اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھاہے،وہاں تم بھی قدم رکھو گے،حتیٰ کہ وہ اگر کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی ان کے پیچھے جاؤ گے،صحابہ کرام ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ اور کون؟اس حدیث کو بخاری اورمسلم نےروایت کیا ہے۔“ ([1])

ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں کہ:

’’سچ فرمایااللہ کے رسول ﷺ نے،ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں ،جنھوں نے صلحاء کو ارباب من دون اللہ بنا لیا ہے۔ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں ،جو کلام شارع میں تحریف کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ نیک لوگ اللہ کے لیے اور گنہگار میرے لیے،یہ اسی قسم کی بات ہے جیسے یہودی کہتے تھے کہ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً ؕ (البقرۃ۸۰) ہم دوزخ میں نہ جائیں گے اور گئے بھی تو بس چند روز کے لیے) سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے ۔صوفیہ کو دیکھوتو ان میں ایسے اقوال زبان زد ہیں ،جو کتاب و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے،خصوصاً مسئلہ توحید میں اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شرع کی انھیں بالکل پروا نہیں ہے۔‘‘([2])

اپنے شہرہ آفاق رسالہ الفوز الکبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’اگر تم کو (عہد جاہلیت کے)مشرکین کے عقائد و اعمال کے اس بیان کے صحیح تسلیم کرنے میں کچھ توقف ہو،تو چاہیے کہ اس زمانے کے تحریف کرنے والوں کو علی الخصوص جو دارالاسلام کے نواح میں رہتے ہیں،دیکھو کہ انھوں نے ولایت کی نسبت کیا خیال باندھ رکھا ہے،وہ لوگ باوجودیکہ اولیائے متقد میں کی ولایت کے معترف ہیں،مگر اس زمانے میں اولیاء کے وجود کو قطعاً محال شمار کرتے ہیں اور قبروں اور آستانوں پر پھرتے ہیں اور طرح طرح کے شرک میں مبتلا ہیں اور تحریف و تشبیہ نے ان کے اندر کس قدر رواج پکڑا ہے ،موافق حدیث (تم اپنے پیشرو لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے)ان آفات میں سے کوئی آفت بھی نہیں رہی،جس پر آج مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت کاربند اور اس کے مانند دیگر امور کی معتقد نہ ہو(عافا ن اللہ سبحانہ عن ذالک)۔‘‘ ([3])

مرض کا علاج اور اصلاح حال کا موثر طریقہ اشاعت قرآن

شاہ صاحبؒؒؒ نے اس مرض بلکہ وبائے عام کے علاج کے لیے قرآن مجید کے مطالعہ و تدبر اور اس کے فہم کو سب سے موثر علاج سمجھا اور یہ بات محض ذہانت،قوت مطالعہ اور قیاس پر مبنی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی بدیہی حقیقت تھی جس پر قرآن مجید خود شاہد اور نہ صرف عہد بعثت کی تاریخ بلکہ اسلام کی پوری تاریخ دعوت اور سرگزشت اصلاح و تجدید گواہ ہے ۔خاص طور پر حقیقت توحید اور حقیقت شرک کو ظاہر کرنے کے لیے اس سے زیادہ واضح ،اس سے زیادہ طاقتور اور دل نشین ذریعے کا تصور نہیں ہوسکتا،ترجمان قرآن شاہ عبدالقادر صاحبؒؒؒ نے اپنے مقدمے موضح القرآن میں جتنے سادہ اور دل نشین انداز میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے،اس سے زیادہ مشکل ہے ،فرماتے ہیں:

’’بتانے والے بہیترا بتائیں جیسا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ بتایاہے،ویسا کوئی نہیں بتاسکتا اور جیسا اثر اور راہ پانا خدا کے کلام میں ہے ،کسی کے کلام میں نہیں ۔‘‘ ([4])

حجاز مقدس کے قیام میں شاہ صاحبؒ کو ہندوستان کی اس دینی صورت حال اور اس کے تعلیمات قرآن اور تعلیمات اسلام سے بُعد اور منافات کا احساس اور شدت سے پیدا ہوگااور وہاں نورانی،روحانی اور قرآنی فضاجہاں سے توحید کا زمزمہ سب سے پہلے بلند ہوا،شاہ صاحبؒؒؒ کے قلب بیدار میں اس کا داعیہ کہ وہ ہندوستان میں قرآن مجید کی دولت کو عام کریں،ایسی وضاحت اور شدت سے پیدا ہوا ہوگاجس کو اس الہام اور اشارۂ غیبی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو نفوس زکیہ پر ہر عہد میں کسی ضروری دینی کام کی تکمیل کے لیے وارد ہوا کرتا ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ صاحبؒؒؒ نے قرآن مجید کے فارسی ترجمے کاکام جس نے فتح الرحمٰن کے نام سے تکمیل پائی،حجاز سے واپسی پر شروع فرمایا۔

حج سے واپس آنے کے پانچ سال بعد ۱۷۳۷۔۱۷۳۸ء میں آپ نے فارسی زبان میں کلامِ مجید کا ترجمہ کیا۔جب علماء کو اس کاپتا چلا توتلواریں کھینچ کرآگئےکہ یہ کلام مجید کی انتہائی بے ادبی ہے۔بعض سوانح نگار لکھتےہیں کہ اس کی وجہ سے شاہ صاحب کی جان خطرے میں پڑگئی کہ انھیں کچھ عرصے کے لیے دہلی سےچلےجاناپڑا۔لیکن بالآخر شاہ صاحب کی جرأت اور فرض شناسی کامیاب ہوئی انھوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ کلام اللہ اس لیے نہیں آیا کہ اسے ریشمی جزدانوں لپیٹ کر طاق پر تبرّکاًً رکھا جائے یا جس طرح دوسری قومیں منتر پڑھا کرتی ہیں،ہم اسے طوطے کی طرح بغیر سمجھے پڑھ دیں۔یہ کتاب انسانی زندگی کے متعلق اہم ترین حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔اس کے نازل ہونے کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوگ پڑھیں اوران حقائق کو اپنی زندگی کا دستو رالعمل بنائیں اور اس وقت رائج الوقت زبانوں میں اس کا ترجمہ ضروری ہے۔چنانچہ آہستہ آہستہ معترضین کی مخالفت کم ہوئی اورنہ صرف شاہ صاحبؒ کے ترجمے نے رواج پایابلکہ اردو اور دوسری زبانوں کے ترجموں کی راہ پیدا ہوگئی۔‘‘ ([5])

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہندوستان کیا تقریباً تمام عجمی ممالک جن میں ترکستان،ایران اور افغانستان ہندوستان کے قریبی ہمسائے تھے۔اور انھی کے رجحانات،مشاغل ،ذوق و تسلیم شدہ حقائق کا سایہ ہندوستان کے علمی و دینی حلقوں پر پڑتا تھا ،یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ قرآن مجید اخص الخواص طبقے کے مطالعے ،غور و فکر اور فہم و تفہیم کی کتاب ہے، جس کا سمجھنا ایک درجن سے زیادہ علوم پر موقوف ہے ،اس کو عوام میں لانا،عوام کو براہ راست اس کے مطالب سے واقفیت پیدا کرنے اور اس سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنے کی دعوت دینا سخت خطرناک ،ایک بڑی گمراہی اور فتنے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اور عوام میں ذہنی انتشار ،خودرائی اور علماء سے بے نیازی بلکہ بغاوت اور سر کشی کی دعوت دینا ہے۔

ایک مغالطہ اوراس کا جواب

بعض لوگ کہہ بیٹھتے ہیں کہ قرآن مجید اور حدیث کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے ،جوکہ بہت سے علم اور بے شمار کتابیں پڑھا ہوا ہو اور اپنے زمانے کا علامہ ہو،ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ (الجمعہ:۲) (خدا تعالیٰ وہ ہے جس نے ان پڑھوں میں پیغمبر بھیجا،انھیں ان پڑھوں میں سے پڑھتا ہے وہ پیغمبر انِ ان پڑھوں پر خدا کی آیتیں اور ان کو گناہ کے میل سے پاک کرتا اور کتاب اور اس کی تدبیر سکھاتا ہے)یعنی رسول خدا ﷺ بھی ان پڑھ آپ ﷺکے اصحاب بزرگوار بھی ان پڑھ تھے مگر جب رسولِ خداﷺنے اپنے اصحاب کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھیں تو وہ ان کو سن کر ہر قسم کی برائی اور بگاڑ سے پاک صاف ہو گئے ،پس اگر ناخواندہ آدمی قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا اور اس کی سمجھ کی استعداد نہیں رکھتا تو صحابہؓ برائی اور عیبوں سے کیونکر پاک صاف ہوگئے؟اس قوم پر سخت افسوس ہے،جو صدرہ سمجھنے اور قاموس جاننے کا تو دعویٰ کرتے ہیں مگر قرآن و حدیث کو سمجھنے میں اپنے آپ کو محض نادان ظاہر کرتے ہیں اور بعضے یوں کہتے ہیں کہ ہم پچھلے لوگ ہیں،رسول اللہ ﷺ کے زمانے کی برکت اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی صلاحیت سلامت کہاں سے لائیں جو قرآن و حدیث کے معنی بخوبی سمجھ سکیں ۔ان کے جواب میں حق تعالیٰ فرماتا ہے : وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (الجمعہ:۳) یعنی پچھلے لوگ خواہ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ہوں اور اصحاب کے طریقہ کی پیروی کا ارادہ کریں اور قرآن و حدیث کو سنیں تو انھیں بھی پاک کرنے کے لیے یہی قرآن و حدیث کافی ہوسکتے ہیں۔اور فرماتا ہے: وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(القمر:۲۲) (اور البتہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے واسطے آسان کردیا،پس کوئی نصیحت لینے والا ہے؟ ) یہ کیونکر آسانی ہوسکتی ہے کہ کافیہ پڑھنے والے اور شافیہ جاننے والے تو اس کے معنی سمجھنے سے عجز ظاہر کرتے اور عرب کے جنگلی لوگ اس کی حقیقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں،اس کے علاوہ ایک جگہ یوں فرمایا ہے:اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (محمد:82) ( کہ قرآن میں کیوں نہیں فکر کرتے)پس اگر قرآن مجید آسان نہ ہوتو اس میں فکرکیونکرکیا جائے۔ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(محمد۔۲۴) (یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں)یعنی باوجودیکہ دلوں پر قفل نہیں لگے ہوئے ہیں پھر بھی یہ کیسی گمراہی ہے ،کہ قرآن کے فکر میں زور نہیں لگاتے۔لیکن بقول شاعر

نوارا تلخ ترمی زن چوں ذوق نغمہ کمیابیحُدی را تیز ترمی خواں چوں محمل راگراں بینی

فارسی زبان میں ترجمۂ قرآن کی ضرورت

شاہ صاحبؒؒؒ نے اس بد مذاقی ،بے توفیقی اور غلط اندیشی کو دیکھ کر جس کے حدود ویصدون عن سبیل اللہ سے مل جاتے تھے،فیصلہ کیا کہ قرآن مجید کا سلیس فارسی زبان میں ضرور ترجمہ کرنا چاہیے جو ہندوستان میں قیام حکومت اسلامیہ کے بعد سے ملک کی دفتری،علمی،تصنیفی اور خط کتابت کی زبان تھی اور تقریباً ہر پڑھا لکھا مسلمان اگر اس میں بول لکھ نہیں سکتا تھا تو اس کو بہتر سمجھتا ضرور تھا۔ہندوستان میں فارسی زبان کی اس طویل عملداری میں جس کی مدت سات صدیوں سے کم نہ تھی ،قرآن مجید کے فارسی میں ایک درجن بھی ترجمے ہوتے تو تعجب کی بات نہ تھی،لیکن حسن بن محمد علقمی المعروف بہ نظام نیشا پوری ثم دولت آبادی کے ترجمے سے پہلے جو آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے،کسی فارسی ترجمے کا سراغ نہیں لگتا نیشاپوری کا یہ فارسی ترجمہ ان کی عربی تفسیر غرائب القرآن میں شامل ہے۔([6])

ہندوستان میں شیخ سعدیؒ کے ترجمے کے نام سے ایک ترجمہ مشہور ہےمگر اس کا انتساب شیخ سعدی ؒ کی طرف صحیح نہیں ہے،تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ علامہ سید شریف علی الجرجانی (م۸۱۶ھ) کا کیا ہوا ہے ۔

اس کے بارے میں شیخ محمد اکرم مصنف رو وکوثر بھی لکھتے ہیں کہ: ”شیخ سعدیؒ کا ایک ترجمہ اب بھی بازار میں ملتا ہے لیکن شیخ سعدی ؒ سے اس کی نسبت مشتبہ ہے اور یقیناً یہ ترجمہ کبھی بھی رائج نہیں ہوا۔“ ([7])

تفسیر وترجمہ فتح الرحمٰن

الغرض شاہ صاحبؒؒؒ نے سفر حجاز سے واپسی کے پانچ سال بعد (غالباً اصلاح عقائد کی ان کوششوں کا نتیجہ دیکھنے کے بعد جو خصوصی درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کے ذریعے ہورہی تھیں)یہ فیصلہ کیا کہ ہدایت عام،اصلاح عقائد اور اللہ تعالیٰ سے طاقتور رابطہ پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ قرآن مجید کی ہدایت و تعلیمات کی براہ راست اشاعت و تبلیغ سے زیادہ موثر نہیں ہو سکتااور اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ اور اس کی اشاعت ،خود شاہ صاحبؒؒؒ کی زبان سے اس کے محرکات و اسباب اور اس اقدام کی تعریف سنیے،تفسیر فتح الرحمان کے مقدمےمیں فرماتے ہیں:

’’یہ زمانہ جس میں کہ ہم موجود ہیں اور یہ ملک جس کے ہم باشندے ہیں،اس میں مسلمانوں کی خیر خواہی تقاضا کرتی ہے کہ ترجمۂ قرآن سلیس اور اب محاورہ فارسی میں بغیر اظہار فضیلت اور عبارت آرائی کے اور متعلق قصوں اور توجیہات کا ذکرکیا جائے۔تا کہ عوام اور خواص یکساں طور پر سمجھ سکیں اور چھوٹے بڑے بھی معانی قرآن کا ادراک کرسکیں۔اس لیے اس اہم کا م کا داعیہ فقیر کے دل میں ڈالا گیا اور اس کے لیے مجبور کیا گیا۔“

پہلے ترجموں پر غور کیا گیا تاکہ جس ترجمے کو معیار کے مطابق پایاجائے،اس کی ترویج کی جائے اور یہ ترجمہ حتی الامکان اہل زمانہ کے ذوق کے مناسب ہو،لیکن ان ترجموں میں یا تو بے کیف طوالت ہے یا خلل انداز اختصار و اجمال ہے،اس عرصے میں زہراوین(سورہ ٔ بقرہ و نساء) کا ترجمہ ہوگیا۔اس کے بعد سفر حرمین کا اتفاق ہوگیااور وہ سلسلہ ختم ہوگیا،کئی سال بعد ایک عزیز ترجمہ قرآن پڑھنے لگے اور یہ کام اس گزشتہ عزم کا متحرک بن گیا،اور یہ فیصلہ ہوا کہ سبق کے بقدر ترجمہ لکھ لیا جائے،جب ثلث قرآن مجید تک ترجمہ ہوگیا تو ان عزیز کو سفر پیش آگیا اور ترجمہ پھر موقوف ہوگیا۔ ایک مدت کے بعد پھر ایک تقریب پیدا ہوئی اور وہ پرانا خیال تازہ ہوا اور دوثلث تک ترجمہ ہوگیا۔

بعض دوستوں کو مسودہ صاف کرنے کے لیے کہا گیا اور یہ کہ اس کے ساتھ متن قرآن بھی لکھ دیں تاکہ مستقل نسخہ تیار ہوجائے ،ان سعادت مند دوستوں نے عید الاضحیٰ ۱۱۵۰ھ سے تبییض شروع کی ،اس کے بعد پھر اس عزم کو تحریک ہوئی،اور اخیر تک ترجمہ مکمل ہوگیا اور اوائل شعبان میں تسوید ختم ہوئی اور ۱۱۵۱ھ میں مسودہ صاف ہوگیااور ۱۱۵۶ھ میں برادر دینی عزیز القدر خواجہ محمد امین اکرمہ اللہ تعالی بشہودہ کے اہتمام سے اس کتاب کی ترویج ہوئی اور اس کا درس شروع ہوااور اس کے متعدد نسخے تیار ہوگئے اور معاصرین اس طرف متوجہ ہوئے۔‘‘

للہ الحمد کہ آن نقش کہ خاطرمی بست آمد آخر زپس پردہ تقدیر پدید۔([8])

اصول ترجمہ

شاہ صاحبؒؒؒ نے ترجمے اور تفسیر فتح الرحمٰن کے علاوہ اصول ترجمہ پر ایک مقدمہ بھی لکھا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے،ابتدا میں لکھتے ہیں :

ویقول الفقیر الیٰ رحمۃاللہ اکریم ولی اللہ بن عبد الرحیم ایں رسالۃ است در قواعد ترجمہ مسماۃ با لمقدمہ فی قوانین ترجمہ کہ دروقت تسوید ترجمہ قرآن قلم بہ ضبط آں جاری شد ([9])

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ اور قرآن مجید کی تبلیغ عام کے راستہ میں جو چٹان حائل ہوگئی تھی،شاہ صاحبؒؒؒ جیسی عظیم المرتبت ہستی کے(جس کے علمی تجرّ،جامعیت،باطنی مرتبے اور اخلاص پر تقریباً اس عہد کے صحیح الخیال اور صاحب علم طبقہ کا اتفاق تھا) اقدام سے یہ چٹان ہٹ گئی اور راستہ صاف ہوگیا،اسلام کی تاریخ میں مسلسل ایسا ہوتا رہا ہے کہ کسی مسلم الثبوت اور بلند شخصیت کے کسی کام کے آغاز کردینے سے غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کابادل چھٹ گیاہے اور شاہ راہ عام کھل گئی ہے اما م ابوالحسن اشعری کا متکلمانہ مباحث میں حصہ لینا اور عقلی استدلال سے کام لینا،حجۃ الاسلام امام غزالی کا فلسفے کا مطالعہ اور اس کی تنقیح و تردید اور ایسے بہت سے اقدامات جو اپنے عہد کی ضرورت کے مطابق اسلام کی حفاظت یامدافعت میں کیے گئے ،اس کی روشن مثالیں ہیں ۔

شاہ صاحبؒؒؒ کے فارسی ترجمے کے بعد اردو تراجم کا آغاز

شاہ صاحبؒؒؒ کے فارسی ترجمے کے بعد بہت جلد اردو میں ترجمۂ قرآن کی ضرورت محسوس ہوئی کہ بارھویں صدی کے آخری حصّے میں اردو نے فارسی کی جگہ لینی شروع کردی تھی اور اردو میں تحریر و تصنیف کا کام شروع ہو چکا تھا۔اس ضرورت اور انقلاب حال کو سب سے پہلے خود شاہ صاحبؒؒؒ کے فرزند ارجمند حضرت شاہ عبدالقادر صاحبؒؒؒ دہلوی(م۱23۰ھ) نے محسوس کیا کہ۵۔۱2۰۴ ھ میں گویا شاہ صاحبؒؒؒ کے ترجمے کے پچاس برس بعد انھوں نے با محاورہ اردو میں اس کا ایسا ترجمہ کیا جس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کا کسی غیر عربی زبان میں ایسا کامیاب اور شگفتہ ترجمہ، جس میں زیادہ سے زیادہ قرآنی الفاظ کی روح آئی ہو، ابھی تک علم میں نہیں ۔شاہ عبد القادرصاحبؒؒؒ اپنے ترجمے کی تمہید میں لکھتے ہیں:

’’ بندہ عاجز عبدالقادر کے خیال میں آیا کہ جس طرح ہمارے بابا صاحبؒؒؒ بڑے حضرت شاہ ولی اللہ، عبدالرحیم کے بیٹے، سب حدیثیں جاننے والے، ہندوستان کے رہنے والے نےفارسی زبان میں قرآن کے معنی آسان کرکے لکھے،اسی طرح اس عاجزنےہندی زبان میں قرآن شریف کے معنی لکھے۔‘‘ ([10])

شاہ عبدالقادر صاحبؒؒؒ کے بعد انھیں کے برادر بزرگ شاہ رفیع الدین (م۱۲۳۳ھ)نے قرآن مجید کا تحت اللفظ ترجمہ کیا جو اپنی احتیاطوں اور مصنف کے علمی تبحرّ و اخلاص کی وجہ سے بہت مقبول ہوااور بعض حلقوں میں شاہ عبدالقادر صاحبؒؒؒ کا بامحاورہ ترجمہ اور بعض حلقوں میں شاہ رفیع الدین صاحبؒ کا تحت اللفظ ترجمہ رائج اور قابل ترجیح قرار پایا۔

یہ دونوں ترجمے مسلمانوں کے گھروں میں ایسے عام ہوئے اور قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ اس کے پڑھنے کا ایسا رواج ہوا جس کی مثال کسی دوسری دینی کتاب کے بارے میں نہیں مل سکتی،جہاں تک اصلاح عقائد اور عقیدہ توحید کی اشاعت کا تعلق ہے،ان دونوں ترجموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی کوئی تعداد نہیں بیان کی جاسکتی کہ وہ لاکھوں سے متجاوز ہوگی۔حقیقت میں کوئی اسلامی حکومت بھی اپنے وسائل کے ساتھ دعوت و اصلاح کا اتنا بڑاکام انجام نہیں دے سکتی تھی جو ان تین ترجموں نے انجام دیا۔جوایک ہی شجرہ طوبیٰ کی شاخیں ہیں۔وذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء

اس کے بعد اردو ترجموں کاا یک سیلاب رواں ہوگیا،جس کی تعداد کا اندازہ ایک دشوار کام اور مستقل تحقیقی بحثوں کا طالب ہے ۔

گھر گھردرس قرآن

قرآن مجید کے ان اردو تراجم کے علاوہ جو اسی خاندان والا شان کے دو برگزیدہ افراد حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی نے کیے،ہندوستان میں جہاں جہاں اردو بولی جاتی تھی،گھر گھر پڑھے جانے لگے،قرآن مجید کے ذریعے تطہیر عقائد اور اصلاح اعمال و اخلاق کی سب سے طویل،سنجیدہ و عمیق اور موثر و وقیع کوشش خاندان ولی اللہ کے سب سے بڑے فرد اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒؒؒ کے کاموں کی تکمیل و توسیع کی سعادت حاصل کرنے والے بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیز کے ذریعے انجام پائی ،جنھوں نے تقریباً ۶۳ سال تک دہلی جیسے مرکزی شہر اور تیرھویں صدی ہجری جیسے اہم زمانے میں درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا،اس کو خواص و عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اور اس سے اصلاح عقائد کا جو عظیم الشان کام انجام پایا،ہمارے علم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

شاہ صاحبؒ کی کتاب الفوز الکبیر فی اصو ل التفسیر

شاہ ولی اللہ ؒ دھلوی کی یہ کتاب ”الفوز الکبیر فی اصول التفسیر“فارسی زبان میں لکھی گئی ۔بعد میں اس کے عربی اور ادو ترجمے کیے گئے۔اس کتا ب کا موضوع علوم القرآن ہے۔

دعوت الی القرآن اور خواص و اہل علم کے حلقے میں تدبر قرآن کی صلاحیت پیدا کرنے اور اس کے ذریعے سے امت کی اصلاح کا جذبہ بیدار کرنے کے سلسلہ میں شاہ صاحبؒؒؒ کی ایک تجدیدی و انقلابی خدمت اور کارنامہ ’’الفوز الکبیر‘‘ کی تصنیف ہے جو اپنے موضوع پر (ہمارے علم میں پورے اسلامی کتب خانے میں)منفرد کتاب ہے۔

اصول تفسیر پر کوئی چیز عام طور پر نہیں ملتی،صرف چند اصول و قواعد تفاسیر کے مقدمے میں یا اپنا تصنیف بیان کرنے کے لیے بعض مصنفین چند سطروں میں لکھ دیتے ہیں،شاہ صاحبؒؒؒ کی کتاب ”الفوز الکبیر فی اصول التفسیر“بھی اگرچہ مختصر ہے لیکن پوری کتاب سراسر نکات و کلیات ہے،اور در حقیقت ایک جلیل القدر عالم کی جس کو فہم قرآن کے مشکلات کا علمی تجربہ ہے،ایک قیمتی اور نادر بیاض ہے۔

اس کی قدر وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو ان مشکلات سے واسطہ پڑا ہوبعض بعض اصول جو شاہ صاحبؒؒؒ نے اپنے ذوق و وجدان اور فہم قرآن کی بناپر لکھ دیے ہیں ،دوسری کتابوں کے سینکڑوں صفحات کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوسکتے،اسی رسالے کے مقدمے میں شاہ صاحبؒؒؒ کا یہ فرمانا حرف بحرف صحیح ہے کہ:

’’فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم (اللہ ان کے ساتھ اپنے لطف عظیم کا معاملہ فرمائے) کہتا ہےجب اللہ نے اس فقیر پر کتاب اللہ کےفہم کا دروازہ کھولا تو اس کی خواہش ہوئی کہ بعض مفید نکات جن میں لوگوں کو تدبر قرآن میں مدد ملے گی ایک مختصر رسالے میں لکھ دیے جائیں عنایت خداوندی سے امید ہے کہ طالب علموں کے لیے ان قواعد کےفہم کے بعد فہم مطالب قرآن کی ایسی کشادہ راہ مل جائے گی کہ اگرمطالعہ تفاسیر اور مفسرین (جن کی تعداد آج کل بہت ہی کم ہے) سےرجوع کرنے میں ایک عمر بھی گزاریں گےتب بھی فہم قرآن سے ایسا ربط پیدا نہ کرسکیں گے۔‘‘ ([11])

قرآن کے مضامین و مقاصد ،اس کے طرز اسلوب کی خصوصیت اور انسانی تالیفات خصوصاً متاخرین کی کتب درسیہ سے اس کے اختلاف و امتیاز اور شان نزول سے متعلق چند لفظوں میں جو کچھ لکھا ہے ،آج اس میں ممکن ہے کوئی ندرت نہ معلوم ہو لیکن بارھویں صدی میں یہ قطعاً نئے خیالات تھے اور آج بھی کتنے حلقوں میں یہ خیالات نامانوس ہیں۔ شان نزول کی روایتوں کی کثرت اور ان کی اہمیت پر زیادہ زور دینے سے (جو قرون متاخرہ کا شعار بن گیا تھا) قرآن کریم کے مضامین و قصص اور مواعظ و عبر سے ہر زمانے میں جو فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے اپنے زمانے و حالات پر ان کا جس طرح انطباق ہونا چاہیے ،اس میں بڑا فرق ہوگیا تھا،شاہ صاحبؒؒؒ کی اس تحقیق و تتقیح سے وہ پردہ ہٹ جاتا ہے اور قرآن مجید کا جمال جہاں آراسامنے آجاتا ہے،الفوز الکبیر کے باب اوّل میں شاہ صاحب لکھتے ہیں:

’’عام مفسرین نے ہر ایک آیت کو خواہ مباحثہ کی ہو یا احکام کی ایک قصہ کے ساتھ ربط دیا ہے، اور اس قصہ کو اس آیت کے لیے سبب نزول مانا ہے لیکن حق یہ ہے کہ نزول قرآنی سے مقصود اصلی نفوس بشریہ کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی تردید ہے۔اس لیےآیات مناظرہ کے نزول کے لیے متکلمین میں عقائد باطلہ کا وجود اور آیات احکام کے لیے ان میں اعمال فاسدہ اور مظالم کا شیوع اور آیات تذکیر کے نزول کے لیے ان کا بغیر ذکر آلاء اللہ و ایام اللہ اور موت وواقعات بعد الموت کے بیدار نہ ہونا،اصلی سبب ہوا۔خاص واقعات کو جن کے بیان کرنے کی عام مفسرین نے زحمت اٹھائی ہے،اسباب نزول میں چنداں دخل نہیں ہے،مگر سوائے چند آیات کے جن میں کسی ایسے واقعے کی جانب اشارہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یا اس سے پیشتر واقع ہوا ہو۔‘‘ ([12])

خصوصیات کتاب

قرآن مجید نے جن فرقوں کی تردید کی ہے،ان کے اصلی اور صحیح خیالات و عقائد اور کمزوریوں کا بیان ان کی گمراہیوں اور غلط فہمیوں کے حقیقی اسباب اور ان کی تاریخ ،نفاق کی تشریح اور مسلمانوں کی بعض جماعتوں پر ان کی تطبیق،فہم القرآن کی اساس ہے جو اختصار کے باوجود اس وضاحت کے ساتھ کسی بڑی سے بڑی تفسیر میں نہیں ملے گی۔

نسخ میں متقدمین و متاخرین کے اصطلاحی فرق اور منسوخ و ناسخ آیات میں تطبیق،صحابہ وتابعین کے تفسیری اختلاف کا حل شاہ صاحبؒؒؒ کی عمدہ تحقیقات میں سے ہے۔

نحو کے مشہور اور ظاہری قواعد کی بعض آیات سے بظاہر عدم مطابقت کی جو توجیہ شاہ صاحبؒؒؒ نے کی ہے،اس کی قدر وہ لوگ کرسکتے ہیں جو نحو کی تدوین کی تاریخ سے واقف اور بصرہ و کوفہ کے دبستان کے اختلاف پر نظر رکھتے ہیں۔

رسالے کا بڑا امتیازیہ ہے کہ اس کو پڑھ کر ادیان سابقہ فرق ضالہ اور اقوام و ملل کی پرانی بیماریوں اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور اس کی توفیق ملتی ہے کہ قرآن کے آئینے میں مسلمانوں کی نسلیں اور اپنے اپنے عہد کا مسلم معاشرہ اور طبقات امت ،اپنا چہرہ دیکھیں اور اس کی فکر کریں کہ مذاہب و فرق کی سابقہ بیماریاں اور کمزوریاں دبے پاؤں ان میں تو داخل نہیں ہوگئی ہیں۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (النساء:۱۰)

”ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا تذکرہ ہے،کیا تم نہیں سمجھتے؟“

فتح الخبیر

شاہ صاحبؒ نے ایک اور رسالہ بھی لکھا ہے جوکہ فتح الخبیر(عربی) کے نام سےقرآن مجید کے مشکل الفاظ کی تشریح پرمشتمل ہےیہ رسالہ الفوز الکبیر کے تتمہ کے طور پر شامل ہے۔

اہل علم کی رائے

مولاناسیدمناظراحسن گیلانی صاحب

مولاناسیدمناظراحسن گیلانی صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’اور سب سے بڑا کام کم از کم میرے ناچیز خیال میں شاہ صاحب کا یہ ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہندوستان میں قرآن و حدیث کے ترجمے کی بنیاد بڑی جرات اور ہمت سے کام لے کر بالآخر ڈال دی تھی۔ اگرچہ خود انھوں نے فارسی میں قرآن کا بھی ترجمہ کیا۔ اور حدیث کی قدیم ترین کتاب موطا مالک کا بھی ترجمہ فارسی ہی میں کیا کہ ان کے زمانے تک غالباً اردو عام طور سے لکھنے پڑھنے کی زبان نہیں بنی تھی۔ جو بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وہ فارسی میں لکھتے پڑھتے تھے لیکن جوں ہی کہ اردو نے قدم آگے بڑھایا اور اس راہ میں اس نے بڑی تیزی دکھائی۔ تو محض اس لیے کہ شاہ صاحب کا نمونہ فارسی میں موجود تھا۔ آپ کے صاحبزادوں میں سے حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے بامحاورہ اردو میں اور شاہ رفیع الدین صاحب نے لفظی ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل فرمائی اور ان دونوں حضرات کے بعد پھر اس وقت تک اردو میں قرآن بلکہ حدیث کے بھی جتنے ترجمے ہوئے یا آئندہ ہوں گے کم از کم ہندوستان کی حدتک اس سنت حسنہ کے تسنن کا سہرا حضرت شاہ ولی اللہؒ ہی کے سربندھا ہے۔۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کے کارناموں میں ترجمے کی خدمت کو میں سب سے بڑی خدمت قرار دیتا ہوں۔‘‘ ([13])

مولانا عبدالماجد دریا بادی صاحبؒ

مولانا عبدالماجد ماہنامہ الفرقان (بریلی)میں ہندوستان میں قرآن فہمی کا چرچا اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

”ہندوستان میں قرآن فہمی کا چرچا آج جو کچھ نظر آتا ہے یہ اردو،انگریزی اور دوسری زبانوں میں جو بیسیوں ترجمے شائع ہوچکے ہیں ،شائع ہورہے ہیں یا آئندہ شائع ہوں گے ان سب کے اجر کا جزوِ اعظم یقیناً حضرت شاہ صاحبؒ ؒ کے حسنات میں لکھا جائے گا۔یہ سارے چراغ اسی چراغ سے روشن ہوئے ہیں ۔اگر اس کی ابتدا آپ ؒ اپنے مبارک ہاتھوں سے نہ کرجاتے تو نہ شاہ رفیع الدین ؒ کا اردو ترجمہ وجود میں آتا ،نہ شاہ عبدالقادر ؒ کا ،اور متاخرین کا تو ذکر ہی کیا ۔جو شخص امت کی بے شمارنسلوں کے لئے اتنی بڑی رحمت کا درازہ کھول گیا اس کے اجرِ بے حساب کا حساب اور مزدِ بے نہایت کا اندازہ ہی کون کرسکتا ہے۔“ ([14])

مولانا عبید اللہ سندھی صاحبؒ

مولانا عبید اللہ سندھی شاہ صاحبؒؒ کی قرآنی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”الغر ض شاہ صاحبؒؒ نے قرآن کے اعجاز کو اس کے بتائے ہوئے نظام حیات میں متعین فرمایا ،اس طرح قرآن کی عملی افادیت ان کے نزدیک اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوگیا۔اب قرآن کے اس نظام ِ حیات سےہر شخص خواہ وہ عربی ہو یا عجمی ،عامی ہو یا عالم ،فلسفی ہو یا سادہ مزاج ،مستفید ہوسکتا ہے او راس کے اعجاز کو سمجھ سکتا ہے ۔لیکن اگر قرآن کا اعجاز محض عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا پاپند ہوجاتا تو اس صورت میں معدودے چند افراد کے سوا دوسرے لوگ اس کی اعجازی خوبیوں سے محروم رہتے ۔‘‘ ([15])

قاضی جاوید صاحبؒ

قاضی جاوید صاحبؒ افکار شاہ ولی اللہ ؒ میں شاہ صاحبؒ کے ترجمۂ قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

”اگرچہ شاہ کا ترجمہ قرآن برصغیر میں پہلا ترجمہ نہ تھا،مگر یہ ترجمہ بعض ایسی خصوصیات کا حامل تھا جو دیگرتراجم میں موجود نہ تھیں ،چنانچہ اسے خاصی مقبولیت ہوئی،بعد ازاں شاہ کے دو صاحبؒ زادوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے قرآن حکیم کاپہلی بار اردو میں ترجمہ کیا،جس سے عوام کے ایک بڑے طبقے کو قرآنی تعلیمات تک براہ ِ راست رسائی حاصل ہوگئی،مذہبی نقطہ نگاہ سے ولی اللہی خاندان کی یہ ایک بڑی خدمت تھی۔“ ([16])

مولانا حافظ محمد رحیم بخش مرحوم دہلویؒ

مولانا حافظ محمد رحیم بخش مرحوم دہلوی،شاہ صاحبؒ کے ترجمہ قرآن کی خدمت پر اس طرح رقمطراز ہیں کہ:

”اس وقت ہندوستان میں جہاں سے جہاں تک سچے اسلام کی روشنی نظرآتی ہے اور شرک وبدعت سے صاف اور نتھراہوا مذہب دکھائی دیتا ہے سب اسی ترجمے کا صدقہ ہے ۔

ایں کار از توآید و مردان چنیں کنند ([17])

 

حوالہ جات

  1. ()ولی اللہ ،شاہ،التفہیمات الالٰہیہ ،المجلس العلمی،ڈابھیل،۱۳۵۵ھ، ج۲،ص۱۳۴۔۱۳۵
  2. () ایضاً،ج۲،ص۱۳۵
  3. () ایضاً،شاہ الفوز الکبیر(اردو )،مترجم: انصاری ،رشید احمد،مکتبہ برہان،دہلی،۱۹۵۵ء،ص۱۰
  4. () عبدالقادر، شاہ،مقدمہ موضح القرآن، بحوالہ: گیلانی،مناظراحسن،تذکرہ شاہ ولی اللہ،نوید پبلشر،لاہور،۲۰۰۳ء، ص ۱۷۶
  5. ()محمداکرام،رودکوثر،ادارہ ٔ ثقافت اسلامیہ،لاہور،۲۰۰۵ء،ص۵۵۳
  6. ()جائزہ تراجم قرآنی ،شائع کردہ مجلس معارف القرآن،دارالعلوم دیو بند،ص۱۳۔۱۴
  7. () محمد اکرام ،شیخ ،محوّلہ بالا
  8. () ولی اللہ،شاہ،فتح الرحمن ،دہلی،مطبع فاروقی،۱۲۹۴ھ،ص دیباچہ
  9. () ایضاً، اصول ترجمہ،مخطوطہ، محفوظ کتب خانہ ند وۃ العلماءمشتمل بشش صفحات،سن ندارد
  10. () عبدالقادر،شاہ،موضح القرآن،جلد اول،ص۲؛بحوالہ: گیلانی،مناظراحسن،تذکرہ شاہ ولی اللہ،نوید پبلشر لاہور،۲۰۰۳ء ، ص۱۷۴
  11. ()ولی اللہ ،شاہ،الفوز الکبیر(اردو)،مترجم :الضاری ،رشید احمد، دہلی،مکتبہ برہان،۱۹۵۵ء،ص۳
  12. ()ایضاً،ص۵
  13. ()گیلانی،مناظراحسن،تذکرہ شاہ ولی اللہؒ،نویدپبلشرز لاہور،۲۰۰۳ء،ص۱۷۳۔۱۷۷
  14. ()دریابادی،عبدالماجد،ماہنامہ الفرقان،بریلی،شاہ ولی اللہ نمبر،۱۳۵۹ھ،ص۱۳
  15. ()سندھی،عبیداللہ ،شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کی سیاسی تحریک ،المحمود اکیڈمی لاہور،۱۹۴۱ء،ص۳۲
  16. ()قاضی جاوید،افکارشاہ ولی اللہ،نگارشات ، لاہور،۱۹۷۷ء، ص۶۹
  17. ()دہلویؒ ،محمد رحیم بخش،حیات ولی ،مکتبہ طیبہ لاہور ،بلال گنج ،۱۹۷۲ء،ص۳۹۶ == کتابیات == ۱۔ جائزہ تراجم قرآنی ،شائع کردہ مجلس معارف القرآن،دارالعلوم دیو بند،سن ندارد ۲۔ دہلویؒ ،محمد رحیم بخش،حیات ولی،بلال گنج ،لاہور،مکتبہ طیبہ ،۱۹۷۲ء ۳۔ سندھی،عبیداللہ،شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کی سیاسی تحریک،لاہور،المحمود اکیڈمی،۱۹۴۱ء ۴۔ قاضی جاوید،افکارشاہ ولی اللہ،لاہور،نگارشات ،۱۹۷۷ء ۵۔ گیلانی،مناظراحسن،تذکرہ شاہ ولی اللہ،لاہور،نوید پبلشر،۲۰۰۳ء ۶۔ محمداکرام،شیخ،ردِکوثر،لاہور،ادارۂ ثقافت اسلامیہ،۲۰۰۵ء ۷۔ ولی اللہ ،شاہ،التفہیمات الا لٰہیہ ڈابھیل،المجلس العلمی، ۱۳۵۵ھ ۸۔ ولی اللہ،شاہ، الفوز الکبیر(اردو )مترجم: انصاری ،رشید احمددہلی،مکتبہ برہان،۱۹۵۵ء ۹۔ ولی اللہ،شاہ،فتح الرحمن، دہلی،مطبع فاروقی ،۱۲۹۴ھ== رسائل و جرائد == ماہنامہ الفرقان،شاہ ولی اللہ نمبربریلی ،۱۳۵۹ھ
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...