Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

شیخ سعید حوی اور ان کی تفسیر: ایک مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_884

Pages

11-23

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/126

Subjects

Coherent view of al Quran nazam al Quran alasas fil tafseer.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

”الاساس فی التفسیر “ کا تعارف و خصوصیات

مفسر کے خالات زندگی اور تعلیم و تربیت

سعید بن محمد دیب حویٰ ۲۷/ستمبر ۱۹۳۵ م کو قصبہ علیلیات شام میں پیدا ہوئے ۔ جو ملک شام (سوریہ)کے چوتھے بڑے شہر حماۃ کے جنوب میں واقع ہے۔([1])

ان کے والد محمد دیب حویٰ ایک غریب آدمی تھے اور بازار میں سبزی کا کام کرتے تھے ۔ ان کا تعلق شام کے مشہور قبیلہ عشیرۃ الموالی سے تھا۔ یہ قبیلہ بنو نعیم ([2]) کی ایک شاخ ہے۔([3]) سعید حویٰ کے والد ایک بہادر انسان تھے۔ جنہوں نے اپنے دور میں فرانسیسی استعمار کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لیا ۔ سعید حوٰی کے بچپن میں ہی ان کی والدہ وفات پا گئیں ۔([4]) ان کی تربیت ان کی دادی نے کی ۔انہوں نے بچپن سے ہی ان پر خاص توجہ دی اور ان میں محبت ، مروت ، سچائی ،اور وفا جیسی خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔([5])

ابتدائی تعلیم

سعید حوٰی کو بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا اور تلاوت میں بھی کمال حاصل کر لیا۔ وہ شہر کی مختلف لائبریریوں میں جاتے اور سارا سارا دن بیٹھ کر پڑھتے ۔ خاص طور پر حماۃ شہر کی مسجد مدفن کی لائبریری میں بیٹھ کر انہوں نے بہت مطالعہ کیا۔ انہوں نے لغت، تاریخ، فلسفہ، اخلاق ، ادیان اور دیگر تمام علوم میں بہت گہرا مطالعہ کیا ۔ انہوں نے ۱۹۴۸ء تک شام کے نظام تعلیم کا ابتدائی مرحلہ اعدادیہ اور ۱۹۵۵ءتک مرحلہ الثانویہ کی تعلیم مکمل کرلی۔ ([6])

اعلیٰ تعلیم

سعید حوٰی نے نوجوانی میں ہی اشتراکیت، قومیت ، جدیدیت اور اخوان المسلمین کے افکار کا گہرا مطالعہ کیا اور ۱۹۵۲ء میں اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی اور اخوان المسلمین میں اپنی شمولیت کو اپنی زندگی کا اہم کارنامہ قرار دیا ۔ اس کےبعد انہوں نے ۱۹۵۶ میں جامعہ دمشق کے کلیہ الشریعہ میں داخلہ لیا اوروہاں سے ۱۹۶۱ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران ڈاکٹر مصطفی السباعی، مصطفی الزرقا، محمد البارک ، فوزی فیض اللہ جیسے مشہور اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ اسی طرح فقہ میں شیخ محدالی اور الشیخ محمد الہاشمی سے بہت استفادہ کیا۔([7])

۱۹۶۳ء میں وہ فوج میں شامل ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں انہوں نے شادی کی۔ ان کے چار بچے ہوئے۔ جن میں تین بیٹے، محمد، احمد، معاذ اور ایک بیٹی شامل ہے۔ اس کے بعد ۱۹۶۶ء میں وہ سعودیہ چلے گئے۔ انہوں نے ۱۹۷۱ء تک وہاں قیام کیا اور مختلف علمی کانفرنسوں ، مجلسوں میں شرکت کی، نیز مختلف جامعات میں درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ ۱۹۷۱ءمیں سعودیہ سے شام واپس آئےاور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے ۔ ۱۹۷۳ء میں اسلامی حکومت کے قیام کے مطالبے پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ۱۹۷۸ تک تقریباپانچ سال قید رہے ۔اسی قیدوبند میں ہی انہوں نے اپنی مشہور تفسیر‘‘الاساس فی التفسیر’’تحریر کی۔([8])

رہائی کے بعد اخوان المسلمین کی طرف سے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ جن میں سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، عراق، اُردن، مصر، پاکستان، امریکا اور جرمنی شامل ہیں۔سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وہ بیما ر ہو گئے اورکافی کمزور ہو گئے ۔ ۱۴/دسمبر ۱۹۸۸ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ قومے میں چلے گئے اور ۱۹/ اگست ۱۹۸۹ء بروز جمعرات اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔([9])

تصنیفات

  • شیخ سعید حویٰ نے بہت ساری ضخیم کتب تصنیف کیں۔ ان کی تالیفات کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: منہج اصول ثلاثہ ، اس میں ان کی تین کتب شامل ہیں۔ ۱۔اللہ جل جلالہ ۲۔ الرسولﷺ ۳۔ الاسلام
  • منہج فی الأساس: اس سلسلہ میں بھی تین کتب ہیں۔ ۱۔ الأساس فی التفیسر ۲۔ الأساس فی السنۃ وفقہھا 3۔الأساس فی قواعد المعرفۃ و ضوابط الفھم للنصوص
  • منہج تزکیہ و تربیت: اس سلسلہ میں بھی تین کتب ہیں۔ ۱۔ تربیت الروحیہ ۲۔ المستخلص فی تزکیہ الانفس

۳۔ مذاکرات فی منازل الصدیقین والریانبین * منہج اخلاقیات: اس سلسلہ میں گیارہ کتب ہیں۔ ۱۔ تربيتنا الروحية ۲۔ المستخلص في تزكية الأنفس ۳۔مذكرات في منازل الصديقين والربانيين ۴۔ جند الله ثقافة وأخلاقا ۵۔ جند الله تخطيطا ً۶۔ جند الله تنظيماً ۷۔من أجل خطوة إلى الأمام على طريق الجهاد المبارك ۸۔ المدخل إلى دعوة الإخوان المسلمين ۹۔ في آفاق التعاليم ۱۰۔كي لا نمضي بعيداً عن احتياجات العصر ۱۱۔ هذه تجربتي.. وهذه شهادتي([10])

قرآن مجید اپنے اسلوب بیان اور انواع مضامین کے لحاظ سے ایک منفرد اور یکتا کتاب ہے۔ اس کے الفاظ کا درونسبت، اس کی تراکیب کی بندش ، اس کے جملوں کی مہک خرامی، اس کے قوافی کی مذرت اور نغمگی ، اس کے طرز بیان کی سحر انگیزی، اس کے استعارات و تشبیہات اور امثال و محاورات کی جدت طرازی اور اثر آفرینی بے مثل و بے نظیر ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے اندر مکمل ربط پایا جاتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے کسی نے لڑی میں موتی پرو دیے ہوں۔ ایسی کتاب کی تفسیر کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

کامیاب مفسر وہ ہے جو قرآن مجید کی تفسیر اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کرے اور اسے روح عصر کے علاج کرنے کا ذریعہ بنائے اور قرآن کے مقاصد و اہداف کو بیان کرے کیونکہ قرآن کریم لوگوں کی طرف اللہ کا پیغام ہے اس میں وہ نظام، شریعت اور منہج شامل ہے جس کا فطرت انسانی تقاضا کرتی ہے نیز جسے اس کی تعلیمات نے روح اور جسم کی ضروریات کے توازن کو مدنظر رکھ کر بیان کیا ہے اور ایک فرد اور پورے معاشرے کی مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر بیان کیا ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کی بھلائی اور خیر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اسے کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں اور اسے دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

شیخ سعید حوٰی کی ’’تفسیر الأساس فی التفسیر‘‘ کا تعارف

شیخ سعید حویٰ کی تفسیر کا پورا نام ”الأساس فی التفسیر“ ہے۔ یہ کتاب عربی میں گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور مکتبہ ”دارالسلام للطباعۃ والنشر والتوزیع والترجمہ“ جمہوریہ مصر العربیہ القاہرہ الاسکندریہ سے ۱۹۸۵ء میں پہلی بار چھپی ۔

انہ کتاب علم و دعوۃ و تربیۃ وجھاد بآن واحد فھو کتاب تبصیر للمسلم فی ھذہ الروائد کلھا ([11])

”بے شک یہ بیک وقت علم ،دعوت،تربیت اور جہاد کی کتاب ہے۔ نیز جدید دور کی مشکلات میں یہ مسلمانوں کے لیے بصیرت کی کتاب ہے ۔“

شیخ سعید حوٰی کی تفسیر کے مقاصد

شیخ سعید حویٰ جب قرآن کی تفسیر لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے تو بقول ان کے، ان کے پیش نظر کئی مقاصد تھے جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیاجاتا ہے:

۱۔شیخ سعید حویٰ فرماتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کی تفسیر کا مقصد ہے کہ ایک ایسی مسلم شخصیت تیار کی جائے کہ جو عملی طور پر قرآن کی ترجمانی کرتی ہے اور ان کی تفسیر میں یہ خوبی موجود ہے کہ جب کوئی شخص اس کا مطالعہ کرتا ہے تو اس میں یہ خوبی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ عملی طور پر قرآن کی ترجمانی کرنے والا بن جاتا ہے۔

۲۔سعید حویٰ اپنی تفسیر قرآن میں قرآن کریم کے ایک موضوع ہونے پر بہت وسیع گفتگو کرتے ہیں ان کے خیال میں یہ چیز قرآن مجید کو سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے اور قرآن مجید کے اعجاز کو ثابت کرتی ہے۔

۳۔سعیدحویٰ نے اپنی تفسیر قرآن میں جدید دور میں پائے جانے والے بہت سارے سوالات کے جوابات دیے ہیں اور اس کےلئے انہوں نے عصری علوم سے بھی استفادہ کیا ہے۔

۴۔شیخ سعید حویٰ نے قرآن پر مختلف لوگوں کے شبہات کو بھی اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور پھر بھرپور انداز میں ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے۔

۵۔شیخ سعید حویٰ نے اپنی تفسیر میں قاری کےلئے آسانی کو مد نظر رکھا ہے کہ اسے تفسیر کے مطالعہ کے دوران کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز شیخ سعید نے اپنی تفسیر میں دیگر تفسیر کی امہات کتب کا خلاصہ نکال کر پیش کیا ہے کیونکہ لوگ اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ انہیں دلائل کے ساتھ خلاصہ مل جائے۔

۶۔شیخ سعید حویٰ نے اپنی تفسیر کو جہلاء کی تاویلوں اور فلسفیوں کے فلسفہ سے الگ کرکے صحیح اسلامی عقیدے کو پیش کیا ہے اور فلسفیوں کے فسلفہ کا رد بھی پیش کیا ہے جو اہل سنت والجماعت کے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

شیخ سعید حوٰی کی تفسیر کی خصوصیات

زیر نظر تفسیر میں بھی بہت ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اسے دیگر کتب تفاسیر سے ممتاز کرتی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

۱۔تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کا حسین امتزاج

شیخ سعید حویٰ کی تفسیر کی پہلی خوبی یہ ہے کہ یہ تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کا حسین امتزاج ہے۔ شیخ سعید حویٰ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :

ولقد حاولت فی المرحلۃ الاؤلی من العمل ان اضمن ھذا التفسیر خلاصہ التفسیرین و مجمل الفوائد الموجودۃ فیھما۔ تفسیر ابن کثیر و تفسیر نسفی ([12])

اور پہلے مرحلہ میں عملی طور پر میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنی اس تفسیر میں تفسیر ابن کثیر (تفسیر بالماثور)اور تفسیر نسفی (تفسیر بالرائے) کا خلاصہ شامل کروں اوروہ فوائد بیان کروں جو ان دونوں تفاسیر میں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر تفاسیربالما ثور میں اہم مقام رکھتی ہے اور تفسیر نسفی تفاسیر بالرائے میں اہم مقام رکھتی ہے۔ شیخ سعید حویٰ نے پوری کوشش کی ہےکہ وہ اپنی اس تفسیر میں دونوں تفاسیر کے خلاصہ اور فوائد کو مجمل انداز میں بیان کریں گے۔

الاساس فی التفسیر ایک بہترین تفسیر اور جدیدنوعیت کا کام ہے کیونکہ پہلے جتنے بھی مفسرین گزرے ہیں، انہوں نے یا تو تفسیر بالرائے کو اختیار کیا ہے یا پھر تفسیر بالما ثور کو ۔لیکن شیخ سعید حویٰ نے پہلی مرتبہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ ان دونوں طرز کی تفاسیر کا ایک حسین امتزاج اپنے قارئین کے سامنے لائیں اور ان دونوں تفاسیر کا خلاصہ اپنی تفسیر میں پیش کریں۔ اس طرح انہوں نے اپنی تفسیر میں یہ اشارہ بھی دے دیا ہےکہ دونوں مکاتب فکر کے لوگ اس تفسیر سے بیک وقت بلا کسی جھجھک کے استفادہ کر سکیں۔

شیخ سعید حویٰ اپنی تفسیر کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

اعتمدت فی الابتداء علی تفسیرین فقط ھما تفسیر ابن کثیر و تفسیر النسفی، اذ لم یتوفر لی فی سجنی فی المرحلۃ التی ابتدأت فیھا العمل الا ھذان التفسیران ۔

ابتدائی طور پر میں نے جن دوتفسیروں پر اعتماد کیا ہے وہ تفسیر ابن کثیر اور تفسیر نسفی ہیں کیونکہ میری قید کے دوران جب میں نے تفسیر لکھنی شروع کی ان دونوں تفسیروں کے علاوہ مجھے کسی اور تفسیر تک رسائی نہیں مل سکی۔(مقدمہ، الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۸)

ایک شبہ جو یہاں پیدا ہو سکتاہےشیخ سعید حویٰ اس کا ازالہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں :

انہ من الظلم لھذا التفسیران یقول قائل ان ھذا التفسیرھوخلاصۃ لکتابین

”یہ ظلم ہے کہ کوئی کہنے والا یہ کہے کہ بے شک یہ کتاب ان دونوں کتابوں (تفسیرابن کثیرو تفسیر نسفی) کا خلاصہ ہے۔“ (مقدمہ، الاساس فی التفسیر، ج ۱، ص ۹)

شیخ سعید حویٰ مزیدکہتے ہیں کہ میرے خلاصہ بیان کرنے سے کوئی یہ نہ سمجھ لےکہ یہ تفسیر صرف ان دو کتابوں کا مواد ہے بلکہ ان میں سے تو صرف چند باتیں ہی بیان کی گئی ہیں باقی تفسیر تو میری اپنی ہے۔

۲۔نظریہ الوحدہ الموضوعیۃ القرآنیہ

شیخ سعید حویٰ کی کتاب ”الاساس فی التفسیر“ کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں شیخ سعید حویٰ کا نظریہ الوحدۃ الموضوعیۃ القرآنیہ بیان ہواہے۔ شیخ سعید حویٰ کےنزدیک پورا قرآن ایک موضوع پر مشتمل ہے اور اس میں مکمل ربط پایا جاتا ہے۔ قرآن کا ایک حصہ دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ شیخ سعید حویٰ اس بارے میں فرماتے ہیں:

ان الخاصیۃ الاولیٰ لھذا لتفسیر۔فیھا اعلم۔ نظریۃ جدیدۃ فی موضوع الوحدۃ القرآنیۃ

”بے شک اس تفسیر کی پہلی خاصیت جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا وحدت قرآن کے جدید نظریے کے موضوع پر مشتمل ہونا ہے۔“ (مقدمہ، الاساس فی التفسیر، ج ۱، ص ۱۴)

شیخ سعید حویٰ اپنے اس نظریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

ولقد استطعت متوفیق اللہ ان ابرھن علی ان کمال القرآن فی وحدۃ ایاتہ فی السورۃ الوحدۃ و کمالہ فی الوحدۃ الجامعۃ التی تجمع مابین سورہ و آیاتہ علی طریقۃ لم یعرف لھا العلم مثیلا

”میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ کوشش کی ہے کہ میں قرآن مجید کی ایک سورۃ کی آیات کے ایک موضوع پر مشتمل ہونے کو اور قرآن مجید کی تمام سورتوں اور ان کی آیات کے ایک موضوع پر مشتمل ہونے کو جامع انداز میں اس طرح ثابت کروں کہ جس کی جہان میں کوئی مثال نہ ہو۔“ (مقدمہ ، الاساس فی التفسیر، ج ۱، ص ۱۷)

شیخ سعید حویٰ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں :

ولقد فصلت فیہ تفصیلا استوعب ادسییات فی السورۃ الوحدۃ و السور فی القرآن کلہ

”نیز میں نے اس تفسیر میں ایک سورۃ کی آیات کے درمیان تعلق کو اور پورے قرآن کی تمام سورتوں کے درمیان تعلق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔“ (مقدمہ، الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۱۸)

اس سے واضح ہے کہ شیخ سعید حویٰ کے نزدیک قرآن کی تمام سورتوں میں ربط پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک سورۃ کی تمام آیات کے درمیان بھی ربط پایا جاتا ہے اور قرآن کی تمام سورتوں کی آیات میں بھی اور سورتوں کا آپس میں بھی ربط اس طرح پایا جاتا ہے کہ گویا وہ تمام ایک ہی موضوع پر مشتمل ہیں اور اس کی تفصیل بیان کر رہی ہیں۔

ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ سعید حویٰ کے نزدیک ان کی تفسیر میں سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہے جو انہوں نے نظم قرآن کے حوالے سے کیا ہے انہوں نے ربط قرآن کے حوالے سے ایک نظریہ پیش کیا ہے اور اسے اپنی تفسیر میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

نظریہ الوحدہ الموضوعیہ القرآنیہ کی تفصیل اور مثالوں سے اس کی وضاحت

شیخ سعید حویٰ کے نزدیک پورے قرآن کی اصل وبنیاد سورۃ فاتحہ ہے۔ سورۃ بقرہ دراصل سورۃ فاتحہ کی تفصیل ہے یعنی وہ اس کے معانی کو بیان کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد والی سات سورتیں دراصل سورۃ بقرہ کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔ اور باقی قرآن بھی سورۃ بقرہ سے جڑا ہوا ہے۔ اور سورۃ بقرہ کو سورۃ فاتحہ سے جوڑا گیا ہے۔ اس طرح سورۃ فاتحہ پورے قرآن کی اصل قرار پاتی ہے۔ نیز شیخ سعید حویٰ باقی تمام سورتوں کا آپس میں ربط اور ان کے مختلف حصوں کا آپس میں ربط بھی بیان کرتے ہیں۔(الأساس فی التفسیر، ج ۴، ۹۴)

شیخ سعید حویٰ اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورۃ بقرہ مقدمہ ، تین اقسام اور خاتمہ پر مشتمل ہے۔سورۃ بقرہ کی پہلی بیس آیات اس کا مقدمہ ہیں اور سورہ آل عمران اس مقدمہ کی تفصیل ہے۔

سورہ بقرہ کامقدمہ

سورہ بقرہ کی پہلی بیس آیات مقدمہ ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے مطابق لوگوں کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں: ۱۔متقین ۲۔کفار ۳۔ منافقین اور ان آیات میں ہر ایک کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔

سورۃ بقرہ کی باقی آیات کا تعلق بقیہ قرآن سے ہے ۔یعنی بقیہ قرآن سورۃ بقرہ کی باقی آیات سے جڑا ہوا ہے ۔

سورہ بقرہ کی تین اقسام
قسم اول

سورہ بقرہ کی یہ قسم آیت نمبر ۲۱ تا ۱۶۷ پر مشتمل ہے۔ اس میں تمام لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ایسا راستہ اختیار کریں جو انہیں کامیابی اور تقوٰی (اللہ کے ڈر) کی طرف لے جائے تاکہ وہ ہراس چیز کوجو اس کی منشا کے خلاف ہے، ترک کر دیں۔ ( الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۳۳۶)

قسم ثانی

سورہ بقرہ کی یہ قسم آیت نمبر ۱۶۸ تا ۲۰۷ پر مشتمل ہے۔ اس میں دوبارہ تقویٰ کے مدلولات اور ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اور تقویٰ کے ارکان اور اس کی شروط کو بیان کیا گیا ہے اور ان چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جو تقویٰ میں شامل ہیں اور اس کے دیگر معانی بیان کیے گئے ہیں۔( الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۳۳۶)

قسم ثالث

سورہ بقرہ کی یہ قسم آیت نمبر ۲۰۸ تا ۲۸۴ پرمشتمل ہے۔ اس میں لوگوں کو مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی ہے اور اس میں شرائع اسلام کا بیان تفصیل سے کیا گیا ہے اور ان چیزوں کی وضاحت بیان کی گئی ہے جن کے ذریعے اسلام کو قائم کیا جا سکتا ہے۔ا س میں مال کے بارے میں اہم قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ نیز اس میں اسلام کے اقتصادی نظام کے لئے اہم قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ وہ نظام جو صدقات پر قائم ہے وہ نظام جو غیر سودی نظام ہے وہ نظام جس کی بنیاد ہمیشگی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی مالکیت کو مقدم رکھا گیا ہے کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ( الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۳۳۶)

سورہ بقرہ کا اختتام

سورۃ بقرہ کا اختتام آخری دو آیات پر مشتمل ہے ۔ اس میں یہ تمام داخل ہے کہ انسان اپنے ایمان، فرمانبرداری ،اطاعت اور توبہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ تعالی ٰ سے اپنی کمی بیشی پر معافی کا طلب گار ہوتا ہے ۔ (الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۳۳۶)

اب دیکھیں! کہ کس طرح شیخ سعید حویٰ نے قرآن کی سب سے بڑی اور ضخیم سورۃ کو مختصر انداز میں پیش کیا ہے کہ سورۃ کا مکمل عرق نکال دیا ہے۔ اسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے ان کے مضامین اور ان کا تعلق اور اختتام سے ربط کو بیان کردیا ہے۔

بقیہ قرآن کا سورۃ بقرہ سے تعلق

اس کے بعد شیخ سعید حویٰ بقیہ قرآن کا سورۃ بقرہ سے تعلق بیان کرتے ہیں جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے :

۱۔سورہ بقرہ کی پہلی بیس آیات (الم)تا (ان اللہ علی کل شئی قدیر ) تک ہیں اس طرح سورۃ آل عمران بھی (الم) سے شروع ہو رہی ہے اور (لعلکم تفلحون) پر ختم ہوتی ہے۔دونوں کا مضمون ایک جیسا ہے ۔ اس جگہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ آل عمرا ن دراصل سورۃ بقرہ کی پہلی بیس آیات کی تفصیل بیان کرتی ہے۔

۲۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۲۱) کو دیکھیں اور سورۃ النساء کی آیت نمبر(۱) کو دیکھیں دونوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ النساء دراصل سورۃ بقرہ کی اس آیت کی تفصیل میں آئی ہے۔

۳۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر(۲۷) کو دیکھیں اور سورۃ مائدہ کی پہلی آیات کو دیکھیں۔ دونوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ مائدہ دراصل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر (۲۷) کی تفصیل میں آئی ہے۔

۴۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۲۸) کو دیکھیں اور سورۃ انعام کی پہلی آیات کو دیکھیں ۔ دونوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ انعام دراصل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر (۲۸) کی تفصیل میں آئی ہے۔

۵۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۳۸) کو دیکھیں نیزسورۃ اعراف کی ابتدائی تین آیات کو دیکھیں ۔ ان دونوںمقامات کا مضمون ایک جیسا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ اعراف دراصل سورۃ بقرہ کے اس حصے کی تفصیل میں آئی ہے۔

۶۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۲۱۷)کو دیکھیں اور سورۃ انفال کی ابتدائی آیات کو دیکھیں ۔ دونوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ انفال اور توبہ دراصل سورۃ بقر ہ کی اس آیت کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔

اسی طرح شیخ سعید حوی ٰ نے باقی قرآن کا بھی سورہ بقرہ سےتعلق بیان کیا ہے۔

یہی وہ اہم کام اور نظریہ ہے جسے شیخ سعید حویٰ نے اپنی تفسیرمیں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اور یہی ان کے نزدیک ان کی تفسیر کی سب سے بنیادی خاصیت ہے جو اسے دیگر تفاسیر سے ممتاز اور الگ کرتی ہے۔

۳۔کلام کا خلاصہ بیان کرنا

الاساس فی التفسیر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شیخ سعید حویٰ اس میں تفصیل بیان کرنے کی بجائے کلام کا خلاصہ بیان کرتے ہیں ۔شیخ سعید حویٰ فرماتے ہیں :

والمسلم المعاصر یعجبہ ان یاخذ خلاصۃ التحقیق بادلتہ المباشرۃ فی امرما۔۔۔ ولقد راعیت فی قسم التفسیر ھذہ الضرورۃ بحیث لم أقدم فیہ الا ما لہ مساس مباشر فی فھم القرآن دون مخالط کثیر۔

”اور ہمارا ہم عصر مسلمان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملہ میں تحقیق کا خلاصہ اس کے دلائل کے ساتھ حاصل کرے اور میں نے اپنی تفسیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے سوائے ان مقامات کے جہاں فہم قرآن کی خاطر بغیر کسی قسم کے زیادہ مواد کو آپس میں ملط ملط کرنے کےتفصیل کو بیان کرنا ضروری تھا ۔“ (مقدمہ، الاساس فی التفسیر، ج ۱،ص ۸)

اس جگہ واضح ہے کہ شیخ سعید حویٰ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھے ہوئے تھے اور انہیں اس بات کا بہت اوراک تھا کہ کس طرح انہیں اپنا نقطہ نظر لوگوں تک پہنچانا ہے اور کلام اللہ کو اختصار کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا ہے تاکہ لوگ اس سے اس کی طوالت کی وجہ سےبوریت بھی محسوس نہ کریں اور اس کے اختصار کی وجہ سے کسی مشکل میں بھی نہ پڑیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جتنی تفصیل درکار تھی صرف اتنی بیان کی گئی ہے زیادہ تر اختصار سے کام لیا گیا ہے۔

یہ وہ خوبی ہے جو دوسری کسی بھی تفسیر میں بہت کم پائی جاتی ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے یہ کتاب بار بار چھپ چکی ہے۔

۴۔جدید اور منفرد منہج

”الاساس فی التفسیر“ کی ایک خوبی اس کا جدید اور منفرد انداز تفسیر ہے کہ مصنف جب بھی کسی سورۃ کی تفسیر بیان کرتا ہے تو اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔

جیسے المعنی الحرفی، المعنی العام، فصول شتی، فوائد التفسیر، کلمۃ فی السیاق وغیرہ وغیرہ۔

اور ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ بیان کردیتا ہے تاکہ قاری کو بان سمجھنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تفسیر ایک عام قاری سے لے کر ایک ماہر عالم کےلئے برابر علم کا سامان رکھتی ہے ۔ ایک عام قاری اپنی ضرورت کے مسائل پڑھ سکتا ہے اسے المعنی الحرفی، کلمۃ فی السیاق، سے اگر ضرورت نہیں تو کوئی بات نہیں وہ مسائل کو پڑھ لے اور ایک عالم جس کو ان تمام باتوں کا شوق ہے اسے یہ تمام چیزیں ایک ہی تفسیر میں مختلف انداز میں سب کچھ میسر آ رہا ہے اور وہ اس سے خوب استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔ نیز اگر ایک شخص ربط قرآن کا شوق رکھتا ہے تو وہ کلمۃ فی السیاق کا مطالعہ کرے تاکہ اسے سیاق و سباق کا علم ہو سکے اور کلام میں ربط پیدا ہو سکے۔ یہ وہ خوبی ہے جو غالباً ہمارے برصغیر کی تفاسیر میں بہت کم ملتی ہے۔

۵۔مختصر تفسیر

اس تفسیر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں غیر ضروری مواد یا غیر ضروری بحثیں موجود نہیں ہیں بلکہ اختصار کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ شیخ سعید حویٰ فرماتے ہیں:

ومن ممیزا تہٖ: أنہ لیس فیہ حشو، و لیس فیہٖ الامالہ علاقۃ بصلب التفسیر وقد استبعدت منہ کل قضیۃ لم أعتبرھا علمیۃ۔([13])

”اور اس کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس میں ‘‘حشو’’ نہیں (حشو سے مراد غیر ضروری موا دہے) اور اس میں صرف وہ مواد ہے جو تفسیر سے تعلق رکھتا ہے اور تحقیق میں اسے دور رکھا ہے، ہر اس پر قضیہ سے جسے میں علمی نہیں سمجھتا۔“

اس جگہ شیخ سعید حویٰ نے واضح کر دیا ہے کہ اس میں کوئی بھی غیر ضروری کلام یا مواد نہیں جس طرح دیگر تفاسیر میں موجود ہے۔ نیز انہوں نے صرف اتنی ہی گفتگو کی ہے جو بہت ضروری ہے اور شیخ سعید حویٰ نے اس میں ایسی کوئی بات شامل نہیں کی جسے وہ علمی بات نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والا اس بات کو واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک مختصر انداز کی تفسیر ہے جس میں کسی قسم کی طوالت نہیں بلکہ بعض مقامات پر خود صاحب تفسیر معذرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اعتذار : کثیراً ما یحدث أن تتجمع التحقیقات فی مکان واحد من التفسیر وھذا یؤدی الی تضخیم قسم من التفسیر ([14])

عذر: اس بارے میں بہت ساری گفتگو کی گئی ہے اور تفسیر میں ان تمام تحقیقات کو ایک جگہ جمع کرنا نا ممکن ہے کیونکہ یہ ایک ضخیم تفسیر بن جائے گی۔ (لہٰذا اس لئے معذرت کی گئی ہے کہ وہ تمام مواد یہاں نہیں دیا جا سکتا)

اس جگہ شیخ سعید حویٰ نے مطلوبہ مقام پر تفصیل بیان نہیں کی کیونکہ ان کے نزدیک اگر تفصیل بیان کی جائے تو تفسیر کی ضخانت کا خیال نہیں رکھا جا سکتا لہٰذا اسی وجہ سے تفصیل بیان نہیں کی اور معذرت کی ہے۔

۶۔ احادیث صحیحہ کا اہتمام

”الأساس فی التفسیر “ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے اس میں احادیث نے اس میں احادیث صحیحہ کا اہتمام کیا ہےاور اس میں خاص طو رپر احتیاط کی ہے کہ کوئی ایسی روایت بیان نہ کی جائے جو ضعیف یا موضوع ہو بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اگر کوئی روایت محدثنین میں مختلف فیہ ہے تو اسے بھی بیان نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کی تفسیر میں اکثر صحیحین کی روایات کی بھرمار ہے یا دیگران کتب کی روایات بیان کی گئی ہیں جو امہات کتب قرار دی گئی ہیں۔ نیز ان روایات کے بیان کے ساتھ ان کا مقام بھی بیان فرماتے ہیں۔

مثال: حدیث بیان کرنے کے بعد اس کی سنداً حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

قال الدارقطنی: إسنادہ صحیح ([15])

۷۔اقوال ائمہ کو بیان کرنا

”الأساس فی التفسیر“ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں جہاں جہاں بھی کوئی ضرورت پیش آئی ہے کو مصنف نے ائمہ کے اقوال نقل فرمائے ہیں اور ان کے مسالک کو بیان کیا ہے۔

مثال

واختلفوا فی الجھر بالتأمین فی الصلاۃ الجھریۃ۔ قال الشافعیۃ: ان نسی الإمام التأمین جھر المأموم بہٖ قولاً واحدًا۔ وا أمن جھرا فالجدید انہ لا یجھر المأموم والقدیم انہ یجھر۔ ومذھب الحنفیۃ: عدم الجھر للإمام ۔ وقال الجنابلۃ بالجھر۔

اور جہری نمازوں میں آمین بالجھر کے بارے میں آئمہ نے اختلاف کیا ہے۔

شافعی فرماتے ہیں: اگر امام آمین کہنا بھول جائے تو مقتدی ایک دفعہ اونچی آواز میں آمین کہے اور اگر امام جھراً آمین کہے تو جدید قول کے مطابق مقتدی اونچی آواز مین نہ کہے اور قدیم قول کے مطابق کہے گا۔

اور حنفیوں کا مذہب ہے کہ امام اونچی آواز میں نہیں کہے گا۔اور حنبلیوں نے کہا ہے کہ امام بھی اونچی آواز میں آمین کہے گا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ سوریہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کا مکمل نام الجمهورية العربية السورية ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائيل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ سوریہ دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا سوریہ 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے. سعید حویٰ ، شیخ ، ھذہ تحریتی وھدہ شہادتی ، ص ۷
  2. ۔ قبیلہ بنو نعیم خود قبیلہ بنو الخزرج الانصاریہ کی ایک شاخ ہے۔
  3. ۔ یاسر بن حمید الانصاری ، تاریخ قبائل الانصار فی سائر البلدان والاقطار، طبع اولی، ص ۱۲۶
  4. ۔ سعید حویٰ ، شیخ ، ھذہ تحریتی وھدہ شہادتی ، ص ۷
  5. ۔ ایضاً، ص۱۱
  6. ۔ ایضاً، ص ۱۰
  7. ۔ ایضاً، ص ۲۲
  8. ۔ مقدمہ ، الاساس فی التفسیر ، ج ۱،ص ۱۱
  9. ۔ سعید حویٰ ، شیخ ، ھذہ تحریتی وھدہ شہادتی ،مجلہ النذیر النساء، الشام،ص ۱۸
  10. ۔ سلیم الھلالی، مولفات سعید حویٰ، دراستۃ والتقویم، مکتبہ وھبۃ، القاہرہ، مصر ، طبعۃ الاولیٰ ۱۹۸۳ء، ص ۲۴
  11. ۔ سعید حویٰ، مقدمہ، الأساس فی التفسیر ، ج۱، ص ۱۹
  12. ۔مقدمہ، سلسلۃالاساس فی المنہج، ج ۱،ص ۹
  13. ۔ مقدمہ الأساس فی التفسیر ، ج۱، ص ۱۸
  14. ۔ الأساس فی التفسیر ، ج۱، ص ۱۳۲
  15. ۔ الأساس فی التفسیر، ج۱، ص ۲۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...