Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

عصر حاضر میں وحدت الادیان کا تصور اور اسلامی نکتہ نظر |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_952

Pages

190-202

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/110

Subjects

Multi-religious multi-ethnic semitic religion Qur’an Sunnah.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

وحدۃ الادیان سے مراد دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کو یکجا کرکے ایک اجتماعی مذہب تیار کرنا ہے ۔اس اصطلاح کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جتنے ادیان موجود ہیں سب برحق ہیں ، دینِ حق اور الحاد

میں کوئی فرق نہیں اسی طرح دین ِ حق و بت پرستی میں کوئی فرق نہیں ۔ اور حق صرف ایک دین میں منحصر کرنے کا دعویٰ باطل ہے ۔ ([1])

اس نظریے کی روسے تمام ادیان برحق ہے ۔ کسی بھی دین کو باطل کہنا جائز نہیں ۔ ادیان انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔ مختلف ادیان کو ملا کر ایک دین بھی تیار کیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کو ملا کر ایک مشترک مذہب تیار کیا جائے۔ اسلامی نکتۂ نظر سے اگر چہ یہ ایک باطل اور لا حاصل کوشش ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مذہب کوئی صنعت یا حرفت نہیں کہ کوشش کرکے تیار کیا جائے ۔ یہ تو ربّانی تعلیمات کا مجموعہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت کے پیغمبر کو وحی کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں کہ مذہب کے بنیادی قوانین وضع کرے ، البتہ اللہ و رسول کی طرف سے وضع کی گئی بنیادی قوانین کی تفصیل و تشریح کا حق مذہب کے مخصوص ماہرین کو ہوتا ہے ۔ اور ان بنیادی قوانین کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل کی حل کے لیے اجتہاد کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ بنیادی طور پر مذہب میں کمی بیشی یا تحریف کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہوتی ۔ لہٰذا یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل اور ابدی دین ہے ۔ اس کے کچھ اجزا لےکر دوسرے ادیان کے بعض اجزا سے ملا کر ایک نیا دین تیار کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسے امور پر گفتگو کرنے کی گنجائش بھی نہیں۔ تاہم عالمی سطح پر جب وحدۃ الادیان کے حوالے سے کافی کام شروع ہو چکا ہے اور اس کے لیے مختلف ادارے قائم ہوچکے ہیں جو مختلف پہلوؤں سے ادیان ِ ثلاثہ (یہودیت ، عیسائیت اور اسلام) کے مشابہات کا مطالعہ کرکے ایک اجتماعی دین کی تیاری کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئےہیں ۔ اسی وجہ سے مذکورہ عنوان پر کام کرنے کا تہیہ کیا گیا تاکہ اس پہلو سے اسلامی نکتہ ٔنظر کی وضاحت کی جائے اور جو مسلمان اس کوشش کا حصہ بنتے ہیں ان کے سامنے حقیقت کھول دیا جائے کہ کس نہج سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عالمی اتحاد و محبت کے حصول کی خاطر اپنے مذہب سے ہاتھ دھونا پڑجائے۔

عصرِ حاضر میں تیز تر ترقی کی بدولت دنیا کے ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے اقوام ِ عالم کے درمیان نظریاتی اختلافات ختم کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ جس کے نتیجے میں یہود و نصاریٰ کے بعض ماہرین نے ادیان ِ ثلاثہ کے درمیان فرق ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں ۔ چنانچہ جدید عالمی نظام کی آڑ میں ادیان ِ عالم کو ایک دین میں جمع کرنے کے لیے کام شروع کیا گیا ۔ جس کو مختلف نام دیے گئے ۔مثلاً کبھی "التوحید بین الموسوية والعیسوية والمحمدية"کبھی "الدعوۃ إلى تقریب الأدیان"،کبھی" التقارب بین الادیان"،کبھی "نبذالتعصب الدینی " کے نام سے مختلف تنظیمیں قائم کی گئیں ۔ ([2])

اسی طرح مصر کے شہر قاہرہ میں "الاخاء الدینی " کے نام سے ایک تنظیم کیا گیا ۔ جس میں مسلم اور عیسائی علماء کام کرتے ہیں ۔ بعض کا تعلق جامعہ ازہر کے ساتھ ہے جبکہ بعض عیسائی کنیسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح سینا میں وادی راحہ کے مقام پر "مجمع الادیان "کے نام سے تینوں ادیان کی عبادات کے لیے ایک تنظیم قائم کی گئی ہے۔([3])

اسی طرح مختلف عنوانات سے ادیان ِ ثلاثہ کو ایک دین میں جمع کرنے کے لیے مختلف تحریکیں چلائی گئیں ۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں :

وحدۃ الادیان ، توحید الادیان ، توحید الادیان الثلاثة، الابراهيمية ، الملة الابراهيمية ، الوحدۃ الابراهيمية، وحدۃ الدین الالهي ، المؤمنون، المؤمنون متحدون ، الناس متحدون ، الدیانة العالمية ، التعایش بین الادیان ، الملیون ، العالمية و توحید الادیان ۔([4])

اسی طرح ادیان کا فرق ختم کرنے اور ایک مخلوط دین قائم کرنے کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں ۔چنانچہ آسمانی کتابوں کو یکجا کرنے کا ارداہ کیا گیا ، اور قرآن مجید ، تورات اور انجیل کو ایک غلاف میں شائع کرنے کے بارے میں سوچا گیا ۔ پھر مختلف ادیان کے لوگوں کی اجتماعی عبادت کا انتظام کیا گیا ۔ چنانچہ پوپ نے 27/اکتوبر 1986 ء کو اٹلی میں مسلمانوں اور اہل کتاب کی ایک اجتماعی نماز قائم کی ۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے ۔([5])

ان ہی کوششوں کے نتیجے میں 12ــ15/فروری 1987 ء کو قرطبہ میں " ابراہیمی کانفرنس " کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں یہود ، نصاریٰ اور خود کو مسلمان کہنے والے قادیانیوں اور اسماعیلیوں نے شرکت کی ۔ اس غرض کے لیے قرطبہ یونیورسٹی"معهد قرطبه لوحدۃ الادیان فی اوربا" کا قیام عمل میں لایا گیا ۔([6])

ماضی قریب میں جارودی([7]) وحدۃ الادیان کے سب سے بڑا داعی ہیں ۔ آپ ابتدا میں عیسائی تھے ، بعد میں اسلام میں داخل ہوئے ۔ آپ نے اسی مقصد کے لیے"المؤتمر الابراهیمی" کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا ، جس کے بعد اس قسم کی کانفرنسوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ جارودی کے حالات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عیسائیت سے مکمل طور پر نکل کراسلام میں داخل نہ ہوئے بلکہ وہی عیسائی عقائد اسلام میں بھی داخل کرانے چاہے ۔ مثلاً آپ نے کہا کہ نمازیں پانچ نہیں بلکہ تین نمازیں فرض ہیں ۔ آپ نے اسلام اور عیسائیت پر مبنی ایک جامع عقیدےکی طرف دعوت دی ۔([8])

مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں واضح ہوا کہ ادیان ِ عالم کا فرق ختم کرنے یا اُن کا درمیانی فاصلہ کم کرنے کے لیے مختلف انداز میں کوششیں کی گئیں ۔ جن میں ملتِ ابراہیم ؑ کا بھی مرکزی کردار رہا ، جیسا کہ مذکورہ تحریکوں کے نام سے ظاہر ہے۔ عصرِ حاضر میں ادیا ن ِ عالم کے درمیان فرق ختم کرنے او ر قربت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ملت ِ ابراہیمیٰ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ جس سے واضح طور پر یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ موجودہ دور میں ملتِ ابراہیمی کو کافی حد تک مقبولیت حاصل ہے ۔

دین اور شریعت کا فرق

دین کے لغوی معنی اطاعت ،جزا ، بدلہ اور حساب کے ہیں([9]) جبکہ اصطلاحی طور پر اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی رسول کو دی گئی وہ بنیادی تعلیمات ہیں جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں یکساں رہے ۔ جیسا کہ ایک جگہ لکھا گیا ہے :

وَأَنَّ الدِّينَ هُوَ الْأُصُولُ الثَّابِتَةُ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَنْبِيَاءِ.([10])

"دین سے مراد وہ بنیادی اصول ہیں جو انبیاء کے اختلاف سے مختلف نہیں ہوتیں ۔ "

مذکورہ روایت کی روشنی میں واضح ہوا کہ حضرت آدم ؑ سے حضرت محمد ﷺ تک جتنے بھی انبیاء تشریف لے آئے ، ان سب کا دین ایک ہی تھا ۔یہی مضمون قرآن مجید میں کئی جگہ وارد ہوا ہے ۔چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے :

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ([11])

"الله تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم( علیہ السلام )اور موسیٰ( علیہ السلام )اور عیسیٰ (علیہ السلام) ]مع ان سب کے اتباع کے[ حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا کہ) اسی دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔"

مذکورہ آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں :

فَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مِنْهُ الْأُمُورَ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الشَّرَائِعِ، وَهِيَ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْإِيمَانُ يُوجِبُ الْإِعْرَاضَ عَنِ الدُّنْيَا وَالْإِقْبَالَ عَلَى الْآخِرَةِ وَالسَّعْيَ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالِاحْتِرَازَ عَنْ رَذَائِلِ الْأَحْوَالِ([12])

" ضروری ہے کہ یہاں دین سے مراد وہ بنیادی عقائد ہوں جو شرائع کے اختلاف کے ساتھ متغیر نہیں ہوتے ۔ اور وہ اللہ پر ، اُس کے فرشتوں پر ، اُس کے کتابوں پر اُس کے رسولوں پر اور روز ِ آخرت پر ایمان ہے ۔ یہ ایمان دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اچھے اخلاق کی ترغیب اور برے اخلاق سے اجتناب کا درس دیتا ہے ۔ "

اسی طرح امام قرطبی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں لکھا ہے :

فَكَانَ الْمَعْنَى أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَنُوحًا دِينًا وَاحِدًا، يَعْنِي فِي الْأُصُولِ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ فِيهَا الشَّرِيعَةُ ([13])

"مذکورہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے محمدﷺ ہم نے آپ ؑ اور نوح ؑ کو ایک دین کا حکم دیا اس سے مراد وہ اصول ہیں جو کسی بھی شریعت میں تبدیل نہ ہوئے ۔ "

یہاں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ جتنے بھی انبیاء تشریف لائے ہیں ان سب کا دین اسلام ہی تھا ۔ کیونکہ اسلام کے معنی جھکنے اور اطاعت اختیار کرنے کے ہیں ۔([14]) تو جس دور میں جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی انھیں مسلمان کہا گیا ۔ قرآن کریم اس پر گواہ ہے ۔ مختلف انبیاء کواسلام کی نسبت کی گئی ہے ۔ ذیل میں چند انبیاء کا بطور نمونہ تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

حضرت نوحؑ کا اسلام

حضرت نوحؑ کے بارے میں قرآن ِ کریم میں ارشاد ہے:

فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ([15])

"پھر بھی اگر تم اعراض ہی کیے جاؤتو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمے ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں اطاعت کرنے والوں میں رہوں ۔"

حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسمٰعیل ؑ کا اسلام

حضرت ابراہیم ؑ جب تعمیر کعبہ سے فارغ ہوئے تو اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کے حضور مختلف دعائیں کیں ، جن میں سے ایک دعا یہ بھی ہے کہ یا اللہ ہمیں مسلمان بنا ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ([16])

"اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنا اور زیادہ مطیع بنالیجیے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت (پیدا) کیجیے جو آپ کی مطیع ہو اور (نیز) ہم کو ہمارے حج (وغیرہ) کے احکام بھی بتلادیجیے اور ہمارے حال پر توجہ رکھیے اور فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانی والے مہربانی کرنے والے۔"

اسی طرح مختلف مقامات پر صراحت کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کی اولاد کو مسلمان کہا گیا ہے ۔

حضرت یعقوبؑ اور اسلام

حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں سے اسلام کا عہد لیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ([17])

"کیا تم خود موجود تھے جس وقت یعقوب ؑ کا آخری وقت آیاجس وقت اُنھوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ تم لوگ میرے بعد کس چیز کی پرستش کروگے انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس کی پرستش کریں گے جس کی آپ اور آپ کے بزرگ ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق پرستش کرتے آئے ہیں یعنی وہی معبود جو وحدہ لا شریک ہے اور ہم اُسی کی اطاعت پر رہیں گے ۔"

مذکورہ آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ بیٹوں نے جواب کے آخر میں فرمایا کہ ہم مسلمان ہی رہیں گے ۔

حضرت لوطؑ اور اسلام

حضرت لوطؑ کے اسلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ([18])

"سو بجز مسلمانوں کے ایک گھر کے اور کوئی گھر ہم نے نہیں پایا ۔"

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صرف حضرت لوطؑ کا گھرانہ ہی مسلمان تھا ،اس کے سوا ہمیں وہاں مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا ۔

حضرت یوسف ؑ اور اسلام

حضرت یوسف ؑ نے آخر عمر میں اسلام پر خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ([19])

"اے میرے پروردگار آپ نے مجھ کو سلطنت کا بڑا حصہ دیا اور مجھ کو خوابوں کی تعبیر دینا تعلیم فرمایا اے خالق آسمانوں اور زمین کے آپ میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لیجیے اور مجھ کو خاص نیک بندوں میں شامل کر دیجیے ۔"

حضرت موسیٰؑ اور اسلام

حضرت موسیٰ ؑ نے قوم سے فرمایا اگر تم مسلمان ہو تو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو ، چنانچہ اُن کا قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں ذکر فرمایا :

وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ ([20])

"اور موسیٰ نے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم اطاعت کرنے والے ہو ۔"

حضرت سلیمانؑ اور اسلام

حضرت سلیمان ؑ نے ملکہ سبا کوخط میں لکھا کہ اسلام کی حالت میں میرے پاس حاضر ہو ۔اللہ تعالیٰ نے اس خط کا ذکر قرآن ِ کریم میں کیا :

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ○ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ([21])

"وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اس میں یہ ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تم لوگ میرے مقابلے میں تکبر مت کرو اور میرے پاس مطیع ہو کر چلے آؤ۔"

حضرت عیسیٰؑ اور اسلام

حضرت عیسیٰؑ کے خصوصی ساتھیوں نے اُن سے درخواست کی کہ ہمارے اسلام پرگواہ رہیے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ([22])

"سو جب حضرت عیسیٰ ؑ نے اُن سے انکار دیکھا تو آپ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مددگار ہو جاویں اللہ کے واسطے، حواریین بولےکہ ہم ہیں مددگار اللہ کے ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ اس کے گواہ رہیےکہ ہم فرمانبردار ہیں ۔"

انبیاء بنی اسرائیل اور اسلام

حضرت موسیٰ ؑ کے بعد بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء آئے ان سب کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اسلام والے تھے ، چنانچہ ارشاد ہے :

إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ([23])

"ہم نے توریت نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت اور نور تھا، انبیاء جو کہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے اس کے موافق یہود کو حکم دیا کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی بوجہ اس کے کہ ان کو اس کتاب اللہ کی نگہداشت کاحکم دیا گیا تھااور وہ اس کے اقراری ہو گئے تھے سو تم لوگوں سے اندیشہ مت کرو اور مجھ سے ڈرو اور میرے احکام کے بدلے میں متاع قلیل مت لو اور جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں ۔"

مذکورہ آیاتِ کریمہ اور ان کی تفسیری اقوال کی روشنی میں واضح ہوا کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک جتنے بھی انبیاء آئے ، ان سب کا دین ایک ہی تھا ۔ بنیادی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ عقائدِ ضروریہ کو ماننا خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ،اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ، اچھے اخلاق سے مزین ہونا اور برے اخلاق سے پرہیز کرنا، یہ تمام ایسے امور ہیں جو تمام ادیان میں یکساں رہے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اصولی اعتبار سے تمام انبیاء ایک ہی طریقہ پر کاربند رہے ۔

وحدۃ الادیان کے بارے میں اسلامی موقف

دین ِ اسلام آخری ، مکمل اور تمام ادیان کے لیے ناسخ دین ہے ۔ یہودیت و عیسائیت اپنے اپنے اوقات میں سچے اور قابل ِ عمل تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام کی آمد سے وہ قابل عمل نہ رہے ۔ اب صرف شریعتِ محمدی ﷺ ہی ذریعہ نجات ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول دین صرف اسلام ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا([24])

"آج کے دن تمھارے لیے تمھارے دین کو میں نے کامل کردیا ۔ اور میں نے تم پر اپنا انعام تام کردیا اور میں نے اسلام کو تمھارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا ۔ "

اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ([25])

"اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ اس سے مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا ۔ "

پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی نبوت پوری انسانیت کے لیے ہے۔ خواہ وہ عربی ہو یا عجمی ، کالا ہو یا گورا ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ([26])

"آپ کہہ دیجیے کہ اے (دنیا جہان کے) لوگو میں تم سب کی طرف اس الله کا بھیجا ہوا (پیغمبر) ہوں ۔"

اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے :

وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً ([27])

" میں پوری انسانیت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ "

پوری امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین اسلام اور شریعت ِ محمدی ﷺ کے علاوہ دوسرے دین یا شریعت کا اتباع کرنے یا اس کو جائز سمجھنے سے انسان کافر بن جاتا ہے ، جیسا کہ امام ابن تیمیہ ؒ نے لکھا ہے :

وَمَعْلُومٌ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِ الْمُسْلِمِينَ وَبِاتِّفَاقِ جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّ مَنْ سَوَّغَ اتِّبَاعَ غَيْرِ دِينِ الْإِسْلَامِ أَوْ اتِّبَاعَ شَرِيعَةٍ غَيْرِ شَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ كَافِرٌ وَهُوَ كَكُفْرِ مَنْ آمَنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَكَفَرَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ ([28])

"مسلمانوں کے دین سے بدیہی طور پر یہ واضح ہے اور اس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ جو کوئی دین ِ اسلام یا شریعت ِ محمدی ﷺ کے علاوہ دوسرے دین یا شریعت کا اتباع جائز سمجھے تو وہ کافر ہے اور ایسا ہے جیسا کہ بعض کتاب کو مانے اور بعض کو نہ مانے ۔ "

رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ جو دین میں لایا ہوں وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور تمام سابقہ ادیان کے لیے ناسخ ہے ۔ آج اگر موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تومیری ہی لائی ہوئی شریعت کے مطابق زندگی گزارتے ، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے :

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ عُمَرَ أَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّا نَسْمَعُ أَحَادِيثَ مِنَ الْيَهُودِ تُعْجِبُنَا أَفَتَرَى أَنْ نَكْتُبَ بَعْضَهَا؟ فَقَالَ: أَمُتَهَوِّكُونَ أَنْتُمْ كَمَا تَهَوَّكَتِ الْيَهُودُ والنَّصَارَى؟ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، وَلَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِي ([29])

"حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرنے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ہم یہود سے کچھ باتیں سنتے ہیں تو ہمیں پسند آتی ہیں ، کیا آپ ﷺ اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض لکھ لیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : کیا تم بھی یہودو نصاریٰ کی طرح شک و شبہ میں ہو ۔ میں تمہارے پاس صاف ستھرا دین لایا ہوں اور اگر موسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو اُن کے لیے بھی میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ "

اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوكُمْ ، وَقَدْ ضَلُّوا ، فَإِنَّكُمْ إِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ ، أَوْ تُكَذِّبُوا بِحَقٍّ ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ ،مَا حَلَّ لَهُ إِلاَّ أَنْ يَتَّبِعَنِي([30])

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل کتاب سے کسی شے کے بارے میں نہ پوچھو وہ تمھیں سیدھا راستہ نہیں بتا سکتے اور وہ گمراہ ہیں پھر تم یا تو جھوٹ میں ان کی تصدیق کرو گے یا سچ میں ان کی تکذیب کرو گے۔اگرتمھارے درمیان آج موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو اُن کے لیے میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ۔"

مذکورہ آیاتِ کریمہ ، احادیث نبوی ﷺ اور ائمہ کے اقوال سے واضح ہوا کہ دین ِ اسلام تمام سابقہ ادیان کےلیے ناسخ ہے ۔ آج پوری دنیا کی انسانیت کے لیے دین ِ اسلام ہی قابل ِ نجات ہے ۔ دینِ اسلام کی جزئیات کسی بھی دوسرے دین سے ملا کر ایک نیا دین تیارکرنے کی قطعی گنجائش نہیں ۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اسلام ،یہودیت و عیسائیت کو ملا کر ایک جامع دین تیار کیا جا سکتا ہے ، اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔

‌شرائع کا اختلاف

تاہم حالات کے مطابق جزوی طور پر بعض شرائع دیگر سے مختلف رہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا گیاہے :

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ([31])

" تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی۔"

مذکورہ آیت کریمہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تم میں سے ہر بڑی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک واضح راستہ بتا دیا ہے ۔یعنی حالات کے تقاضے کے مطابق مختلف اقوام کے لیے اُن ہی کے مناسب احکام دیے۔ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیرقرطبی میں لکھا گیا ہے :

وَاخْتَلَفَتِ الشَّرَائِعُ وَرَاءَ هَذَا فِي مَعَانٍ حَسْبَمَا أَرَادَهُ اللَّهُ مِمَّا اقْتَضَتِ الْمَصْلَحَةُ وَأَوْجَبَتِ الْحِكْمَةُ وَضْعَهُ فِي الْأَزْمِنَةِ عَلَى الْأُمَمِ.([32])

"اوران اصولی تعلیمات کے علاوہ فروعی مسائل میں شرائع کا اختلاف رہا ، مختلف اوقات میں مختلف قوموں پر حالات کے تقاضے کے مطابق جس حکم میں حکمت رہی اور جس طرح اللہ نے چاہا ، اسی طرح احکامات نازل کیے ۔ "

اسی طرح امام بغوی نے لکھا ہے :

وَأَرَادَ بِهَذَا أَنَّ الشَّرَائِعَ مُخْتَلِفَةٌ، وَلِكُلِّ أَهْلِ مِلَّةٍ شَرِيعَةٌ، قَالَ قَتَادَةُ: الْخِطَابُ لِلْأُمَمِ الثَّلَاثِ أُمَّةِ مُوسَى وَأُمَّةِ عِيسَى وَأُمِّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِمْ أجمعين، فالتوراة شريعة والإنجيل شريعة والقرآن شَرِيعَةٌ، وَالدِّينُ وَاحِدٌ وَهُوَ التَّوْحِيدُ([33])

"اس کا مطلب یہ ہے کہ شرائع مختلف ہیں اور ہر اہل ملۃ کے لیے ایک شریعت ہے ۔ امام قتادہ نے فرمایا کہ یہاں خطاب تین امتوں امت موسیٰؑ ،امت عیسیٰؑ اور امت محمدﷺکوہے۔ پس توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل دوسری شریعت ہے اور قرآن تیسری شریعت ہے ،اور دین ایک ہے جو کہ توحید ہے ۔“

اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ([34])

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ ا بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں ، انبیاء سب ایک باپ کی اولاد ہیں ، اگر چہ ان کی مائیں مختلف ہیں ، لیکن دین سب کا ایک ہے ۔ "

مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی ([35])نے لکھا ہے :

أصُول الدّين وأصول الطَّاعَات وَاحِد، والكيفيات والكميات فِي الطَّاعَة مُخْتَلفَة.([36])

"دین و اطاعت کے اصول ایک جیسے ہیں اور اطاعت کی مقدار و معیار مختلف ہیں ۔"

مذکورہ آیات و روایات کی روشنی میں واضح ہوا کہ بنیادی طور پر تمام انبیاء ایک ہی دین پر بھیجے گئے ۔ جبکہ جزوی طور پر عبادات ، معاملات اور اخلاقیات کے معیار و مقدار میں وقت کے مطابق فرق ہوتا رہا ۔اسی طرح اوپر جو دعوٰی کیا گیا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو اسلامی تعلیمات اورطریقہ ہائے عبادات شریعتِ محمدی میں ہیں ، تمام انبیاء کے یہی طریقے تھے بلکہ مطلب یہ ہےکہ بنیادی عقائد توحید، رسالت ، آخرت وغیرہ ایک جیسے تھے جبکہ عبادت کے طریقے جدا تھے۔ایک نبی کے بعد جو دوسرا نبی آتا تو وہ یا پہلے نبی کی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تبلیغ کرتا یا اللہ تعالیٰ اُس کو نئی شریعت عطا کر دیتا او ر پہلی شریعت منسوخ ہو جاتی ۔لیکن اسلام کے معنی چونکہ اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں اس لیےاپنے وقت میں جو بھی دینِ حق ہوتا ،اُسی کا نام اسلام ہوتا۔

خلا صۃ البحث

پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ دین و مذہب کوئی صنعت و حرفت نہیں کہ کوشش کرکے تیار کی جائے ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تعلیمات کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ بنیادی عقائد کے بعد وقت کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مختلف احکامات نازل کیے ۔ جو اپنے اپنے اوقات میں واجب الاتباع اور موجب نجات تھے ۔بعد میں آنے والی شریعت پہلی شریعت کے بعض فروعی احکام کو منسوخ کر دیتی ۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے شریعت ِ محمدی کو ایک جامع، کامل اور ابدی دین کی حیثیت سے منتخب فرمایا ۔ جو قیامت تک کے لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ اس کی جزئیات میں تنزل کرکے دوسرے ادیان کی جزئیات سے ملانا اور ایک مجموعہ دین تیار کرنا ہرگز جائز نہیں اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ ایسا کرنا جائز ہے وہ باتفاق اجماع علمائے امت کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ البتہ دوسرے ادیان کے جو عقائد یا تعلیمات اسلامی تعلیمات کے موافق ہیں اس حد تک مشابہت یا قربت کے قائل ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔ آج اگر کوئی یہ کوشش کرے کہ دیگر الہامی مذاہب کا دین ِاسلام سے کتنی مشابہت اور قربت ہے تو یہ جائز ہے ۔ لیکن اسلامی تعلیمات میں جوڑ توڑ کرکے دوسرے ادیان کی تعلیمات سے ملا کر ایک مشترک دین تیار کرنے کی قطعی گنجائش نہیں اور جو لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں یا اسی مقصد کے لیے جو تحریکیں سرگرم ِ عمل ہیں ،ان کو چاہیے کہ یہ نا ممکن کوشش چھوڑ دیں یا کم از کم مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کوشش کا حصہ نہ بنیں اور اسلامی تعلیمات کی حفاظت اولین فریضہ سمجھیں ۔ دین ِ اسلام کی جامعیت ، ہمہ گیریت و آفاقیت دنیا والوں کے سامنے واضح طور پر پیش کریں ، تاکہ واقعی اگر دنیا چاہتی ہے کہ تمام لوگ ایک ہی اجتماعی مذہب کے پیرو بن کر نظریاتی اختلافات ختم کر دیں تو وہ اجتماعی مذہب پہلے سے دین ِ اسلام کی شکل میں موجود ہے ، نئے اجتماعی دین کی ضرورت ہے نہ ہی گنجائش ۔

 

حوالہ جات

  1. ۔معلوی، ڈاکٹر سعید محمد حسین ،وحدۃ الادیان فی عقائد الصوفية،مکتبۃ الرشد،ریاض،1432ھ،ص39۔40
  2. ۔ایضاً، ص 22
  3. ۔البہی ، ڈاکٹر محمد، الاخاء الدینی ومجمع الادیان و موقف الاسلام ، دار التضامن ، قاہرہ ، مصر ،1401ھ ،ص 3
  4. ۔بکر بن عبد اللہ ، ابو زید ، الابطال لنظرية الخلط بین دین الاسلام و غیرہ من الادیان،دار العاصمہ للنشر والتوزیع، ریاض، 1417ھ ، ص15۔16
  5. ۔ایضاً ،ص 16
  6. ۔ایضاً، ص 17
  7. ۔جارودی : جارودی کو عربی میں روجیہ غارودی جبکہ انگلش میں (Roger Or Ragaa Jarauddy) کہا جاتا ہے ۔آپ 1913 ء کوفرانس میں پیدا ہوئے ۔ ابتداء میں عیسائی تھے ۔ بعد میں 1982 ء کو اسلام میں داخل ہوئے ۔ جون 2012 ء کو انتقال کر گئے۔ https://ar.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%88%D8%AC%D9%8A%D9%87_%D8%BA%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%AF%D9%8A
  8. ۔بکر بن عبد اللہ ، ابو زید ، الابطال لنظرية الخلط بین دین الاسلام و غیرہ من الادیان ،ص32 ، حوالہ بالا ۔
  9. ۔الراغب (م502ھ)،المفردات ، کتاب الدال ،بذیل مادہ دین ، دارالقلم، دمشق بیروت،1412ھ،ج1، ص323
  10. ۔رضا ، محمد رشید بن علی، م 1354ھ ، تفسیر المنار، بذیل المائدۃ 5 : 48 ، الهيئة المصرية العامة للكتاب،1990ء
  11. ۔الشوریٰ:42
  12. ۔الرازی ،ابو عبد الله،محمد بن عمر(م:606ھ)، مفاتيح الغيب ، التفسير الكبير،بذیل الشوریٰ:42دار احياء التراث العربی، بيروت،1420 ھ
  13. ۔القرطبی ،ابو عبد الله محمد بن احمد،(م:671ھ) ، الجامع لأحكام القرآن ۔ تفسير القرطبي، تحقيق:احمد البردوني وابراہیماطفيش،بذیل الشوریٰ :42، دار الكتب المصرية ، القاهرة، 1384ھ
  14. ۔خلیل بن احمد (م:170 ھ) ،کتاب العين ، ج7 ،حرف السین ، الثلاثی الصحیح ، با ب السین واللام والمیم معھما ،بذیل مادہ ”سلم“،دار و مکتبہ الھلال،سطن ۔
  15. ۔يونس10: 72
  16. ۔ البقرۃ 2 : 128
  17. ۔ البقرۃ 2 : 133
  18. ۔الذريات 51: 36
  19. ۔ يوسف12 :101
  20. ۔يونس10 : 84
  21. ۔النمل 27: 30 ۔ 31
  22. ۔آل عمران3: 52
  23. ۔المائدۃ5: 44
  24. ۔ المائدہ5 : 3
  25. ۔آل عمران3 : 85
  26. ۔الاعراف 7: 158
  27. ۔البخاری، ابو عبد اللہ ، محمد بن اسمٰعیل (م:256 ھ) ، صحیح البخاری،محقق : محمد زہیر بن ناصر الناصر، حدیث نمبر 438،دار طوق النجاۃ ،1422ھ
  28. ۔ابن تیمیہ،مجموع الفتاوی ،محقق : عبد الرحمٰن بن محمد بن قاسم، 8، ص524، ص524، حوالہ سابق۔مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف، المدینۃ المنورۃ ، 1416ھ ،ج28، ص524
  29. ۔البیہقی، أحمد بن الحسين(م:458ھ )،شعب الإيمان،حدیث نمبر: 174، تحقیق :عبد العلي عبد الحميد حامد، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض،1423 ھ
  30. ۔ا بن حنبل، امام احمد (م 241 ھ )،مسند امام احمد بن حنبل ، محقق : شعیب الارنؤوط، عادل مرشد وغیرہ ، رقم الحدیث 14631، مؤسسۃ الرسالہ، 1421ھ ۔
  31. ۔المائدہ5: 48
  32. ۔القرطبی ، ابو عبد الله محمد بن أحمد،(م:671ھ) ، الجامع لأحكام القرآن ، تفسير القرطبي،بذیل الشوریٰ 42 : 13 ، حوالہ سابق
  33. ۔بغوی، امام (م:510 یا 516ھ)،تفسير بغوی،بذیل المائدۃ 5 : 48،حوالہ سابق
  34. ۔البخاری، ابو عبد اللہ ، محمد بن اسمٰعیل (م:256 ھ) ، صحیح البخاری،محقق : محمد زہیر بن ناصر الناصر، حدیث نمبر3443 ،دار طوق النجاۃ ،1422ھ
  35. ۔عینی، علامہ: آپ کا نام محمود بن احمد بن موسیٰ ہے ۔ قاضی القضاۃ بدرالدین العینی سے مشہور ہیں ۔ آپ 762ھ کو عنتاب میں پیدا ہوئے ۔ آپ مسلکاً حنفی تھے ۔ آپ اپنے وقت میں لغت، صَرف ، نحو ، منطق، فقہ اور حدیث کےامام تھے ۔آپ کی مشہور تصنیفات یہ ہیں : عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری ، شرح معانی الاثار ، رمز الحقائق فی شرح کنز الدقائق ۔ آپ 855 ھ کو انتقال کر گئے۔ ]السخاوی (م:۹02ھ) ، الضوء اللامع لاھل القرن التاسع ، ج 10، نمبر شمار 545 ، منشورات دار مکتبۃ الحیاۃ بیروت،سطن[
  36. ۔العینی،أبو محمد محمود بن أحمد بدر الدين (م:855ھ ) ، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،بذیل حدیث نمبر 3443، دار إحياء التراث العربي،بيروت ،سطن
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...