Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

علامہ اسید الحق قادری بدایونی کی کتاب ”قرآن کی سائنسی تفسیر“: ایک مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_953

Pages

24-39

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/127

Subjects

Usaid-ul-Haq Badayuni Quran ki Saainsi Tafseer Scientific exegesis of Quran.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

خاندانی پس منظر

علامہ اسید الحق قادری عثمانی اترپردیش کے تاریخی شہر بدایوں کے معروف عثمانی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب سینتیس واسطوں سے خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ تک پہنچتا ہے۔آپ کے جدامجد مولانا فضل رسول بدایونی تک آپ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے۔ علامہ اسید الحق قادری عثمانی بن علامہ عبدالحمید محمد سالم بن مولانا عبدالقدیر قادری بن مولانا عبدالقادر قادری بن مولانا فضل رسول قادری۔ ([1])

خانوادۂ عثمانیہ کے مورث اعلیٰ قاضی دانیال قطریؒ تھے جو ۵۹۹ھ/ ۳۔۱۲۰۲ء میں قطر سے ترک سکونت کرکے سلطان شمس الدین التمش کے لشکر کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ ابتدا میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے ، پھر سلطان کے مسلسل اصرار پر بدایوں تشریف لائے ۔حکومت کی جانب سے عہدہ قضاء تفویض کیا گیا۔ قاضی دانیال قطریؒ خواجہ عثمان ہارونیؒ کے مرید وخلیفہ اور خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے برادر طریقت تھے۔ قاضی دانیال قطری ؒ کے خاندان میں علماء، فضلاء، اہل اللہ، ادباء اور قومی سطح کے قائد پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں مولانا عبدالمجید بدایونی (۱۲۶۳ھ)، مولانا فضل رسول بدایونی (۱۲۸۹ھ)، مجاہد آزادی مولانا فیض احمد بدایونی (مفقود:۱۲۷۴ھ)، مولانا عبدالقادر بدایونی (۱۳۱۹ھ)، مولانا عبدالمقتدر قادری (۱۳۳۴ھ)، مولانا عبدالماجد بدایونی (۱۳۵۰ھ)، مولانا عبدالقدیر قادری (۱۳۷۹ھ) مفتیٔ اعظم حیدر آباد دکن، مولانا عبدالحامد بدایونی (۱۳۹۰ھ) سرفہرست ہیں۔ )[2](

ولادت

آپ ۲۳ ربیع الثانی ۱۳۹۵ھ/ ۶ مئی ۱۹۷۵ء کو مولوی محلہ بدایوں میں پیدا ہوئے۔) [3](

تعلیم وتربیت

آپ نے حفظ قرآن مدرسہ قادریہ بدایوں سے ۱۹۸۹ء میں مکمل کیا۔ مدرسہ قادریہ بدایوں ہی سے درس نظامی کی ابتدا کی اور ۱۹۹۰ تا ۱۹۹۳ء تک یہیں زیر تعلیم رہے۔ بعدازاں دارالعلوم نورالحق فیض آباد تشریف لے گئے اوروہاں ۱۹۹۴ء تا ۱۹۹۷ء درس نظامی کی تکمیل فرمائی۔ الاجازۃ العالیہ شعبہ تفسیر وعلوم القرآن ۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۳ء ، جامعہ الازہر قاہرہ (مصر) اور تخصص فی الافتاء، دارالافتاء المصریہ قاہرہ (مصر) سے مکمل کیا۔ جبکہ ۲۰۰۸ء تا ۲۰۰۹ء جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی سے ایم ۔اے ۔علوم اسلامیہ کی تکمیل کی۔)[4](

اساتذہ و شیوخ

آپ نے بدایوں، فیض آباد، مصر اور بغداد کے یگانۂ روز گار علماء اور شیوخ سے سے استفادہ کیا۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

۱۔علامہ عبدالحمید محمد سالم۸۔پروفیسر علامہ محمود عبدالخالق حلوہ (مصر)

۲۔خواجہ مظفر حسین رضوی۹۔پروفیسر علامہ سعید محمد صالح صوابی (مصر)

۳۔مولانا رحمت اللہ صدیقی۱۰۔پروفیسر غلام سید المسیر (مصر)

۴۔مفتی مطیع الرحمن مضطر11۔ پروفیسر علامہ طٰہٰ حبیشی (مصر)

۵۔علامہ علی جمعہ (مفتی جمہوریہ مصر)۱۲۔پروفیسر علامہ عبدالمعطی بیومی (مصر)

۶۔پروفیسر عبدالحئی فرماوی (مصر)13۔شیخ محمد صلاح الدین التجانی (مصر)

۷۔پروفیسر علامہ جمعہ عبدالقادر (مصر)14۔شیخ علی بن حمود الحربی الرفاعی (بغداد)

۱۵۔شیخ محمد ابراہیم عبدالباعث (مصر)([5])

تلامذہ

آپ کے تلامذہ میں مولانا عطیف قادری، مولانا عزام قادری، مولانا سید عادل محمود کلیمی ، مفتی دلشاد احمد قادری، مولانا مجاہد قادری، مولانا خالد قادری، مولانا عاصم قادری اور عبدالعلیم قادری شامل ہیں۔([6])

بیعت وخلافت

آپ کا تعلق ایک علمی اورروحانی خانوادے سے تھا۔ آپ اپنے والد محترم شیخ عبدالحمید محمد سالم سے بیعت ہوئے اور آپ کو خلافت عطا کی گئی۔ شاہ سید یحییٰ حسن قادری برکاتی نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔([7])

مناصب وخدمات

مصر سے اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد جب بدایوں آئے تو آپ کو جامعہ قادریہ، بدایوں کا شیخ الحدیث مقرر کیا گیا۔ آپ ضلع بدایوں کے نائب قاضی بھی رہے۔ الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز ،بدایوں کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ عربی پینل قومی کونسل برائے اردو، حکومت ہند، نئی دہلی کے ممبر بھی رہے۔ الازہر ایجوکیشن سوسائٹی بدایوں کے صدر اور الازہر فاونڈیشن مہارا شٹر کے سرپرست کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ نیو ایج میڈیا اینڈ ریسرچ سینٹر دہلی کے ٹرسٹی بھی رہے۔([8])

رشتہ ازدواج

آپ کا عقد مسنونہ سہسوانی ٹولہ، بریلی میں سید محمد نصیر کی دختر کے ساتھ ۱۵/اگست ۲۰۰۴ء بروز اتوار کو ہوا۔([9])

شہادت وتدفین

آپ ۲ جمادی الاول ۱۴۳۵ھ/۴ مارچ ۲۰۱۴ بروز منگل کو بغداد (عراق) میں شرپسندوں کی اندھی گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔ اور ۴جمادی الاول ۱۴۳۵ھ/ ۶ مارچ ۲۰۱۴ء بروز جمعرات کو احاطہ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیزمیں صاحب سجادہ پیر عبدالرحمن گیلانی کی زیرنگرانی تدفین عمل میں لائی گئی۔([10])

قلمی خدمات

علامہ اسیدالحق بدایونی نے چودہ ]۱۴[ کتب تصنیف فرمائیں جبکہ سترہ]۱۷[ کتب کی ترتیب وتقدیم کی خدمات سرانجام دیں۔ بارہ ]۱۲[ کتب کا ترجمہ، تخریج، تسہیل و تحقیق کا کام مکمل کیا۔ ([11])

علاوہ ازیں علامہ اسید الحق بدایونی نے بائیس (۲۲) کتب کی تکمیل اپنی زیرنگرانی مکمل کروائی۔

قرآن کی سائنسی تفسیر کا خصوصی مطالعہ

اس کتاب میں علامہ اسید الحق قادری بدایونی نے قرآن کی سائنسی تفسیر کے حوالے سے علمی، تحقیقی اور تنقیدی اسلوب اختیار کیا ہے۔ چونکہ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سائنسی ایجادات اور تحقیقات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے علامہ بدایونی نے اس کو اس انداز میں لکھا ہے کہ سائنسی تفسیر کی صحیح روح آشکار ہوجائے۔ انھوں نےایک عام قاری کے سامنے سائنسی تفسیر کے تمام مندرجات کو یکجا کردیا ہے۔ علامہ بدایونی نے قرآن اور سائنس میں تعارض اور بعض بے اعتدالیوں کو بھی مفصل انداز میں بیان کیا ہے۔

وجہ تالیف

علامہ بدایونی نےاس کتاب کی وجہ تالیف خود بیان کی ہے۔ چنانچہ تحریر کرتے ہیں: ”الازہر شریف میں جب میں شعبۂ تفسیر میں سنہ ثالثہ کا طالب علم تھا۔ اس وقت سائنسی تفسیر کے معنی اور مفہوم سے آشنا ہوا۔ دخیل فی التفسیر کے سبجیکٹ کے لیے استاد محترم ڈاکٹر جمال مصطفیٰ صاحب کی کتاب، اصول الدخیل فی تفسیر آی التنزیل، داخل نصاب تھی۔ جس کو وہ خود ہی پڑھایا کرتے تھے، اس وقت اس موضوع پر کتابیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ آخری سال تمام طلباء کو ایک تحقیقی مقالہ لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ میں نے اس موضوع پر مقالہ لکھنے کا ارادہ کیا۔“([12])

زمانۂ تالیف اور اشاعت

علامہ بدایونی نے جامعۃ الازہر میں تدریس کی تکمیل پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر جمع کروایا ۔اس مقالے کے متعلق تفصیلات خود بیان کرتے ہیں۔ ‘‘التفسیر العلمی للقرآن دراسۃ نقدیہ، کے عنوان سے مقالہ لکھ کر جمع کروایا۔ پھر تعطیلات میں اس کا ترجمہ کیا۔ جو ۲۰۰۳ء میں ماہنامہ "مظہر حق"، بدایوں میں قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد سہ ماہی مجلہ بدایوں، کراچی نے بھی اس کو شائع کیا۔مجھے اپنے سابقہ مقالے پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہٰذا میں نے اس کو از سر نو ترتیب دیا اور بہت سے حذف واضافات بھی کیے یہ اضافہ شدہ مقالہ محب گرامی مولانا خوشتر نورانی نے ماہنامہ ”جام نور“ میں اشاعت کے لیے مانگ لیا۔ اور ”جام نور“ میں قسط وار (اگست ۲۰۰۶ء تا نومبر ۲۰۰۶ء) شائع کیا۔ ”جام نور“ ہی سے لے کر ماہنامہ ‘‘سوئے حجاز’’،لاہور، نے مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں شامل کیا۔ اب تاج الفحول اکیڈمی بدایوں، ہند اس کو کتابی شکل میں شائع کررہی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ جب یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوگا تو مزید اس میں کچھ اضافے کروں گا، مگر دیگر اہم مصروفیات کی وجہ سے اس قت اس ارادے کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔([13])

تاج الفحول اکیڈمی بدایوں،ہند نے اس مقالے کو۲۰۰۸ء میں شائع کیا جبکہ پاکستان میں مکتبہ برکات المدینہ کراچی نے ستمبر ۲۰۱۲ء میں اس کو شائع کیا۔

مصنف کا تصنیفی لائحہ عمل

جامعۃ الازہر، مصر میں پیش کیے جانے والےعربی مقالے کو مصنف نےاردو قالب میں بڑے احسن طریقے سے ڈھالا ہے۔ اورتفسیری رموزمتعارف کروانے کے بعد جوا زاور عدم جوا زکے حوالے سے متاخرین و معاصرین کی آراء کو پیش کیا ہے۔نیز سائنسی تفسیر کے رواج کے اسباب اور جواز کے متعلق علماء ومحققین کی متعین کردہ آراء کو بھی بیان کیا ہے۔

اسلوب

علامہ بدایونی کی کتاب"قرآن کی سائنسی تفسیر"، سائنسی تفسیر کے حوالے سے ایک منفرد کتاب ہے۔ خصوصاً جوا زاور عدم جواز کے حوالے سے مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس کا اسلوب بیان تحقیقی ، تنقیدی اور معلوماتی ہے۔ کتاب کی تحریر آسان اور عام فہم ہے۔ جس کی بدولت کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوتا ہے، اسلوب تحریر کے ضمن میں چند ایک اقتباسات بطور مثال پیش کیے جاتےہیں۔

علامہ بدایونی اپنے استادگرامی جمال مصطفیٰ النجار کی متعین کردہ تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں: ”قرآن کی وہ آیات جو انفس وآفاق کے بارے میں وارد ہیں ان کا بیان اور جدید سائنسی ایجادات اور تحقیقات کے ذریعہ ان کی شرح۔“([14])

علامہ بدایونی، امام جلال الدین سیوطی کے حوالے سے علامہ ابن ابی الفضل المرسی کی تفسیر سے ایک اقتباس نقل کرتےہیں:”قرآن میں علوم اولین وآخرین جمع کردیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی علم ایسا نہیں ہے، جس کے بارے میں قرآن نے اشارہ نہ فرمایا ہو۔“([15])

علامہ بدایونی،امام متولی الشعراوی کی کتاب "معجزۃ القرآن" کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کے علم قدیم ومحیط میں یہ بات تھی کہ نزول قرآن کے چند صدیوں بعد کچھ لوگ یہ دعویٰ کریں گے کہ ایمان کا دور ختم ہوگیا۔ اب سائنس کا دور شروع ہوا ہے۔ اس لیے عالم الغیب نے کچھ ایسی چیزیں قرآن میں پوشیدہ فرمادیں جو اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں کے سامنے قرآن کا اعجاز ثابت کرسکیں۔“([16])

علامہ بدایونی،امام ابواسحاق شاطبی کا مؤقف بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں: ”یہ جائز نہیں کہ ہم ان علوم کو قرآن میں داخل کردیں۔ جو اس کے مقتضاء کے خلاف ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے یہ بات درست نہیں ہے کہ ہم ان علوم سے غفلت برتیں جو قرآن کے مقتضاء کے عین مطابق ہیں۔ “([17])

علامہ بدایونی سائنسی تفسیر کے حوالے سے بعض بے اعتدالیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”جب ہرسائنسی نظریے اور قرآن کریم کے درمیان تطبیق کی ٹھہری تو پھر قرآن کی آیتوں میں بے جا تاویل اور کھینچ تان کا دروازہ بھی کھولنا پڑگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے شان نزول وغیرہ سے بالکل قطع نظر کرکے اس آیت کی تفسیر کی جانے لگی۔ بلکہ اگر کبھی کسی سائنسی مفروضے کو قرآن کریم کے مطابق ثابت کرنے کےلیے ضرورت پڑی تو عربی لغت اور نحوی وصرفی قواعد کی مخالفت سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔“([18])

مضامین کتاب

علامہ بدایونی نے اس کتاب میں سائنسی تفسیر کے معنی ومفہوم اور جواز اور عدم جواز کے قائل متاخرین و معاصرین کی آراء کو مفصل طریقے سے قلم بند کیا ہے۔ قرآن اور سائنس میں تعارض کے حوالے سے اور سائنسی تفسیر کے حوالے سے بعض بے اعتدالیوں کو بھی بیان کیا ہے۔ سائنسی تفسیر کے رواج کے اسباب اور جواز کے لیے علماء و محققین کی متعین کردہ آراء کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں غیر مقبول سائنسی تفسیر کی امثال بھی درج کی ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ بدایونی نے سائنسی تفسیر کے حوالے سے متقدمین کی آراء کوبھی نقل کیا ہے جن میں سے چند ایک آراء درج ذیل ہیں :

امام غزالی کی رائے

امام غزالی نے اپنی شہرہ ٔآفاق کتاب ‘‘احیا ء علوم الدین’’ میں ‘‘فہم القرآن وتفسیر بالرائی من غیرنقل’’، کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے۔ جس میں فرماتےہیں: ”جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کا معنی آیت کے لفظی اور ظاہری ترجمے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہےتووہ یہ جان لے کہ اگرچہ اپنی فہم اور معلومات کی حد تک وہ درست سمجھتا ہے مگر درحقیقت وہ خطا پر ہے۔ اس لیے کہ اخباروآثار دلالت کرتےہیں کہ ارباب فہم کے لیے معانیٔ قرآن کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندے کو قرآن کا فہم عطا فرماتا ہے۔ اگر قرآن کے معانی صرف ظاہری ترجمہ وتفسیر تک محدود ہیں تو پھر آخر اس فہم کا کیا مطلب ہے؟“([19])

امام جلال الدین سیوطی کی رائے

امام جلال الدین سیوطیؒ ‘‘الاتقان فی علوم القرآن’’ میں اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتےہیں:‘‘میں کہتا ہوں اللہ کی کتاب ہر چیز پر مشتمل ہے اور جہاں تک انواع علوم کی بات ہے تو کسی علم کا کوئی باب اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ جس طرف قرآن میں اشارہ نہ ہو۔ قرآن میں عجائب المخلوقات ہیں۔ ملکوت السموات والارض ہیں۔ جو کچھ افق اعلیٰ اور تحت الثریٰ میں ہے۔ وہ سب کچھ قرآن میں ہے۔“([20])

متاخرین ومعاصرین کی آراء

علامہ بدایونی بیان کرتےہیں کہ سائنسی تفسیر کے موجودہ حامی دو قسم کے ہیں۔ کچھ لوگ انتہائی متشدد واقع ہوئے ہیں اور اس طریقہ تفسیر کو فرض عین قراردیتےہیں۔ جبکہ دوسرا طبقہ ان علماء کا ہے جو اس طریقہ تفسیر کے حامی ضرور ہیں مگر اس میں غلو، مبالغہ اور انتہا پسندی کو ناپسند کرتے ہیں۔

سائنسی تفسیر کے حامی علماء کی آراء

علامہ بدایونی نے سائنسی تفسیر کے حامی علماء کی آراء کو بڑے مفصل اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔ ذیل میں ان علماء کی آراء کو بیان کیاجاتا ہے:

علامہ شیخ طنطاوی الجوہری

شیخ طنطاوی الجوہری اس جماعت کے روح رواں ہیں جو سائنسی تفسیر کو نہ صرف جائز بلکہ اس کے وجوب اور فرضیت کا فتویٰ دیتی ہے۔ علامہ بدایونی نے شیخ طنطاوی الجوہری کی تفسیر ‘‘الجواہر فی القرآن الکریم’’ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے: ”اے امت مسلمہ! علم میراث کے بارے میں صرف چند آیات ہیں جو علم ریاضی کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے۔ تمھارا ان سات سو آیات کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جن میں دنیا بھر کے عجائبات موجود ہیں۔ یہ سائنس کا زمانہ ہے،یہ اسلام کے ظہورنور کا زمانہ ہے اور یہ ترقی کا زمانہ ہے۔ تو کیوں نہ ہم ان سات سو آیات کے ساتھ وہی معاملہ کریں۔ جو ہمارے اسلاف نے چند آیات میراث کے ساتھ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں، الحمد اللہ! تم اس تفسیر میں علوم کا خلاصہ اور نچوڑ پاؤگے۔ ان علوم میں تحقیق علم میراث میں تحقیق سے زیادہ افضل واہم ہے۔ کیونکہ علم میراث صرف فرض کفایہ ہے اور یہ علوم معرفت الٰہی میں زیادتی کا سبب ہیں۔ لہٰذا ہر قادر پر ان کی تحصیل اور تحقیق فرض عین ہے۔ جن علوم کو ہم نے تفسیر میں داخل کیا ہے۔ یہ وہ علوم ہیں جن سے کوتاہ نظر مغرور اور جاہل فقہاء غافل رہے۔ اب یہ انقلاب کا زمانہ ہے اور حقائق کے ظہور کازمانہ ہے۔“([21])

علامہ عبدالرحمن الکواکبی

علامہ کواکبی زمانے کے اعتبار سے علامہ جوہری سے مقدم ہیں مگر تشدد اور غلو کے اعتبار سے ان سے کم درجے کے ہیں۔ علامہ بدایونی نے ان کی کتاب ”طبائع الاستبداد ومصارع الاستبعاد“ سے سائنسی تفسیر کے جواز میں ایک عبارت نقل کی ہے: ‘‘ ان آخری صدیوں میں سائنس نے وہ علمی حقائق آشکار کیے ہیں۔ جن کی دریافت اور ایجاد کا سہرا علمائے یورپ اور امریکہ کے سر ہے۔ لیکن قرآن کو دقت نظر سے پڑھنے والا ان سارے حقائق کو کہیں صراحتاً اور کہیں اشارتاً پائے گا کہ قرآن نے ان کو تیرہ صدیاں قبل ہی بیان کردیا ہے۔ بعض حقائق اب تک پردۂ خفا میں ہیں تاکہ ایک زمانے میں ان کے انکشاف کے بعد قرآن کا معجزہ ثابت ہو او ریہ شہادت دیں کہ یہ اس ذات کا کلام ہے جو عالم الغیب والشہادہ ہے اور جس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔“([22])

علامہ طاہر ابن عاشور

علامہ طاہر ابن عاشور کی تفسیر ”التحریر والتنویر“ میں قرآن کی جہتوں کا بیان ہے، پہلی اور دوسری جہت علوم عربیہ اور تیسری جہت فصاحت وبلاغت سے متعلق ہے۔علامہ بدایونی تیسری جہت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”قرآن کے اعجاز کی تیسری جہت وہ علوم ہیں جو ان کے معانی میں ودیعت کے گئے ہیں۔ اور حقائق علمیہ وعلوم عقلیہ کی طرف وہ اشارات ہیں کہ نزول قرآن کے زمانے میں عقل انسانی وہاں تک نہیں پہنچ سکی اور اس کے بعد بھی صدیوں تک فکر انسانی کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکی۔ اب عصر حاضر میں وہ حقائق آشکار ہوئے ہیں۔ جس سے قرآن کا اعجاز ثابت ہوا ہے اور اعجاز قرآنی کی یہی وہ جہت ہے۔ جس سے ابوبکر الباقلانی اور قاضی عیاض وغیرہ غافل رہے۔“([23])

ڈاکٹر حنفی احمد

ڈاکٹر حنفی احمد علامہ جوہری کے شاگرد ہیں۔ علامہ بدایونی ان کی تفسیر ”التفسیر العلمی للآیات الکونیۃ“ سے ایک اقتباس نقل کرتےہیں۔ ”جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن زمان و مکان کی قید سے ماورا ہر ایک کے لیے نازل ہوا ہے عرب والوں کے لیے بھی اور غیر عرب کے لیے بھی تو ظاہر ہے کہ غیر عربی کے لیے اس کے معجزۂ کبریٰ یعنی معجزہ اسلوب و بلاغت کا ادراک بہت دشوار ہے۔ لہٰذا ان کے لیے وہ دیگر معجزات ہیں جواس کے معنی میں پوشیدہ ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے غیر عرب کے لیے، قرآن کے اعجاز کا ادراک ممکن ہو اور ان پر قرآن کے صدق دعویٰ کی حجت تام ہوجائے۔“([24])

ڈاکٹر جمعہ علی عبدالقادر

ڈاکٹر جمعہ علی عبدالقادر جامعۃ الازہر، مصر میں شعبۂ تفسیر میں علوم قرآن کے استاد ہیں۔ علامہ بدایونی ان کی کتاب ”جلال الفکر فی التفسیر الموضوعی لآیات من الذکر“ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر جمعہ علی عبدالقادر تحریر کرتےہیں: ”میں کہتا ہوں کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن زمان ومکان کی قید سے ماورا ہر حال میں ہر چیز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب جو بھی چیز ہمارے سامنے نئی آئے گی۔ ہم اس کو قرآنی معیار پر پرکھیں گے۔ اگر اس کے موافق ہوگی تو وہ ہمارا عقیدہ بن جائے گی اور جو اس کے مخالف ہوگی وہ محض بے بنیاد ہوگی۔“([25])

امام متولی الشعراوی

علامہ بدایونی امام متولی الشعراوی کی کتاب ”معجزۃ القرآن “سے ایک اقتباس نقل کرتےہیں کہ امام متول الشعراوی فرماتےہیں: ”قرآن کریم میں وسعت تجدد ہے اور یہی وسعت تجدد اعجاز قرآن کو مستمر اور مسلسل قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ہم تسلیم کریں کہ قرآن اور اس کے معانی میں یہ وسعت تجدد نہیں ہے اورا س کا سارا اعجاز ایک زمانے یا کسی ایک صدی میں ظاہر ہوگیا تو لازم آئے گا کہ آخر کی صدیوں میں بغیر معجزہ کے رہ گیا اور یہ بات قرآن میں جمودوتعطل کے مترادف ہے۔ جبکہ قرآن کسی زمانے میں جامد اور تعطل پذیر نہیں ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔“([26])

سائنسی تفسیر کے مخالف علماء کی آراء

علامہ بدایونی نے سائنسی تفسیر کے مخالف علماء کی آراء کو اس کتاب میں یکجا کردیا ہے۔ مخالف علماء سائنسی تفسیر کو قرآن کریم کے تقدس کے ساتھ کھلواڑ سمجھتے ہیں۔ ذیل میں ان علماء کی آراء کو بیان کیاجاتا ہے۔

امام ابواسحاق شاطبی

امام شاطبی نے ”مقاصد شرح“ پر بحث کے ضمن میں ان علوم کا ذکر کیا ہے۔ جن سے عصر نزول قرآن میں اہل عرب واقف تھے۔ علامہ بدایونی وہاں سے ایک اقتباس نقل کرتےہیں: ”سلف صالحین (صحابہ وتابعین) قرآن، اس کے علوم اور جو کچھ اس میں ودیعت کیاگیا ہے،اس سب کے سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کسی نے ان علوم میں کچھ کلام کیا ہو۔ انھوں نے صرف احکام تکلیفیہ اور احکام آخرت وغیرہ ہی پر کلام کیا ہے۔ اگر ان حضرات نے ان علوم پر کچھ کلام کیا ہوتا تو وہ ضرور ہم تک پہنچتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرات ان کے قائل نہیں تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ علوم (طبیعات، ریاضی اور منطق وغیرہ) جن کا یہ لوگ دعویٰ کررہے ہیں۔ وہ قرآن کے مقصد میں شامل نہیں ہیں۔ البتہ قرآن کریم میں عربوں کے بعض علوم سے تعرض کیا گیا ہے۔“([27])

شیخ محمود شلتوت

علامہ بدایونی سائنسی تفسیر کے حوالے سے شیخ محمد شلتوت کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”تفسیر قرآن کے سلسلےمیں یہ نقطۂ نظر بلاشبہ خطا پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیاگیا کہ وہ سائنسی نظریات اور دقائق کونیہ پر گفتگو کرے۔ یہ نظریہ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ اس کے حامی قرآن کے معانی کی تاویل میں اس تکلف اور تعسّف (کھینچ تان) سے کام لیتے ہیں۔ جو نہ صرف یہ کہ ذوق سلیم پر بار ہے بلکہ اعجاز قرآن کے منافی بھی ہے۔“([28])

علامہ عبدالعظیم الزرقانی

علامہ بدایونی علامہ زرقانی کی کتاب ”مناہل العرفان فی علوم القرآن“ سے ان کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ علامہ زرقانی فرماتے ہیں: ”قرآن کتاب ہدایت واعجاز ہے لہٰذا یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ ہم ہدایت واعجاز کی حدود کو تجاوز کریں۔ اگر کہیں قرآن نے حقائق کونیہ کا ذکر بھی کیا ہے تو وہ بھی دراصل ہدایت کے لیے ہے۔ اور یہ ”دلالۃ الخلق علی الخالق“ کی قبیل سے ہے۔ حقائق کو نیہ کا ذکر اس لیے نہیں ہے کہ قرآن ہیئت وفلکیات، طبیعیات اور کیمسٹری کے حقائق علمیہ کی شرح کرے، نہ اس لیے ہے کہ اس سے حساب، جبر ومقابلہ اور علم ہندسہ کا کوئی مسئلہ حل کیا جائے اور نہ یہ مقصد ہے کہ قرآن علم حیوانات، نباتات یا طبقات الارض کے مسائل پر گفتگو کرے۔“([29])

عباس العقاد

علامہ بدایونی عباس العقاد کی کتاب ”الفلسفۃ القرأنیۃ“ سے ان کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں: ”جب بھی نئی نسل کے سامنے کوئی نئی سائنسی تحقیق آئے تو کتاب عقیدہ سے یہ مطالبہ نہ کیاجائے کہ وہ اس تحقیق سے مطابقت رکھے۔ نہ اس کتاب کے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کیاجائے کہ تم ان علوم وتحقیقات کا اپنی کتاب سے استخراج کرکے دکھاؤ کیونکہ کتاب عقیدہ کا یہ منصب ہی نہیں ہے۔“([30])

علامہ محمدحسین ذہبی

علامہ بدایونی علامہ محمد حسین ذہبی کی کتاب ”التفسیر والمفسرون“ سے ایک اقتباس سائنسی تفسیر کے حوالے سے نقل کرتےہیں: ”اس طریقہ ٔ تفسیر کے علم برداران آیات سے سندلاتے ہیں۔ جن میں کائنات کی بعض حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے یا وہ آیتیں جو انفس و آفاق کے مطالعے کی دعوت دیتی ہیں۔ ان آیات سے استناد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں علوم اولین وآخرین جمع کردیے گئے ہیں۔ درحقیقت یہ حضرات ان آیات کے معنی سمجھنے میں فہم خاطی کا شکار ہیں۔“([31])

تنقیدی جائزہ

علامہ بدایونی نے سائنسی تفسیر کے حامی اور مخالف علماء کے دلائل اور نظریات کا تنقیدی جائزہ پانچ نکات کی شکل میں بیان کیا ہے۔ پہلے نکتے میں بیان کرتےہیں: ”یہ بات درست ہے کہ اعجاز قرآن مستمر اور مسلسل ہے نہ کسی زمانے میں قرآن اعجاز سے خالی ہوا نہ قیامت تک ہوگا۔ قرآن کے اعجاز کو صرف بلاغی یا لسانی اعجاز میں منحصر کردینا درست نہیں ۔بالکل اسی طرح جیسے اعجاز قرآنی کو سائنسی اعجاز پر موقوف مان کردیگر مظاہر اعجاز کو مسترد کردینا۔“علامہ بدایونی تیسرے نکتے میں بیان کرتےہیں:”سائنسی تفسیر کے مخالفین کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے اگر کوئی حقیقت علمیہ اور نظریہ کو نیہ بلاتکلف وتحکم اور بغیر کھینچ تان کے کسی آیت کریمہ پر منطبق ہو تو بلاوجہ اس سے بھی منھ موڑ لیا جائے۔“([32])

قرآن اور سائنس میں تعارض کی حقیقت

قرآن اور سائنس میں تعارض کے حوالے سے علامہ بدایونی ڈاکٹر احمد عمر ابوحجر کی کتاب ”التفسیر العلمی للقرآن“ سے نقل کرتےہیں کہ ڈاکٹر احمد عمر ابوحجر فرماتےہیں: ”سائنسی تحقیقات کو تین حصوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ ۱۔ سائنسی مفروضہ، ۲۔ سائنسی نظریہ، ۳۔ سائنسی حقیقت،سائنسی مفروضہ اور سائنسی نظریہ قابل تبدیل ہوتے ہیں اور کبھی بظاہر قرآنی آیات سے متصادم بھی ہوتےہیں اور کوئی حقیقت علمیہ ثابتہ کسی بھی حال میں قرآن سے متعارض نہیں ہوسکتی ہاں کبھی کبھی بعض سائنسی نظریات قرآن کی بعض آیات سے متعارض نظر آتےہیں اور یہ تعارض اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریات ابھی ناپختہ ہیں۔ ان کے استنباط میں کہیں نہ کہیں انسانی عقل نے دھوکا کھایا ہے۔“([33])

سائنسی تفسیر کے سلسلےمیں بعض بے اعتدالیاں

علامہ بدایونی بے اعتدالیوں کا ذکرکرتے یوں رقم طراز ہیں: ”سائنسی تفسیر کرنے والے بعض جدیدمفسرین کی عادت یہ ہے کہ وہ جب کسی آیت کا مفہوم بیان کرتےہیں تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک اس آیت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھاگیا۔ اس سے قبل جتنے بھی علماء اور مفسرین گزرے، سب نے اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ کسی آیت کے معنی ومفہوم کے سلسلے میں از اول تا آخر پوری امت کو خاطی یا جاہل گرداننا کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ یہ بہت سنگین جرم ہے۔ بقول یوسف قرضاوی اس طریقہ ٔتفسیر کو اس شرط پر قبول کیاجاسکتا ہے کہ یہ قدیم تفاسیر میں ایک اضافہ ہو نہ کہ یہ طریقۂ تفسیر قدیم تفاسیر پر خط تنسیخ کھینچ دے۔“([34])

سائنسی تفسیر کے جواز کے لیے کچھ شرائط

علامہ بدایونی نےسائنسی تفسیر کے جوا زکے متعلق علماء محققین کی متعین کردہ شرائط کو مفصل انداز میں بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر لکھتے ہیں: ”قرآن اور سائنس کی تطبیق کے وقت نحوی اور صرفی قواعد اور اصول بلاغت کی رعایت کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن کی زبان اس کا سب سے بڑا اعجاز ہے۔ لہٰذا ایسے معانی کا استخراج جائز نہیں۔ جن کی وجہ سےنحوی وصرفی قواعد یا اصول بلاغت سے انحراف لازم آئے۔“([35])

سائنسی تفسیر کے رواج کے اسباب

علامہ بدایونی نے اس عنوان کے تحت سائنسی تفسیر کے رواج کے کئی اسباب بیان کیے ہیں۔ جن میں عقلی، اعتقادی اور سائنسی وجوہات کو بیان کیا ہے۔

غیرمقبول سائنسی تفسیر کی کچھ مثالیں

علامہ بدایونی لکھتے ہیں: کچھ سائنسی تفسیر لکھنے والوں نے نہ صرف آیات کے سیاق وسباق سے ہٹ کر تفسیر کی ہے بلکہ جو مثالیں دی ہیں وہ خود ساختہ لگتی ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:

وَیَقْذِفُوْنَ بِالْغَیْبِ مِنْ مَّکَانٍؚبَعِیْدٍ ( سبا،۳۴: ۵۳)

”اور دور سے بن دیکھے کہہ گزرتے ہیں۔“

جدید تحقیقات اور موجودہ ٹیکنالوجی کی روشنی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ڈاکٹر صلاح الدین خطاب نے کہا ہے کہ دراصل اس آیت سے ٹیلی فون، ٹیلیگراف، ٹی وی اور ریڈیو کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ ان جدید آلات کی مدد سے دور بیٹھے ایک مکان سے دوسرے مکان تک آواز یا تصویر پہنچائی جاسکتی ہے۔یہاں عربی زبان کے محاورے سے بھی قطع نظر کرلیا گیا ہے۔ یقذفون بالغیب۔ جو ایک محاورہ ہے اور لغت عرب میں اس کے ایک مخصوص معنی ہیں، اس سے بھی صرف نظر کرلیا گیا۔([36])

اختتام کتاب

کتاب کے آخر میں مصنف نے غیرمقبول سائنسی تفسیر کی مثالوں سے وضاحت کی ہے۔ جس میں دابۃ الارض اور سیٹلائیٹ، سات آسمان اور کہکشائیں کی سائنسی تفسیر کی رو سے مکمل تفصیلات فراہم کی ہیں تاکہ ایک عام قاری سائنسی تفسیر کے حوالے سے اپنی تشنگی دور کرسکے۔

قرآن کی سائنسی تفسیر کے ماخذ

کسی بھی کتاب کی اہمیت وافادیت میں اس کے مصادرومراجع کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ علامہ بدایونی نے کتاب،"قرآن کی سائنسی تفسیر "کی تحقیق میں ہراس کتاب سے استفادہ کرنے کی کوشش کی سے جو ان کے موضوع کے متعلق ہوسکتی تھی۔ یہ علمی شاہکار جن سرچشموں سے سیراب ہوا ہے۔ ا س کی تفصیل کتاب کے آخر میں درج کی گئی ہے۔ ذیل میں برائے استشہاد مصادرومراجع کا ذکر کیاجاتا ہے تاکہ مصنف کی محنت شاقہ اور وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوسکے۔ * الاتقان فی علوم القرآن: جلال الدین سیوطی، دارالمصر للطباعہ ،القاہرہ۔

  • احیاء علوم الدین: امام غزالی، مطبوعہ عیسیٰ الحلبی، القاہرہ۔
  • اصول الدخیل فی تفسیر ای التنزیل: جمال مصطفیٰ النجار، مطبعۃ الحسن الاسلامیہ ،القاہرہ، ۲۰۰۱ء۔
  • الاعجاز، ڈاکٹر حسن حمدان الدسوقی: دارالصفاء للطباعۃ، المنصورہ مصر ۱۹۹۹ء۔
  • التحریر والتنویر: طاہر ابن عاشور، الدارالتونسیہ للنشر ،تونس ۱۹۸۴ء۔
  • التفسیر العلمی للآیات الکونیۃ فی القرآن: ڈاکٹر حنفی احمد، دارالمعارف القاہرہ، ۱۹۶۰ء۔
  • التفسیر العلمی للقرآن: ڈاکٹر احمد عمر ابو حجر، دارقطبیہ بیروت، ۱۹۹۱ء۔
  • تفسیر القرآن الکریم: شیخ محمود شلتوت، دارالقلم القاہرہ، سن ندارد۔
  • تفسیر کبیر: فخر الدین رازی، مطبعۃ البھیۃ المصریہ، ۱۹۳۸ء۔
  • التفسیر والمفسرون: محمد حسین الذہبی، مکتبۃ وہبہ، القاہرہ، ۲۰۰۰ء۔
  • التصریح شرح التشریح: علامہ امام الدین لاہوری، یاسرندیم کمپنی،دیوبند۔
  • الجانب العلمی فی القرآن الکریم: ڈاکٹر صلاح الدین خطاب، مطبوعۃ القاہرہ۔
  • جلال الفکر فی التفسیر الموضوعی لآیات من الذکر: جمعہ علی عبدالقادر، مطبعہ رشوان،القاہرہ، ۲۰۰۱ء۔
  • الجواہر فی القرآن: طنطاوی الجوہری، مصطفیٰ الحلبی ،القاہرہ۔
  • جواہرالقرآن، امام غزالی: دارالافاق الجدیدہ ،بیروت۔
  • ضیاء القرآن: پیر محمد کرم شاہ الازہری، اعتقاد پبلشنگ،دہلی، ۱۹۹۸ء۔
  • فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الاتصال: ابن رشد، دارالمعارف ،القاہرہ، ۱۹۷۲ء۔
  • الفلسفۃ القرآنیہ، عباس محمود العقاد، دارالکتاب العربی بیروت۔
  • القرآن والعلم الحدیث: عبدالرزاق نوفل، طبع ثانی، قاہرہ۔
  • قرآنی آیات اور سائنسی حقائق: ڈاکٹر ہلوک نورباقی، اردو ترجمہ، سید محمد فیروز شاہ اسلامک بک فاؤنڈیشن، دہلی ۲۰۰۰ء۔
  • کیف نتعامل مع القرآن العظیم: ڈاکٹر یوسف قرضاوی، دارالشروق ،القاہرہ، ۲۰۰۰ء۔
  • محاسن التاویل: جمال الدین القاسمی، عیسیٰ الحلبی، القاہرہ، ۱۹۷۰ء۔
  • معجزۃ القرآن: متولی الشعراوی، القاہرہ، ۱۹۹۷ء۔
  • مفردات غریب القرآن: امام راغب الاصفہانی، مطبوعہ المیمنۃ ،مصر ۱۳۳۴ھ۔
  • مناہل العرفان فی علوم القرآن: محمد عبدالعظیم الزرقانی، مکتبۃ الحلبیۃ ، القاہرہ، ۱۹۵۳ء۔
  • من السیرۃ النبویۃ العطرۃ؛ ڈاکٹر احمد شلبی، مکتبۃ الاسرۃ، قاہرہ، ۲۰۰۱ء۔
  • الموافقات: ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریہ، القاہرہ۔

خصوصیات کتب

علامہ بدایونی کی یہ کتاب درج ذیل خصوصیت کی حامل ہے:* علامہ بدایونی نے جہاں سائنسی تفسیر کے حوالے سے پائے جانے والے بعض اشکالات کا ازالہ کیا ہے۔ وہیں غلط تعبیرات کی گرفت بھی کی ہے۔

  • مصنف نے سائنسی تفسیر کے حوالے سے ان تمام ماخذ کا وسیع مطالعہ کیا ہے جن تک ان کی دسترس ممکن ہوسکی۔
  • چونکہ یہ مصنف کا ایک تحقیقی مقالہ ہے اس لیے اسلوب بھی محققانہ اختیار کیا گیا ہے۔
  • مصنف نے تحقیقی وتنقیدی اسلوب کے ساتھ ساتھ علمی انداز میں گفتگو کو آگے بڑھایا ہے۔
  • مصنف نے بنیادی مصادر سے زیادہ تر استفادہ کیا ہے۔
  • کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں روایتی کتب کی طرح اسرائیلیات سے حتی المقدور اجتناب کیا گیا ہے۔
  • مصنف نے بڑے مدلل انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سائنسی تفسیر کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود تفاسیر کے باب میں ایک اضافہ ہے۔

ضعیف نکات

اگرچہ یہ کتاب بے شمار خوبیوں سے مزین ہے مگر اس میں چند ایک ضعیف نکات بھی پائے جاتےہیں جو کہ درج ذیل ہیں: * بعض مقامات پر مصنف نے حوالہ جات کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ مثلا حوالہ نمبر ۶ میں احیاء علوم الدین، ج۱،ص ۲۹۰، درج ہےجبکہ مصنف اور سن اشاعت نہیں لکھا گیا۔

  • مصنف نے کچھ مقامات پر متاخرین ومعاصرین کی آراء کو بیان کیا ہے لیکن ان کی کتب تفاسیر کا نام نہیں لکھا۔مثلاً شیخ محمود شلتوت کی تفسیر کے حوالے سے صفحہ ۲۹ پر ان کی آراء کو لکھا ہے۔ لیکن ان کی تفسیر کا نام درج نہیں کیاگیا۔
  • چونکہ یہ کتاب سائنسی تفسیر کے متعلق ہے اس لیے مصنف نے سائنسی اصطلاحات کا استعمال بھی کیا ہے جو کہ ایک عام قاری کے لیے سمجھنے میں مشکل ہیں۔
  • مصنف نے سائنسی تفسیر کے آغاز وارتقاء کے کے حوالے سے مفصل معلومات فراہم نہیں کیں۔

خلاصۂ کلام

علامہ بدایونی کی کتاب"قرآن کی سائنسی تفسیر" کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کتاب علامہ بدایونی کی سائنسی تفسیر کے حوالےسے ایک شاہکار تصنیف ہے۔ مصنف نے روایتی ڈگر سے ہٹ کر تحقیقی وتنقیدی اسلوب کو پیش نظر رکھا ہے۔ کتاب میں سائنسی تفسیر کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے متاخرین ومعاصرین کی آراءخصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ قرآن اور سائنس میں تعارض کو بھی بڑے احسن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سائنسی تفسیر میں پائی جانے والی بعض بے اعتدالیوں کو بھی محققانہ انداز میں لکھا ہے۔ سائنسی تفسیر کے جواز کے لیے علماء ومحققین کی متعین کردہ آراکو بھی بیان کیا گیا ہے۔ علامہ بدایونی غیر مقبول سائنسی تفسیر کو امثال کے ساتھ ضبط تحریر میں لائے ہیں۔ اردو میں اگر دیکھا جائے تو یہ کتاب مختصر مگر جامع انداز میں سائنسی تفسیر کے جملہ پہلوؤں کا ادراک کرتی نظر آتی ہے۔ اس لیے علمی حلقوں میں اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ قادری، فرید اقبال، شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن ، مجلہ "بدایوں"،شہید بغداد نمبر ۲۰۱۴ء، کراچی پاکستان ہاؤس، بی بلاک، نارتھ ناظم آباد کراچی، ص۸۰
  2. ۔ قادری، دلشاد احمد، مولانا، خانوادہ عثمانیہ عارف وخدمات، ماہنامہ "جام نور" عالم ربانی نمبر، ج۱۱، شمارہ ۱۳۲، اپریل ۲۰۱۴، مٹیا محل جامع مسجد دہلی، ص ۷۲
  3. ۔ قادری، اسید الحق علامہ، خیرآبادیات،مکتبہ اعلیٰ حضرت ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۱ء، ص ۲۶۲
  4. ۔ قادری، محمد عزام صاحبزادہ ، آئینہ حیات عالم ربانی، ماہنامہ "جام نور "عالم ربانی نمبر، ص ۹۶
  5. ۔ قادری، اسید الحق ، علامہ، تحقیق وتفہیم، دارالاسلام لاہور، جون ۲۰۱۶ء، ص ۴۲۶
  6. ۔ قادری، محمد عزام صاحبزادہ ، محوّلہ بالا، ص ۹۷
  7. ۔ قادری، اسید الحق ، علامہ، تحقیق وتفہیم،محوّلہ بالا ص ۴۲۵
  8. ۔ قادری، محمد عزام صاحبزادہ ، محوّلہ بالا، ص ۹۷
  9. ۔ قادری، عطیف ،مولانا، مولانا اسید الحق قادری: شخص و عکس ، ماہنامہ" جام نور"، عالم ربانی نمبر، ص ۱۰۹
  10. ۔ قادری، عبدالقیوم ، حافظ، خون کے آنسو رلا گئے ہو تم،"مجلہ بدایوں "، شہید بغداد نمبر،ص ۶۶
  11. ۔ قادری، اسید الحق ، علامہ، تحقیق وتفہیم،محولہ بالا ص ۴۲۸
  12. ۔ ایضاً، قرآن کی سائنسی تفسیر، مکتب برکات المدینہ کراچی، ۲۰۱۲ء، ص۶
  13. ۔ ایضاً،ص ۷
  14. ۔ ایضاً،ص۱۱
  15. ۔ ایضاً،ص۱۴
  16. ۔ ایضاً،ص ۲۶
  17. ۔ ایضاً،ص ۲۹
  18. ۔ ایضاً،ص ۴۲
  19. ۔ ایضاً،ص ۱۲
  20. ۔ ایضاً،ص ۱۵
  21. ۔ ایضاً،ص ۱۷
  22. ۔ ایضاً،ص ۱۹
  23. ۔ ایضاً،ص ۲۰
  24. ۔ ایضاً،ص ۲۲
  25. ۔ ایضاً،ص۲۳
  26. ۔ ایضاً،ص ۲۵
  27. ۔ ایضاً،ص ۲۸
  28. ۔ ایضاً،ص ۳۰
  29. ۔ ایضاً،ص ۳۳
  30. ۔ ایضاً،ص ۳۴
  31. ۔ ایضاً،ص ۳۶
  32. ۔ ایضاً،ص ۳۷
  33. ۔ ایضاً،ص۴۱
  34. ۔ ایضاً،ص ۴۳
  35. ۔ ایضاً،ص ۴۵
  36. ۔ ایضاً،ص ۴۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...