Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

عہد رسالت میں مملکت کا بنیادی تصور: ایک تحقیقی جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_956

Pages

184-207

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/136

Subjects

Concept of State Prophet Muhammad State of Madina.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

ریاست مدینہ کے قیام کے وقت نصاری کے مذہبی اختلافات نے رومن حکومت کو کمزور کر رکھا تھا، ایک طرف مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسا اور قبطی مسیحی اور دوسری جانب کیتھولیک اور مغربی کلیسا کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے، یہاں تک کہ یہ صورت حال جنگوں تک جا پہنچی ، ، بلکہ قبطی مسیحیوں کے داخلی اختلافات بھی قتل وقتال کی صورت حال اختیار کر چکے تھے، اس جنگ وجدال کے نتیجے میں پیش آنے والے نقصانات لوگوں پر ٹیکس لگا کر پورے کیے جاتے تھے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر ٹیکس امیروں کے بجائے غریبوں پر لگائے جاتے تھے، اور پھر رومن معاشرہ دو حصوں پرمنقسم تھا، ایک آزاد شہری اور دوسری طرف غلاموں کا طبقہ جن کی آبادی تین گنا آزادوں کے مقابلے میں زیادہ تھی، ان کے مستقبل کے تمام فیصلے آزاد کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ مشہور ومعروف فلسفی افلاطون بھی انہیں شہری حقوق دینے کے مخالف تھے، یہ ظلم وستم غلاموں تک محدود نہ رہا بلکے رومن عورتیں بھی ہمیشہ ظلم وستم کی شکار رہیں، آخر کار رومن عورتوں کے بارے میں ایک بہت بڑا جرگہ کا انعقاد ہوا، کئی بار اجلاس کے بعد اس جرگہ نے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا نظام حکم میں کوئی وجود ہی نہیں لہذا یہ صنف اخروی حیاۃ سے محروم ہو گی، یہ ناپاک ہے، اسے ہر گز گوشت نہیں کھانا چاہیے اور نہ ہی ہنسنا چاہیے، بلکہ معاملہ اس بھی آگے بڑھ گیا کہ انہیں بات چیت سے روکنے کیلئے ان کے مہنوں پر لوہے کی لگام چڑھا دی گئی۔([1])

فارس تہذیب وثقافت اور اخلاقی اقدار کے اعتبار سے بحران کا شکار تھا، معاشرہ طبقاتی نظام میں منقسم تھا، جہاں انسان کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی، عام عوام کا ساتواں درجہ تھا، یہ طبقہ مجموعی طور یہ آبادی کا 90 % فیصد تھا، ان کے مزدوروں ، کسانوں، فوجیوں، اور غلاموں کے طبقات تھے، جو کہ تمام شہری حقوق سے محروم تھے، یہاں تک کہ جنگی معرکوں میں انہیں بیڑیوں سے جکڑ کر لایا جاتا تھا، جیسا کہ سیدنا خالد بن رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اُبَلَّہ کے معرکے میں لایا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ معرکہ" ذات السلاسل" سے مشہور ہوا۔([2])

جہاں تک یورپ کی بات ہے تو اس میں ہر قسم کی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، جہالت، گندگی، لا قانونیت، پسماندگی، اور ہر طرف ظلم وستم کا دور دورہ تھا، نا خواندگی عروج پر تھی، اُس وقت بھارت میں پائی جانے والی تمام برائیاں یورپ میں بھی عام تھیں، کہ وہ بھی مرنے کے بعد میت کو جلا دیا کرتے تھے، میت کی بیویوں کے ہاتھ اور ناک چھریوں سے کاٹ لیے جاتے تھے، بعض دیگر عورتوں کو کھلے عام پھانسی دے کر ان کی لاشوں کو بھی میت کے ساتھ جلا دیا کرتے تھے۔ ([3])

اگر ہم مصر کی سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو سنہ 31 قبل عیسوی آکیٹوین آگسٹس کے ہاتھوں مارک انتھونی اور قلوپطرہ کی شکست کے بعد مصر پر رومن حكومت کا قبضہ ہو چکا تھا، آپ ﷺ کی پیدائش سے تقریبا 100 سال پہلے(446 ء) غربی رومی ممالک، شرقی رومن حکومت کے قبضہ میں آ چکے تھے، جس میں مصر بھی شامل تھا، اگرچہ رومن حکومت کی کوشش رہی کہ مصریوں کی تہذیب وثقافت کو اپنی اصلی حالت پر برقرار رکھا جائے مگر پھر بھی کئی قسم کے ظلم وستم کے شکار رہے، ان پر بڑے بڑے ٹیکس لگا دیے گئے، بلکے اس میں زندوں کے ساتھ ساتھ مُردوں کو بھی شامل کر لیا گیا کہ جب تک میت کا ٹیکس نہیں دیا جاتا تھا تب تک انہیں دفن کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی، مصری قبطیوں پر رومن حکومت نے اس قدر ظلم ڈھائے کہ وه شہروں کو چھوڑ کر صحراء کا رخ كرنے پر مجبور ہوئے، آبادی سے دور دراز علاقوں میں اپنے خیمے نصب کیے اور عبادت گاہیں تیار کیں۔([4])

ہند کی حالت بھی دنیا کے دیگر حصوں سے مختلف نہ تھی، ہند ی سماج ذات پات میں منقسم تھی، وہاں کا طبقاتی نظام دو قسموں پر مشتمل تھا، سب سے نچلا طبقہ " شودر" کہلاتا تھا جسے شہری حقوق میں مکمل طور نظر انداز کیا جاتا تھا، بلکہ اسے جانوروں اور کتوں سے بھی برا سمجھا جاتا تھا، نچلا طبقہ کسی بھی صورت میں اوپر کے طبقہ تک نہیں پہنچ سكتا تھا خواہ وہ علم ودولت کی کتنی ہی بلندی تک پہنچ جائے۔ ہند میں عورتوں کے ساتھ دنیا کا بدترین سلوک کیا جاتا تھا، ہندی معاشرہ میں عورت کو وبا، موت، زہر، سانپ اور آگ سے بھی بد تر سمجھتے تھے۔ عورتوں پر جوا کھیلا جاتا تھا، جو جیت جاتا تھا عورت کا وہ مالک ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ شوہر کا جب انتقال ہوتا تو بیوی کو قتل کرکے اس کی لاش کو شوہر کی لاش کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا، اگر بیوی اس پر راضی نہ ہوتی تو اسے زندگی بھر گھر والوں کی لونڈی بننا پڑتا تھا، اس کے ساتھ اس قدر غیر انسانی سلوک کیا جاتا کہ وہ اہانت اور ظلم وستم سے نا برداشتہ ہو کر خود کشی کر لیا کرتی تھی۔([5])

اگر ہم اُس وقت کے یہودیوں کی حالت کا جائزہ لیں تو فارس روم سے جیت چکا تھا، جسے قرآن کریم میں:غُلِبَتِ الرُّومُ([6])، سے تعبیر کیا گیا، اس کے نتیجہ میں یہود، نصاری پر حکمرانی کرنے لگے، روم کی فوج کمزور ہو گئی، مسیحی عبادت گاہوں کو خالی کر دیا گیا، پادریوں کو قتل کر دیا گیا، کئی سالوں تک فارس کا دبدبہ بر قرار رہا، پھر روم فارس پر غالب ہوا جو قرآن کریم میں یوں مذکور ہوا: وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ([7]) یہود نے ہرقل کے پاس جا کر منت وسماجت سے امان طلب کی، جب روم کے پادریوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہرقل کو حقیت حال سے آگاہ کیا جس پر وہ بہت ناراض ہوا اور انہیں سزا دینی چاہی مگر امان کے عہد نامے نے ایسے نہ کرنے پر مجبور کر دیا، رومن کے پادریوں نے ہرقل کو عہد نامہ کی پاسداری کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم آج سے لے ہمیشہ آپ کی مغفرت کیلئے ہر سال ایک جمعہ روزہ رکھا کریں گے، جس پر ہرقل بہت خوش ہوا اور یہودیوں کو سخت ترین سزائیں دیں، ان میں سے کچھ شام بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔([8])

ریاستِ مدینہ اولاً: اسلامی معاشرہ کا قیام

الف: افراد کو تیار کرنا

قوم معاشرہ سے تشکیل پاتی ہے اور معاشرہ افراد خاندانوں اور قبیلوں سے بنتا ہے اور پھر خاندانوں اور قبیلوں سے محلے اور شہروں کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور پھر انہی شہروں سے قوموں کا وجود سامنے آتا ہے، اسلام کسی خاص قوم اور فرد کا دین نہیں بلکے پوری بشریت کا دین ہے، ہر فرد اور ہر معاشرے کو ایک ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ قدوہ حسنہ سمجھ کر اس کی اتباع کر سکے تو آپ ﷺ پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ تھے، رشد وہدایت کا یہ سلسلہ قباء میں قیام سے لے کر دنیا سے تشریف لے جانے تک جاری رہا، ریاست نبوی میں افراد کو تیار کرنے کیلئے جواقدامات کیے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- انفرادی تعلقات کی اصلاح اور پرانے اختلافات کا ازالہ

جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو اوس وخزرج کی عداوت کی یہ حالت تھی کہ ایک ساتھ کسی جگہ بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، آپ ﷺقباء میں کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے گھر میں سکونت پذیر ہوئے جن کا تعلق بنو عمر بن عوف سے تھا جوکہ اوس کا ایک قبیلہ ہے، ایک دن آپ ﷺنے حاضرین سے پوچھا اسعد بن زرارۃ کہاں ہیں؟ عرض کی گئی یا رسول اللہ ان کا تعلق خزرج سے ہے انہوں نے ہمارے آدمی نبتل بن حارث کو یوم بعاث میں قتل کیا تھا لہذا ان کا ہمارے ہاں آنا منع ہے، بروز بدھ مغرب اور عشاء کے درمیان چھپتے چھپاتے منہ ڈھانپ کر اسعد بن زرارۃ آپ کی بارگاہ میں پہنچ گئے، آپ ﷺنے جب دیکھا تو فرمایا: يا أبا أمامة, جئت من منزلك إلى هاهنا وبينك وبين القوم ما بينك؟ یعنی آپ یہاں کیسے پہنچے جبکہ آپ کی اوس سے عداوت ہے؟ عرض کی یا رسول اللہ آپ کی یہاں تشریف آوری کا سن کر مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں حاضر ہو گیا، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے سعد بن خیثمہ، رفاعہ بن عبد المنذر اور مبشر بن عبد المنذر کو فرمایا : اسعد بن زرارۃ کو پناہ دو، سب نے عرض کی:أنت يا رسول الله فأجره, فجوارنا في جوارك. یا رسول آپ اسے پناہ دے دیں آپ کی پناہ ہماری پناہ ہے۔ پھر سب نے اسعد بن زرارۃ کو فردا ًفرداً پناہ دی، پھر سعد بن خیثمہ اسعد کے گھر تشریف لے گئے اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اپنی قوم بنو عمرو بن عوف کے پاس لے آئے اور پھر اوس کے تمام لوگوں نے کہا: ہم سب نے اسعد کو پناہ دی، اس دن کے بعد اسعد جب چاہتے آپ ﷺکی خدمت میں بغیر کسی ڈر خوف کے حاضر خدمت ہو جاتے۔([9])

2- تمام لوگوں میں مساوات قائم کرنا

آپ ﷺنے اپنی رعایا کے تمام افراد میں مساوات قائم فرمائی خواہ وہ غریب ہو یا امیربلکہ اپنی فیملی اور خود کو بھی اس سے مستثنی نہیں فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مخزومی عورت نے چوری کی جس کی وجہ سے قریش کو فکر لاحق ہوئی کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، اس حوالے سے آپ ﷺسے بات کرنا چاہی مگر بات کون کرے؟ کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بات کرنے کا کہا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ کے محبوب تھے، تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺسے بات کی، آپ ﷺنے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ. تم اللہ تعالی کی حدوں کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟! پھر ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں سے جب امیر آدمی چوری کرتا اسے چھوڑ دیتے اور جب غریب آدمی چوری کرتا اس پر حد جاری کرتے: وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا. اللہ کی قسم، اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔([10])

علاوہ ازیں جب آپ ﷺقباء سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو انصار کےہر قبیلہ کا ہر فردآپ ﷺسے عرض کرتا: یا رسول اللہ آپ ہمارے گھر تشریف لائیے، آپ ﷺفرماتے:خَلُّوا سَبِيلَهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ. میری اونٹنی کو جانے دو اللہ تعالى کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ اسے کہاں بیٹھنا ہے۔ یہاں تک کہ اوٹنی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ (خالد بن زيد الخزرجي النجاري)کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھی۔ اور یہ اس لیے تھا کہ کسی کا دل نہ ٹوٹے کیونکہ تمام لوگ عزت ومرتبہ میں برابر ہیں۔([11])

3- مہاجروں کا انصار کے گھروں میں قیام

مدینہ منورہ سے تشریف لانے والے مہاجرین انصار کے گھروں میں سکونت پذیر ہوئے، شادی شدہ فیملی والوں کے ہاں تشریف لاتے اور کنوارے کنواروں کے ہاں، زیادہ تر کنوارے سعد بن خیثمہ کے ہاں رہائش پذیر ہوئے کیونکہ وہ کنوارے تھے یہاں تک کہ ان کا گھر دار الاعزاب سے مشہور ہوا، یعنی کنواروں کا گھر، شادی شدہ اُن شادی شدہ کے ہاں اترے جن کے گھر کشادہ تھے اور کھانے پینے کی تنگی نہیں تھی۔([12])

4- لوگوں کی آپس میں ہونے والی روزہ مرہ کی میل جول اور اس کے آداب واخلاق پر خصوصی توجہ دینا

حضرت زید بن ثابت روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺابو ایوب انصاری کے گھر میں تشریف لائے تو سب سے پہلے جس نے آپ کی بارگا میں کھانا پیش کیا وہ میں تھا، وہ کھانا ثرید ، گندم کی روٹی، گھی اور دودھ پر مشتمل تھا، میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ کھانا میری والدہ نے بھیجا ہے، آپ ﷺنے فرمایا: بارك الله فيها. کہ اللہ تعالى اسے برکت دے، پھر آپ نے صحابہ کرام کو بلایا اور سب نے مل کھانا تناول کیا، میں ابھی وہیں ابو ایوب انصاری کے گھر کے دروازہ سے پیچھے نہیں ہٹا تھا کہ دیکھتا ہوں سعد بن عبادہ کے گھر سے ایک بچہ ڈھکاہوا ایک پیالہ لے کر حاضر ہوا میں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو پیالہ میں ثرید تھی جس پر گوشت کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بکھیر دی گئیں تھیں۔([13])

زید بن ثابت کہتے ہیں جب تک آپ ﷺابو ایوب کے گھر میں رہے روزانہ رات کو دو سے تین گھروں سے باری باری کھانا آتا تھا، آپ نے وہاں تقریبا سات ماہ قیام فرمایا روزانہ سعد بن عبادہ اور اسعد بن زرارۃ کے ہاں سے کھانے کا پیالہ آتا تھا۔([14])

حضرت ابو ایوب انصاری سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ ﷺآپ کے ہاں ایک عرصہ تک قیام پذیر تھے آپ کو کھانے میں کیا پسند تھا؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ خصوصی طور پر آپ کیلئے کبھی کوئی خاص کھانا بنا ہو اور نہ ہی میں نے یہ دیکھا کہ کھانا آپ پر پیش ہوا اور آپ نے اسے برا بھلا کہا ہو۔([15])

رعایا کی آپ ﷺ سے عقیدت اور محبت

اور فرماتے ہیں کہ ہم آپ کو کھانا بھیجا کرتے تھے جو آپ ﷺکے تناول کرنے کے بعد بچتا ہم وہیں سے کھانا کھاتے جہاں آپ کے انگلیوں کے نشان ہوتے، ایک دن ہم نے کھانے میں پیاز یا لہسن ڈال دیے اور جب آپ کے ہاں سے کھانا واپس آیا اور ہم آپ کے ہاتھ کی انگلیوں کے نشان تلاش کرنے لگے مگر ہمیں کہیں نہیں ملے تو میں گھبرا کر فورا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آج آپ نے کھانا تناول نہیں فرمایا کیونکہ ہمیں آپ کے انگلیوں کے نشانات کہیں نہیں ملے کہ ہم برکت کیلئے وہیں سے کھاتے؟ آپ نے فرمایا: مجھے اس پودہ کی بو اچھی نہیں لگتی کیونکہ میں اللہ تعالى سے ہم کلام ہوتا ہوں، تو ہم نے اس دن کے بعد کبھی لہسن اور پیاز استعمال نہیں کیے۔([16])

حضرت ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اوپر والے گھر میں تشریف لائیں ہم نیچے والے گھر میں رہیں گے کیونکہ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ آپ ہمارے نیچے رہیں اور ہم اوپر، آپ نے فرمایا نیچے والے گھر میں میرے لیے اور جو مہمان مجھے ملنے آتے ہیں ان کیلئے بھی آسانی ہے، تو ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارا پانی کا مٹکا ٹوٹ گیا اور ہمارے پاس جو رضائی یا کمبل وغیرہ تھا اسے اس پانی پر ڈال دیا تاکہ پانی آپ ﷺپر نہ ٹپکے، اب سردیوں کی رات تھیں ہمارے پاس اس کمبل کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ ہم اپنے اوپر اوڑھتے۔([17])

حضرت ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ آپ ﷺکبھی اکیلے کھانا تناول نہیں فرماتے تھے بلکہ ہمیشہ رات کے کھانے میں پانچ سے 16 آدمیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے۔

5۔بکھرے ہوئے لوگوں کو جمع کرنا

آپ ﷺجب ابو ایوب انصاری کے گھر میں تشریف فرما تھے تب زید بن حارثہ اور ابو رافع کو دو اونٹ اور 500 درہم کے ساتھ مکہ بھیجا کہ وہ آپ کے گھر والوں کو وہاں سے لے کر آئیں، انہوں نے ان پیسوں کے تین اونٹ خریدے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ عبد اللہ بن اریقط کو بھی ساتھ ملا دیا کہ وہ راستوں کے حوالے سے ان کی مدد کریں گے۔ زید بن حارثہ اور ابو رافع جن خواتین وحضرات کو مدینہ منورہ سے لائے ان کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں: فاطمہ اور ام کلثوم آپ کی بیٹیاں، ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ، ام ایمن آپ ﷺکی دایہ اور زید بن حارثہ کی زوجہ محترمہ اور ان کے بیٹے اسامہ، اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر والے بھی اس قافلہ میں شامل تھے جن میں عبد اللہ بن ابو بکر، ام رومان آپ کی زوجہ محترمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی بیٹی، اور آپ کی دوسری بیٹی اسماء جس نے قباء پہنچتے ہی مشہور صحابی رسول ﷺعبد اللہ بن زبیر کو جنم دیا، ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے یہ سب سے پہلے مسلمان بچے تھے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فیملی حارثہ بن نعمان کے ہاں رہائش پذیر ہوئی۔

ب: جماعت کی تشکیل

1- اسلام میں مواخات

بھائی وہ ہوتا ہے جسے ایک ہی ماں اور باپ نے جنم دیا ہو جن کے درمیان خونی رشتہ ہو اور وہ ایک دوسرى کے وارث کفیل مدد گار اور ذمہ دار ہوا کرتے ہیں مگر اسلام نے اس سے ہٹ کر ایسی مواخات کی بنیاد رکھی جو اب تک غیر معروف تھی کہ تمام انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں، اللہ تعالى نے فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ [ الحجرات: 49/13]. کہ اے لوگو، ہم نے آپ کو عورت اور مرد سے پیدا کیا اور پھر قوم اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، تم میں زیادہ عزت ومرتبہ والا وہ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ اسلام میں صرف مساوات نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی قائم کی گئی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ کئی دفعہ بھائیوں کے درمیان ایسے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ خونی رشتہ کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف بندوقیں اور تلواریں نکال لیتے ہیں لیکن اسلامی مواخات کا رشتہ ایسا مضبوط تھا کہ اسے ختم کرنا نا ممکن تھا۔

2- عہد مکی میں مواخات

ابتدائی مسلمانوں کے درمیان آپ ﷺنے مواخات کا رشتہ قائم فرمایا کہ :* حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو آپس میں بھائی بنا دیا۔

  • عبد اللہ بن مسعود اور زبیر بن عوام کے درمیان مواخات قائم کی گئی۔
  • عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف کو آپس میں بھائی بنایا گیا۔
  • اسی طرح عمار بن یاسر اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان مواخات قائم ہوئی۔

اسی طرح مکہ مکرمہ میں جب بھی کوئی مشکل گھڑی آئی تمام مسلمان ایک چٹان کی مانند کفار کے سامنے کھڑے ہو گئے اور مال متاع لٹانے سے دریغ نہیں کیا ، انصار نے مہاجرین کی جو مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ان سے ہمدری کی اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

3- مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی کا قیام

مدینہ منورہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ ﷺنے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی جس میں 90 افراد شامل تھے 45 مہاجرین میں سے اور 45 انصار میں سے، اس مواخات کی خاص بات یہ تھی کہ ما بعد الموت ذوی الارحام کے بجائے یہ بھائی ایک دوسرے کے وارث بھی بنیں گے یہاں تک کہ دوسری ہجری میں غزوہ بدر کے بعد جب یہ آیت اتری تو مواخات کا توارث منسوخ ہو گیا۔ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ [ الانفال: 8/75]. کہ ذوی الارحام دوسروں سے اولى ہیں۔([18])

4-مواخات کا زمانہ

مواخات ہجرت کے پانچ ماہ بعد رمضان المبارک میں قائم ہوئی۔

5-مواخات کے مقاصد

اسلام سیکھنا اور سیکھانا

مہاجریں اسلام کا اول دستہ تھے اور انہوں نے بعثت نبوی سے لے کر اب تک 13 سال آپ ﷺکی رفقت میں گزارے، سفر، حضر، مشکل، آسانی، حزن وغم تمام حالات میں آپ کا ساتھ دیا اور براہ راست آپ ﷺسے اسلام کی تمام تعلیمات حاصل کیں اب یہ ساری تعلیمات بشمول فرائض واجبات اتنا آسان نہیں تھا کہ آپ ﷺپھر سے خود تمام انصار کو یہ چیزیں دہراتے لہذا دین سیکھنا انصار کی ضرورت تھی جو کہ مواخات کے زریعے پوری ہوئی۔

قوم رنگ ونسل کی تفریق ختم کرنا

اسلامی اصولوں پر تشکیل پانے والے نئے معاشرے کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ اسلام میں قوم زبان رنگ ونسل علاقائی تفریق اور تعصب کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ سب سے اہم اور بڑا رشتہ اسلامی اخوت کا ہے۔

اسلامی تکافل اور تعاون کو عام کرنا

اسلامی تکافل تکامل اور تعاون کو مسلمانوں کے درمیان عام کرنا مقصود تھا کہ مہاجرین اور انصار ایک دوسروں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں کھائیں پیئں، خوشی غمی شادی بیاہ میں شریک ہوں اور آپس میں رشتہ داری قائم کریں تاکہ ایک مضبوط معاشرہ کی بنیاد رکھی جا سکے۔

6- مواخات کی چند مثالیں

انصار قربانی اور ایثار کے جذبہ سے ایسے سرشار تھے کہ انہوں نے اپنے بھائی مہاجرین پر سب کچھ قربان کر دیا، اس ایثار اور جذبہ کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

عبد الرحمان بن عوف اور سعد بن ربیعہ کی بھائی چارگی

آپ ﷺنے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو سعد بن ربیع انصاری کا بھائی بنایا تو سعد عبد الرحمن کو کہتے ہیں میں انصار میں سب زیادہ امیر ترین شخص ہوں لہذا میں اپنے مال ومتاع کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں جس میں سے آدھا آپ کو پیش کرتا ہوں اور آدھا خود رکھوں گا، اور میری دو بیویاں ہیں آپ کو ان میں سے جو پسند آئے میں اسے طلاق دے دوں گا عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیجئے گا۔ عبد الرحمن نے کہا: اللہ تعالى آپ کے گھر اور مال میں برکت عطا فرمائے مدینہ کا بازار کہاں ہے آپ مجھے بازار کی رہنمائی کر دیجئے، انہوں نے قینقاع کے مشہور بازار کا راستہ بتا دیا انہوں نے گھی پنیر وغیرہ کا کارو بار شروع کر دیا چند ہی دنوں میں شادی کر لی اور پھر ان کے مال میں خوب برکت ہوئی یہاں تک کہ وہ خود فرماتے: میں خاک میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔([19])

حضرت حمزہ اور زید بن حارثہ کی بھائی چارگی

امیر الشہداء حضرت حمزہ کو زید بن حارثہ کا بھائی بنایا گیا تھا اور غزوہ احد میں شریک ہوئے تو حمزۃ نے وصیت کی اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو میرے مال ومتاع کا وارث میرا بھائی زید بن حارثہ ہوگا۔([20])

حضرت ابو بکر اور خارجہ بن زید کی بھائی چارگی

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خارجہ بن زید کے بھائی بنائے گئے تھے اور پھر ان کی بیٹی حبیبہ سے شادی بھی ہوئی یہاں تک کہ جب آپ ﷺدنیا سے تشریف لے گئے تب بھی یہ دونوں بھائی بھائی تھے۔([21])

مہاجرین کا تجارت میں مصروف ہونا

انصار نے اپنے بھائیوں کو رہنے کیلئے گھر دیے اور زراعت کیلئے زرعی زمینیں پیش کیں کھجوروں کے باغ گفٹ کیے مگر مہاجرین کو زراعت کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بازاروں کا رخ کیا تاکہ تجارت شروع کی جا سکے، حضرت ابو بکر نے سنح میں اپنا کپڑوں کا کاروبار شروع کیا، حضرت عمر نے بھی تجارت میں شہرت پائی ان کا مال ایران تک جاتا تھا، اسی طرح تمام مہاجرین نے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا تھا۔

7- مواخات کے متعلق تین اہم باتیں

مواخات کا رشتہ صرف ہجرت سے متعلق نہیں تھا

ٹوٹل 80 یا 90 آدمیوں میں ابتدائی طور پر مواخات کا رشتہ قائم ہوا لیکن یہ رشتہ یہاں محدود نہیں رہا بعد میں جب بھی کوئی مسلمان ہوتا تو آپ ﷺصحابہ کو بلاتے اور فرماتے یہ تمہارا بھائی ہے انہیں اپنے ساتھ رکھو اور اسلام سیکھاؤ۔

مواخات اسلامی اقدار سیکھانے کا اہم ذریعہ تھا

اور پھر یہ رشتہ صرف ضرورت کے تحت نہیں تھا بلکہ اعلى اسلامی اقدار سیکھانے کا سب سے اہم زریعہ تھا۔ اخوت میں مالی معاشرتی یکسانیت کے ساتھ ساتھ مزاج اور طبیعت کا بھی خیال رکھا گیا:

اور پھر جن جن حضرات کے درمیان اخوت قائم ہوئی ان کے مزاج اور طبیعت کا خیال رکھا گیا، حضرت سعید بن زید جو زید بن عمرو بن نفیل کے بیٹے تھے اور حضرت عمر کے بہنوئی تھے انہی کی اور ان کی بیوی فاطمہ کی وجہ سے حضرت عمر اسلام کی طرف مائل ہوئے ان کے والد دین ابراہیمی پر تھے انہیں ابی بن کعب انصاری کا بھائی بنایا گیا جنہیں حضرت عمر سید المسلمین کے لقب سے پکارتے تھے، حضرت حذیفہ قریش کےسردار عتبہ بن ربیعہ کے بیٹے تھے انہیں قبیلہ بنو اشہل کے سردار عباد بن بشر کا بھائی بنایا گیا، حضرت بلال کو ابو رُوَیحہ کا حضرت سلمان فارسی کو ابو درداء کا عمار بن یاسر کو حذیفہ بن یمان کا اور مصعب بن عمیر کو ابو ایوب کا بھائی بنایا گیا ان تمام حضرات میں وحدت مزاج میں یکسانیت موجود تھی۔

ثانياً: صحت اور عمرانی اصولوں کی بنیاد

مہاجرین جب مدینہ منورہ پہنچے تو انہیں وبا ء نے گھر لیا اور انہیں وہاں کی آب وہوا راس نہیں آئی جس کی وجہ سے بہت سے صحابہ کرام بیمار ہو گئے جن میں سے بعض کی حالت تو بہت ہی نازک ہو گئی جس کی وجہ سے آپ ﷺنے صفائی ستھرائی کے کچھ ایسے اقدامات کیے کہ مدینہ منورہ صحت وسلامتی کا مرکز بن گیا۔([22])

الف: مدینہ منورہ کے باشندوں کی صحت کیلئے پاکیزہ ماحول کا قیام

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو وہاں کی زمین وباء زدہ تھی جس کی وجہ سے بہت سے صحابہ کرام تکلیف ومصیبت میں مبتلا ہو گئے، حضرت ابو بکر صدیق، عامر بن فہیرہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھے اور سبھی کو بخار ہو گیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب پردہ کی آیت نہیں اتری تھی تو میں بیمار پرسی کیلئے ان کے ہاں حاضر ہوئی تو میرے والد گرامی نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ موت شہ رگ سے بھی زیادہ قریب آ چکی ہے اسی طرح عامر اور بلال نے بھی اشعار پڑھے، میں نے آپ ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری صورت حال بتائی تو آپ نے فرمایا: اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحِبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا لَنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا. يا اللہ , ہمارے لئے مدینہ کوا س طرح محبوب کردے جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ ، مدینہ کی فضا صحت بخش بنادے ، ا سکے صاع اور مد غلے کے پیمانوں میں اضافہ فرمادے۔([23])

ب: مدینہ میں پہلی ہوئی وباء کے سد باب کیلئے کیے گئے اقدامات

1- برساتی ندی نالوں کی صفائی ستھرائی

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو وہاں کی زمین دنیا میں سب سے زیادہ وباء زدہ تھی وادی بطحان کا پانی نہایت آلودہ تھا، آپ ﷺنے اس وادی کی صفائی ستھرائی کے لئے ایسے اقدامت کیے کہ چند ہی دنوں میں نہایت صاف وشفاف پانی بہنا شروع ہو گیا، پھر کہتی ہیں میں نے آپ ﷺسے سنا: إِنَّ بُطْحَانَ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ. بطحان جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے۔ اور پھر آپ نے کئی دیگر ندی نالوں کی صفائی کا حکم صادر فرمایا اور کئی نئی نہریں بھی کھودی گئی۔([24])

2-لوگوں کو صفائی ستھرائی کی اہمیت دلانا

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: تَنَظَّفُوا بِكُلِّ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّ اللَّهَ بَنَى الإِسْلامَ عَلَى النَّظَافَةِ، وَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ إِلا كُلُّ نَظِيفٍ. جتنا زیادہ صفائی کا اہتمام کر سکتے ہیں کریں کیونکہ اللہ تعالى نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے، جنت میں صرف صفائی پسند ہی داخل ہوگا۔([25])

ایک اور حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الجُودَ، فَنَظِّفُوا، أُرَاهُ قَالَ، أَفْنِيَتَكُمْ وَلاَ تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ. ([26]) اللہ تعالى پاک ہے اور پاک لوگوں کو پسند فرماتا ہے، اور اللہ تعالى نظیف ہے اور نظافت پسند فرماتا ہے، اور اللہ تعالى کریم ہے سخاوت پسند فرماتا ہے، تم اپنے گھروں کے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو یہودیوں کی مشابہت مت کرو ۔ اسلام میں صفائی کے اہتمام کا اندازہ آپ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ دن میں پانچ دفعہ وضوء کا حکم ملا جس میں مسواک کی بھی شدید ترغیب دلائی گئی ہے۔

3- طہارت کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا

اسلام میں طہارت کی اہمیت کا اندازہ مندرجہ ذیل نکات سے لگا سکتے ہیں:* اسلام میں جسم، نفس، لباس، رہائش، نمازگاہ، پانی، کھانا پینا اور راستوں کی طہارت کا حکم دیا گیا ہے۔

  • آپ ﷺنے ہوا کے رخ کی طرف پیشاب کرنے سے منع فرمایا تاکہ اس کے چھینٹے واپس خود پر نہ پڑیں۔
  • اسی طرح جاری پانی، کھڑے ہوئے پانی، قبرستان اور راستوں پر پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
  • آپ ﷺنے فرمایا تین برائیوں سے بچو، پانی میں پیشاب کرنے سے، راستے پر پیشاب کرنے سے اور پھل دار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے۔
  • آپ ﷺنے حکم دیا کہ کوڑا کرکٹ کو اپنی رہائش گاہ سے دور پھینکا جائے، اور پھر کوڑا کرکٹ کیلئے شہر سے دور ایک جگہ متعین کی گئی۔

4- پینے کے پانی کیلئے کنووں کی کھدائی اور میٹھے پانی کے نالوں کا اجراء

حضرت طلحہ بین عبید اللہ نے میٹھے پانی کے کئی کنویں کھودوائے اور پھر وہاں سے زراعت کیلئے پانی کے نالے بنائے گئے جس سے پہلی دفعہ مدینہ میں کنویں کے پانی سے گندم کاشت ہوئی۔ اور آپ ﷺہمیشہ پینے کے پانی کیلئے کنویں دھودوانے کی ترغیب دیا کرتے تھے، اور آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ بئر رومہ خریدیں جسے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے خریدا اور تمام مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔([27])

ج: مدینہ منورہ کے قدرتی ماحول کا اہتمام

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے آپ ﷺفرماتے ہیں: اللهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ فَجَعَلَهَا حَرَمًا اللهُمَّ إِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا أَنْ لَا يُهَرَاقَ فِيهَا دَمٌ وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ. ([28])اے اللہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں کہ اس میں نہ تو خون بہے گا اور نہ ہی وہاں لڑائی کیلئے اسلحہ اٹھایا جائے گا اور نہ ہی مدینہ کا کوئی درخت وغیرہ کاٹا جائے گا مگر جانوروں کے چارہ کیلئے۔

حضرت جابر کی روایت میں ہے کہ نہ وہاں کی جھاڑیاں وغیرہ کاٹی جائیں اور نہ ہی کسی جانور کو شکار کیا جائے۔حضرت علی کی روایت میں ہے کہ مدینہ کی زمیں میں سے کسی شکار کو اپنی جگہ سے اٹھایا بھی نہ جائے۔ وہ اس لیے درخت پودے اور چرند پرند سے ایک قدرتی ماحول میسر آتا ہے لہذا اسے ہر حالت میں برقرار رکھا جائے۔

پھر امن وسلامتی کے حوالے سے آپ ﷺفرماتے ہیں: وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائقَهُ۔([29]) اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون مسلمان نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ہے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ([30]) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

د: مدینہ منورہ کی تعمیر وترقی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنا

جب آپ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے باشندے مختلف قبیلوں اور عشیروں میں بٹے ہوئے تھے ہر قبیلہ کا اپنا قلعہ اور چار دیواری تھی جس میں وہ رہتے تھے، اسی میں کھیتی باڑی بھی کرتے تھے جب شام ہوتی تو قلعہ کا دروازہ بند کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہیں، اس وقت مدینہ میں تقریبا 59 قلعے تھے جن میں سے کچھ انصار کے پاس تھے اور کجھ یہودیوں کے پاس، جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو اس جدید ریاست کا سب سے بڑا چیلنج ان مہاجرین کی آباد کاری کا تھا کہ انہیں کیسے آباد کیا جائے، تو آپ ﷺنے اس مسئلہ کو کچھ یوں حل کیا:

1-زمین کی تقسیم کاری

انصار نے اپنی تمام زمینیں آپ ﷺکو سپرد کر دیں کہ آپ جیسے مناسب سمجھیں ویسے کریں، تو آپ ﷺنے تمام مہاجریں کو زمین میں شریک کیا مثلاً:* بنو زہرہ کو مسجد کی پچھلی طرف زمین کا ایک حصہ عطا فرمایا۔

  • عبد الرحمن بن عوف کو ایک قلعہ ملا۔
  • عبد اللہ بن مسعود اور ان کے بھائی عتبہ کو مسجد کے ساتھ والی عطا فرمائی۔
  • اسی طرح زبیر بن عوام ابو بکر صدیق عثمان بن عفان خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو زمین کے حصہ ملے۔

انصار میں جس نے سب سے پہلے اپنی زمینیں اور گھر مہاجرین کیلئے پیش کیے وہ حارثہ بن نعمان تھے، اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑے عرصہ میں مدینہ منورہ کے ہر طرف شاندار عمارتیں نظر آنے لگی اور مہاجرین کی آباد کاری کا مسلئہ حل ہو گیا، واقدی نے مغازی میں لکھا ہے کہ مدینہ کی عمارتیں دفاعی نقطہ نظر سے بنائی جاتی تھیں کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو بچے اور عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر اپنا دفاع کر سکیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ عمارتیں تجاوزات اور کچی آبادی کی شکل میں نہیں تھیں کہ جس کا جہاں دل چاہا وہاں گھر بنا لیا بلکہ یہ تعمیرات نہایت ہی پلاننگ اور مرتب طریقے سے تھی کہ ہر قبیلہ کیلئے علیحدہ علیحدہ یونٹ قائم کیے گئے اور اس میں مستقبل بعید کی پلاننگ کی گئی کہ اگر ہماری آبادی بڑھتی ہے تو نئی عمارتیں کس طرف بڑہیں گی۔

2- مدینہ منورہ کے مستقبل کی پلاننک کو اسلامی معاشرہ کے اخلاقی اقدار سے مربوط کرنا

مدینہ منورہ کی تعمیر وترقی کو اخلاقی اقدار سے مربوط کیا گیا کیونکہ آپ ﷺنے خود اس پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کو مکمل کروں، کیونکہ وہ گھر گھر نہیں ہوتا جس میں رہنے تمام افراد ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات کا خیال نہ کریں، ایک دوسرے کا ادب واحترام نہ کریں، آپس میں روا داری نہ ہو اختلاف اور جھگڑا کی آوازیں ہر وقت سنائی دیتی رہیں اور ہر شخص دوسرے کو اذیت دینے کے در پئے ہو بلکہ وہ کھوکھلی عمارتیں ہیں اور خالی مکان ہیں، اور پھر اسی طرح ہر شخص کو پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور پھر ہر محلے والے کو دوسرے محلے کے باشندوں کے آرام کا خیال رکھیں کیونکہ افراد سے خاندان بنتا ہے خاندانوں سے محلہ وجود میں آتا ہے، محلہ سے شہر بنتے ہیں اور اس سے ایک اچھا یا برا معاشرہ تشکیل پاتا ہے، لہذا آپ ﷺنے ایک اچھے معاشرے کے وجود کیلئے ہمیشہ کوششیں جاری رکھیں، اگر کسی نے دوسرے کو زبان سے بھی تکلیف دینے کی کوشش کی تو آپ نے نا گواری کا اظہار کیا، اس بار ے میں چند احادیث پیش خدمت ہیں:

حاکم اور محکوم میں عدمِ تفریق

معرور روایت کرتے ہیں : لَقِيتُ أبا ذَرٍّ بِالرَّبَذَة وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلاَمِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلاً فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: يَا أبا ذَرٍّ أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ إنك امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، إخوانكم خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كان أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ([31]) کہ حضرت ابوذر سے میری ملاقات ہوئی، اور میں نے دیکھا کہ ان پر اور ان کے غلام پر ایک ہی جیسی قیمتی پوشاک تھی میں نے ان سے سبب پوچھا۔ تو انھوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے ایک شخص کو نا مناسب الفاظ سے پکارا، میں نے اس کو اس کی ماں کی طر ف سے عار دلایا۔ اس نے نبی کریم ﷺسے میری شکایت کردی۔ آپ ﷺنے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ ﷺنے فرمایا: تم ایسے آدمی ہوجس میں جاہلیت ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ما تحت کر دیا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہواسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے، اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اوران پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگران کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھران کی خود مدد کردیا کرے۔

پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید

حدیث میں ہے آپ ﷺفرماتے ہیں: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ([32]) کہ مجھے جبریل بار بار پڑوسی کے حقوق کی وصیت کرتے رہے مجھے یہاں تک لگا کہ پڑوسی ایک دوسرے کے وارث بنا دیے جائیں گے۔

پڑوسیوں اور مہمانوں کی تکریم

ایک حدیث میں فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ([33]) جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی عزت کرے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔

سلام کو عام کرنے اور ایک دوسرے کا ادب واحترام کرنے کا حکم

ایک اور حدیث میں فرمایا: لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ ([34]) جب تک آپ ایمان نہیں لاؤ کے تب تک جنت میں داخل نہیں ہوں گے، جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے تب تک ایمان نہیں لا سکتے، کیا میں آپ کی رہنمائی ایک ایسے چیز کی طرف نہ کروں جس کو جان کر آپ ایک دوسرے سے اور محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام کو فروغ دو۔

ثالثاً: تعلیمی اور تربوی اصولوں کی بنیاد

وحی کی سب سے پہلی آیت: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ [ علق: 96/1] تھی جس میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مکی اور مدنی دونوں عہد میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ تعلیم وتربیت تھی، مکی دور میں دار ارقم مسلمانوں کا سب سے پہلا انسٹیٹیوٹ تھا جس کے معلم آپ ﷺخود تھے، اس ادارے میں مہاجرین نے براہ راست آپ سے تعلیم حاصل کی اور پھر ریاست مدینہ میں تمام انصار تک تعلیم کا پیغام پہنچایا کیونکہ انصار کو لکھنا پڑھنا بالکل نہیں آتا تھا، لیکن مدنی دور میں تعلیم کے سلسلہ کو مزید کچھ یوں آگے بڑھایا گیا۔

الف: انفرادی سطح پر

تعلیم کی اہمیت

حضرت ابو درداء روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ایک دن مجھے فرمایا: كَيْفَ أَنْتَ يَا عُوَيْمِرُ إِذَا قِيلَ لَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعَلِمْتَ أَمْ جَهِلْتَ؟ فَإِنْ قُلْتُ: عَلِمْتُ قِيلَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عَلِمْتَ؟ وَإِنَّ قُلْتَ: جَهِلْتُ قِيلَ لَكَ: فَمَا كَانَ عُذْرُكَ فِيمَا جَهِلْتَ، أَلَا تَعَلَّمْتَ؟([35]) اے عویمر اگر قیامت کے دن تجھے یہ کہا جائے کیا تم نے تعلیم حاصل کی یا جاہل رہا؟ اگر تو نے یہ جواب دیا میں نے تعلیم حاصل کی تو تجھے کہا جائے گا جو تو نے پڑھا کیا اس پر عمل بھی کیا؟ اگر تو نے یہ جواب دیا کہ میں نے کچھ نہیں پڑھا تو تجھے کہا جائے گا: کیا وجہ تھی کہ تو نے تعلیم حاصل نہیں کی؟

انصار کی تعلیم کیلئے مصعب بن عمیر کو روانہ کرنا

مصعب بن عمیر کو آپ ﷺنے انصار کو تعلیم کیلئے مدینہ منورہ بھیجا جوکہ ریاست نبوی کے سب سے پہلے سفیر قرار پائے۔

مواخات قائم کرنے کا سب سے بڑا مقصد تعلیم کو عام کرنا تھا

انفرادی تعلیم کا یہ سلسلہ اس وقت عروج کو پہنچا جب آپ ﷺنے مہاجرین اور انصار میں مواخات قائم کی کہ مہاجر اپنے انصاری بھائی کو لکھائی پڑھائی سیکھایا کرتے تھے۔

غزوہ بدر کے قیدیوں سے تعلیمی خدمات حاصل کرنا

انفرادی تعلیم کی دور نبوی میں ایک ایسی مثال جسے اب بھی دنیا فخر کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ غزوہ بدر میں پکڑے جانے والے قیدیوں کا فدیہ یہ قرار پایا کہ ہر آدمی دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دے وہ آزاد ہے۔

ب: اجتماعی سطح پر

ناخواندگی ختم کرنے کے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات

آپ ﷺنے فرمایا: مَا بَالُ أَقْوَامٍ لَا يُفَقِّهُونَ جِيرَانَهُمْ، وَلَا يُعَلِّمُونَهُمْ، وَلَا يَعِظُونَهُمْ، وَلَا يَأْمُرُونَهُمْ، وَلَا يَنْهَوْنَهُمْ. وَمَا بَالُ أَقْوَامٍ لَا يَتَعَلَّمُونَ مِنْ جِيرَانِهِمْ، وَلَا يَتَفَقَّهُونَ، وَلَا يَتَّعِظُونَ. وَاللَّهُ لَيُعَلِّمَنَّ قَوْمٌ جِيرَانَهُمْ، وَيُفَقِّهُونَهُمْ وَيَعِظُونَهُمْ، وَيَأْمُرُونَهُمْ، وَيَنْهَوْنَهُمْ، وَلْيَتَعَلَّمَنَّ قَوْمٌ مِنْ جِيرَانِهِمْ۔اس کی قوم کی کیا حالت ہوگی جو اپنے پڑوسیوں کو نہ دین سیکھاتے ہیں اور نہ انہیں پڑھاتے ہیں نہ ہی انہیں وعظ ونصیحت کرتے ہیں نہ انہیں کسی اچھے کام کا حکم دیتے ہیں اور نہ ہی برے کاموں سے روکتے ہیں، اور اس قوم کی کیا حالت ہوگی جو پڑوسیوں سے تعلیم حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے وعظ ونصیحت لیتے ہیں، اللہ کی قسم تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو تعلیم دیں اچھے کاموں کا حکم دیں برے کاموں سے روکیں ورنہ میں انہیں خود سزا دوں گا، اشعری پڑھے لکھے لوگ تھے مگر ان کے پڑوسی دیہاتی تھے وہ لکھنا پڑھنا نہیں سیکھنا چاہتے تھے اور آپ ﷺکے حکم کے بعد انہیں تعلیم کا شوق ہوا اشعریوں نے ایک سال کی مہلت طلب کی تاکہ انہیں لکھنا پڑھنا سیکھائیں، ٹھیک ایک سال بعد اشعری آپ کی بارگا میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہم نے اپنے پڑوسیوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دیا ہے، اس طرح ناخواندگی کو ختم کیا گیا۔([36])

تعلیم کو عام کرنے میں مساجد کا کردار

ریاست نبوی میں مسجد نبوی تعلیم وتربیت کا مرکز تھی ہر وقت صحابہ کرام تعلیم میں مصروف رہتے تھے لیکن مدینہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ ﷺنے نو مزید مسجدیں تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ مسلمان بچے اپنے اپنے محلہ میں تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھیں، ان مسجدوں کے نام کچھ یوں تھے: مسجد بنی عمرو بن نجار، مسجد بنی ساعدہ، مسجد بنی سلمہ، مسجد بنی رابح، مسجد بنی عبد الأشھل، مسجد بنی رزین، مسجد غفار، مسجد اسلم، اور مسجد جھینہ۔

معلمین کی تعیناتی

آپ ﷺنے عبد اللہ بن سعید کو حکم دیا کہ وہ بطور معلم اپنے فرائض انجام دیں کیونکہ وہ بہت اچھے طریقے سے لکھنا پڑھنا جانتے تھے، عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں اصحاب صفہ کو لکھنا پڑھنا سیکھاتا تھا۔

زید بن ثابت اور جابر عبد اللہ کا تعلیم کے عام کرنے میں کردار

جن لوگوں نے غزوہ بدر کے قیدیوں سے لکھنا پڑھنا سیکھا ان میں زید بن ثابت بھی تھے اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن شریف کے جمع کے سلسلہ میں جو کمیٹی تیار ہوئی زید بن ثابت اس کمیٹی کے نگران تھے، حضرت جابر عبد اللہ مسجد میں تعلیم کی مجلس قائم کیا کرتے تھے جس میں لوگ تعلیم کی غرض سے شریک ہوتے۔

ج: اسلام کی پہلی مردم شماری اور باقاعدہ رجسٹریشن کا عمل

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہجرت نبوی کے پہلے سال آپ ﷺنے مردم شماری کروائی اور صحابہ کو حکم دیا : اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلاَمِ مِنَ النَّاسِ. فَكَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةِ رَجُلٍ([37]) کہ وہ تمام کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمان مرد عورتیں بچے بوڑھے کے نام کی رجسٹریشن کی جائے اور ان کی تعداد لکھی جائے، اس وقت مسلمانوں کی تعداد 1500 تھی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ جب آپ نے مردم شماری کا حکم دیا تو میں نے اس غرض کیلئے ایک رجسٹر تیار کیا جس کا نام تھا صحیفہ صادقہ، یاد رہے کہ وحی کو تحریر کرنے والے صحابہ کی تعداد تقریبا 61 تھی۔

د: عالمگیریت کی بنیاد

وسیع النظری

زید بن ثابت کہتے ہیں مجھے آپ ﷺنے ایک دن بلایا اور فرمایا: تَعَلَّمْ كِتَابَ الْيَهُودِ فَإِنِّي لَا آمَنْهُمْ عَلَى كِتَابِنَا. قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي خَمْسَ عَشْرَةَ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ، فَكُنْتُ أَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَقْرَأُ كُتُبِهِمْ إِلَيْهِ([38]) یہودیوں کی زبان سیکھو کیونکہ مجھے ان کی زبان کی ضرورت پڑتی ہے اور مجھے ان پر بھروسہ نہیں، کہتے ہیں میں نے 15 دنوں میں ان کی زبان اور لکھائی سیکھ لی، پھر میں ان کے مراسلات کا جواب دیا کرتا تھا۔

سریانی زبان سیکھنے کا حکم

ایک اور دفعہ آپ ﷺنے مجھے بلا کر فرمایاکہ: إِنَّهُ يَأْتِينِي كُتُبٌ مِنَ النَّاسِ وَلَا أُحِبُّ أَنْ يَقْرَأَهَا كُلُّ أَحَدٍ، فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَتَعَلَّمَ كِتَابَ السُّرْيَانِيَّةِ ؟ ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ فَتَعَلَّمْتُهَا فِي سَبْعَ عَشْرَةَ([39]) کہ مجھے سریانی میں کئی دفعہ خطوط آتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ اس پر مطلع ہوں کیا تم سریانی زبان سیکھ سکتے ہو؟ میں نے عرض کی جی یا رسول اللہ، تو میں نے سریانی زبان 17 دنوں میں سیکھی، پھر میں ان کے مراسلات کا جواب دیا کرتا تھا۔۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ نے مختلف زبانیں سیکھ رکھی تھی جب کسی کو سفیر بنا کر کہیں بھیجنا ہوتا تو اہل زبان کو بلاتے اور اسے سفیر بنا کر بھیج دیتے۔

ھ: تعلیم کو ہر شخص پر لازم قرار دینا

علم حاصل کرنا ہر شخص پر فرض ہے

آپ ﷺنے فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ([40]) علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے”علم سیکھواور لوگوں کو سکھاؤ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،کیوں کہ میں انسان ہوں، جو اٹھا لیا جاؤں گا اور علم بھی عنقریب اٹھ جائے گا اور فتنے ظاہرہوں گے۔

پڑھی لکھی عورتیں

آپ ﷺنے فرمایا: بچے کا والد پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے لکھائی پڑھائی تیراکی اور تیر اندازی سیکھائے۔ حضرت شفاء ایک پڑھی لکھی اور فاضلہ خاتون تھیں آپ ﷺاس کے پاس تشریف لاتے اور اس کے گھر میں قلیلولہ فرماتے، ایک دفعہ اس سے فرمایا: عَلَّمِيهَا حَفْصَةَ كَمَا عَلَّمْتِيهَا الْكِتَابَ([41]) جیسے آپ نے حفصہ کو لکھنا پڑھنا سیکھایا ہے ویسے ہی آپ اسے رقیۃ النملہ( ایک قسم کا مزاحیہ کلام جو شادی بیاہ میں کہا جاتا ہے) سیکھا دیں۔

عورتوں کی تعلیم کیلئے آپ ﷺکا ایک دن مقرر فرمانا

اور آپ ﷺنے ایک ایک دن عورتوں کی وعظ ونصیحت کیلئے مقرر کر رکھا تھا جس میں عورتوں کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔([42])

و: علم پڑھنے پڑھانے کی اہمیت

آپ ﷺنے فرمایا: جو تعلیم کی غرض سے نکلتا ہے اللہ تعالى اس جنت کا راستہ اس کیلئے آسان فرما دیتا ہے۔([43])

ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن علماء کے ہاں استعمال ہونے والی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولہ جائے گا۔([44])

ایک اور حدیث میں فرمایا: فرشتے طالب علم کی خوشی کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔([45])

ز: علماء اور معلمین کے مرتبہ کو بلند کرنا

آپ ﷺنے فرمایا کہ : الْعُلَمَاءُ أُمَنَاءُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ([46]) علماء اللہ تعالی کی مخلوق پر امین ہیں۔ایک اور حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا: الْعَالِمُ وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ فِي الْأَجْرِ([47]) پڑھنے اور پڑھانے والا دونوں اجر میں برابر کے شریک ہیں۔

ح: تعلیم کو تربیت اور تہذیب نفس سے مربوط کرنا

تعلیم تربیت اور تہذیب نفس کے بغیر کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے، اللہ تعالى نے قرآن مجید میں آپ ﷺکے بارے میں فرماتا ہے: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ [ بقرة: 2/129]. اللہ تعالى نے مسلمانوں پر احسان فرمایا کہ ان میں سے انہیں ایک نبی بھیجا جو ان پر آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور تہذیب نفس سر انجام دیتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت سیکھاتے ہیں اگرچہ اس سے قبل یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ اسی طرح قرآن مجید میں کئی بار تعلیم اور تربیت کو ایک ساتھ جوڑا گیا ہے۔

رابعا: اقتصادی اور معاشی اصولوں کی بنیاد

اقتصادی اور معاشی مسائل کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے مصادر اور آمدنی کے ذرائع وغیرہ کم ہیں یا ہیں ہی نہیں بلکہ اقتصادی بہران کے اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ مال ودولت کی تقسیم صحیح بنادوں پر نہ ہو اور یہی مسئلہ مدینہ منورہ کا ہجرت سے قبل تھا کہ اہم اقتصادی موارد یہودیوں کے قبضہ میں تھے جسے چاہتے جب چاہتے جیسے چاہتے اسے تقسیم کرتے بلکہ مدینہ کا مالی نظام مکمل ان کے کنٹرول میں تھا، سودی کاروبار چیزوں کی قیمتیں بڑھانا کم کرنا ذخیرہ اندوزی جھوٹ وفریب ظلم وستم بری عادات دھوکہ بازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، باقی عام لوگ کھیتی باڑی اور مال مویشی پالتے تھے، صنعت کا کام کرتے لکڑیاں جمع کرکے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے، لہذا ریاست نبوی کیلئے جو اہم چیلنج تھےان میں سے اقتصاد ومعیشت کے مزید موارد تلاش کرنا دوسرا مالی نظام کی درستگی اور اس کیلئے قوانین واصول وضع کرنا جس سے تمام لوگوں کو یکساں رزق حلال کے مواقع میسر آئیں۔ ان میں سے اہم اصول مندرج ذیل ہیں:

الف: اقتصاد کے بارے میں دین اسلامی کے اہم اصول وضوابط

1۔ اقتصاد دین کا اہم جزء ہے جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

2۔ معیشت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ حلال کو اپنانا اور سود، چوری، دھوکہ فریب، ذخیرہ اندوزی ، دوسروں کا ناحق مال سے بچنا۔

3۔ رزق حلال کمانا ایک فریضہ ہے جسے اللہ تعالى نے تمام انسانوں پر لازم کیا ہے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالى نے بحر وبر کی تمام چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے۔

4۔معاشرے کے تمام افراد میں مال ودولت کی برابر برابر تقسیم اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ مدد اور تعاون کرنا۔

5۔مال کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رزق حلال حصہ لینا۔

6۔ مقررہ ریٹ کی پابندی کرنا۔

7۔ سچائی سے کام لینا اور جھوٹ سے بچنا۔

8۔ اپنی چیز بیچنے کیلئے قسم وغیرہ سے اجتناب کرنا۔

9۔ہر کام کو صحیح طریقے سے انجام دینا۔

10۔ امانتوں کی حفاظت کرنا اور ملاوٹ دھوکہ دہی سے بچنا۔

11۔صدقہ سے مال کو پاک کرتے رہنا۔

12۔ خرید وفروخت کے اصول وضوابط۔

13۔ذخیرہ اندوزی سے بچنا۔

14۔مشکوک چیزوں سے بچنا۔

15۔رزق میں اللہ تعالی پر توکل۔

16۔صبح صبح رزق کیلئے اٹھ کھڑے ہونا۔

17۔ مملکت چلانے کیلئے زکاۃ، عشر، خمس، خراج، فدیہ اور جزیہ وغیرہ کا نظام۔

18۔سخاوت کی ترغیب اور بخل سے بچنے کا حکم۔

ب: زراعت کے بارے میں دین اسلامی کے اہم اصول وضوابط

پیداوار کو بڑھانا، زراعی زمین کی توسیع، پانی کے نالوں کی صفائی ستھرائی، زراعت کیلئے پانی کا اہتمام، اور زراعت کیلئے قوانین وضوابط بنانا، مثلاً آپ ﷺنے فرمایا: جس نے ایسی زمین کو آباد کیا جو کسی کی ملکیت میں نہیں وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ آباد کرنے کا مطلب ہے اس میں درخت لگانا، کیتھی باڑی کرنا، اس میں کنواں کھودنا، پانی کا نالا بنانا وغیرہ وغیرہ۔

ج: اسلام میں تجارت

آپ ﷺنے شروع میں زبیر بن عوام کی زمین میں مسلمانوں کیلئے ایک بازار قائم فرمایا جس پر یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف نے اعتراض کیا تو آپ ﷺنے اس بازار کو مدینہ کے قدیم بازار کے پاس لے جانے کا حکم دیا اور پھر فرمایا: یہ تمھارا بازار ہے نہ تو اس میں کوئی کسی کو تکلیف پہنچائے گا اور نہ ہی اس سے خراج( ٹیکس) لیا جائگا۔ مدینہ کا کھلا بازار تھا جہاں کوئی عمارات وغیرہ قائم نہیں تھی جہاں جو پہلے پہنچتا وہ جگہ اس کی ہوتی پھر وہاں خیمے نصب کیے گئے جس کا جو دل چاہتا اس کی خرید وفروخت کرتا۔

د: حرفت اور صناعت کو اہمیت دینا

مدینہ منورہ میں صنعت وحرفت کی وہی حالت تھی جو عرب کے باقی بازاروں میں تھی کہ ابھی تک اس فیلڈ میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی تھی زیادہ تر کپڑے کی سلائی اور بننے کا کام، رنگائی کا کام، سواری وغیرہ کا ضروری سازو سامان، اور گھر میں استعمال ہونے والی چیزیں، جنگی ساز وسامان اور اسلحہ وغیرہ کی صنعت کو خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ آپ ﷺنے جنگی ساز وسامان کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی جن میں سے منجیق، تیر، تلوار، کمان اور نیزہ وغیرہ ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالى پسند فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کام کرے تو اس پختگی سے کرے۔ حرفت وصناعت صرف مردوں تک محدود نہیں تھی بلکہ عورتیں بھی اس میں حصلہ لیا کرتی تھی جس میں کپڑے کی بنائی اور رنگائی کا کام ہے، آپ ﷺکیلئے وہ انگوٹھی بھی تیار کی گئی جسے بطور مہر استعمال فرماتے تھے اسی طرح ایک عورت نے مسجد نبوی کیلئے ایک ممبر بنا کر آپ ﷺکو پیش کیا۔

ھ: مال مویشی کی دولت

ہجرت کے بعد مال ومویشی کے میدان میں بھی بہت ترقی ہوئی جن میں سے گھوڑے، خچر، اور اونٹ وغیرہ سر فہرست تھے، گھوڑوں کی دیکھ بھال کی طرف خصوصی توجہ دی گئی کیونکہ یہ جنگوں میں استعمال ہونے والا سب سے اہم حیوان ہے۔

و: ملکیت عامہ کا خیال کرنا

کئی چیزیں ایسی ہیں جنہیں عام لوگوں کی ملکیت قرار دیا گیا کہ آپ ﷺنے فرمایا: لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہ اور آگ۔ اسی طرح آپ ﷺنے زکاۃ وصدقات کے اصول ضوابط بیان فرمائے جوکہ لوگوں میں تعاون اور تکافل کا اہم ذریعہ ہے، اور پھر مال کی ذخیرہ اندوزی اور اسے روکے رکھنا اور لوگوں کی مجبوریوں سے غلط فائدہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔

خامساً: انتظامی، امن عامہ اور دعوت وتبلیغ کے اصول

انتظامی اور امن وعامہ کی زیادہ تر تفصیل میثاق مدینہ سے عیاں ہے کہ آپ صلى الله تعالى عليه وسلم داخلی خارجی امن وسلامتی اور جنگی حالات میں تمام حالات میں مرجع ہوںگے، آپ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوگا، آپ بیک وقت قوت مقننہ بھی تھے اور قاضی بھی اور نفاذ کی طاقت بھی آپ ہی کے پاس تھی، اسلامی ریاست کے ادارتی اصولوں میں سے اہم یہ ہیں:

1۔ اللہ اور اس کے رسول کی طاعت۔

2۔مجلس شوری کا انعقاد۔

3۔اسلام کے مقدسات اور دین کو بچانے کیلئے مال ومتاع اور نفس کو قربان کرنا۔

4۔اسلامی معاشرہ کی فلاح وبہبود کیلئے سنجیدہ کوشش کرنا۔

5۔اسلامی ریاست کی تعمیر وترقی کیلئے عورتوں کو شریک کرنا۔

6۔انسانی حقوق کی پاسداری کرنا اور انہیں ہر ممنکہ سہولت پہچانا اور انکی خدمت کیلئے کوشاں رہنا۔

7۔اعتقاد کی آزادی کیونکہ اللہ تعالى فرماتا ہے:لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [ بقرة: 2/256] ۔

خلاصہ وتجاویز

قوم معاشرہ سے تشکیل پاتی ہے اور معاشرہ افراد ، خاندانوں اور قبیلوں سے بنتا ہے اور پھر خاندانوں اور قبیلوں سے محلے اور شہروں کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور پھر انہی شہروں سے قوموں کا وجود سامنے آتا ہے، اسلام کسی خاص قوم اور فرد کا دین نہیں بلکے پوری بشریت کا دین ہے، ہر فرد اور ہر معاشرے کو ایک ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ قدوہ حسنہ سمجھ کر اس کی اتباع کر سکے تو آپ ﷺ پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ تھے، رشد وہدایت کا یہ سلسلہ قباء میں قیام سے لیکر دنیا سے تشریف لے جانے تک جاری رہا، آپ ﷺنے مدینہ منورہ پہنچتے ہی ایک دینی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی، جس میں معاشرہ کے فرد اور جماعت کی بھلائی کیلئے یکساں طور عملی اقدامات کیے گئے، تعلیم اور صحت کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے گئے، صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی گئی، مدینہ منورہ کے مستقبل کی پلاننک کو اسلامی معاشرہ کے اخلاقی اقدار سے مربوط کیا، اقتصادی معاملات کیلئے جدید اصول وضع کیے گئے، اسلامی ریاست کے دفاع کیلئے خصوصی طور پر منصوبہ بندی کی گئی، آپ ﷺ بیک وقت مقنن بھی تھے اور قاضی بھی اور نفاذ کی طاقت بھی آپ ہی کے پاس تھی، اسلامی ریاست کے ادارتی خارجی اور داخلی اصول وضوابط میثاق مدینہ سے واضح ہوتے ہیں جوکہ سب سے پہلا عالمی تحریری معاہدہ ہے ۔

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی آپ ﷺکے وضع کردہ اصولوں کے بغیر نا ممکن ہے، جب تک مسلمان حکمران اِن پر عمل پیرا رہے پورے عالم پر حکمرانی کی، جب ان اصول وضوابط سے منہ موڑا پسماندگی اور رسوائی کا سامنہ کرنا پڑا، یہ ایسے اصول ہیں جو رہتی دنیا کی تمام اقوام کی ترقی اور فلاح وبہبود کےلئے ضامن ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ احمد شلبی، پروفیسرڈاکٹر ، مقارنة الأديان،جامعہ قاہرہ، مصر، مکتبہ نہضہ مصریہ، شارع عدلی، قاہرہ، مصر طبعہ 10، 1998 ء: 2/ 33 اور اس کے بعد۔
  2. ۔ طبری،ابو جعفر،احمد بن جریر ،( ت 310 ہ)،تاریخ الرسل والملوک(تاریخ طبری)، دار التراث، بیروت، ط 2، 1387 ه، مسيرة خالد إلى العراق وصلح الحيرة: 3/ 348
  3. ۔ اندلسی، عبد الله بن عبد العزيز البكري (ت 487 هـ)،المسالك والممالك،دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1992 م: 1/ 338؛ اضمحلال العصور الوسطى: يوهان هويزنجا،،مترجم: عبد العزيز توفيق جاويد، مركز القومي للترجمة، القاهرة، ط 2015، ص 175
  4. ۔ بسام العسلي ،مشاهير قادة الإسلام، دار النفائس، بیروت،1985 ء، عمرو بن العاص،ص39
  5. ۔ The land of the Lingam: Miles, Arthur, 3rd imp, London: H. and Blackett, 1933, p.7
  6. ۔ سورۃ الروم: 30/2
  7. ۔سورۃ الروم: 30/3
  8. ۔ قمص یوحنا سلامہ ،لألی النفیسہ فی شرح طقوس الکنیسہ، مکتبہ مار جرجس، شبرا، قاھرہ، مصر، ط 3: 2/446 اور اس کے بعد،
  9. ۔ شرف المصطفى: عبد الملك بن محمد بن إبراهيم أبو سعد النيسابوري الخركوشي(ت 407هـ) دار البشائر الإسلامية، مكة، 1424 هـ، باب ذكر مقدم النّبي صلى الله عليه وسلم قباء وبناء المسجد، حديث نمبر(567): 2/369
  10. ۔ محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة أبو عبد الله البخاري(256 هـ)،صحيح البخاري، دار طوق النجاة، بيروت، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ، بَابُ حَدِيثِ الغَارِ، حديث نمبر (3475): 4/ 175
  11. ۔ زہری،محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله البصري (230 هـ)،الطبقات الكبرى،دار صادر، بيروت، ط1، 1968 م،تحقيق: إحسان عباس. ذكر خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر إلى المدينة للهجرة: 1/237
  12. ۔ حمیری، عبد الملك بن هشام بن أيوب (ت 213هـ)،السيرة النبوية لابن هشام: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، ط 2، 1375هـ/1955 م تحقيق: مصطفى السقا وإبراهيم الأبياري وعبد الحفيظ الشلبي: 1/480
  13. ۔ سمہودی، علي بن عبد الله بن أحمد الحسنی (ت 911هـ)،وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى: دار الكتب العلمية، بيروت، ط 1، 1419 ه، الفصل الحادي عشر في قدومه صلّى الله عليه وسلّم باطن المدينة: 1/206
  14. ۔ وفاء الوفاء، الفصل الحادي عشر في قدومه صلّى الله عليه وسلّم باطن المدينة: 1/206
  15. ۔ وفاء الوفاء، الفصل الحادي عشر في قدومه صلّى الله عليه وسلّم باطن المدينة: 1/206
  16. ۔ شیبانی، أحمد بن محمد بن حنبل (241هـ)،مسند الإمام أحمد: مؤسسة الرسالة، بيروت، ط 2، 1420هـ/1999م. حديث نمبر(20888): 34/453
  17. ۔ مسلم،أبو الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري(261هـ)انظر: صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي، بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. كتاب الأشربة، باب إباحة أكل الثوم، حديث نمبر(2053): 3/1623؛ المعجم الكبير: سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني(360 هـ) مكتبة العلوم والحكم، الموصل، العراق، ط2، 1404هـ/1983م، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، حديث نمبر(3855): 4/119
  18. ۔ السيرة النبوية لابن هشام، المؤاخاة بين المهاجرين والأنصار: 1/505
  19. ۔ صحيح البخاري، ط 1، 1422 هـ، كتاب البيوع، باب ما جاء في قول الله تعالى: {فإذا قضيت الصلاة فانتشروا، حديث نمبر(2048): 3/52
  20. ۔ السيرة النبوية لابن هشام، المؤاخاة بين المهاجرين والأنصار: 1/505
  21. ۔ السيرة النبوية لابن هشام، المؤاخاة بين المهاجرين والأنصار: 1/505
  22. ۔ صحيح البخاري، باب المرأة الثائرة الرأس، حديث نمبر(7040): 9/42
  23. ۔ صحيح مسلم، كتاب الحج، باب الترغيب في سكن المدينة والصبر على لأوائها، حديث نمبر(1376): 2/1003
  24. ۔ عمر بن شبة أبو زيد النميري البصري(ت 262هـ)،تاريخ المدينة لابن شبة،طبع على نفقة: السيد حبيب محمود أحمد، جدة، 1399 هـ، حققه: فهيم محمد شلتوت، بطحان، حديث نمبر(168): 1/167
  25. ۔ عبد الكريم بن محمد أبو القاسم الرافعي القزويني(ت 623هـ)،التدوين في أخبار قزوين:،دار الكتب العلمية، بيروت، 1408هـ/1987م، المحقق: عزيز الله العطاردي، : 1/176
  26. ۔ ترمذی، محمد بن عيسى (ت 279هـ)،سنن الترمذي،دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1998 م، المحقق: بشار عواد معروف، باب ما جاء في النظافة، حديث نمبر(2799): 4/409
  27. ۔ صحيح البخاري، باب من تصدق إلى وكيله ثم رد الوكيل إليه، كتاب الوصايا، حديث نمبر(2758): 4/8
  28. ۔ أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي(458 هـ)،سنن البيهقي الكبرى،مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدر آباد، الهند، ط 1، 1344 هـ، باب جواز الرعي في الحرم، حديث نمبر(9982): 5/329
  29. ۔ صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب إثم من لا يأمن جاره بوايقه، حديث نمبر(6016): 8/10
  30. ۔ صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، حديث نمبر(10): 1/11
  31. ۔صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب المعاصي من أمر الجاهلية، ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك،حديث نمبر(30): 1/15
  32. ۔ صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب الوصية بالجار والإحسان إليه، حديث(2624): 4/2025
  33. ۔ صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، حديث نمبر(6018): 8/11
  34. ۔ صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون، وأن محبة المؤمنين من الإيمان، وأن إفشاء السلام سبب لحصولها، حديث نمبر(54): 1/74
  35. ۔ بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث: أبو محمد الحارث بن محمد البغدادي (ت 282هـ)المنتقي: أبو الحسن نور الدين الهيثمي (ت 807 هـ) مركز خدمة السنة والسيرة النبوية، المدينة المنورة، ط1، 1413 - 1992 المحقق: د. حسين أحمد صالح الباكري، كتاب البعث، باب كيف البعث، حديث نمبر(1124): 2/1004
  36. ۔ہیثمی، نور الدين علي بن أبي بكر ( 807 هـ)، ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد نقلاً عن المعجم الكبير للطبراني. مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: دار الفكر، بيروت، 1412 هـ/1992م، باب في تعليم من لا يعلم، حديث نمبر(747): 1/164
  37. ۔ صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب كتابة الإمام الناس، حديث نمبر(3060): 4/72
  38. ۔ فوائد أبي محمد الفاكهي: عبد الله بن محمد بن العباس الفاكهي المكي(ت 353هـ) مكتبة الرشد، الرياض، السعودية، شركة الرياض للنشر والتوزيع، ط 1، 1419 هـ/1998 م، دراسة وتحقيق: محمد بن عبد الله بن عايض الغباني، حديث نمبر(78) ص 237
  39. ۔ أبو بكر بن أبي شيبة العبسي (ت 235هـ)،مسند ابن أبي شيبة: دار الوطن، الرياض، ط 1، 1997م، المحقق: عادل بن يوسف العزازي و أحمد بن فريد المزيدي، حديث نمبر(138): 1/110
  40. ۔أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي أبو بكر البيهقي(458 هـ)، شعب الإيمان، مكتبة الرشد، الرياض، السعودية، تحقيق: الدكتور عبد العلي عبد الحميد حامد، ط 1، 1423 هـ/2003 م، باب في طلب العلم، حديث نمبر(1546): 3/195
  41. ۔ محمد بن عبد الله بن حمدويه بن نعيم النيسابوري الشهير بالحاكم النيسابوري(405 هـ)،المستدرك على الصحيحين،دار الكتب العلمية، بيروت، ط1، 1411هـ/1990م، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ذكر الشفاء بنت عبد الله القرشية رضي الله عنها، حديث نمبر(6888): 4/63
  42. ۔صحيح البخاري، كتاب العلم، باب هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم؟ حديث نمبر(101): 1/32
  43. ۔ صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، حديث نمبر(2699): 4/2074
  44. ۔ أحمد بن علي بن محمد الجعفري(ت ق 4 هـ)،جزء ابن عمشليق،دار ابن حزم، بيروت، لبنان، ط 1، 1416 هـ/1996 م، المحقق: خالد بن محمد بن علي الأنصاري، حديث نمبر(14): ص 44
  45. ۔ سنن الترمذي، أبواب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، حديث نمبر(2682): 4/345
  46. ۔ أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر القضاعي (ت 454هـ)،مسند الشهاب: مؤسسة الرسالة، بيروت، ط 2، 1407 هـ/1986 م، العلماء أمناء الله على خلقه، حديث نمبر(115): 1/100
  47. ۔ سنن ابن ماجه: أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني ابن ماجه(275 هـ) دار الفكر، بيروت، لبنان، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، حديث نمبر(229): 1/155
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...