Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

فیملی بزنس میں زکوۃ کے مسائل اور ان کا حل |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_1016

Pages

328-341

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/144

Subjects

Corporate Social Responsibility Islam Zakat Family Business

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

الف - اسلام اور سی۔ ایس۔ آر

دنیا بھر میں کمپنیوں میں کارپوریٹ سوشل رسپانسیبلٹی(Corporate social responsibility)کا

ایک مضبوط تصور اور شعور پایا جاتا ہے۔ اس کو آسان الفاظ میں کسی کاروباری کمپنی کی اپنے ذمہ سماج کے حقوق کی بجاآوری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔

سی۔ ایس۔ آر کی تعریف

کارپوریٹ سوشل رسپانسیبلٹی کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

“Corporate Social Responsibility is about companies having responsibilities and taking actions beyond their legal obligations and economic/business aims. These wider responsibilities cover a range of areas but are frequently summed up as social and environmental - where social means Sociology & Humanity society broadly defined, rather than simply social policy issues. This can be summed up as the triple bottom line approach: i.e. economic, social and environmental.’’ ([1])

کارپوریٹ سوشل رسپا نسی بلٹی سے مراد کمپنیز کی وہ ذمے داریاں اور افعال ہیں، جو وہ کسی قانون یا کاروباری مقصد سے بالاتر ہو کر سرانجام دیتی ہیں۔ ان ذمے داریوں کا تعلق یوں تو بہت ساری چیزوں سے ہو سکتا ہے، مگر یہاں سماج اور ماحول خاص طور پر مراد ہے۔ سماجی سے مراد معاشرتی اور انسانی ذمے داریا ں ہیں۔ سوسائٹی کا مفہوم بھی وسیع ہے،یہاں سماج کے حکمت عملی سے متعلقہ مسائل مراد نہیں۔ اس ساری تعریف کا خلاصہ ٹرپل بوٹم لائن اپروچ میں نکالا جا سکتا ہے، یعنی اس سے کسی بھی کمپنی کی معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی تین ذمے داریاں مراد ہیں۔

اسی طرح انویسٹوپیڈیا ڈکشنری میں C.S.R کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

Corporate social responsibility (CSR) is a self-regulating business model that helps a company be socially accountable — to itself, its stakeholders, and the public. ([2])

” کارپوریٹ سوشل رسپانسیبلٹی سے مراد ایک ایسا بزنس ماڈل جس میں کسی چیز کا خود کو ذمے دار سمجھا جاتا ہے، جس کی مدد سے کمپنی سماجی طور اپنی ذات کی، اپنے اسٹیک ہولڈرز کی اور عوام الناس کی ذمے دار ٹھہرتی ہے۔“

خلاصہ یہ ہوا کہ کسی بھی کاروباری کمپنی کا سماجی مسائل سے لاتعلق نہ رہنا، بلکہ معاشرے کو own کرتے ہوئے اس کے حقوق کی ادائیگی اس کے اخلاقی فرائض میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کاروباری ادارہ معاشرے کے ذریعے آمدن کما رہا ہوتا ہے، وہ اپنے کاروباری مقاصد کے لیے معاشرے کو کئی طرح سے استعمال کرتا ہے تو اب یہ اس کا اہم فریضہ ہے کہ وہ معاشرے کو اس کے حقوق ادا کرے۔ وہ اپنی آمدن کا ایک مناسب حصہ معاشرتی سرگرمیوں پر لگائے۔ معاشرے کے نادار طبقے پر خرچ کرے۔

چند عالمی مثالیں

اس حوالے سے شعور دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ بل گیٹس اور وارن بفے دو معروف و امیرترین بزنس مین ہیں۔ انھوں نے ۲۰۱۰ء میں اپنی جائیداد کا ایک معقول حصہ وقف کر کے دی گونگ پلیج (The giving pledge) کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی اور دنیا بھر کے ارب پتیوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دی کہ وہ اپنی نصف دولت یا اپنے سرمائے کا ایک بڑا حصہ وقف کر دیں۔ یہ دولت وہ اپنی حیات میں بھی وقف کر سکتے ہیں اور وفات کے بعد اس کی وصیت بھی کر سکتے ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ تحریک کا مقصد بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کے انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔

۲۰۱۰ءمیں اس کے آغاز کے ساتھ چالیس ارب پتیوں نے اپنی نصف سے زائد دولت وقف کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی وقف کردہ مجموعی دولت ۱۲۵ بلین ڈالر تھی۔ آج دنیا کے ۲۲ ممالک سے ۱۷۴افراد اس کے ممبر ہیں، جو دنیا کے مالدار ترین افراد شمار کیے جاتے ہیں۔ ان افراد نے گزشتہ آٹھ سالوں میں ۶۶.۷۳۵ بلین ڈالرز وقف کر دیے ہیں۔ اس ادارے کو ”بل گیٹس“ اور ان کی اہلیہ نے ۳.۷۷ بلین ڈالر وقف کیے ہیں۔ ”وارن بفے“ نے ۷.۶۶ بلین ڈالر وقف کیے۔ فیس بک کے مارک زکربرگ اور ان کی اہلیہ نے 35.7 بلین ڈالر وقف کیے ہیں۔([3])

ایک فیملی بزنس بھی سی ایس آر جیسے نہایت ضروری اخلاقی عمل سے قطعی خالی نہیں رہ سکتا۔ ہماری تحقیق کا تعلق چونکہ فیملی بزنس سے ہے، اس لیے آگے بڑھتے ہوئے فیملی بزنس کی تعریف جاننا ضروری ہے۔

فیملی بزنس کی تعریف

فیملی بزنس کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

”فیملی بزنس ایسا کاروبارہے جو پروپرائٹر شپ ، پارٹنرشپ، کمپنی یا کسی بھی اجتماعی صورت میں پایا جائے اور اس میں ملکیت و انتظام کے کل یا زیادہ تر حقوق و اختیارات ایک ہی خاندان کے افراد کے پاس ہوں، نیز یہ کاروبار کئی نسلوں تک چلتا رہے۔“([4])

ایک مسلمان فیملی بزنس کو سی۔ایس۔آر کی سرگرمیوں کو بطور خاص اس وجہ سے اپنی پالیسی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے کہ اسلام میں اس کی بے حد تاکید آئی ہے، نیزاسلام میں انفاق فی سبیل اللہ کا تصور سی۔ ایس۔ آر کے تصور سے کہیں بہتر اور اعلی تر ہے۔ اللہ تعالی نےاہل ثروت اور ذی استطاعت لوگوں کو معاشرے پر خرچ کرنے سے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ ([5])

’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمھیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے خرچ کیا اُن کے لیے بہت بڑا اَجر ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ. ([6])

’’اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔‘‘

تیسری جگہ باری تعالی فرماتے ہیں:

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۔ ([7])

’’کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمھارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘

ان آیات مبارکہ سے یہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالی اہل ایمان کو معاشرے میں موجود اپنے ہم جنسوں پر خرچ کرنے کی بے حد ترغیب دے رہے ہیں۔ پہلی آیت مبارکہ میں اللہ و رسول پر ایمان لانے کے فوراً بعد تیسرے اہم ترین حکم کے طور پر انفاق فی سبیل اللہ کو ذکر کیا گیا ہے، نیز فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑا اجر ہے، یعنی آخرت میں ملنے والا یہ اجر حد و حساب سے بالاتر ہے۔ دوسری آیت مبارکہ میں دنیا کی تمام چیزوں کو اللہ تعالی کی میراث اور ملکیت فرمایا ، جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ امانتاً ہے، حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی ملکیت ہے، لہذا اسے خرچ بھی اسی کی منشاو مرضی کے مطابق کرنا ہوگا۔ اور اللہ جو کہ مال و دولت کا اصل مالک ہے، اس کی منشا یہ ہے کہ اسے اس کے ضرورت مند بندوں پر خرچ کیا جائے۔

تیسری آیت مبارکہ میں معاشرے پر خرچ کرنے کا نہایت ہی انوکھا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ فرمایا گیا کہ کیا تم اللہ تعالی کو قرض دینے کے لیے تیار ہو؟ یعنی اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے پر تمھیں کوئی اندیشہ نہیں کرنا چاہیے، اللہ تمھیں اس کا بدلہ بڑھا چڑھا کر دیں گے۔ غرض، مخلوق خدا اور معاشرے پر خرچ کرنے کی ترغیب جس قدر اسلام اور احکام اسلام میں ہے، اتنی کہیں اور نہیں ملتی۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا جسے آج ” کارپوریٹ سوشل رسپانسی بلٹی“ کے خوبصورت لبادے میں ایک تصور کے طور پر پیش کر رہی ہے، دین اسلام میں اسے ایمان کے بعد ایک بہت بڑے حکم کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔

اسی طرح ذخیرہ احادیث میں غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اسلام سراپا خیرخواہی اور انسانیت کی خیر خواہی کی تلقین کرتا ہے، چنانچہ اسلام کے نزدیک اصل دین داری ہے ہی دوسروں کی خیرخواہی کا نام۔

احادیث مبارکہ

ایک حدیث پاک کے الفاظ ہیں:

عن تميم الدَّارىِّ، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: "إن الدِّينَ النَّصيحةُ، إن الدينَ النَّصيحة، إنَّ الدِّين النصيحة"، قالوا: لِمَنْ يا رسولَ الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:"لله وكتابِه ورسوله وأئمةِ المؤمنينَ وعامَّتهم، أو أئمة المسلمينَ وعامَّتهم۔"([8])

” حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: بے شک دین خیرخواہی کا نام ہے، بے شک دین خیرخواہی کا نام ہے، بے شک دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت فرمایا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کس کے لیے ؟ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنین کے سربراہوں کے لیے اور عامۃ الناس کے لیے۔“

دوسری حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو سب سے بہتر قرار دیا ہے، جو انسانیت کی نفع مندی کے کام کرے۔ حدیث پاک کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ ([9])

”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نافع ثابت ہو۔“

ان احادیث مبارکہ میں پیغمبر اسلام نے ایک مومن کی جس قسم کی خصوصیات بتائی ہیں، ان میں دوسروں کی نفع رسانی، خیرخواہی اور معاشرہ پروری ہی نظر آتی ہے۔ اس لیے یہ بات کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اسلام سی۔ ایس۔ آر کا سب سے بڑا داعی ، اس کے مقاصد کو اعلی تر درجے میں پورا کرتا اور انسانیت کا سب سے بڑا بہی خواہ ہے۔

حکم زکوۃ، سی۔ ایس۔ آر کا سب سے بڑا مظہر

اس کے بعد زکوۃ کے حکم کو لیجیے تو پتا چلے کہ معاشرے پر خرچ صرف ایک ترغیبی عمل ہی نہیں، بلکہ خرچ کرنے کی ایک حد ایسی ہے جو واجب صدقہ کے طور پر صاحب استطاعت لوگوں پر عائد کی گئی ہے۔ساڑھے باون تولہ چاندی، ساڑھے سات تولہ سونا، مال تجارت اور مکانوں کے تجارتی کاروبار پر اگر ایک سال پورا گزر جائے تو اس مال میں سے چالیسواں حصہ نکال کر خدا کی راہ میں دنیا میں زکوۃ کہلاتا ہے۔([10])

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ۔ ([11])

”اور میری رحمت ہر شے پر حاوی ہے، تو میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ لوں گا جو خدا سے ڈرتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور جوہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔“

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زٰکٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّهِ فَاُولِٰئکَ همُ الْمُضْعِفُوْنَ ([12])

”اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دگنا کرنے والے ہیں۔“

ب-فیملی بزنس اور زکوۃ کے مسائل

ہم اس تحقیقی مضمون کے اس دوسرے حصے میں درج بالا حکم یعنی زکوۃ جو کہ سی۔ ایس۔ آر کی ایک بے نظیر مثال ہے، کی تفصیل فیملی بزنس کے حوالے سے ذکر کرنا چاہیں گے۔یہ تفصیل چند ایسے مسائل و شرعی احکام کی صورت میں ذکر کی جائے گی، جو چند حقیقی فیملی بزنسز کے درپیش ہوئے اور ان کا شرعی حل پیش کیا گیا۔ ان مسائل کی روشنی میں کسی بھی فیملی بزنس کو زکوۃ سے متعلق تمام اہم مسائل سے آگاہی حاصل ہو جائے گی۔

۱۔زکو ة کا وجوب

ABفیملی بزنس میں زکوة پورے کاروبار کے حساب سے نکالی جاتی ہے، کیا یہ درست ہے یا پھر شرکا اپنے حصے کی زکوة خود نکالیں؟

شرعی حکم

اگر شرکا نے اپنے حصے کی زکوة کی ادائیگی کا کسی ایک کو وکیل بنایا ہے اور وہ ان کی اجازت سے ایسا کررہے ہیں تب تو ان کی طرف سے زکوة ادا ہوجائے گی لیکن اس طرح ان کے صرف حصہ کاروبار کی زکوة ادا ہوگی لہٰذا اس کے علاوہ ہر ایک کی ذاتی ملکیت میں جو مال ہے مثلا سونا، چاندی، نقد رقم یاکوئی اور مال تجارت وغیرہ اس کی زکوة کی ادائیگی ہر شریک پر اپنی ذمے داری ہوگی۔

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

فلا تتادی (الزکوة) الا به او بنائبه تحقیقاً لمعنی العبادة، لان العبادة شرعت لمعنی الابتلاءلیتبین الطائع من العاصی، وذلک لایتحقق بغیر رضا وقصده، ولانه مامور بالایتاءولا یتحقق من غیره الا ان یکون نائباً عنه لقیامه مقامه([13])

”زکوة ادا نہیں ہوتی سوائے اس کے خود ادا کرنے یا اپنے نائب کے ذریعے ادا کروانے سے، یہ اس لیے تاکہ عبادت کا معنی متحقق ہو سکے، وجہ یہ ہے کہ عبادت آزمائش کے لیے مقرر کی جاتی ہے، تاکہ فرماں بردار اور نافرمان کا فرق واضح ہو سکے۔ اور یہ معنی بغیر دلی رضا اور ذاتی ارادے کے متحقق نہیں ہو سکتا۔ اس شخص کو دینے کا حکم دیا گیا ہے، دینے کا عمل خود یا اپنے نائب کے ذریعے ہی متحقق ہو سکتا ہے۔“

۲۔مشترکہ تجارت میں زکوة کا مسئلہ

مشترک تجار ت میں حولان حول)ایک سال کی تکمیل (کے بعد زکوة مشترک واجب ہوگی یا انفراداً؟ یعنی کل شرکاءمل کر زکوة کا روپیہ نکالیں؟

شرعی حکم

مشترکہ تجارت پر زکوة واجب نہیں ہو گی، بلکہ فرداً فرداً ہر ہر شریک کے ذاتی حصے پر واجب ہو گی۔ اس طرح کہ ہر شخص انفرادی طور پر اپنے روپے ومال جو حولان حول کے بعد اس کے حصے میں آئے، اس کی زکوة ادا کرے گا۔

صاحب رد المحتار فرماتے ہیں:

لو ادی زکوة غیره بغیر امره فبلغه فاجاز لم یجز لانها وجدت نفاذاً علی المتصدق لانها ملکه ولم یصرنائباً عن غیره فنفذت علیه۔ ([14])

”اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کی زکوة اس کی اجازت کے بغیر ادا کر دی، پھر جب اس کو خبر ملی تو اس نے اس کی اجازت دے دی تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اس صدقے کا نفاذ اصل صدقہ کرنے والے کی جانب سے پایا گیا ہے، وجہ یہ ہے یہ مال اسی کی ملکیت تھا اور وہ کسی دوسرے کا نائب بھی نہیں تھا، لہذا اسی کے ذمے میں نافذ ہو گئی۔“

۳۔زکوة اندازے سے نکالنا

زکوة کا حساب کرنے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے، بلکہ موجودہ اسٹاک کا اندازہ کرتے ہیں اور جو ادائیگیاں کرنا ہیں، ان کو منفی کر لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ تھوڑی ہی نکالیں۔

شرعی حکم

زکوة سرسری انداز سے نہیں بلکہ کمپنی کے درج ذیل اثاثوں کا حساب لگا کر ادا کریں:* کمپنی کے اپنے پاس موجود رقم

  • بینک بیلنس میں موجود بیلنس
  • تیار شدہ پروڈکٹ جو بیچنے کے لیے رکھی ہوئی ہے اس کی قیمت فروخت
  • پروڈکٹ بنانے کے لیے خریدا ہوا خام مال
  • حکومت کے ذمہ واجب الاداءرقم ،مثلاً: آپ گارنٹی کی مدت کے لیے کچھ سیکیورٹی رکھواتے ہیں
  • کمپنی کے لوگوں پر واجب الادا قرضہ جات
  • مختلف جگہوں پر دی گئی ایڈوانس رقم
  • قطعی طور پر آگے بیچنے کی نیت سے خریدا ہوا کوئی بھی مال

کمپنی کے مندرجہ بالاتمام اثاثوں کا حساب لگا کر اس سے وہ دیون منہا کریں جو کمپنی کے ذمے واجب الادا ءہیں پھر مابقی کی زکوة ادا کریں۔ اور مقررہ مقدارزکوة سے کچھ زیادہ دینا بہتر ہے۔علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اعلم ان الدیون عند الامام ثلاثة: قوی، متوسط، وضعیف، (فتجب) زکاتها اذا اتم نصاباً وحال الحول، لکن لافورا بل (عند قبض اربعین درهماً من الدین) القوی کقرض (وبدل مال التجارة) ([15])

”جان لیجیے کہ بے شک امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں دیون تین طرح کے ہیں: قوی، متوسط اور ضعیف۔پس زکوة اس وقت واجب ہو گی جب نصاب مکمل ہو جائے اور ایک سال بھی گزر جائے، تاہم فوراً نہیں، بلکہ تب جب چالیس دراہم اس کے قبضے میں ہوں۔ دین قوی کی مثال قرض اور مال تجارت کا بدل ہے۔“

۴۔فیملی بزنس کمپنی کے لیے زکوۃ نکالنے کا طریقہ

کمپنی ABایک فیملی بزنس ہے۔ وہ میڈیکل اور سرجری کے آلات، مثلاً: ہڈی جوڑنے کا راڈ، پلیٹ وغیرہ کی خریدو فروخت کا کام کرتی ہے۔ کمپنی ABکی طرف سے زکوة کا حساب کرتے وقت درج ذیل چیزوں کا حساب کیا جاتا ہے:* نقدی (Cash)

  • مال تجارت (Stock)
  • ABکے پیسے جو کسی پر واجب الادا (Receivables)ہوں۔

ان تینوں کو شامل کر کے زکوة کا حساب کیا جاتا ہے۔* کمپنی کے ذمے واجب الادا دیون (Payables) کو مذکورہ بالا تین چیزوں کے مجموعے سے منہا کیا جاتا ہے۔ ABکی طرف سے زکوة کا حساب کرتے وقت اسٹاک کی قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن چونکہ قیمتِ فروخت بھی گاہک کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے، مثلاً: ABسرکاری ہسپتال میں سستی قیمت میں اشیا فروخت کرتی ہے، جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو مہنگی اور مریضوں کو متوسط قیمت پر فروخت کرتی ہے، تو ان تینوں قیمتوںمیں بعض اوقات کافی فرق آ جاتا ہے۔

اس لیے ABتذبذب کا شکار ہے کہ کون سی قیمت فروخت کے حساب سے زکوة نکالی جائے۔ بعض دفعہ مریض کے حساب سے قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جاتا ہے، جبکہ بعض اوقات سرکاری ہسپتالوں کے حساب سے قیمتِ فروخت کا اعتبار کر کے زکوة کا حساب کیا جاتا ہے۔

البتہ قیمتِ فروخت کے اعتبار سے حساب مکمل کرنے کے بعد کچھ اضافی رقم بھی احتیاطاً شامل کر کے زکوة ادا کی جاتی ہے۔ زکوة کا حساب کرنے کا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعاً کیسا ہے؟

طریقہ و شرعی حکم

مذکورہ صورت میں اگر ان تینوں قیمتوں میں سے کسی ایک قیمت پر ABزیادہ تر اشیافروخت کرتی ہے توا سٹاک کی قیمت فروخت میں اسی کا اعتبار کر کے زکوة ادا کی جائے، لیکن اگر تینوں میں سے کسی ایک قیمت پر زیادہ تر اشیاءفروخت نہیں کی جاتیں بلکہ عام طور سے تینوں قیمتوں پر اشیاءفروخت کی جاتی ہیں تو اس صورت میں اوسط قیمت فروخت نکال لی جائے اور سٹاک کی قیمت فروخت میں اسی کا اعتبار کر کے زکوة ادا کردی جائے۔اس حوالے سے دکتور وھبة زحیلی فرماتے ہیں:

یقوم التاجر العروض او البضاع التحاریة فی کل عام بحسب سعرها فی وقت اخراج الزکاة لا بحسب سعر شرائها، و یخرج الزکاة المطلوبة وتضم السلع التجاریة بعضها الی بعض عند التقویم ولو اختلفت اجناسها کثیاب وجلود ومواد تموینیة۔ ([16])

”تاجر عمومی سامان اور سامان تجارت کی ہر سال قیمت لگائے گا، یہ قیمت زکوة نکالنے کے وقت چیز کی بازاری قیمت کے مطابق لگائی جائے گی نہ کہ قیمت خریدکے مطابق، اور مطلوبہ زکوة نکال دی جائے گی۔ سامان تجارت کی قیمت لگاتے وقت بعض چیزوں کو بعض کے ساتھ ملا دیا جائے گا، اگرچہ ان کی اجناس مختلف ہوں۔ جیسے کپڑے، چمڑے اور سپلائی کا سامان۔“

۵۔مختلف فنڈز میں رکھی ہوئی رقم زکوة سے منہا کرنا

ABفیملی بزنس کمپنی کی طرف سے زکوة کا حساب کرتے وقت مختلف فنڈز، مثلاً: سوشل سیکیورٹی، تکافل وغیرہ میں جو رقوم رکھی ہوئی ہیں، ان کو شامل نہیں کیا جاتا، جبکہ رواں مہینے ملازمین کو جو تنخواہیں دینی ہوں، وہ منہا نہیں کی جاتیں۔ اسی طرح یوٹیلیٹی بل بھی منہا نہیں کیے جاتے۔ کیا حکم ہے؟

شرعی حکم

زکوة کا حساب کرتے وقت سوشل سیکورٹی میں جمع کروائی ہوئی رقم کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ رقم AB کی ملکیت سے نکل گئی ہے اور تکافل میں تفصیل یہ ہے کہ صرف فیملی تکافل کے Participant Investment Fund میں موجود رقم، جسے کیش ویلیو کہتے ہیں، اس پر زکوة واجب ہے کیونکہ وہ تکافل پلا ن لینے والے کی ملکیت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تکافل کی دیگر اقسام میں جمع شدہ رقم کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ نیز زکوة کے حساب کے وقت ملازمین کی تنخواہیں اور یوٹیلٹی بلز وغیرہ جو واجب الادا ہوچکے ہوں انھیں نصاب سے منہا کیا جاسکتا ہے۔

دکتور وھبة زحیلی فرماتے ہیں:

قال الحنیفة: سبب الزکوة: ملک مقدار النصاب النامی ولو اتقدیراً بالقدرةعلی الاستمناءبشرط حولان الحول القمری لا الشمسی،وبشرط عدم الدین الذی له مطالب من جهة العباد وکونه زائداً عن حاجته الاصلیة۔([17])

”احناف فرماتے ہیں: زکوة کا سبب نصاب کی مقدار کا مالک ہونا ہے، اگرچہ یہ تقدیراً ہی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ایک قمری سال گزر جائے، شمسی کا اعتبار نہیں۔ اور دوسری شرط یہ کہ اس شخص پر کوئی ایسا قرض نہ ہو جس کا بندوں کی جانب سے مطالبہ موجود ہو، اور یہ کہ وہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ہو۔“

۶۔ فیملی بزنس اور شیئرز کی زکوة

کمپنی ABجو کہ ایک فیملی بزنس ہے، نے سیالکوٹ ایئرپورٹ کے شیئرز خریدے ہوئے ہیں اور زکوة ادا کرتے وقت ان شیئرز کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن چونکہ ابھی یہ نئی کمپنی ہے، اس لیے اس کی مارکیٹ اتنی نہیں ہے، ایسی صورت میں اس کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرنا مشکل ہے۔ اس وجہ سے ان شیئرز کی قیمتِ خرید پر زکوة ادا کی جاتی ہے، یعنی جتنی قیمت پر ABنے وہ شیئرز خریدتے ہیں، اسی قیمت پر ہی زکوة ادا کی جاتی ہے۔ کیا حکم ہے؟

شرعی حکم

واضح رہے کہ اصلاً تو شیئرز کی مارکیٹ ویلیو کا حساب لگا کر ہی زکوة ادا کی جائے ۔ البتہ اگر شیئرز کی مارکیٹ ویلیو مارکیٹ میں متعارف نہ ہونے کی وجہ سے معلوم کرنا مشکل ہو تو پھر جب تک ان کی مارکیٹ ویلیو معلوم نہ ہوسکتی ہو اس وقت تک قیمتِ خرید پر زکوة ادا کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔المعاییر الشرعیة میں مرقوم ہے:

یتم تقویم عروض التجارة بالقیمة السوقیة للبیع فی مکان وجودها حسب طریقة یبعها بالجملةو التجزئة، فان کان البیع بهما فالعبرة بالاغلب ولا تقویم بالتکلفةاو السوق ایهما اقل، لکن ان تعسر تقویمها تزکی بالتکلفة۔

البضاعة قید التصنیع : تزکی بقمتها السوقیة بحالتها یوم الوجوب، فان لم تعرف لها قیمة سوقیة تزکی تکلفتها۔([18])

سامانِ تجارت کی قیمت ان کے مقام اور ان کے بیچے جانے کے طریقے (یکمشت یا قسطوں پر، جیسے بھی بیچی جاتی ہو، اگر دونوں طریقوں سے بیچی جاتی ہو تو اکثر معاملات کا اعتبار ہو گا)کے اعتبار سے بازار کی قیمتِ فروخت لگائی جائے گی۔ ان اشیا کی قیمت کا تعین لاگت اور بازاری قیمت میں سے اقل[کم تر] کے اعتبار سے نہیں لگائی جائے گی۔ البتہ اگر قیمت کے دیگر طریقے استعمال کرنا مشکل ہو تب سامان کی قیمت لاگت کے لحاظ سے طے کی جا سکتی ہے۔

تیاری کے مرحلے میں سامان: اس کے زکوة واجب ہونے کے دن کی بازاری قیمت کے لحاظ سے زکوة دی جائے گی۔ اگر بازاری قیمت کا تعین کرنا مشکل ہو تو اس کی لاگت کے لحاظ سے زکوة دی جائے گی۔“

۷۔زکوةکی ادائیگی کے لیے کوئی سی تاریخ مقرر کر لینا

کمپنی ABکی طرف سے زکوة کا حساب کرنے کے لیے ۱۵رمضان کی تاریخ مقرر کی گئی ہے، ایک مرتبہ حساب لگا کر پھر وقتاً فوقتاً تھوڑی تھوڑی کر کے زکوة ادا کی جاتی ہے، اس حوالے سے شریعت کی رہنمائی کیا ہے؟

شرعی حکم

واضح رہے کہ جس قمری تاریخ میں کوئی شخص صاحب نصاب بنے، اسی قمری تاریخ کو آئندہ سال زکوة واجب ہوگی اور صاحب نصاب بننے کی تاریخ کسی دوسرے مہینے میں ہونے کے باوجود ۱۵رمضان کو زکوة کا حساب کرنے سے زکوة کی واجب شدہ مقدار میں کمی ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا صاحب نصاب بننے کی تاریخ پر زکوة کا حساب کرنا چاہیے خواہ وہ تاریخ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے قمری مہینہ میں ہو ۔ اگر صاحب نصاب بننے کی قمری تاریخ یاد نہ ہو تو غور وفکر کے بعدجس تاریخ کا غالب گمان ہو وہ آئندہ کے لیے متعین ہوجائے گی۔ اگر کسی تاریخ کا غالب گمان بھی نہ ہو تو پھر خود سے کوئی بھی تاریخ متعین کی جاسکتی ہے۔ البتہ اس صورت میں زکوة احتیاطاً کچھ زیادہ ادا کردی جائے۔ نیز زکوة کی واجب شدہ رقم اکٹھی یا تھوڑی تھوڑی کر کے بھی ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اگلے سال سے پہلے پہلے ساری ادا کردی جائے۔

دکتور وھبة زحیلی فرماتے ہیں:

قال الحنیفة: سبب الزکوة: ملک مقدار النصاب النامی ولو اتقدیراً بالقدرةعلی الاستنماءبشرط حولان الحول القمری لا الشمسی،وبشرط عدم الدین الذی له مطالب من جهة العباد وکونه زائداً عن حاجته الاصلیة۔([19])

”احناف فرماتے ہیں: زکوة کا سبب نصاب کی مقدار کا مالک ہونا ہے، اگرچہ یہ تقدیراً ہی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ایک قمری سال گزر جائے، شمسی کا اعتبار نہیں۔ اور دوسری شرط یہ کہ اس شخص پر کوئی ایسا قرض نہ ہو جس کا بندوں کی جانب سے مطالبہ موجود ہو، اور یہ کہ وہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ہو۔“

۸۔ نقد اور بینک اکاونٹ کے ذریعے زکوة ادا کرنا

کمپنی ABکی طرف سے زکوة کی ادائیگی نقد پیسوں کی صورت میں کی جاتی ہے، اور اگر جگہ دور ہو تو پھر بینک اکاونٹ کے ذریعے مفتی صاحب (جو کہ ABکی طرف سے زکوة کی رقم مدارس میں خرچ کرتے ہیں) کے اکاونٹ میں زکوة کی رقم جمع کرا دی جاتی ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟

شرعی حکم

مذکورہ صورت شرعاً درست ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے:

اذا وکل فی اداءالزکاة اجزاته النیة عند الدفع الی الوکیل فان لم ینو عند التوکیل ونوی عند دفع الوکیل جاز کذا فی الجوهرة النیرة۔([20])

”جب ایک شخص زکوة کی ادائیگی کے لیے کسی دوسرے کو وکیل بنائے تو وکیل کو ادا کرتے وقت نیت کر لینا کافی ہے، لیکن اگر اس نے وکیل بناتے وقت نیت نہ کی اور مال وکیل کو ادا کرتے وقت زکوة کی نیت کر لی تو یہ جائز ہو گا۔ الجوہرة النیرہ میں اسی طرح لکھا ہے۔“

۹۔ ڈائریکٹرز کے ڈیویڈنڈ اور اموال زکوة

غازی گلاس کے ڈائریکٹر صاحبان اپنے ڈیویڈنڈ خود ادا کرتے ہیں۔ اس کا کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

شرعی حکم

اگر ڈائر یکٹر صاحبا ن اپنے ڈیوڈنڈ کے ساتھ دیگر اموال زکوة کا حساب کر کے زکوة اداکریں، تو ایسا کرناجائز ہے۔شارح ہدایہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما وحال علیه الحول۔([21])

”ایک آزاد، عاقل، بالغ اور مسلمان پر زکوة واجب ہے، اس وقت جب کہ وہ کامل نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے۔“

خلاصہ بحث

لوگوں کو فائدہ پہنچانا اور خاص طور پر کسی کاروباری فرد یا ادارے کا اپنی آمدن میں سے معاشرے کو حصے دار ٹھہرانا ایک اعلی انسانی قدر ہے۔ اس کا شعور پوری دنیا میں پایا جاتاہے۔ اسے کاروباری اصطلاح میں Corporate Social Responsibility کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب دین اسلام کی تعلیمات پر غور کیجیے تو سامنے آتا ہے کہ اسلام تو سراپا خیر خواہی ہے۔ لوگوں کی خیرخواہی، لوگوں کو نفع پہنچانے اور معاشرے پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب سے اسلام کا دامن لبریز نظر آتا ہے۔ خیرخواہی کے ان احکامات میں سے درجہ وجوب میں زکوۃ ہے۔ درج بالا مقالے میں فیملی بزنس سے متعلقہ زکوۃ کے مسائل و احکام کو ذکر کیا گیا ہے۔ زکوۃ کے ۹ ایسے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے، جو کہ فیملی بزنس کو حقیقتاً درپیش ہوتے ہیں۔ راقم نے فیملی بزنس سے متعلق جاری اپنی تحقیق کے دوران فیملی بزنس کو درپیش ان مسائل کو خود ملاحظہ کیا اور پھر ان کا شرعی حل پیش کیا۔ مندرجات بالا کے توسط سے جہاں فیملی بزنس کو درپیش زکوۃ سے متعلق مسائل کا حل سامنے آیا ہے، وہیں اس دعوے کے مضبوط دلائل بھی واضح ہوئے ہیں کہ اسلام نے سی۔ ایس۔ آر کے لیے سب سے زیادہ مضبوط اور عمدہ بنیادفراہم کی ہے۔

 

حوالہ جات

  1.   C.S.R:https://www.researchgate.net/publication/330001773_Corporate_Social_Responsibility_Paper/IRJMSH Vol 8 Issue11[Year 2017] ISSN 2277 – 9809 (0nline)2348–9359 (Print) Last seen on 10th September 2019.
  2. ۔C.S.R:https://www.investopedia.com/terms/c/corp-social-responsibility. asp Last seen on 10th September 2019
  3. ۔ Noor Wali Shah ,Weekly Sharia and Business , Regd. No:MC1404 , Volumne 6, Issue 14-15, P.18.
  4. ۔ Ms. ASHWINI SURENDRA KADAM A Study of Conflict and its impact on Family Managed Business: with Special Reference to major cities in Western Maharashtra. A Ph.D Thesis, Submitted,(Enrollment No.: DYP-M.Phil-11022) Patil University,Department of Business Management, Navi Mumbai,January 2014.
  5. ۔ الحديد:۷
  6. ۔  الحديد:۱۰
  7. ۔ البقره:۲۴۵
  8. ۔ ابو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني ،المتوفى: ۲۷۵ھ، سنن أبي داود،دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى، ۱۴۳۰ھ، ج۷، ص۳۰۰
  9. ۔ أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون القضاعي المصري ،المتوفى:۴۵۴ھ، مسند الشهاب، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الثانية، ۱۴۰۷ھ
  10. ۔ سیوہاروی، مولانا حفظ الرحمن، اسلام کا اقتصادی نظام، شیخ الہند اکیڈمی کراچی، طبع اول، جولائی۲۰۱۰ء، ص۲۴۹
  11. ۔ الاعراف:۱۵۶
  12. ۔ الروم:۳۹
  13. ۔ عبد اللہ بن محمود بن مودود الموصلی البلدحی، مجد الدین ابو الفضل الحنفی ،المتوفی:۶۸۳ھ، الاختیار لتعلیل المختار، مطبعة الحلبی القاہرة، ۱۹۳۷ء، ج۱، ص۱۰۴
  14. 14۔ابن عابدین، محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی ،المتوفی:۱۲۵۲ھ، رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الزکوة، دار الفکر،بیروت، الطبعةالثانیة، ۱۹۹۲ء،ج۲، ص۲۶۹
  15. ۔ ایضاً، ج۲، ص۲۶۹۔305
  16. ۔ ا،د، وَہبَة بن مصطفی الزُّحَیلِیّ، استاذ ورئیس قسم الفقہ الاسلامیّ واصولہ بجامعة دمشق سابقاً، الفِقہُ الاسلامیُّ وادلَّتُہُ، الناشر:دار الفکر ،دمشق،ج۳، ص۱۸۷۱
  17. ۔ ایضاً،ج۳، ص۱۸۷۱
  18. ۔ المعاییر الشرعیة، المعیارالخامس والثلاثون، معیار الزکوة، التی تم اعتماد: نوفمبر۲۰۱۸ء،ص: ۸۹۱، ھیئة المحاسبة والمراجعة للموسسات المالیة الاسلامیة((AAOIFI) http://aaoifi.com/24188-2
  19. ۔ ا، د، وَہبَة بن مصطفی الزُّحَیلِیّ،محولہ بالا،ج3،ص1871
  20. ۔ لجنة علماءبرئاسة نظام الدین البلخی،الفتاوی الہندیة، دار الفکر،بیروت، الطبعةالثانیة:۱۳۱۰ھ، ج۱، ص۱۷۱
  21. ۔ کمال الدین محمد بن عبد الواحد السیواسی المعروف بابن الہمام، المتوفی:۸۶۱ھ،فتح القدیر،ط: دار الفکر، بیروت، لبنان،ج۲، ص۱۵۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...