Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 32 Issue 1 of Al-Tafseer

قدیم سودی مالیاتی نظام کا تحقیقی جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060084478_1058

Pages

139-154

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/63

Subjects

Economic System Riba (interest) Islamic Law.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

سود کی عہد قدیم میں افزائش

بعثت ِنبوی ﷺسے قبل عربوں میں رائج سودی نظام قدیم مذاہب کے سودی نظریات سے ہی پیوستہ تھا ۔ کیونکہ سود نہ عصرحاضر کی افزائش ہے اور نہ ہی دور نبوی ﷺ کی ،بلکہ یہ ناسورتو تاریخ کے نامعلوم زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ تاریخ سود کے تصور کو قبل از مسیح تسلیم کرتی ہے ۔اوراس کے وجود کی بنیاد ’’ذاتی مفادات اور لوگوں کا خود ساختہ معاشی نظام کو جنم دینا‘‘قراردیتی ہے ۔سابقہ اقوام جس طرح اپنی طرزِزندگی گزارنے میں اپنی مرضی کو ترجیح دیتے تھے اسی طرح معاشی نظام میں بھی اپنی چاہت کے مطابق مداخلت اپنا حق سمجھتے اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے راہیں سہل کرتے تھے اسی لیے خود ساختہ معاشی نظام ہمیشہ افراط وتفریط کا شکار رہا ہےاورمعیشت میں بگاڑ کرنے والوں کا طبقہ ابتدا سے رہا ہے ۔جیساکہ قوم ِشعیب نے بھی اپنے پیغمبر کو یہی کہا تھا کہ:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا ([1])

’’آپ کی نمازیں آپ کو یہ سکھاتی ہیں کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑدیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنےمنشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو۔ ‘‘([2])

جدید مالیاتی نظام نے سود کو مالی معاملات کی جدید صورتوں میں پرو تودیا ہے لیکن اس سے سود کی حقیقی شکل خارج نہیں ہوئی بلکہ ہو بہو قدیم زمانے کے اصل سود سے مماثل ہے جسے اب معیشت کا جزو لاینفک قرار دے دیا گیا ہے ۔ زمانہ قدیم کے سودی نظام کوپیش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ واضح ہوجائے کہ”سود وربا“ کا تصور زمانہ قدیم سے ہے اورسود کی افزائش کا ثبوت صرف عہد رسالت مآبﷺ سےنہیں بلکہ قبل از مسیح قدیم مذاہب سے ثابت ہے ۔جس میں ہندومت ،یہودیت کا نظام ِسوداورروما،یونان ،مصروبابل کے قدیم وابتدائی طرز کے بینکوں کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔

ہندو مت میں سود

عصر حاضر میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تاریخ دیکھی جائے تو اکثر وبیشتر مذاہب کا تعلق بہت قدیم زمانے سے ہےاگر چہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم مذاہب اپنی اصل حالت میں نہیں رہے ہیں ۔تاہم قدیم مذاہب کی تاریخ قبل از مسیح سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے ان میں ہندو مذہب کو بہت قدیم شمار کیا جاتا ہے ۔ہندو مت کی تاریخ بہت پرانی ہونے کی وجہ سےاس میں وقتاً فوقتاًتغیرحالات کےسبب مختلف و متضاد عقائد و رسوم،رجحانات، تصورات اور توہمات جنم لیتے رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کےعقائد،عبادات،اور دینی کتب بھی باہم مختلف رہیں ۔ جن میں چار وید،گیتا ،منوسمرتی کو دینی اساس حاصل ہے۔ ہندو مت انتہائی قدیم مذہب ہے جس کا اندازہ ویدک دور سے کیاجاسکتا ہےکیونکہ اسی دور میں موجودہ ہندومذہب کی بنیاد پڑی تھی۔جیسا کہ ’’آزاد دائرۃ المعارف ویکیپیڈیا‘‘ میں ہے کہ:

’’ویدک تہذیب قدیم بھارت کی تہذیب ہے جس میں ویدوں کی تخلیق ہوئی. بھارتی علما کے مطابق یہ تہذیب بھارت میں آج سے تقریباً800سال قبل مسیح شروع ہوئی تھی، لیکن مغربی علما کے مطابق آريوں کی ایک کمیونٹی بھارت میں تقریبا ۲۰۰۰ قبل مسیح آئی اور ان کی آمد کے ساتھ ہی یہ تہذیب شروع ہوئی . عام طور پر زیادہ تر دانشور ویدک تہذیب کا دور ۲۰۰۰ عیسوی قبل مسیح سے ۶۰۰ عیسوی قبل مسیح کے درمیان میں شامل مانتے ہیں۔‘‘([3])

قدیم سودی نظام کی تحقیق کے نتیجے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندومت میں سود کا نرخ قانون میں مقرر تھا اور ہر ایک ذات کے لیے علیحدہ علیحدہ شرح مقررتھی۔برہمن بہ نسبت چھتری کے کم سود دیتا اور چھتری نیچے کی دونوں ذاتوں سے کم ۔اور برہمن کے ساتھ ذات کے اعلیٰ نسب ہونے کی وجہ سے سود وصول کرنے میں بھی امتیازی رویہ رکھاجاتا۔سود کی شرح کےمتعلق” منو کے قوانین‘‘ میں ہے کہ:

“Just two in the hundred, three, four, and five (and not more ) he may take as monthly interest according to the order of the castes”.([4])

’’یعنی کہ ’’قرض کی شرح سود برہمن سے فیصدی ۲ روپے ،چھتری سے ۳روپے دیش سے ۴ روپے اور شودر سے ۵روپے سود ماہوار وصول کی جائے۔

اس طرح اس قوم کے ذات ونسل کی تفریق کے نتائج ان کی معیشت پر مرتب ہوئے ۔ اسی وجہ سےاس نظام میں اہل پیشہ کو عموماً حقیر اور ادنی تصور کیا جاتا تھااور برہمنی معاشرے میں معاشی حالات میں خاص امتیاز رکھاجاتاتھا۔ شودروں اور نیچ ذات والے لوگوں سے قرض کی شرح سودزیادہ لی جاتی تھی اور برہمن سے کم لی جاتی تھی ۔

کوتلیہ چانکیہ جو کہ’’ ارتھ شاستر ‘‘کے مصنف ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ:

’’اس نے معاشیات اور حکومت کے موضوع پر ایک ایسے دور میں قطعی رسالہ لکھا جب دنیا کا زیادہ تر حصہ عقلی تاریکی میں گم تھا ایک روایت کے مطابق یہ ایک کمزور اور غریب برہمن تھا ۔ایک اور قصے کے مطابق وہ شمالی ہندوستان کا برہمن تھا ‘‘ ([5])

اس پرانی تصنیف”ارتھ شاستر“(۳۱۱۔۳۰۰ق م)میں بھی سود ی نظام کاتصور موجود ہے۔اس کتاب میں شرح سود کے متعلق مذکور ہے کہ: ’’پانچ پن ماہانہ ‘‘سود کی کاروباری شرح ہے جبکہ سواپن ماہانہ مناسب شرح سود ہے جنگلات کے مکینوں میں دس پن اور بحری تجارت کرنے والوں میں بیس پن کے حساب سے بھی سود کی شرح مقرر ہے ۔ کاروبار سے متعلقہ سامان پر عائد ہونے والا سود باقاعدگی سے سال کے اختتام پر ادا کیا جائے اور اس کی شرح منافع سے نصف مالیت کے برابر ہو۔ادا کرنے والے کے ریاست سے باہر ہونے یا اس کی اپنی خواہش کے سبب اگر سود ادا کرنے کے بجائے جمع ہونے دیا جائے تو سود سمیت کل رقم اصل رقم سے بڑھ بھی سکتی ہے رقم دینے والا اگر مقررہ مدت سے پہلے سود طلب کرے یا سود کی رقم کو اصل رقم میں شامل کرے تو وہ متنازعہ رقم سے دگنی رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا ۔ کوئی لین دار اپنی دی ہوئی رقم سے چار گنا زیادہ سود طلب کرے تو وہ ناجائز رقم سے چار گنا زیادہ جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا ۔اس جرمانے کا تین چوتھائی قرض دینے والا اور ایک چوتھائی قرض دار ادا کرے گا ۔ ”اگر قرض دار مندرجہ ذیل قسم کے ہوں تو ان کے لیے قرضوں پر سود نہیں بڑھے گا ۔۱۔بہت غریب ہوں ۔۲۔چھوٹی عمر کے ہوں ۔۳۔کسی عالم کے پاس تعلیم کی غرض سے ٹہرے ہوئے ہوں ۔۴۔کسی طویل قربانی کے لیے مشغول ہوں۔قرض دار سے قرضے کی رقم وصول کرنے میں دانستہ تاخیر کرنے والا یا یکسر انکار کرنے کا مرتکب بارہ پن جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا قرض لینے والا اگرکسی معقول وجہ سے قرض دار سے رقم وصول کرنے سے انکار کردے تو اصل رقم کسی تیسرے شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھوادینی چاہیے۔ایسے قرضے واپس نہیں کیے جائیں گے جو دس سال تک یا اس سے زائد مدت التوا کا شکار رہے ہوں ۔“ لیکن مندرجہ ذیل صورتوں میں یہ اصول لاگو نہ ہوگا ۔

۱۔قرض خواہ نابالغ ہو ۔۲۔ قرض لینے والا ضعیف ہو۔۳۔قرض خواہ وفات پاچکا تھا ۔۴۔ قرض لینے والا حادثات کا شکار رہا ہو ۔۵۔قرض لینے والا ریاست سے باہر ہو ۔۶۔ قرض خواہ ریاست سے فرار ہوجائے ۔۷۔ملک میں امن وسکون نہ ہو۔ ‘‘([6])

اس سےواضح ہوتاہے کہ سود کی باقاعدہ طور پر شرح مقرر تھی یعنی کہ کاروبار سے متعلقہ سامان پر عائد ہونے والا سود باقاعدگی سے سال کے اختتام پر ادا کیا جانے کا قاعدہ مقرر تھا اور اس کی شرح منافع سے نصف مالیت کے برابر تھی۔ادا کرنے والے کے ریاست سے باہر ہونے یا اس کی اپنی خواہش کے سبب اگر سود ادا کرنے کے بجائے جمع ہونے دیا جاتا تو سود سمیت کل رقم اصل رقم سے بڑھ بھی جاتی تھی ۔

یہودیت میں سود

قدیم مذاہب میں یہودیت اہم ترین مذہب ہے ۔جیساکہ عصر حاضر میں بھی یہودی تعداد میں کم ہونے کے باوجود اس دور کااہم ترین مذہب ہے ۔یہودیت کے قدیم ہونے کے بارے میں رضی الدین سید فرماتے ہیں کہ:

’’یہودیت تقریباً ۴۰۰۰سال پرانا مذہب ہے۔ ‘‘ ([7])

رابرٹ وین ڈی ویئر ک’’یہودیت کے قدیم ہونے کے حوالے سے لکھتےہیں کہ:

’’یہودی وہ ہوتا ہے جو یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو اور وہی یہودی عظیم عبرانی پیغمبران حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ،اور حضرت یعقوبؑ کی مذہبی وراثت کا دعویدار ہوسکتا ہے ،یہودیت ،یہودی لوگوں کا قدیم مذہب ہے ،یہودی مذہب کی ابتدا حضرت ابراہیم نے انیس سو قبل مسیح اس وقت کی جب انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کی سر زمین میسو پوٹیما (موجودہ عراق )سے نقل مکانی کی اور مغرب کی جانب گئے ۔ ‘‘ ([8])

سودی نظام کے حوالے سے یہودیوں کا مرکزی وکلیدی کرداررہا ہےجو ہنوزان کے پیش کردہ معاشی نظام کا جزولاینفک ہے۔اگر چہ تورات میں سود کی ممانعت موجود تھی مگر پھربھی انھوں نے اپنے مالیاتی معاملات کو سود پر ہی قائم رکھا ہوا تھا اور دور دراز کے علاقوں تک یہ جال پھیلا یا ہوا تھا۔یہودیت میں سود کے نظریے کے بارے میں کتاب خروج میں ہے کہ:

''اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا ۔“([9])

جس سے واضح ہوتاہے کہ یہودی مذہب میں آپس میں سود حرام تھا لیکن’’ غیر یہودی کو سود پر قرضہ دینا ‘‘کی تاویل بالباطل انھوں نے درج ذیل عبارت سے اخذ کی ۔جیساکہ استثنا میں ذکر ہے کہ :

تو اپنےبھائی کوسودپرقرض نہ دینا خواہ وہ روپے کاسود ہو یا اناج کا سودیاکسی ایسی چیز کا سود ہو جوبیاج پردی جایا کرتی ہے۔توپردیسی کوسود پرقرض دےتو دےپراپنے بھائی کوسود پرقرض نہ دیناتا کہ خداوندتیراخدااس ملک میں جس پرتو قبضہ کرنے جارہا ہے تیرے سب کاموں میں جن کوتوہاتھ لگائےتجھ کو برکت دے۔‘‘ ([10])

تورات کی ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیت کی اصل اساس میںسودحرام تھا۔لیکن ان کے آزری پیشواؤں نے” تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا“کی تاویل بالباطل کر کے غیر یہودیوں سےسود لیناعام طورپر جائز قرار دے دیا ۔بلکہ اس کو عمومی رواج اس حد تک دیا کہ خود بھی اس میں ملوث ہونے لگے۔ اوربھاری شرح سود پر قرضے کی فراہمی اوراس کے بعد سود در سود کا چکر ان کا اہم کاروبار بن گیا ۔اس طرح انھوں نے باہم سودی نظام کی حلت کو فروغ دیا ۔اورسود کاری کی مختلف شکلوں کی حلت کا فتویٰ صادر کردیا ۔اس کے نتیجے میں ان میں جاگیر داروں اورسرمایہ داروں کے طبقات پیداہوگئےاور یہ اس نظام کو دور دور تک پھیلانے میں کامیاب رہے یوں ان کی معاشی زندگی کی اساس سرمایہ داری وسود کاری پر استوار ہوگئی اور سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف ان کی رگ وپے میں بسا بلکہ انھوں نے دنیامیں اس نظام کو چلانے کی بھرپور کوشش کی ۔الغرض سرمایہ دار انہ نظام یہود ی اقتصادیت کی اساس اور ان کے معاشی فلسفے کا اصل الاصول ہے، جس کا انحصار سود پر ہے اسی وجہ سےاس کی تگ ودو میں یہودی ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں۔

عیسائیت میں سود

عیسائیت کی تعلیمات کے بارے میں واضح ہے کہ موجودہ عیسائیت کو حضرت مسیح سے بہت دور کا تعلق ہے موجودہ مذہب اور عقائد تو سینٹ پال کے تخیلات ہیں”سینٹ پال نے تو حضرت مسیح کو دیکھا اور نہ ان سے کوئی استفادہ کیا ۔ ابتدا میں سینٹ پال تو خود اس وقت کے مختصر سے عیسائی گروہ کے ستم ڈھانے میں پیش پیش تھےبعد میں چل کر عیسائیت اختیار کرلی ۔ان کا نام پہلے سال تھا بعد میں عیسائیت اختیار کرنے کے بعد پال اپنا نام رکھ لیا۔‘‘([11])

مسیحی مذہب کی زیادہ تعلیمات نہ مل سکنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ سینٹ پال کی دسترس میں آنے کے بعد اس کی حقیقی صور ت باقی نہ رہی۔ چنانچہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں:

’’مسیحی مذہب میں کبھی بھی اس درجہ تفصیل ووضاحت نہ تھی جس کی روشنی میں زندگی کے اہم مسائل سلجھائے جاسکیں یا اس کی بنیاد پر تمدن کی تعمیر ہوسکے ۔جو کچھ تھا وہ صرف حضرت مسیح کی تعلیمات کا ایک ہلکا سا خاکہ تھا ۔یہ امتیاز بھی اس وقت تک باقی رہا جب تک مذہب سینٹ پال کی دستبرد سے بچارہا ۔اس نے تو آکر رہی سہی روشنی بھی گل کردی ۔غرض یہ کہ چوتھی صدی ہی میں مسیحیت ایک معجون بن کر رہ گئی۔‘‘ ([12])

تاہم عیسائیت کی حقیقی تعلیمات کی تلاش کےلیےعہدنامہ جدیدکی تحریروں اور اناجیل کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ،سود کے حوالے سے ان کی تعلیمات کی روشنی میں یہ سجھائی دیتا ہے کہ عیسائیت ایک ایسا نظام پیش کرتی ہے جس کو اس دنیا سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔جس میں ارتکاز ِدولت انتہائی مذموم عمل ہے اورمال کی تقسیم افضل عمل ہے۔کیونکہ انجیل متیٰ میں ہے کہ:

” دولت مند کا آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے۔بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزر جانا اس سے آسان ہے کہ ایک دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو ۔“([13])

اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے عیسائیت میں سود پسندیدہ نہیں تھا کیونکہ سود ارتکاز دولت اور سرمایہ دارانہ نظام کا منبع ہے ۔جس میں دولت چند ہاتھوں میں آکر گردش کرتی ہے اور غریب لوگ محتاج ہی رہتے ہیں ۔

قدیم طرزِبینکاری

قدیم طرزِ بینکاری کے کچھ آثار یونان ،جرمن،(روما) میں نظرآئے ہیں اگر چہ سلطنت روما کے زوال کے ساتھ یہ بھی منظر عام سے غائب ہوگئے تھے ۔پھر دوبارہ بارھویں اور تیر ھویں صدی میں جدید بینکاری کا احیا ہواجو تاہنوز جاری ہے ۔گویا کہ بینکنگ کی ابتدائی صورت حال قدیم بینکاری ہی ہے ۔کیونکہ مالیاتی معاملات میں بینک اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے اور سودکا اصل تعلق قرض کے ساتھ ملحق ہے ۔اسی لیےبینکاری نظام کے رواں دواں رہنےکی حقیقی بنیاد قرضوں کا کاروبار ہے ،قرضوں کی فراہمی اور قرضوں کی وصولی دونوں ہی بینکنگ سسٹم میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ،کیا زمانہ قدیم میں بھی بینکاری نظام تھا؟ توتحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بینکاری نظام کے نظریے کا آغاز قبل مسیح سے ہوگیا تھا۔اگر چہ عصر حاضر کی طرح ترقی یافتہ صورت نہ تھی کیونکہ اب دنیا گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کرچکی ہے اور عالمی سطح پر سودی نظام منضبط ومربوط ہے۔قدیم بینکاری میں سب سے پہلے کارفرما بابل شہر والے تھے یہ تقریباً ۸۰۰ قبل از مسیح کی بات ہے۔اس وقت بھی طریقے کا ر یہی تھا کہ قرض پر سود وصول کیا جاتا تھا۔اوریونان و روم کے بینکوں میں امانتیں قبول کر کے مناسب شرح سود عائد کی جاتی تھی اور کرنسی کا تبادلہ بھی کیا جاتا تھا جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہے .جوویب سائٹ آف بینکنگ ہسٹری سے لی گئی ہے :

The idea of banks began as long ago as 1,800 BC in Babylon. In those days moneylenders made loans to people. In Greece and Rome banks made loans and accepted deposits. They also changed money…However banking began to revive again in the 12th and 13th centuries in the Italian towns of Florence and Genoa. In the 16th century a German family called the Fuggers from Augsburg became very important bankers.([14])

’’بینکاری کا آئیڈیا ۸۰۰ قبل ازمسیح میں بابل میں شروع ہوا ان دنوں میں سرمایہ دار لوگوں کو قرض دیا کرتا تھے ،یونان اور جرمن کے بینکوں میں قرض کی فراہمی بھی تھی اور امانتیں بھی رکھوائی جاتی تھیں اور کرنسی کا تبادلے بھی کیا جاتا تھا ۔ تاہم سلطنت روما کے زوال کے ساتھ تجارت ٹھپ ہوگئی اوربینک عارضی طور پر غائب ہوگئے۔ پھر دوبارہ بینکاری کے احیاکا آغاز بارھویں اور تیرھویں صدی میں فلورنس اور جینوا (اٹلی) کے اطالوی قصبوں میں ہوا۔اورسولھویں صدی میں جرمن میں ایک خاندان جنھیں ’’فاگرز‘‘کہاجاتا تھا بہت ہی ماہر بینکار ثابت ہوئے۔‘‘

مظفر حسین ملاٹھوی قدیم طرز بینکاری کے بارے میں وضاحت سےرقم طراز ہیں کہ: ’’بینکاری کی یہ بالکل ابتدائی صورت ہے جس سے نظام بینکاری عہد بہ عہد ترقی کرتا ہوا جدید نظامِ بینکاری کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ چھے سو سال قبل مسیح میں چمڑا ،کوڑی اور چاقو کو بطورِ زر استعمال کیا جاتا تھا یعنی ان اشیا سے ذریعے مبادلہ کا کام لیا جاتا تھا ۔پھر جب تانبہ دریافت ہوا تو تانبے کی سکّہ بازی شروع ہوئی اور اشیا کا تبادلہ تانبے کے سکے سے کیا جانے لگا ۔ گویا کہ بینکاری کی ابتدا زر کی ایجاد سے بہت قبل ہوچکی تھی۔در اصل اسی دور سے ”زری معیشت کے دور “کی ابتدا ہے اور جب سونا ،چاندی دریافت ہوئے تو زری معیشت کا ” زریں دور“ شروع ہوتا ہے ۔جب تانبے کا سکّہ وجود میں آیا تو تاریخ بتاتی ہے کہ بینکاری کا نظام پوری طرح سے رائج ہوگیا تھا ۔قومی معبد ”دو ہزار سال قبل مسیح“جبکہ سکہ ایجاد نہیں ہوا تھا جدید بینکاری کے طرز پر لوگوں کی امانتیں رکھا کرتے تھے ۔ایسے اداروں کے وجود کی بھی شہادتیں قدیم یونان ،مصر ،روما ،اور بابل کی قدیم تاریخ سے بھی ملتی ہے ۔خط میخی کے کتبوں سے معلوم ہوتا ہے بنو قد نزار کے زمانے میں ۵۷۵ تا ۶۰۰ قبل مسیح کے قریب قرض کے لین دین کا ادارہ ایقبی اور سونسو کے نام سے بابل میں قائم تھا ۔۶۶۰ قبل مسیح میں اسکندریہ میں بینک کے وجود کا تذکرہ تاریخ میں موجود ہے ۔”اینتھر کا دو ر(۴۸۰ -۳۹۹قبل مسیح ) ”جو عہد زریں کہلاتا ہے اس دور میں وہاں بینک کے اداروں کی داغ بیل پڑچکی تھی ۔ اپالو کا معبد جو ڈلفی میں تھا ایک حد تک سارے یونان کے لیے بین الاقوامی بینک کا کا م انجام دے رہا تھا ۔اسی طرح ایک دوسرا ادارہ مشہور معبدی بینک ڈیلاس میں موجود تھا ۔یہ دونوں ادارے ودیعتیں رکھتے تھے اور ۱۰سے ۳۰فیصد سالانہ شرح سود پر ان میں سے رقوم قرض دیا کرتے تھے۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ سکے کی ایجاد کے ساتھ ساتھ ہی با ضابطہ شرح سود کا تعین کیا جانے لگاتھا۔‘‘([15])

بابل میں کوئی سرکاری بینک نہیں تھاتاہم چند ذی حیثیت خاندان مہاجنی کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے گھروں اورعبادت خانوں کو ہی بینک کی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں رقم کی ادائیگی ہنڈیوں یا تحریری ڈرافٹ کے ذریعے بھی ہوتی تھی۔ تحریری دستاویزات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تجارتی مفادات اور ہنڈیوں، خرید و فروخت، ٹھیکا اور شراکت داری کے کمیشن، تبادلہ، کے متعلق ہیں۔جیسا کہ ’’سود پر تاریخی فیصلے ‘‘میں درج ہے کہ :

’’عبرانیوں نے جب سرمایہ قرض دینا شروع کیا ،اس زمانے میں وہ ایسا کوئی بینکاری کا نظام نہیں رکھتے تھےجسے جدید نقطۂ نگاہ سے مکمل کہا جاسکے ،لیکن ۲۰۰۰ق م کی ابتداسے بابل کے رہنے والوں نے اس طرح کا ایک نظام تیار کرلیا تھا ۔یہ کسی انفرادی یا ذاتی تحریک کا نتیجہ نہ تھا ،بلکہ یہ مال دار اور منظم مذہبی اداروں کی طرف سے ادا کی جانے والی ضمنی خدمت تھی ،بابل کے عبادت خانے مصر کے عبادت خانوں کی طرح بینک بھی تھے بابل کی ایک دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ چاندی کے سکے (shekels)کواڈاڈری مینی کے بیٹے ماس شماخ نے وارڈ این ہل کی بیٹی سورج پرست امت شماخ سے قرضے کے طور پر لیے تھے ،وہ سورج دیوتا کا سودادا کرے گا فصل کی کٹائی کے وقت وہ اصل بمع سود ادا کرے گا ،یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ سورج پرست امت شاخ اس ادارے کی ہی مقررکردہ وکیل تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چکنی مٹی کی تختیاں اپنے اوپر کنداں تحریر کے ساتھ موجودہ دور کے قابل فروخت (Negotiable)تجارتی دستاویزات(commercial paper)کی مانند تھیں ۔‘‘([16])

گویا کہ قبل ا زمسیح بینکاری کی ابتدائی صورت قیام میں آچکی تھی ،مندر اور معبد خانے ایک طرح سے تجارتی ادارے بھی تھے،جس میں ڈپوزٹ،سودی قرضے کی فراہمی جیسے دیگر امور انجام پاتے تھے ،جیساکہ یہ واضح ہے کہ :

’’۵۷۵ق م ،بابل میں ایک بینکاری کا ادارہ لے جیبی (Lgibi)کے نام سے قائم کیا گیا ،اس بینک کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بینک درج ذیل کام سر انجام دیتا تھا ،اپنے گاہک کے وکیل کے طور پر خریداری کرنا ، فصلوں پر قرضے دینا ،ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے فصلوں کو پیشگی رہن رکھنا،دستخطوں اور گروی رکھ کر قرضے دینا اور سود پر کھاتے کھولنا وغیرہ ‘‘([17])

قدیم وجدید سودی نظام میں مماثلت

اگرچہ قدیم بینکاری نظام اس طرح سے منضبط ومربوط نہیں تھا جس طرح سے جدید بینکاری نظام ہے ۔تاہم قدیم وجدید سودی نظام میں مماثلت قرض وامانت رکھنے کے معاملات اور اس پرشرح سود مقرر کرنے میں ہے۔ عصر حاضر کے مالیاتی معاملات میں بینک اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے اورسودی مالیاتی نظام میں بینک کو اس وجہ سے ذکر کیا جاتا ہے کہ عصر حاضر میں تمام مالی معاملات بینکنگ کے ذریعے سے انجام پاتے ہیں اور سودکا اصل تعلق قرض کے ساتھ ملحق ہے ۔اور بینکاری نظام کے رواں دواں رہنےکی حقیقی بنیاد قرضوں کا کاروبار ہے ،قرضوں کی فراہمی اور قرضوں کی وصولی دونوں ہی بینکنگ سسٹم میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی بینک دیگر خدمات انجام دیتا ہے جس پر چارجز وصول کرتا ہے جو کہ عصر حاضر کی ضرورت بھی ہے اور سہولت بھی ۔لیکن سودی کھاتہ کے حوالےسے کنویشنل بینکنگ کی تنظیمی ہیئت کا دارومدارہی سودی قرضوں پر ہے اسی لیےبینک کی تعریف ہی سودی قرضوں کے لین دین پر مشتمل ہے ۔ ’’انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا ‘‘میں یہ تعریف کی گئی ہے ۔

An institution that deals in money and its substitutes and provides other financial services. Banks accept deposits and make loans and derive a profit from the difference in the interest rates paid and charged respectively. Some banks also have the power to create money. The principal types of banking in the modern industrial world are commercial banking and central banking. ([18])

’’یعنی کہ بینک ایک ایسے ادارے کو کہا جاتا ہے جوپیسوں کے معاملات کرتا ہے اور مالیاتی خدمات مہیا کرتا ہے ۔مزید یہ کہ بینک امانتوں کی وصولیابی کرتا ہے اور اس پرسود لگا تا ہے اور مختلف انٹرسٹ ریٹ کے تناسب سے نفع بھی دیتا ہے اور چارج بھی کرتا ہے۔اور بعض بینکوں کے پاس تو اتنی پاور ہوتی ہے کہ وہ خود پیسوں کی پیداوار کرتے ہیں ۔ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ میں بینک دو طرح کے رائج ہیں ۔سینٹرل بینک اور کمرشل بینک۔‘‘

گویا کہ بینک کچھ ڈپوزٹ پر مختلف انٹرسٹ ریٹ کے تناسب سے سود دیتا ہے ۔ بینکاری سسٹم کی سرمایہ کاری بھی اسی ریٹ آف انٹرسٹ کے تناسب سے قائم ہوتی ہے ۔حاصل ہونے والامنافع سودی شرح تناسب پر منحصر ہوتا ہے ۔ ’’اوکسفرڈ ڈکشنری‘‘ میں بینک کا یوں تعارف کرایا گیا ہےکہ:

‘‘A financial establishment that uses money deposited by customers for investment, pays it out when required, makes loans at interest, and exchanges currency. ([19])

’’بینک ایسا مستحکم معاشی ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کی رقم سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتا ہےاور مطالبہ پر ادا بھی کرتا ہے اور اس پر نفع کے تناسب سے سود بھی لگاتا ہے اور کرنسی کے تبادلہ کی خدمات بھی انجام دیتا ہے۔‘‘

ان دونوں تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ بینک کسٹمرز کے قرضے استعمال کرتا ہے جو انویسٹمنٹ کے لیے رکھوائےجاتےہیں اور انٹرسٹ پرشرح سود متعین کرتا ہے ۔اور پیسوں کا کاروبار کرتا ہے اگر چہ اور بھی فنانشیل سروسز مہیا کرتا ہے مگر سب سے مضبوط ذریعے قرض کا لین دین ہے ۔اور اس پر حاصل ہونے والے نفع کی وصولی یا ادائیگی کا انحصار اسی شرح ریٹ پر ہوتا ہےجو انٹرسٹ پر لی جاتی ہے۔اور بعض بینکوں کے پاس تو اتنی پاور ہوتی ہے کہ وہ خود پیسوں کی پیداوار کرتے ہیں ۔گویا کہ بینک ایسا معاشی ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کی رقم محفوظ رکھنے کے لیے جمع کرتا ہے اور اس رقم کو قرض دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔لوگوں سے قرض رقم لے کر اُن کونفع کم شرح سود میں ادا کرتا ہے اور لوگوں کو رقم دے کر ان سے زیادہ شرح سود وصول کرتا ہے۔ شرح سود کا یہ فرق ہی بینک کا منافع ہوتا ہے۔

دورِ جاہلیت میں سود

دورِجاہلیت میں اصل قرض پرمشروط اضافہ عائدکیاجاتا تھا۔یہ قرضے صرفی بھی ہوتےتھے اور تجارتی اغراض کے لیے بھی ۔جو قبائل امیر ترین تھے انھوں نے قرضوں کی فراہمی پر اضافے کی وصولیابی کو ذریعہ اکتساب بنایا ہوا تھا ۔ہو بہو آج کے روایتی بینکاری نظام کی طرح ،اگر قرض کی ادائیگی بروقت نہ کی جاتی تو اس پر معاہدے کے مطابق ماہانہ ،سالانہ مشروط اضافہ عائد کیا جاتا تھا اور یہ اضافہ بڑھتا ہی رہتا جب تک کہ اصل سرمایہ +اضافی شرح سودادا نہ کردی جاتی ،عربوں میں یہ کوئی نیا سلسلہ نہ تھا بلکہ جاہلیت کے ادوار ہی کی باقیات تھیں جس نے سودی بازار گرم کر رکھا تھا ۔ حاجت مندوں کے لیے بھی اور بزنس والوں کے لیے بھی ۔’’عرب میں اسلام کے ظہور سے قریبی زمانے میں تجارتی ،صنعتی اور زرعی قرضے سودی بنیاد پر شام کی بازنطینی حکومت میں اتنے زیادہ عام تھے کہ ایک بازنطینی حاکم جسٹنین(Justinian)(۵۶۵۔۵۲۷)کو مختلف قسم کے مقروضوں کے لیے ریٹ آف انٹرسٹ (شرح سود ) کی تعیین کے لیے باقاعدہ ایک قانون نافذ کرنا پڑا ۔‘‘ ([20])

گبّن نے جسٹنین(Justinian)کےاس قانون کو یوں بیان فرمایا ہے:

Persons of illustrious rank were confined to the moderate profit of four percent ; six was pronounced to be the ordinary and legal standard of interest; eight was allowed for the convenience of manufacturers and merchants; twelve was granted to nautical insurance. ([21])

اس سے یہ واضح ہے کہ قانوناً ریٹ آف انٹرسٹ ممتاز عہدوں کے لوگوں کے لیے۴ فیصد ،اور عام لوگوں کے لیے ۶ فیصد مقرر کیا گیا ،اور صنعت وتجارت سے متصل لوگوں کے لیے ۸فیصد،اور بحری انشورنس کرانے والوں کے لیے ۱۲ فیصد مقرر کیا گیا ۔

سود کے لیے عربی زبان میں ’’ربا ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ،اور قرآن میں بھی سود کے لیے’’ربا‘‘ کا لفظ ہے۔زمانہ ٔجاہلیت میں ”الربوٰا“ کا اطلاق جس طرزمعاملہ پر ہوتا ہے اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

۱۔ جاہلیت میں ربا کی ایک یہ صورت رائج تھی کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمے حق(قرض) ہوتا اس کی ادائیگی کے لیے ایک مقررہ وقت دے دیا جاتا اگر ادائیگی وقت پر نہ کی جاتی تو وقت بڑھانے کے ساتھ ساتھ واجب الادا حق میں بھی اضافہ کردیا جاتا ۔جیساکہ درمنثور میں یہ صورت مذکور ہے:

عَن زيد بن أسلم قال: كان الرّبَا فِي الْجاهلِيَّة أَن يكون للرجل على الرجل الْحق إِلَى أجل فَإِذا حل الْحق قال: اتقضي أم تربي فَإِن قضاه أَخذ وَإِلَّا زاده فِي حَقه وزاده الآخر فِي الْأجَل([22])

’’جاہلیت کا ربوٰا یہ تھا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمے حق (قرض)واجب ہوتا اور اس کا وقت مقرر ہوتا ۔مہلت کے پوراہونے پر پوچھتا ادائیگی کروگے یا سود دوگے !وہ اگرادائیگی کردیتا تو وہ لے لیتا وگرنہ (مدت پوری ہوجانے کے بعد) وہ مزید مہلت دیتا اور حق (قرض)میں بھی اضافہ کردیتا۔‘‘

اس صورت میں قرض دینے والا مقروض سے پوچھتا کہ آپ ادائیگی کریں گے یا مہلت اور واجب الادا حق میں اضافہ قبول کریں گے۔

۲۔دوسری صورت یہ تھی کہ مقروض قرض دینے والے سے کہتا کہ میں آپ کو اتنا او ر اتنا زیادہ دوں گا اگرآپ میری ادائیگی کی مہلت بڑھادیں۔جیسا کہ مجاہد کہتے ہیں کہ :

كَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّة يكون للرجل على الرجل الدّين فَيَقُول: لَك كَذَا وَكَذَا وتؤخر عني فيؤخر عَنهُ ([23])

’’جاہلیت کا ربوٰا یہ تھا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمے قرض ہوتا اور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو میں اتنا اور اتنا زیادہ دوں گا ۔تو وہ اس کے عوض مہلت بڑھادیتا۔‘‘

۳۔ تیسری صورت یہ تھی کہ وقت مقرر تک کوئی چیز بیچی جاتی اورقیمت نہ ادا کی جاتی ۔ جب ادائیگی کا وقت مقرر آپہنچتااور اس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہ ہوتا تو وہ اصل سرمایہ میں اضافہ کے ساتھ مہلت بڑھادیتا۔جیسا کہ قتادہ فرماتے ہیں کہ:

أن ربا أهل الجاهلية: يبيعُ الرجل البيع إلى أجل مسمًّى، فإذا حل الأجل ولم يكن عند صاحبه قضاء، زاده وأخَّر عنه([24])

’’اہل جاہلیت کا سود یہ تھا کہ وقت مقرر تک کوئی چیز بیچی جاتی، جب وقت مقرر آپہنچتااور اس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہ ہوتا تو وہ اصل سرمایہ میں اضافہ کے ساتھ مہلت بڑھادیتا۔‘‘

۴۔ چوتھی صورت یہ تھی کہ قرض دیے گئے مال کے عوض بطور سودایک معین رقم ماہانہ وصول کی جاتی تھی ۔اور اصل سرمایہ باقی رہتا جس کی ادائیگی مقررہ وقت پر کی جاتی ،اگر مقرر ہ وقت پر اصل سرمایہ ادا نہ کیا جاتا تو پھر مہلت میں بھی اضافہ کیاجاتا اور واجب الادا حق میں بھی ۔جیسا کہ امام رازی کی تحقیق یہ ہے کہ:

أَمّا ربا النّسيئة فهو الْأَمْر الَّذي كان مشْهورًا مُتعارفًا في الْجاهليَّةِ، وذلك أَنَّهُمْ كَانوا يدْفعون الْمال عَلى أَنْ يَأْخذوا كلّ شَهْر قدْرًا معيّنًا، ويكون رَأْس الْمَال بَاقِيًا، ثُمَّ إِذَا حَل الدَّيْن طالبوا الْمدْيون برَأْس الْمال، فَإِنْ تَعَذَّر عَلَيْه الْأداء زادوا فِي الْحَقّ والْأجَل، فَهَذَا هُوَ الربَا الَّذِي كَانُوا فِي الْجاهلِيّة يتعاملون بهِ([25])

’’امام رازی کی تحقیق میں ربا النسیئہ وہ ربا تھا جو جاہلیت میں مشہور ومتعارف تھا ۔ ان کا دستوریہ تھا کہ وہ مال قرض اس بناپر دیا کرتے تھے کہ اس کے بدلے میں ماہ بماہ ایک مقررہ رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہیں گے ۔اور اصل رقم باقی رہے گی ۔جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے راس المال کا مطالبہ کیا جاتا اگر وہ عدم ادائیگی کا عذر پیش کردیتا تو مہلت اور مال میں مزید اضافہ کردیا جاتا ۔یہ وہ ربا تھا جس پر جاہلیت میں عمل درکار تھا۔‘‘

خط کشیدہ تمام صورتیں عرب میں رائج تھیں انھی کو اہل عرب اپنی زبان میں ”ربٰوالجاہلیۃ “ کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کو رباالنسیئۃ ،بھی کہا جاتا ہے اور اسی کی تحریم کاحکم قرآن پاک میں نازل ہوا ہے۔جس میں مہلت میں اضافہ ادھار میں اضافہ کےبدلے کیا جاتا تھا۔ جیساکہ’’امام الکیاالہراسی “ربا جا ہلیت کی یہ تعریف کرتے ہیں :

والذي كان في الجاهلية كان القرض بزيادة، وما كانوا يؤجلون إلا بزيادة في نفس النسيء([26])

’’جاہلیت میں جو ربا تھا وہ اضافہ کے ساتھ قرض کا معاملہ تھا ۔مقروض کومہلت صرف اسی وجہ سے دی جاتی تھی کہ اس کے بدلے میں اصل ادھار میں اضافہ کیا جائے گا۔‘‘

گویاجاہلیت کا ربا یہ تھا کہ مشروط اضافہ کے ساتھ قرض کا معاملہ ایک مقرر وقت تک کے لیے طےکیاجاتا ،اور یہ زیادتی تاخیرِمہلت کے عوض ہوتی ۔اہل عرب اس اضافہ کو جائز منافع سمجھتے تھےوہ کہتے تھے کہ خواہ اضافہ خرید وفروخت کے معاملے کی ابتدا ہی میں منافع کی صورت میں ہویا اضافہ تاخیرمہلت کے عوض ادائیگی کے وقت کیا جائے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔’’ابن مصطفیٰ استنبولی ‘‘کی تحقیق سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

روي ـ أن أهل الجاهلية كان أحدهم إذا حلّ ماله على غريمه فطالبه به يقول الغريم لصاحب الأجل زدني شيئاً في الأجل حتى أزيدك في المال فيفعلان ذلك ويقولان سواء علينا الزيادة في أول البيع بالربح أو عند المحل لأجل التأخير([27])

’’اہل جاہلیت یہ کیا کرتے تھے کہ جب مال کی ادائیگی کا وقت پورا ہوجاتا تو مقروض سے ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا ۔تومقروض صاحب اجل (مدت بڑھانے والے ) سے کہتا مدت میں اضافہ کیجیے میں آپ کے مال میں اضافہ کروں گا۔تو وہ دونوں اس طرح کرتےاور یہ کہتے تھے کہ ہمارے لیے دونوں صورتیں یکساں ہیں اضافہ خرید وفروخت کے معاملے کی ابتدا ہی میں منافع کی صورت میں وصول کیاجائےیا اضافہ تاخیرمہلت کے عوض ادائیگی کے وقت وصول کیا جائے۔‘‘

گویا کہ ان کے تصور میں خرید وفروخت اور سودی کاروبار یکساں تھا جس کی بنا پر وہ کہتے تھے کہ بیع بھی تو سود جیسا معاملہ ہے ۔ تو اللہ نے ان کے تصور کو ان الفاظ کے ساتھ صاف کیا کہ خرید وفروخت جائز معاملہ ہے اور سود حرام ہے۔

اہل عرب میں تجارتی سود

سود کی عمومی اورقدیم شکل قبل از مسیح سے زیرِعمل رہی ۔تاہم بعثت نبوی ﷺکے دور میں تجارتی سود انتہائی واضح تھا کیونکہ عربوں کا پیشہ ہی تجارت تھا اور وہ قرضوں پر شرح سود سال بہ سال کے اضافے کے ساتھ باہم اشراف قبائل میں طے کیا کرتےتھے ۔جیسا کہ تفاسیرواحادیث سے واضح ہے۔ حضرت عباسؓ کا بڑے پیمانے پر سودی کاروبار مشہورتھا۔جلال الدین السیوطی فرماتے ہیں کہ:

نزلت هذه الْآيَة فِي الْعَبَّاس بن عبد الْمطلب وَرجل من بني الْمُغيرَة كَانَا شَرِيكَيْنِ فِي الْجَاهِلِيَّة يسلفان فِي الرِّبَا۔ ([28])

’’حضرت عباس بن عبد المطلب اور بنی مغیرہ کے ایک آدمی کے متعلق قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی ۔یہ دونوں جاہلیت میں سود پر قرضوں کی فراہمی کےکاروبار میں شریک کار تھے۔ ‘‘

روایت میں’’ شریکین ‘‘ کا لفظ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ دونوں مل کر لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے ایک طرح سےیہ ان کا سودی کاروبار تھا ۔ اور حضرت عباس مکے کے بڑے تاجروں میں سے تھے اور بہت سے لوگوں پر ان کا پیسہ پھیلا ہوا تھا ۔مگر حرمت نازل ہونے کے بعد سب چھوڑ دیا ۔ اسی طرح قبیلہ ثقیف کے چار بھائی سودی کاروبار میں بہت مشہور تھے ان کاسودی کاروبار مکے تک پھیلاہوا تھا اوریہ بنو مغیرہ سے قرض کا لین دین کیا کرتے تھے ۔ان ہی بھائیوں کے ایک سودی کاروبار کے مقدمے نے اس قدر طول کھینچا کہ یہ مقدمہ آنحضرت ﷺکے پاس مدینے میں پیش ہوا اور اسی سودی مقدمے کے سلسلے میں قرآنی آیت وذروا مابقی من الربوا(مابقی سود نہ لو)نازل ہوئی جس طرح اس روایت سے واضح ہے کہ :

”ثقیف کے چار بھائی مسعود ،عبد یا لیل ،حبیب اور ربیعہ بن عمیر الثقفی یہ چاروں بنو مغیرہ کو قرض دیا کرتے تھے اور وہ انھیں سود ادا کرتے تھے ۔جس وقت رسول ﷺ طائف تشریف لے گئےتو یہ چاروں بھائی مشرف بہ اسلام ہوئے اور بنو مغیرہ سے سود طلب کیا بنو مغیرہ نےکہہ دیا کہ بخدا !ہم اسلام میں تو سود نہیں دیں گے ۔خدا نے اس کو مسلمانوں سے ہٹادیا ہے بالآخر وہ اپنے اس قضیہ کو عتاب بن اسید کے پاس لے گئے جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے مکے کے والی ،قاضی تھے عتاب نے فریقین کے قضیہ کو لکھ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں روانہ کیا ۔سود کی یہ رقم بہت بڑی تھی اسی پر قرآن کی وذروا مابقی من الربوا والی آیت نازل ہوئی (یعنی سود کی بقیہ رقم طلب نہ ہو )‘‘([29])

ایک اور روایت میں ہے کہ:

کانت بنوعمر و بن عامر یاخذون الربا من بنی المغیرہ ،وکانت بنو المغیرہ یربون لھم فی الجاہلیۃ ،فجاء الاسلام ولھم علیھم مال کثیر([30])

’’ کہ بنو عمر، بنی مغیرہ سے سود لیا کرتے تھے اور بنو مغیرہ جاہلیت کے دور میں انھیں سود دیا کرتے تھے اور جب اسلام آیا تو کثیر مال ان پرواجب تھا۔‘‘

اس روایت میں جو ’’مال کثیر ‘‘ کا لفظ ہے کہ ’’جب اسلام آیا تو بہت بڑی سود پر مبنی رقم یا سرمایہ ایک قبیلے کا دوسرےقبیلہ کے ذمے واجب الادا تھا ‘‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ بنو عامر اور بنو مغیرہ دونوں قبائل کی حیثیت تجارتی کمپنیوں جیسی تھی ایک قبیلے کے افراد اپنا مال ایک جگہ جمع کرکے اجتماعی انداز میں اس سے تجارت کیا کرتے تھے پھر یہ قبیلے اچھے خاصے مالدار بھی تھے۔ دو مالدار قبیلوں کے درمیان سود کےمسلسل کاروبارسےیہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی ہنگامی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ یہ لین دین تجارتی بنیادوں پرباہمی مشارکت کے اصولوں پر تھا ۔پس جب اسلام آیا ان کے متعلق سود کی بڑی رقم واجب الوصول تھی ۔لیکن سود حرام ہوتے ہی ایسے جملہ مطالبات ساقط ہوگئے ۔ گو یا کہ آپ ﷺکے دور میں تو تجارتی سود انتہائی واضح تھا کیونکہ عربوں کا پیشہ ہی تجارت تھا اور وہ قرضوں پر شرح سود سال بہ سال کے اضافے کے ساتھ باہم اشراف قبائل میں طے کیا کرتےتھے۔ اسی لیے تو انہوں نے یہ جواز پیدا کیا تھا کہ جب تجارت جائز ہے تو سودیعنی ربا بھی جائز ہونا چاہیے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ([31])

اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا یعنی کہ خرید وفروخت ، تجارت،ربا کی ہم مثل ہے ، کیونکہ ربا میں بھی منافع تجارت کی طرح حاصل کیا جاتا ہے ،قرآن نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا :ربا حرام ہے اور تجارت جائز ہے ،جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل عرب میں سود صرف ذاتی ضروریات تک محدود نہ تھا بلکہ کاروباری سطح پر عام تھا ۔ یہ شبہ پیش کیاجانا کہ شخصی سود اور تجارتی سود میں فرق ہے حرمت صرف شخصی سود کی ہے تجارتی کی نہیں ۔اس ضمن میں مفتی اعظم پاکستان محمدشفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ :

’’ کہ مختلف سورتوں کی سات آٹھ آیتوں میں اور چالیس سے زیادہ احادیث میں مختلف عنوان سے اس کی حرمت بیان کی گئی ہے ان میں سے کسی ایک جگہ کسی ایک لفظ میں بھی اس کا اشارہ موجود نہیں کہ یہ حرمت صرف اس ربا کی ہے جو شخصی اغراض کے لیے لیا دیا جاتا تھا تجارتی سود اس سے مستثنیٰ ہے ۔پھر کسی کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے خدا تعالی کےحکم میں سے کسی چیز کو محض اپنے خیال سے مستثنی کردے یا عام ارشاد کو خاص کردے یا مطلق کو بلا کسی دلیل شرعی مقید ومحدود کردے یہ تو کھلی تحریفِ قران ہے ،سود وربا یعنی قرض پرنفع لینا خواہ قدیم طرز کا مہاجنی سود ہو یا نئی قسم کا تجارتی اور بینکوں کا ،بہرحال حرام ہے۔‘‘([32])

خلاصہ

مضمون سے مطلوب نتائج یہ ہیں کہ :

۱۔ قدیم ترین مذاہب ہندومت،برہمنیت،یہودیت وغیرہ میں سودی نظام رائج تھا ۔باقاعدہ قرضوں پر شرح سود مقرر تھی اور سود در سود کا معاملہ ہوتا تھا ۔جس طرح کہ آج کے دور میں بھی قرضوں پر شرح سود کا نظام قائم ہے ۔ اور یہ قدیم نظام قبل از مسیح کا ہے ۔

۲۔ قدیم طرز بینکاری نظام دو ہزار سال قبل از مسیح پایا جاتا تھا۔ اگر چہ ایک ادنی سطح پر یہ نظام قائم تھا ۔

۳۔ سلطنت روما کے زوال کے ساتھ قدیم بینک عارضی طور پر غائب ہوگئے تھے۔ پھر دوبارہ نظام بینکاری کے احیا کا آغاز بارھویں اور تیرھویں صدی میں فلورنس اور جینوا (اٹلی) کے اطالوی قصبوں میں ہوا۔اورسولھویں صدی میں جرمن میں ایک خاندان جنھیں ’’فاگرز‘‘کہاجاتا تھا بہت ہی ماہر بینکار ثابت ہوئے۔

۴۔ روایات سے دورِ جاہلیت کاسود انتہائی واضح ہےجس میں مہلت کے عوض قرض پر مشروط اضافہ وصول کیاجاتاتھا۔

۵۔دورِجاہلیت میں سودی کاروباربام ِعروج پرتھا۔

۶۔ عصر حاضر کے سودی بینکاری نظام میں رائج ’’رباالنسیئۃ‘‘(مہلت کے عوض قرض پر مشروط اضافہ)قبل از مسیح کے سودی نظام اوراہل عرب کے دورِ جاہلیت میں بھی رائج تھا ۔اور یہی وہ قسم ہے جس کی حرمت قرآن سے قطعی الثبوت ہے ۔

حوالہ جات

  1. () ہود:۸۷
  2. () سید ابو الاعلی ٰ مودودی ،ترجمہ قرآن مجید،ھود:87،ناشر:ادارۂ ترجمان القرآن لاہور،اشاعت ۱۴۲۴ھ،ص ۵۹۳
  3. () Retrieved on 4.01.2018 ویدک تہذیب https://ur.wikipedia.org/wiki/
  4. () G.Buhler,Translated with extracts from Seven Commentarles.The Law of Manu at the clarendon press,1886,142/xii.p.278.
  5. () کوٹلیہ چانکیہ،ترجمہ:سلیم اختر ،ارتھ شاستر،نگارشات، میاں چیمبرز ۳ ٹمپل روڈ،لاہور ،۲۰۰۱ء، ص۱۵
  6. () ایضاً،ص ۲۲۹۔۲۳۰
  7. ()رضی الدین سید ،یہودی مذہب مہد سے لحد تک ،مکتبہ قاسمیہ علامہ بنوری ٹاؤن ،کراچی ،جون ۲۰۱۶ء،حصہ ۱،ص۱۹
  8. ()رابرٹ وین ڈی ویئر ،ترجمہ: ملک اشفاق،یہودیت ،بک ہوم لاہور ،۲۰۰۶ء،ص۱۱
  9. ()تورات ،کتاب:خروج ،باب ۲۲،آیت ۲۵،پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی،لاہور،2003ء،ص۱۸۹
  10. () ایضاً،تورات،کتاب:استثنا،باب ۲۳ ،آیت۲۰-۱۹،ص ۴۹۱
  11. () محمد یوسف الدین ،اسلام کے معاشی نظریے،الائیڈ بک کمپنی کراچی یونیورسٹی ،۱۹۸۴ء،ج۱،ص ۱۲۳
  12. ()مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ،انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر ،مجلس نشریات اسلام ،ناظم آباد کراچی،گیارھواں ایڈیشن ،۱۹۷۹،ص ۴۰
  13. () کتاب مقدس، باب ۱۹ نمبر ۲۳۔۲۴، انجیل متیٰ،پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ،پاکستان ،ص۱۷۷۷
  14. () http://www.localhistories.org/banking.html. Retrieved on 4/01/2018
  15. () ملاٹھوی ،مظفرحسین "بلاسود بنکاری "غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی،۱۹۸۸ء،ص۷۔۸
  16. () محمد تقی عثمانی ،ترجمہ محمد عمران اشرف عثمانی ،سود پر تاریخی فیصلہ،مکتبہ معارف القرآن کراچی ۱۴۔اگست ۲۰۰۵ء۔ص۵۵
  17. ()ایضاً،ص ۵۶
  18. () http://www.localhistories.org/banking.html. Retrieved on 4/01/2018
  19. () http://www.localhistories.org/banking.html. Retrieved on 4/01/2018
  20. ()سود پر تاریخی فیصلہ، محولہ بالا ۔ص۵۸،
  21. () http://www.localhistories.org/banking.html. Retrieved on 4/01/2018
  22. ()عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (متوفى911ھ)،الدر المنثور,الناشر: دار الفكر بيروت،س،ن،ج ۲،ص ۱۰۸
  23. ()ایضاً ،ج ،۲ص ۱۰۸
  24. ()محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري ،المحقق: أحمد محمد شاكر،جامع البيان في تأويل القرآن، مؤسسة الرسالة،الطبعة: الأولى، ۱۴۲۰ھ - ۲۰۰۰م ،ج۶،ص ۸
  25. ()أبو عبد الله محمد بن عمر التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي خطيب الري ۔مفاتيح الغيب = التفسير الكبير، دار إحياء التراث العربي – بيروت الطبعة: الثالثة - ۱۴۲۰ هـ،ج۷،ص۷۲
  26. ()علي بن محمد بن علي، أبو الحسن الطبري، الملقب بعماد الدين، المعروف بالكيا الهراسي الشافعي ،المحقق: موسى محمد علي وعزة عبد عطية ،أحكام القرآن،الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت،الطبعة: الثانية، ۱۴۰۵ هـ،ج۱،ص ۲۳۳
  27. () إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي، تفسير روح البيان ـ دار إحياء التراث العربى،س ن۔ج۱،ص۳۵۶
  28. ()السيوطي ، الدر المنثور ،محولہ بالا،ج۲،ص۱۰۷
  29. ( ) الطبري ، جامع البيان في تأويل القرآن(تفسیر طبری) ،محولہ بالا، ج۶،ص۲۳
  30. ()السيوطي ، الدر المنثور، محولا بالا،ج۲،ص۱۰۷
  31. ()البقرہ:275
  32. ()مفتی محمد شفیع صاحب ،مسئلہ سود ،ادارۃ المعارف کراچی ۔۱۹۹۳ء۔ص ۲۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...