Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

قرآن کا اسلوب دعوت اور معاشرے پر اس کے اثرات |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_1060

Pages

76-95

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/117

Subjects

Nurtured Preaching Methodologies Argument

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اللہ تعالیٰ نے اس خطۂ ارض پر انسان کو آباد کرنے کے ساتھ اس کی ہدایت وراہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے جو تاریکی سے اُجالے اورشقاوت سے سعادت وخوش بختی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ انسان کو علم ومعرفت کی راہ دکھانے والے خالق جانتے ہیں کہ دل میں صداقت اورسچائی کی روشنی ایک راہ سے نہیں آتی، کیونکہ علم ومعرفت کے متعدد اسلوب ہیں اور انسانی دل ودماغ کی پیچیدہ ساخت کے نتیجے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سا طریقہ اس پر اثرا انداز ہوگا ۔کبھی تو ٹھوس دلائل کو نظر انداز کر دیتاہے اور کبھی ایک شاعرانہ طرز اس کے دل کو موہ لیتی ہے۔ انسان کی اسی فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنی کتابوں کو مختلف خصوصیات سے مزین فرمایا۔قرآن کریم جو صحف سماویٰ کی آخری کڑی ہے ، اس نے ان تمام اسلوب اورپیرایوں کو یکجا کیا ہے جس سے فطرت انسانی متأثر ہوسکتی ہے۔

کہیں منطقی طریق استدلال پیش کیا ہے، تو کہیں قصص پر اکتفا کیا ہے، کہیں استعارہ ومثال سے، تو کہیں صرف خبر سے، کہیں انعامات الٰہی کے ذریعے ترغیب، تو کہیں عذاب الٰہی کی وعید ، کہیں سوالات کے ذریعے غوروفکر کی دعوت دی تو کہیں جوابات کے ذریعے مخاطب کی تسکین کا سامان کیا۔غرضیکہ اس نے دعوت وابلاغ کے ہر ہر ڈھنگ اور پیرایے کو اختیار کیا جس کا مقصد حق کو دل کی گہرائیوں میں اتارناہے۔ اس دعوے کی تصدیق خود قرآن کریم سے ملتی ہے :

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا ([1])

’’ اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا تاکہ وہ نصیحت حاصل کرسکیں۔‘‘

قرآن کا مقصد منطقی اورفلسفیانہ دلائل وبراہین کے ذریعے مخاطب کا منھ بند کرانا ، اس پر غلبہ حاصل کرنا یا اس میں احساس شکست پیدا کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے کہ دلوں کے دریچے حق کے لیے کھل جائیں اور شک وشبہات کو دور کرکے رشد وہدایت کی راہ واضح ہوسکے۔ لہذا اس نے خود اپنے اسلوب دعوت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ([2])

’’(اے نبی ﷺ) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحث کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ جب لوگوں کو ان کے راستے کی طرف بلائیں تو ایسے انداز حکیمانہ سے بلائیں کہ جو دل پر اثر کرے جو کہ خیرخواہی کے جذبات سے پُر ہو ، نرم گفتگو اور شریں کلامی ہو۔

امام فخر الدین رازی نے اسی آیت کی تفسیر میں انسانی معاشرے کو تین معیارات میں تقسیم کیا ہے اور ان کے مطابق انسانی گروہ ان تین معیارات میں سے کسی ایک پر ہوتاہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:

’’حکمت کے ساتھ دعوت کا رخ حکماء کے گروہ کی طرف ہے اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت کا تعلق فطرت سلیمہ کے حامل لوگوں سے ہے اور مجادلہ حسنہ کے ساتھ دعوت ان لوگوں کو دی جائے جو راہ راست سے ہٹ گئے اور غلط راستے پر پڑ گئے ہیں۔‘‘([3])

اسلام کی نشرواشاعت کا انحصار فقط دعوت پر ہے۔ نہ اس میں جبرواکراہ کا پہلو ہے نہ ہی کسی قسم کی رشوت ، نہ دنیاوی لالچ اور نہ خوف وہراس لہذا آداب دعوت جاننا مبلغ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس کے بغیر دعوت کا کام ضرررساں ثابت ہوسکتاہے۔ قرآن کریم کے اسالیب دعوت کی وضاحت سے قبل دعوت کے مفہوم اور اس کی ضرورت کو جاننا چاہیے۔

دعوت کے لغوی واصطلاحی معنی

’’دعوت‘‘ کا مادہ (د ع و ) (دعا ، دعویٰ اور دعوۃ) ہم معنی الفاظ ہیں ، لغوی معنی پکارنا، بلانا۔([4])

علامہ راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن ‘‘ میں لکھتے ہیں :

والدُّعاءُ إلى الشيء: الحثّ على قصده ([5])

’’کسی چیز کا قصد کرنے پر رغبت دلانے اور اُبھارنے کے ہیں۔‘‘

ابن منظور افریقی ’’لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں :

والدُّعَاةُ: قومٌ يَدْعُونَ إِلَى بَيْعَةٍ هُدىً أَو ضَلَالَةً، واحدُهم دَاعٍ. وَرَجُلٌ داعِيَةٌ إِذَا كَانَ يَدْعُو النَّاسَ إِلَى بِدْعة أَو دينٍ، أُدْخِلَت الهاءُ فِيهِ لِلْمُبَالَغَةِ. وَالنَّبِيُّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَاعِي اللَّهِ تَعَالَى، وَكَذَلِكَ المُؤَذِّنُ ([6])

’’دعاۃ(داعیان) وہ قوم ہیں جو لوگوں کو ہدایت یا گمراہی کی بیعت کی جانب دعوت دیتے ہیں اس کا واحد داع ہے اور داعی اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کو دین یا بدعت کی جانب بلاتا ہے اور نبی اللہ کا داعی ہے اور اسی طرح مؤذن۔‘‘

لفظ ’’دعوت‘‘ لغوی اعتبار سے سات معانی میں قرآن کریم میں مستعمل ہوا ہے۔

القول ، العبادة ، النداء ، الاستغاثة ، الاستفهام ، السؤال ، العذاب ([7])

اصطلاحی معنوں میں دعوت سے مراد لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا اور آمادہ کرنا ہے۔

ابن منظور کے نزدیک :

’’کسی اچھائی اور خوبی بالخصوص دینی امور کو دوسرے افراد واقوام تک پہنچایا جائے اور انھیں قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔‘‘([8])

امام رازی دعوت وتبلیغ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

الدَّعْوَةُ إِلَى الْخَيْرِ جِنْسٌ تَحْتَهُ نَوْعَانِ أَحَدُهُمَا: التَّرْغِيبُ فِي فِعْلِ مَا يَنْبَغِي وَهُوَ بِالْمَعْرُوفِ وَالثَّانِي: التَّرْغِيبُ فِي تَرْكِ مَا لَا يَنْبَغِي وَهُوَ النَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ([9])

’’بھلائی کی دعوت دینا جنس ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ کسی ایسے کام کی ترغیب دینا جسے ادا کرنا چاہیے جیسے امر بالمعروف دوسرے ایسے کام کی ترغیب دینا جسے ترک کرنا ضروری ہوتا ہو جیسے نہی عن المنکر ۔‘‘

قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو بطور داعی ومبلغ ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ([10])

’’اے نبی ﷺ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بنا کر ، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر اور اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بنا کر۔‘‘

دعوت کے معنی لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا ہے جس کے مختلف ذرائع وطریقے ہیں۔ چاہے وہ قلم کے ذریعے سے ہو یا زبان کے ذریعے یا مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے ہو ۔ بالفاظ دیگر ہر وہ قولی اور عملی کوشش جو لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے کی جائے ’’دعوت‘‘ کہلاتی ہے۔

قرآن کریم کا منہج دعوت

قرآنی دعوت منہج کی عملی تفسیر ذات رسول اعظم ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ اپنی ذات میں مکمل انجمن تھے، آپ کا دعوتی منہج تین بنیادوں پر مشتمل تھا۔

۱۔ عمل سے دعوت

دعوتی عمل میں داعی کا کردار مرکز کی حیثیت رکھتاہے۔ وہ روشن شمع کی مانند ہے جو کہ تاریکی کو کافور کردیتی ہے جس قدر شمع روشن ہوگی اسی نسبت سے وہ بجھے ہوئے چراغوں کو روشن کرسکے گی لہذا داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مضبوط ایمان وکردار کا حامل ہو۔ دعوت کابہترین طریقہ کار یہ ہے کہ اس دعوت پر خود عمل پیرا ہو اگر قول وفعل اس پیغام کی مخالفت کرے جس کی طرف بلایا جارہا ہے تو دعوت غیر مؤثر ثابت ہوگی۔

قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ آپ ﷺ فرما دیجیے میں سب سے پہلے اس پر عمل کرنے والا ہوں ، جس کی طرف آپ کو بلا رہا ہوں۔ سورۃ الانعام میں تعلیم دی گئی :

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ([11])

’’کہو میری نماز،میری قربانی،میراجینا اورمیرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیاگیا ہے اور سب سے پہلے سرخم اطاعت کےلیے جھکانے والا میں ہی ہوں۔‘‘

داعی الی الحق کے خدائی پیمانہ ومعیار یہ ہے کہ وہ خود تمام مکارم اخلاق اورخوبیوں سے مزین ہو اور قرآن سے متعلقہ علوم میں مہارت تامہ ہو۔

۲۔ اخلاص

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو بھی نیک عمل کیا جائے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہو نہ تو اس میں کوئی ذاتی غرض یا منفعت ہو اور نہ ہی نمودونمائش اور شہرت کا جذبہ ہو۔ بارہا قرآن کریم میں اخلاص پر زور دیاگیاہے:

فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ([12])

’’لہذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے ، خبردار دین خالص اللہ کا حق ہے۔‘‘

دعوت کا اصل مقصد مدعو کی خیرخواہی اور اسے اللہ تعالیٰ سے قریب کرناہے لہذا داعی کے لیے اپنی دعوت میں مخلص ہونا از حدضروری ہے ۔سورۃ الشعراء میں انبیاء علیہم السلام کے تذکرے میں بتایاگیا کہ ان بندگان خدا کی دعوت صرف اللہ کے لیے تھی ہر نبی نے اپنی قوم سے فرمایا :

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ ([13])

’’اور میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو تمام جہانوں کے رب کے ذمے ہے۔‘‘

۳۔ حبِ انسانیت

انسانیت سے محبت اور ان کی خیرخواہی دعوت انبیاء علیہم السلام کا بنیادی عنصر ہے۔ یہی وہ محرک ہے کہ دعوت کی راہ میں ہر صعوبت وتکلیف برداشت کی مگر تبلیغ کےمشن پر آنچ نہ آنے دی ، نبی کریم ﷺکی انسانیت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ آپ اس قدر ان کے لیے غمزدہ ہیں کہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ارشاد فرمایا:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ([14])

’’اے نبی ﷺ! شاید آپ ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔‘‘

یعنی آپ ﷺ اس قدر فکرمند ہیں کہ رات دن کا خیال نہ رہا ، نہ ہی آرام وسکون کی خواہش رہی بلکہ صرف ایک ہی فکر تھی کہ لوگ ایمان لے آئیں ۔

آپ ﷺ نے اپنے اس مشن کو مثال کے ذریعے سمجھایا کہ :

إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَتِ الذُّبَابُ وَالفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهَا وَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهَا ([15])

’’ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اُٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں (اسی طرح) میں تمھیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑے ہو۔‘‘

دعوت الی اللہ انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے جو کہ امت مسلمہ ان کے نائب ہونے کی حیثیت سے ادا کر رہی ہے لہٰذا لازم ہے کہ منہج دعوت بھی انبیاء علیہم السلام کا ہو خصوصاً رسول اللہ ﷺ کا کہ جس دعوت کے پیچھے یہ بنیادی مناہج کارفرما نہ ہوں گے وہ نہ صرف اپنی تاثیر کھو دے گی بلکہ باعث جنگ وجدل اور عداوت بن کر اُبھرے گی۔

قرآن مجید کے اسالیب دعوت واستدلال

قرآن مجید وہ ابدی دستورحیات ہے جس کے قوانین ہمہ جہت ہیں۔ وہ انسانی زندگی کے جملہ مسائل کے لیے منبع ہدایت ورشد ہے اس کا اپنا مخصوص اسلوب بیان ہے جس کا بنیادی ہداف دلوں کومسخر کرکے صراط مستقیم پر گامزن کرناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مفاہیم انسانی کو تبدیل کرنا انتہائی محنت طلب کام ہے جس میں ذہانت کے ساتھ ساتھ مخاطب کی نفسیات سے واقفیت انتہائی ضروری ہے تاکہ نئی بات کو قبول کرنے یا اس پر غور کے لیے اسے ذہنی طور پر تیا کیا جاسکے۔ لہذا قرآن نے بھی دعوت کے تین بنیادی اسالیب بیان فرمائے ہیں۔پہلے کا نام حکمت، دوسرے کا نام موعظہ حسنہ اور تیسرا جدال بطریق احسن ہے۔

قرآن کے ان تینوں اسالیب کے حوالے سے مسلمان متکلمین لکھتے ہیں کہ :

’’تبلیغ ودعوت کے یہ تین اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عموماً کام میں لائے جاتے ہیں یعنی ایک تو برہانیت جن میں یقینی مقدمات کے ذریعے دعوے کے ثبوت پر دلائل لائے جاتے ہیں۔دوسرے خطابیات جن میں مؤثر اور دلپزیر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتاہے۔تیسرے مناظرات جن میں عموماً علمی اور الزامی جوابات کے ذریعے اپنے موقف کی حمایت کی جاتی ہے اور دوسرے کو اس کا قائل کیا جاتا ہے۔قرآن پاک نے پہلے طریق کو حکمت ، دوسرے کو موعظہ حسنہ اور تیسرے کو جدال سے تعبیر کیا اور استدلال کے یہی وہ تین طریقے ہیں جن سے ایک شخص دوسرے کے سامنے اپنے مدعا کو ثابت کرتاہے۔ ‘‘ ([16])

ذیل میں ان تینوں بنیادی اسالیب دعوت کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے:

1۔ حکمت

’’لفظ حکمت ’’ح ک م ‘‘ سے مشتق ہے اسی مادے سے دوسرا اسم ’’حکم‘‘ ہے۔ لغت نوسیوں نے ’’حکمت‘‘ اور حکم کو ہم معنی اور مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفاتی الحکم ، الحاکم اور الحکیم اسی سے مشتق ہیں ۔‘‘ ([17])

والحِكْمَةُ عِبَارَةٌ عَنْ مَعْرِفَةِ أَفْضَلِ الأَشياء بِأَفْضَلِ الْعُلُومِ. وَيُقَالُ لمَنْ يُحْسِنُ دَقَائِقَ الصِّناعات ويُتقنها ([18])

’’حکمت افضل ترین علوم کے ذریعے افضل ترین اشیا(کے حصول سے) عبارت ہے اور جو شخص مختلف امور وافعال کو اچھے طریقے سے انجام دیتاہے اور اس میں مہارت رکھتاہے تو اسے حکیم کہاجاتاہے۔‘‘

تاج العروس میں اس سے مراد :

الحِكْمَةُ: (العِلْمُ) بحَقائق الأَشْياءِ على مَا هِيَ عَلَيْه، والعَمَلُ بُمُقْتَضاها ([19])

’’حکمت اشیا کی حقیقت کو ان کی اصلیت کے مطابق جاننا اور اس علم کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے۔‘‘

امام راغب اصفہانی علم وعقل کی حق سے مطابقت کو حکمت قرار دیتے ہیں :

والحِكْمَةُ: إصابة الحق بالعلم والعقل ([20])

’’ الحکمہ کے معنی علم وعقل کے ذریعے حق بات دریافت کرلینے کے ہیں۔‘‘

سید سلیمان ندوی حکمت کی تشریح بیان کرتے ہیں :

’’اصل حکمت نبوی ﷺ وہ نور نبوت اور الہامی معرفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب وسینہ میں ودیعت کیا تھا اور چونکہ نبی اکرم ﷺ کے سنن واقوال آپ ﷺ کی اسی ودیعت شدہ حکمت نبوی ﷺ کی پیداوار آثار ونتائج ہیں اس لیے ان پر بھی حکمت کا اطلاق جائز ہے۔‘‘([21])

مختلف مفکرین نے حکمت کی تعریفیں مختلف زاویوں سے پیش کی ہیں جن میں قول وفعل کی پختگی اور درستگی ، علم وعقل کے ذریعے اشیا کی حقیقتوں کی شناخت یا اشیاکو ان کے صحیح موقع ومحل پر رکھنا ہے۔ قرآن پاک میں حکمت سے مراد وہ دعوت کاطریقہ ہے جس میں مندرجہ بالا تمام خصائص موجود ہوں جو مخاطب کے دل پر اثر انداز ہوسکے۔

اسی لیے وہ فہم ثاقب جو صحیح ملت ومذہب کی طرف راہنمائی کرے اور وہ ملکۂ راسخہ جس سے دارین کی فلاح ونجات کی راہ ہاتھ آئے’’حکمت‘‘ کہلاتاہے۔‘‘([22])

قرآن مجید میں لفظ ’’حکمت‘‘ بیس مرتبہ متفرق آیات میں مختلف سیاق وسباق کے ضمن میں وارد ہوا ہے۔ قرآنی آیات سے یہ واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کی راہنمائی کے لیے جب بھی نبی مبعوث فرمایا ان کو دو چیزیں کتاب اور حکمت ضرور دی گئیں۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوتاہے :

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ([23])

’’اور یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے۔‘‘

مذکورہ آیت سے معلوم ہوتاہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو کتاب کے ساتھ حکمت عطا کی گئی تھی جس سے یہ اچھی طرح واضح ہوتاہے کہ کتاب اور حکمت دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن ان کے اور ان کے تعلیم کے مابین نہایت گہرا اور مضبوط تعلق ہے کتاب اللہ کی تعلیم کے لیے جس طرح حکمت کا وجود ضروری ہے اسی طرح حکمت کی تعلیم کے لیے بھی کتاب اللہ کا وجود بھی ضروری ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کتاب کی تعلیم اور حکمت کی تعلیم اپنے مقصدا ور نتیجے کے لحاظ سے ایک ہیں۔ قرآن حکیم میں یعلمہم الکتاب والحکمۃ کی ترکیب اس پر دلالت دیتی ہے کہ حکمت کی تعلیم کتاب اللہ کی تعلیم کے تابع ہے اور اس میں داخل ہے ورنہ حکمت کے ساتھ ’’یعلمہم‘‘ کا لفظ دوبارہ استعمال کیا جاتا اور پھر چونکہ قرآن کریم اس حکیم ذات کی طرف سے ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں لہذا قرآن مجید کی ہر تعلیم حکمت پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ اسے متعدد مقامات پر کتاب حکیم سے تعبیر فرمایا گیا۔ ([24])

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حکمت کو خیر کثیر سے تعبیر کرتے ہیں جس سے اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ([25])

’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتاہے اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔‘‘

قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ حکمت نبوت کا لازمی جز ہے جس کو دعوت دین میں ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔

داعی کے لیے حکمت کا مأخذ قرآن کریم کی آیات مبارکہ اورمیرے حبیب ﷺ کی ذات عالیہ ہے یوں تو قرآن مجید کی ہر آیت حکمت سے منور ہے مگر چند پہلوؤں کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہاہے۔

۱۔ واضح اور روشن دلائل

دعوت وتبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مضامین دعوت انتہائی واضح،سلیس اور مدلل ہوں۔ یعنی اپنے مقصود ومطلوب کو بہ وضاحت بیان کرنے والا ہو۔ قرآن کریم کی پہلی صفت یہ ہے کہ اس کی آیات واضح ومبین ہیں ۔قرآن مجید کے بے شمار صفاتی ناموں میں سے البینہ اور الفرقان بھی ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے :

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ([26])

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘

مزید سورۃ المائدہ میں فرمایا گیا :

قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ([27])

’’تحقیق آگیا آپ کے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین۔‘‘

ہدایت نامہ ہونے کے لیے ضروری تھا کہ اندازِ بیان عام فہم ہو ، دلائل تکلف سے بالاتر ہوں ، عامیانہ اور غیر مانوس الفاظ سے پاک صاف ہو۔ لہذا داعی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا کلام انتہائی سادہ،سلیس ، صاف اور دلکش ہو جو کہ مخاطب کے دل پر اثر انداز ہو۔ معلم حکمت نبی اعظم ﷺ کے کلام کی جامعیت اور انداز حکمت کے بارے میں ام معبد فرماتی ہیں :

حُلْوُ الْمَنْطِقِ فَصْلٌ لَا نَزْرٌ وَلَا هَذْرٌ كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتٌ نُظِمْنَ وَكَانَ جَهِيرَ الصَّوْتِ حَسَنَ النَّغَمَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ([28])

’’آپ ﷺ شیرین زباں تھے ، آپ ہر بات واضح بیان فرماتے، آپ نہ قلیل الکلام تھے نہ کثیر الکلام آپ کی گفتگو ایک لڑی میں پروئے گئے موتیوں کی مانند تھی آپ کی آواز بلند تھی اس میں خوبصورت نغمگی پائی جاتی تھی۔‘‘

۲۔ جبر واکراہ سے اجتناب

دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں کوئی جبر نہیں بلکہ یہ قلب ونظر میں تبدیلی کا نام ہے لہذا داعی کے لیے بھی ضروری ہے کہ نہ تو وہ اپنی بات دوسروں پر مسلط کرے اور نہ ہی کسی کو مجبور کیا جائے کیونکہ زبردستی کرنے سے عارضی طور پر کوئی قبول کر بھی لے لیکن عمل وعقیدہ میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی جس سے تبلیغ کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے۔ اس کی واضح مثال قرآن کریم میں موجود ہے کہ جب قوم موسیٰ علیہ السلام نے نافرمانی کرتے ہوئےمطالبہ کیا تھا کہ ہم ہرگز اس کتاب الٰہی پر ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں اس نافرمانی کے نتیجے میں ان پر کوۂ طور معلق کیاگیا جس کے خوف سے وقتی طور پر انھوں نے زبان سے اقرار تو کیا مگر عملاً نافرمانی کا مظاہرہ کیا ۔ فرمان الٰہی ہے :

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ([29])

’’ پھر ذرا اس میثاق (پختہ عہد) کو یاد کرو جو طور کو تمھارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جوہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو (تمھارے اسلاف نے) کہا کہ ہم نے سن لیا مگر مانیں گے نہیں۔‘‘

ثابت ہوا کہ جو کام دل کی رضا سے نہ ہو وہ عارضی اور ناپائیدار ہوتاہے اسی لیے قرآن حکیم نے جبر اور زبردستی کی سختی سے ممانعت کی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لیے کسی بھی قسم کے تشدد کا راستہ اختیار نہ کیاجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ([30])

’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے راہ حق واضح فرمادی ہے اور لوگوں کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ جو چاہیں راستہ اختیار کر لیں ۔مزید اللہ تعالیٰ نے سورۃ الغاشیہ میں میرے حبیب ﷺ کی منصبی ذمے داری بیان کرتے ہوئے فرمایا :

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ ([31])

’’ نبی ﷺ آپ نصیحت فرما دیجیے کیونکہ آپ صرف نصیحت فرمانے والے ہیں اور ہم نے آپ ﷺ کو لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا سوائے جو اعراض کرے اور انکار کرے تو ان کو ہماری طرف ہی پلٹنا ہے اور پھر یقیناً ہمارے ذمےہے ان کا حساب کرنا۔‘‘

اسی طرح قرآن مجید کی بے شمار آیات میں یہ وضاحت فرمادی گئی ہے کہ احتساب کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ جو محتسب بنے گا وہ پھر سزا بھی دے گا جس سے مزید اختلاف ونزاع کا ماحول پروان چڑھے گا۔

داعی اعظم محمد ﷺ نے بھی انھی قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے کبھی کسی کا احتساب نہ کیا نہ سزا دی بلکہ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے۔

۳۔ صبر وتحمل اختیار کرنا

قرآن وسنت سے ثابت ہے کہ دنیا تکالیف ومصائب کی جگہ ہے اور قدم قدم پر آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خصوصی طور پر کارِ دعوت میں بارہا ایسے مسائل آتے ہیں جہاں بھلائی کا جواب برائی سے ملتاہے۔ ایسے میں داعی کے لیے صبر واستقامت بے حد ضروری ہے۔

دوران دعوت انبیاء کو طرح طرح کی مشکلات پیش آئیں لیکن انھوں نے جوابی کارروائی کے بجائے ہمیشہ صبر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی جب دعوت کا عمل شروع کیا تو آپ ﷺ کو بے پناہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انتہائی ناموافق حالات میں بھی آپ ﷺ کی عظیم اخلاقیات میں ذرّہ برابر بھی فرق نہ آیا اور صبر وتحمل کے اس قرآنی پیغام کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ([32])

’’ اور جو باتیں لوگ بنارہے ہیں ان پر صبر کرو اور اچھے طریقے سے ان سے الگ ہوجاؤ۔‘‘

قرآن حکیم میں ’’حکمت‘‘ کے بے شمار درخشاں پہلو ہیں جن میں سے چند کا انتخاب کیاگیا ہے یہ باور کرانے کے لیے کہ اگر طریقہ قرآن سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کیا جائے گا تو کبھی بھی ثمرآور نہ ہوگا۔ انبیاء ورسل نے غیر معمولی حالات میں اصل دعوت کو کبھی نہ بدلا البتہ حالات وضروریات کے تحت مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے بعض دفعہ طریقۂ کار میں تبدیلیاں کیں جو کہ حکمت عملی کا ہی حصہ اور کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔

2 ۔موعظہ حسنۃ

دعوت قرآنی کا دوسرا بنیادی اصول ’’موعظۃ حسنۃ‘‘ ہے۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ :

’’وعظ سے مراد ایسی زجر وتوبیخ ہے کہ جس میں خوف کی آمیزش ہو مگر جب قرآن نے اس کو’’حسنۃ‘‘ کے ساتھ موصوف کر دیا تو اب اس کے معنی ہیں :

هو التّذكير بالخير فيما يرقّ له القلب ([33])

’’ خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا کہ جس سے دل میں رقت پیدا ہو۔‘‘

عبد القاہر جرجانی فرماتے ہیں :

الموعظة: هي التي تلين القلوب القاسية، وتدمع العيون الجامدة، وتصلح الأعمال الفاسدة ([34])

’’خیر کا وہ تذکرہ کہ جس سے سخت دل نرم ہوں، آنکھیں اشکبار ہوجائیں اور بداعمالیوں کی اصلاح ہو جائے ۔‘‘

موعظۃ حسنۃ کا تعلق الفاظ وبیان کی خوبیوں سے ہے جس سے کہ داعی کے کلام میں وہ اثر پیدا ہو جو دلوں کو گرما دے۔ مولانا ابو الاعلی مودودی رقم طراز ہیں :

”عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو ۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔“([35])

یعنی موعظہ حسنۃ کلام کی وہ خاصیت ہے کہ جس میں دردمندی اور خیرخواہی کا عنصر کارفرما ہوتاہے۔ جس میں محض دلائل کا انبار ہو بلکہ اخلاص ومحبت سے سیراب ہو جس میں مفہوم ومقصود کو دلوں میں اتارنے کے لیے ایسے مناسب موزوں الفاظوں کا چناؤ کیاجائے کہ جن کے بعد مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت نہ رہے۔

قرآن مجید کے بے شمار صفاتی ناموں میں سے ایک نام موعظہ ہے جو کہ قرآن کریم میں نو (9) مرتبہ وارد ہوا ہے۔فرمان الٰہی ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ ([36])

’’اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔‘‘

مزید فرمایا گیا : هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ([37]) ’’یہ(قرآن) لوگوں کے لیے ایک کھلا پیغام اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔‘‘

قرآن کریم نے اسی معنی میں اپنے آپ کو موعظہ قرار دیا ہے کہ وہ حکیمانہ انداز کے ساتھ ساتھ خیرخواہی ومحبت کے جذبے سے سرشار ہے۔ قرآن کریم کی ہر آیت موعظہ حسنۃ کا منہ بولتا ثبوت ہے البتہ چند پہلوؤں کو ذیل میں نمایاں کیاجائے گا۔

۱۔ نرمی اور شیریں کلامی

انسان کی فطرت ہے کہ وہ احسان کی جانب مائل ہوتاہے جبکہ سختی اور شدت اسے متنفر کرتی ہے اور گناہ پر اصرار کا جذبہ مزید بھڑکتاہے۔ رفق اللہ تعالیٰ کی مبارک صفات میں سے ہے اور یہی نرمی آپ نے انبیاء علیہم السلام کو دے کر دنیا میں بھیجا اور تاکید کی کہ وہ نرم دلی اور شیریں زبان اختیار کریں جناب موسیٰ علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے نرم گفتگو کی تاکید کی گئی :

اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى([38])

’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے۔‘‘

داعی کو ہر موقع پر نرمی اور شفقت اختیار کرنی چاہیے زبان کی نرمی اورشفقتِ قلبی دو بنیادی محرک ہیں مخاطب کو متأثر کرنے کے۔ رسول اللہ ﷺ میں یہ صفات بدرجہ اتم موجود تھیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص محفل نبوی ﷺ میں آتا تو متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا خالق کائنات نے آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ([39])

’’آپ اللہ کی رحمت سے ان لوگوں کے لیے نرم ہوگئے اگر آپ تند زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔‘‘

یہاں یہ نقطہ بھی ذہن نشین رہے کہ زبان کی نرمی میں تصنع اور بناوٹ کا پہلو نہ ہو بلکہ دل مدعو کی خیرخواہی اور محبت سے معمور ہو جس کا اظہار نرم زبانی سے ہوگا۔ اسی لیے قرآن حکیم نے بھی تعلیم دی۔

وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا([40]) ’’اور لوگوں سے بھلی بات کہنا ۔‘‘

ان آیات سے واضح ہوتاہے کہ عمدہ بات چیت،شائستہ انداز اور شیریں کلامی ہر داعی کا وصف ہونا چاہیے۔

۲۔ مختصر اور بلیغ

قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت ایک ایسا معجزہ ہے جو اعدائے دین کے لیے رہتی دنیا تک چیلنج کی حیثیت رکھتاہے۔

فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ ([41]) ’’تو لے آیئے ایک سورت اس کی مانند۔‘‘

قرآن کریم کے مختلف انداز واسالیب ہیں۔ علماء کے نزدیک یہ فرق حالات اورمخاطبین کے اختلاف کی وجہ سے ہے جب مقصد مخاطبین کے عقائد کی درستی اور اعمال واخلاق کی اصلاح ہے تو طویل احکام وقوانین نظر نہیں آتے بلکہ استعارات،تشبیہات اور تمثیلیں زیادہ ہیں۔ توحید ، رسالت وآخرت کے اثبات اورحشرونشر کی منظر کشی عموماً مختصر سورتوں میں کی گئی ہے۔ مثلاً سورۃ الفیل ایسے واقعے کا بیان ہے جو ولادت رسول اعظم ﷺ سے پہلے پیش آیا تھا مگر اُس کی منظر کشی آج 14 صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پڑھنے والوں کے لیے عینی شاہد کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی طرح سورۃ القارعہ میں قیامت کی منظرکشی اور جزا وسزا کو انتہائی بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کلام میں اختصار وجامعیت ہی اُس کا حسن ہے۔

نبی کریم ﷺ کے دعوتی خطبات میں بھی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اختصار کی جھلک نمایاں ہے۔ آپ ﷺ کے خطبات واضح،دوٹوک اور مختصر ہوتے تھے۔آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صحابۂ کرام بھی مختصر وبلیغ خطبے دیا کرتے تھے۔

ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمار بن یاسر نے ہمیں فصیح وبلیغ خطبہ دیا۔ لوگوں نے اس بیان کی خوب تعریف کی لیکن وہ بیان انتہائی مختصر تھا، لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ آپ مزیدفرمائیں تو آپ نے فرمایا : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ ([42]) ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ نماز کو طول دینا اور خطبہ کو مختصر کرنا انسان کی سمجھ کی علامت ہے پس تم نماز کو لمبا اور خطبہ کو مختصر کرو۔‘‘

داعی کا مقصد عام فلسفیوں کی مانند محض دلائل کے انبار اور مسجع ومقفیٰ گفتگو سے مخاطبین کو مرعوب کرنا نہیں ہے بلکہ مدعو کی اصلاح وخیر خواہی ہے۔

۳۔ قصص وامثال سےمعاونت

تعلیمات الٰہی کا مقصد فلاح انسانیت ہے لہذا باری تعالیٰ نے تعلیمات کی صداقت وحقانیت کے ساتھ مختلف اسالیب بیان بھی اختیار فرمائے ہیں تاکہ انکار کے اسباب کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انھی طریقوں میں سے قصص وتمثیلات ہیں یہ بالواسطہ طریقہ تذکیر فطرت انسانی سے قریب تر ہونے کے باعث انتہائی مؤثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار دقیق مضامین کو تمثیلی انداز میں بیان فرمایاگیاہے مثلاً : انفاق فی سبیل اللہ کے اجر کی وسعت بیان فرمائی گئی :

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ([43])

’’ جو لوگ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس نے سات خوشے اُگائے ہوں اور ہر خوشے میں سودانے ہوں۔‘‘

مال خرچ کرنے کا اجر اس قدر ہونا عقل انسانی سے بعید ہے لہذا معنوی بات کو بہترین مثال کے ذریعے سمجھایاگیا۔

3۔ جادلہم بالتی ہی احسن

لفظ ’’الجدل‘‘جَادَلَ سے مشتق ہے جس کے معنی نزاع،بحث، کٹ حجتی ہے۔ المجادلۃ علم مناظرہ میں ایسی بحث ہے جس کا مقصد اظہار حق کے بجائے مقابل کو الزام دینا اور خاموش کر نا ہو مباحثہ مع دلائل۔ ([44])امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ:

الجِدَال، فكأنّ المتجادلين يفتل كلّ واحد الآخر عن رأيه ([45]) ’’الجدل(مفاعلہ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا کے ہیں جس میں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

مفتی شفیع عثمانی رقم طراز ہیں : ’’مجادلہ سے مراد بحث ومناظرہ ہے اوربالتی ہی احسن سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثہ بھی اچھے طریقے سے ہونا چاہیے۔‘‘([46]) یعنی مناظرہ محض ذہنی دنگل نہ ہو جس میں الزام تراشیاں ہوں جس کا مقصد محض حریف کو چپ کرادینا اور اپنی علمیت کا ڈنکا بجا دینا نہ ہو بلکہ شیریں کلامی،موزوں الفاظ کے ساتھ معقول دلائل ہوں جس میں بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو۔مولانا محمد حنیف ندوی فرماتے ہیں کہ :

’’دعوت وابلاغ میں ایک منزل ایسی آجاتی ہے جہاں مجادلہ کی ضرورت پیش آتی ہے..... اس صورت میں قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ داعی الی اللہ مجادلہ کے لیے ایسا اسلوب اختیار کرے جو احسن ہو۔ احسن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی طرف بلانے والا دلیل کے بجائے مدلول پر نظر رکھے اور ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرے جس سے سامع کے شکوک وشبہات پر براہِ راست زد پڑتی ہو۔‘‘([47])

یعنی لطف ونرمی کے ساتھ ایسے دلائل پیش کیے جائیں جو مشہور ومعروف ہوں ۔ قرآن کی تعلیم یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے مجادلے کی ضرورت پیش نہ آئے اور جب نوبت پہنچ جائے تو اس میں کج روی نہ ہو ، ایسی دل آزار باتیں نہ ہوں کہ معاملہ طول کھینچے۔غیر ضروری ابحاث سے گریز کرتے ہوئے حسن خطابت اور دل نشین کلامی کا خاص خیال کیا جائے۔ قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے کفار کے ساتھ مجادلات سے بھرا ہوا ہے جن میں سے چند مثالوں کا ذیل میں تذکرہ کیاجارہا ہے۔

۱۔ مشترکہ امور پر گفتگو کرنا

قرآن حکیم کی تعلیمات سے پتہ چلتاہے کہ تمام انسان ایک ہی مذہب وملت کے پیروکار تھے مگر آپس کے عنادواختلافات نے گروہ بندی پیدا کردی اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا جس نے آگے چل کر ظلم وفساد کی صورت اختیار کر لی۔ ایسی صورتحال میں انبیاء مبعوث کیے گئے تاکہ وہ راہِ حق بتائیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ([48])

’’ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی گروہ تھے (پھر ان میں اختلاف پیدا ہوا) پس اللہ نے یکے بعد دیگرےنبیوں کو مبعوث کیا(وہ نیک عمل کے نتائج کی) بشارت دیتے اور(بدعملی کے نتائج ) سے متنبہ کرتے نیز ان کے ساتھ الکتاب نازل کی تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے ان میں وہ فیصلہ کر دینے والی ہو۔‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی مذہب وملت پر پیدا فرمایا ، تمام آسمانی کتب کو ایک ہی ’’الکتاب‘‘ قرار دے کر باور کرایا کہ تمام کا تصور حیات جزوی احکام میں قدرے فرق کے ساتھ ایک ہی تھی مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے دین الٰہی سے انحراف کیا اور نیا دین بناتے چلے گئے جو کہ دین اسلام کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔

قرآن مجید نے بارہا اور قطعی لفظوں میں اس حقیقت کا اعلان فرمادیا کہ وہ کوئی نیا دین لے کر نہیں آیا بلکہ تمام نزاع واختلافات کو ختم کرکے سب کو اسی راہ پر جمع کرنے آیا ہے جو متفقہ اور مشترکہ ہے وہ تفریق بین الرسل والکتب کو سب سے بڑی گمراہی قرار دیتاہے اور ایک مسلمان کے لیے ضروری قرار دے دی کہ وہ تمام پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں پر ایمان لائے چنانچہ سورہ ٔ بقرہ میں ارشاد ہوا :

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ([49]) ’’اور جو اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل کی گئی اور جو تم سے قبل۔‘‘

جب تمام مذاہب کی اساس مشترکہ ہے تو قرآن نے اسی متفقہ راہ کو دعوت کی بنیاد قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے ذریعے یہ تعلیم دی :

قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ([50]) ’’ کہہ دو کہ اے اہل کتاب اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے۔‘‘

امور مشترکہ دلوں کی قربت کا سبب ہیں جس کو قرآن ’’تالیف قلب ‘‘ کا نام دیتاہے۔ حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ مکمل انکار کرنے کے بجائے مفاہمتی رویہ اپنایا جائے جیسے کہ قرآن کریم نے تمام مذاہب کے افکار کا انکار نہیں کیا بلکہ ان بنیادی صداقتوں پر اشتراک کی دعوت دی جو انسانوں میں باہم موجود ہوتی ہیں مختلف مذاہب کے ساتھ یہ مکالمہ تصادم کو ختم کرنے اور اشاعت اسلام میں انتہائی مددگار ہوگا۔

۲۔ مخاطب کو پہلے دلائل پیش کرنے کا موقع دینا

انسانی فطرت ہے کہ وہ جب تک اپنا مدعا بیان نہ کردے دوسرے کی بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اسی لیے کسی بھی مکالمے یا اختلاف کی صورت میں حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ سامنے والے کو پہلے اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے ہمیں ملتاہے۔ جب جادوگر اور موسی ٰ علیہ السلام آمنے سامنے ہوئے تو جادوگروں کوپہلے اپنا کرتب دکھانے کا موقع دیاگیا ۔

سورۂ الاعراف میں ارشاد ہوتاہے : قَالُوا يَامُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ([51]) ’’جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پہلے اپنا کرتب دکھائیں گے یا ہم پہل کریں انھوں نے فرمایا آپ ہی ڈالو ، جب انھو ں نے اپنا کرتب دکھایا لوگوں کی آنکھوں کو سحرزدہ کردیا اور بڑی جادوگری کا مظاہرہ کیا۔‘‘

جب مخاطب کی بات پہلے سنی جائے گی تو اُس سے اس کا مدعا بھی کھل کر سامنے آئے گا جس سے تصحیح کرنا انتہائی آسان ہوتا چلا جائے گا۔مزید قرآن کریم سے ثابت ہے کہ منکرین کے اعتراضات کم وبیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور ان کے پاس سوائے چند باتوں کے کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا گیا :

كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ([52])

’’یونہی جب ان سے اگلوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو یہی بولے کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ، کیا آپس میں ایک دوسرے کو یہ بات کہہ کر مرے ہیں بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں۔‘‘

یعنی تمام انبیاء علیہم السلام کی قوموں کےاعتراضات ایک جیسے ہی تھے گویا کہ ہر قوم دوسری کو یہ وصیت کرکے گئی ہو لہذا داعی کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ مخاطب کو پہلے موقع دے کر اس کے اعتراض کو سن لیں۔

۳۔ مخاطب کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھنا

مجادلہ احسن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دلیل کے ساتھ ساتھ مدلول کی ذہنی سطح بھی مدنظر رہے اور ایسا طریق اختیار کرے جس سے سامع کے شکوک وشبہات کو دورکیاجاسکے۔ اس کی بہترین مثال جناب ابراہیم علیہ السلام اور اس دور کے بادشاہ کے واقعے سے ملتی ہے۔سورۂ بقرہ میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوتاہے کہ جب بادشاہ کو ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تو اس نے سوال کیا کہ ’’کون پروردگار؟‘‘ کیونکہ وہ خود کو رب کہلواتا تھا اس پر جناب ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا :

رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ([53]) ’’ میرا پروردگار وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل کا منشا یہ تھا کہ میں اس رب کی عبادت کرتاہوں جس نے تخلیق وآفرینش کے اس نظام کو قائم کیا ہے مگر اس نے کج بحثی کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے تو میں بھی کرتا ہوں۔مطلق العنان حاکم کی حیثیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی منشا سمجھ گئے کہ وہ جذبۂ عناد کے تحت لوگوں کو گمراہ کررہاہے۔ آپ نے مجادلہ بطریق احسن کی راہ اختیار کرتے ہوئے اب ایسی دلیل پیش کی کہ جس کی توجیہہ ناممکن ہوآپ نے فرمایا :

فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ ([54]) ’’ اللہ تو سورج مشرق سے نکالتا ہے تم مغرب سے نکال کردکھاؤ۔‘‘

یہ سن کر بادشاہ حیران اور لاجواب ہوگیا۔ اس طریقے پر آپ نے بادشاہ کی خدائی کی نفی کر دی اور خدائے رب ذوالجلال کی عظمت وصداقت کو ثابت کر دیا جب ایک دلیل مؤثر نہ ہو تو بجائے اس کے کہ اسی پر زُور دیاجائے اس کو چھوڑ کر دوسری مؤثر دلیل اختیار کی جائے یہی بہترین حکمت عملی ہے۔

حاصل کلام

اسلام چند رسومات وعبادات کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ یہ وہ دین ہے جو انسان کے فکر وعمل میں تحریک پیدا کرکے انفرادی واجتماعی زندگیوں پر اثر انداز ہوتاہے۔یہ وہ دعوت ہے جو بھٹکی ہوئی انسانیت کو نورِ الٰہی سے منور کرتی ہے جس کے ذریعے معاشرہ صراط مستقیم پر گامزن ہوتاہے۔ انبیاء علیہم السلام اس دعوتی تحریک کے اصل قائدین ہیں جنھوں نے راہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور رسول اللہ ﷺ اس عظیم تحریک کے آخری قائد ہیں لہذا آپ ﷺ فلاح کا آفاقی پروگرام لے کر مبعوث ہوئے جس کے اصول وقواعد سے ہر دور میں استفادہ ممکن ہے۔

آپ ﷺ چونکہ دنیا کی تمام اقوام کی طرف مبعوث فرمائے گئے لہذا اب یہ امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ انسانیت کو ان تعلیمات سے روشناس کرائے اسی حکمت عملی کے ساتھ جو قرآن اور اسوۂ نبوت ﷺ سے ثابت شدہ ہوں۔

’’امت محمدیہ کے مزاج کے مطابق یہ ضروری ہے کہ داعی،دعوت اور طریق دعوت تینوں چیزیں ٹھیک ٹھیک طریق نبوت اور اسوۂ نبوت کے مطابق ہوں، داعی خود بھی قلباً اور قالباً داعی اول محمد ﷺ سے نسبت رکھتا ہو ، جس حد تک یہ نسبت قوی ہوگی دعوت میں تاثیر اور کشش اتنی حد تک زیادہ ہوگی۔“ ([55])

داعیان اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیمات الٰہی اور سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں دعوت وتبلیغ کے طریق کار متعین کریں۔ اس حوالے سے درج ذیل نکات کو مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت ہے۔

1۔پیغمبرانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے مدعو سے محبت اور خیر خواہی کو بنیاد بنایا جائے۔

2۔مضامین دعوت واضح اور دلائل روشن ہوں جو کہ مدعو کی ذہنی سطح ونفسیات کے مطابق ہوں بصورت دیگر اصلاح کے بجائے فساد کا سبب بن سکتاہے۔

3۔ایسا اسلوب اختیار کیا جائے جس سے لوگ اُکتا نہ جائیں اور ان کی دلچسپی برقرار رہے۔

4۔دعوت ایک کل وقتی عمل ہے لہذا داعی کے لیے موقع شناس ہونا ضروری ہے۔ جونہی مناسب موقع میسر آئے وہ اس سے بھرپور فائدہ حاصل کرے۔

5۔جبرواکراہ اور شدت پسندی سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اپنے کردار سے دعوت پیش کرے جس سے لوگ خودبخود راغب ہوں۔

6۔ہر ایسے قول وعمل سے اجتناب کریں کہ جس سے مدعو کی دل آزاری ہو۔ الفاظ کا مناسب وموزوں استعمال کیا جائے جس میں تحقیر وتمسخر کا شائبہ نہ ہو۔

7۔دعوت کی راہ میں آنے والی مشکلات پر صبرواستقامت کرنا کسی بھی صورت میں تشدد واشتعال کی راہ نہ اختیار کی جائے۔

8۔داعی کو ہر موقعے پر نرمی وشفقت اختیار کرنی چاہیے جو کہ تصنع اور بناوٹ سے پاک ہو۔

9۔اول حکمت اور موعظہ حسنہ کی بنیاد ہی پر دعوت دی جائے اور مجادلے کو صرف آخری حربہ کے طور پر آزمایا جائے ۔

10۔مجادلے کی صورت میں پیغمبرانہ اسلوب وآداب کی مکمل رعایت رکھی جائے۔تلک عشرۃ کاملۃ

ان تمام نکات کو ملحوظ رکھنے والی دعوت کے ثمرات یقینی طور پر ظاہر ہوں گے جسے کوئی عصری فتنہ شکست سے دوچار نہ کرسکےگا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ بنی اسرائیل : ۴۱
  2. ۔ النحل : ۱۲۵
  3. ۔ عبد اللہ الاوصیف ، ترجمہ : سطوت ریحانہ ، قرآن کریم میں استدلال کے مباحث ، تعمیر افکار قرآن کریم نمبر ۲ ، شمارہ ۸،۹،۱۰ ، جلد : ۱۱،ص ۳۷
  4. ۔ابراہیم مصطفی واصحابہ ، المعجم الوسیط (تحقیق مجمع اللغۃ العربیۃ) ۱/۵۹۴
  5. ۔ اصفہانی ، ابو القاسم حسین بن محمد ، المفردات في غريب القرآن ، مکتبۃ ذوی القربی ۱۴۲۸ھ، ص ۳۱۵
  6. ۔ ابن منظور الإفریقی أبو الفضل جمال الدین محمد بن مكرم بن على ، لسان العرب ، دار صادر ۔ بیروت، ۱۴/۲۵۹
  7. ۔ سيد الاهل ، عبد العزيز ، قاموس القرآن ، ادارة اللمعلم للملايين بيروت ، اپریل ۱۹۸۳ء ، ص ۸۳
  8. ۔ لسان العرب ، ۵/۲۰۲
  9. ۔ رازی، فخر الدین ، التفسیر الکبیر ، دار صادر بیروت، ۳/ ۲۰
  10. ۔ الأحزاب: ۴۵ ۔ ۴۶
  11. ۔ الانعام : ۱۶۳ ۔ ۱۶۴
  12. ۔ الزمر : ۲ ۔ ۳
  13. ۔ الشعراء : ۱۰۹
  14. ۔ الکہف : ۶
  15. ۔ الترمذي ، أبو عيسى محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك ، سنن الترمذي ، أبواب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب ما جاء في مثل ابن آدم وأجله وأمله،الحديث: ۲۸۷۴ ،دار الكتب العلمية بيروت، ۵/۱۵۴
  16. ۔ ثمینہ ایوب ، دعوت وتبلیغ کی حکمت تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں ، مقالات سیرت ۱۴۳۱ ھ / ۲۰۱۰ شعبہ تحقیق ومراجع وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان ۔ اسلام آباد ،ص ۳۹
  17. ۔ اظہر ، ڈاکٹر ظہور احمد ، پیغمبر حکمت ودانش ، مقالات سیرت ۱۴۰۷ھ / ۱۹۸۶ء شعبہ تحقیق ومراجع ، ص ۱۴۱
  18. ۔ لسان العرب ، باب المیم ، فصل الحاء ، ۱۲/۱۴۰
  19. ۔ محمد بن محمد عبد الرزاق الحسینی المرتضی الزبیدی ، تاج العروس من جواہر القاموس ،دار الہدایہ ، ۳۱/۵۱۲
  20. ۔ مفردات القرآن ، ص ۲۴۹
  21. ۔ ندوی ، سید سلیمان ، سیرت النبی ﷺ،دار الاشاعت کراچی ، ۴/۱۸
  22. ۔ سیوہاروی ، حفظ الرحمان ، مولانا ، اصول دعوت وتبلیغ ، طیب پبلشرز لاہور،۲۰۰۴ء ، ص ۲۳
  23. ۔ آل عمران : ۸۱
  24. ۔ طاسین ، محمد مولانا ، تعلیم حکمت سیرت طیبہ کی روشنی میں ، مقالات سیرت ۱۴۰۷ھ / ۱۹۸۶ء ، ص ۲۰۸
  25. ۔ البقرۃ : ۲۶۹
  26. ۔ البقرۃ : ۱۸۵
  27. ۔ المائدۃ : ۱۵
  28. ۔ أبو الفضل القاضي عياض بن موسى اليحصبي ، الشفا بتعريف حقوق المصطفى ، دار الفكر ۱۴۰۹ هـ - ۱۹۸۸ م ، ۱/۸۱
  29. ۔ البقرۃ : ۹۳
  30. ۔ البقرۃ : ۲۵۶
  31. ۔ الغاشیۃ : ۲۱۔۲۶
  32. ۔ المزمل : ۱۰
  33. ۔ مفردات فی غریب القرآن ، ص ۸۷۶
  34. ۔ الجرجانی ، عبد القاہر، التعریفات ، دار البیان للتراث ، بیروت ، ص ۳۰۵
  35. ۔ مودودی ، مولانا ابو الاعلی ، تفہیم القرآن ، مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ، ھند رام پور (یوپی)، ۲/۵۸۱۔۵۸۲
  36. ۔ یونس : ۵۷
  37. ۔ آل عمران : ۱۳۸
  38. ۔ طہ : ۴۳۔۴۴
  39. ۔ آل عمران : ۱۵۹
  40. ۔ البقرۃ : ۸۳
  41. ۔ البقرۃ : ۲۳
  42. ۔ صحیح مسلم ، کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ ، حدیث نمبر : ۲۰۰۹ ، ص۳۴۸
  43. ۔ البقرۃ : ۲۶۱
  44. ۔ کیرانوی، مولانا وحید الزمان قاسمی ، القاموس الوحید ، ادارہ اسلامیات لاہور کراچی جون ۲۰۰۱ء ، ص ۲۴۱
  45. ۔ مفردات ألفاظ القرآن ، ص ۱۸۹
  46. ۔ مولانا مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ، ادارہ المعارف کراچی ، طبع اول صفر ۱۳۹۲ھ ، ۵/۴۰۹
  47. ۔ ندوی ، محمد حنیف ، قرآن کے اسالیب دعوت واستدلال ، تعمیر افکار قرآن کریم نمبر ۲ ، مسلسل شمار ۱۰۱،اگست ، ستمبر ، اکتوبر ۲۰۱۰ء/۱۴۳۱ھ ، ص ۴۷
  48. ۔ البقرة:۲۱۳
  49. ۔ البقرة:۴
  50. ۔ آل عمران: ۶۴
  51. ۔ الأعراف: ۱۱۵۔ ۱۱۶
  52. ۔ الذاريات: ۵۲۔۵۳
  53. ۔ البقرۃ : ۲۵۸
  54. ۔ البقرۃ : ۲۵۸
  55. ۔ ندوی ، سید سلیمان علامہ ، اسلام کا نظام دعوت وتبلیغ ، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، ص ۱
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...