Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

مذہبی اجارہ داری کے انسداد میں مفسرین کی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_1150

Pages

81-99

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/130

Subjects

Religious monopoly Quranic commentators Society.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بنی نوع انسان کی معراج معرفت خداوندی کے حصول میں نہاں ہے۔قرب و معرفت کی منازل طے کرنے اور مقصود زندگی پانے کے لیےقدرت نےانسان کو اطاعت کا رستہ دکھایاہے۔ذات باری تعالی نےحضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو عالم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا مرکز و محور بنا کر مبعوث فرمایا اور ان کی اطاعت کوکامیابی کی سند قرار دیا ہے۔ان نفوس قدسیہ نےغیر معمولی اخلاص اور تقوی کی بدولت اپنے فرض منصبی کی ادائیگی نہایت احسن انداز میں سر انجام دی ہے۔ ان حضرات قدسیہ کے عالم فانی سے کوچ کرنے کے بعد اہل علمائے ربانیین ان کے وارثین بنے، جنہوں نے دیانت داری کے ساتھ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچایا ۔تقوی و اخلاص سے متصف حضرات علم و فضل کے دنیا سے عالم برزخ کی جانب انتقال کے بعد نا اہل افراد ان کے نائبین بن گئےہیں ، جنہوں نے خواہشات نفسانیہ کی تکمیل کو اپنا مقصد زیست بنا رکھا ہے، انہی افراد کو زبان رسالت سے ضال و مضل([1]) کا مصداق ٹھہرایا گیاہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حاملین قرآن و سنت نے جرأت مندی سے مذہب کو خواہشات نفسانیہ کی تکمیل کا ذریعہ بنانے والے نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی بدعات و خرافات کو بیان کیاہے، اور امت مسلمہ کی درست سمت میں رہنمائی بھی فرمائی ہے۔علم و عرفان سے متعلقہ ہر شعبہ کے علماء نے اپنے اپنے انداز میں ان جہلاء کےشر سےامت کو بچانے کیلیےبھر پور کردار ادا کیا ہے۔تاہم اہل تفسیر نے خوب شرح و بسط سے مذہبی اجارہ داری سے متعلقہ آیات کی توضیح و تشریح کی ہے۔ اور معاشرے میں مذہبی اجارہ داری کی مروجہ صورتوں کو زینت قرطاس بنایا ہے۔

مذہبی اجارہ داری کا مفہوم

مذہبی اجارہ داری سے مراد شرعی احکامات کے حوالے سےحلت و حرمت اور اباحت و کراہت کے اختیارات اپنے پاس روک لینا یا جمع کر لینا ہے ۔بالفاظ دیگر چند مخصوص افراد کے مجموعہ یا فرد واحد کا اپنی مرضی کے مطابق شرع کے احکام بیان کرنا مذہبی اجارہ داری کہلاتا ہے۔مذہبی اجارہ داری کا تصور سورہ توبہ کی آیت ۳۱ سے اخذ کیا گیا ہے۔اس آیت مبارکہ میں یہود ونصاری کااپنے اپنے علماء و مشائخ کو خدائی اختیارات دینے اور اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو خدا کا بیٹا مان لینے کا ذکر ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ذیشان ہے:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا([2])

”انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو (باعتبار اطاعت کے) رب بنا رکھا ہے حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود (برحق) کی عبادت کریں۔ “

حصول دنیا کی خاطر مذہب کو استعمال کرنا اُس دور کے اہل مذہب کا عمومی وطیرہ تھا۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ کے نبی جناب عیسی علیہ السلام علماء و صوفیاء سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وہ(اہل علم) جو کچھ کرتے ہیں محض دکھاوے کے طور پر کرتے ہیں کیونکہ وہ بڑے بڑے تعویذ پہنتے ہیں اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔وہ ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں۔اور چاہتے ہیں کہ لوگ بازاروں میں انہیں جھک کر سلام کریں اور ربّی کہہ کر پکاریں۔“([3])

اہل کتاب کے دین دار افراد میں پائی جانے والی اخلاقی برائیاں عصر حاضر کے نام نہاد اہل مذہب میں سرایت کر چکی ہیں۔اور مفاد پرستی ان کی زندگی کا مقصد اولین بن چکا ہے۔مولانا مودودی صالحین کے نا خلف جانشینوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

”جو لوگ رہنمائی کے لیے اٹھتے ہیں ان کی زندگی میں محمد ﷺ کی ادنی سی جھلک نظر نہیں آتی، کہیں مکمل فرنگیت ہے اور کہیں نہرو و گاندہی کا اتباع ہے، کہیں جبوں و عماموں میں سیاہ دل اور گندے اخلاق لپٹے ہوئے ہیں۔زبان سے وعظ اور عمل سے بد کاریاں، ظاہر میں خدمت دین اور باطن میں خباثتیں و نفسانی اغراض کی بندگیاں۔“([4])

علما و مشائخ کو خدا بنانے کا مفہوم

سورہ توبہ کی آیت ۳۱ کی توضیح و تشریح میں اہل تفسیر نے مذہبی اجارہ داری کا عملی مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں۔علامہ بغوی سورۃ توبہ کی آیت ۳۱ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

معناه أنّهم أطاعوهم في معصية اللّه واستحلّوا ما أحلّوا وحرَّموا ما حرّموا فاتّخذوهم كالأرباب([5])

اس آیت کا معنی ہے کہ انہوں (قوم یہود و نصاری)نے ان (اپنے علماء)کی اللہ کی نافرمانی میں اطاعت کی اور جس چیز کو ان کے علماء نے حلال کہا، اسے حلال جانا اور جس چیز کو ان کے علماء نے حرام کہا ، اسے حرام جانا گویا کہ انہوں نے اپنے علماء کو خدا بنا لیا۔

سورہ ہذا میں موجود اللہ تعالی کے فرمان ’’اہل کتاب نے اپنے علماء کو رب بنالیا‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

اتخاذهم أربابا أنهم أطاعوهم في الأمر بالمعاصي وتحليل ما حرم الله وتحريم ما حل الله كما تطاع الأرباب في أوامرهم([6])

اہل کتاب کے اپنے مشائخ کو رب بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ گناہ کے امور میں ان کی اطاعت کرتے تھے اور اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کی حلت اور اللہ تعالی کی حلال کردہ اشیاء کی حرمت میں ان کی ایسے اطاعت کرتے تھےجیسے خدا کا حکم مانا جاتا ہے۔

سورۃ التوبۃ کہ آیت ۳۱ کی تفسیر میں شیخ امین الھرری(ولد:۱۳۴۸ھ) لکھتے ہیں:

اتَّخَذُوا أي: اتخذ كل من اليهود والنصارى {أَحْبَارَهُمْ} أي: علماءهم {وَرُهْبَانَهُمْ} أي عبادهم {أَرْبَابًا} أي آلهة { مِنْ دُونِ اللَّهِ} سبحانه وتعالى، حيث أطاعوهم في تحليل ما حرم الله، كالربا والرشوة والخمر والخنزير، وتحريم ما أحل الله تعالى، كالسوائب والبحائر، أو في السجود لهم([7])

” یہودیوں اور عیسائیوں میں سے ہر ایک نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے اپنے علماء اور بزرگوں کو خدا بنا لیا تھا، بایں طور کہ اللہ تعالی عزوجل کی حرام کردہ اشیاء جیسےسود، رشوت، شراب اور خنزیر کی حلت میں اور اللہ تعالی کی حلال کردہ اشیاء جیسے سائبہ اور بحیرہ (جانوروں کے کھانے)کی حرمت میں ان(علماء و بزرگوں)کی اطاعت کرتےتھےیا ان کے لیے سجدہ کرنے کو جائز قرار سمجھتےتھے۔“

مفسرین کی نظر میں مذہبی اجارہ داری کی صورتیں

مفسرین نے اپنے اپنے زمانہ میں معاشرے میں پائے جانے والے مذہبی تسلط کی مختلف صورتیں اور شکلیں بیان فرمائی ہیں۔مختلف زبانوں میں متعدد اہل تفسیر نے مذہبی اجارہ داری کی اصطلاح استعمال کیے بغیر اس کی مروجہ صورتوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔جن میں سے کچھ اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔

نا اہل جانشین

نیکوں کے بعد نا اہل افراد ان کے جانشین بن جاتے ہیں اور مذہبی طبقے کی جانب سے لوگوں کے قلوب و اذھان میں یہ تصور پختہ کر دیا گیا ہے کہ علماء و صلحاءودیگر مذہبی افراد کی ہر چیز کی وارث ان کی اولاد ہے۔ چاہے لیاقت اور صلاحیت کے اعتبار سے ان کے جانشین افراد بصیرت سے محروم اور کردار بد کے حامل ہی کیوں نہ ہوں، عوام الناس کو دینی رہنمائی کے لیے انہی کی طرف رجو ع کرنا ہے۔حالانکہ یہ افراد اللہ تعالی کے احکامات کے تارک اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے مرتکب ٹھہرےان کی بد اعمالیوں کو بیان فرماتے ہوئے قرآن پاک گویاہے:

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ([8])

” پھر ان کے بعدوہ (یہودونصاری) کے غلط قسم کے جانشین بنے، جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کے پرستاربنے، پس وہ عنقریب دوزخ کے بدترین گڑھے میں گریں گے ۔“

تفسیر ابن ابی حاتم میں سورہ مریم کی آیت ۵۹ کی تفسیر میں حضرت کعب الاحبار رحمہ اللہ کا قول مروی ہے:

والله إني لأجد صفة المنافقين في التوراة شرابين للقهوات تباعين للشهوات لعانين للكعبات رقادين عَنِ العتمات مفرطين في الغدوات تراكين للصلوات تراكين للجمعات ثُمَّ تلا هذه الآية:{فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَلاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ}([9])

”اللہ کی قسم میں تورات میں منافقین کی نشانیاں پاتا ہوں (وہ یہ ہیں):وہ بہت زیادہ مشروبات پینے والے، شہوات کی پوجا کرنے والے، نیکوں پر خوب لعنتیں بھیجنے والے، راتوں کو خوب سونے والے، فضول خرچی کرنے والے، نمازوں کو ترک کرنے والے، جماعت چھوڑنے والے ہیں۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے۔“

سورہ مریم کی آیت ۵۹ کے مطابق نیک لوگوں کے جانشین برے لوگ بن جاتے ہیں جو برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی بھی گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔صالحین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے نا اہل جانشینوں کی بد اعمالیوں کے بیان میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث صحیحین میں وارد ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا([10])

”بے شک اللہ تعالی (دنیا سے )علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کی وفات سے (علم کو )اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو (لوگ) جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے ، تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

نیکوں کے نااہل جانشین غفلت کی بناء پر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جاتے ہیں، نمازوں کا ضیاع،خواہشات نفس کی پیروی اور بغیر علم کے لوگوں کی دینی رہنمائی ان کا شعار بن جاتا ہے۔جس کی بنا پر معاشرہ گمراہی کا شکارہو جاتا ہے۔

نا خلف جانشین اور امت کی ذمہ داری

نیکی کے امور میں وراثت کے اجراء کی بناء پر معاشرے کو میسر آنے والی مذہبی قیادت کے کردار کی وضاحت کے حوالے سے ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس امت میں بھی نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کے کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو کار رہے ہیں لیکن ان مخلصین کے بعد ایسے لوگ ان کے وارث بنے کہ :

يقولون ما لا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون فمن جاهدهم بيده فهو مؤمن ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن وليس وراء ذلك من الإيمان حبّة خردل([11])

”جن کےاقوال ان کے افعال کے خلاف اور ان کے افعال (اللہ و رسول عزوجل و ﷺ)کے حکم کے خلاف ہیں جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن ہے ، جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے دل ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔ “

رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر علم پیرا ہوتے ہوئےمفسرین اور شارحیں حدیث نے بالخصوص اپنی اپنی تحریرات و تقریرات میں مذہبی اجارہ داروں کی بد اعمالیوں کو ذکر کیا ہے تاکہ عوام الناس ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔دینی منصب پر فائز نا خلف افراد کو راہ راست دکھانے اور امت کو گمراہی سے نکالنے کے لیے صدائے حق بلند کرنا علماء امت کی ذمہ داری ہے۔اس فریضہ کو مفسرین اور شارحین حدیث نے بھر پور انداز میں سر انجام دیا ہے۔

تحریم و تحلیل کا اختیار

یہود ونصاری کے علماء اور ان کی عوام نے جس طرح اپنے علماء اور صوفیاء کو حلت و حرمت کا کلی اختیار دے کر انہیں خدا بنالیا تھا ، بعینہ عصر حاضر میں جاہل عوام نےاطاعت کے اعتبار سے نام نہاد اہل دین کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے، ان کی ہر جائز و ناجائز رائے کو تسلیم کرنا فرض عین سمجھتے ہیں۔بنی اسرائیل کے جہلاء پر نقد کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ([12])

”انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو (باعتبار طاعت کے) رب بنا رکھا ہے۔“

ابو جعفر طبری(۲۲۴۔۳۱۰ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

يعني: سادة لهم من دون الله يطيعونهم في معاصي الله، فيحلون ما أحلُّوه لهم مما قد حرَّمه الله عليهم ويحرّمون ما يحرّمونه عليهم مما قد أحلَّه الله لهم([13])

”یعنی (یہود و نصاری)ان احباراور رہبان کو اللہ تعالی عزوجل کو چھوڑ کر سیادت دے چکے تھے کہ اللہ تعالی کی نافرمانیوں میں بھی ان کی اطاعت کرتےتھے۔ پس جس کو اللہ تعالی عزوجل نے حرام ٹھہرایا تھا (احبار و رہبان) اس کو حلال ٹھہراتے اور جسے اللہ تعالی عزوجل نے حلال ٹھہرایا تھا اسے یہ حرام قرار دیتے۔“

امام قرطبی(۶۰۰۔۶۷۱ھ) سورہ توبہ کی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا یہودیوں نے اپنے احبار (علماء) کی اور عیسائیوں نے اپنے رہبان (گرجا میں رہنے والے علماء) کی عبادت کی تھی ؟ اور اس آیت کی کیا توجیہ ہے ؟ انہوں نے کہا :

لا ولكن أحلوا لهم الحرام فاستحلوه وحرموا عليهم الحلال فحرموه([14])

انہوں نے اپنے علماء کی عبادت نہیں کی لیکن جب وہ ان کے لیے حرام کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال کہتے اور جب وہ ان کے لیے حلال کو حرام کردیتے تو وہ اس کو حرام کہتے تھے اور یہی ان کا اپنے اپنے علماء کو خدا بنانا تھا۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ﷺ نے سورہ براءت کی آیت ۳۱ پڑھی ، تو میں نے آپﷺ سے عرض کیا کہ اہل کتاب تو اپنے احبار ورہبان کی عبادت نہیں کرتے تھے ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا :

أليس يحرّمون ما أحلّ الله فتحرمونه ويحلّون ما حرّم الله فتحلّونه؟ قال: قلت بلى قال فتلك عبادتهم([15])

کیا وہ (علماء)کسی چیز کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال نہیں جانتے تھے اور جب وہ (علماء)کسی چیز کو حرام کر دیتے تو کیا وہ اس کو حرام نہیں جانتے تھے میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی ان (علماء)کی عباٍدت کرنا تھی۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”اہل کتاب نے بالخصوص یہودیوں کے علما نے پیٹ پوجا اور معاشرے کے بڑے لوگوں کی خوشنودی کے لیے بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا تھا۔ جب اس جرم کی نشاندہی کی جاتی تو ان کے علما اس قدر مردہ ضمیر ہوگئے کہ اپنی حرام خوری پر پردہ ڈالنے کے لیے سرعام یہ بات کہتے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی حرام اور حلال قرار دی ہیں۔“([16])

امت بنی اسرائیل نے حلت و حرمت جیسے خدائی اختیار کو اپنے مذہبی پیشواؤں کے سپرد کر دیا تھا ۔اللہ تعالی کے حکم کے مقابلے میں وہ اپنے علماء و صوفیاء کی آراء کی پیروی کرتے تھے۔دوسری طرف مذہبی طبقہ اپنے مفادات کے پیش نظر متعدد ناجائز اور حرام چیزوں کو بھی حلت کا درجہ دے دیتا تھا۔خدائی اختیارات کو اپنے ہاتھ لینے کا یہ طرز عمل آج بھی مذہبی طبقے میں رائج ہے۔

مخالفت حق

اہل کتاب کے علماء و مشائخ کی اکثریت دین حق کی مخالفت کرتی تھی جس کی وجہ ان کے دلوں میں اس تصور کا راسخ ہو جانا تھا کہ دین اسلام کی قبولیت سے ان کے نذرانے بند ہو جائیں گے۔سورۃ توبہ کی آیت مبارکہ ۳۲کی تفسیر میں صاحب تفسیر المنار رقمطراز ہیں:

يريد اليهود والنّصارى أن يطفئوا نور الله الّذي أفاضه على البشر بهداية دينه الحقّ الّذي أوحاه إلى موسى وعيسى وغيرهما من رسله ثمّ أتمّه وأكمله ببعثة خاتم النّبيّين محمّد ﷺ بالطّعن في الإسلام والصّد عنه بالباطل([17])

”وہ یہود و نصاری اسلام پر طعن و تشنیع کرتے اور باطل طریقے سے اسلام سے روک کر اللہ تعالی کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے انسانوں کے فائدے کے لیے دین حق کی ہدایت کے ساتھ بھیجا ، جو اس نے موسی و عیسی اور دیگر انبیاءو رسل علیہم السلام کی طرف وحی کیا پھر اسے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا ۔“

جبکہ سورۃ توبہ کی اس آیت کی تفسیر میں عبد الحق حقانی لکھتے ہیں:

”اللہ تعالی نے جو ان کو تاریکی میں سر ٹکرانے سے نجات دینے کے لئے ایک چراغ ہدایت روشن کیا تو اس کو پھونک پھونک کر بجھانا چاہتے ہیں۔ اپنے منہ کی بیہودہ باتوں اور لغو اعتراضات سے پیش آتے ہیں۔“([18])

ناحق مال کھانا

دنیا بھر میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ مال اکٹھا کیا جاتا ہے۔البتہ اس مال کو دین فروش طبقہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں خرچ کرتا ہے۔لوگ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مال خرچ کرتے ہیں جبکہ نام نہاد اہل مذہب لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے ہیں۔یہود و نصاری میں یہ روش غلبہ پا چکی تھی۔اور ان کے علمائے سوءمذہب کے نام پر مال کھانے کے باوجود عوام الناس کو دین حق کی قبولیت سے روکتے تھے۔سورہ توبہ میں ارشاد ربانی ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ([19])

”اے ایمان والو! بیشک بہت پادری اور جوگی لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔“

مفسر قرآن علامہ ابن جریر طبری باطل انداز میں مال کھانے کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

يأخذون الرشى في أحكامهم ويحرّفون كتاب الله ويكتبون بأيديهم كتبا ثم يقولون هذه من عند الله ويأخذون بها ثمنًا قليلا من سِفلتهم(ويصدّون عن سبيل الله) يقول ويمنعون من أراد الدخول في الإسلام الدخولَ فيه بنهيهم إياهم عنه([20])

”وہ (مذہبی اجارہ دار )احکامات الٰہیہ کے بیان کرنے میں رشوت لیتے اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کرتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کرکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کی بناء پر دنیا کا قلیل مال حاصل کریں، اور اللہ کی راہ سے روکنے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکتے تھے۔“

اہل کتاب کے دین فروش علماءعوام سے باطل طریقے سے مال کھاتے تھے اور اس کے بدلے میں ان کو گمراہی کی دلدل میں دھکیلتے چلے جاتے تھے، رشوت لینا، اپنے ہاتھوں سےاحکامات لکھ کر اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنا اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنا ان کا شعار تھا۔ایسے حضرات کے لیے وعید بیان کرتے ہوئےقرآن حکیم بیان فرماتاہے:

فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِــيَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْہِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ([21])

”تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے عوض تھوڑے دام حاصل کریں تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لئے اس کمائی سے ۔“

امام طبری اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی کتاب کو بدلا وہ بنی اسرائیل کے یہود تھے انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق آیات باری تعالی کی تاویل کر کے ایسی کتاب لکھی جو اللہ عز وجل کے نبی حضرت موسی علیہ السلام پر اترنے والی تورات کے مخالف تھی پھر اس خود ساختہ لکھی ہوئی کتاب کو ایسے جاہلوں کے ہاتھ بیچا جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کا کچھ علم نہ رکھتے تھے ان (بیچنے والوں) نے گھٹیا مال کے عوض اسے بیچا تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:”تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لئے اس کمائی سے۔“([22])

ناحق مال کھانے کے طریقے

نام نہاد اہل مذہب مختلف حیلے بہانوں سے عوام الناس کا مال کھاتے ہیں۔دنیا بھر میں مذہب کے نام پر جہاں جہاں باطل طریقے سےمال کھایا جاتا ہے ، صاحب تفسیر المنار محمد رشید رضا (۱۲۸۲۔۱۳۵۴ھ)اس کی چند صورتیں بیان ہیں:

عقائد باطلہ

دین دار طبقے کی طرف سے عوام الناس کے قلوب و اذہان میں یہ تصور راسخ کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی عزوجل صرف علماء ودرویشوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور ان کی سفارش رد نہیں فرماتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ علماء اور درویشوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو قبولیت دعا کا گمان اس حد تک رکھنا درست ہے کہ ہر شخص دوسرے کے لیے جو مانگتا ہے قبول کیا جاتاہے لیکن عوام کا مذہبی رہنماؤں پر ہی دعاؤوں کی قبولیت کا یقین رکھنا مذہبی اجارہ داروں کی طرف سے گھڑے ہوئے تصور کی بنا پر ہے۔عوام الناس کا یہ گمان ہے کہ اللہ تعالی عزوجل نے علماء اور درویشوں کوکائنات میں طاقت اور تصرف کی قدرت دے رکھی ہےلہذا یہ علماء اور درویش جس کی حاجات چاہیں بغیر ضرر کے پوری کرتے ہیں اور جب جس کا بھلا کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔اس طرح کےنظریات شریعت کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔اس جیسی تاویلات اہل کتاب کے جہلاء دین داروں نے عوام کے لیے گڑھ رکھی تھیں اور عوام الناس کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ یہ عمل انبیاء کی تعلیمات کے منافی نہیں۔علامہ رشید رضا لکھتے ہیں:

ما يبذله كثير من النّاس لِمن يعتقدون أنّه عابد قانت للّه زاهد في الدّنيا ليدعو لهم ويشفع لهم عند الله في قضاء حاجاتهم وشفاء مرضاهم([23])

(ایک قسم) وہ مال ہےجو اکثر لوگ اس اعتقاد کے ساتھ خرچ کرتے تھے کہ وہ (علماء اور درویش)اللہ تعالی کی عبادت و فرمانبرداری کرتے اور دنیا میں زہد اختیار کرتے ہیں لہذا ان کو مال دینے سے یہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان (عوام) کی حاجات پوری ہونے اور ان کی بیماریوں سے شفاءپانےکی سفارش کریں گے۔

اسلاف کی یادگاربنانا

عوام الناس کا معمول بن چکا ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں اس سے معاندانہ رویہ رکھا جاتا ہے جبکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی پوجا پاٹ شروع ہو جاتی ہے۔وہی انسان جب تک زندہ رہتا ہے تو اس کی صلاحیتیں اختلافات کی نذر رہتی ہیں اور اس کی موت کے بعد اسی کو صاحب کرامت بزرگ بنا کر دیوتا کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔اس کے متعلق عجیب و غریب نظریات گھڑ دیے جاتے ہیں اور اس کی قبر کو منبع فیض قرار دیا جاتا ہے۔اور اس کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔اسلاف سے منسوب اشیاء بطور تبرک اپنے پاس رکھی جاتی ہیں جبکہ ان کی تعلیمات اور سیرت پر عمل پیرا ہونے سے احتراز کیا جاتا ہے۔اہل کتاب بھی اسی طرح ان جرائم کا ارتکاب کرتے تھے ۔قبور پرستی کو کمائی کو ذریعہ بنا کر اہل کتاب عوام الناس کا مال کھاتے تھے علامہ رشید رضا ان کے بارے لکھتے ہیں:

ماياخذه سدنة قبور الانبياء والصّالحين والمعابد الّتي بنيت باسمائهم من الهدايا والنّذور([24])

”(ناحق مال کھانے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ) انبیاء اور صالحین کی قبور اور ان کے نام پر بننے والی عبادت گاہوں کے نام پر لوگوں سے صدقات اور نذور کی تکمیل پر مال حاصل کرنا ہے۔“

اہل کتاب کنیسے اور درگاہیں بنا کر ان کے لئے زمین و دیگر املاک وقف کر دیتے تھے، پھر ان کے نام پر نذو نیاز پیش کرتے تھے۔ آج یہی کا م اہل اسلام مذہب کے نام پر کر تے نظر آتے ہیں۔

سند بخشش کا اجراء

نصاری میں یہ رائج تھا کہ گنہگار شخص گرجے میں جا کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا اور راہب اس کو مال کے عوض بخشش کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتا۔کنیسہ کے عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ تعالی عزوجل صرف ان لوگوں کے گناہ معاف فرماتا ہے یہ (رہبان) جن کو بخش دیں۔علامہ رشید رضا لکھتے ہیں:

ما يأخذونه جعلا على مغفرة الذنوب أو ثمنا لها ويتوسلون َإليها بما يسمونه سر الاعتراف وهو أن يأتي الرجل أو امرأة القسيس أو الراهب المأذون له من الرئيس الأكبر بسماع أسرار الاعتراف ومغفرة الذنوب فيخلو به أو بها فيقص عليه الخاطئ ما عمل من الفواحش والمنكرات بأنواعها لأجل أن يغفرها له([25])

”نا جائز طریقے سے مال کھانے کے طریقوں میں سے ایک قسم گناہوں کے کفارے کے لیے قیمت ادا کرنا ہے نصاری اعتراف(گناہ) کو بخشش کا وسیلہ سمجھتے تھے بایں طور کہ کوئی بھی(گنہگار) مرد یا عورت سب سے بڑے پادری کےاجازت یافتہ علماء یا درویش کے پاس آکر گناہ کا اعتراف کرتااور معافی کا خواہستگار ہوتا، صاحب گرجا متعلقہ شخص کو تنہائی میں لے جا تا اور وہ اپنے تمام گناہوں کا قصہ بیان کرتاتاکہ اس کی بخشش ہو سکے ۔“

فتوی فروشی

اہل کتاب کے علماء لوگوں سے مال دنیا لے کر ان کی مرضی کے مطابق اشیاء کی حلت و حرمت کا فتوی صادر کیا کرتے تھے۔خواہشات نفس کے دلدادہ بادشاہ، امراء اور صاحب ثروت لوگ اپنی شہوات کی تکمیل کےلیے، اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے اور رعایا پر ظلم و زیادتی کی رعایت کے حصول کے لیے دین فروش طبقے سےمال کے عوض اپنی مرضی کے موافق فتاوی جات حاصل کرتے تھے۔اور فتوی کی نوعیت کے مطابق اس کا ریٹ لگتا تھا۔ان فتاوی جات کو اہل کتاب کلام اللہ پر ترجیح دیتے تھے اور اپنے علماء کو اشیاء کی حلت اور حرمت کا کلی اختیار دیتے تھے۔شیخ رشید رضا (۱۲۸۲۔۱۳۵۴ھ)لکھتے ہیں:

ما يؤخذ على فتاوى تحليل الحرام وتحريم الحلال فاولو المطامع والأهواء يفتون الملوك والأمراء وكبار الأغنياء بما يساعدهم على إرضاء شهواتهم والانتقام من أعدائهم أو ظلم رعاياهم ومعامليهم بضروب من الحيل والتّأويل يصوّرون به النّوازل بغير صورها ويلبسون به المسائل أثوابا من الزّور تلتبس بحقيقتها([26])

”ایک قسم باطل طریقے سے مال کھانے کی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے فتاوی جات پر لیا جانے والا اجر ہے۔جو اہل طمع و خواہشات (علماء و درویش)بادشاہوں، امراء اور بڑے بڑے مالداروں کو ان کی شہوت کی تکمیل اور دشمنوں سے انتقام لینے اور اپنی رعایا اور ان کے معاملات پر ظلم کرنے کے لیے حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کے لیے فتاوی جات جاری کرتےتھے اور ان(حلت و حرمت)کے فتاوی جات کو صادر کرنے کے لیے بغیر شرعی امثلہ کے قیاس کر تے اور ان سے مسائل بنا کر ان کا جھوٹا ثواب بیان کرتےتھے۔“

اہل کتاب کے علماء شہوت پرست بادشاہوں اور ان کے مشیروں کے غیر شرعی ازدواجی تعلق کو بھی جائز قرار دیتے تھے اور ان کو ان کی بد اعمالیوں کے باوجود مال و زر کے عوض بخشش کی سند دیتےتھے۔اسی طرح کی بد اعمالیاں یہود میں بھی پائی جاتی تھیں جن کا ذکر اللہ تعالی عزوجل نے قرآن پاک میں کیا:

قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّہُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ([27])

”تم فرماؤ کس نے اتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے ظاہر کرتے ہو اور بہت سے چھپالیتے ہو اور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا نہ تمہارے باپ دادا کو ۔“

چوری و بد دیانتی

بنی آدم کا عزت و وقار کا انحصار اپنے قول و فعل کی صداقت اور پختگی پر ہے۔جو شخص اپنے قول کا پختہ نہ ہو ، معاشرے میں اس کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔اسی حقیقت کو عیاں کرتے ہوئے اللہ کے محبوب ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

لا دين لمن لا أمانة له([28])

”جس شخص میں امانت داری نہیں ، اس کا دین (معتبر )نہیں۔“

انسان جب حب مال میں گرفتار ہو جائے تو جائز و ناجائز کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔اہل کتاب کے علماء کی باطل طریقے سے مال کھانے کی ایک صورت چوری اور خیانت سے اپنے مخالفین کا مال کھانا تھا۔صاحب تفسیر المنار لکھتے ہیں کہ اپنے مخالفین وغیرہ کا مال خیانت، چوری اور دیگر طریقوں سے ہتھیانا کو بیان کرتے ہیں:

”اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے گا اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں، اس فرمان خداوندی کا مطلب ہے کہ(اہل کتاب کے علماء)یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان پر اپنے اسرائیلی بھائیوں کا مال کھانا حرام کیا تھاجب کہ امیون یعنی عرب و دیگر کا مال کھانا حرام نہیں کیا۔([29])

اہل مذہب نے عیسائیت کے دور میں دین کے نام پرجتنا مال و دولت اکٹھا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ڈاکٹر آغا افتخار حسین لکھتے ہیں:

”پندرہویں صدی یا اس کے آس پاس پاپائے روم یورپ میں سب سے بڑی طاقت بن چکا تھا اوریورپ کے بادشاہ ہر اہم مسئلہ پر اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔پاپائے روم کے اقتدار اعلی سے اہل کلیسا نے زر گری میں خوب فائدہ اٹھایا۔چنانچہ انقلاب فرانس سے قبل صورت حال یہ تھی کہ فرانس میں دو تہائی املاک کسی نہ کسی صورت میں اہل کلیسا کی تحویل میں تھیں اور اہل کلیسا دولت کے سہارے عوام کا استحصال کر رہے تھے۔“([30])

اگرچہ مسیحیت نے لوگوں کو ایثار اور پرہیزگاری کی تلقین کی اور آخرت کے لیے ذخیرہ اکٹھا کرنے کا حکم دیا لیکن نام نہاد اہل مذہب اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر مذہبی تعلیمات بیچ بیچ کر اپنے اثاثہ جات میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔

رشوت لینا

اہل کتاب کے علماء حق کوچھپانے اور باطل کو سچ ثابت کرنے کے لیے رشوت لیا کرتے تھے۔

ما ياْخذه صاحب السّلطة الدنية أو المدنيّة رسميّة أو غير رسميّة من المال وغره لأجل الحكم أو المساعدة على إبطال حقّ أو إحقاق باطل([31])

”ایک قسم صاحب منصب دینیہ اور سرکاری عہدیدار کا رسمی یا غیر رسمی طور پر حق کو چھپانے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے مال لینا ہے۔“

سود کھانا

باطل طریقے سے مال کھانے کا ایک طریقہ اہل دین کا اپنی خواہشات کے مطابق سود حلال کرنا ہے۔

ومنها الربا حتي الفاحش منه وهو فاش عند اليهود والنصارى لكنه منه ما يحلها لهم رجال الدين، ومنه ما يحرمونه في الفتوي وكتب الشرع واليهود أساتذة المرابين في العلم كله. واحبارهم يفتونهم باكل الربا من غير إخوانهم الاسرائيليين وياكلونه معهم مستحلين له بنص في توراتهم المحترفة بدلا من ونهيهم عنه([32])

”ناجائز مال بٹورنے کی صورتوں میں سے ایک صورت سود کا کھانا ہے جو یہود و نصاری میں رائج تھا سود لینا ان کی دینی تعلیمات کے مطابق تو حرام تھا لیکن ان کے دینداروں نے اسے حلال کر رکھا تھا اور یہود تو پورے جہاں میں سودخوروں کے باپ مانے جاتے ہیں ان کے احبار غیر اسرائیلیوں سے سود لینے کا فتوی دے کر مل کر سود کھاتے تھے اور تورات کی نصوص کو بدل کا سود کی حلت کا فتوی دیاکرتے تھے۔حالانکہ تورات میں تاکیدا سود کی حرمت کا بیان کیا گیا تھا۔ “

یہودی اس میدان میں حد سے تجاوز کر گئے حتی کہ غریبوں کا مال کھانا بھی شروع کر دیا۔اور نصاری کے لیے ان کے بوڑھے پادریوں نے سود اور قرض کے احکامات وضع کیے ہوئے تھےجس کو وہ لاہوت کا نام دیتے تھے۔بعض رہبان کے تو مال و زر کے اکٹھے کرنے کے ادارے بھی تھے جہاں مال و زر سود سے بھی زیادہ اکٹھا ہوتا تھا جیسے کہ فرانس میں بنک نام سے ایک ادارہ بنا جہاں لوگوں کی لاکھوں، کروڑوں کی امانتیں رکھی ہوئیں تھیں جسےیہ رہبان اپنے تصرف میں لے آئے۔شیخ احمد المراغی نے بھی باطل طور پر مال کھانے کے مذکورہ بالا طریقے بیان کیے ہیں۔([33])

آمیزشِ حق و باطل

قرآن پاک نے اہل کتاب کے علماء کو حق و باطل کی آمیزش سے منع فرمایا اور انہیں حق بات بیان کرنے کا حکم دیا ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ([34] )

”اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ۔“

اہل کتاب اپنی کتب میں نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی نشانیاں اور علامتیں پاتےتھے لیکن ایمان نہیں لاتے تھے۔محمد رشید رضا لکھتے ہیں:

فقد جاء في كتبهم التحذير من أنبياء كذبة يبعثون فيهم ويعملون العجائب، وجاء فيها أيضا أنه تعالى يبعث فيهم نبيّا من ولد إسماعيل يقيم به امّة وأنه يكون من ولد الجارية (هاجر) وبين علاماته بما لا لبس فيه ولا اشتباه ولكن الأحبار والرؤساء كانوا يلبسون على العامة الحق بالباطل فيوهمونهم أن النبيﷺ من الأنبياء الذين نعتتهم الكتب بالكذبة(حاشاه)([35] )

”بے شک ان (اہل کتاب ) کی کتب میں ان کی طرف مبعوث کیے جانے والے انبیاء کی تکذیب سے بچنے کا حکم تھا لیکن یہ اس کو چھوڑ کر عجیب کام کرتے تھے حالانکہ ان کی کتب میں یہ مذکور تھا کہ اولاد اسماعیل سے اللہ تعالی عزوجل ایک نبی مبعوث فرمائے گا جو امت کی اصلاح کرے گا اور وہ نبی سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا کی اولاد سے ہو گا۔اللہ تعالی عزوجل نے اس نبی کی نشانیاں بھی اس قدر وضاحت سے بیان فرمادیں تھی کہ شبہ کی گنجائش نہیں رہی تھی، لیکن ان کے احبار اور رؤساءحق کو باطل سے خلط ملط کر کے(اس نبی کی پہچان میں) شبہ ڈالتے اور یہ وہم پیدا کرنے کی کوشش کرتے کہ ضرور نبی ﷺ ان انبیاء میں سے ہیں جن کی (معاذ اللہ) ان کی کتب نے جھوٹی تعریف کی ہے۔“

کتمان حق

اہل کتاب کے علماء کتمان حق میں اپنی مثال آپ تھے۔اگرچہ ان کی کتب میں حضور ﷺ اور اسلام کی صداقت و حقانیت کی واضح نشانیاں موجود تھی لیکن وہ پھر بھی حق کو چھپا تے تھے۔اہل کتاب کی اس روش کو بیان کرتے ہوئےاللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ([36])

”اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ ۔“

اس آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر المنار (۱۲۸۲۔۱۳۵۴ھ)لکھتے ہیں:

ويكتمون ما يعرفون من نعوته التي لا تنطبق على سواه وما يعلمون من صفات الانبياء الصادقين وما يدعو إليه وكله ظاهر فِيهِ ﷺباكمل المظاهر([37])

”اور وہ(اہل کتاب کے علماء)نبی ﷺ کی تعریفات جو آپ ﷺ کے سوا کسی پر صادق نہیں آتی تھی انہیں جانتے ہوئے چھپا لیتے تھے اور انبیائے صادقین اور ان کی تعلیمات کو بھی(جان بوجھ کر چھپا لیتے تھے) حالانکہ یہ سب(خوبیاں اور کمالات) حضورﷺ میں کمال درجہ ظاہر تھیں۔“

مخالفت حق واہل حق

نام نہاد مذہبی پیشوا جو مذہب کی روح سے بے بہرہ رہے ہر دور میں حق کی مخالفت کرتے رہےہیں۔آج بھی بہت سارے مذہبی رہنما اپنے اپنے دنیوی مفادات کے ختم ہونے کے خوف سے عوام الناس کو حق سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو لکیر کا فقیر بن کر زندگی گزارنے کا سبق دیتے ہیں۔یہود کا وطیرہ تھا کہ جو شخص ان کی اجارہ داری ختم کرنے اور حق بات کہنے کی جسارت کرتا اس کے مخالف ہو جاتے اور اس کے قتل کے در پے ہو جاتے اور اسے تکالیف پہنچاتے۔قرآن پاک میں ہے:

افَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ۝ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُم وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ([38])

”تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں، تکبر کرتے ہو، تو ان (انبیاء) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو ۔“

فرقہ واریت کافروغ

نجات اور فلاح کو اپنے اپنے فرقے یا مذہب میں محصور کرنا اہل دین کا شیوہ رہا ہے یہود اپنے سوا سب کو غلط سمجھتے تھے ایسے ہی نصاری اپنے ماسوا کو ناحق کہتے تھے اور آج ہر فرقے والا دوسرے فرقے کو غلط کہتا ہے ۔ یہ چیز معاشرے کو عدم استحکام سے دوچار کرتی ہے اور افراتفری کو فروغ دیتی ہے۔اپنے فرقے کی صداقت و حقانیت کے حوالے سے خوش گمانی کے تصور کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی عزوجل قرآن پاک میں بیان فرماتا ہے:

وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى([39])

”اور اہل کتاب بولےہرگز جنت میں نہ جائے گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو۔“

صاحب تفسیر الکشاف (۴۶۷۔۵۳۸ھ)لکھتے ہیں:

والمعنى وقالت اليهود لن يدخل الجنة إلا من كان هودا وقالت النصارى لن يدخل الجنة إلا من كان نصارى([40])

آیت کا معنی ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جا سکتے ہیں اور نصاری یہ کہتے تھے کہ جنت میں صرف نصاری جا سکتے ہیں۔

خلاصہ بحث

مذہبی اجارہ داری سے مراد نام نہاد مذہبی طبقے کا مذہبی امور کےحوالے سے ایسا کلی اختیارہے جس کی بناء پر شریعت کے احکامات کو اپنی مرضی سے بیان کرنا اور ان میں رد و بدل کرنا ہے۔بنی اسرائیل کے مذہب فروش علماء و صوفیاء میں یہ برائی غالب تھی، جبکہ عصر حاضر میں بھی یہ مرض عام ہو چکا ہے۔نیکوں کے نااہل جانشین اپنے فرض منصبی سے غفلت کی بناء پر اپنے فرائض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جاتے ہیں، نمازوں کا ضیائع،خواہشات نفس کی پیری اور بغیر علم کے لوگوں کی دینی رہنمائی ان کا شعار بن جاتا ہے۔جس بناء پر معاشرہ گمراہی کی نحوست سے دوچار ہو جاتا ہے۔دینی منصب پر فائز نا خلف افراد کو راہ راست دکھانے اور امت کو گمراہی سے نکالنے کے لیے صدائے حق بلند کرنا علماء امت کی ذمہ داری ہے۔اس فریضہ کو مفسرین اور شارحین حدیث نے بھر پور انداز میں سر انجام دیا ہے۔اہل تفسیر نے مذہبی تسلط کے حوالے سے معاشرے میں رائج مختلف برائیوں کو بیان کیا اور ان کے سد باب کے لیے تجاویز پیش کیں۔

مفسرین کے مطابق امت بنی اسرائیل نے حلت و حرمت جیسے خدائی اختیار کو اپنے مذہبی پیشواؤں کے سپرد کر دیا تھا ۔اللہ تعالی کے حکم کے مقابلے میں وہ اپنے علماء و صوفیاء کی آراء کی پیروی کرتے تھے۔دوسری طرف مذہبی طبقہ اپنے مفادات کے پیش نظر متعدد ناجائز اور حرام چیزوں کو بھی حلت کا درجہ دے دیتا تھا۔ اہل کتاب کے دین فروش علماءعوام سے باطل طریقے سے مال کھاتے تھے اور اس کے بدلے میں ان کو گمراہی کی دلدل میں دھکیلتے چلے جاتے تھے، رشوت لینا، اپنے ہاتھوں سےاحکامات لکھ کر اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنا اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنا ان کا شعار تھا۔اہل کتاب کے علماء لوگوں یہ غلط عقیدہ راسخ کر چکے تھے کہ بخشش کا دارومدار ان کی خدمت اور خدا کی بارگاہ میں ان کی سفارش کرنے پر ہے، وہ اپنے بڑوں کی یادگار بنا کر ان کی خدمات کو کیش کرواتے تھے تاکہ مال دنیا میسر آ سکے ، بہت زیادہ مال جمع کرنے کے لیے کفارہ ذنوب کا اجراء تھا کہ ان کے پاس مجرم آ کر اپنے گناہوں کا اقرار کرتا اور اپنے جرائم کے مطابق ان کو مال دے کر مغفرت کی سند لے لیتا، امراء کی سہولت اور مال دنیا اکٹھا کرنے کے لیے اہل مذہب فتوٰی جات کو فروخت کرتے تھے،دینی احکامات کو لوگوں کی سہولت کے لیے آسان کرنے کے لیے رشوت لیتے، سود کھاتے اور حق و باطل کو باہم ملا دیتے تھے۔مال کی ہوس میں حق بات کو چھپا لیتے اور اہل حق کی مخالفت کرتے تھے۔لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیتے تھے ۔اور کلام الہٰی میں خود ساختہ اضافہ کرتے تھے۔مذہبی اجارہ دار اپنے مذہبی اختیارات کی بناء پر مذہب پر مسلط ہو چکے ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا۔ ”بے شک اللہ تعالی (دنیا سے )علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کی وفات سے (علم کو )اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو (لوگ) جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے ، تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، دار طوق النجاۃ، بیروت،لبنان، ط ۱:۱۴۲۲ھ، رقم الحدیث:۱۰۰
  2. ۔ التوبۃ ۲۷:۹
  3. ۔ انجیل متی، شریعت کے عالموں اور فریسیوں کی ملامت:۲۳:۶،۷،۸
  4. ۔ مودودی، سید ابو الاعلی، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، اسلامک پبلیکیشنز ، لاہور،۱۰۳
  5. ۔ بغوی، ابو محمد، حسین بن مسعود شافعی (۵۱۰ھ)، معالم التنزيل في تفسير القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ط ۱:۱۴۲۰ھ، ص۲/۳۳۹
  6. ۔ زمخشری، ابو القاسم محمود بن عمرو (۵۳۸ھ)، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، دار الکتاب العربی، بیروت، ط ۳: ۱۴۰۷ھ، ص۲/۲۶۴
  7. ۔ ہرری، محمد امین بن عبد اللہ الارمی الشافعی(ولد:۱۳۴۸ھ)، حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن، دار طوق النجاۃ، بیروت،لبنان،ط ۱: ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۱م، ص۱۱/۲۱۱،۲۱۲
  8. ۔ المریم ۵۹:۱۹
  9. ۔ ابن ابی حاتم، ابو محمد عبد الرحمان بن محمد رازی(۳۲۷ھ)، تفسیر القرآن العظیم، مکتبۃ نزار مصطفی الباز،سعودیہ، ط ۳: ۱۴۱۹ھ، ص۷/۲۴۱۲
  10. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم:۱۰۰۔صحیح مسلم، باب رفع العلم وقبضه و ظہور الجهل:۲۶۷۳۔ترمذی، محمد بن عیسی (۲۷۹ھ)، سنن ترمذی، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی الحلبی البابی، مصر، ط۲ :۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵م، باب ما جاء فی ذهاب العلم:۲۶۵۲
  11. ۔ قشیری، مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)، صحیح مسلم،دار احیاء التراث العربی، بیروت، کتاب الایمان، باب بیان کون النهی عن المنکر من الایمان:۵۰
  12. ۔ التوبہ۳۱:۹
  13. ۔ طبری، ابو جعفر محمد بن جرير بن يزيد(۳۱۰ھ)، جامع البيان في تأويل القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، ط ۱: ۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰م، ص۱۴/۲۰۹
  14. ۔ بيہقي، ابو بکر احمد بن الحسين بن علي خراسانی (۳۸۴۔۴۵۸ھ)، السنن الکبری، دار الکتب العلميۃ، بيروت، لبنان، ط۳ :۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳ م، باب ما یقضی بہ القاضی وما یفتی بہ المفتی:۲۰۳۵۱۔ قرطبی، ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن احمد بن ابی بکر خزرجی(۶۰۰۔۶۷۱ھ)، الجامع لاحکام القرآن، دار الکتب المصریۃ، قاہرہ، ط۲:۱۳۸۴ھ۔۱۹۶۴م:۸/۱۲۰
  15. ۔ ترمذی، سنن ترمذی، باب ومن سورہ التوبۃ:۳۰۹۵
  16. ۔ مودودی، سید ابو الاعلی(۱۹۰۳۔۱۹۷۹م)،تفہیم القرآن،ترجمان القرآن:۲۰۰۰م ، تفسیر سورہ النحل:۱۱۶
  17. ۔ قلمونی، محمد رشید بن علی رضا بغدادی(۱۲۸۲۔۱۳۵۴ھ)، تفسیر القرآن الحکیم(تفسیرمنار)، الہیئۃ المصریہ العامہ للکتاب، مصر، ط۱ :۱۹۹۰م، ص۱/ ۲۴۳
  18. ۔ حقانی، ابو محمد عبدالحق حقانی دہلوی،فتح المنان ،میر محمد کتب خانہ کراچی،پاکستان،تفسیر سورہ التوبۃ:۳۲
  19. ۔ التوبۃ ۳۴:۹
  20. ۔ طبری، جامع البيان:۱۴/۲۱۶
  21. ۔ البقرہ۷۹:۲
  22. ۔ طبری، جامع البیان:۲/۲۷۰
  23. ۔قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱۰/۳۳۴
  24. ۔ ایضاً
  25. ۔ قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱۰/۳۳۵
  26. ۔ ایضاً
  27. ۔ الانعام:۹۱:۶
  28. ۔ بيہقي، ابو بکر احمد بن الحسين بن علي خراسانی (۳۸۴۔۴۵۸ھ)،شعب الایمان، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، ط۱ :۱۴۲۳ھ/۲۰۰۳م، باب الامانات وما یجب من ادائھا:۴۸۹۶
  29. ۔ قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱۰/۳۴۶
  30. ۔ ڈاکٹر آغا افتخار حسین، قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ، مجلس ترقی ادب، لاہور، ط۵:۲۰۱۴م/ ۱۴۳۵ھ:۲۹
  31. ۔ قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱۰/۳۴۶
  32. ۔ ایضاً
  33. ۔مراغی، احمد بن مصطفی(۱۳۷۱ھ)، تفسیر المراغی، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ، مصر،ط۱ :۱۳۶۵ھ/۱۹۴۶م،ص۱۰/۱۰۸۔۱۱۰
  34. ۔ البقرہ۴۲:۲
  35. ۔ قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱۰/ ۳۳۳
  36. ۔ البقرہ:۴۲:۲
  37. ۔ قلمونی، تفسیر القرآن الحکیم:۱/ ۲۴۳
  38. ۔ البقرہ:۸۷:۲
  39. ۔ البقرہ:۱۱۱:۲
  40. ۔ زمحشری، ابو القاسم جار اللہ محمود بن عمرو بن احمد (۴۶۷۔۵۳۸ھ)، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، دار الکتاب العربی، بیروت، ط۲ :۱۴۰۷ھ،ص۱/ ۷۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...