Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 33 Issue 1 of Al-Tafseer

مطلق العنان میڈیا کی ذمے داریاں اور شرعی حدود و قیود |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_1153

Pages

202-228

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/88

Subjects

Responsibilities of Media Role of Media Rules for Modern Media in Islam Media and Pakistani society

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

In the present era, no one denies the worth of Media rather it has adopted a status of powerful tool. If the use of Media is made with apt and proper strategy it can be utilized as a force for the betterment of society. Media can be helpful for the attainment of information, training of the individuals of a society, education and culture and to set an opinion for the solution of the collective matter. For the attainment of all these objectives, it as extremely necessary for the journalists to be entirely acquainted with the Islamic teaching. The present crises in the country, in which terrorism and general massacre are at acme. Along with the present Government it is also the responsibility of Media that such factors as become the cause of terror or the destruction of peace, every possible strike should be made to estoppels of its expansion and publicity. Except a few anchors of sacred homeland, rest of the whole personnel of rational or irrational are included in the drama of social chaos. Just to enhance the rating standard social values are being demolished, the masses are indulged in an unknown vacillation and anxiety. T. V channel and its ways of expressing the news are fulfilling their responsibility to mentally paralyze the individuals of the society. Unfortunately, the laws of journalism are not being used rather Media are performing the oil burning duty. In this article the laws of modern Media will be put a in discussion, the teaching of which is also given by Shariah. According to the teaching of Islam in present era, such responsibilities of Media will be expressed as are being neglected by the heads of journalism

اسلام دین فطر ت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی اور عملی زندگی میں حق کی اتباع اور پیروی کے لیے کتاب و سنت میں ایسے اصول بیان کر دیے ہیں جن کے ذریعے قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے اور یقیناً وہ حل متوازن، معتدل، فطرت انسانی سے ہم آہنگ اور انسان کی صلاح وفلاح کا حامل ہو گا ۔ خواہ ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ احوال کی تبدیلی ہو یا نئے ذرائع و وسائل کا وجود میں آنا ہو۔ یوں توں انسانی تمدن میں ارتقا کے ساتھ ساتھ وسائل اورآلات میں ایجاد و اختراع کا سلسلہ جاری ہے لیکن ایک یا دو صدی قبل جو صنعتی انقلاب رونما ہوا ہے اس وقت سے ایجاد و اکتشاف کا سفر بھی تیز ہو گیا ہے ۔ ایسے وسائل وذرائع وجود میں آئے کہ جن کا پچاس یاسو سال پہلے تصور کرنا بھی دشوار تھا ۔سائنس نے جن شعبوں میں ترقی کی ہے ان میں ایک شعبہ ابلاغ(Media) کے ذرائع بھی ہیں ۔کیونکہ ذرائع ابلاغ کا انسانی زندگی کے ساتھ ایک گہرا ربط ہے ۔انسان کو اللہ نے جن نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے ،ذرائع ابلاغ ہی کی وجہ سے دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا شخص دوسرے کونے کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے ۔ یہاں اسی ابلاغ کے مختلف ذرائع اور میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔میڈیایا ذرائع ابلاغ کے معاشرے پر مثبت اور منفی اثرات کو بیان کرنے کے ساتھ اس کی اہمیت اور پیدا ہونے والے مسائل کا اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں حل پیش کیا جاتا ہے۔

میڈیا کا مفہوم اور ضرورت و اہمیت

میڈیا انگریزی زبان کا لفظ ہے اردو میں اس کا ترجمہ ذرائع ابلاغ یا صحافت کیا جاتا ہے ۔میڈیا میں مطبوعہ برقی صحافت کے ذرائع خواہ وہ سمعی ہوں یا بصری ،دونوں شامل ہیں ۔([1]( انگریزی میں ابلاغ کے لیے لفظ (Communication) استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب دوسرے تک اپنے خیالات پہنچانے ،مطلب واضح کرنے ، معلومات اور بات چیت کے ہیں۔ ([2](

Enery , Altاس کی تعریف کی بابت لکھتےہیں:

Communication is an act of transmitting ideas, attitudes and information from one person to another.([3])

اس کے علاوہ ابلاغ کے معنوں میں لفظ صحافت بھی مستعمل ہے جو عربی زبان کے لفظ صحیفہ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے لفظی معنی کتا ب یا رسالہ کے ہیں، وہ چیز جس پر کچھ لکھا جائے ۔اسی مناسبت سے ورق کے ایک جانب یعنی صفحہ کو صحیفہ کہتے ہیں اور جدید عربی میں صحیفہ ،جریدہ اور اخبار کے لیے مستعمل ہے۔([4](ابلاغ کے لغوی معنی " پہنچانا" کے ہیں ، تبلیغ کا لفظ اسی سے ماخوذ ہے ۔ قرآن نے ابلاغ کے لیے دیگر الفاظ بھی استعمال کیے ہیں ۔مثلاً دعوۃ، تبلیغ، انداز ، تبشیر وغیرہ۔([5](

قرآن میں ابلاغ کے الفاظ متعدد جگہ پر آئے ہیں :

یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ([6](

”اے رسول پیغام دو جو کچھ اترا تمھیں تمھارے رب کی طرف سے۔“

فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقَدْ أَبْلَغْتُکُم مَّا أُرْسِلْتُ بِہِ إِلَیْکُم ([7](

”پھر اگر تم منھ پھیرو تو میں تمھیں پہنچا چکا جو تمھاری طرف لے کر بھیجا گیا۔“

ہذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب ([8](

”یہ لوگوں کو حکم پہنچانا ہے اور اس لیے کہ وہ اس سے ڈرائے جائیں اور اس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں ۔“

الَّذِیْنَی بَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّہِ وَیَخْشَوْنَہُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَداً إِلَّا اللَّہَ وَکَفَی بِاللَّہِ حَسِیْباً ([9](

” وہ جو اللہ کے پیغام پہنچاتے اور اس سے ڈرتے اور اللہ کے سوا کسی کاخوف نہ کرتے اور اللہ بس ہے حساب لینے والا۔“

ابلاغ کے اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے محمد دلشاد کنورلکھتے ہیں:

”ابلاغ اس علم یا ہنر کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کوئی اطلاع دے، کوئی خیال ، رویہ یا جذبہ کسی دوسرے شخص میں منتقل کرتا ہے۔“([10](

Encyclopedia of Britannica میں ہے:

Journalism is the collection, preparation and distribution of news and related commentary and feature material through such media as pamphlets, newsletter, newspapers, magazine, radio, television and books. ([11])

The World Book of Encyclopedia میں اس کی تعریف کچھ یوں ہے:

Modern journalism was very means of communication to report the news of the world to newspapers, Magazines and the news rooms of the radio and television network.([12] )

دینی اصطلاح میں دعوت، تبلیغ اور نیکی کی بات دوسروں تک پہنچانا ہے لیکن ابلاغ اپنے مفہوم کے لحاظ سے عام ہے اور اس میں دینی یا غیر دینی ، اچھی یا بری بات کی کوئی قید نہیں ۔ پیغام کا مطلب پہنچانا ، کوئی بات اور کوئی خبر ابلاغ کا موضوع ہو سکتی ہے ۔جب کسی بات ، خبر یا پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا ہے تو وہ ابلاغ عامہ کہلاتا ہے۔([13](

پاکستان میں موجود ذرائع ابلاغ کی اقسام

قدیم زمانے میں لوگ زبان اور بیان ہی سے ابلاغ کا کام لیتے تھے ۔وقت کے ساتھ لکڑی کی چھالوں اور تختیوں پر یہ کام لیا جانے لگا۔چھاپہ خانہ کی ایجاد سے طباعت و ابلاغ کی دنیا میں انقلاب رونما ہو گیا ۔لوگ ایک ملک کی گفتگو دوسرے ملک میں ریڈیو پر آواز کی شکل میں سننے لگے۔ٹیلی ویژن کی ایجاد سے آواز کے ساتھ تصویر بھی سامنے آنے لگی اور یہ دور اس تیزی سے بدلا کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جب سے ابلاغ کا حصہ بنے ہیں تو دنیا کا رخ ہی بدل ہی گیا ہے اور یہ ایجادات کا عمل جاری ساری ہے ۔تاہم یہاں اہم ابلاغ کی مختلف ادوار میں موجود ذرائع کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔

۱۔ مطبوعہ ذرائع ابلاغ (Print Media)

اس حصہ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن میں قلم، چھاپا خانہ کے علاوہ کتب، رسائل، جرائد، اخبارات، میگزین اور پوسٹرز وغیرہ شامل ہیں۔

۲۔ برقیاتی ذرائع ابلاغ (Electronic Media)

یہ وہ ذرائع ہیں جن میں بجلی کا استعمال ہوتا ہے ۔جیسے ٹی۔ وی ،ریڈیو،وی ۔سی۔ آر،سلائیڈ یا پروجیکٹر وغیرہ شامل ہیں ۔

۳۔ معاشرتی ذرائع ابلاغ (Social Media)

اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرتی یا سماجی ذرائع ابلاغ بھی برقی ابلاغ میں شامل ہیں لیکن ان کی مدت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا تذکرہ الگ کیا جا رہا ہے ۔ اس میں ای ۔میل(Email)، یو ٹیوب(YouTube)، فیس بک(Face Book) اور سکائپ (Skype) واٹس ایپ (Whats ap)جیسے پروگرامز شامل ہیں۔جن کی بدولت لوگ پوری دنیا میں بلاواسطہ ایک دوسرےسے بات چیت کر سکتے ہیں ۔

ذرائع ابلاغ یا میڈیا کی ضرورت و اہمیت

اللہ تعالیٰ نے انسان کوبولنے ، سمجھنے ، لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے اور یہ صلاحیت اللہ نے کسی اورمخلوق کو عطا نہیں فرمائی ۔انسان اظہار و بلاغ کے مختلف اسالیب اختیار کر سکتا ہے۔خالق کائنات سب سے پہلے خود انسان سے مخاطب ہوا اور اپنی بات پہنچانے کے لیے ما فی الضمیراظہار کا سلیقہ سکھایا۔ اللہ کی ذات جو عین حق وصداقت ہے اس لیے اپنی بہترین مخلوق سے بھی حق و صداقت پر مبنی گفتگو چاہتاہے ۔انسان کو اللہ نے لکھنے اور پڑھنے کے اسلوب کا ذکر کچھ یوں کیا ہے :

الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ([14])

”جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔“

تو ثابت ہوا کہ ابلاغ کا پہلا سبق اللہ نے انسان کو دیا جس کے تحت اللہ نے آدم کو نام سکھائے۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ([15])

”اور اللہ نے آدم کو تمام(اشیا کے) نام سکھائے۔“

بندے کا اپنے رب کے پیغام کو وصو ل کرنا اور اسے اگے لوگوں تک پہنچانا کار نبوت ٹھہرااور حیات انسانی میں وحی کا ذریعہ قائم ہوا ۔اس طرح سے نبی اور رسول تاریخ انسانی کے لیے مبلغ قرار پائے ۔ لیکن یہ یا درہے کہ اللہ تعالیٰ حق و صداقت کا نمونہ ابلاغ پیش کرتا ہے اور انسان سے بھی ایسی ہی توقع رکھتاہے کہ وہ جو بھی ابلاغ کرے ،حق و صداقت پر مبنی ہو جس کی طرف قرآن مجید کچھ یوں اشارہ کرتا ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن([16])

”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ۔“

ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو ، ریڈیویا ٹیلی وژ ن ہو ، ترسیلی شعبے کے ماہرین نے مہذب معاشرے کی تعمیر و ترقی میں انتظامیہ ، عدلیہ، مقننہ اور ذرائع ترسیل و ابلاغ کو بنیادی حیثیت دی ہے۔اسی بابت مہدی حسن لکھتے ہیں کہ: ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے کو بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو معاشرے کا ترجما ن کہا جاتا ہے۔ اس کے بغیرانسانی زندگی کی کیفیت، بے رونق اور بے علم ہو کر رہ جاتی ہے۔([17])

ڈاکٹر خالد علوی ذرائع ابلاغ کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر غور کریں تو عصر حاضر کی تمام تر عملی ترقی و خوشحالی ،سائنسی ایجادات اور علمی تحقیق کا ادراک انھی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔سیٹلائیٹ کی ایجاد نے تو پوری دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔دنیا میں ہونے والے تمام واقعات و حادثات ٹیلی وژن سکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ نے معلومات اور آگہی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔ذرائع ابلاغ صرف معلومات ہی کا نہیں، تفریح کا ذریعہ بھی ہے ۔سائنسی تحقیقات ،تازہ خبریں و تبصرے ،کھیلوں کے مناظر ،موسیقی اور تعلیمی پروگرام ذرائع ابلاغ کے وہ پہلو ہیں جن سے روز مرہ کی زندگی کی رونقیں بڑھی ہیں ۔عالمی آگاہی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی واقع یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر شخص اس سے واقف ہوتا ہے۔([18])

ذرائع ابلاغ کا بنیادی کام معاشرے سے شر اور فساد ختم کر کے تعاون، امن اور محبت کو فروغ دینا ہے ۔عوام کی ضروریات اور مسائل سے حکومت وقت کو آگاہ کرنا ہے اور دونوں کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ رکھنا ہے ۔معاشرے اور ملکی سطح پر یہ قانون، اخلاق اور آئین کے نفاذ کی ترغیب دلاتاہے ۔علاوہ ازیں انتشار، فرقہ وارانہ اقدامات، بغض وعناد،علاقائی اور زبان کے اختلافات اور تعصبات کو ختم کر کے قومی یکجہتی پیدا کر کے ملکی سالمیت کو یقینی بنانا ہے۔ذرائع ابلاغ کے اس کردار پر ڈاکٹر خالد علوی کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کوحکومتوں اور عوام کے درمیان مؤ ثر رابطے کا مرتبہ حاصل ہے۔ا ن کے ذریعے باہمی اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے اور عوام حکومت کی پالیسیوں کو سمجھ کر موافق یا مخالف ردعمل کا اظہار کر سکتے ہیں ۔آزاد پریس حکومتوں اور معاشروں کی نگرانی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے ۔معاشرے کی خرابیاں بعض اداروں کی معاشرت اور اخلاق ،دشمن سرگرمیاں پریس کے ذریعے ہی بے نقاب ہوتی ہیںَ یہ ٓازاد پریس کسی معاشرے کا بیدار دماغ اور بینا آنکھ ہوتی ہے۔([19])

عہد نبویﷺ میں ذرائع ابلاغ ،اس کا کردار اور حیثیت

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک تمام انبیاء کو انسانیت تک اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے مبعوث فرمایااور اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جو اس وقت کسی بھی شکل میں میسر تھا۔ لیکن عہد نبویﷺ سے قبل یہ یا د رکھنا چاہیے کہ اس وقت بھی میڈیا وار تھی لیکن اس کا طریقہ کا ر بالکل مختلف تھا۔ اس وقت یہ لفظی جنگ شعر و شاعری اور فصاحت و بلاغت کے زور پر تھی اور اس وقت کے شعراء آج کے اینکر پرسن ہوا کرتے تھے۔

لیاقت علی خان اس بابت لکھتے ہیں کہ: میڈیا وار کے نام سے جو تذکرہ گرم ہے یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہے ۔ انسانی معاشرے کی اس سے پرانی شناسائی ہے۔ میسر وسائل کی مددسے ہر دور میں اس جنگ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا وار ہر اس وسیلے کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سےاپنے نظریات دوسروں تک منتقل کیے جا سکیں ۔قبائلی دور میں یہ جنگ شعر و شاعری اور فصاحت و بلاغت کے زور پر لڑی جاتی تھی اور اس میں اہم کردار شعراکا ہوتا تھا۔([20](

محمد انور لکھتے ہیں کہ: مدح و تعریف اور مذمت و ہجو کلام عرب میں مستقل اصناف ہیں۔ جنھیں دورِ قدیم کی میڈیاوار کا سب سے اہم عنصر قرار دیا جا سکتا ہے۔پیغمبر اعظم ﷺ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ میڈیا وار کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اپنے دور کے محدود وسائل کو استعمال میں لا کر موقع محل کے اعتبار سے بھرپور انداز میں دشمن اسلام کے خلاف یہ ہتھیار استعمال فرمایا ہے۔([21])جس کے کچھ پہلو درج ذیل ہیں :

فی المصافحہ پیغام الہی کا ابلاغ

رسول اکرم ﷺ نے حکم الہی کے مطابق رسالت کا پیغام میسر ذرائع ابلاغ سے پہنچایا ۔آپ ﷺ نے پہلے اللہ کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچانے کے لیے ذرائع ابلاغ کا جو طریقہ استعمال کیا،وہ براہ راست تبلیغ کا پہلو تھا۔ احمد حسن زیادت لکھتے ہیں کہ: نبی اکرم ﷺ نے پیغام کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ، ان میں سب سے پہلے تو لوگوں کو براہ راست دعوت دی ۔ یہ دعوت پہلے پہل تو خفیہ طور پر دی جاتی رہی اور جب اعلانیہ طور پر دعوت کا حکم ملا، تب بھی دیگر ذرائع استعمال کرنے کی بجائے براہ راست دعوت کو اپنائے رکھا۔ مثلاً مکہ مکرمہ جو عرب کا مرکزی مقام تھا اوراسے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے مرکزیت حاصل تھی ۔بیت اللہ کا احترام عربوں کے دلوں میں نقش تھا۔اس گھر کے زائرین اور حج کرنے والے دور دراز کے علاقوں سے چلے آ تے۔ قریش کی سیادت اور برتری کو اکثر لوگ تسلیم کرتے تھے ۔ عرب کی بڑی کاروباری منڈیاں مکے کے گرد و نواح میں تھیں ۔ان منڈیوں میں تاجروں کے علاوہ دیگر اہل فن بھی آتے اور اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے۔چنانچہ یہ منڈیاں شعرا اور خطبا کے افکار و خیالات کی نشر گاہیں بننے لگیں۔([22]( نبی اکرم ﷺ فریضۂ رسالت کی ادائیگی کے لیے ان تجارتی مراکز اور حاجیوں کے پا س تشریف لے جاتے اور دنیا کی دلچسپیوں میں مصروف لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے۔

مولانا صفی مبارک پوری آپ ﷺکی دعوت کی بابت لکھتے ہیں کہ: نبوت و رسالت کا اظہار سب سے پہلے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں سے کیا ۔اظہار و اعلان کے بعد قریبی رشتے داروں کو دعوت پر ان الفاظ میں بلاناکہ راہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں تمھاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول ہوں ۔ بخدا تم لوگ اس طرح موت سے دو چار ہو گے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو ۔پھر جو کچھ تم کرتے ہو تم سے اس کا حساب کیا جائے گا۔([23])

خطاب کے ذریعے ابلاغ

نبی اکرم ﷺ کے ابلاغ میں کس قدر نکھار اور مؤقف میں کس قدر صدا تھی کہ جب دوسرے ہی مرحلے پر کوہ صفا کے مقام پر دعوت الی اللہ دی تو فرمایا:

یا بنی فہریابنی عدی مبطون قریش حتی اجتمعو افجعل الرجل اذالم یستطع ان یخرج ارسل رسولا ینظر ما ھو فجاء ابو لہب و قریش فقال:

” اے بنی فہر، اے بنی عدی، ،یہ صدا سن کر لوگ جمع ہو گئے جو کسی وجہ سے خود نہ پہنچ سکے ،اس نے حقیقت حال پوچھنے کے لیے اپنا نمائندہ بھیج دیا ۔جب سب لوگ جمع ہو گئے ،ابو لہب اور قریش بھی آ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :

ارایتکم لو اخبرتکم ان خیلا بالوادی ترید ان تغیر علیکن اکنتم مصدقی؟

تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تم کو یہ اطلاع دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر کھڑا ہے جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتاہے تو تم اس بات پر یقین کر لو گے؟

قالو نعم ما جربنا علیک الا صدقا

”انھوں نے جواب دیا ہاں:ہم نے آپ ﷺ کو کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں پایا۔“

تب آ پﷺ نے فرمایا:

فانی نذیرلکم بینیدی عذاب شدید ([24])

”تومیں تمھیں ایک سخت عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو بالکل تمھارے سامنے ہے۔“

شاعری کے ذریعے ابلاغ

عربوں کے ہاں شاعری کو بڑی اہمیت حاصل تھی اگر کسی کے جذبات بھڑکانے ہوں یا احساسات کی بیداری مقصود ہو تو شاعری اہم مؤثر ہتھیار کے طور پر کردار ادا کرتی تھی۔لیکن عام طور پر اس شاعری کا کردار عرب معاشرے میں منفی ہی تھا ۔ لیکن آپ ﷺ نے شاعری کے اس منفی طرز عمل کی نہ صرف مذمت فرمائی بلکہ اس کو غلبۂ حق رسالت اور ابلاغ کے طور پر استعمال میں لائے۔آپ ﷺ نے مسجد میں منبر لگوایا اور حسان بن ثابت کو اشعار سے مشرکین کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی اللہ کے ہاں دعا کی :

اللھم ایدہ بروح القدس ([25])

”اے اللہ اس کی جبرائیل امین کے ذریعے مدد فرما۔“

سیدنا حسانؓ کی شاعری مشرکین مکہ پر تلواروں اور تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ۔اسی طرح بعد میں بھی دوسرے شعراء نے شاعری کا ابلاغ دین کے طور پر استعمال کیا۔

دیگر زبانوں کے ذریعے ابلاغ کا استعمال

نبی اکرم ﷺ نے عربی زبان کے دوسری مقامی لوگوں کی زبانوں اورخاص طور پر یہودیوں کی زبان کو سیکھنے پر بھی خصوصی توجہ دی ۔جس کو بعد میں آپ ﷺ نے ذرائع ابلاغ کے طور پر استعمال کیا ۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید کو یہودیوں کی زبان سیکھنے کی تلقین فرمائی۔

قال زید بن ثابت،امرنی رسول اللہ ﷺ فتعلمت لہ کتاب الیھود،وقال:انہ واللہ ما امن الیھود علی کتابی،فتعلمتہ، فلم یمرنی الا نصف شھر حتیٰ حذدتہ فکنت اکتب لہ اذاکتب،واقرء لہ اذا کتب الیہ۔([26])

”سیدنا زید بن ثابت فرماتے ہیں :یہودیوں سے خط کتابت کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہود کی زبان سیکھنے کا حکم دیا تو میں نے نصف ماہ سے بھی پہلے اسے لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا ۔اس کے بعد جب کبھی یہودیوں کی طرف سے کوئی تحریر آتی ،تو میں اس کا مفہوم آپﷺ کے گوش گزار کرتا اوراگر کوئی تحریر ان کو لکھنا ہوتی تو بھی آپ ﷺ کی طرف سے میں ہی انھیں لکھتا۔“

خطوط کے ذریعے ابلاغ کا استعمال

عہد رسالت میں مکے اور مدینے کے گرد چھوٹی چھوٹی ریاستیں موجود تھیں ۔آپ ﷺ نے اللہ کے دعوتی پیغام کو پہنچانے کے لیے ان ریاستوں کے حاکموں کو خطوط لکھے ۔مؤرخین کے نزدیک ان کی تعداد ۲۵۰ کے لگ بھگ ہے ۔ان خطوط کی تفصیل مکاتیب نبویﷺ بالراسلات نبویۃ کے نام سے محفوظ ہے۔([27](

مساجد کے ذریعے ابلاغ

مساجد ہمیشہ سے دینی تبلیغ اوراحکامات الہیہ کے فروغ کا اہم مرکز رہی ہیں ۔ یہیں سے ہمیشہ اللہ کی ہدایت کو پھیلانے کے لیے ہدایت و نور کی شعاعیں پھوٹی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ آتے ہی مسجد نبوی کی بنیاد رکھی جو کہ مدینہ میں اشاعت اسلام و تبلیغ کا پہلا مرکز قرار پائی ۔

مبلغین و معلمین کا ذرائع و ابلاٖغ کے طور پر استعمال

نبی اکرم ﷺنے دعوت دین پہنچانے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر معلمین بھی روانہ کیے ۔ جب کوئی قبیلہ اسلام قبول کرتا تو اس کے ساتھ کسی صحابی کو مبلغ بنا کر روانہ کرتے۔([28])

معاشرتی بگاڑ میں میڈیا کا کردار

یہ ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کا دور حاضر میں معاشرے کی اصلاح میں کردار کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ۔ لیکن آج جدید میڈیا کے وہ برے اثرات جس کا خصوصی طور پر شکار پاکستانی معاشرہ ہے ان سے بھی آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں ۔

عوام کو بے حس کرنے میں میڈیا کا کردار

جدید میڈیا نے انسان کو بے حس کر کے رکھا ہے۔کبھی ٹی۔ وی۔ ڈراموں کے اثرات نظر آتے ہیں تو کبھی ڈراؤنی یا جنسی فلموں سے بچے سہمے ہوئے نظر آتے ہیں جن کے اثرات نہ صرف بچوں پر بلکہ بعض اوقات بڑوں پر بھی نظر آتے ہیں ۔جس کی وجہ سے انسانی ذہن پر کچھ اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر گوہر مشتاق میڈیا کے ایسے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: جس دور میں ٹی۔ وی۔ انسانوں کو گھروں میں عام ہونا شروع ہوا تو اس وقت کمپیوٹر نہیں پہنچا تھا ۔کنسا س سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جان مرے نے دماغ کی تصویر لینے والے آلات کے ذریعےیہ ثابت کیا ہے کہ جب سے دس سال کے بچے ٹی وی پر تشدد اور جرائم والی فلمیں دیکھنے لگے ہیں تو ان کے دیکھنے کی وجہ سے ان کے دماغ کے وہ حصے متحرک ہو جاتے ہیں جو بعد میں ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔“([29])

فحاشی و عریانی میں زیادتی

جنس پرستی ،عورتوں کی برہنہ تصاویر اور مرد و عورت کا آپس میں اس قدر اختلاط معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا سبب بن رہا ہے جس کی وجہ سے آنے والی نسل میں حیا اور شرم ختم ہوتی جا رہی ہے ۔والدین اور اولاد ساتھ بیٹھ کر ایسے تمام فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں جن کی بدولت بچوں کی تربیت کے ساتھ ان کی جنسی حیثیت پر بھی اثر ات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا سبب میڈیا کی جدت پسندی ہے ۔حالانکہ اسلام بے حیائی کی اشاعت کی مذمت کرتا ہے۔

إِنَّ الَّذِیْنَیُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُون ([30](

”وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ،دنیا اور آخرت میں ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

اشیائے صرف کی مانگ میں اضافہ

خالد رحمان اس بابت لکھتے ہیں کہ: میڈیا اشیا کی مانگ میں اضافے کا سبب ہے ،اشیا کے مختلف نمونے اور ماڈل میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں ۔کئی چیزیں دکھا کر لوگوں میں خواہشات کو بڑھایا جاتا ہے ۔پہلے بازار جانا پڑتا تھا اب ہر چیز گھر بیٹھے بٹھائے مہیا ہو جاتی ہے۔([31])

بچوں میں تشدد کے رجحانات میں اضافہ

جدید میڈیا کی بدولت بچوں میں عجیب و غریب تبدیلی رونما ہو رہی ہے کیونکہ وہ کارٹونوں میں یا کسی بھی قسم کے ڈراموں اور فلموں میں جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور عملی طور پر اس کو اسی طرح ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا انھوں نے ٹی۔ وی۔ پر دیکھا ہوتا ہے۔قطب الدین النجار اس بابت لکھتے ہیں کہ: ذرائع ابلاغ میں بچوں پر اثر انداز ہونے والا سب سے اہم کردار ٹیلی وژن کا ہے۔ جو انسان کے قلب و ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے کر نقش و نگار بناتا ہے بلکہ یہ بظاہر خوبصورت نظر آتا ہے لیکن اندر سے اتنا ہی خطر ناک ہے ۔جس طرح ٹیلی وژن میں ڈراموں ( خاص طور پر کار ٹونوں میں ) تشدد دکھایا جاتا ہے تو بچے بھی اسی کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔([32])

ابلیسی ماڈل اور ابلاغ عامہ میں رائج ہونے والے نت نئے انداز

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی اور فرشتوں کو آدم ؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب نے اس حکم کی فرمانبرداری کی ۔لیکن شیطان نے حکم ماننے سے انکار کر دیا اور جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس کا جواب تکبر میں واضح تھا کہ:

قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ ([33])

”فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا ،بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔“

شیطان نے نہ صرف انکار کیا بلکہ مذہب کو چیلنج کیا اور مہلت مانگی کہ وہ اپنے طریقۂ ابلاغ سے آدم کی اولاد کو گمراہ کرے گا ۔اسی ابلیسی ماڈل میں نسل پرستی جھلکتی دکھائی دیتی ہے ۔الٹا معافی طلب کرنے کی بجا ئے مقابلے پر اتر آیا اور کہا:

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِیْ لأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِیْ الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ ۔إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ([34])

” اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔“

تو غور کریں تخلیق کائنات سے لے کر اب تک پوری انسانی تاریخ میں انبیاء کا ابلاغ اور ابلیس کا ماڈل ابلاغ ساتھ ساتھ ہیں ۔دور حاضر کا شر یہ ہے کہ آج کا جدید میڈیا شیطانی طریقہ ابلاغ کا مؤثر ہتھیار بن چکا ہے اور تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والے افراد اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ابلیسی ماڈل کن کن راستو ں سے مؤ ثر ثابت ہو رہا ہے۔

باریک اور عریاں لباس کا عام ہونا

ابلیسی مشن میں ذرائع ابلاغ کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ابلیسی حکمت عملی میں فحاشی و عریانی کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ابلیس کے حملہ آور ہونے کے انداز مختلف ہیں ۔ جیسا کہ انسان کو انفرادی اور معاشروں کو اجتماعی طور پر اخلاقی قدروں سے محروم کرتا ہے اور اس کا سبب مردو زن میں آزادانہ اختلاط اور معاشرتی اعتبار سے کثرت روابط خطرناک نتائج پیدا کرنے کا سب ہے ۔عورتوں کے لباس اس قسم کے ہیں کہ جن میں تمام جسم کے اعضا نظر آتے ہیں ، بازاروں میں ، کلبوں اور ٹیلی وژن میں یہ پہلو عام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے انسانی معاشرے اخلاقی طور پر گر چکے ہیں ۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ان المراۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان ،فاذا ابصر احدکم امراٰ فلیات اھلہ فان ذلک یرد ما فی نفسہ ([35])

”عورت شیطان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور شیطانی صورت میں پیٹھ پھیرتی ہے۔پس تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے تو اپنی بیوی کے پاس آئے۔“

معاشرتی شرم و حیا شیطانی تہذیب و ثقافت کے پھیلاؤ میں بنیادی رکاوٹ ہے۔مغربی تہذیب چونکہ شیطانی تہذیب کی عکس بندی کرتی ہے اس لیے بے حیائی کا فروغ اس کا اولین مقصد ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف مغربی تہذیب کو اختیار کرنے سے دور رہیں بلکہ اپنی اسلامی و مشرقی تہذیب و تمدن کی پاسبانی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کریں ۔

لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی گفتگو کی بناوٹ

ہمارے میڈیا چینلز پر آج ایسے پروگرام چلائے جاتے ہیں جن میں مزاح پیدا کرنے کے لیے نہ صرف فحش گفتگو کی جاتی ہے بلکہ جھوٹ پرمبنی ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کے تمام مواقع اور ان کے انجام سے آگا ہ فرمایاہے ۔یہاں تک کہ مزاح و تفریح طبع کے لیے بھی جھوٹی باتیں کہنے کی مخالفت کی ہے ۔جو شخص دوسروں کو ہنسانے اور اہل مجلس کی تفریح کے لیے جھوٹ بولے یالطیفہ گوئی کرنا چاہے اور اس سے کسی کو نقصان نہ بھی پہنچتا ہو ، پسند نہیں کیا گیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ویل للذییحدث فیکذب لیضحک بہ القوم ویل لہ ویل لہ ([36])

”ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو گفتگو میں قوم کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے ،اس کی بربادی ہے اس کی بربادی ہے۔“

شعرا اور کاہنوں کی باتوں اور خیالات کا ایک محدود اثر تھا ۔جاہلی کلچر میں بھی یہ اثرات اس قدر نہ تھے جتنے آج میڈیا کے سبب ہوگئے ہیں ۔حالانکہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا کا کام معلومات ،تعلیم اور تفریح مہیا کرنا ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں ابلاغ کے اصول و قواعد اور حدود وضوابط

(۱)خبر کی اشاعت سے قبل اس کی تصدیق

عام طور پر جو جھگڑے اور فسادات ہمارے معاشروں میں پائے جاتے ہیں ان کی ابتداہی جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے ۔اس لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسی خبروں کو پھیلانے سے منع کیا ہے جس بات کا مکمل یقین نہ ہو اس کو بلا تحقیق بیان نہ کیا جائے ۔بلکہ خبر لانے والے کی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ باتیں بنا نا اس کی عمومی عادت میں شامل تو نہیں ہے؟ اور معاشر ے میں جھوٹ تو نہیں بولتا۔اسی لیے اللہ تعالیِ نے قران مین فرمایا کہ:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْن ([37])

”اے ایمان والو !اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جا ایذا نہ دے بیٹھو،پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔“

مولانا مودودی اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ: اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی دعوت دی ہے کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمھیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے؟ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو جس کا ظاہری حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے تو اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کر لو کہ یہ واقعہ کیا ہے؟اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے ۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لیےیہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں پر کر ڈالے جس کی سیرت بھروسہ کے قابل نہ ہو۔([38])

۲۔جھوٹی خبر پھیلانے کی ممانعت

ایسی گفتگو جو جھوٹ اور فساد فی الارض کا سبب بنتی ہو اللہ تعالی نہ صرف اس کو نا پسند کرتا ہے بلکہ ایسا عمل کرنے والے پر لعنت بھی بھیجتا ہے۔

فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَأَبْنَائکُمْ وَنِسَاء نَا وَنِسَاء کُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَۃَ اللّہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔([39])

”ان سے کہہ دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمھارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمھاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمھاری جانیں ۔پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔“

۳۔برائی سے اجتناب کی تبلیغ

اس بات پر بھی یقیناً گرفت ہو گی جو لوگ برے کام سے نہ روکتے ہیں اور نہ ہی ان کو دل میں برا سمجھتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے:

کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہ،ُ لَبِءْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُون ([40])

”جو بری بات کرتے آپس میں ،ایک دوسرے کو نہ روکتے ،ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے ۔“

کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے نیکی کے حکم کی تاکید اور برائی سے ممانعت کی ذمے داری امت مسلمہ کے ہر فرد کا خاصہ ہے اس لیے ہر مسلمان اس بات کا جوابدہ ہو گا کہ برائی دیکھی تو اس کے لیے تم نے اپنا حق ادا کیایا نہیں ؟کیونکہ قرآن مجید میں ہے:

کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَت لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ ([41])

”تم بہترین امت ہو اور لوگوں کے لیے نکالے گئے ہو کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔“

۴۔ نیکی کے پیغام کوپھیلانا

اوریقیناًیہ بھی امت مسلمہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے کہ جو پیغام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے تمھیں دیا گیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچاؤ کیونکہ یہ نہ صرف انبیا کی خصوصیات میں سے ہے بلکہ ان کی بنیادی ذمے داریوں میں سے تھا۔

یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ([42])

”اے رسول پیغام دو جو کچھ اترا تمھیں تمھارے رب کی طرف سے۔“

اوریہی حکم رحمت عالم ﷺ نے اپنے آخری خطبے(حجۃ الواداع) کے موقع پر ایک لاکھ تیس ہزار جانثاروں اور اپنے سچے جانشینوں کے سامنے فرمایا، جسے اس کی شان کے باعث محبت الاسلام اور محبت البلاغ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: فلیبلغ الشاھد الغائب ([43])

”جو حاضر ہیں وہ میرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو غائب ہیں ۔“

آپﷺ کے اس ارشاد کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا:

فو الذی نفسی بیدہ ایھا لوصیۃالی امتہ فلیبلغ الشاھد الغائب ([44])

”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ آپ ﷺ کی امت کو یہی وصیت ہے کہ موجودہ لوگ غیر حاضر لوگوں تک (آُ پ ﷺ کی بات) پہنچا دیں۔“

ایک اور روایت میں آپﷺ نے فرمایا:

فلیبلغ الشاھد الغائب، فان الشاھد عسی ان یبلغہ من ھو اوعی لہ منہ ([45])

”جو موجود ہیں وہ ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں ، ہو سکتا ہے وہ پہنچائیں ۔ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں موجود لوگوں سے زیادہ اس کو محفوظ رکھ سکتا ہو۔“

آپﷺ نے مزید فرمایا:

تسمعون، و یسمع منکم ،و یسمع ممن یسمع منکم ([46])

”تم دین کی باتیں (براہ راست) سن رہے ہو اس کے بعد یہ باتیں تم سے سنی جائیں گی اور پھر تم سے لوگ سنیں گے ان سے ان کے بعد والے سنیں گے۔“

تویہ امت مسلمہ پر دین اسلام کی طرف سے ذمے داری ہے بلکہ یہ ایک ایساقرض ہے کہ جو نیکی کی باتیں دوسروں تک پہنچانے اور پھیلانے ہی سے ادا کیا جا سکتا ہےاور اس عمل کو اپنانے والے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے خوشی کی بشارت بھی عطا کی ہے۔

۵۔ کلمہ حق کا بیان

آپﷺنے مسلمانوں کو حق بات کہنے کا حکم دیا اور ظالم حکمران کے سامنے ابلا غ کے اس عمل کو افضل جہاد قرار دیا ہے۔

افضل الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جابر([47])

”سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے انصاف(حق) کی بات کرنا ہے۔“

اور ایک روایت میں حق کہنے والے کواللہ کی راہ میں جہاد کرنے والامجاہد قرار دیا ہے۔

من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء فھو فی سبیل اللہ عزوجل ([48])

”جو اللہ کے دین کے کلمے اور بلندی کے ساتھ اترا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے۔“

۶۔ غلط خبروں کی تشہیر کی ممانعت

غلط باتوں کی تشہیر اور مسلمانوں کی عزت نفس کو مجروح کرناکسی طرح ٹھیک نہیں ہے ۔بلکہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ ایسے عمل کو دھوکے اور فراڈ میں شامل کیا ہے اور اس بات کی تنبیہ کی ہے کہ اپنی زبانوں اور ہاتھوں سے اپنے مسلمان بھائیوں کو محفوظ رکھنا لازم ہے اگر تم مسلمان ہو تو۔

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ ([49])

”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں۔“

اور میڈیا کے فورم سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا ۔آپ کے پاس بڑی طاقت ہے ۔ آپ لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہیں ۔آپ کسی بھی بڑی سےبڑی شخصیت کو بنا اور تباہ کر سکتے ہیں ۔صحافت کی طاقت واقعتاً بہت بڑی ہے لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت ایک امانت ہے اس طاقت سے اپنی قوم کو بہبو د و ترقی کے راستے پر راہنمائی کریں۔([50])

۷۔سچی اور سیدھی بات کریں

جہاں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو یہ انتہائی عظیم اور انتہائی مقدس پیشہ ہے ۔اسی بناء پر اسلامی معاشرے نے نہ تو اس کو اس قدر آزاد کیا ہے کہ جیسےمغربی معاشرہ مادر پدر آزاد ہے اور نہ ہی ایسی سختی برتی ہے کہ سچ کا دم ہی گھٹ جائے۔اس لیے اسلامی تعلیمات کا یہ اصول ہے کہ جو بات بھی کی جائے وہ سچ پر مبنی ہو اور سیدھی کی جائے ۔جھوٹ کے پلندے بنا کر پیش نہ کیے جائیں ۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِیْداً ([51])

”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔“

ایک ذمے دار صحافی کا یہ کام ہے کہ اطمینان بخش یا خوف والی بات سنتے ہی چھاپ نہ دے یا کسی بھی موقع پر بیان نہ کر دے۔بلکہ اس کی صحت کا خیا ل رکھے اور مطلوبہ ادارے کے ان ذمے دار کارکنان کے مشورے کے بعد اس کو چھاپے جو لوگ خبر کی جانچ پڑتال کا ملکہ رکھتے ہوں تا کہ وہ اس کے قابل اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکیں۔ اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا:

کفی بالمرء کذباً ان یحدث لکل ما سمع ([52])

” کسی شخص کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے۔“

حق اور سچائی امانت ہے اور میڈیایا صحافت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ذمے داری سے حق بات کو آگے پہنچائیں تا کہ ان کی کسی غلطی کی وجہ سے کسی بھی مسلمان بھائی اور بہن کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔

اصلاح معاشرہ میں میڈیا کا کردار

میڈیا خواہ پرنٹ ہو، الیکٹرونک ہو یا سوشل ہو ، معاشرتی اصلاح میں اس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ میڈیا کے ذریعے تعلم و تبلیغ اور نصیحت کا فریضہ ادا کیا جا سکتا ہے ۔ اس وقت بھی میڈیا کے ذریعے لوگوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت اچھے پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں ۔ان ذرائع ابلاغ کو مزید مؤ ثر بنا کر معاشرے کی اصلاح کے لیے قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ پاکستانی معاشرہ کئی قسم کے مسائل سے دو چار ہے ،جس میں جہیز کی لعنت اور شادی بیاہ میں ہندو انہ رسومات شامل ہیں ،جھوٹے اور فراڈیہ پیروں اور تعویز گنڈوں نے معاشرے کو نہ جانے کس ڈگر پر چلا رکھا ہے تو یہ میڈیا کا فرض ہے کہ ان اور ان جیسے کئی دوسرے مسائل جن میں غریب انسان کی وہ زندگی، جس میں اس کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے ، اجاگر کرے تا کہ معاشرے کے لوگوں میں اچھائی کے ماحول کی طرف رغبت پیدا ہو اور یہ جاہلی ادوار، ہندوانہ رسومات اور معاشرتی بگاڑ کے تمام اسباب پر قابو پایا جا سکے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نیکی میں ایک دوسرے کی بھلائی اور مدد کی تلقین کی ہے ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان ([53])

”اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرواور گناہ اور زیادتی پر باہم ایک دوسرے کو مدد نہ دو۔“

اور دوسری جگہ تبلیغ کے اصولوں کو بیان کرتے ہوئے نیکی کی طرف بلانے کے طریقوں کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔

ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَن ([54])

”اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ،پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کروجو سب سے بہتر ہو۔“

یہ وہ وقت نہیں ہے کہ انفرادی اصلاح میں مصروف لوگ جنت کی تلاش میں گم چلتے رہیں اور باقی پورا معاشرہ برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو بلکہ دین اسلام کا مقصد پورے معاشرے کی اجتماعی فلاح وبہبود کا نام ہے۔

جیسا کہ مولانا شبلی نعمانی ایک بنی اسرائیل کی بستی کا قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس بستی میں ایک جماعت ایسی تھی جو اللہ کی حدود توڑنے والوں کو ان کی حکم عدولی کرنے پرمنع کرتی تھی۔ جب کہ ایک دوسری جماعت خود وعظ و نصیحت نہ کرتی لیکن وعظ و نصیحت کرنے والوں کویہ کہہ کر روکتی تھی کہ ان لوگوں کی ہلاکت کا فیصلہ تو ہو چکا ہے اس لیے نہی عن المنکر بے سود ہےتو جب اللہ کا عذاب آیا تو اس سے نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے محفوظ رہے لیکن مجرمین کے ساتھ معاشرے کے بگاڑسے لا تعلق رہنے والے بھی اسی لپیٹ میں آ گئے ۔یہ قصہ بتاتا ہے کہ اللہ کی نظر میں اپنوں سے پہلو تہی کرنے والے بھی اتنے ہی گنہگار ہیں جتنے کہ احکامات الہی کے صریحاً خلاف ورزی کرنے والے۔([55])

پاکستانی معاشرے کے میڈیا کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات ، نیکی کے کاموں کی تعلیم ، سماجی برئیوں کی نشاندہی ، بد اعمالیوں کے دنیوی اور دنیاوی برے اثرات اور ان کے نتائج سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے ۔ نہ صرف معاشرتی مسائل کو دکھائیں بلکہ ان کے تلف کرنے کے لیے حکومت پاکستان اور معاشرے کے افراد کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں ۔اسی طرح سے معاشرے میں بہتری اور ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی ہو گی ۔ یہ میڈیا کی اخلاقی اور سماجی ذمے داری ہے۔

اسی طرح علم کی اہمیت سے کوئی با شعور انسان ہی ناواقف ہو گا ۔میڈیا کو چاہیے کہ جامعات میں ہونے والا تحقیقی کام سامنے لانے میں مدد کرے ۔دنیا میں کی جانے والی علمی سرگرمیوں کو اجاگر کرے ،ان شخصیات کا تعارف کروایا جائے جنہوں نے علمی و تحقیقی کام میں کسی طرح سے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے یا اگر تعلیمی اداروں میں کہیں کوئی کمی بیشی ہے تو ان خامیوں کی نشاندہی کی جائے ۔یہ وہ ایسے چند معاملات ہیں جن میں علمی خدمت کے حوالے سے میڈیا اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح معاشرہ کو صیحح راہ پر چلا سکتا ہے بلکہ عوام کی صحیح معنوں میں رہنمائی کی جا سکتی ہے۔

عصر حاضر میں میڈیا کی ذمہ داریاں

میڈیا آج کے جدید معاشرے اور تہذیب کا ایک اہم جزو ہے ۔یہ کسی بھی معاشرے کے اجتماعی مزاج کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاں میڈیا نے اصلاح معاشرہ کا کام کیا ہے وہی زندگی کے کئی شعبوں کو متاثر بھی کیا ہے ۔اسی وجہ سے ذرائع ابلاغ کو معاشرے کا ترجمان کہا جاتا ہے ۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ صحافت ایک پاکیزہ اور مقدس پیشہ ہے اور معاشرے میں اس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لیےیہاں اس کی ذمے داریوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا کیونکہ جس چیز کا کردار اہمیت کا حامل ہو اس کی ذمے داریاں بھی اسی قدر زیادہ ہوں گی۔

قلم اور الفاظ کے استعمال کا لحاظ

قلم اور قرطاس ہی علم کی بنیاد ہے۔قلم سے تحریر جنم لیتی ہے جب کہ یہی تحریر مطبوعہ ذرائع ابلاغ کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ پر اس تحریر کی اہمیت کا ذکر کیا ہے:

ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ ([56])

”قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔“

اسی طرح پہلی وحی میں بھی علم اور قلم کے ذرائع کا تذکرہ کچھ یوں کیاہے :

الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ([57])

”جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔ “

قلم کے فن کا استعمال بھی اللہ نے خود سکھایا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے جائز اور ناجائز استعمال،فوائد اور نتائج سے خبردار نہ کیا ہو ۔ مفتی محمد شفیع اپنے ایک مضمون "آداب الاخیار " میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ذمے داریوں کی بابت لکھتے ہیں:اس باب میں سب سے زیادہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کس بات کا قلم سے لکھنا وہی کلیم رکھتا ہے جو زبان سے کہنے کا ہے۔جس کلام کو زبان سے ادا کرنے کا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے ۔اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے بلکہ لکھنے کی صورت میں گناہ اور ثواب دونوں کی صورت میں ایک زیادتی ہو جاتی ہے۔کیونکہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے ۔مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے ۔ اس لیے جب تک وہ دنیا میں رہے گی ،لوگ اس کے اچھے یا برے سے متاثر ہوتے رہے گے اس لیے مضمون نگار کا فرض ہے کہ مضمون پر قلم اٹھانے سے پہلے درج ذیل میعار پر جانچ لے۔

۱۔ جس کسی چیز پر لکھنے کا ارادہ کرے ، پہلے اپنے ذہن میں بٹھا لے کہ اس کا لکھنا میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ اگرجائز ثابت ہو تو قدم آگے بڑھائے ورنہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لیے گناہ میں ہاتھ رنگ کر ،برائی بد شگونی کے لیے اپنی ناک نہ کاٹے۔یہ ایک شرعی اجمالی قانون ہے جو فقط اخبارنویس میں ہی نہیں ہر قسم کی تحریر میں مسلمانوں کامطمح نظر ہونا چاہیے۔

۲۔جو واقعہ کسی شخص کی مذمت پر مشتمل ہو اس کو اس وقت تک شائع نہ کیا جائے جب تک احکام شریعہ سے اس کا ثبوت نہ مل جائے کیونکہ جھوٹا الزام لگانا یا افترا باندھنا کسی پر بھی جائز نہیں ہے ۔لیکن آہ!آج ہر قلم اس سے غافل ہے اور اخبار کاشاید ہی کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔

۳۔یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس معاملے میں افواہ کا عام یا کسی اخبار میں لکھ دینا کافی نہیں بلکہ شہادت شرعیہ ضروری ہے کیونکہ دور حاضر میں موجودہ تمام اخبارات کے صدہا تجربات نے اس بات کو نا قابل اعتبار کر دیا ہے کہ بہت سے مضامین اورواقعات جو اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور جس شخص کی طرف سے شائع ہوتے ہیں اس غریب کو خبر تک نہیں ہوتی۔یہ صورت کبھی قصداً کی جاتی ہے اور کبھی سہواً ہو جاتی ہے۔

۴۔کسی شخص کے عیب یا گناہ کا واقعہ اگر حجت شریعہ سے ثابت ہو جائے تب بھی اس کی اشاعت اخبارمیں کرنا جائز نہیں بلکہ اسلامی فرض یہ ہے کہ خیر خواہی سے تنہائی میں اس کو سمجھایا جائے ۔([58](

غیر تصدیق شدہ اطلاعات کو نشر نہ کرنا

قطب الدین النجار اس بابت لکھتے ہیں کہ: اس دور جدیدمیں میڈیا اس قدر آزاد ہو چکا ہے اور اس کی رسائی جس حد تک ہے اس میں ان لوگوں کا حق بنتا ہے کہ جب بھی کوئی خبر دیں تو اس کی پہلی تصدیق کر لیا کریں ۔غیر مصدقہ خبر نشر ہونے سے بعض اوقات عوام میں بڑے پیمانے پر پریشانی پیدا ہوتی ہے اور ان خبروں پر بے جا بحث و تنقید کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔لوگ چوراہوں اور گلی کے نکڑ پر بحث کرتے نظر آتے ہیں او رانھی باتوں میں مصروف ہو کر نہ صرف تصنیع اوقات کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ لوگوں میں بے چینی اور پریشانی پھیلانے میں بھی سر گرم اول نظر آتے ہیں ۔([59])

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض اوقا ت صحافی برادری کو غلط خبر چھاپنے اور ایسی باتیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں ، حکمران طبقے کے مجبور کرنے پر ان کی تائید میں چھاپنا پڑتی ہیں ۔اس کے علاوہ بعض اوقات ایسی دھمکیاں بھی موصول ہو رہی ہوتی ہیں کہ اشتہارات پر پابندی عائد کر دی جائے گی. ،مقدمات میں الجھا دیا جائے گا ،اخبار اورپریس سے ضمانت طلب کرنے اور اخبارات کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا جائے گا ۔ بعض اوقات کچھ مقاصد کے حصول کے لیے خوشامدانہ طریقہ بھی عمل میں لایا جاتا ہے ۔دھن ، دھونس اور دھاندلی کے حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔اس موقع پر اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کوکئی قسم کی مشکلات اور دباؤ سے دو چارہونا پڑتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حالات میں ذرائع ابلاغ حق گوئی اور سچائی کا فریضۃ جہاد سمجھ کر ادا کریں۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افضل الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جابر ([60](

قومی و ملکی سالمیت کا فروغ

وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا جس قدر فروغ پاتا جا رہا ہے اس کی ذمے داریوں میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا جارہاہے۔اسلامی معاشرے کی بنیاد رنگ و نسل ،جغرافیہ یا سرحدی حدود کی بجائے عقیدے کی وحدت پر مبنی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں ایسا میڈیا فروغ پاتا جا رہاہے جو کہ نہ صرف قومی سالمیت کے خلاف پروپیگنڈاکرتا نظر آ رہا ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر قومی اداروں کے خلاف بلا سوچے سمجھے آگ اگل رہا ہے۔ جو کہ ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے ۔دراصل ان کے پس پردہ بیرونی قوتیں موجود ہیں جو ملک کو داخلی طور پر کمزور کرنا چاہتی ہیں ۔اس وقت میڈیا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کو یکجا کرنے اور اتحادو اتفاق کی ہوا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ لوگ انتشار اور نفرت سے بچ سکیں اور ایک دوسرے کے قریب آئیں ۔

ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا

دین اسلام کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر ان پر ظلم ہو تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں ۔نہ خود کسی پر ظلم کریں اور نہ ہی کسی کا ظلم برداشت کریں ۔قرآن مجید میں ہے:

لاَّیُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ ([61])

”اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کا اعلان کرنا مگر مظلوم سے۔“

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب مشہور تابعی مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی شخص کسی کی مذمت یا شکایت کرے لیکن اگر کسی پر ظلم ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ ظالم کی شکایت کرے اور اپنے معاملے کا اعلان کرے ظلم کو لوگوں پر ظاہر کرے ، گویا مظلوم کو اس کا حق دلانے کے لیے شکایت زبان پر لانا ضروری ہے۔([62])

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان پر عذاب نازل کرے۔([63]) ایک اور حدیث میں ہے:

انصراخاک ظالماًاومظلوماً ([64])

”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“

صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے ،ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا ، ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سے باز رکھنا اس کی مددہے۔

آ ج کے دور میں یہ ذمے داری میڈیا بخوبی انجام دے سکتا ہے کہ ملک میں جہاں ظلم و ستم نظر آئے ،اس کی نشاندہی کرے تا کہ ظلم و ناانصافی کا ازالہ ہو سکے اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو کیونکہ ذرائع ابلاغ کا معاشرے میں کردار محتسب کا ہے۔

خبر گیری کے لیے لوگوں کی ٹوہ لگانے کی ممانعت

وقائع نگاری کومیڈیا میں انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔تمام ذرائع ابلاغ نے مختلف علاقوں میں اپنے اپنے نمائندے چھوڑ رکھے ہیں جو مختلف ذرائع سے خبریں اکھٹی کر کے اپنے اداروں کو مہیا کرتے ہیں ۔وقائع نگاروں کو یہ چاہیے کہ اگر کوئی خبر ان تک پہنچتی ہے تو حتی الامکان اس بات کی یقین دہانی کر لیں کہ اس میں کوئی غلط بیانی یا لغو پہلو تو نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے نیک بندوں کی صفت کچھ یوں بیان کی ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً۔ وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمّاً وَعُمْیَانا ([65])

”اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے پر گزر جاتے ہیں اور وہ کہ جب انھیں ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے ۔“

آ ج کل پاکستانی معاشرے کا میڈیا تو لوگوں کی ٹوہ میں ،عیب جوئی میں ،بد گمانی اور غیبت میں اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اس کو زندگی کے اس پہلو کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ اسلام ایسے تمام اعمال سے منع کرتا ہےاسلام تو اسلامی ریاست کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ شہریوں کے معاملات کی اس طرح جاسوسی کرے کہ ان کی ذاتی زندگی بھی محفوظ نہ رہ سکے یا میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے۔

ڈاکٹر خالد علوی اس بابت لکھتے ہیں کہ: اس امر کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ لوگوں کے عیوب بے نقاب ہوں اور ان کو بلیک میل کیا جا سکے ۔اسلامی نظریے کے مطابق یہ جائز نہیں ہے کہ ذرائع ابلاغ لوگوں کی نجی زندگی کے بارے میں کھوج لگاتے پھریں۔([66])

قرآن مجید میں بھی اس کی ممانعت کچھ اس طرح ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ۔([67])

”اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو ،بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ،کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرد ہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تو یہ تمھیں گوارا نہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے ۔“

پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ: کسی مسلمان کے عیبوں کا سراغ لگانا اور اس کے پوشیدہ حالات کو کریدنا ممنوع ہے کیونکہ اسی طرح اس کی پردہ داری ہوگی اور مزید احادیث بیان کی ہیں کہ جن میں مسلمان کو مسلمان بھائی کی ستر پوشی کا حکم دیا ہے تا کہ اللہ بھی انسان کی پردہ پوشی کرے۔اور اسی طرح ارباب اختیار کو بھی کسی کی مخفی اور پوشیدہ پہلوؤں کی ٹوہ میں نہیں لگ جانا چاہیے۔ لیکن مزید فرماتے ہیں کہ: اگر ایسی سرگرمیوں کا اندیشہ ہو جو کہ ملک مخالف ہو ں یا کسی کے قتل کی سازش کی جا رہی ہو تو اس کی جانچ پڑتال کرنا مباح ہے۔([68])

مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے بھید مت ٹٹولو، دوسروں کی خانگی اور ذاتی معاملات کی ٹٹول کر کے ان کے عیب معلو م کرنا ایسی بد اخلاقی ہے جس سے معاشرے میں طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں ۔

فحاشی پر مبنی مواد کی روک تھام

اسلام اس امر کو پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی پھیلائی جائے لیکن اس کے برعکس ہمارا میڈیا جنس پرستی سے متعلق خبریں ، مضامین اور تصاویر پوری تزئین اور تفصیل سے شائع کر نے میں ایک قدم آگے ہے۔بلکہ رسائل اور اخبارات میں تو کئی صفحات اس عمل کے لیے مخصوص کر رکھے ہوتے ہیں کہ جہاں اداکاراؤں ،ماڈلزاور برہنہ خواتین کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں اور اس کو باقاعدہ آرٹ اور کلچر کا نام دیا گیا ہے۔

عبد السالم زینی لکھتے ہیں کہ: اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔اس کے پاس اخلاقی و روحانی بنیادوں پر ایک جامع معاشرتی نظام موجود ہے ۔ایسی صورت میں ہمارے معاشرے کی ترجمانی کے دعو ےدار ذرائع ابلاغ کا مغربی معاشرے کی تقلید کرنا کسی طور پر درست نہیں ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم اپنے دین اور معاشرتی اقدار سے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔([69])

اسلام برائی ،فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کو حرام قرار دیاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید پیش کرتا ہے۔

إِنَّ الَّذِیْنَیُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُون۔([70])

”وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ،دنیا اور آخرت میں ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں کہ: اس پس منظر میں جدید ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کام فواحش کی اشاعت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔موجودہ ذرائع ابلاغ نوجوان نسل کو عریانی، فحاشی اور جنسی بے راہ روی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔فیشن شو ،اشتہارات ،شوبز ڈریس ڈیزائنگ اور گلیمر کی آڑ میں بے حیائی کا سیلاب ہے جو تمام اخلاقی قدروں کو ساتھ بہائے لے جا رہا ہے ۔ڈش انٹینا اورکیبل نیٹ ورک پر ہر قسم کی کی نشریات و مناظر دکھائے جا رہے ہیں ۔ بین الاقوامی سطح پر جتنے فلمی اور موسیقی کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں وہ آوارگی پھیلانے کا بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔([71])

سنسنی خیز خبروں اور افواہوں سے ممکنہ گریز

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج دنیا کے کسی کونے میں موجود خبر لمحے بھر میں دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے لیکن پاکستان میں ایک خاص پہلو لمحۂ فکریہ ہے کہ بعض اوقات اخبارات اور میڈیا سنی سنائی اور غیر تصدیق شدہ خبر چھاپ دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں انارکی،انتشار اور بے چینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔حالانکہ دو دہائی قبل جب کچھ ٹی۔ وی۔ چینلز ہوتے تھے تو پورا دن خبروں کو جمع کیا جاتا تھا۔ان کی تصدیق ہوتی تھی اور دن رات کے خاص اوقات میں وہ نشر کی جاتی تھیں ۔بدقسمتی سے اب کچھ ایسے چینلز موجود ہیں جو ہروقت (Breaking News)ہی نشر کرتے رہتے ہیں ۔اگر کہیں خدانخواستہ دھماکہ ہوا ہے تو اس طرح سے نشر کریں گے جیساکہ پورے ملک میں دھماکے ہوئے ہوں ۔گلی محلوں کی چھوٹی چھوٹی خبروں کو یوں مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا جاتا ہے جیسے بہت بڑے جرائم کے انکشافات کیے جا رہے ہوں۔ جگہ جگہ پر ظلم ،قتل و غارت ،ڈاکہ زانی کا بازار گرم ہے جیسے ذرائع ابلاغ کا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے ۔ان تمام پہلوؤں سے میڈیا معاشرے میں زیادہ تر منفی رجحان پیداکر رہا ہے ۔اللہ نے انسانوں کو ایسی شر پسندی اور شر انگیزی کے معاملات سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس طرح خبروں کا پھیلانا قرآن نے شر پسندوں کا طریقہ بتایا ہے۔

وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَیَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیْلا ([72])

”اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بھٹتے ہیں اور اگر اس میں رسول اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اس کی حقیقت جان لیتےیہ جو بعد میں کاوش کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے مگر تھوڑے۔“

میڈیا کی اصلاح کے لیے پاکستانی حکومت کے اقدامات

پاکستان کے۱۹۷۳ء کے آئین میں آرٹیکل نمبر ۱۹ میں آزادی صحافت کی ضمانت موجود ہے لیکن یہ غیر مشروط آزادی نہیں ہے ۔اسلام کے منافی یا ملک و ملت کے خلاف کوئی تحریر اور امن عامہ تباہ کرنے والی کوئی بھی تحریر و تصویر کی اجازت نہیں ہو گی۔([73])

پاکستان میں تمام مروجہ ذرائع ابلاغ کی موجودگی کے باوجود ہم اب تک مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے ۔ اس کی وجہ قومی پالیسی کی عدم موجودگی ہے میڈیا کی آزادی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اسے قومی اور ملی ضابط اخلاق کا پابند کیا جائے تا کہ مزاج کو یقین کی کیفیت میں بدلا جا سکے۔ڈاکٹر احسن اختر لکھتے ہیں کہ کیبل ،ٹی۔ وی۔ اور نیٹ ورک کی اصلاح کے لیے حکومت پاکستان نے ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ۱۹۹۶ء بنایا ہے ۔اس کے تحت ہر نیٹ ورک آپریٹرز کو لائسنس حاصل کرنا اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا لازم ہے ۔اس پابندی کا جائزہ لینے کے لیے حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں بنا دی ہیں ۔اس قانون کےمطابق جو شرائط وضع کی گئی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ لائسنس حاصل کرنے والا پروگرام ریلیز کرتے وقت ملک کی مذہبی،معاشرتی،ثقافتی او رروایتی اقدار کا احترام کرے گا۔جس پروگراموں میں غیر اخلاقی ،کھلی جنسی بے راہ روی ،تشدد اور دہشت گردی ہو گی تو اس کے چلانے کی اجازت نہیں ہو گی ۔بچوں کے پروگراموں میں ان کی معصومیت اور زود پذیری کے باعث اعلیٰ اخلاقیات کا خیال رکھا جائے گا۔([74])

خلاصہ ٔبحث

اسلام نہ قصدانہ نظریہ ابلاغ کی طرح سختی اور جبر کا قائل ہے اور نہ ہی مادرپدر آزادی پسند نظریے کا قائل ہے ۔اسلام کا نظریہ ابلاغ سچائی ،حقیقت اور فطرت کے عین مطابق ہے۔جو توازن اور اعتدال پر مبنی ہے ۔اسلام تنقید برائے اصلاح کا قائل ہے تا کہ معاشرے میں کوئی ایسی برائی نہ پھیلے جو معاشرتی اور مذہبی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے اور اصلاح کرنا مشکل ہو جائے ۔ایسا ذرائع ابلاغ جو کہ عریانی و فحاشی کی اشاعت ،ظلم و تشدد ،جھوٹے پروپیگنڈے اورانسانی وقار کو مجروح کرنے کا سبب بنتا ہے اسلام اسےقبول نہیں کرتا بلکہ اس کے پھیلاؤ بھی ممانعت کرتا ہے۔ اور یہی طریقہ کار آزاداور خود مختارمعاشروں کی خصوصیت بھی ہے کہ تکریم انسانیت کا خیال رکھا جائے۔پروفیسر شفیق جالندھری اس بارے لکھتے ہیں کہ اظہار وخیال کی مکمل ازادی کا تصور کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے ۔آزاد معاشروں میں مخالفت پر اس طرح پابندیاں عائد کی جاتی ہیں جس طرح کہ مضر صحت وخوراک ومنشیات وغیرہ کا ملک کے اخبارات و جرائد میں ایسا مواد شائع کرنے پر پابندی عائد ہے اور ایسے مواد سے بھی جس سے ہتک عزت اور بلیک میلنگ(black mailing)ہوتی ہویا اشتعال انگیزی ہواور ملک کو نقصان پہنچے۔([75])

ذرائع ابلاغ کے لوگوں پر یہ پابندیاں عائد ہوتی ہیں کہ کسی کی ذاتی زندگیوں میں دخل اندازی نہ معاشرتی لحاظ سے ٹھیک ہے اور نہ ہی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا ، تجسس کرنا اور غیبت کرنے کے عمل کو پسند نہیں کیا گیا ۔اسی طرح وہی معاشرے صالح اور پاکیزہ ہوں گے جن میں حکومت وقت کے دیے ہوئے اصول و قواعد کے مطابق ذرائع ابلاغ کام کرے ۔اس لیے میڈیا کا کام رائے عامہ کی اسلامی عقائد و روایات کی پاسداری ، اخلاقی اقدار کا تحفظ اور ریاست کے اچھے کاموں کی اشاعت اور برے کاموں کی مذمت کرنا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. () collier's encyclopedia, the cronell- collier publishing company,1963, vol,13,P642
  2. () شمس الدین، ڈاکٹر، ابلاغ عامہ کی نئی جہتیں، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،پاکستان۲۰۰۴ء،ص۲
  3. ()Enery, Alt,E Introduction to Mass communication, London,1979,P8
  4. ()اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ، پنجاب،۱۹۷۲ء،۱۲؍۷۶
  5. ()ابن منظور،جمال الدین، لسان العرب، کتاب "ت"مطبوعۃ نشر ادب الحوذۃ، قم، ایران
  6. () المائدۃ:۶۷
  7. () القرآن:ھود:۵۷
  8. () القرآن:ابراہیم:۵۲
  9. () القرآن:الاحزاب:۳۹
  10. () کنور، محمد دلشاد، ابلاغ عامہ اور دور جدید، اکیڈمک پریس ،لاہور،،۱۹۶۸ء،ص۱۳
  11. () Encyclopedia of Britannica , The university of chicago,Vol,72, P6
  12. () The World Book Encyclopedia, field enterprises education , mart plaza, Chicago, vol,9, p 54.
  13. () خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، ص۳۹۸
  14. () اقرا:4۔5
  15. () البقرۃ:۳۱
  16. () التوبۃ:۱۱۹
  17. () مہدی حسن، جدید ابلاغ عامہ، مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۰ء،ص۴۵
  18. () خالد علوی،ڈاکٹر،اسلام کا معاشرتی نظام، ص۴۰۴
  19. () ایضاً:ص۴۰۵
  20. () لیاقت علی خان نیازی، اسلام کا قانون صحافت،بک ٹاک ،لاہور، ۲۰۰۸ ء،ص۱۱۲
  21. () محمد انور بن اختر، عالم اسلام پر یہود و نصاریٰ کے ذرائع ابلاغ کی یلغار،ادارہ اشاعت اسلامی، کراچی،۲۰۰۳ء،ص۶۲
  22. () زیادت،احمد حسن، تاریخ ادب و عربی،(ترجمہ:عبد الرحمن طاہر) طبع غلام علی اینڈ سنز،کراچی،ص۶۱
  23. () مبارک پوری،صفی الرحمن، مولانا، الرحیق المختوم، شیش محل روڈ، لاہور، ص۱۱۳
  24. () بخاری، محمد بن اسماعیل،امام، الصیحح البخاری، رقم الحدیث:۴۲۹۲
  25. () ایضاً:رقم الحدیث:۵۸۰۰
  26. () سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: ۳۶۴۵
  27. () ان خطوط کے لیے ملاحظہ ہو: نقوش(رسول نمبر )لاہور، ادارۂ فروغ اردو،۲؍۲۶۶۔۲۱۷
  28. () آپ ﷺ نے ثابتؓ بن قیس کو پہلا خطیب اور مصعبؓ بن عمیر کو پہلا مبلغ بنا کر بھیجا ۔حضرت عبادہ بن صامت اہل صفہ کو قرآن پڑھاتے تھے ۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں (نقوش رسول نمبر،۵؍۷۱۴ا۔۷۰۴)
  29. () گوہرمشتاق، ڈاکٹر،میڈیا کا معاشرتی زہر، ماہنامہ البرہان،لاہور، جون ۲۰۱۲،ص۲۵
  30. () النور:۹
  31. () مغرب اور اسلام، اسلام آباد، خالد رحمان، عالمگیریت کا چیلنج اور مسلمان، جلد ۱۳،شمارہ،۲،۲۰۱۰
  32. () قطب الدین النجار، مسلم گھرانے پر ابلاغ کے اثرات،ص۸۳
  33. () الاعراف:۱۲
  34. () الحجر:۳۹۔۴۰
  35. () الصیحح المسلم:رقم الحدیث:۳۴۷۳
  36. () سنن ابی داؤد:رقم الحدیث:۴۹۹۲
  37. () الحجرات:۶
  38. () مودودی، ابو الاعلیٰ،سید،تفہیم القرآن،ترجمان القران، لاہور، ۵؍۷۴
  39. () العمران:۶۱
  40. () المائدۃ:۷۹
  41. () العمران:۱۱۰
  42. () المائدۃ: ۶۷
  43. () بخاری ،محمد بن اسماعیل، امام، الصیحح البخاری، رقم الحدیث:۱۶۵۴
  44. () ایضاً:رقم الحدیث:۱۶۵۲
  45. () ایضاً:۶۷
  46. () احمد بن حنبل، امام، مسند احمد،مؤسستہ الرسالہ،۱۴۲۱ھ،۵؍۱۰۴
  47. () سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:۴۳۴۶
  48. () الصیحح البخاری،رقم الحدیث:۱۲۳
  49. () الصیحح المسلم:رقم الحدیث:۱۷۱
  50. () ماہنامہ بیداری،ص۷
  51. () الاحزاب:۷۰
  52. () الصیحح المسلم،قم الحدیث:۷۰
  53. () المائدۃ:۲
  54. () النحل:۱۲۵
  55. () شبلی نعمانی، مولانا، سیرت النبیﷺ،۴؍۳۲۳
  56. () القلم:۱
  57. () العلق:3،4
  58. () محمد شفیع، مفتی، آداب الاخبار، کتاب صحافت اور اس کی شرعی حدود، ادارہ اسلامیات،لاہور،۲۰۰۳ء،ص۳۵ تا ۳۷
  59. () قطب الدین النجار، مسلم گھرانے پر ذرائع ابلاغ کے اثراتَ(مترجم:ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی) ادارہ معارف اسلامی، لاہور،۱۹۹۲ءص۲۶
  60. () ابو داؤد، امام، سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:۴۳۴۶
  61. () النساء:148
  62. () محمد شفیع، مفتی، محولا بالا
  63. () ترمذی، محمد بن عیسیٰ، امام، جامع ترمذی، رقم الحدیث:۲۱۶۸
  64. () مسلم بن حجاج، امام، الصیحح المسلم، رقم الحدیث:۴۶۵۸
  65. () الفرقان:۷۳
  66. () خالد علوی، ڈاکٹر،اسلام کا معاشرتی نظام،ص۱۳۵
  67. () الحجرات:۱۲
  68. () کرم شاہ الازہری، پیر، ضیاء القرآن، ۴؍۹۶۔۹۷
  69. () زینی، عبد السلام، ڈاکٹر، اسلامی صحافت، مرکزی مکتبہ اسلامی ،دہلی،۱۹۹۰ء، ص۱۳۵
  70. () النور:۹
  71. () اسلام کا معاشرتی نظام،ص۱۴۴
  72. () النساء:۸۳
  73. () The constitution of the Islamic republic of Pakistan,1973,P11, shaik zain
  74. () احسن اختر ناز، ڈاکٹر،پاکستانی معاشرے پر ذرائع ابلاغ کے اثرات:(الاضواء)شیخ زید اسلامک سنٹر،جامعہ پنجاب، لاہور
  75. ( )شفیق جالندھری، ڈاکٹر،صحافی اور صحافت،علمی کتب خانہ ،لاہور،ص۲۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...