Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

احادیث کی روشنی میں عصر حاضر کے چند اہم مالی معاملات کا تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060029336_521

Pages

71-82

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/53/50

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/53

Subjects

Ahadith Economy Prohibited Sources

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عالمی سطح پر چند ایسے معاشی معاملات ہورہے ہیں جو کہ زر کو امیر کے ہاتھ میں تھما رہے ہیں جب کہ غریب عوام غربت کی چکی میں پھستے چلے جارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کی اسلامی حیثیت ظاہر کردی جائے اور حکمتیں بیان کردی جائیں تاکہ اسلامی نظام معیشت کے معیار کو ناپا جاسکے۔

اس مختصر مقالے میں چند ایسے اہم معاملات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر عام ہیں جب کہ ان کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے حدیث کی رو سے انہیں ۱۴۰۰ سال پہلے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

ضرر اور ضرار دونوں ممنوع ہیں:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ کسی کو نہ ابتداء ًنقصان پہنچایا جائے اور نہ بدلے میں۔(2)

مذکورہ حدیث دین اسلام کےاصول میں معدود ہے، چنانچہ فقہاء نے اس کی بنیاد پر کئی فقہی احکام کا استنباط کیا ہے۔ علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں: اس حدیث کی تفسیر یہ ہے کہ انسان اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے ابتداءً یا جزاء (بدلہ یا انتقام میں زیادتی کی صورت میں) نقصان کا باعث نہ بنے ……… (مبیع میں) عیب کے وجود کی وجہ سے بیع کی تردید، بیع میں تمام قسم کے خیارات اور تمام قسم کی پابندیاں اس کے تحت داخل ہیں۔ اسی طرح شفعہ شریک کے لیے تقسیم کی ضرر سے بچنے کے لیے اور ہمسایہ کے لیے برے ہمسایہ سے بچنے کے لیے ثابت ہے، کیونکہ ہمسایگی کی وجہ سے گھروں کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتاہے۔(3)

قبضہ سے پہلے مبیع کی فروخت:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضى الله عنهما  أَنَّ النَّبِىَّ  صلى الله عليه وسلم،  قَالَ: مَنِ ابْتَاعَ طعاما فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ. زَادَ إِسْمَاعِيلُ: مَنِ ابْتَاعَ طعاما فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ (4)

"سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے طعام خرید لی تو اسے پوری طرح وصول کرنے سے پہلے فروخت نہ کرے۔ اسماعیل نے (اس روایت میں یہ) اضافہ بھی کیا ہے کہ جس نے طعام خرید لی تو قبضہ سے پہلے اسے نہ بیچے"۔

یہ حکم صرف طعام [Food]تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے مبیعات [Commodities]بھی اس میں داخل ہیں، چنانچہ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ہر چیز اس میں داخل ہے۔(5)

غیر موجود چیز کی فروخت:

عن حكيم بن حزام قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي أبتاع له من السوق ثم أبيعه؟،  قال لا تبع ما ليس عندك۔(6)

"حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پاس آکر کہا: میرے پاس کوئی آدمی آتا ہے اور مجھ سے  ایسی چیز


خریدنے کے لیے کہتا ہے جو میرے پاس موجود نہ ہو، تو کیا میں ایسی چیز اسے بیچ سکتا ہوں جسے بعد میں بازار سے خرید لوں؟۔ آپﷺ نے فرمایا: جو چیز تیرے پاس موجود نہ ہو تو اسے فروخت نہ کرو"۔

مذکورہ دونوں احادیث سے عصر حاضر کی ایک اہم بیع Future Sale کی ممانعت پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ Encyclopedia Britannicaنے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

"Commercial contracts calling for the purchase of sale of specified quantities of commodities at specified future date"(7)

Future Sale ایک مخصوص بازار میں منعقد ہوتے ہیں جسے Commodity Exchange کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار مختصرا ًیہ ہے کہ اس عقد کو انجام دینے کے لیے مندرجہ ذیل شروط لازمی ہیں:

۱: Commodity Exchange کا رکن  (Organ)ہو۔

۲: اگر رکن نہ ہو تو اس میں موجود ممبرز اور دلال کے واسطہ سے داخل ہو۔

۳: عقد کا دس فیصد یا سات فیصد رقم بطور ضمان جمع کرنا لازمی ہے۔

اس کےبعد مشتری مستقبل کی مخصوص تاریخ کے لیے مبیع خریدلیتا ہے جس کی ذمہ داری بازار کا بورڈ لیتا ہے لیکن آنے والی معین تاریخ میں یہ بیع ایسی نہیں ہوتی کہ مشتری کو مبیع(Commodity)  مل جائے بلکہ اس دوران مبیع کئی مرتبہ خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی جولائی کے مہینے میں گندم خریدنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے اکتوبر کا مہینہ معین کردیا جاتا ہے۔ جولائی اور اکتوبر کے درمیان ہر دن نفع کے ساتھ گندم کی خرید وفروخت پانچ سے دس مرتبہ ہوتی رہتی ہے مثلا ایک عقد ہزار پر ہوئی تو دوسری گیارہ سو پر ہوتی ہے۔ دن کے آخر میں Clearing Houseتمام دن کے بیوعات اور نفع کا حساب کرکے بائع کو دیتا ہے اور وہ اپنی نفع لے کر مکمل طور پر اس عقد سے نکل جاتا ہےحالانکہ مشتری مبیع وصول کرتا ہے نہ بائع اسے قبضہ کرتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اکتوبر کی معین تاریخ کے آنے پر آخری مشتری مبیع کی قیمت کے ساتھ تمام عقود کی نفع اور بورڈ کے اخراجات جمع کرکے بورڈ کو دیتا ہے۔

مذکورہ بیع میں بائع مبیع پرقبضہ نہیں کرتا اور مشتری وصول نہیں کرتا، لہذا سیدنا ابن عمرؓ کی حدیث کے مطابق یہ بیع جائزنہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مبیع کی قیمت کے ساتھ جولائی سے اکتوبر تک ہونے والے تمام بیوعات کی نفع، بورڈ کا خرچہ، نقل وحمل (Transportation) کا خرچہ اور حکومتی ٹیکسز وغیرہ کا اضافہ کرکے مبیع کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہے، جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے جب کہ امیر تاجر بغیر کسی ضمان (Risk) کے نفع حاصل کرکے چلا جاتا ہے۔

مستقبل سے متعلق ایک دوسری قسم کی بیع بھی ہے جسے Forward Sale یا Simple Forward Sale کا نام دیا جاتا ہے۔ Future Sale اور Forward Sale کے درمیان فرق  Encyclopedia Britannica نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:

"And the term commodity is used to define the underlying asset, even though the contract is frequently divorced from the product. It therefore differs from a simple forward purchase or sale in the cash market, which involves actual delivery of the commodity at the agreed time in the future."(8)

معلوم ہوا کہ فارورڈ سیل میں بائع اور مشتری حقیقتاً بیع کا ارادہ رکھتے ہیں اور مستقبل کی معین تاریخ کو مبیع مشتری کے حوالہ کردی جاتی ہے،لہذا یہ بیع شریعت کے اصول کے مطابق جائز ہے۔

قافلے کے راستے میں نکلنا: عن أبی هریرة رضی الله عنه قالَ: نهی النَّبیﷺ عن التَّلقی وأن یبیعَ حاضرٌ لبادٍ۔(9)

"سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے آگے جاکر قافلہ والوں سے ملنے سے منع فرمایا اور اس سے منع فرمایا کہ شہری دیہاتی کے لیے بیچیں"۔

فقہ حنفی کے مایہ ناز فقیہ ابن عابدینؒ نے تلقی رکبان کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ شہر میں قحط پڑ جائے تو تاجر جاکر کسانوں سے غلہ اس نیت سے خرید ے تاکہ شہریوں پر زیادہ قیمت میں بیچ دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ غلہ کو بے خبر کسانوں سے کم قیمت میں خرید لیں۔ ان دونوں صورتوں میں نقصان اور دھوکہ دہی ہے لہذا یہ جائز نہیں ہے۔(10)

علامہ ابن قدامہؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: روي أنهم كانوا يتلقون الأجلاب، فيشترون منهم الأمتعة قبل أن تهبط الأسواق، فربما غبنوهم غبنا بينا فيضربونهم، وربما أضروا بأهل البلد، لأن الركبان إذا وصلوا باعوا أمتعتهم والذين يتلقونهم لا يبيعونها سريعا ويتربصون بها السعر۔(11)

"کہا گیا ہے کہ وہ (تاجر) قافلہ کے سامنے نکلتے اور ان کے بازار پہنچنے سے پہلے سامان خرید لیتے۔ کبھی قافلہ والوں کو واضح دھوکہ دے دیتے (یعنی سامان کم ریٹ میں خریدلیتے) اور کبھی شہر کے لوگوں کو نقصان پہنچا دیتے، کیونکہ اگر سامان لانے والے خود اپنا سامان بیچتے تو جلدی اختیار کرتے (اور کم قیمت میں بیچتے) لیکن شہر کے تاجر جلدی نہیں بیچیں گے بلکہ اچھی ریٹ کا انتظار کریں گے"۔

خلاصہ یہ ہوا کہ تاجر قافلہ کے سامنے نکلنے یا کسانوں سے سامان خریدنے میں اگر ان کو دھوکہ دیدے یا قحط کی صورت میں شہریوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھالے یا سامان کو ذخیرہ کرکے قیمتوں کی اتار چڑھاؤ پر اثر ڈال دے تو چونکہ ان تینوں صورتوں میں بےجا نفع خوری کا عنصر موجود ہے، جس کی وجہ سےنبی کریمﷺ نے اس بارے میں انتہائی سختی فرمائی ہے، چنانچہ سیدنا جابرؓ کی

روایت میں منقول ہے: لاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعوُا النَّاسَ يَرْزُقِ الله بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ۔(12)

"شہری دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے۔ لوگوں کو چھوڑ دو کہ اللہ بعض کو بعض دوسروں کی رزق کا باعث بنا دے"ایک اور روایت میں  اس طرح کے الفاظ وارد ہیں:عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ. وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ أَوْ أَبَاه۔(13)

"انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے لیے بیع سے ہمیں منع کیا گیا ہے اگر چہ (دیہاتی) اس کا بھائی یا باپ کیوں نہ ہو"۔

اس کے مقابلے میں اگر اس عمل سے تاجر مذکورہ تینوں صورتوں میں سے کسی صورت کا باعث نہ بنے تو اس بیع کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔

ذخیرہ اندوزیHoarding :

نبی کریمﷺ نے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کے بارے میں غیر معمولی شدت سے کام لیا ہے، اس لیے کہ ذخیرہ اندوزی میں تاجر برادری چند روپوں کی خاطر عوام کو غلہ کے لیے تڑپا  تڑپا کر ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہے جو کہ دین کو ایک طرف رکھ کر تقاضائے بشریت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی ایک برا عمل ہے۔

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی نافرمان شخص ہی کرتا ہے۔(14)

سیدنا عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے مسلمانوں کی خوراک ذخیرہ کردی تو اللہ تعالیٰ اسے جذام اور غربت میں مبتلا کردیتا ہے۔(15)

سیدنا عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ (بازار) میں طعام لانے والے کی رزق میں برکت ڈال دی جاتی ہے جب کہ طعام ذخیرہ کرنے والے پر لعنت ہے۔(16)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جس نے چالیس دن خوراک ذخیرہ کردی تو وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے۔(17)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گنہگار ہے وہ شخص جس نے مسلمانوں پر قیمت بڑھانے کی خاطر ذخیرہ اندوزی کی۔(18)

ذخیرہ اندوزی مطلقا ممنوع نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ممنوع ہے جب کہ عام مسلمانوں کو نقصان اور قلت کا سامنا کرنا پڑے، چنانچہ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ حکرۃ (ذخیرہ اندوزی) سے مراد اس چیز کا ذخیرہ کرنا ہے جو مسلمانوں کے لیے ضرر ونقصان کا باعث بنے۔ اس میں وہ چیز داخل نہیں ہے جس میں ضرر نہ ہو۔(19)

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ اپنی ضرورت نہ ہونے کے باوجود قیمت بڑھانے کی خاطر طعام بیچنے سے منع

کردے جب کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہو۔(20)

علامہ ابن قدامہؒ کے مطابق ذخیرہ اندوزی تب حرام ہے جب اس میں تین شروط پائی جائیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز ذخیرہ کردے، لہذا اپنا غلہ ذخیرہ کرنا اس میں داخل نہیں ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ طعام ذخیرہ کردے، لہذا کپڑے وغیرہ جیسی چیزیں اس میں داخل نہیں ہیں۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کے ذخیرہ کرنے سے لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں، لہذا اگر

وسعت اور فراخی کی صورت میں ذخیرہ کردیا تو یہ بھی حرام نہیں ہے۔(21)

ذخیرہ اندوزی صرف خوراک کی چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ امام ابو یوسفؒ کے مطابق اس حکم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کا ذخیرہ کرنا عام مسلمانوں کو ضرر پہنچا دے۔(22)

خلاصہ یہ ہوا کہ حافظ ابن حجرؒ، امام بیہقیؒ اور امام ابویوسفؒ کی رائے کے مطابق یہ حکم صرف طعام میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جس کے ذخیرہ کرنے سے لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں تو اس کا ذخیرہ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح اگر تاجر یونین نے قیمت بڑھانے کی خاطر کسی چیز کو ذخیرہ کردیا تو یہ بھی حرام ہے جس کی دلیل سیدنا ابوہریرہؓ کی روایت ہے۔

بیع العربان (بیعانہ)[Deposit Sale]:

امام مالکؒ بیع العربون کی تعریف میں فرماتے ہیں: 

"(عربون) ہمارے خیال میں یہ ہے کہ آدمی غلام یا باندی خرید لے یا کوئی جانور کرایہ پر  لےلے پھر اس شخص سے کہے جس کے ساتھ شراء  یا کرایہ کا معاملہ کیا ہے کہ میں تمہیں ایک دینار یا ایک  درہم یا اس سے زیادہ یا کم اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے سامان (مبیع) خرید لیا یا اس جانور پر سواری کی جو میں نے کرایہ پر لی ہے تو جو (درہم اور دینار وغیرہ) میں نے تمہیں دیا ہے وہ ثمن میں سے شمار کیا جائے لیکن اگر میں نے سامان نہیں خریدا یا جانور کو کرایہ پر نہیں لیا تو میں نے جو (درہم اور دینار) تمہیں دیا ہے وہ بغیر کسی چیز (بدل) کے تمہارے ہوئے"۔(23)

امام ابن الاثیرؒ فرماتے ہیں:

العُربون هو أن يشتَرِي السِّلعةَ ويدفعَ إلٰى صاحبِها شيئاً علٰى أنّه إن أمضَى البيعَ حُسِب مِن الثَّمنِ، وإن لَّم يُمض البَيع كان لصاحبِ السِّلعة ولم يرتَجِعهُ المُشترِي۔(24)

"عربون یہ ہے کہ (مشتری) سامان خرید لے اور بائع کو(ثمن کا) کچھ (حصہ) اس شرط پر دیدے کہ اگر بیع تام ہوئی تو یہ ثمن سے شمار کرلیا جائے ورنہ اگر بیع تام نہ ہوئی تو یہ (پیسے) بائع کے ہوئے اور مشتری اس میں رجوع نہیں کرسکے گا"۔

بیعانہ احادیث کے تناظر میں:عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده: أن رسول اللهﷺ: نهی عن بیع العربان ۔(25)

"عمرو بن شعیب  والد کے واسطے سے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیع العربان (بیعانہ) سے منع فرمایا"

عن زيدِ بنِ أسلمَ قال: سُئل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن العربان في البيع  فأحله۔(26)

" زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے بیع عربان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے اسے جائز قرار دیا"

چونکہ بیعانہ کے بارے میں احادیث میں حلت وحرمت دونوں ثابت ہیں، اس وجہ سے بیعانہ کے بارے میں فقہاء کا نظریہ مختلف

ہے چنانچہ جمہور احناف، موالک ، شوافع اور حنابلہ میں سے ابو الخطاب کی رائے یہ ہے کہ بیعانہ جائز نہیں ہے، کیونکہ بیعانہ بلا عوض ثمن کا حصول ہے جو کہ شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے۔ یہ رائے سیدنا ابن عباس اور حسن رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے۔(27)

جمہور کے مقابلے میں امام احمد بن حنبلؒ کی رائے یہ ہے کہ بیعانہ بغیر کسی کراہت کے جائز ہے (28)، البتہ بعض حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ بیعانہ کی صورت میں انتظار کی مدت معین کردینی چاہیے کیونکہ بائع کب تک مشتری کا انتظار کرتا رہے گا۔(29)

ربا (سود):

ربا کے لغوی معنی زیادت، بڑھوتری، افزائش اور رفعت کے ہیں (30)۔رأس المال سے زائد مال پربھی ربا کا اطلاق ہوتا ہے۔(31)

شریعت کی اصطلاح میں ربا کے مختلف اقسام ہیں جن کی تفصیل  مندرجہ ذیل ہے:

ربا الجاہلیت:

ربا کی شرعی تعریف کرتے ہوئے ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں: والربا الذی کانت تعرفه العرب وتفعله، انما کان قرض الدراهم والدنانیر الی أجل، بزیادة علی مقدار ما استقرض، علی ما یتراضون به۔(32)

"اور وہ ربا جو اہل عرب کے مابین معروف ومستعمل تھا، اس کی صورت یہ تھی کہ وہ دراہم یا دنانیر ایک مخصوص مدت تک  اصل سرمایہ سے زیادتی کی شرط پر دیتے تھے، جس زیادتی پر وہ آپس میں متفق ہوجاتے"۔

سادہ الفاظ میں جاہلیت کا ربا یہ ہے: هو القرض المشروط علی أجل وزیادة مال علی المستقرض۔(33)

"وہ قرض جو معینہ مدت تک اس شرط پر دی جاتی جو کہ قرض لینے والے کو سرمایہ پر طے شدہ زیادتی کے ساتھ واپس کرنا لازمی ہوتی"۔

جاہلیت کی ربا کی ایک دوسری شکل وہ تھی جس کی طرف قتادہؒ نے اشارہ کیا ہے: ان ربا الجاهلیة: یبیعُ الرجل البیعَ الی أجلٍ مسمًّی، فاِذا حل الأَجلُ، ولم یکن عند صاحبه قضاءٌ زاده وأخَّر عنه۔(34)

"جاہلیت کے زمانے کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص معینہ مدت کے ادھار پر کوئی چیز فروخت کرتا تھا، جب وہ مدت آجاتی اور خریدار قیمت کی ادائیگی نہ کرسکتا تھا تو بیچنے والا قیمت میں اضافہ کرکے خریدار کو مزید وقت کی مہلت دے دیتا تھا"۔

شریعت اسلامی میں مذکورہ دونوں صورتوں کو "ربا الجاہلیت" یا "ربا القرآن" کے نام سے جانا جاتا ہے۔  

ربا الفضل:

مذکورہ صورتوں کے علاوہ بھی نبی کریمﷺ نے بارٹر سسٹم Barter System کی بعض صورتیں ربا کے زمرے میں داخل کردی ہیں، کیونکہ عرب ان اجناس کو بطور ذریعہ تبادلہ استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ربا کے کاروبار میں ملوث ہونے کا خطرہ تھا۔ اس قسم کو "ربا الفضل" یا "ربا السُّنۃ" کا نام دیا جاتا ہے جو کہ حدیث کی رو سے یہ ہے: عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّهُ قَالَ مَنْ عِنْدَهُ صَرْفٌ فَقَالَ طَلْحَةُ أَنَا حَتَّى يَجِىءَ خَازِنُنَا مِنَ الْغَابَةِ. قَالَ سُفْيَانُ هُوَ الَّذِى حَفِظْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِىِّ لَيْسَ فِيهِ زِيَادَةٌ. فَقَالَ أَخْبَرَنِى مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ  رضى الله عنه يُخْبِرُ عَنْ رَسُولِ الله  صلى الله عليه وسلم  قَالَ: الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ۔(35)

"مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے فرمایا :کہ کس کے پاس مال ہے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پاس ہے  لیکن جب ہمارے خزانچی جنگل سے واپس آ جائے۔ سفیان نے فرمایا یہ وہی روایت ہے جو ہم نے زہری سے یاد کی ہے اور اس مین کوئی زیادت نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ مجھے مالک بن اوس نے خبر دی ہے کہ انہوں نے سیدنا عمر بن الخطاب سے سنا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ سونے کو سونے کے بدلے دینا سود ہے مگر ہاتھ در ہاتھ،  غلہ کے بدلے غلہ دینا سود ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ، کھجور کے بدلے کھجور دینا سود ہے مگر ہاتھ در ہاتھ اور جو کے بدلے جو دینا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھ در ہاتھ ہو"۔

فقہاء اسلام کے مطابق ربا صرف ان چھ چیزوں میں محدود نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ بھی دوسری چیزوں پر ربا کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس نکتہ پر فقہاء میں اختلاف پیدا ہوا کہ ان چھ اشیاء کے درمیان وہ کون سی قدر مشترک ہے جس کو ربا الفضل کی علت قرار دی جائے؟۔

امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک وزن (تول) یا کیل (کسی برتن سے ناپ کر بیچنا) ان میں قدر مشترک ہے، لہذا ہر وزنی یا کیلی چیز جسے اپنی جنس کے مقابلے میں فروخت کیا جائے تو اس میں مذکورہ حدیث کے مطابق زیادت اور نساء (تاخیر) جائز نہیں ہے۔

امام شافعیؒ کے نزدیک ان چیزوں میں قدر مشترک قوت (خوراک) یا ثمنیت (تبادلہ کا ذریعہ) ہے، لہذا خوراک کی تمام چیزوں اور قانونی زر پر یہ حکم منطبق ہوگا۔

امام مالکؒ کے نزدیک ان چیزوں میں قدر مشترک قوت (خوراک) یا اذدخار (قابل ذخیرہ ہونا) ہے، لہذا تمام غذائی اشیاء اور جو

چیزیں قابل ذخیرہ ہوں اس حکم کے تحت داخل ہیں۔  (36)

حرمت ربا:

سود کے بارے میں شریعت اسلامیہ نے غیر معمولی شدت سے کام لیا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَأَحَلَّ اللّٰهُ البَیعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (37)"اور اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے"۔

اللہ تعالیٰ یہودیوں کے خصائل مذمومہ کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَأَخذِهُمُ الرِّبٰوا وَقَد نُهُوا عَنه"۔(38)

"نیز ان (یہودیوں) کی یہ بات کہ سود لینے لگے، حالانکہ اس سے روک دیے گئے تھے"۔

اسی طرح فرماتے ہیں: یٰأَیُّهَا الَّذِینَ لاَتَأکُلُوا الرِّبَا أَضعَافًا مُّضٰعَفَةً۔(39)"اے ایمان والو! سود مت کھاؤ  دگنا چوگنا کرکے"۔

سب سے آخر میں سود سے باز نہ آنے والوں سے فرمایا ہے کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا (سود لینے سے باز نہ آئے) تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔(40)

سمرۃبن جندبؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : رات میں نے دو شخص دیکھے وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس لے گئے۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں (نہر کے کنارے) ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔ (نہر کے کنارے) کھڑے شخص کے پاس پتھر تھے بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ باہر نکل جائے تو فورا ہی باہر والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اس طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا تھا اور وہ جہاں تھا واپس وہیں پر لوٹ آتا تھا۔ میں نے (اپنے ساتھیوں سے جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ نہر میں جس شخص کو تم نے دیکھا وہ سود کھاتا تھا۔ (41)

عون بن ابی جحیفہؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک پچھنا لگانے والا غلام خریدتے وقت دیکھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریمﷺ نے کتے کی قیمت اور خون کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ نے گودنے والی اور گدوانے والی  عورت کو اور سود لینے والے اور سود دینے والے کو (سود لینے یا دینے سے) سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ (42)

سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور گواہوں پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا ہے کہ تمام اس میں برابر ہیں۔(43)

خلاصہ:

شریعت اسلامی ایک عالمگیر مذہب ہے اور معیشت جیسی اہم امر سے ہرگز غافل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہمیں معیشت کے ایسے اصول فراہم کردیے ہیں جن کی وجہ سے معیشت ترقی کے زینے بھی پار کرتی رہے اور زروزمین کو چند افراد کے ہاتھوں میں سمیٹنے سے بچنے کا سامان بھی مہیا ہو۔

اسلام نے ہمیں ایک کلی اصول فراہم کردیا کہ نقصان دینا ابتداء ًوجزاء ًدونوں صورتوں میں قابل برداشت نہیں ہےجس کا اطلاق  دوسرے اوامر کے مقابلے میں معاملات پر زیادہ ہوتا ہے۔ پھر جزوی طور پر ہر اس معاملے سے منع فرمایا جس میں ضرر دینے کا عنصر موجود تھا چنانچہ دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی سے بچنے کے لیے قافلے کے راستے میں نکلنے، معدوم چیز اور قبل از وصولی مبیع کی فروخت سے منع فرما دیا۔ ذخیرہ اندوزی کو حرام ٹھہرادیا کیونکہ اس میں انسانیت کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح بیعانہ سے منع فرمادیا جو کہ اخذ بلاعوض ہے۔ سود کے معاملے کو سختی سے روکا جو ایک صورت میں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا ہتھیار ہے تو دوسری صورت میں غریب کا پیسہ امیر کے جیب کی دھن بننے کا ذریعہ ہے۔

نتیجتاً ثابت ہوا کہ اسلام ہر اس معاملے کے خلاف ہے جو عدل وانصاف سے ہٹ کر ظلم کی طرف جانے کا راستہ ہے۔

حوالہ جات:

1: عثمانی،محمد تقی، اسلام اور جدید معیشت و تجارت،مقدمہ، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، بدون تاریخ۔

2: ابن ماجہ، محمد بن یزید، السنن، کتاب الاحکام [۱۳]، باب من فی حقہ ما یضر بجارہ[۱۷]، حدیث ۲۳۴۱، دار الفکر بیروت، بدون تاریخ۔

3: ابن نجیم، زین العابدین بن ابراھیم، الاشباہ والنظائر،  ۱/ ۸۵، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان، ۱۴۰۰ھ، ۱۹۸۰ء

4: بخاری، محمد بن اسماعیل، الصحیح، کتاب البیوع[۳۴]، باب بیع الطعام قبل أن یقبض وبیع مالیس عندک[۵۵]،،دار المعرفہ بیروت لبنان، ۱۴۳۱ھ۔ ۲۰۱۰ء ، ص، ۲۱۳۶۔

5: ابن حجر، احمد بن علی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ۴/ ۳۴۹، دار المعرفہ، بیروت، ۱۳۷۹ھ۔

6: ترمذی، محمد بن عیسی، کتاب البیوع[۱۲]، باب: کراھیۃ بیع ما لیس عندک[۱۹]، حدیث ۱۲۳۲، دار الکتاب العربی، بیروت لبنان، ۱۴۲۶ھ۔ ۲۰۰۵ء۔

7: Britannica, Micropaedia 1988, v:5,  p: 62   

8:  Britannica, Micropaedia 1988, v:5,  p: 62

9: بخاری ، الصحیح، کتاب البیوع[۳۴]، باب: النھی عن تلقی الرکبان[۷۱]، حدیث ۲۱۶۲۔

10: ابن عابدین، محمد امین بن عمر، حاشیۃ رد المختار علی الدر المختار، ج۵: ۱۰۲، دار الفکر للطباعہ والنشر، ۱۴۲۱ھ، ۲۰۰۰ء۔

11: ابن قدامہ، عبد اللہ بن احمد، المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی،۴/ ۳۰۴، دارالفکر بیروت، ۱۴۰۵ھ۔

12: قشیری، مسلم بن حجاج، الصحیح، کتاب البیوع[۲۲]، باب تحریم بیع الحاضر للبادی[۶]، حدیث ۳۹۰۲، دار الجیل بیروت۔

13: ایضاً: رقم،  ۳۹۰۴۔

14: ابوداود، سلیمان بن اشعث سجستانی، کتاب الاجارہ[۲۴]، باب فی النھی عن الحکرۃ[۱۳]، حدیث ۳۴۴۹، دار الکتاب العربی بیروت، بدون تاریخ۔

15: ابن ماجہ،سنن، کتاب التجارات[۱۲]، باب: الحکرۃ الجلب[۶]، حدیث ۲۱۵۵ ۔

16: اایضاً، رقم،  ۲۱۵۳۔

17: شیبانی، ابو عبداللہ، احمد بن حنبل، المسند،۲/ ۳۳، مؤسسہ قرطبہ، قاہرہ۔

18:  ایضاً، ۲/ ۳۵۱۔

19: بیہقی، احمد بن حسین، معرفۃ السنن والآثار، ۸/ ۲۰۶، دار قتیبہ، دمشق، ۱۴۱۲ھ، ۱۹۹۱ء۔

20: ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری،۴/ ۳۴۷۔

21: ابن قدامہ، المغنی۴/ ۳۰۵۔

22: ابن عابدین، حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار۶/ ۳۹۸۔

23: امام مالک بن انس، الموطأ، باب ماجاء فی بیع العربان،۲/ ۶۰۹، داراحیاء التراث العربی، مصر، بدون تاریخ۔

24: ابن الاثیر، المبارک بن محمد، النہایہ فی غریب الحدیث والاثر،  ۳/ ۴۳۱، المکتبۃ العلمیہ بیروت، ۱۳۹۹ھ، ۱۹۷۹ء۔

25: مالک بن انس، الموطأ،باب:  ماجاء فی بیع العربان، ۲/ ۶۰۹۔

26: متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال،۴/ ۱۵۵، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۴۰۱ھ، ۱۹۸۱ء۔

27: وھبہ الزخیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ۵/ ۱۲۰ دارالفکر سوریہ، دمشق، بدون تاریخ۔

28: ابن قدامہ، المغنی ، ۴/ ۳۱۲۔

29: الفقہ الاسلامی وادلتہ، ۵/ ۱۱۹۔

30: زبیدی، محمد بن محمد بن عبد الرزاق، تاج العروس من جواھر القاموس، ۳۸/ ۱۱۷، مادہ ربو، دار الھدایہ، بدون تاریخ۔

31: اصفہانی، راغب، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ۱/ ۳۴۰، دار العلم الدار الشامیہ، دمشق بیروت، ۱۴۱۲ھ۔

32: جصاص، ابوبکر، احمد بن علی، احکام القرآن، ۲/ ۱۸۴، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۵ھ۔

33: ایضاً، ۲/ ۱۸۹۔

34: طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تأویل القرآن، ۶/ ۸، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۴۲۰ھ، ۲۰۰۰ء۔

35: بخاری، الصحیح، کتاب البیوع[۳۴]، باب: ما یذکر فی بیع الطعام والحکرۃ[۵۴]، حدیث ۲۱۳۴۔

36: جصاص، ابوبکر، احکام القرآن، ۲/ ۱۸۴۔

37: سورۃ البقرۃ۲: ۲۷۵۔

38: سورۃ النساء ۴: ۱۶۱

39: سورۃ آل عمران۳: ۱۳۰

40: سورۃ البقرہ۲: ۲۷۹۔

41:  بخاری، الصحیح، کتاب البیوع [۳۴]، باب آکل الربا وشاھدہ وکاتبہ [۲۴]، حدیث ۲۰۸۵۔

42: ایضاً، رقم ۲۰۸۶۔

43:  مسلم بن الحجاج، الصحیح، کتاب المساقاۃ[۲۳]، باب: لعن آکل الربا ومؤکلہ[۱۹]، حدیث ۴۱۷۷۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...