Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اخلاقی اور روادار معاشرے کے قیام میں صوفیاء کا کردار |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029336_522

Pages

01-16

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/125/115

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/125

Subjects

Holy Qur’ān Holy Prophet (SAW) Tasaw’uf(mysticism) Sofiy’ā Tolerance

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

اخلاق اور رواداری وہ چیزیں ہیں جن کی ضرورت ہر معاشرے کے لئے ہمیشہ بطور خاص اہم رہی ہیں لیکن دورحاضر کی ایک برائی یہ ہے کہ اس دورکے انسان میں تحمل وبرداشت نہیں ،ہم دوسروں کی کوتاہی پرگرفت کرنے کے لئے ہروقت تیاررہتے ہیں ،لیکن اپنی بڑی سے بڑی کوتاہی کوبھی نظرمیں نہیں لاتے ۔دوسروں کوبرابھلاکہنا ہم اپناحق سمجھتے ہیں لیکن اگرکوئی دوسراشخص ہمیں ایسی بات کہہ دے جوہمیں ناپسندہو خواہ وہ کتنی ہی سچی اورحقیقت پرمبنی کیوں نہ ہو ،ہم سیخ پاہوجاتے ہیں اورمرنے مارنے پرتیارہوجاتے ہیں ،تصوف ہمیں تحمل وبرداشت کی تعلیم دیتاہے جس کی بدولت ہم دوسروں کی دی ہوئی اذیت کوبرداشت کرسکتے ہیں اوریوں ایک اچھی اورمضبوط شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں۔

دورحاضرکی ایک بہت بڑی برائی لسانی ،نسلی اورمذہبی تعصب ہے ۔اسی کے زیراثر قتل وغارت اوردہشت گردی جیسی برائیاں آج کے معاشرے میں ہیں جن سے ہراہل دل دکھی ہے ۔صوفیائے صادق نے ہرقسم کے تعصبات کو ختم کرکے انسان دوستی کاسبق دیاہے ،صوفیائے کرام عقیدے ،زبان یازمین کی بنیاد پرکسی سے تعصب نہیں رکھتے ،وہ تعصب اورتنگ نظری کوقبول نہیں کرتے ،ان کارویہ اسلام کی روح کے مطابق ہے کہ اسلام مذہبی معاملات میں رواداری ،کشادہ نظری اورکشادہ دلی کاداعی ہے ، اسلام انسان دوستی کی دعوت دیتاہے ،اسلام کی نظرمیں سارے انسان بھائی بھائی ہیں کہ سب آدم کی اولاد ہیں ،سب اس خداکے بندے ہیں جو رحمن ورحیم ہے ۔خداکی صفت رحمانیت میں مسلمان ،کافر،مشرک اورملحد سب شریک ہیں یوں خداکی صفت رحمانیت تمام اہل ایمان کوانسان دوستی کاسبق دیتی ہے ،اسلام نے قومی تفاخر،لسانی تعصب اورنسلی تفریق کومٹاکر حق پرستوں اور باطل پرستوں یعنی اہل حق اوراہل باطل یعنی اہل خیر اوراہل ظلم کی تفریق قائم رکھی ہے اوریہی تواصل انسانیت ہے ،یہی اسلام کامفہوم ہے ، مقصودہے ،اس لئے اسلام ان سب انسانوں کے دلوں کو مطلوب ہے جو صاحب قلب سلیم ہیں کہ اسلام درحقیقت بنی نوع انسان کے دل کی آواز ہے ،اس کے ضمیر کی پکارہے ، اسلام بظاہر توایک دین ہے ،لیکن معنوی طورپر تمام ترحکمت وصداقت اوراخلاق حسنہ ہے ،مخلوق خداسے شفقت سے پیش آنا ،کسی اونچ نیچ کے بغیر تمام انسانوں سے برابری کاسلوک کرنا درحقیقت روح اسلام ہے ۔ذیل میں ہم تصوف اور صوفیاء کے تعارف اور کردار کے روشنی میں رواداری اور اخلاقیات کے قیام کے لئے اداء کئے جانے والے تعلیمات پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔

تصوف کامفہوم اوراس کی حقیقت :

سید علی ہجویری (داتاگنج بخش) اپنی مشہور تصنیف کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:

’’لوگوں نے اس نام (تصوف) کی تحقیق میں بڑی موشگافیاں کی ہیں اورکتابیں بھی تصنیف کی ہیں.....البتہ لفظ ’’صفا‘‘ان میں سے نہایت عمدہ اوردلپسندہے اور کدورت اس کی ضد ہے ،صفو سے مراد اشیاء کی خوبی ولطافت ہے اورکدورت سے مراد اشیاء کی کثافت وغلاظت ہے ،پس چونکہ اہل تصوف اپنے اخلاق وعادات کو مہذب وشستہ بنالیتے ہیں اورطبعی عیوب کی آلودگی سے اپنے آپ کو پاک رکھتے ہیں، اس لئے صوفی کہلائے ‘‘۔[1] 

مرتعش کہتے ہیں ’’تصوف حسن اخلاق کانام ہے ‘‘ ۔اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علی ہجویری اس کی تین صورتیں قراردیتے ہیں :

1: حسن خلق اللہ کے ساتھ ۔ریاکاری کے بغیراللہ کے احکام کی پیروی کی جائے ۔

2: حسن خلق مخلوق کے ساتھ ۔مراد بزرگوں کااحترام ،چھوٹوں پرشفقت اورہم جنسوں سے لالچ کے بغیر انصاف کرکے خودان سے انصاف کامطالبہ نہ کرے ۔

3: حسن خلق اپنی ذات کے ساتھ ۔یعنی خواہشات نفسانی اورشیطان کی متابعت نہ کی جائے ۔[2]

شیخ ابوعبداللہ ساطی ؒ سے کسی شخص نے پوچھا کہ اولیاء اللہ کی شناخت کیسے ہوسکتی ہے ؟ ارشادفرمایا:

’’میٹھی زبان ،خوش خلقی ،خندہ پیشانی ،مسکراتا ہواچہرہ ،خوہ مخواہ کسی سے نہ الجھنا، عفوودرگزر کاشیوہ ،لوگوں سے ہمدردی ....یہ اعلیٰ اوصاف جن میں پائے جائیں ، وہ اولیاء اللہ ہیں‘‘۔[3]

تصوف اسلامی ایساطرز زیست ہے جس میں قرآن وسنت کی مکمل پیروی ہے اورباطن میں صدق وصفا ،عجز وتوکل کی آمیزش رہتی ہے ،صوفی وہ ہے جو ہمیشہ باعمل وپرکاررہتاہے ،اس کاایک لمحہ بھی نیک مقاصد اوریادخدا سے خالی نہیں گزرتا ۔[4]

ابن خلدون لکھتے ہیں:

’’تصوف کے مقاصد اصلیہ یہ ہیں کہ انسان عبادت الٰہی میں جان کھپائے ،پوری طرح اللہ کاہولے اوردنیا اوردنیاکی لغویات وزخرفات سے بالکل منہ موڑلے اورعام دنیادار جن چیزوں پر مٹے پڑے ہیں ،یعنی لذات دنیویہ ،مال وجاہ سے قطعی کنارہ کش ہوجائے ،عبادت کے لئے عزلت نشینی وگوشہ نشینی پسند کرے ‘‘ ۔[5]

تصوف درحقیقت روحانیت کے اہتمام کانام ہے ،اس تصوف کی بنیاد یہ ہے کہ روحانیت کے ذریعہ سے انسان کی تربیت ہوتی ہے اور انسان روحانی تربیت سے آراستہ ہو کر خود بھی پرامن ہوجاتا ہے اور اپنے اعمال وکردار سے مخلوق خدا کو بھی امن وامان قائم رکھنے کا درس دیتا ہے۔روحانیت کے اس اہتمام میں کبھی اتنا غلوہوجاتاہے کہ صاحب تصوف اپنی جسمانی اورمادی ضرورتوں کویکسرفراموش کردیتاہے ،جب اسلام آیا تواس نے لوگوں کو روحانی زندگی اورمادی زندگی کے درمیان توازن کی تعلیم دی ،اس توازن اوراعتدال کوصحابہ کرمؓ نے بھی قائم رکھا اورآپ کے بعد سلف صالحین نے بھی یہی روش اختیارکی ،اس کے بعد وہ دورآیا جب اللہ نے مسلمانوں کوخوشحالی سے نوازا ۔ان میں دولت عام ہوئی ،مال ودولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ علم وہنرکابازاربھی گرم ہوااورلوگوں کارجحان علم وعقل کی باتوں کی طرف مائل ہوا ،ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندرمختلف فرقے وجودمیں آئے ،ایک وہ فرقہ تھا جس نے مال ودولت کوخاص اہمیت دی اورزندگی کے مادی پہلوؤں میں گم ہوگیا ،دوسرافرقہ علم وعقل کے کارناموں میں اتنامحوہوا کہ ان کی عقلوں نے بعض ایسے علوم کی اختراع کی جواصل اسلامی تعلیمات سے دورتھے ،مثلاً : علم کلام وغیرہ ۔اسی طرح فقہاکرام فقہ شریعت کی بحثوں میں ایسا الجھے کہ انہوں نے دین کے روحانی اورباطنی پہلو کوفراموش کرکے ساری محنت ظاہری اورجسمانی پہلوؤں کی نذرکردی ۔

اس معاشرے میں ایساکوئی نہیں تھا جوروحانی اورباطنی پہلوؤں کی طرف توجہ کرتا اورروحانیت کی تعلیم دیتا ،اس خلاکوپرکرنے کے لئے علماء کرام کاایک ایساطبقہ وجود میں آیا جنہوں نے دین کے روحانی پہلوؤں پرتوجہ مرکوزکی اورروحانیت کاطریقہ اپنایا ،اسی طریقے پرچل کر خوداصلاح کی اورلوگوں کوبھی اس کی طرف دعوت دی ،یہ طبقہ صوفیائے کرام کاطبقہ تھا ،ان کی تعلیم یہ تھی کہ زہد کے ذریعے سے مادیت سے دامن بچاکراوراپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرکے اپنے آپ کو اللہ کی ناراضی اورجہنم کی آگ سے بچایاجائے ،ان کی تعلیم یہ تھی کہ سب سے پہلے انسان اپنے باطن کی اصلاح کرے ،اپنے اندرسے نفسیاتی بیماریوں اورآلائشوں کودورکرے اوردل کی دنیا کوروحانیت سے آبادکرے ،چنانچہ اس طبقہ کی ساری بھاگ دوڑروحانیت کی تربیت کے لئے تھی ۔[6]

بہرحال تصوف کامقصد یہ ہے کہ صوفیاکرام اس عمل کے ذریعہ اپنے باطن کی اصلاح کرتے ہیں اور لوگوں کوبھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیمات پرسختی سے عمل کریں ،جب باطن کی اصلاح ہوجاتی ہے تو انسان ہر قسم کے ظلم وستم گری سے بازآکر امن ومان کا گرویدہ بن جاتا ہے، دنیاوی زندگی کے فتنوں سے حتی الامکان اجتناب ،اللہ تعالیٰ کی محبت کودل میں جاگزیں کرکے دل کو نفسیاتی آلائشوں سے پاک کرتا ہے۔

اخلاق:

صوفیہ کی نظرمیں تمام مخلوقات خداوندتعالیٰ کی دامن ربوبیت میں پل رہی ہیں ،خواہ سنی ہو ،شیعہ ہو ،ہندوہو ،عیسائی ہو،یہودی ہو ،کافرہو ،مشرک ہو ،مغرب کارہنے والاہو یامشرق کا،گوراہویا کالا ،انگریزی بولتاہو یااردو یاعربی، صوفی صاف دل سب کو اپنے سینے سے لگالیتاہے ،اپنے حسن عمل اورحسن اخلاق سے دین مبین کی روح کی تبلیغ کرتاہے۔خلق انسان کے اس عادت کانام ہے جس کااظہار بلاتکلف ہوتا ہے ،مشہور لغوی ابن منظور نے خلق کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے کہ:

’’ خُلق اورخَلق کامعنی فطرت اورطبیعت ہے ،انسان کی باطنی صورت کومع اس کے اوصاف اورمخصوص معانی کے خُلق کہتے ہیں ،جس طرح اس کے ظاہری شکل وصورت کو خَلق کہاجاتا ہے ‘‘۔[7]

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’خلق‘‘ کی حسب ذیل تعریف کی ہے ۔

’’ خلق وہ ہیئت راسخہ ہے نفس میں، جس سے کہ افعال بہ آسانی بلا فکر و تامل صادر ہوں ،پس اگریہ ہیئت ایسی ہے کہ اس سے ایسے افعال صادر ہوں، جو عقلاً اور شرعاً عمدہ ہیں، تو اس ہیئت کا نام خلق خوب ہے اور اگر اس سے برے افعال صادر ہوں، تو ا س ہیئت کا نام خلق بد ہے ‘‘۔[8]

دنیا کے تمام مذاہب نے اپنی بنیاد اخلاق پر رکھی ہے، لیکن اسلام نے اخلاقیات پر جتنا زور دیا ہے دوسرے کسی مذہب میں نہیں دیا گیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ تک جتنے بھی انبیاء ؑ اس دنیا میں تشریف لائے ،انہوں نے ہمیشہ اچھے اخلاق کی تعلیم دی اور بُرے اخلاق سے اپنی امت کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کی ،عقائد و عبادات کے بعد تعلیمات اسلامی میں اخلاقیات کا درجہ آتا ہے ، بلکہ اخلاق کو بعض لحاظ سے عبادات سے بھی بڑھا دیا گیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد میں اخلاقی کوتاہی کی معافی اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے اس بندے کے ہاتھ میں رکھی ہے ،جس کی حق تلفی کی گئی ہو ۔دلوں کو صرف اخلاق حسنہ سے ہی فتح کیاجاسکتا ہے ،کیونکہ نماز اورروزہ سے توآدمی اس وقت متاثرہوگا جب وہ کسی کے قریب آئے گا اورقریب لانے والی چیز اخلاق ہے ،آپؐ اگرچہ پیغمبرانقلاب بھی ہیں ،لیکن آپؐ نے یہ انقلاب اپنے اخلاق حسنہ سے دنیا میں برپاپاکیا ۔جس زمانے میں مکہ کی سرزمین باوجود اپنی وسعت کے قریش مکہ کی ستم رانیوں کی وجہ سے آپؐ پرتنگ کردی گئی تھی ،اس وقت لوگوں کی اکثریت آپؐ کے اخلاق جمیلہ سے متاثرہرکر حلقہ بگوش اسلام ہوئی تھی ،ابوسفیان اوراس کی بیوی ہند ابوجہل کابیٹا عکرمہ اوردوسرے بڑے بڑے رؤ ساء کفر آپؐ کے اخلاق حسنہ سے متاثرہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔

اخلاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ:

’’اخلاق سے مقصودباہم بندوں کے حقوق وفرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کواداکرنا ہرانسان کے لئے مناسب بلکہ ضروری ہے ،انسان جب اس دنیا میں آتاہے تواس کی ہرشئے سے تھوڑابہت اس کاتعلق پیدا ہوجاتاہے ،اسی تعلق کے فرض کو بحسن وخوبی انجام دینا اخلاق ہے ،اس کے اپنے ماں باپ ،اہل وعیال ،عزیز ورشتہ دار،دوست واحباب ،سب سے تعلقات ہیں، بلکہ ہراس انسان کے ساتھ اس کاتعلق ہے جس سے وہ محلہ ،وطن ،قومیت ،جنسیت یااورکسی نوع کاعلاقہ رکھتاہے ،بلکہ اس سے آگے بڑھ کرحیوانات تک سے اس کے تعلقات ہیں اوران تعلقات کے سبب سے اس پرکچھ فرائض عائدہیں ۔دنیا کی ساری خوشی ،خوشحالی اورامن وامان اسی اخلاق کی دولت سے ہے ،اسی دولت کی کمی کوحکومت وجماعت اپنے طاقت وقوت کے قانون سے پوراکرتی ہے،اگرانسانی جماعتیں اپنے اخلاقی فرائض کوپوری طرح ازخودانجام دیں توحکومتوں کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو،اس لئے بہترین مذہب وہ ہے جس کااخلاقی دباؤاپنے ماننے والوں پراتناہو کہ وہ ان کے قدم کوسیدھے راستہ سے بہکنے نہ دے دنیاکے سارے مذہبوں نے کم وبیش اسی کی کوشش کی ہے اوردنیا کے آخری مذہب اسلام نے بھی یہی کیاہے ‘‘۔[9]

اسلام میں اخلاق کوجواہمیت حاصل ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز میں جودعامانگتے تھے ،اس کاایک فقرہ یہ بھی ہوتاتھا:

واھد نی لاحسن الاخلاق لایھدی لاحسنہا الاانت واصرف عنّی سیّئاتھا لایصرف عنّی سیّئاتھا الّا انت [10]

ترجمہ:اوراے میرے خدا: تومجھ کو بہترسے بہتراخلاق کی رہنمائی کر،تیرے سوا کوئی بہترسے بہتراخلاق کی راہ نہیں دکھاسکتا اوربرے اخلاق کومجھ سے پھیردے اوران کوکوئی نہیں پھیرسکتا ،لیکن تو۔

ان الفاظ کی اہمت کااندازہ اسے ہوگا کہ ایک پیغمبر اپنے تقرب اوراستجابت کے بہترین موقع پربارگاہ الٰہی سے جوچیز مانگتاہے وہ حسن اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت اوررسول اللہ ؐ کاقرب حسن اخلاق کے ذریعے سے حاصل ہوسکتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

احبّ عباداللّٰہ الی اللّٰہ احسنہم خلقاً [11]

ترجمہ:اللہ کے بندوں میں سب سے پیاراوہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

حضور اکرم ﷺ نے جہاں اخلاق کی اہمیت کوواضح کیا وہاں بنیادی اصول بھی مہیا فرمائے،وہ اصول جن کی بنیاد پراخلاق کے حسن وقبح کافیصلہ ہوسکتا ہے ،جیسا کہ آپؐ نے وابصہ بن معبدؓ کے سوال پر انہیں گناہ کی حقیقت اورمعصیت کافلسفہ بڑے سادہ اورعام فہم انداز میں سمجھادیا:

’’ اے وابصہؓ ! اپنے دل سے پوچھاکراوراپنے نفس سے رائے لیاکر ،نیکی وہ ہے جس سے دل اورنفس میں طمانیت پیداہو اورگناہ وہ ہے جودل میں کھٹکے اورنفس کوادھیڑ بن میں ڈالے ،اگر چہ لوگ تجھے اس کاکرنا جائز ہی کیوں نہ بتائیں ‘‘۔[12]

قلب کی یہ صلاحیت اورباطن کی یہ آواز انسانی کردار پراپنااثرڈالتی رہتی ہے ،لیکن انسان اگراس کی حفاظت نہ کرے تویہ آواز مدھم ہوسکتی ہے اوریہ صلاحیت مٹ سکتی ہے ،اسے زندہ رکھنے یامٹانے میں انسان کاانفرادی ارادہ بہت اہمیت رکھتاہے ،گو معاشرتی ماحول اوراجتماعی احوال بھی مثبت ومنفی تاثیرات رکھتے ہیں ،حضوراکرم ﷺ نے اس صلاحیت کی بقاء وضیاع کوایک پرحکمت طریقے سے سمجھایاہے :

’’ بندہ جب کوئی گناہ کرتاہے تواس کے دل پرایک سیاہ نکتہ پڑجاتاہے ،اگراس نے پھر اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا اورخداسے مغفرت مانگی اورتوبہ کی تواس کادل صاف ہوجاتاہے اوراگر اس نے پھروہی گناہ کیاتوداغ بڑھ جاتاہے اوریہاں تک کہ وہ پورے دل پرچھاجاتاہے ‘‘۔[13]

معلم اخلاق ؐ کی یہ تعبیر حیات انسانی کے دینی تجربوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے ،کیونکہ عام طورپرگناہ کے تاریک اثرات کوزائل کرنے اورفطری صلاحیت کوبرقرار رکھنے کی کوئی مثال نظرنہیں آتی ۔ آپؐ کی تعبیر نے جہاں گناہ کی سیاسی اوراس کے تخریبی اثرات کاذکرکیا ،وہاں اس سے بچنے اورروح کوزندہ وبالیدہ رکھنے اورباطنی شخصیت کو مجتمع رکھنے کے لئے نسخہ بھی تجویز فرمایا جواس وقت منفرد علاج کی حیثیت رکھتاہے اوروہ ہے توبہ ورجوع الی اللہ ۔اس طاقتور دواکے ساتھ باطن کی تمام کثافتیں دورہوجاتی ہیں اورانسان کامن اجلا ،نکھرا ،ستھرارہتاہے ۔[14]

انسانی اوصاف کو خصوصی تربیت سے ایک خاص نہج پرمنظم ومستحکم کیاجاسکتاہے ،انسانی معاشروں میں انبیاء ومصلحین کایہی تعلیمی وتربیتی کرداررہاہے، جس نے اچھے افراد ،صالح جماعتیں اورپرامن وپاکیزہ معاشرے پیداکئے ۔انسانی کمالات کے عمدہ معیار یہی نفوس قدسیہ ہیں جن کے مطابق ہردورمیں عمدہ نمونے ڈھلتے رہے ہیں ۔دنیامیں محاسن اخلاق کاجو بھی سرمایہ ہے وہ صرف انہی مقدس ہستیوں کی وجہ سے ہے جو حسن اخلاق اورکمالات انسانی کااعلیٰ پیکر تھے ،انبیاء کویہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہیں پروردگار عالم نے ایک خاص مقصد کے لئے تیارکیا ،ان حضرات کی حیثیت تلامیذ الرحمن کی ہے جو فیوضات الٰہیہ سے مستفیض ہوکرانسانیت کے لئے نمونہ کمال اور پیکر امن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہرنبی ورسول نے اپنے اپنے دورمیں اخلاق انسانی کے اعلیٰ معیارات قائم کرکے انسانیت کے لئے روشنی کاسامان مہیاکیا ۔انسانی افراد اورمعاشروں پربے شمار لوگ اثرانداز ہوتے ہیں اورانسان کی اثرپذیری کی وجہ سے اوصاف واعمال کے لاتعداد نمونے تشکیل پاتے رہتے ہیں ،لیکن جو حیثیت انبیاء کو حاصل ہے وہ کسی اورکو میسر نہ آسکی ۔انبیاء کی پیروی میں اللہ کے صالح بندوں نے تزکیہ نفوس اورتطہیر قلوب کاسلسلہ جاری رکھا جس سے خلق خداکو بہت فائدہ پہنچااورجن لوگوں نے ان صلحاء کا دامن تھامے رکھا وہ معاشرے میں امن وامان اورسکون کے نمونہ رہے۔

صوفیاء اخلاق فاضلہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ،شیخ ابومحمد جریریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ تصوف کیاہے؟ آپ نے فرمایا: تصوف ہراعلیٰ خلق کواپنانے اوراخلاق رذیلہ کوترک کردینے کانام ہے ،حضرت ابن عطاء نے اپنے مریدوں سے پوچھا کہ بندوں کے مراتب کس چیز سے بلند ہوتے ہیں ؟ کسی نے جواب دیا صائم الدھررہنے سے ، کسی نے کہا کہ نماز میں مشغول رہنے سے ،کسی نے جواب دیا مسلسل مجاہدہ کرنے سے ،کسی نے کہا خیرات وصدقات دینے سے ،آپ نے فرمایا صرف اسی کوبلندمراتب حاصل ہوتے ہیں جس کے اخلاق عمدہ ہوں ،مشائخ کاقول ہے التصوف کلہ خلق یعنی تصوف تمام تراخلاق ہے،اورحقیقت میں تصوف کاکمال یہی ہے کہ تصوف کی روش اختیار کرنے سے انسان میں تمام اخلاق پسندیدہ موجود اوراخلاق ناپسندیدہ معدوم ہوجاتے ہیں ،صوفیہ کاقول ہے کہ عوام عبادات اورریاضات بہت زیادہ کرتے ہیں اورخواص اپنے اخلاق کی اصلاح کرتے ہیں ، کیونکہ بے خوابی اوربھوک کی سختی برداشت کرنا برے اخلاق میں نفس کی مخالفت کرنے سے آسان ہوتاہے ۔

ایک صوفی عزالدین نسفی ؒ فرماتے ہیں کہ چھوٹا ہویابڑا سب کوعزیز رکھو تاکہ چھوٹے اوربڑے تمہیں بھی عزیز رکھیں،دوست اوردشمن کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ تاکہ دوست توزیادہ دوست بنے اوردشمن زیادہ دشمن نہ ہو، بلکہ دوست بن جائے ، دوسروں کی باتوں کوبرداشت کرنا دوسروں کے ساتھ انکسارسے پیش آنا ،سب کی عزت کرنا اورسب پرشفقت رکھنا انبیاء اوراولیاء کااخلاق ہے ،جسے وہ یوں فرماتے ہیں کہ’’ تحمل ازہمہ ،تواضع باہمہ ،عزت داشت ہمہ وشفقت برہمہ اخلاق انبیاء واولیاء است‘‘(سب کے ساتھ درگذرسے کام لینا ،سب سے عاجزی سے ملنا ،سب سے عزت وشفقت سے پیش آنا انبیاء اوراولیاء کااخلاق ہے)شمس تبریز فرماتے ہیں کہ اگردوزخ سے رہائی چاہتے ہوتوخدمت خلق کرو ،اگرجنت حاصل کرناچاہتے ہوتو عبادت حق کرو۔[15]

رواداری :

رواداری کے لغوی معنی تحمل اوربرداشت کے ہیں ،جبکہ اصلاحی مفہوم میں رواداری کویوں واضح کیاجاسکتا ہے کہ: ’’فکری واعتقادی ،رنگ ونسل اورزبان ووطن کی بنیاد پر کسی عصبیت کاشکار ہوئے بغیر تحمل وبردباری سے دوسرے کو برداشت کرنا رواداری ہے ‘‘ ۔

اسی طرح دینی رواداری سے مراد ہے کہ مذہب سے متعلق جو مختلف آراء اورنظریات ہیں ، ان کااحترام کیا جائے،مذہبی ،دینی یامعاشرتی معاملات میں دوسروں کے ساتھ فراخ دلی اوروسیع الخیالی کابرتاؤ ،کسی دوسرے کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا، رعایت کارویہ ،تحمل ،وضعداری کااظہار،ہر کس وناکس سے یکساں برتاؤ اورنرمی کاسلوک وغیرہ ۔جبکہ اسلامی نقطہ نظرسے رواداری کامطلب ہے ،مختلف اقوام ، مختلف مذاہب ،مختلف زبانوں اوررنگ ونسل کے وہ لوگ جواسلامی حکومت کی حدود میں قیام پذیرہوں ، ان کے ساتھ تعلقات اس طرزاورنہج پراستوارکرنا کہ عفو ودرگزر سے کام لیاجائے اور قدرت اوردسترس کے باوجود اپنے مخالف کی بات کو برداشت کیا جائے۔صوفیاء کرام نے اپنے کردار سے معاشرے کے لئے اس سلسلے میں جتنا وافر حصہ فراہم کیا ہے شاید اس کا مثال پیش نہ کیا جاسکتا ہو۔صوفیاء کرام نے اپنے فراخ دلی اوروسیع الخیالی کے سبب امن وسکون ، برداشت ، رعایت ،تحمل ،وضعداری ،ہر ایک سے یکساں برتاؤ اورنرمی اپنا کر امن وامان کا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

رواداری کی بناء پر معاشرے میں اخوت اور بھائی چارہ کے جذبات پرورش پاتے ہیں ۔ ایک مسلمان دوسروں کے ساتھ معاملات میں ان کا روادار ہوتا ہے ، دوسروں کی زیادتی و سختی پر صبر و نرمی اختیار کرتا ہے، صلح جوئی اس کی محبوب خصلت ہے ، بالفاظ دیگر رواداری ، صبر ، حلم ،عفو و درگزر، فیاضی اور ایثار کے خواص سے آراستہ ہے ، قرآن و حدیث ہمیں ایسے ہی خواص کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے ،ارشاد خداوندی ہے :

1: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔[16]

ترجمہ:اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے اور اللہ نیکوں کاروں کو پسند کرتا ہے ‘‘۔

2: خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ۔[17]

ترجمہ:عفو و در گزر کو اختیار کر، نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے اعراض کر ‘‘

3: وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔[18]

ترجمہ:اور وہ شخص جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا ، یقیناًیہ بات ہمت کے کاموں سے ہے ‘‘

قرآنی آیات کے علاوہ نبی کریم ﷺ کے عمل و قول سے بھی رواداری اور وسعت نظر کی ترغیب ملتی ہے ،مثلا :

1: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ :

وَماَ انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِنَفْسِہِ فِیْ شَیْ ءٍ قَطٌّ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ تَعَالیٰ ۔[19]

ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لئے کسی معاملے میں کبھی انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ اللہ کی حرمت کو توڑا ( محرمات کا ارتکاب کیا ) جارہا ہو ، تو اللہ کے لئے آپ ﷺ انتقام لیتے ( اس کے مرتکب کو سزا دیتے اور مواخذہ فرماتے)

2: عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ :اَنَّ أَعْرَابِیّاً بَالَ فِی الْمَسْجِدَ فثَاراِلَیْہِ النَّاسُ لِیَقَعُوْا بِہٖ ، فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ دَعُوْہُ وَاَھْرِیْقُوْ ا عَلٰی بَوْلِہٖ سَجْلاً مِنْ مَاءٍ أَوْ ذَنُوْباً مِنْ مَاءٍ فَاِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ۔ [20]

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا ، پس لوگ اس کی طرف اٹھے، تاکہ اسے زود کوب کریں، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دو، اس لئے کہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ‘‘

اسلام جہاں ایک مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے، کہ وہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں، اسی طرح وہ مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے ،کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کریں ، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ دیں ،ان کے جان و مال ، عزت و آبرو کی ہر طرح حفاظت کریں،انہیں ہر طرح کی مذہبی ، سماجی آزادی دیں ۔ غرض ان کے ساتھ انسانیت کا برتاؤ کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے، ارشاد خداوندی ہے :

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَ الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدٰوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَ لِیٌّ حَمِیْمٌ۔[21]

ترجمہ:نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی، برائی کو ایسے طریقے سے ٹال ، جو اچھا ہو ، تب وہ شخص کہ تیرے اور اس کے درمیان دشمنی ہو ، ایسے ہو جائے گا گویا کہ وہ تیرا گہرا دوست ہے ‘‘

اسی طرح غیر مسلموں کے ساتھ انصاف کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے :

وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ۔[22]

ترجمہ:اگر تم مقرر ہو تو ان کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرو ‘‘۔

اسی طرح اگر غیر اقوام بلا وجہ مسلمانوں سے نبرد آزما ہوں ،تو ان پر اتنی ہی سختی کرنے کا حکم ہے ، جتنی وہ مسلمانوں پر کرتے ہیں ۔غرض غیر اقوام کے ساتھ ممکنہ حسن سلوک سے پیش آنے کی ہدایت صرف اسلام میں ملتی ہے ۔ 

اسلام کی رواداری کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے ،کہ دیگر مذاہب کے پیشواؤں کو ، ان کی خود نوشتہ کتابوں کو ، ان کے جھوٹے خداوؤں کو بھی برا کہنے سے منع کیا ہے ،تا کہ ان کی دل آزاری نہ ہونے پائے ، ارشاد ہے کہ:

وَلَا تَسُبُّو االَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔[23]

ترجمہ:اور دشنام مت دو ان کو، جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں ‘‘

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جو اپنی طرف محض اس لئے بلاتا ہے، کہ وہ دین حق ہے اور اس سچے مذہب کے اختیار کرنے ہی سے دنیا و دین درست ہو سکتے ہیں ، اس جذبہ تبلیغ میں صوفیاء کرام نے اپنا جو کردار ادا کیا ہے اس میں کوئی خود غرضی نہیں ہے ،بلکہ لوگوں کو برائی سے بچانا اور ہدایت کا راستہ بتانا مقصود ہے ،تاکہ بنی نوع انسان صراط مستقیم پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔صوفیاء کرام کے سوا انسانیت کی اس قدر بہی خواہی اور رواداری کی تعلیم شاید ہی کسی اور نے اس وسیع نہج پر انجام دی ہو۔ 

اسلام نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی رواداری اپنانے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیا ہے۔ قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں ہما را رویہ رواداری پر مبنی ہو نا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بد اخلاقی اور ظلم وزیادتی کی تعلیم نہیں دیتا ،خواہ معاملہ کا فروں کے ساتھ ہو ،ارشاد خداوندی ہے:

ولا یجرمنکم شنان قوم علیٰ ان لاتعدلو اعدلو ھو اقرب للتقویٰ۔ [24]

ترجمہ:اور کسی قوم کی دشمنی تم کواتنا مشتعل نہ کردے کہ تم عدل وانصاف سے پھر جاؤ ،عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ‘‘

اسلام کی نظر میں غیر مسلموں کی دو قسمیں ہیں :

1: جن کا دین آسمانی ہے اور جنہیں اہل کتاب کہا جاتا ہے مثلاً یہودی اور عیسائی ۔

2: جن کادین خود ان کا وضع کردہ ہے ،مثلاً ہندو،مجوسی وغیرہ۔

اسلامی شریعت میں دوسری قسم کے غیر مسلموں کے مقابلے میں پہلی قسم کے غیر مسلموں کا معاملہ قدرے مختلف ہے چنانچہ اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا ہے اور ان کی عورتوں سے شادی جا ئز قراردی ہے ۔[25]

ایک دوسرے زاویہ سے غیر مسلموں کی دو قسمیں ہیں ۔

1: ایک وہ جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی رکھتے ہیں اور انہیں تباہ وبرباد کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔

2: دوسرے وہ جو غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے کوئی بیر نہیں رکھتے اور نہ انہیں نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔

پہلی قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہرقسم کی موالات ،دوستی،ہمدردی اور میل ملاپ سے منع فرمایا ہے،کیونکہ ان لوگوں کو ہمارا وجود برداشت نہیں ہے،جبکہ دوسری قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمیں حسن سلوک اور عدل وانصاف پر مبنی معاملہ کرنے کی تا کید کی گئی ہے[26]کیونکہ ان کا سلوک بھی ہمارے ساتھ معاندانہ نہیں، بلکہ دوستانہ ہے ۔

مندرجہ بالا وہ رعایتیں اور رواداریاں ہیں جو غیر مسلم اقلیت کو قانوناً حاصل ہیں ۔ان کے علاوہ بعض ایسی رواداریاں بھی ہیں جو قانون کے دائرے میں نہیں آتی ہیں ،بلکہ حسن اخلاق کے زمرے میں آتی ہیں، اور جنہیں اختیار کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ،مثلاً ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہما را سلوک اور برتاؤ حسن اخلاق وحسن معاشرت پر مبنی ہو نا چاہیے۔جیسا کہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں قحط کی صورت پیدا ہوگئی تو نبی کریم ﷺ نے مکہ کے غریب مشرکین کی مدد کے لئے مالی امداد روانہ کی ، حالانکہ سبھی جا نتے ہیں کہ مکہ والوں نے حضور ﷺ کے ساتھ کتنا براسلو ک کیا تھا ۔[27]بخاری کی روایت ہے کہ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ میری والدہ تشریف لائیں اور وہ مشرک تھیں ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میری والدہ آئی ہوئی ہیں ،کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟آپ نے جواب دیا !ہاں ضرور کرو ۔[28]

حضور ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنے والا شخص یہ خوب جانتا ہے کہ حضور ﷺ اہل کتاب اور مشرکین کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ کرتے تھے ،ان کے پاس تشریف لے جاتے ،ان کی خیریت دریافت کرتے ،حتی المقدور ان کی مدد کرتے اور ان کے بیماروں کی تیمارداری کرتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:

اِتَّقُوا دعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ وَان کان کَافِراً فَاِنَّھالَیْسَ دُوْنَھَا حِجَابٌ ۔[29]

ترجمہ:مظلوم خواہ کافر ہو اس کی پکار سے بچو، کیونکہ اس کی پکار کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے‘‘(اس کی پکار فوراً خدا تک پہنچتی ہے)ابن اسحاق کی سیرت نبوی میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ نجران سے ایک عیسائی وفد حضور ﷺ کی ملاقات کی غرض سے مدینہ آیا ۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ اس وقت عصر کی نماز سے فراغت کے بعد مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے،اسی درمیان میں عیسائیوں کی عبادت کا وقت ہوگیا ،چنانچہ وہ عیسائی مسجد نبوی کے اندر اپنی عبادت اداکرنے لگے ،صحابہ کرامؓ نے انہیں روکنے کے لئے آگے بڑھے ، لیکن حضور ﷺنے فرمایا کہ انہیں عبادت کرنے دو ،چنانچہ مسجد نبوی کے اندر ان عیسائیوں نے اپنی عبادت اداکی۔[30] بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک بیمار یہودی کی عیادت کو تشریف لے گئے اور باتوں باتوں میں اسے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی ،چنانچہ اس حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اس یہودی نے اسلام قبول کیا [31]۔بخاری کی ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گھر کے اخراجات کے لئے کسی یہودی سے قرض لیا اور رہن کے طور اپنی زرہ اس کے پاس رکھ دی،[32] اور اسی حالت میں حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا ۔ حضور ﷺ چاہتے تو کسی صحابیؓ سے قرض لے سکتے تھے ، سارے صحابہ کرامؓ اپنا سب کچھ حضور ﷺ پر قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ،لیکن اس کے باوجود حضور ﷺ نے یہودی سے قرض لے کر اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مشرکین واہل کتاب کے ساتھ بھی ہمارا معاملہ ویساہی ہونا چاہیے، جیسا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔معتبر روایتوں میں ہے کہ حضور ﷺ نے غیر مسلموں کے ہدیے اور تحائف بھی قبول کئے ہیں ۔[33]یہ ہیں قرآن وحدیث کی چند دلیلیں جو ثابت کرتی ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا سلوک حسن اخلاق ، حسن معاشرت اوررواداری پر مبنی ہو نا چاہیے۔

صوفیاء کی نظرمیں تمام مخلوقات خداوندتعالیٰ کی دامن ربوبیت میں پل رہی ہیں ،خواہ سنی ہو ،شیعہ ہو ،ہندوہو ،عیسائی ہو،یہودی ہو ،کافرہو ،مشرک ہو ،مغرب کارہنے والاہو یامشرق کا،گوراہویا کالا ،انگریزی بولتاہو یااردو یاعربی صوفی صاف دل سب کو اپنے سینے سے لگالیتاہے ،اپنے حسن عمل اورحسن اخلاق سے دین مبین کی روح کی تبلیغ کرتاہے ،یعنی احسان وایثار ،بھلائی اوربرابری کی تلقین کرتاہے ،بدکاروں کو نیکوکاری کی دنیا میں واپس لانے ،دکھی انسانوں کوسکھ پہنچانے کی کوشش کرتاہے ،انسانیت کی راہ سے بھٹکے ہوؤں کوشفقت ومحبت سے انسانیت کی راہ دکھاتاہے اوراچھاانسان بنانے کی کوشش کرتاہے۔جدیددورکے معاشرتی تقاضوں اورہنگاموں میں گھراہواانسان عام طورپرخودکو ،خداکواورانسانیت کوبھلاچکاہے ،سوسکون قلب اورطمانیت روح سے محروم ہوتاجارہاہے ،تصوف ا س انسان کاکام آسکتاہے ،اس دنیاکے ہنگاموں8 میں مصروف انسان کوبھی سکون وطمانیت قلب کی دولت سے مالامال کرسکتاہے۔کسی اہل دل نے اسی حوالے سے یوں کہاہے کہ ہرشخص کوتھوڑا بہت صوفی ہونا چاہیے ،یعنی دنیا داری یامحبت دنیا سے اس کادل پاک ہواورصوفی کوبھی تھوڑا بہت انسان ہوناچاہئے ،یعنی وہ دنیا والوں کے کام آتاہو،معاشی طورپر کسی پربوجھ نہ بنتاہو ،معاشرے کامفیدفردہو ،ایسامعاشرہ جہاں خداپرستی ،بے تعصبی ،انسان دوستی ،خدمت خلق اوراحسان وایثار کے جذبے کارفرماہوں گے ،جہاں دین ودانش ،علم وعرفان اورذکروفکر کویکساں اہمیت دی جاتی ہوگی ،وہ معاشرہ سچے صوفیہ ہی کاہوسکتاہے اورایسا معاشرہ دورحاضر اورآنے والی صدیوں کی ضرورت ہے ۔[34]

اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ اس نے انسانوں کی غلامی سے آزادکراکرامن وامان کوممکن بنایا ، اسلام تووہ مذہب ہے جس نے عرب کے پرتشدد ماحول کوامن کاگہوارہ بنایا ،عربوں میں جنگیں معمولی باتوں پرشروع ہوکرنسلوں تک چلاکرتی تھیں ،لیکن اسلام نے یہ لڑائیاں ختم کرادیں ،اس کے برعکس ان دنوں عیسائیت قیصرروم کی شکل میں فارس سے برسرپیکارتھی اورلڑنا لڑانا اس کاطرہ امتیاز تھا ،تاریخ میں صلیبی جنگوں کے مذہبی نام پرعیسائیوں نے مسلمانوں کاکتناخون بہایا ،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،بلکہ اب بھی ان کی طرف سے عالم اسلام ،مسلمانوں اورمظلوم قوموں پرظلم وستم اورناانصافی کاسلسلہ جاری ہے ۔بینیڈکٹ ۱۶کے گزشتہ دنوں کی ہرزہ سرائی سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکی ویورپی دانشوروں اورمذہبی رہنماؤں کی طرف سے مذہبی انتہاپسندی کاخاٹمہ ،مذہبی رواداری اورتمام مذاہب کے احترام کوفروغ دینے کے نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ آوازیں بلند کرنے والے خوداس پرعمل نہیں پیرانہیں ،یہ صرف زبانی کلامی رواداری کاڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اورعملاً فلسطین ، لبنان ، صومالیہ ،بوسنیا ،کوسوو،افغانستان ،عراق بلکہ پورے عالم اسلام میں وہ کچھ کررہے ہیں جواس میں خلیج پیداکرنے کاسبب ہے ،یہی وجہ ہے آئے دن مذہبی انتہاپسندی اورتعصب میں اضافہ ہورہاہے ۔ہم سمجھتے ہیں مذہبی رواداری کافروغ اورتمام مذاہب کااحترام ہوناچاہئے ،یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب دہشت گردی کوکسی بھی مذہب ،قومیت ، تہذیب اورمعاشرے سے نہ جوڑاجائے ،کیونکہ دہشت گردی کی آڑمیں کسی ملک ،مذہب ،جماعت اورعلاقے پرطاقت کااندھا استعمال خطرناک نتائج کوجنم دیتاہے ۔[35]

خلا صۃ البحث

قرآن وحدیث اور صوفیاء کی مذکورہ بالاتعلیمات سے واضح ہواکہ اسلام ایک غیرمتعصب دین اوررواداری کامذہب ہے ،جبکہ دوسری طرف اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اغیارنے بہت سے جھوٹے الزام اس پرلگائے ہیں اوربعض الزام تووہ ہیں جوالزام دینے والوں ہی میں موجود اورثابت تھے ،مگرانہوں نے ہوشیاری اورعیاری کی کہ اپنے کرتوت چھپانے کے لئے انہی باتوں کو مسلمانوں کے سرتھوپ دیا اورپھرنااہل مسلمانوں کے افعال کوتعلیم اسلام کانتیجہ قراردے کرمذہب اسلام کو اس کاذمہ دارٹھرایا ۔ گزشتہ چندسالوں سے امریکہ اوردیگر مغربی ممالک رواداری کاڈھونڈوراپیٹ رہاہے کہ ان کے ہاں ہرشخص کومذہب کی آزادی ہے ،وہ جیسے چاہے کرے لیکن جب مغربی ممالک میں رہائش پذیرمسلمان اپنے مذہبی شعائرپرپابندی کرتے ہیں ،توان کے خلاف نت نئے قوانین وضع کئے جاتے ہیں ،اگرکوئی قانون مسلمانوں کے حق میں جاتاہے تواس میں ترمیم کی جاتی ہے،گزشتہ دنوں کی رپورٹ ہے کہ کینڈاکی حکومت نے باپردہ مسلمان خواتین کووٹ کی اجازت نہ دینے کابل منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا ، اسی طرح مغربی ممالک میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کوصرف حجاب پہننے کی بناپر ملازمتوں سے معطل کیاجاتاہے ،آئے دن مسلمانوں کی محترم ترین ہستیوں کے خلاف توہین آمیزخاکے شائع کرکے ان کے جذبات کومجروح کیاجاتاہے ،امریکہ میں مذہبی آزادی ہی کو دیکھئے،ایک طرف دنیابھرمیں عیسائیت کی ترویج کے لئے مشنری تنظیموں کو اربوں ڈالرز فراہم کئے جاتے ہیں ،دوسری طرف اگرکوئی مالدار شخص کسی مدرسے کی سرپرستی کرے تووہ رواداری کادشمن قرادیاجاتاہے ،اس کی انکوائریاں شروع ہوجاتی ہیں ،اس کارشتہ ناتہ مبینہ دہشت گردی سے جوڑاجاتاہے ،یہ کیسی ناانصافی ہے ؟ اگرکوئی ’’ہولوکاسٹ‘‘پرلکھے یابولے تووہ قابل گرفت ہے ،لیکن اگرکوئی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی معززترین ہستیوں کے بارے میں شرانگیزی کرے تواس کو تحفظ دیاجاتاہے ۔اگر عیسائی ،عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ایک ارب کے قریب ویب سائٹس استعمال کرتے ہوں تواچھاہے ،لیکن اگرمسلمان چند ہزارویب سائٹس اسلام کی دعوت کے لئے استعمال کریں، توان کو بین کردیاجاتا ہے، عالمی طاقتوں کایہی دہرامعیار ہے جوان کے رواداری کے دعوؤں کی قلعی کھول رہاہے ۔اگربہ نظر دقیق دیکھا جائے تو اس میں یہ مسلمانوں کی اپنی کمزوری نمایاں ہیں وہ اس وجہ سے کہ مسلمان خود قرآن وحدیث کے احکامات اور صوفیاء کرام کے تعلق سے روگردان ہیں، مسلمانوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ اسلامی احکامات پر کماحقہ عمل درآمد کریں اور اللہ کے نیکوکار بندے اولیاء اللہ و صوفیائے کرام سے اپنا تعلق مضبوط کریں تاکہ دنیاء کے مصیبتوں سے خلاصی ممکن ہو۔اسی لئے تو ارشاد ربانی ہے کہ:

الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔[36]

ترجمہ:یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈرہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہونگے۔

 

حوالہ جات

  1. سید علی ہجویری ،گنج مطلوب ،اردوترجمہ کشف المحجوب (مترجم عبدالحمید) لاہور ،ناشران قرآن ،ص ،74
  2. ایضاً ،ص 89-90
  3. دارشکوہ ،سفینۃ الاولیاء ،بحوالہ انعام الحق کوثر ،تذکرہ صوفیائے بلوچستان ،لاہور، مرکزی اردو بورڈ ،1976ء ،ص 19
  4. سلطان الطاف علی ،مختصر تاریخ تصوف اورصوفیائے بلوچستان ،لاہور ،الفیصل ،2011ء ،ص 12
  5. عبدالرحمن ابن خلدون ،مقدمہ ،ترجمہ سعد حسن خان ،کراچی ،میر محمد کتب خانہ ،ص ،446
  6. ڈاکٹر یوسف القرضاوی ،فتاوی،(اردوترجمہ) مترجم ،سیداصغرفلاحی ،لاہور ،دارالنوادر ،2005ء ،ج1،ص354-356
  7. ابن مظور ،ابوالفضل جمال الدین الافریقی ،لسان العرب ،بیروت ،دارصادر،ج10،ص86-87
  8. امام غزالی ، مذاق العارفین ترجمہ احیاء علوم الدین ،ج3،ص59
  9. سید سلیمان ندوی ،سیرت النبی ،کراچی ،دارالاشاعت ،1985ء ،ج9،ص6
  10. مسلم بن حجاج ،الجامع الصحیح،کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا،باب صلٰوۃ النبیﷺودعاۂ باللیل
  11. الھندی ،علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین ،کنز العمال ،فی سنن الاقوال والافعال ،بیروت ، مؤسسۃ الرسالۃً ،کتاب الاخلاق،3:3
  12. الدارمی،ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمن،السنن ،کتاب البیوع ،باب دع ما یریبک الی مالایریبک 
  13. السنن للترمذی ،ابواب التفسیر،سورۃ المطففین
  14. خالد علوی ،خلق عظیم ،اسلام آباد ،دعوہ اکیڈمی ،2005ء ،ص 30
  15. ڈاکٹرظہیراحمد صدیقی ،تصوف ،ہرانسان کی ضرورت ،تخلیقات ،لاہور،2010ء،ص ،10-13
  16. اٰل عمران 134:3
  17. الاعراف ،199:7
  18. الشورٰی 43:42
  19. الصحیح للبخاری ، کتاب المناقب ، باب صفۃ النبیﷺ
  20. ایضاً، کتاب الادب ، باب قول النبی ﷺ یَسِرّوا وَلَاتعسرُوا 
  21. فصلت 34:41
  22. المائدۃ 42:5 
  23. الانعام 108:6
  24. المائدہ 8:5
  25. المائدہ 5:5
  26. الممتحنۃ،8:60-9
  27. سید فضل الرحمٰن،ہادی اعظم،کراچی،زوار اکیڈمی ،2000ء،ج1،ص605
  28. الصحیح للبخاری،کتاب الھبۃ،باب الھد یۃ للمشرکین
  29. المناوی،محمد عبدالرؤف ، شرح فیض القدیر،شرح جامع الصغیر للسیوطی، بیروت، دارالفکر، 1972ء،ج1،ص142
  30. ابو محمدعبدالملک بن ہشام،السیرۃ النبویۃ،کوئٹہ ،مکتبہ معروفیہ ،2010ء ،ج1،ص339
  31. الصحیح للبخاری،کتاب الجنائز،باب اذااسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ 
  32. ایضاً،کتاب الرہن،باب من رہن درعہ
  33. ایضاً،کتاب الھبۃ والتحریض علیھا ،باب قبول الھد یۃ من المشرکین 
  34. ظہیراحمد صدیقی ،تصوف ،ہر انسان کی ضرورت ،ص 50-58
  35. انورغازی ،روادارکون ،روزنامہ جنگ ،کوئٹہ ،20ستمبر ،2011ء ،ص 6
  36. یونس62:10
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...