Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

ازدواجی زندگی میں عورت کا مقام: ادیان عالم اور معروف تہذیبوں کا ایک تحقیقی و تقابلی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029336_523

Pages

16-31

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/126/117

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/126

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ہمارے موجودہ معاشرے میں ازدواجی زندگی بہت غیر متوازن ہوتی جارہی ہے اور ذرائع ابلاغ کے پھیلاؤ نے بھی ہمارے معاشرے پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں اور یہ سوال اٹھا جاتا ہےکہ مسلم معاشرہ میں عورت کی کوئی قدر نہیں اور یہ کہ یہاں سارے حقوق اور فوقیت مرد کو حاصل ہے اور اس حوالے سے متعلقہ قرآنی آیات و احادیث پر بھی جرح کی جارہی ہے۔ پھر تحفظ خواتین بل کا پیش کیا جانا اور اس معاملے پر میڈیا پر مباحثوں نے کافی شکوک پیدا کردیے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے مقابلے میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا جائزہ لے کر عورت (بیوی) کے مقام و مرتبہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح طور پر بیان کیا جائے تا کہ اسلام کے حوالے سے اس معاملے کی حقیقت سامنے آجائے اور یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ اسلام کی تعلیمات میں کوئی ظلم اور کسی کی ناقدری نہیں لیکن اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعوی کرکے اپنی عقلیت پسندی کو اسلام کا جامہ پہنائے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام میں ازدواجی زندگی میں عورت کے مقام اور مرتبہ پر بات کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ مکمل اسلامی معاشرے یعنی مدنی معاشرہ سے پہلے کے اور انسویں صدی تک کے غیراسلامی معاشروں میں عورت(بیوی) کا کیا مقام رہا ہے تاکہ اسلام نے جو عورت(بیوی) کو قدر و منزلت دی ہے وہ بالکل واضح ہوجائے۔

عورت (بیوی) کا مقام و مرتبہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں :

اسلام کے مدمقابل مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی پیدائیش تضحیک کا نشان سمجھی جاتی تھی ، عورت ذلت ، حقارت اور تجارت کی انتہائی تصویر تھی ، وہ تباہی ، بربادی اور آفات کی وجہ قرار دی جا چکی تھی۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے نبی اکرمﷺ کی صورت میں ایسا پیغمبر مبعوث فرمایا کہ جس نے جاہلیت کےتمام تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ مرد و عورت کے واضح حقوق و فرائض متعین کردیے ۔ دونوں میں جو بھی احکام خداوندی پر عمل پیرا ہوگا اجر و ثواب پائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ۔

ترجمہ:جو شخص بھی نیک عمل کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے ۔[1]

قبل از اسلام عرب معاشرے میں عورت (بیوی) کی حیثیت:

عربوں میں مرد کے لیے عورتوں کی کوئی قید نہ تھی، بھڑ بکریوں کی طرح جتنی چاہتا، عورتوں کو شادی کے بندھن میں باندھ لیتاتھا۔ کتب احادیث میں ان اشخاص کا ذکر موجود ہے جو قبول اسلام سے پہلے چار سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔عن حارث بن قیس قال:اسلمت وعندی ثمان نسوۃ، فذکرت ذلک للنبیؐ، فقال النبیؐ ’’اختر منھن اربما‘۔[2]ترجمہ:حارث بن قیس کہتے ہیں کہ میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں، میں نے نبیؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا ان میں سے چار کو اختیار کر لو“۔اسی طرح جامع ترمذی میں ہے کہ:عن ابن عمر، غیلان بن سلمۃ الثقفی أسلم و لہ عشر نسوۃٍ فی الجاہلیۃ، فأ سلمن معہُ، فأمرہ النبی ان یتخیر اربعا منھن۔[3]ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی اسلام لائے تو دور جاہلیت کی اُن کے پاس دس بیویاں تھیں۔ پس وہ بھی اسلام لے آئیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو“۔

مولانا مودوی ” سیرت سرور عالم “ میں رقمطراز ہیں:

”عربوں میں عورتوں اور بچوں کو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں، اس کے علاوہ مرنے والوں کے وارثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا تھا وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا “۔[4]

عرب میں عورت ایک قابل استعمال شے سمجھی جاتی تھی، تعدد ازدواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی، بعض شریر، عورتوں کو برسوں معلق کر کے رکھتے تھے، ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا، وہ کسی چیز کی مالک نہ تھی۔[5]اسی تناظر میں ارشاد باری تعالی ہے۔فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ۔[6]ترجمہ:اسے معلق نہ رکھو یا تواچھی طرح حسنِ معاشرت کرو یا اچھی طرح رخصت کر دو“۔ان کی جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم ایسی بھی تھی جس سے عورت کی بے بسی کے ساتھ ساتھ اُس پر بداعتمادی کا کھُلا اظہار ہوتا ہے، وہ رسم یہ تھی کہ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو ایک دھاگا کسی درخت کی ٹہنی کے ساتھ باندھ دیتا یا اُس کے تنے کے اردگرد لپیٹ دیتا، جب سفر سے واپس آتا تو اُس دھاگے کو دیکھتا، اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو وہ سمجھتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کوئی خیانت نہیں کی اور اگر وہ اسے ٹوٹا ہوا یا کھُلا ہوا پاتا تو خیال کرتا کہ اُس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اس دھاگے کو ’’الرتم‘‘ کہا جاتا۔[7]

یونان میں عورت(بیوی) کی حیثیت:

اگر ہم انسانی تاریخ میں تہذیب کے آثار کا پتہ چلائیں تو ہمیں اس کا سب سے پہلا قدیم نشان یونان میں ملتا ہے، انہوں نے دنیا میں انصاف اور انسانی حقوق کے دعوے کئے اور علوم و فنون میں ترقی کی بقول ڈاکٹر خالد علوی:مسلمان علمائے معاشرت نے اسلام سے پہلے کے معاشرتی حالات کو یونان سے شروع کیا ہے، کیونکہ یونان علم و تمدن کی دنیا میں امام کے فرائض انجام دے چکا ہے، بیشتر علمی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی اور فلسفانہ نظریات کی نسبت یونان کی طرف کی جاتی ہے یونان نے سیاسی اور معاشرتی استحکام کی بنیاد ڈالی۔[8]مگر اس ترقی اور دعو ؤں کے باوجود عورت کا مقام کوئی عزت افزا نہیں تھا، ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنی درجہ کی مخلوق تھی اور عزت کا مقام صرف مرد کے لیے مخصوص تھا، سقراط جو اس دور کا فلسفی تھا اس کے الفاظ میں:”عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے“۔[9]یونانی فلاسفروں نے مردو عورت کی مساوات کا دعوٰی کیا تھا لیکن یہ محض زبانی تعلیم تھی۔ اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی تھی اور مرد کو اس معاشرے میں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل تھی۔عام طور پر یونانیوں کے نزدیک عورت گھر اور گھر کے اسباب کی حفاظت کے لیے ایک غلام کی حیثیت رکھتی تھی اس میں اور اس کے شوہر کے غلاموں میں بہت کم فرق تھا وہ اپنی مرضی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی تھی، بلکہ اس کے مشورے کے بغیر لوگ اس کا نکاح کر دیتے تھے، وہ خود بمشکل طلاق لے سکتی تھی، لیکن اگر اس سے اولاد نہ ہو یا شوہر کی نگاہوں میں غیر پسندیدہ ہو تو اس کو طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی میں جس دوست کو چاہتا، وصیت میں اپنی عورت نذر کر سکتا تھا، اور عورت کو اس کی وصیت کی تعمیل مکمل طور پر کرنا پڑتی تھی، عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا ۔غرض وہاں عورت کو شیطان سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا، لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی پیدائش پر غم کیا جاتا تھا۔[10]افلاطون کے مطابق:”جتنے ذلیل و ظالم مرد ہوتے ہیں وہ سب نتائج کے عالم میں عورت ہو جاتے ہیں“۔[11]عبدالقیوم ندوی لکھتے ہیں:

”رومی، عورت کو شوہر کی ملکیت قرار دیتے تھے اور منجملہ جائیداد منقولہ میں اسے بھی شمار کرتے تھے“۔ [12]

ایران میں عورت (بیوی) کی حیثیت:بقول پروفیسر آرتھ کرسٹن سین:”محرمات سے شادی کرنا نہ صرف یہ کہ گناہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے وہ کار ثواب تھا۔وہ خون کے قریب تر رشتوں میں شادی کر سکتا تھا اور جتنی بیویوں کو چاہتا طلاق دے سکتا تھا، ایران میں زمانۂ قدیم سے یہ دستور تھا کہ عورتوں کی حفاظت کے لیے مردوں کو ملازم رکھا جاتا، نیز یونان کی طرح یہاں بھی خواصوں اور داشتہ عورتوں کو رکھنے کا طریقہ عام تھا اسے نہ صرف مذہباً جائز قرار دیا گیا تھا بلکہ یہ ایرانیوں کی سماجی زندگی کا خاصہ بن گیا تھا“۔[13]ایرانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اگر کسی درجے پر اُسے اہمیت بھی دی جاتی تو ایک غلام کی سی اہمیت مل پاتی۔شوہر مجاز تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کو خواہ وہ بیاہتا بیوی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے شخص کو، جو انقلاب روزگار سے محتاج ہو گیا ہو، اس غرض کے لیے دے دے کہ وہ اس کسب معاش کے کام میں مدد لے، اس میں عورت کی رضا مندی نہ لی جاتی عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرف کا حق نہیں ہوتا تھا، اور اس عارضی ازدواج میں جو اولاد ہوتی تھی، وہ پہلے شوہر کی سمجھی جاتی تھی، یہ مفاہمت ایک باضابطہ قانونی اقرار نامے کے ذریعے سے ہوتی تھی …… قانون میں بیوی اور غلام کی حالت ایک دوسرے سے مشابہ تھی۔[14] یہودیت میں عورت کی حیثیت:ہنود و یہود کی تاریخ ہو کہ عیسائیت کی مہذب و متمدن دنیا، قبل از اسلام مذاہب عالم کے مصلحین نے عورت کی عظمت و رفعت اور قدر و منزلت سے ہمیشہ انکار کیا، اور ایک اکثریت عورت کو بے زبان و پابجولاں جانور ہی سمجھتی رہی۔یہودیت کا شمار دنیا کے ان مذاہب میں ہوتا ہے ، جنہوں نے نہ صرف چند عقائد و نظریات ہی نہیں پیش کئے بلکہ ان کی بنیاد پر زندگی کے عملی مسائل سے بھی تفصیلی بحث کی ہے، لہذا اس مذہب سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ عورت کے بارے میں حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کرے گا، لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ یہاں بھی باقی مذاہب کی طرح عورت کی حیثیت دگرگوں رہی۔یہودیت نے عورت کو جو حیثیت دی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت مکمل طور پر مرد کی غلام ہے اور اس کی محکوم ہے، وہ مرد کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی، حقوق ملنے کی بات تو ایک طرف رہی، اُسے تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا۔کرسٹن سین آرتھر ” ایران بعہد ساسانیان “ میں رقمطراز ہیں :

یہودیت میں عورت کو جو حیثیت دی گئی ہے وہ کسی غلام و محکوم سے بڑھ کر نہیں، عورت مکمل طور پر مرد کی دست نگر ہے۔ وہ مرد کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی، مرد جب چاہے اُسے گھر سے نکال دے طلاق دے دے، مگر عورت کبھی بھی مرد سے طلاق طلب نہ کرے یہاں تک کہ مرد میں بے پناہ ہی عیوب کیوں نہ ہوں۔اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور پیچھے اُس میں کوئی ایسی بے ہودہ بات پائے جس سے اُس عورت کی طرف اُس کی النفاقت نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نہ لکھ کر اُس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے۔ [15]مطلب یہ کہ اگر مرد کا اپنی عورت سے جی بھر گیا ہے تو وہ کسی بھی معاملے یا عمل کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عورت سے جان چھڑا سکتا ہے بلکہ انتہائی تکلیف دہ صورت کے ساتھ اُسے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر سکتا ہے۔عیسائیت میں عورت (بیوی) کی حیثیت:

کرائی سو سسٹم (Chrysostom) جو مسیحیت کے اولیاء کبار میں شمار کیا جاتا ہے عورت کے بارے میں کہتا ہے۔ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گرد سربائی، ایک آراستہ مصیبت۔[16]عیسائیت کے مطابق مرد حاکم اور عورت محکوم ہے، کیونکہ عورت و حقیقت مرد کے لیے بنائی گئی ہے، سو اس کی خدمت اور اطاعت اُس کا فرض ہو گا، جبکہ مرد چونکہ عورت کے لیے نہیں تخلیق ہوا، اس لیے اُسے عورت کی محکومی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔پولُس رسول کُرِنتھیوں کے نام اپنے دوسرے خط میں کہتے ہیں کہ :مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے،اور مرد عورت کے لیے نہیں بلکہ عورت مرد کے لیے پیدا ہوئی ہے، پس فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہیے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے۔ [17]ہندو مت میں عورت (بیوی) کی حیثیت:اپنے قدیم تمدن پر نازاں ہندوستان، کے مذہب ہندومت نے بھی عورت کی حیثیت پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اگرچہ وید میں عورتوں کی تعظیم کا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہاں بھی اطاعت شوہر فرض ہے۔ہندو ایک طرف تو وحدۃ الازواج کے قائل ہیں لیکن جب بیوی سے کوئی بیٹا نہ ہو رہا ہو تو مذکورہ بالا قانون کو توڑتے ہوئے کئی کئی شادیاں کرتے ہیں تاکہ بیٹا پیدا ہو۔

ہندو مت میں اگر شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کسی اور مرد سے تعلقات پیدا کرنے کا کہہ سکتا ہے تاکہ وہ اولاد بنا سکے، یہ عورت دوسرے شخص سے ازدواجی تعلقات پیدا کرے گی حتی کہ اولاد بھی جنے گی مگر بیوی اُسی پہلے شوہر کی رہے گی، اور بیوی رہے گی بھی اُسی پہلے شوہر کے گھر می، اور جو اولاد دوسرے مرد سے پیدا ہو گی وہ پہلے شوہر کی اولاد کہلائے گی، اس طریقے کو نیوگ کہا جاتا ہے۔چنانچہ رِگ وید میں آتا ہے کہ:جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو، تو اپنی بیوی کو ہدایت کرے کہ اسے سہاگ کی خواہش مند عورت!تُو میرے سوا کسی اور خاوند کی خواہش کر(کیونکہ اب مجھ سے اولاد کی پیدائش نہیں ہو سکے گی ایسی حالت میں عورت دوسرے مرد سے نیوگ کر کے اولاد پیدا کرے۔ مگر اپنے عالی حوصلہ شادی کئے ہوئے خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔[18]منوسمرتی میں بھی عورت کو مرد کے خوش کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ لکھا ہے:

”اگر عورت خاوند کو خوش نہیں رکھتی اور اس کی حسرت ی تدبیر نہیں کرتی تو اس کی ناخوشی کی وجہ سے سلسلہ نسل آگے نہیں چل سکتا" اور لکھاہے " رات دن عورت کو پتی کے ذریعے بے اختیار رکھنا چاہیے ۔ لڑکپن میں باپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوں کی حفاظت کریں کیونکہ عورتیں خود مختار نہیں ہوسکتیں“۔[19]

اسلام میں عورت (بیوی) کی حیثیت:

اسلا نے آکر عورت کو محرومی اور ظلم و زیادتی سے نجات دلائی اور بحیثیت انسان اسے مرد کے برابر درجی عطا کیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۔[20]

ترجمہ:اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی“ ۔

مندرجہ بالا آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت دونوں کی مساوی عزت دی ہے کیونکہ یہاں لفظ " بنی آدم" آیا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔ ان میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ، یاں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں کو باقی تمام مخلوقات پر فضیلت دی۔ اور انسانوں میں آپس کی فضیلت کا معیار مرد یا عورت ہونے پر نہیں بلکہ عملی معیار ہے وہ ہے تقوی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير۔ [21]

ترجمہ:لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے“۔

تو جو اسلام پر جتنا مکمل اور غلطی سے پرہیز کرتے ہوئے عمل کرے گا وہی سب سے زیادہ قابل عزت ہے ۔ تو اسلامی معاشرے میں یہی معیار قدر و عزت ہے ، مدینہ کے معاشرہ میں ایسا ہی تھا اور اب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس میں مرد ہونے اور عورت ہونے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ۔[22]

ترجمہ:جو برے کام کرے گا اس کو بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا۔ اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے وہاں ان کو بےشمار رزق ملے گا“ ۔

اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے ۔جن کا جائزہ درج ذیل ہے۔

عصمت و عفت کا حق :

معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں:

قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہمْ وَیحْفَظُوا فُرُوجَہمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَہمْ إِنَّ اللَّہ خَبِیرٌ بِمَا یصْنَعُونَ “۔[23]

’’(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں“۔

عزت اور راز داری کا حق :

معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواتین کو راز داری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

یا أَیہا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیوتًا غَیرَ بُیوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَہلِہا ذَلِكُمْ خَیرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِیہا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوہا حَتَّى یؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِیلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّہ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیم ۔ [24]

ترجمہ:’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کرو، اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہے“۔

حصول علم کا حق:

ایک مضبوط خاندان اور مستحکم معاشرہ اسی وقت جنم لے سکتا ہے جب وہاں کی عورتیں خواندہ ہوں ۔ عورت اگر پڑھی لکھی نہ ہو تو اچھی نسل اور مستحکم معاشرہ ایک خواب کی صورت بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے فرمان رسول ﷺ ہے :

طلب العلم فریضة علی کل مسلم۔[25]

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘

ملکیت اور جائیداد کا حق :

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.“ [26]

ترجمہ:مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:

اذا طلقہا مریضا ورثتہ ما کانت فی العدة ولا یرثہا. [27]

ترجمہ:اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہو گی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا ‘‘۔

مہر کا حق :

اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں ڈھیروں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے:

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَیتُمْ إِحْدَاہنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہ شَیئًا أَتَأْخُذُونَہ بُہتَاناً وَإِثْماً مُّبِیناً۔[28]

ترجمہ:اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گے۔

لاَّ جُنَاحَ عَلَیكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوہنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَہنَّ فَرِیضَةً وَمَتِّعُوہنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُہ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُہ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِینَ۔ [29]

ترجمہ:تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے۔

زوجیت کا حق:

مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے:

لِّلَّذِینَ یؤْلُونَ مِن نِّسَآئِہمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّہ غَفُورٌ رَّحِیمٌ “۔ [30]

ترجمہ:جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہے“۔

کفالت کا حق :

مرد کو عورت کی جملہ ضروریات کا کفیل بنایا گیا ہے۔ اس میں اُس کی خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ شامل ہیں:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہ بَعْضَہمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْو آلہمْ“۔[31]

ترجمہ:مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘ ۔

أَسْكِنُوہنَّ مِنْ حَیثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوہنَّ لِتُضَیقُوا عَلَیہنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَیہنَّ حَتَّى یضَعْنَ حَمْلَہنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوہنَّ أُجُورَہنَّ وَأْتَمِرُوا بَینَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہ أُخْرَىO لِینفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِہ وَمَن قُدِرَ علیہ رِزْقُہ فَلْینفِقْ مِمَّا آتَاہ اللَّہ لَا یكَلِّفُ اللَّہ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہا سَیجْعَلُ اللَّہ بَعْدَ عُسْرٍ یسْرًا“ ۔[32]

ترجمہ:تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا“۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احادیث مبارکہ میں عورت کے اس حق کی پاسداری کی تلقین فرمائی:

فاتقو اﷲ فی النساء فإنکم اخذتموہن بامان اﷲ“۔ [33]

ترجمہ:عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے“۔

حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

أن رجلا سأل النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: ما حق المرأة علی الزوج؟ قال: أن یطعمہا إذا طعم، و أن یکسوہا إذا اکتسی، ولا یضرب الوجہ، ولا یقبح، ولا یہجر إلا فی البیت“۔[34].

ترجمہ:ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا: عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے ۔

حسنِ سلوک کا حق:

ازدواجی زندگی میں اگر مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں تو ذمہ داریاں بھی ہیں۔ پہلے مرد کو حکم دیا:

وَعَاشِرُوہنَّ بِالْمَعْرُوفِ.“ [35]ترجمہ:عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو ‘‘ ۔

ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

خیرکم خیرکم لأہلہ“۔[36]ترجمہ:تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (یعنی بیوی بچوں) کے لیے اچھا ہے ‘‘۔

خاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے:

وَلاَ تُمْسِكُوہنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن یفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آیاتِ اللّہ ہزُوًا“۔ [37]

ترجمہ:اور ان کو ضرر پہنچانے اور زیادتی کرنے کے لئے نہ روکے رکھو۔ جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو ‘‘ ۔

عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال: جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فقال: یا رسول اﷲ! انی کتبت فی غزوة کذا و کذا و امراتی حاجة، قال: ارجع فحج مع امراتک“۔ [38]

ترجمہ: ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اﷲ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ‘‘ ۔

عن زید ہو ابن اسلم عن ابیہ قال: کنت مع عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بطریق مکة فبلغہ عن صفیة بنت ابی عبید شدة وجع، فاسرع السیر حتی اذا کان بعد غروب الشفق ثم نزل فصلی المغرب والعتمة یجمع بینہما و قال: إنی رایت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اذا جد بہ السیر اخر المغرب و جمع بینہما“۔ [39]

ترجمہ:زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا انہیں اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید کے بارے میں خبر پہنچی کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انہوں نے رفتار تیز کر دی اور مغرب کے بعد جب شفق غائب ہو گئی تو سواری سے اترے اور مغرب کی نماز ادا کر کے نماز عشاء بھی اس کے ساتھ ملا کر پڑھ لی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر طے کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب میں دیر کر کے مغرب و عشاء کو جمع فرما لیتے ‘‘ ۔

خلع کا حق :

اگر عورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور اپنے شوہر کی بد اخلاقی، مکاری یا اُس کی کمزوری سے نالاں ہو جائے اور اُسے ناپسند کرے اور اُسے خوف ہو کہ حدود اللہ کی پاسداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے اور یہ کسی عوض کے بدلے ہو گا جس سے وہ اپنی جان چھڑائے۔ اس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے:

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یقِیمَا حُدُودَ اللّہ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیہمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِہ.“ [40]

’ ترجمہ:پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے‘‘۔

اظہار رائے کی آزادی کا حق:

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس سنت مبارکہ پر عمل خلافت راشدہ کے دور میں بھی جاری رہا اور رائے دہی کے معاملات میں خواتین کو بھرپور شمولیت دی گئی۔ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جانشین کے انتخاب کے لئے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تو حضرت عبدالرحمن بن عوفص کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کر دیا گیا۔ انہوں نے استصواب عام کے ذریعے مسلسل تین دن گھر گھر جا کر لوگوں کی آراء معلوم کیں جن کے مطابق بھاری اکثریت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس الیکشن میں خواتین بھی شامل ہوئیں اور تاریخ میں پہلی بار ایسی مثال قائم کی گئی۔ [41]

جبکہ آج کے دور دور میں ہم سیاسی معاملات میں عورت کی شمولیت کا سہرا مغرب کے سر رکھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل عورت کو رائے حق دہی کا حق عطا کیا۔

نکاح اور شادی میں فرق:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر نکاح سے مراد رواجی شادی ہی تھا تو اس کو الگ سے سنت کیوں کہا ؟ کیا صحابہ شادیاں کرنے سے رک گئے تھے؟ جب ایسا نہیں تھا تو ضرور نکاح اور شادی میں فرق ہے کیونکہ سنت تو وہ طریقہ ہے جو اللہ کے قریب لے کر جاتا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے نکاح اور شادی میں فرق واضح ہوا کہ اس وقت بھی شادیاں دنیا بھر میں ہو رہی تھیں مگر ان سب میں کوئی مقصدیت نہیں تھی صرف خواہش اور بقائے نسل کی بنیاد پر شادیاں ہو رہی تھیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں مقصدیت کی بات کی کہ نکاح میں دو مسلمان مرد ، عورت)جن کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرکے جنت حاصل کرنا ہے وہ اللہ کے نام پر جمع ہوتے ہیں کہ اس مشن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے اور جو اولاد ہوگی اس کو بھی اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دیں گے۔ نکاح کے بعد مرد کی ذمہ داری ہر قسم کی حفاظت کا مہیہ کرنا ہے خاص طور پر معاشی حفاظت جس کا پہلا ثبوت مہر کی شکل میں دیتا ہے۔ اور عورت کی ذمہ داری ہے سکون دینا ۔ اور دونوں کی زندگی مودت اور رحمت کے رویے کے ذریعے بترین طریقے پر چل سکتی ہے۔ جبکہ شادی میں یہ مقصدیت نہیں ہوتی ۔

وَمِنْ اٰیٰتِہ  اَنْ خَلَقَ  لَکُمْ  مِّنْ  اَنْفُسِکُمْ  اَزْوَاجًا  لِّتَسْکُنُوْا  اِلَیْھَا  وَجَعَلَ   بَیْنَکُمْ  مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً“ ۔ [42]

ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤاور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی ۔

ایک غلط فہمی :

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ  عَلَیْھِنَّ  بِالْمَعْرُوْفِ ص وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ  دَرَجَة” ط وَ اللّٰہُ  عَزِیْز”  حَکِیْم“۔ [43]

ترجمہ:(اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیساان پر ہیشرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے “۔

درج بالا آیت اور "قوام" والی آیت کے حوالے سے یورپ کی طرف سے بہت اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کا درجہ باقاعدہ کم رکھا گیا ہے ۔ اس کا ثبوت درج بالا آیات ہیں۔ یہ صرف زاویہ نظر کی بات ہے ۔ قرآن میں اللہ نے صاف فرمایا ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس نے مرد و عورت دونوں کی تکریم کی بات کی ہے بغیر فرق کے اور فرق صرف تقوی کی کمی بیشی پر رکھا ہے عورت مرد ہونے پر نہیں تو اس تمام پس منظر کے ساتھ اگر آیت کو دیکھیں تو یہ اعلی ادنی درجہ کی بات نہیں ہورہی بلکہ ذمہ داری کے حوالے سے ذکر ہو رہا ہے کہ جب مرد کی یہ ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اس قیمتی مخلوق (عورت) کی حفاظت کرے تو اس حوالے مرد کو درجہ دیا کہ اس کی بات کو مانا جائے تاکہ حفاظت صحیح طور پر ہوسکے ۔

آج کے مسلم معاشرے میں عورت کے ساتھ نا انصافی کے اسباب اور تجاویز:

آج کے مسلم معاشرہ عموما صرف اسلام کا دعوی دار رہ گیا ہے عمل سے دور ہوگیا اور اس کی ترجیحات دنیا پرستی اور خواہشات کی تکمیل میں پڑجانے کی وجہ سے بدل گئیں ہیں اس لیے وہ اسلام کے اعلی اخلاق اور تقوی کے مقام سے ھٹ گیا ہے اور زندگی کو بے مقصد بنا لیا ہے اور جوابدہی کے احساس کو بھی چھوڑ دیا ہے تو اس نفسیات نے اس کو عملا ظالم اور غیر متوازن بنا دیا ہے ۔ صبر اور دوسرے کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کا جذبہ ختم ہوگیا ہے اس وجہ سے مسلم معاشرے میں ناانصافیاں اور ظلم کا رواج ہے۔

تجاویز:* اس مسئلے کا حل بنیادی طور پر تو رجوع الی اللہ ہی ہے ۔

  • باعمل علماء اور مصلحین کو غلط رویوں کی اصلاح کے لیے زور دار طریقے سے مہم چلانا چاہیے۔
  • سب کو شعوری مسلمان بنانے کی مہم چلنا چاہیے تاکہ وہ ہر قدم اور اقدام سے پہلے سوچیں کہ یہ قدم یا اقدام اللہ کو پسند ہے یا نہیں تو ہی انصاف ہوگا۔
  • نکاح سے پہلے مسلمان ہونے کا مقصد اور نکاح کا مقصد اور اس کے بعد کی ذمی داریوں کی مکمل وضاحت اور ذکر ہونا چاہیے۔اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے سیرت رسول ﷺ کے جو نمونے ہیں ان کا ذکر اور اشاعت ہونی چاہیے۔ یہ بات واضح رہے کہ اسلام میں مرد خامخواہ کا کوئی تصور نہیں ۔ مرد کو جو درجہ دیا گیا ہے وہ ایک باعمل ، سیرت کے مطابق چلنے والے مرد کی بات کی گئی ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کے حکم اور طریقے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہو۔ اور عورت کی قدر بھی اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے مطابق چلنے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر ہے ۔
  • جو لوگ اپنی خواہش اور عقل کی بنیاد پر زندگی گذارنا چاہتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنے فیصلے کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کے نتائج ضرور بھگتیں گے ۔ ان اک ذمہ اسلام پر نہیں الا یہ کہ وہ رجوع کرلیں۔

حوالہ جات

  1. ۔ القرآن : النحل: ۵۹-۵۸
  2. ۔ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سجستانی، کتاب الطلاق، باب فی اسلم وعندہ نساء أکثر من اربع، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت لبنان، سن ندارد، ح:۲/۲۲۴۱، ص:۲۸۲۔
  3. ۔ ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الرَّجُل یُسلم وعندہ عشر نسوۃ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۲۰۰۰ئ، ح:۱۱۲۸، ص:۳۲۶
  4. ۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، سیرت سرور عالم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۹۹ء، ۱/۵۹۰
  5. ۔ صارم، عبدالصمد، مقالات صارم، حجازی پریس، لاہور، س۔ن، ص:۸۸
  6. ۔ القرآن ا، النساء:۱۲۹
  7. ۔ علی، خالد، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص:۴۶۱
  8. ۔۔ سعید، امر علی، عورت اسلا م کی نظر میں، آئینہ ادب، انار کلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص:۲۹
  9. ۔ صارم عبدالصمد، مقالات صارم، حجازی پریس، لاہور، س۔ن ، ص:۸۵
  10. ۔ ایم عبدالرحمن، عورت انسانیت کے آئینے میں، ثناء اللہ خان، لاہور، ۱۹۵۷ء، ص:۸۸
  11. ۔ سعید، سید احمد علی، مفتی، عورت اسلا م کی نظر میں، آئینہ ادب انار کلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص:۳۸
  12. ۔ ندوی، عبدالقیوم، مولانا، اسلام اور عورت، البدر پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص:۲۵
  13. ۔ کرسٹن سین، آرتھر، پروفیسر، ایران بعہد ساسانیان، مترجم، ڈاکٹر محمد اقبال، انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی، ۱۹۴۱ء، ص 18،19
  14. ۔ کرسٹن سین، آرتھر، پروفیسر، ایران بعہد ساسانیان، مترجم، ڈاکٹر محمد اقبال، انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی، ۱۹۴۱ئ، ص:۴۲۹
  15. ۔ ایران بعہد ساسانیان، ص:۴۳۶ – ۴۳۷
  16. ۔۔ عورت اسلامی معاشرہ میں ، ص:۲۷
  17. ۔ کتاب اِستثنا، باب:۲۴، آیت:۱
  18. ۔ رگ وید، منڈل:۱۰، سوکت۸۶، رچا۱۰، بحوالہ تمدن ہند، ص:۲۴۵
  19. ۔ منوجی، مہاراج، منو سمرتی، ادھیائے۳، شلوک۶۱، بھائی تارا چند پبلشرز، لاہور، س۔ن، ص:۴۴
  20. ۔القرآن الکریم:نوح:۱۷
  21. ۔القرآن الکریم:الرعد:۴۹
  22. ۔القرآن الکریم:المومن:۴۰
  23. ۔القرآن الکریم:النور:۳۰
  24. ۔القرآن الکریم:النور:۲۷-۲۸
  25. ۔ ابن ماجہ، السنن، المقدمہ، باب فضل العلماء، 1: 81، رقم: 224 2
  26. ۔القرآن الکریم:النساء:۳۲
  27. ۔ عبدالرزاق، المصنف، 7: 64، رقم: 12201 2
  28. ۔القرآن الکریم:النساء :۲۰
  29. ۔القرآن الکریم:البقرۃ:۲۳۶
  30. ۔القرآن الکریم:البقرۃ:۲۲۶
  31. ۔القرآن الکریم:النساء :۳۴
  32. ۔القرآن الکریم، 65: 6۔7
  33. ۔ مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب حجة النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، 2: 889، رقم: 1218 2
  34. ۔ ابن ماجہ، السنن ، کتاب النکاہ، باب حق المرأة، 1: 593، رقم: 1850 2
  35. ۔ القرآن الکریم:النساء:۱۹
  36. ۔۔ ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، 5: 907، رقم: 3895 2
  37. ۔القرآن الکریم:البقرۃ۲۳۱
  38. ۔ بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب کتابة الإمام الناس، 3: 1114، رقم: 2896
  39. ۔ بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب السافر إذا جد بہ، 2: 639، رقم: 1711 2
  40. ۔القرآن الکریم:البقرۃ:۲۲۹
  41. ۔ بخاری، الصحیح، کتاب الاحکام، باب کیف یبایع، 6: 2634، 2635، رقم: 6781 2.
  42. ۔القرآن الکریم: الروم:۲۱ 
  43. ۔ القرآن الکریم: البقرۃ :۲۲۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...