Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں نکاح کی شرعی حیثیت: ایک تقابلی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_524

Pages

01-22

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/178/167

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/178

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا اور دنیا کو اس کیلئے مسخر کردیا۔ اور اس کی بقا و افزائش کے لئے انتظام فرمایا ۔ جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ساتھ ہی بی بی حواء کو بھی تخلیق فرمادیا ۔اسی طرح دونوں میں ایک دوسرے کیلئے الفت ٬رغبت اور محبت کا جذبہ بھی ودیعت فرما دیا ۔ارشاد ربانی ہے :

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا(۱)

ترجمہ :اے انسانو! اپنے اس رب سے ڈ رو جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا فرمایا ۔ اور اسی سے اس کی زوجہ کو پیدا فرمایا ۔اور ان دونوں میں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں ۔اور اسی اللہ سے ڈ رو جس سے تم ہر وقت مانگتے رہتے ہو ۔ اور رشتیداری کا پاس رکھو۔ یقینا اللہ تعالی آپ کے اوپر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

لیکن ان جذبات کو قابو میں رکھنے کیلئے نکاح کا طریقہ بھی رائج فرمایا ۔ تا کہ نسل انسانی دیگر جانوروں سے ممتاز رہے ۔ اور ایک صاف شفاف اور پاکیزہ رشتہ کے ذریعہ مرد وعورت ایک دوسرے سے جڑے بھی رہیں۔ اور اسی طرح نسل انسانی قیامت تک کیلئے محفوظ فرمادی۔

نکاح کی ابتداء چونکہ اس دھرتی پر پیدا ہونے والے پہلے انسان سے ہو چکی تھی٬ اس لئے اب تک اس کی ساری اولاد چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو٬الہامی چاہے غیر الہامی یا مذہب کے کسی بھی فرقے سے ہو یا وہ آزاد خیال ہو مذاہب کی پابندی نہ بھی کرتا ہو ۔لیکن شادی اور نکاح کی رسم ضرور ادا کریگا۔جیسا کہ رسم نکاح کی ابتدا سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔آدم علیہ السلام کا نکاح جب بی بی حوا سے ہوا آپ نے اسے مہر بھی دیا تھا۔اسی طرح یہ سنت اولاد آدم میں بھی آج تک جاری وساری ہے۔ جیسے علامہ حصکفی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف در المختار میں رقم طراز ہیں:

لَيْسَ لَنَا عِبَادَةٌ شُرِعَتْ مِنْ عَهْدِ آدَمَ إلَى الْآنَ ثُمَّ تَسْتَمِرُّ فِي الْجَنَّةِ إلَّا النِّكَاحَ وَالْإِيمَانَ.(۲)

ترجمہ: ہمارے لئے ایسی کوئی عبادت موجود نہیں جو عہد آدم علیہ السلام سے آج تک لگاتار مشروع ہو اور آگے جنت تک جاری رہے ۔مگر فقط نکاح اور ایمان (ایسی دو عبادات موجود ہیں) آگے نکاح کی تعریف میں لکھتے ہیں۔

(هُوَ) عِنْدَ الْفُقَهَاءِ (عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ) أَيْ حِلَّ اسْتِمْتَاعِ الرَّجُلِ (۳)

ترجمہ: وہ (نکاح) فقہاء کے نزدیک ایسا عقد جس سے ملک المتعہ کا فائدہ حاصل ہو ۔یعنے مرد کا عورت سے نفعہ لینا حلال ہو جائے۔

نکاح کی تعریف

نکاح ایک عربی لفظ ہے جس کا اصل مادہ نکح ینکح سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنے ملانے ضم کرنے اور وطی کے ہیں :مختلف علماء اور لغت دان اسے کیا سمجھتے ہیں ان مختلف تعریفوں سے معلوم ہوگا۔

النکاح : هو في اللغة الضم ويطلق على العقد وعلى الوطئي قال الإمام أبو الحسن علي بن أحمد النيسابوري: قال الأزهري أصل النكاح في كلام العرب الوطء وقيل للتزوج نكاح لأنه سبب الوطء يقال نكح المطر الأرض ونكح النعاس عينه أصابها قال لواحدي

وقال أبو القاسم الزجاجي :النكاح في كلام العرب الوطء والعقد جميعا قال وموضع ن ك ح على هذا الترتيب في كلام العرب للزوم الشيء الشيء راكبا عليه هذا كلام العرب الصحيح فإذا قالوا نكح فلان فلانة ينكحها نكحا ونكاحا أرادوا تزوجها.

وقال أبو علي الفارسي: فرقت العرب بينهما فرقا لطيفا فإذا قالوا نكح فلانة أو بنت فلان أو أخته أرادوا عقدعليها وإذا قالوا نكح امرأته أو زوجته لم يريدوا إلا الوطء لأنه بذكر امرأته وزوجته يستغني عن ذكر العقد.

قال الفراء: العرب تقول نكح المرأة بضم النون بضعها وهو كناية عن الفرج فإذا قالوا نكحها أرادوا أصاب نكحها وهو فرجها وقلما يقال ناكحها كما يقال باضعها هذا آخر ما نقله الواحدي .

وقال ابن فارس والجوهري: وغيرهما من أهل اللغة النكاح الوطء وقد يكون العقد ويقال نكحها أو نكحت هي أي تزوجت وأنكحته زوجته وهي ناكح أي ذات زوج واستنكحها أي تزوجها هذا كلام أهل اللغة (۴)

ان مختلف تعریفوں کا لب لباب اس طرح بنتا ہے۔

نکاح : لغت میں نکاح دو کو ملانے کو کہتے ہیں ۔اور یہ عقد اور وطی دونوں کیلئے مطلقا بولا جاتا ہے۔

إمام أبو الحسن علي بن أحمد نيشاپوري نے فرمایا: أزهري کے مطابق کلام عرب میں نكاح اصل میں الوطء ہے ۔یا التزوج ہے لیکن مراد اس سے وطی ہے۔

اور ابو القاسم زجاجی :کے مطابق کلام عرب میں وطی اور عقد کو ساتھ ملا کر نکاح بولا جاتا ہے۔ نکاح سے کلام عرب میں تزویج مراد لیا جاتا ہے۔

ابو علی فارسی کے مطابق: دونوں (نکاح اور وطی) میں ایک لطیف فرق ہے۔جب کہا جائے کہ کسی نے نکاح کیا یا فلاں کی بیٹی یا بہن سے تو اس سے مراد عقد ہوتی ہے ۔اور جب بولا جائے کہ اپنی بیوی سے نکاح کیا تو اس سے وطی کے علاوہ کچھ مراد نہیں ہوتا۔کیونکہ جب بیوی یا زوجہ بول دیا تو عقد کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی۔

الفراء: کے مطابق عرب نکح سے بضعہ (عضوہ مخصوصہ)مراد لیتے ہیں یعنے اس چیز کا مالک ہونا ۔

ابن فارض ٬جوہری اور دیگر اہل لغت: انکے نزدیک نکاح وطی کو کہتے ہیں اور وہ ایک عقد ہوتا ہے ۔بولا جاتا ہے نکاح کیا یعنے اس کو زوجہ بنایا یعنے جس نے نکاح کیا وہ صاحب زوجہ ہو گیا۔

اسلام میں نکاح

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ہر وقت اور ہر لحاظ سے بنی نوع انسان کی بہتری چاہتا ہے۔اسی لئے اسلام میں نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہر مردو عورت کے لئے یہ لازم ٹہرایا گیا ہے کہ وہ نکاح کرے۔ مجرد زندگی سے منع فرمایا گیا ہے۔ صرف ایک نہیں بلکہ چار چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ جیسے ارشاد ربانی ہے۔

فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓـًٔا مَّرِيْٓـًٔا(۵)

ترجمہ : نکاح کرو جتنی عورتوں سے کر سکتے ہودو دو تین تین اور چار چار ۔اگر تمہیں ڈ ر ہو کہ انصاف نہیں کر پائو گے تو پھر ایک (ہی کافی ہے)۔یا پھر وہ عورتیں جن کے تم مالک بن گئے ہو (لونڈ یاں باندیاں)۔یہ اس لئے ہے کہ تم بوجھ محسوس نہ کرو۔اور عورتوں کو انکے مہر خوشی خوشی دیدیا کرو٬اگر وہ اس میں سے کچھ آپ کو دینے پر رضامند ہو جائیں تو خوشی خوشی کھالو۔

شرائط نکاح

  • ایجاب:یعنے دعوت نکاح یہ مرد کی طرف سے ہوتا ہے۔
  • قبول :قبول عورت کی طرف سے ہوتا ہے۔
  • شاہد:دو شاہدوں کا ہونا ضروری ہے جو کہ دونوں مسلم ٬عاقل ٬بالغ٬ آزادہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں۔
  • مہر مقرر کرنا : نکاح کے وقت مہر کا تعین ضروری ہے باقی اس کی ادائگی اسی وقت بھی ہو سکتی ہے اور بعد میں بھی۔
  • والد یا شرعی وارث کی اجازت: یہ فقط کنواری لڑ کی کے لئے ہے۔مطلقہ یا بیوہ کیلئے نہیں۔(۶)

محرمات نکاح

کچھ ایسے پاکیزہ رشتے ہیں جنکے ساتھ نکاح کرنا ناجائز ٹہرایا گیا گیا ہے ۔اور یہ ایسے مقدس رشتے ہیں جن کا احترام خود بخود انسان کے دل میں ہوتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ایسے تعلقات جو میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں فطرتا ناگوار گزرتے ہیں۔ اسلام نے بھی ایسے رشتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات ناجائز قرار دیئے ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے۔

وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِيْلًاؒ۰۰۲۲حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١ٞ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ١ٞ وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (۶)

ترجمہ: ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے آپ کے والد نکاح کر چکے ہیں ٬ہاں جو پہلے ہو چکا اس کو چھوڑ دو ٬لیکن جو کچھ ہوا برا ہی ہوا ۔ آپ کے اوپر آپ کی مائیں ٬بیٹیاں٬ بہنیں ٬پوپھیاں ٬خالائیں ٬بھتیجیاں ٬ بھانجیاں٬ دودھ پلانے والی(رضاعی) مائیں٬ دودھ شریک (رضاعی )بہنیں٬ ساسیں (بیوی کی والدہ) آپ کی ان بیویون کی بیٹیاں جن کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر چکے ہو۔ اگر ازدواجی تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں تو پھر کوئی گناہ نہیں ۔آپ کے سگے بیٹوں کی بیویاں حرام کی گئی ہیں۔اور نہ ہی دو بہنیں اکٹھی نکاح کرو ہاں جو پہلے ہو چکا اس کو چھوڑ دو ٬یقینا اللہ تعالی بخشنے والا اور بڑا رحیم ہے ۔

محرمات سے نکاح کرنے والے کی سزا

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ قُسَيْطٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقِيتُ عَمِّي وَمَعَهُ رَايَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: «بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةَ أَبِيهِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَآخُذَ مَالَهُ»(۷)

ترجمہ : حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میری اپنے چچا سے ملاقات ہوئی انکے ہاتھ میں جھنڈ ا تھا ۔میں نے پوچھا کیا ارادے ہیں بولا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے کہایک ایسے آدمے کی طرف جس نے اپنے والد کی بیوی سے نکاح کر لیا ہے اور مجھے حکم فرمایا ہے کہ اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال ضبط کر لوں۔

زبردستی شادی کی ممانعت

اسلام میں شادی کیلئے فریقین کی رضامندی لازمی ہے۔اگر کوئی ایک فریق شادی میں راضی نہیں تو شادی حلال نہیں ہوتی۔اور اگر کوئی شادی شدہ جوڑا علاحدگی اختیار کرتا ہے تو بھی انہیں احسن طریقےسے علاحدہ ہونے کا حکم ہے۔ اور علاحدگی کے دوران اور بعد میں بھی حسن سلوک کا دامن ہاتھ جانے نہیں دینا۔

ارشاد ربانی ہے۔

یاٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ يَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا۰۱۹وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍۙ وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ۠ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِيْنًا۲۰وَ كَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا (۸)

ترجمہ: اے ایمان والو آپ کیلئے یہ حلال نہیں تم عورتوں کے زبردستی وارث ہوجائو اور انہیں مجبور کر کے جو کچھ ان کو دیا ہے ان سے واپس لے لو ہاں اگر وہ مبینہ فحاشی پر اتر آئیں تو۔۔۔ اور ان کے ساتھ بہتر طور پر سلوک کرو۔اور وہ تمھیں ناگوار بھی لگیں (تو برداشت کرلو) ہو سکتا ہے جس چیز کو تم ناپسند کر رہے ہو اس میں اللہ تعالی نے تمھارے لئے بہت بہتری رکھ دی ہو۔اور اگر ایک کی جگھ دوسری بیوی کرنا چاہتے ہو ٬اور تم نے انہیں بہت زیادہ مال دیا ہوا ہے تو ان سے کچھ بھی واپس مت لو۔ کیا تم ان پر بہتان لگا کر مال واپس لینا چاہتے ہو اور اتنا بڑا گناہ کرنا چاہتے ہو۔اور یہ سب کچھ کیسے کر رہے ہو جبکہ تم نے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے سپرد کیا اور ایک دوسرے سے (بذریعہ نکاح) سخت وعدے وعید کر چکے ہو۔(اب یہ چیز زیب نہیں دیتی)۔

معاشرتی اقدار

نکاح ایک ایسا معاملہ ہے جس اثرات سیدھے معاشرے پر پڑتے ہیں٬ اس سے لڑائی جھگڑے کا بھی اندیشہ ہو سکتا ہے اس لئے اسلام نے ایسے اقدام سے منع فرمایا ہے جن میں لڑائی کا اندیشہ ہو سکتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی کہ ایک عورت کو کہیں سے شادی کا پیغام آیا ہوا ہے ۔تو اس کو آپ اپنا پیغام مت بھیجیں جب تک پہلے والا معاملہ طئے نہ ہوجائے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

وَلاَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَنْكِحَ أَوْ يَتْرُك (۹) 
ترجمہ: اپنے بھائی کے دیئے ہوئے خطبے پر خطبہ نہ دو۔ جبتک وہ یا تو نکاح کر لے یا چھوڑ دے۔ 

غلاموں کیلئے نکاح کا حکم

غلام بھی انسان ہیں ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے انھیں بھی سارے حقوق دیئے ہیں جو ایک آزاد انسان کو حاصل ہیں۔ لیکن ان کچھ شرائط کی قید ہے ۔ نکاح میں چونکہ مالک کے کچھ حقوق مجروح ہونگے اس لئے ان کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: 

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا نَكَحَ الْعَبْدُ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوْلَاهُ فَنِكَاحُهُ بَاطِلٌ». قَالَ أَبُو دَاوُدَ: هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ وَهُوَ مَوْقُوفٌ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا(۱۰)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب ایک بندہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتا ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ ابو داود کہتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے ۔اور یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور موقوف ہے۔

دیگر الہامی مذاہب میں نکاح

الہامی مذہب سے ایسا مذہب مراد ہے جن کا من عند اللہ ہونا قرآن میں ثابت ہو ۔ ایسے مذاہب سے اسلام کے علاوہ اب اس دنیا میں فقظ دو ہی مذہب باقی ہیں ایک یہودیت اور دوسرا نصرانیت ۔یہودیوں کی تعداد تو دنیا میں بہت ہی کم ہے۔ لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں یہودی کافی تعداد میں تھے۔ اور روزمرہ کے معاملات میں ان سے ہی پالا پڑتا ۔نکاح بھی ان معاملات میں سے ایک تھا۔ نکاح چونکہ آدم علیہ السلام کی سنت ہے۔اور انسان اولاد آدم ہے اس لئے جب سے انسان میں شعور آیا ہے ۔ اس میں نکاح کا تصور پایا جاتا ہے ۔ لیکن طریقہ کار میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔دور حاضر میں فقط تین ایسے مذاہب ملتے ہیں ۔ جن کو یقینی طور پر الہامی مذہب سمجھا جاتا ہے۔اور وہ ہیں یہودیت٬ عیسائیت٬ اور اسلام۔ اسلام کے بارے میں کافی ذکر ہو چکا ہے اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ان دیگر الہامی مذاہب میں نکاح اور مہر کا طریقہ کار یا تصور کیا ہے۔

یہودی مذہب اور نکاح

موجودہ دور میں سب سے قدیم الہامی مذہب یہودی مذہب ہے۔ یہودی مذہب دنیا کا پہلا منظم اور اہل کتاب مذہب ہے ۔ یہ مذہب شروع میں فقط بنی اسرائیل تک محدود تھا ان کے سب سے مشہور اور اولو العزم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام ہیں ۔ ان سے پہلے اور بعد میں بنی اسرائیل کی طرف بہت سارے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے ایک روایت کے مطابق بنی اسرائیل میں چار ہزار انبیاء کرام مبعوث ہوئے۔ الہامی مذہب ہونے کے باوجود اسے غیر تبلیغی اور بنی اسرائیل تک محدود رکھا گیا۔اب دوسروں کی دیکھا دیکھی انھوں نے بھی اپنے یہودی مذہب کو تبلیغی مذہب بنا دیا۔ لیکن بد قسمتی سے یہ مذہب ترقی نہیں کر پایا اور بنی اسرائیل تک ہی محدود رہا ۔

یہودی مذہب میں نکاح کا طریقہ

یہودی مذہب چونکہ ایک نسلی مذہب ہے اس لئے اکثر وہ دوسرے مذاہب سے راہ ورسم نہیں بڑھاتے۔نہ ہی وہ دوسرے مذہب والوں سے شادی بیاہ کا سلسلہ جوڑتے ہیں۔اس معاملہ میں وہ بہت سخت ہیں۔یہودی شادی سے پہلے منگنی کی رسم ادا کر دیتے ہیں۔ وہ شادی والے دن روزہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو کہ دوسرے مذاہب میں نہیں ہے۔وہ عصر کے وقت یہ رسم ادا کرتے ہیں ٬اور محفل میں دس بالغ افراد کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔محفل میں ایک ربی (مذہبی رہنما )آتا ہے اور ایک گلاس میں شراب بھر لاتا ہے۔دولہا اور دلہن کے حق میں دعا کرتا ہے ۔ پھر دولہا دلہن کو منڈ ی پہناتا ہے۔اور عبرانی زبان میں کہتا ہے کہ تو حضرت موسی علیہ السلام کے مذہب اور اسرائیلی رسم کے مطابق اس مندری کے ذریعے میری طرف منسوب ہو چکی ہو۔ پھر شادی کا ھہدنامہ پڑہتا ہے اور ان کو شراب پلاتا ہے۔اور گلاس توڑ دیا جاتا ہے اسی طرح شادی کی رسم پوری ہوتی ہے اور حاضرین خوشی سے چیخیں مارتے ہیں۔یہودیوں میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔لیکن ان میں ایک شادی کرنے کی رسم عام ہے۔ صرف بادشاہ کیلئے ممنوع ہے لیکن اس بات پر بہت کم ہی عمل ہوتا ہے۔ ان میں طلاق کا طریقہ بھی ہے جو اسلام سے ملتا جلتا ہے ۔ شادی کی طرح طلاق میں بھی دس شاہدوں کا ہونا لازمی ہے۔(۱۱)

عیسائی مذہب اور نکاح

جدید تحقیق کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائی مذہب ہے ۔ اسلام بھی دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایک ایسا مذہب جو دنیا کے ۳۱ فیصد لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے ۔حضرت عیسی علیہ السلام خود چونکہ مجرد رہے انہوں نے کوئی شادی وغیرہ نہیں کی اس لئے عیسائی مذہب میں رہبانیت کو بہت ہی اعلی مقام حاصل ہے ۔ اسلئے رہبانیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اور اسے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کے ہاں بھی نکاح کا ایک خاص طریقہ کار ہے ۔ جب شادی کا موقع ہوتا ہے ۔اور لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان پادری اعلان کرتا ہے کہ لوگو آج ہم اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ان دولہا اور دلہن کا پاک نکاح کر لیں۔پھر دولہا اور دلہن یسوع مسیح کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ رہنے اور محبت نبھانے کے قول وقرار کرتے ہیں اور اسی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔پھر وہ پادری ایک چھلا دولہے کو دیتا اور وہ اسے اپنی دلہن کو پہناتا ہے۔اور پادری کچھ دعائیہ الفاظ بھی بولتا ہے ۔ انکو نصیحت کرتا ہے اور نکاح کی رسم ادا ہوجاتی ہے۔(۱۲)

اسلام میں مہر

مہر کی تعریف

مہر کوئی بھی چيزہو سکتی ہے جو شادي کے وقت شوهر کي جانب سے اپني بيوي کو نکاح کے عوض دي جائے پهر وه نقد رقم هو ، مال ملکیت ہو ٬زمین ٬زیور ٬سونا ٬چاندی٬کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی قیمت بھی اسلام میں مقرر ہے۔ اس وقت کے اعتبار سے دس درہم کم سے کم قیمت مقرر تھی ۔ جس طرح نصاب زکواۃ میں قیمت مقرر ہے ٬اور وہ ہر دور میں کم و بیش ہوتی رہتی ہے اسی طرح مہر کی کم سے کم قیمت کو بھی تصور کرنا چاہئے ۔ صدقہ فطر کی قیمت بھی اسی طرح ہر سال متعین کی جاتی ہے ۔ اسی کے ذکر اور تعین کے بغیر نکاح معلق رہتا ہے۔

اسلام نہ تو کسی سے زیادتی برداشت کرتا ہے اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کرنے دیتا ہے۔ ہر معاملے میں راہ اعتدال اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح مہر دینے کیلئے کوئی واضح مقدار مقرر نہیں کیا گیا یہ علائقہ اور حالات پہ منحصر ہے۔ نہ کسی کی دل آزاری ہو نہ کسی کی دل شکنی۔ اسی لئے شریعت میں غلو سے منع کیا گیا ہے۔جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے۔

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً (۱۳)

ترجمہ : عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: عورتوں کو مہر دینے میں غلو نہ کیا کرو اگر یہ چیز دنیا میں باعث تکریم ہوتی یا اللہ تعالی کے ہاں تقوی کا سبب بنتی تو اس کے سب سے زیادہ لائق اور حقدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اور نہ ہی بیٹیوں میں سے کسی کو بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر دیا۔

مقدار مہر

مہر کی مقدار مقرر کرنے میں فقہائے اہل سنت میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ 

مہر کی مقدار کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ کیا ہونی چاہئی اس کے لئے اہل علم فقیہہ حضرات کی مختلف آرا ءہیں:

وقال الترمذی:وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي الْمَهْرِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: الْمَهْرُ عَلَى مَا تَرَاضَوْا عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ ۔وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لاَ يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِ دِينَارٍ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الكُوفَةِ: لاَ يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ. (۱۴)* شافعی مسلک کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی کا کہنا ہے کہ مقرر کچھ بھی نھیں جس چیز پر فریقین راضی ہو جائیں۔

  • حنبلی مسلک کے بانی امام احمد بن حنبل کا کہنا بھی یہی ہے کہ مقرر کچھ بھی نھیں جس چیز پر فریقین راضی ہو جائیں۔ سفیان سوری اور اسحاق وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
  • مالکی مسلک کے بانی امام مالک بن انس کے مطابق کم از کم چوتھائی دینار (یعنی ایک دینار کا چوتھا حصہ) ہونی چاہئے ۔
  • بعض کوفی اہل علم فقہا کے مطابق کم از کم دس درہم مقرر کئے جائیں۔ اس سے مراد حنفیہ مکتب فکر ہے ۔ حنفیہ مسلک کے بانی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔

دیگر الہامی مذاہب میں مہر کا تصور

‏ مذہب اسلام میں مہر کا تصور اب واضح ہو گیا ،جبکہ دیگر مشہور مذاہب عالم میں مہر کا کیا تصور پایا جاتا ہے۔

یہودی مذہب اور مہر

اس مذہب کا بھی دنیاوی معاملات میں وہی حال ہے جو اس کے دوسرے ہمنوا مذاہب کا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ البتہ قرآن پاک میں حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر کثرت سے آیا ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام کی جب اپنی شادی ہوتی ہے وہاں ایک موہوم سا ذکر ملتا ہے ۔ اس سے تھوڑا بہت مہر کا تصور محسوس ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قَالَ اِنِّيْۤ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰنِيَ حِجَجٍ١ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ١ۚ وَ مَاۤ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ١ؕ سَتَجِدُنِيْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۔قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكَ١ؕ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ (۱۵)

ترجمہ: بولا کہ میرا ارادا ہے کہ میں اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اگر آپ اس کا اجر آٹھ سال کی خدمت کی صورت میں ادا کریں ۔ اگر دس سال پورے کرینگے تو یہ آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا ۔میں نہیں چاہتا کہ یہ بات آپ کیلئے گراں گذرے ٬ انشا اللہ آپ مجھے اللہ تعالی کے صالح بندوں میں سے پائینگے۔ تو موسی علیہ السلام بولے ان دونوں میں سے جونسی مدت پوری کر سکا٬ کر دونگا یہ اپنے درمیان طئے ہے میرے اوپر دوسری مدت کیلئے زبردستی نہیں کی جائیگی۔ اور ہم جو کچھ بول رہے ہیں اللہ تعالی اس کا وکیل ہے۔

اس آٹھ یا دس سالہ خدمت کو اگر مہر کے طور پر لیا جائے تو ہو سکتا ہے لیکن یہ بات کوئی حتمی نہیں صرف ایک خیال ہے ۔جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس کے علاوہ یہودی مذہب میں بھی مہر کا کوئی تصور نہیں ۔اس آیہ کریمہ میں نکاح کے واضح الفاظ موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسی علیہ السلام سے پہلے بھی نکاح کا طریقہ کار اور واضح تصور موجود تھا۔

عیسائی مذہب اور مہر

اس کے ہاں مہر کا کوئی تصور نہیں۔ میں نے ان کی کچھ مذہبی کتابیں مطالعہ کیں لیکن وہاں جب کچھ نہیں ملا تو ان کے جاننے والے علماء اور پادریوں سے رابطہ کیا ۔ انہوں نےبھی یہی بتایا ۔ مذہبی لحاظ سے ہمارے ہاں مہر کا کوئی تصور نہیں۔بس صرف جہیز وغیرہ دیا جاتا ہے وہ بھی ایک رسم کے طور پر۔ باقی مذہب اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔(۱۶)

مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نکاح

مسلمانوں کا باہمی نکاح

اسلام نے اخوت اور برابری کا درس دیا ہے ۔ذات پات ٬اونچ نیچ کی ہر تفریق کو ختم کردیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ایسی عملی مثالیں دنیا کے آگے پیش کیں جن کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ اسلام نے تو اس حد تک کہ دوسرے اہل مذاہب سے شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے اسلامی فرقے جن کے عقائد کفریہ نہیں ۔اور وہ اللہ تعالی کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں ۔ان سے ہر قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت ہے ۔اسی طرح قرآن پاک تو علی الاعلان اہل کتاب کو دعوت اتفاق دیتا ہے ،ارشاد ربانی ہے۔

قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـًٔا وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۱۷)

ترجمہ: کہ دیجئے (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اے اہل کتاب ان کلمات کی طرف تو آجائو جو ہمارے اور تمھارے درمیان برابر ایک جیسے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کرینگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائینگے اور ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کواللہ کے بغیر رب تسلیم نہیں کریگا اور اگر پھر بھی وہ رخ پھیر لیں تو کہ دو یہ شہادت دینا کہ ہم تو مسلمان ہیں۔

مسلمانوں کے جتنے بھی مذاہب (حنفی٬شافعی٬حنبلی اور مالکی وغیرہ) ہیں انکے آپس میں شادی بیاہ پر کوئی ممانعت نہیں۔اسی طرح کسی بھی ذات پات یا ملک کی تفریق نکاح میں مانع نہیں ہے۔اسلام میں فرقہ ورانہ تفریق بھی نکاح میں مانع نہیں ہے۔اسلام فرقہ ورانہ تفریق کو بھی تسلیم نہیں کرتا اور آپس میں شادی بیاہ کی اجازت دیتا ہے ۔

مسلمان کا اہل کتاب سے نکاح

اسلام اہل کتاب عورت سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔چاہے وہ شادی کے بعد بھی اپنے مذہب پہ قائم رہنا چاہتی تو بھی وہ شادی برقرار رہے گی۔کوئی اسے زبردستی مسلمان کرنے کا مجاز نہیں۔باقی اسلام ہمیں مسلم عورتیں اہل کتاب کے نکاح میں دینے سے منع کرتا ہے۔اس کی ایک خاص وجہ ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر پیغمبر کا ادب واحترام اور ان کو ماننا لازم ہے اسی طرح کبھی بھی کوئی مسلمان کوئی مسلمان ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا جس سے اس کتابیہ عورت کی دل آزاری ہو۔ اور وہ ہمیشہ آزادی اور خوشی سے مسلمان کے ساتھ گذارا کر سکتی ہے۔ لیکن اہل کتاب میں کافی لوگ ایسے ہیں جومعاذ اللہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام نہیں کرتے نہ ہی ان کو نبی تسلیم کرتے ہیں ۔اسطرح پھر اس مسلمان عورت کی دل آزاری ہوگی اور اس کا گذارا بہت مشکل ہو جائیگا ۔اس لئے اسلام لینے کی حد تک تو اجازت دیتا ہے۔ تاکہ باہمی تعلقات جڑے رہیں۔ اسی طرح ان مذاہب (یہودو نصاری )کا بھی اس معاملہ میں اپنا اپنا موقف ہے۔ان میں سے اکثر شادی کی اجازت دیتے ہیں ۔ کچھ کا خیال مسلمانوں کی طرح ہے صرف مسلم یا دوسرے الہامی مذہب کی عورت لینے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اپنی عورتیں انہیں دینے سے منع کرتے ہیں ۔

موجودہ اہل کتاب کہلانے والوں کا حکم

اہل کتاب سے مراد اپنے اپنے مذاہب کے سچے پیروکار ہیں اور توحید کے قائل ہیں لیکن جن یہودیوں کا عقیدہ حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے یا وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا تصور کرتے ہیں یا اس طرح کے اور خرافات کے قائل ہیں جو کہ ان کے اپنے توحیدی مذہب کے خلاف ہیں ۔وہ اہل کتاب کے زمرے میں نہیں آتے۔اسی طرح ایسے مسیحی جو حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت کے قائل ہیں یا ان کو اللہ تعالی کا بیٹا سمجھتے ہیں یا تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں یا ان کا عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے یا اس طرح کے اور خرافات کے قائل ہیں جو کہ ان کے اپنے توحیدی مذہب کے خلاف ہیں ۔وہ بھی یہودیوں کی طرح اہل کتاب کے زمرے میں نہیں آتے۔ان سے ایسے مراسم رکھنا جائز ۔(۱۸) نہیں

خلاصہ البحث

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ہر وقت اور ہر لحاظ سے بنی نوع انسان کی بہتری چاہتا ہے۔اسلام اہل کتاب عورت سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام نے اخوت اور برابری کا درس دیا ہے ۔ذات پات ٬اونچ نیچ کی ہر تفریق کو ختم کردیا۔نکاح ایک عربی لفظ ہے جس کا اصل مادہ نکح ینکح سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنے ملانے ضم کرنے اور وطی کے ہیں۔ مہر کوئی بھی چيزہو سکتی ہے جو شادي کے وقت شوهر کي جانب سے اپني بيوي کو نکاح کے عوض دي جائےجبکہ دیگر مذاہب میں مہر کا کوئی تصور موجود نہیں۔

یہودی دوسرے مذہب والوں سے شادی بیاہ کا سلسلہ نہیں جوڑتے ۔اس معاملہ میں وہ بہت سخت ہیں۔ جن یہودیوں کا عقیدہ حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے یا وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا تصور کرتے ہیں ۔وہ اہل کتاب نہیں رہے۔

جدید تحقیق کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائی مذہب ہے ۔ ایسے مسیحی جو حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت کے قائل ہیں یا ان کو اللہ تعالی کا بیٹا سمجھتے ہیں یا تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں یا ان کا عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔وہ بھی اہل کتاب کے زمرے میں نہیں آتے۔


حواشی و حوالہ جات

(۱)القرآن: النساء۱:۴

(۲)رد المحتار على الدر المختار٬ ابن عابدين، محمد أمين کتاب النکاح ۳:۳ دار الفكر-بيروت۔

(۳) ایضاً

(۴)ایضاً

(۵) القرآن: النساء:۴:۴

(۶) القرآن: النساء:۱۹:۴

(۷)البناية شرح الهداية ،بدر الدين العينى (۵ : ۱۳۰) دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان ط: الأولى، 2000 ع

(۸) القرآن: النساء:۲۲:۴

(۹)ابن ماجہ:کتاب النکاح باب المہر حدیث ۱۸۸۷، ط /أولی ابریل ١٩٩٩م دار السلام للنشر والتوزیع الریاض۔

(۱۰)ایضاً

(۱۱) ایضاً

(۱۲)ٹی والٹر وال بنک۔ آرنلڈ فیریئر ۔ڈ ونامائیرسندیکار :محمد بخش سومرو٬ قومن جی عالمی تاریخ: ص ۱۴۴تا۱۵۴ ٬ ط۲۰۰۳ سندیکا اکیڈ می کراچی۔

(۱۳)ابن ماجہ:کتاب النکاح باب المہرحدیث ۱۸۸۷، ط /أولی ابریل ١٩٩٩م دار السلام للنشر والتوزیع الریاض۔

(۱۴)الترمذی تحت حدیث ۱۱۱۳ الترمذی:کتاب النکاح باب المهر ح ۱۱۰۲ ، ص ٣٩۔ط /أولی ابریل ١٩٩٩م دار السلام للنشر والتوزیع الریاض۔

(۱۵)سورہ القصص:۲۸: ۲۷ ۔۲۸

(۱۶)ٹی والٹر وال بنک۔ آرنلڈ فیریئر ۔ڈ ونامائیر۔وغیرہ مصنفین ٬سندیکار :محمد بخش سومرو٬ قومن جی عالمی تاریخ: ص ۱۴۴تا۱۵۴ ٬ ط۲۰۰۳ سندیکا اکیڈ می کراچی۔ ودعائے عام طبع اولی ۱۹۸۵ع کلیسائے پاکستان سے منظور شدہ۔

(۱۷)آل عمران ۶۴:۴

(۱۸) کتب فقہ : القدوری محمد بن احمد ابوالحسین کتاب النکاح ص ۴۷۷ ط/ اولی ۲۰۰۸ ع مکتبه البشری کراچی سندہ ۔و المرغینانی ابو الحسن علی بن ابی بکر الفرغانی شرح الهدایه کتاب النکاح ۲/۳۰۳ تا ۳۱۸ . مکتبه امدادیه ملتان ۱۳۱۱ ھ و ابو البرکات عبد الله بن احمد بن محمود نسفی کنز الدقائق کتاب النکاح ص۱۰۱ -۱۰۵ 66 _364 ط اولی۱۳۹۱ ه سعید ایچ ایم کمپنی کراچی ۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...