Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اسلام ميں حسن اخلاق کی فضيلت اور اہميت |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060029336_525

Pages

65-81

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/40/37

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/40

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اخلاق کالغوی واصطلاحی مفہوم

اخلاق خلق کی جمع ہے جو انسان کی فطری اور طبعی خصلت وعادت کوکہتے ہيں جس کااظہار انسان سے بلاتکلف ہوتاہے جيسا کہ علامہ  زبيدی نے لکھا ہے :الخلق:السجيۃ(۱)"اخلاق طبيعت ميں راسخ کيفيت کانام ہے"۔

جب کہ  ابن دريدنے اخلاق کو فطرت ،عادات اور خصائل کانام دیا ہے۔ وہ لکھتےہیں:        

الخلق:الطبيعۃ،والخلقيۃ ،والسليقۃ (۲)

فرہنگ آصفيہ ميں اخلاق کے يہ معنی بيان کئے گئے ہيں:

اخلاق اسم مذکر ،خلق کی جمع ہے :۱۔عادتيں ،خصلتيں۔ ۲۔خوش خوئی، ملنساری،کشادہ پيشانی سے ملنا،خاطر مدارات اوربھگت۔۳۔وہ علم جس ميں معاد ومعاش ، تہذيب نفس ، سياست مدن وغيرہ کی بحث ہو(۳)۔

علمی اردو لغت ميں اس سے ملتے جلتے الفاظ ميں اخلاق کے مفہوم کو  يوں بيان کياگياہے :

اخلاق خلق کی جمع ہے :۱۔خصلتيں،طور طريقے۔۲۔پسنديدہ عادتيں،اچھے طور طريقے ۔۳۔اچھابرتاو،شريفانہ سلوک، مروت۔۴۔ فلسفہ ، وہ علم جس ميں تہذيب نفس،تدبير منزل اور سياست مدن ياان ميں سے کسی ايک سے بحث کی جاتی ہے،علم اخلاق يا اخلاقيات کہلاتا ہے(۴)۔

جب کہ انگريزی ميں اخلاق کے لئے :

                 Ethicks, moralaity, politeness, manners, disposition, the good    

                             Properties of man kaind, virtues    جيسے الفاظ استعمال کئے گئے ہيں (۵) ۔  

بحث مذکورہ کے مفہوم کی روشنی ميں اخلاق سے مراد وہ خصلت ،فطرت اور عادتيں ہيں جوانسان کی طبيعت ثانيہ بن گئی ہوں اور بغیر کسی غور وفکر کے انسان سے صادر ہو رہے ہوں جيساکہ امام غزالیؒ رقمطراز ہيں:

"فالخلق عبار: عن ھيئۃ في نفس راسخۃ عنھا تصدرالأعمال بسھولۃ ويسر من غير حاجۃ إلي فکر ورويۃ"(۶)۔

’’خلق نفس کی اس راسخ کيفيت کانام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر  ہوتے ہيں ، ان کے کرنے کے لئے سوچ بچار کے تکلف کی ضرورت محسوس نہيں ہوتی ‘‘۔

بالفاظ ديگر جب انسان کی باطنی کيفيت اور ظاہری اخلاق وعادات ساتھ ساتھ چليں تو اس کواخلاق کہتے ہيں جب کہ اس کيفيت کے پيداہونے ميں تکليف کو دخل نہ دياگياہو جيساکہ لسان العرب ميں ہے :

"والخلق السجيۃ وھوالدين والطبع والسجيۃ وحقيقتہ أنہ لصورۃ الإنسان الباطنۃ وھي نفسہ وأوصافھا ومعانيھا المختصہ بمنزلۃ الخلق لصورتھاالظاھرۃ وأوصافھا ومعانيھا " (۷)۔

"يعنی خلق کامعنی فطرت اور طبيعت ہے : انسان کی باطنی صورت کومع اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے خلق کہتے ہيں جس طرح اس کی ظاہری شکل وصورت کو خلق کہاجاتاہے  "۔

ڈاکٹر خالدعلوی لکھتے ہيں کہ:

"انسان کے مجموعی اعمال کانام اخلاق ہے اور خلق يااخلاق کااطلاق ان ہی عادات واعمال پر ہوگا جو پختہ ہوں اور جن کاصدور بلاتکلف ہو"(۸)۔ اس لئے امام جرجانی نے اخلاق کی يہ تعريف کی ہے :

"خلق يااخلاق نفس کی اس پختہ حالت کانام ہے جس سے اچھے يابرے افعال بغير کسی غوروفکر کے سرزدہوں" (۹)۔

چونکہ آپﷺ اپنے ظاہری وباطنی اخلاق وخصائل کے لحاظ سے دنيا کابہترين نمونہ تھے يہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس کی تصديق  ان الفاظ میں کی ہے  ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيم﴾ (۱۰)

اور جب حضرت عائشہ صديقہ ؓ سے آپﷺکے اخلاق ،اطواراور مزاج کے بارے ميں پوچھاگيا توآپؓ نے جواباًکہا: أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ (۱۱)۔

گويا کہ آپﷺ قرآن کے چلتے پھرتے اعلی نمونہ تھے يہی وجہ ہے کہ دنيا اس اخلاق کريمانہ شخصيت کے ساتھ وارفتگی کاتعلق رکھتی ہے اور قرآن نے اس کو ان الفاظ ميں يادکياہے :

﴿وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (۱۲)۔

’’اگر تم بدگو اور سخت دل ہوتے تو يہ سب لوگ تمہارے اردگردسے تتر بتر ہوجاتے‘‘۔

عبداللہ بن مبارکؒ حسن اخلاق کے باے ميں فرماتے ہيں :

’’ اس سے مراديہ ہے کہ خندہ پيشانی سے پيش آنا ،بھلائی کے کام کرنا اور اذيت سے رک جاناہے  ‘‘ (۱۳)۔

اسلام کامجموعی نظام اس تصور کاداعی اور اس پر عامل ہے ۔

اسلام ميں حسن اخلاق کی اہميت:

اسلام کی بنياد اخلاق حسنہ پرہے اور ايک ايسا معاشرہ قائم کياہے جس ميں انفرادی اور معاشرتی زندگی کی بنياد ان خدائی تعليمات پر ہے جو اخلاقيات اور روحانيات کی مستقل بنيادوں پر قائم ہے نہ کہ مادی اور دنيوی مفادات پر۔اس طرز عمل کے نتيجے ميں چاہے دنيوی مفاد حاصل ہواور چاہے وہ برباد ہوجائے ،اولين حيثيت خدائی ہدايت کوحاصل ہے نہ کہ مادی مفادات کو(۱۵)۔

يہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی رسالت کامقصد بيان کرتے ہوئے فرمايا:

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ (۱۶)۔جبکہ کنزالعمال ميں اس مقصدکو مزيد واضح الفاظ ميں بيان کياگياہے:

اِنَّمَابُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ (۱۷)اور بيہقی ميں صَالِحَ الْاَخْلَاقِ کے الفاظ آئے ہيں (۱۸)۔

نبي مہربانﷺکے اخلاق حسنہ کو اللہ نے اپنی رحمت قرار دياہے ،فرمايا:﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُم﴾(۱۹)

يہي وجہ ہے کہ آپﷺ اورآپﷺ کی امت کو معاملات زندگی کواحسن طريقے سے Handleکرنے کاحکم دياگياہے فرمايا: ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ﴾ (۲۰)  ’’اچھے طريقے سے جواب دويااپنادفاع کرو‘‘۔

حسنِ اخلاق سے مزين لوگوں کی توصيف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمايا:

﴿ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ (۲۱)۔

"اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا  کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تومعاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف  کرسکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے"۔

اور خصوصيت سے اللہ نے اپنے نيک بندوں کو ان الفاظ ميں ذکر کياہے :

﴿ وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾ (۲۲)۔

"رحمان کے )اصلی ( بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام"۔اس سورۃ (الفرقان) کی آ  يات۶۳سے ليکر ۷۷ميں اللہ نے حسن اخلاق کی ايک فہرست دےکر فرمايا کہ ميرے نيک بندے ان کے حامل ہوتے ہيں:

’’وہ زمين پر نرم چال چلتے ہيں جاہلوں سے گالی گلوچ اور منہ ماری نہيں کرتے ،عبادت گزارہوتے ہيں ،اللہ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہيں ،خرچ ميں ميانہ روی کرتے ہيں ،نہ شرک اور نہ قتل کرتے ہيں اور نہ زنا کے پاس جاتے ہيں،نيک عمل کرتے ہيں اور جھوٹی گواہی نہيں ديتے ، لغويات وعبثيات پر سے شريفوں کی طرح گزرتے ہيں اور نصيحت آموز باتوں پر سے اندھے ہوکر نہيں گزرتے ،نيک اور صالح لوگوں ميں شموليت کے لئے اللہ سے درخواست گزار رہتے ہيں ‘‘۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے ان کی مزيدکچھ مکارم اخلاق ان الفاظ ميں بيان فرمائی ہے:

﴿وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُون﴾ (۲۳)

" کہ وہ بڑے (کبيرہ) گناہوں اور بے حيائی کاارتکاب نہيں کرتے بلکہ غصہ کوپی کر معاف کرتے ہيں"۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر کام ميں حسن اخلاق کوملحوظ خاطر رکھنے کاحکم ديااور مکارم اخلاق کارتبہ سمجھاياہے ۔

اسلام ميں حسن اخلاق کارتبہ:

1۔آپﷺنے فرمايا : إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ  (۲۴)۔

’’يقيناً مومن حسن خلق سے وہ درجہ پاسکتاہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتاہے ‘‘۔

جب کہ امام بيہقی نے شعب الايمان ميں بروايت عائشہؓ  حسن اخلاق کارتبہ ان الفاظ ميں ذکر فرمايا ہے:

2 ۔ اِنَّ الرَّجُلَ لَيُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہِ دَرَجَاتِ قَائِمِ اللَّيْلِ صَائِمِ النَّہَارِ(۲۵)۔

’’بے شک انسان حسن خلق سے وہ درجات حاصل کرسکتاہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات  بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتاہے ‘‘۔

حسن اخلاق آپﷺ کی محبت اور قرب کے حصول کاذريعہ:

آپﷺ نے حسن ِ اخلاق کو محبت  رسول اور قرب کے حصول کاذريعہ ان الفاظ میں قرار دیا ہے :

اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَيَّ اَحْسَنُکُمْ اَخُلَاقًا (۲۶) ۔’’تم ميں سے مجھے سب سے زيادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ‘‘۔جبکہ ايک اور حديث ميں اس سے بھی زيادہ واضح الفاظ ميں  حسن ِ اخلاق کو  اپنانے والے  کے لئےاپنے ساتھ ہم جلیس ہونے کی خوش خبری ان الفاظ میں فرمائی ہے :اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَيَّ وَاَقْرَبِکُمْ مِّنِّيْ مَجْلِسًا يَّوْمَ الْقِيَامَۃِ اَحَاسِنُکُمْ اَخْلَاقًا(۲۷)۔ ’’تم ميں سے ميراسب سے زيادہ محبوب اورآخرت ميں نشست ميں مجھ سے قريب تر وہ ہيں جو تم ميں خوش خلق ہے ‘‘

علاوہ ازيں آپﷺ نے حسن اخلاق کو کامل ايمان کی علامت قرار دياہے ارشاد ہے:

اَکْمَلُ الْمُوْمِنِيْنَ اِيْمَانًا اَحْسَنُھُمْ اَخْلَاقًا (۲۸)۔’’مسلمانوں ميں کامل ايمان اس کاہے جس کاخلق سب سے اچھاہے ‘‘۔اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ نے مکارم اخلاق کو اللہ کابہترين ہديہ گردانا ہے ۔ ارشاد ہے:

خَيْرُ مَااُعْطِيَ النَّاسُ خُلُقٌ حَسَنٌ  (۲۹)۔’’لوگوں کو اللہ کي طرف سے جوکچھ عطاہواہے اس ميں سب سے بہتر تحفہ حسن خلق ہے ‘‘۔

حسن ا خلاق  اورميزان حسنات:

حسن ِ اخلاق جو ایک عطیہ ربانی ہے ، اس کو اپنانا نہ صرف دنیا کے اندر بہتری کا ذریعہ اور کاروبار ِ زندگی میں کامیابی کا وسیلہ بھی ہے ،آپ ﷺنے اسے میزان ِ حسنات میں بھاری ہونے کا بھی سبب قرار دیا ہے :

مَامِنْ شَيْئٍ يُّوْضَعُ فِي الْمِيْزَانِ اَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ (۳۰)۔

  ’’ميزان حسنات ميں حسن اخلاق سے بھاري کوئي چيز نہيں‘‘۔

ڈاکٹر خالد علوی مرحوم  رقمطراز ہے  کہ :

" ان احاديث سے واضح ہوتاہے کہ اسلام کی ميزان ميں حسن  اخلاق سے گراں کوئی  چيز نہيں ،معلم اخلاق نے حسن اخلاق کی فضيلت اور اہميت کو مختلف طريقوں اور متنوع پيرايوں ميں بيان کياہے "(۳۱)۔

ايک اچھے اخلاق کے مالک کی يہ صفات عام طور پر بيان کی جاتی ہيں:

’’يہ کہ وہ حيادار ہو،ايذا نہ دينے والاہو،نيک کام کثرت سے کرے، سچی زبان والا،کم گفتار،بہت عمل والا جس کی لغزشيں کم ہوں ،بے فائدہ کام نہ کرے ،تعلقات جوڑنے والا ،وقاروعزت کامالک،صبرکرنے والا،قدردان، راضی رہنے والا،حليم الطبع، وفادار،رذائل سے خود کوبچانے والا،لعنت نہ کرنے والا،گالی گلوچ نہ کرے،چغل خوری نہ کرے، غيبت نہ کرے عجلت پسند نہ ہو، کينہ وبغض نہ رکھے ،بخيل نہ ہو،حسد نہ کرے اور ہشاش بشاش رہنے والا ہو اور اس کی محبت وبغض ،رضاوناراضگی اللہ کے لئے ہو (۳۲)۔

کسی نے يوں کہاہے :

’’خوش خلق وہ آدمی ہے کہ کثير الحياء ،کثير الصلاح ،کم آزار ،کم سخن،کثيرالعمل ،کم لغزش، راست گفتار، نيکوکار ،

صاحب وقار،صابر،شاکر،راضی،حليم،رفيق،پارسا،شفيق اور بشاش ہو،بدگفتار،دشنام طراز،چغل خور،غيبت کنندہ،جلدباز،کينہ پرور،بخيل اورحاسد نہ ہو(33)۔

اسلام نے  اپنے ماننے والوں میں ايک نئے احساس ذمہ داری ،ايک جاندار خوف آخرت اور محبت الہی کا ايک قوی جذبہ عطاء کیا ہے جس نے اخلاقی زندگی کو تعلق باللہ کے ساتھ ايسا وابستہ کياکہ ساری زندگی عبادت بن گئی۔اخلاق ومذہب ايک دوسرے کے معاون اور شريک ہوگئے ۔توحيد اورآخرت کے تصور نے نگاہ کو خوردبينی کی وہ صلاحيت بخشی جو نفس کی تاويلات کے پردوں کوچاک کرتے ہوئے دل کی گہرائيوں ميں اترجاتی ہے ۔قرآن مجيد نے جو اخلاقی نظام ديا،اس کی مکمل تشريح تو يہاں ممکن نہيں البتہ اس کے اخلاقی اصولوں ميں سے چند مثال کے طور پربيان کئے جاتے ہيں ۔

۱۔رضائے الہی کا حصول:

روح اسلام کے مطابق حسن خلق کاتعلق ايمان باللہ سے ہے يہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کی بڑی بڑی جانی مالی قربانی کے بارے ميں فرماتاہے :﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ﴾ (۳۴)۔

’’اور بعض ايسے ہيں جو اپنی جان کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بيچتے ہيں اور اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربان ہے ‘‘۔

مالی قربانی اور انفاق کے بارے ميں فرمايا:

﴿الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ﴾(۳۵)’’جو اپنی دولت اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہيں ‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد فرمايا:

”جواپنامال صفائی اور پاکيزگی حاصل کرتے ہوئے ديتاہے ۔اس پر احسان نہيں ہے جس کواداکرنے کے لئے ديتاہو

بلکہ وہ اللہ کی ذات کی طلب کے لئے ديتاہے“ (۳۶)۔

لہذا ہر وہ سعی اور جہد جو رضائے الہی کے لئے کی جائے ،قابل قبول ہے ۔اور ايمان کی علامت ہے ۔آپﷺ  نے یہ بات اپنی ایک حدیث شریف میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمائی ہے :

مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہ‘ وَسَآءَ تْ سَيِّئَتُہ‘ فَھُوَ مُوْمِنٌ (۳۷)’’جسے نيکی خوش اوربرائی غمزدہ کرے وہ مومن ہے ‘‘۔

ڈاکٹرخالد علوی مرحوم  لکھتے ہيں کہ :’’ان احاديث ميں نيکی پر انشراح خاطر اور مسرت کی لذت کو ايمان کی پہچان قراردياگياہے  بنياد نہيں ‘‘  (۳۸)۔

۲۔توسط واعتدال:

اسلام کے بنيادی اخلاقی ا صولوں ميں سے ايک اہم اصول توسط واعتدال ہے جوايک جامع اصطلاح ہے اورتمام معاملات زندگی ميں يہ مطلوب ہے ۔توسط واعتدال ،افراط وتفريط کے درميان چلنے کانام ہے جيساکہ امام آلوسی رقمطراز ہے :"إن اللہ يأمربالعدل إلیٰ صراط مستقيم، التوسط بين طرفي الإفراط والتفريط وھو رأس الفضائل کلھا "(۳۹) ۔

اسلام دراصل اعتدال کی راہ کانام ہے جب کہ دوسرا نام صراط مستقيم ہے جو دومنزلوں کے درميان سب سے مختصر اور درميانی راہ ہے جوتمام فضائل کی بنيادہے ۔عقائد ميں بھی يہ اعتدال مطلوب ہے کيونکہ پچھلی امتیں اس ميں افراط وتفريط کے شکار رہيں   اس وجہ سے تباہی وبربادی سے دوچار ہوئیں ۔ یہود ونصاریٰ  کے اس مبنی بر افراط وتفریط  کے بارے میں فرمايا:

﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ﴾(۴۰)

’’اور يہودی کہتے ہيں کہ عزيرؑ اللہ کابيٹا ہے اور عيسائی کہتے ہيں کہ مسيحؑ خدا کابيٹاہے ‘‘۔ 

اس بے اعتدالی  کے جواز کے لئے ہر ايک (يہود اور نصاری) نے ابراہيمؑ کی پيروی کادعویٰ کيا تو اللہ نے دونوں کے دعووں کو ردکرتے ہوئے فرمايا :

﴿مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِين﴾(۴۱)۔

’’ کہ ابراہيمؑ  نہ تو يہودی تھے نہ ہی عيسائی بلکہ وہ تو يکسو مسلمان تھے ‘‘۔

اعتدال پر قائم رہنا انبياء کافرض منصبی بتایا گيا  ہے اور دوسرے لوگوں کو قسط واعتدال پر رکھنا  اور چلانا ان کی ذمہ داری بتائی گئی ہے ۔

﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (۴۲)

’’ ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں “

اور آپﷺ نے خصوصيت کے ساتھ اپنی امت کو بے اعتدالی سے منع فرمايا  اور قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کواس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے دشمن سے بھی بے اعتدالی سے پیش نہ آئےاور ان الفاظ کے ساتھ ان کو خبردار کیا گیا ہے :

﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ  ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ  ﴾ (۴۳)  المائدہ:۵:۸

"اے ایمان والو!  تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ ،  راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ  ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ۔ عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ  تعالیٰ سے ڈرتے  رہو، یقین مانو کہ اللہ  تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے “۔

اسی طرح عبادت ميں بھی اسلام اعتدال کوپسند کرتاہے فرمايا:

﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً﴾ (۴۳)

”اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو “۔

زندگی کے تقاضوں کوترک کردينا ،صرف عبادت ميں مشغول رہنا اور رہبانيت کی زندگی بسر کرنااسلام کو مطلوب نہيں اور نہ پسنديدہ طرز عمل ہے اس لئے آپ ﷺنے فرمايا:

’’خدا کی قسم ميں تم سب سے زيادہ اللہ سے ڈرتاہوں اور سب سے بڑھ کر تقویٰ کی پاسداری کرتاہوں لیکن ميں روزہ بھی رکھتاہوں ،نہ بھی رکھتاہوں ،رات ميں نماز بھی پڑھتاہوں اور چھوڑتابھی ہوں اور نکاح   بھی ميری سنت ہے ، جو ميری سنت سے گريز کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہيں ‘‘(۴۴)۔

اسلام کی نظر میں مال قوام ِ زندگی ہےاورزندگی میں آرام وآسائش  پیدا کرنے کے لئے مال کے خرچ  کرنے ميں اعتدال  مطلوب ہے اور بے اعتدالی کوناپسنديدہ  قرار دیاہے، اس لئے مالک ِ کائنات نے  فرمايا:

﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾  (۴۵)

’’ اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن ميں باندھ لے اور نہ اس کو بالکل کھول دے کہ تو بيٹھ جائے ملامت کانشانہ بن کرتھکاہارا ‘‘ ۔بلکہ اسلام ميں اسراف وتبذير کے درميان ميانہ روی اختيار کرنے کاپسنديدہ طرز عمل اختيار کرنے کوکہاگياہے اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں:

’’ ميرے نيک بندے وہ ہيں جو خرچ کرتے ہيں تو نہ فضول خرچی کرتے ہيں اور نہ بخل بلکہ اس کے درميان چلتے ہيں ‘‘(۴۶)۔

معاشی نظام کو مستحکم کرنے کے لئے جتنی اہميت طلب رزق  اور اس ميں اعتدال وقناعت کی ہے اس سے کہيں زيادہ خرچ  کرنے ميں اعتدال کی روش  پر زور  دیا گیا ہے اور مطلوب بھی ہے اورفرمان رسولﷺسے اس کی اہمیت واضح ہے  ، جس میں فرمایا: ’’خرچ ميں اعتدال آدھی معيشت ہے ‘‘(۴۷)۔

اسلامی اخلاقیات میں نہ صرف مذکورہ امور ميں بلکہ چال ڈھال ميں بھی اعتدال پسنديدہ ہے ارشاد ربانی ہے :

﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾ (۴۸)۔ "اور چل بيچ کی چال "۔  

يعنی   چلنے ميں بھی اعتدال کاطرز عمل اختيار کرو جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو پسندیدہ ہے ۔

۳۔ خوف ورجاء:

اسلام کے اصول ِ اخلاق ميں سے ايک يہ ہے کہ انسان اميد وخوف کے بيچ وبيچ زندگی بسرکرتارہے ۔اور يہ مومنانہ زندگی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی ٰنے  فرمايا ہے :

﴿وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ﴾ (۴۹) ۔"وہ ہمیں اميد اور خوف سے پکارتے ہيں اور ہمارے آگے عاجزی کياکرتے تھے "۔جب کہ دوسری جگہ فرمايا  :

﴿ يَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾ (۵۰)۔"وہ اپنے پروردگار کوخوف اور اميدسے پکارتے ہيں" ۔

مومن کے دل ميں يہ دونوں کيفيتيں ہونی چاہیئے؛ گناہوں اور تقصيروں کے موآخذہ اور بازپرس کاڈر بھی ہو اور اللہ کی رحمت کی اميد کاسہارابھی۔اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنااور اس کی رحمت کااميدوار رہنا يہی اسلام کی تعليم ہے ۔ يہ ڈراس کوغافل ، بيباک اور گستاخ نہيں ہونے ديتا اور يہ اميد اس کومايوس ،غمزدہ اور شکستہ خاطر نہيں ہونے ديتی ، اعتدال کا يہ رويہ حسن خلق کی بنيادہے (۵۱)۔

۴۔ عفووانتقام:

جہاں معاشرتی زندگی ميں اجتماعی سرگرمياں ناگزير ہيں وہاں ناچاقی ،اختلاف اور زيادتی کے بھی امکانات موجودہيں ليکن کہيں اگر عفوودرگزر سے کام لينے کے لئے کہاگياہے اور اس پر اجر کاوعدہ فرمايا گیا ہے تو دوسرے  کئی موقعوں پر انتقام لينا مناسب اور درست اقدام سمجھاگياہے ،مثلاًاوّل الذکر کے بارے ميں فرمايا:﴿فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہ  عَلَي اللّہِ اِنَّہ  لَايُحِبُّ الظَّالِمِيْنَ ﴾ (۵۲)

         "جس نے معاف کرديا اور نيکی کی تو اس کااجر اللہ کے ذمہ ہے وہ ظالموں سے محبت نہيں کرتا"۔

یہ قاعدہ ہر وقت اور ہر جگہ مناصب نہیں ہوتا وقت ،جگہ اور حالات کے مطابق  بعض اوقات انتقام ليناہی بہتر اور موزون ہوسکتا ہے ۔اس دوسرے اقدام کے بارے میں  فرمايا:

﴿یآاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلیٰ ﴾ (۵۳)۔"اے ايمان والو!تم پر مقتولوں ميں برابر ی کے بدلے کاحکم ہواہے"۔

۵۔عدل واحسان:

جب اجتماعی زندگی ميں عدل واحسان کے رجحانات موجود رہيں گے تو معاشرے کے اخلاقی مزاج کو تقويت ديتے رہيں گےاور معاشرے میں خیر وبھلائی عام ہوگی  جو اسلام میں مطلوب ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿اِنَّ اللّٰہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ﴾ (۵۴)۔"بلاشبہ اللہ تعالیٰ عدل کاحکم ديتاہے "۔

جہاں اللہ تعالیٰ نے بے لاگ عدل قائم کرنے کے لئے اصول وضع کئے وہاں احسان ودرگزر کرنے کااختياربھی دياہے  اگر ايک طرف فرمایا کہ ﴿==جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا===﴾) بدی کابدلہ بدی ہے ( تو دوسری طرف يہ بھی فرمايا کہ ﴿وَالْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ (۵۵)

" وہ غصہ کو پينے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہيں اور اللہ نيکو کاروں کو پسند فرماتاہے "۔

۶۔ہمدردی وخيرخواہی:

ہمدردی وخیر خواہی انسانی فطرت  کی  طرف دعوت ہے اورخدا کے لئے ہمدردی وخيرخواہی تمام اعمال کامحرک اور اسلام کے بہترين اصولِ اخلاق ميں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے ،ارشاد نبوی ہے :

اَلْخَلُقُ عَيَالُ اللّٰہِ  فأحب الخلق إلى الله من أحسن إلى عياله ۔

"مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے  اور پس اللہ تعالیٰ کو وہ شخص محبوب ہے جو اس کے مخلوق کے ساتھ بھلائی کرتا ہے  "۔

جبکہ دوسری  جگہ اس سے بھی واضح انداز میں یوں فرمایا ہے:

خَيْرُالنَّاسِ مَنْ يَّنْفَعُ النَّاسَ (۵۶) ۔" لوگوں میں بہتر وہ  ہے جو لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے " ۔

ہمدردی اور خيرخواہی کاجذبہ بذات خود بہت بڑاکارنامہ ہے اس ميں ہر قسم کی بھلائی شامل ہے اور يہ انسان کے لئے صدقے کی حيثيت رکھتاہے،جیسا کہ  ارشاد نبوی ہے :

کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ  (۵۷) "  ہراچھی بات صدقہ ہے  "۔

چند اخلاقی اور پسنديدہ صفات:

اسلام میں حسن اخلاق کو ہديہ ربانی  قرار دیاگیا ہے ،اپنے ماننے والوں کوخيروبھلائی کا وریہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ ان اخلاقی اور پسندیدہ  صفات ميں سےچند ايک  کاتذکرہ ضروری ہے، جس سے اسلام کے اہتمامِ اخلاق کا اندازا ہو جائے۔

صبر:

جوانفرادی اور اجتماعی نيکياں انسان کو مطلوب ہيں ان ميں ايک صبر ہے جس کے بارے ميں قرآن مجيد  میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے :  ﴿وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃِ﴾  " نماز اور صبر سے رب کی مدد مانگو "۔

﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا ﴾ (۵۸)۔"اپنے رب کے فيصلے کاثابت قدمی سے انتظار کروکيونکہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہيں "۔

صبر پيغمبرانہ شان ہے اور آپ  ﷺ کی خصوصی صفات ميں سے ہے فرمايا: ﴿فَاصْبِرْ کَمَاصَبَرَ اُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ (۵۹)"اے نبي آپ بھی اس طرح ثابت قدم رہيں جس طرح پختہ ارادہ والے پيغمبروں نے ثابت قدمی دکھائی "۔پيغمبرانہ شان اور صبرکی سب سے بڑی مثال خود آپ  ﷺکاسفر طائف ہے جس ميں اوباش لفنگوں نے آپ کوپريشان کيا اور تنگ ہوکر اور لہولہان ہوکر ربيعہ کے بيٹوں کے انگور کی بيل کے سائے ميں بيٹھ کر يہ دعاکی :

اَللّھُمَّ اَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِيْ وَقِلَّۃَ حِيْلَتِيْ ،ھَوَانِيْ عَلَي النَّاسِ يَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ  اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ وَاَنْتَ رَبِّيْ اِلہٰ مَنْ تَکِلُنِيْ اِليٰ بَعِيْدٍ يَّتَجَھَّمُنِيْ۔

’’اے اللہ ! ميں تيرے ہی حضور اپنی بے بسي وبے چارگی اور لوگوں کی نگاہ ميں اپنی بے قدری کاشکوہ کرتاہوں اے ارحم الراحمين توہی سارے کمزوروں کاسہاراہے اور ميرابھی رب تو ہی ہے ،مجھے کس کے حوالے کررہاہے ۔کياکسی بيگانے کے جو مجھ سے درشتی سے پيش آئے ۔اگر تو مجھ سے ناراض نہيں تو مجھے کسی مصيبت کی پرواہ نہيں ‘‘۔ يہاں يہ بتانا مقصود ہے کہ صبر انبياء اور اصلاح پسندوں کا ايک لازمی وصف ہے آپ ﷺنے فرمايا :

" مومن کامعاملہ سراسر خير پر مبنی ہے اور يہ صورتحال مومن کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہيں اگر اسے خوشی اور مسرت کاموقع ملے تو شکر کرتاہے اور يہ اس کے لئے بہتر (رويہ) ہے اور اگر اسے رنج اور صدمہ پہنچے تو صبر کرتاہے اور يہ بھی اس کے حق ميں بہتر ہے" (۶۱)۔

مومن کے لئے صبر سے بہتر کوئی بھلائی نہيں ہے اور یہ بات آپ ﷺنے ایک اور حدیث میں یوں فرمائی ہے:

" جو شخص صبر اختيار کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے صبر کی قوت عطاء فرماتاہے اور کوئی شخص بھی صبر سے زيادہ بہتر اور اوسع ترين بھلائی سے نہيں نوازاگيا " (۶۲)۔

سچائی اور راست بازی:

سچائی اور راست بازی ظاہر وباطن کی پوری يکسانيت کانام ہے جوقول وفعل ميں مطلوب اور اسے مومن اور منافق کے درميان وجہ امتياز قرار دياگياہے (۶۳)۔صدق وسچائی اور راست بازی  ایک ربانی صفت ہے، ارشاد ِ باری ہے : ﴿وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِيْثًا﴾ (۶۴) "اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بات کاسچاکون ہے ؟"۔

چونکہ اللہ سچاہے اور اس کاپيغام بھی سچاہے اور اس کے  جو حامليں ہيں وہ بھی لازمی طورپرسچے ہوتے ہيں لہذا صداقت وراست بازی  انبياء کی صفتِ ا ولين  قرار دیا گیا ہے ۔

يہی وجہ ہے کہ ابراہيم ؑکو اور ادريسؑ کو ﴿ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ﴾ (۶۵)اور يوسفؑ کوکہا ﴿ اَيُّھَاالصِّدِّيْقُ ﴾ (۶۶)  "اے بڑے سچے "کے القاب  سے یاد کیا گیا ہے اورمومنوں کوبھی اس وصف کے حامل ہونے کی تلقين کی  گئی ہے ،ارشاد باری ہے :﴿يَآاَيُّھَاالَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ ﴾ (۶۷) ”اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور راست بازوں کے ساتھ رہو“۔        اور آپﷺنے صدق و سچائی کو باعث ِ نجات قرار دیا ہے  :

اِنَّ الصِّدْقَ يَھْدِيْ اِلَي الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ يَھْدِيْ اِلَي الْجَنَّۃِ (۶۸)

"بے شک سچ نيکی کی طرف راہنمائی کرتاہے اور نيکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ايک شخص سچ بولتاہی رہتاہے

  يہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں صديق لکھاجاتاہے"۔

اس سے يہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ صدق وراست بازی اسلام ميں کس قدر مطلوب ہے بلکہ مومن  اسے قرار  دیاہے جوسچا اور راست باز ہو۔

عدل وانصاف:

اسلام نے جن معاشرتی امور پر سب سے زيادہ زور ديا ہے ان ميں ايک اخلاقی وصف اجتماعی عدل وانصاف ہے فرمايا:

﴿اِنَّ اللّٰہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ﴾ (۶۹)”بے شک اللہ عدل واحسان کاحکم ديتاہے “۔

سب سے بڑا عادل اللہ تعالیٰ ہے کہ اس نے کائنات کو عدل وتوازن کے ساتھ قائم کياہے فرمايا:

﴿وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ (۷۰) ”آپ کے رب کی باتيں سچ اور عدل ميں پوری ہيں “ ۔

اور پھر انبياء کو اس وصف کے ساتھ اس کی تکميل کے لئے مبعوث فرمايا:

﴿  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾ (۷۱)

"ہم نے اپنے رسول نشانيوں کے ساتھ بھيجے اور ان کے ہمراہ کتاب اور ميزان نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درميان

عدل کرسکيں "۔

انصاف کے تقاضے پوری کرنے کے لئے اہل ايمان کو حکم  دیا گیا ہے کہ خواہ معاملہ کسی دشمن کےساتھ کیوں نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:﴿ يآاَيُّھَا الَّذِيْنَ آمَنُوْاکُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْط وَلَا يَجْرِمَنَّکُمْ  شَنَاآنُ  قَوْمٍ عَلٰي اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا  ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰي وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِيْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْن ﴾ (۷۲)

’’اے ايمان والو ! اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دينے کے لئے کھڑے ہوجاياکرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے  کہ عدل چھوڑ دو ،عدل کياکرو کہ يہ تقويٰ کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو  کچھ شک نہيں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے‘‘ ۔

يہاں تک کہ اسلام ميں باپ کابدلہ بيٹے سے لينے کی بھی گنجائش نہيں ۔آپ نے فرمايا:

اَلَالَايُحْنيٰ وَالِدٌ عَليٰ وَلَدِہِ  (۷۳)۔ "خبردار باپ کابدلہ بيٹے سے نہيں لياجاسکتا"۔

عدل وانصاف کی اہميت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عادل قاضی اور انصاف کرنے والے کے لئےآپ ﷺ نے ان کو عظيم الشان خوشخبری سنائی ہے فرمايا:

اِنَّ الْمُقْسِطِيْنَ عَليٰ مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ عَليٰ يَمِيْنَيْنِ الرَّحْمٰنُ الَّذِيْنَ يَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِھِمْ وَاَھْلِيْھِمْ وَمَاوَلُّوْا (۷۴)۔

"عدل وانصاف کرنے والے لوگ اللہ کے نزديک دائيں جانب نور کے منبروں (مسندوں) پر بيٹھے ہوئے ہونگے (يہ ان کااعزازہے )  کہ وہ قضاء کے معاملات اور لوگوں کے درميان انصاف کياکرتے تھے "۔

حياء:

آپﷺ ايک ايسے معاشرے ميں پيدا ہوئے جہاں لوگ حياء سے عاری تھےرفع حاجت کے لئے ميدان ميں آمنے سامنے بيٹھ کر باتيں کياکرتے تھے لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمايا کہ ايسا کرنے سے اللہ ناراض ہوتاہے(۷۵) ۔صرف يہ نہيں بلکہ آپ  نے حياء کو ايک اخلاقی وصف کے طورپر عام کيا۔آپ  ﷺنے فرمايا:

اَلْحَيَآءُ لَايَاْتِيْ اِلاَّبِخَيْرٍ  (۷۶)۔ "حياء سے صرف بھلائی پہنچتی ہےـ۔

قرآن وسنت نے فواحش ومنکرات سے جس طرح روکاہے اور حضور ﷺنے حياء کی اہميت پر جس طرح زور دياہے اس سے حياء اسلام کاايک مخصوص اخلاقی وصف بن گياہے آپ ﷺنے فرمايا :

لِکُلِّ دِيْنٍ خُلُقٌ وَخُلُقُ الْاِسْلَامِ الْحَيَآءُ (۷۷)۔"ہردين کاايک خاص خلق ہوتاہے اور اسلام کاخلق حياء ہے "۔الغرض تمام ايسی صفات جوانسان کو زيادہ فعال ،زيادہ مفيد اور زيادہ کارآمد ،خير کاپيامبر بناتے ہيں ،اسلام ان کو اپنانے کی تلقين کرتاہے ۔

اخلاق کی يہ چند مثاليں جوبطور نمونہ پيش کئے ہيں اتنی ہی اہميت اسلام نے دوسری صفات مثلاً مساوات ، اخوت ، عفوو درگزر ، رواداری، احسان،تقویٰ، ايفائے عہد ،عجزوانکساری،صلح جوئی ،پاکدامنی،کوشش ومحنت، سخاوت وکفايت شعاری ،صفائی وپاکيزگی ،اخلاص نيت، توکل علیٰ اللہ ، شکر گزاری ، صلہ رحمی وغيرہ کوبھی دی ہے ۔ان چند مثالوں سے اسلام کامجموعی مزاج سمجھنے ميں يہ مقالہ مددگار ثابت ہوگا(۷۸)۔

حواشی وحوالہ جات

1۔الزبيدی ،محمد مرتضی الحسينی:تاج العروس من جواہر القاموس،دارالفکر :بيروت۔۱۹۹۴ء۔۱۳/۱۲۴   ۔

2۔ الازدی ،ابن دريد،محمد بن حسن، جمہرۃ اللغۃ ، دارصادر :بيروت لبنان۔ ۱/۷۳۴  ۔

3۔ دہلوی،سيد احمد(مولانا):فرہنگ آصفيہ،اردو سائنس بورڈ:اپرمال روڈلاہور۔ ۱، ۲/۱۲۷، ۱۲۸۔

4۔ سرہندی،وارث(ايم اے) ، علمی اردو لغت (جامع)، علمی کتب خانہ: لاہور۔۱۹۸۳ء۔ص،  ۸۷  ۔

5۔اردوانگلش ڈکشنری، ص،  ۵۱ ۔

6۔الغزالی ،محمدبن محمد،احياء العلوم،مطبعہ مصطفی۔ البابی الحلبی،مصر۱۹۳۹ء۔ ۳/۵۲ ۔

7۔ابن منظور ،محمد بن مکرم(الافريقی)،لسان العرب، دارصادربيروت ، لبنان۔۱۰/۸۶  ۔

8۔علوی،خالد(ڈاکٹر)،خلق عظيم،دعوۃ اکيڈمی ،بين الاقوامی اسلامی يونيورسٹی اسلام آباد ،۲۰۰۵ء ۔ص،  ۱۴ ۔

9۔الجرجانی،علی بن محمد بن علی،کتاب التعريفات،دارالکتاب ا لعربی:بيروت، لبنان۔۲۰۰۲ء۔ص،  ۸۶، ۸۷ ۔

10۔سورۃ القلم: ۴۔

11۔القشیری، مسلم بن الحجاج،صحيح مسلم  ،دارالحديث:قاہرہ،مصر،۱۹۹۱ء ۔ حدیث نمبر، ۱۳۹ ۔

12۔سورۃآل عمران:۱۵۹۔

13۔ترمذی،محمد بن عيسیٰ،جامع ترمذی،دارالسلام للنشر والتوزيع:الرياض،۱۹۹۹ء۔حدیث نمبر، ۲۰۰۵ ۔

14۔محمداشرف مياں ،اسلامی تہذيب واخلاق،فروغ علم اکيڈمی،۱۱۷۹ماڈل ٹاون ہمک اسلام آباد،۲۰۰۸ء ۔

15۔مالک بن انس ،موطاء  ،جمعیۃ احياء التراث الاسلامی ،۱۹۹۸ء۔حدیث، ۸،  ۲ /۳۲۴  ۔

16۔علی المتقی الھندی، کنزالعمال  ،دارالمعرفہ مصر،حيدرآباد دکن۔۳/۱۶ ۔

17۔بيہقی،احمدبن حسين،الامام ،شعب الايمان ،دارالکتب العلمیۃ۔ بيروت لبنان ،۱۹۹۰ء۔ ۶/۲۳۱ ۔

18۔سورۃآل عمران :۱۵۹۔

19۔سورۃفصلت:۳۴ ۔  

20۔سورۃآل عمران:۱۳۴۔

21۔سورۃالفرقان:۶۳۔

22۔سورۃالشوریٰ:۳۷۔

23۔ابوداؤد،سليمان بن اشعث :السنن ، دارالسلام:رياض۔۱۹۹۹ء۔ حدیث نمبر ، ۴۷۹۸ ۔

24۔بیہقی، شعب الايمان: ۶/۲۳۷۔

25۔بخاری،محمد بن اسماعيل( الامام):صحيح بخاری، دارالفکر:بيروت، لبنان۔۲۰۰۰ء ۔ حدیث نمبر ۳۷۵۹ ۔

26۔ترمذی،حدیث نمبر ۲۰۱۸۔بيہقی، شعب الايمان:۶/۲۳۴۔

27۔ابوداؤد ،حدیث نمبر ۱۹۸۵۔بيہقی،  شعب الايمان :۶/۲۳۲۔

28۔ایضاً:۶/۲۳۳۔ شيخ ولی الدين ،خطيب تبريزی، مشکوۃالمصابیح (ترجمہ  :مولانامحمد صادق خليل( ،مکتبہ قدوسيہ لاہور،۲۰۰۱ء۔۴/۱۶۰  ۔

29۔ابوداؤد،حدیث نمبر۴۷۹۹،ترمذی،حدیث نمبر۲۰۰۲،شعب الايمان:۶/۲۳۹۔

30۔خلق عظيم ،ص،۲۱۔

31۔منہاج المسلم (مترجم:محمد رفيق اثری( ،دارالسلام لاہور،۱۹۹۷ء ۔ ۱/۲۴۱ ۔

32۔تنوير بخاری،اسلامی اخلاق وتصوف، ايور نيو بک پيلس،اردوبازار لاہور،ص، ۲۷ ۔

33۔سورۃالبقرۃ:۲۰۷۔

34۔سورۃالبقرہ:۲۶۵۔

35۔سورۃالليل:۱۸۔۲۰۔

36۔  الھندی، علی بن حسام الدين:کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال ،موسسۃالرسالۃ:بيروت۔۱۹۸۱ء ۔ ۱/۳۷ ۔

37۔خلق عظيم،ص،  ۳۶ ۔

38۔آلوسی،سيد محمدشہاب الدين، روح المعانی  ،ادارۃ الطباعۃ المصريۃ  ، ۱۸/۲۱۷ ۔

39۔سورۃالتوبہ:۳۰۔

40۔سورۃآل عمران:۲۷۔

41۔سورۃالحديد:۲۶۔ 

42۔سورۃبنی اسرائيل:۱۱۰۔

43۔بخاری ،کتاب النکاح ،حدیث نمبر۵۰۶۳۔   

44 ۔سورۃبنی اسرائيل:۲۹۔

45۔سورۃالفرقان:۶۷۔

46۔ہيثمی،علی بن ابی بکر،نورالدين،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،دارالکتب العلميہ۔ص، ۱۶۰ ۔بيہقی، ابوبکر احمدبن الحسين بن علی،الامام، شعب الايمان،باب الثانی والاربعون،مکتبہ دارالباز ،عباس احمد الباز،مکۃ المکرمۃ،۱۹۹۰ء، قال المحقق (محمد بن سعيد زعلول )فی اسنادہ محيس وحفص مجھولان ،حدیث، ۶۵۶۸،ص،  ۵/۲۵۵ ۔

47۔ سورۃلقمان:۱۹۔ 

48۔ سورۃالانبياء:۹۰-

49۔سورۃالسجدہ:۱۶۔ 

  50۔ خلق عظيم،ص، ۴۳۔  

51۔سورۃالشوریٰ:۴۰۔ 

52۔سورۃالبقرہ:۱۷۸۔

53۔سورۃالنحل:۹۰۔

54۔ديکھئے: الشوریٰ:۴۰،آل عمران:۱۳۴۔

55۔ديکھئے:مشکوٰۃ حدیث:۴۹۹۸،بيہقی،شعب الايمان  :۶/۴۴، دارلکتب العلميۃ بيروت لبنان۱۹۹۰ء ۔

56۔بخاری، کتاب الادب،حدیث نمبر۶۰۲۱۔

57۔سورۃالبقرۃ:۴۵،الشوریٰ:۴۸۔

58۔سورۃالاحقاف:۳۵۔

59۔ابن ہشام،عبد الملک:السيرۃ النبويۃ  ،مطبعۃ البابی الحلبی واولادہ:مصر۔۱۹۳۶ء۔۲/۶۰،۶۱ ۔

60۔صحیح مسلم ،حدیث نمبر۲۹۹۹۔

61۔صحیح بخاری،کتاب الرقاق،حدیث نمبر۱۴۹۶،۶۴۷۰ ،صحیح مسلم،کتاب الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۰۵۳۔

62۔ پرفيسر خورشيد احمد ،اسلامی نظريہ حيات،ص، ۳۹۵۔

63۔ سورۃالنساء:۸۷۔

64۔ سورۃمريم:۴۱۔

65 ۔سورۃيوسف :۴۶۔

66۔ سورۃالتوبہ:۱۱۹۔

67۔ صحیح مسلم ،باب  البر والصلۃ والادب،  حدیث نمبر۲۶۰۷۔

68۔سورۃالنحل:۹۰۔

69۔ سورۃانعام:۱۱۵۔

70۔ سورۃالحديد:۲۶۔

71۔سورۃالمائدہ:۸۔

72۔ دارقطنی،علی بن عمر(الامام)، سنن الدار قطنی ،مع تعليق شمس الحق عظيم آبادی۔نشر السنۃ :ملتان۔۱۴۲۰ھ ۔ص،  ۳/۴۵۔

73۔النسائی،احمد بن شعيب:السنن الکبریٰ، تحقيق:عبدالغفار البذاری، دارالکتب العلميہ:بيروت۔۱۹۹۱ء۔

74۔ ابوداؤد ،حدیث نمبر، ۱۵۔

75۔ بخاری ،حدیث نمبر۶۱۱۷۔

76 ۔مالک ابن انس(الامام):موطاء،جمعيۃ احياء التراث الاسلامی:الرياض۔۱۹۹۸ء  ،حدیث۹،  ۲/۳۲۵ ۔

   * مشکوٰۃالمصابیح: ۴/۱۶۳۔

77۔ تفصيلات کے لئے ديکھئے : محمدجميل زينو، شمائل محمدی ، امام ترمذی ، شمائل ترمذی، الفلاح پبلشرز 2008ء ۔

    

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...