Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اسلام میں عدل کی اہمیت |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_526

Pages

39-51

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/106/96

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/106

Subjects

Justice Qur’an Sunnah Islamic Jurisprudence

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عدل کی لغوی معنی:

1۔         فاالعدل ھو التقسیط علیٰ سواء  1

عدل سے مراد مساوات کے طریقہ پر انصاف کرنا۔

2۔         قال ابن العربی: العدل الاستقامت  2

           ابن العربی کے بقول عدل کے معنی استقامت کے ہیں۔

3۔         العدل هو الزکات قال الله تعالیٰ واشهدو ذوی عدل منکم 3

عدل کی معنی پاکیزگی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے میں سے پاکیزگی والے دو آدمیوں کو گواہ بناؤ۔

4۔         العدل الفدية قال الله تعالیٰ لایقبل من عدل  4

           عدل کے معنی فدیہ اور صدقہ کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان سے صدقہ قبول نہ کرو۔

5۔         العدل هو الانصاف قال الله تعالیٰ و اذا حکمتم بین الناس ان تحکمو بالعدل 5

           عدل کے معنی انصاف ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں تو ان کے

           درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ دیں۔

6۔         العدل هو الصدق قال الله تعالیٰ و اذا قلتم فا عدلوا  6

           عدل کے معنی سچ بولنے کے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب بات کرو سچ بولو۔

7۔         العدل السوية قال الله تعالیٰ ولن تستطیعوا ان تعدلو بین النساء ولو حرصتم  7

عدم بمعنی برابر کرنے کے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم اس بات کی کوشش بھی کرو تب بھی اپنی عورتوں کے درمیان محبت و پیار میں برابری اور مساوات قائم نہیں رکھ سکتے۔

اصطلاحی تعریف:

           العدل هو الامر المتوسط بین طرفی الافراط و التفریط 8           

عدل وہ درمیانی چیز

ہے جو افراط اور تفریط سے پاک ہو۔

           یعنی نہ کم ہو اور نہ زیادتی ہو اور جو راہ عدل افراط و تفریخ سے پاک ہو اُسے قرآن حکیم کی اصطلاح میں صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ یہ راہ راست وہ ہے جس پر ہمیں چلنے کی بارہا کلام اللہ میں تاکید کی گئی ہے۔ ہم دعا میں بارگاہ رب العزت سے اس صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ”اسلام اور عدل لازم و ملوزم“ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال کی راہ کا تعین کرتا ہے اور انسان کو معتدل راہ اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ ہر قسم کی ناانصافی سے منع کرتا ہے خواہ وہ ناانصافی خالق کے ساتھ ہو یا مخلوق کے حیوان کے ساتھ ہو یا انسان کے بچے کے ساتھ ہو یا بڑی کے ساتھ، جو ان کے ساتھ ہو یا بوڑھے کے، عورت کے ساتھ یا مرد غریب کے ساتھ یا امیر کے ساتھ اور عدل بھی اسی اعتدال کا نام ہے جس معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ سلوک یکساں روا رکھا جائے اور ہر کام جو انصاف کے تقاضوں کے ساتھ کیا جائے۔ جس کا ہمارے اسلام مقتضی سے اس طرح اسلام اور عدل لازم و ملزوم قرار پائے۔

           ارشاد باری تعالیٰ ہے:

           و ضرب الله مثلا رجلین احدهما ایکم لا یقدر علی شئی و هو کل مولا اینما یوجه لایات بخیر هل یستوی هو ومن یامر بالعدل و هو علی صراط مستقیم 9

           اللہ تعالیٰ دو ایسے افراد کی مثال دیتا ہے جن میں سے ایک گنگ ہے جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہی ہے کیونکہ جہاں جاتا ہے کوئی اچھی خبر نہیں لاتا۔ کیا وہ برابر ہوسکتا ہے اس شخص کے جو عدل پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو انصاف کا حکم دیتا ہے یہ ہی شخص جادہ مستقیم پر گامزن ہے اور جو عدل کی راہ ہے وہ ہی حق ہے۔

           اسلام کے انہی سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے سے انسان کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب و کامرانی مل جاتی ہے اور انسان بلندیوں کی اوج تریا تک پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بعد حدود و قیود کی پابندیاں کسی حد تک ختم ہو جاتی ہیں اور زمان و مکان کی حلقہ بندیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے انسانوں کی کامیابی کا اس انداز سے ذکر فرماتا ہے:

ان الذین قالو ربنا الله ثم استقاموا تتنزل علیهم الملائکة الاتخافوا ولاتحزنوا وابشرو بالجنة التی کنتم تو عدون نحن اولیاء کم فی الحیوٰۃ الدنیا و فی الآخرۃ ولکم فیها ما تشتهی انفسکم ولکم فیها ماتدعون نزلا من غفور الرحیم10

           جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا پروردگار تو تو اللہ تعالیٰ ہے ہے پر صراط مستقیم (اسلام) پر قائم رہے تو ان پر ہمارے فرشتے نازل ہوتے ہیں او رکہتے ہیں کہ قسم کا خوف نہ کھاؤ اور نہ ہی غمگین ہوں، جس جنت کا وعدہ کیا گیا تھا اس کی تمہیں بشارت ہو (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ہم تمہارے دنیا و آخرت میں حامی و ناصر ہیں، اور اب تمہاری ہر خواہش کو پوریا کیا جائے گا اور جو تم چاہو گے وہ تمہیں باآسانی میسر ہوگا بلکہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر رزق کی بارش ہوتی رہے گی۔

           گویا جب انسان اللہ پر ایمان لانے کے بعد اسلام کے ہمہ گیر نظام عدل کو اپنا لیتا ہے اور اس کے جادہ مستقیم پر گامزن ہوجاتا ہے تو اُسے نہ صرف قسم کے خوف و خطر سے پاک باغ و بہار میسر آئیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس پر اتنا مہربان ہوجائے گا کعہ جو وہ چاہے گا اسے فی الفور فراہم کردیا جائے گا۔ مزید یہ کہ رزاق تمام سربستہ خدائی خزانوں کے دروازے اس کے سامنے وا ہو جائیں گے۔ یہ ایک تمام خیالی دنیا کا مفروضہ نہیں کہ جس کا حقائق کی دنیا میں وجود نہ ہو بلکہ آخرت کے علاوہ اسلام کے قرون اولیٰ میں اس دنیا کے اندر اس کی شاندار مثالیں آفتاب تاریخ پر جگمگ جگمگ کر رہی ہیں اور تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ جب زندگی اس کامل ترین دستور سانچوں میں ڈھلی تو وہ ایک مثالی اور اقوام عالم کیلئے قابل تقلید نمونہ حیات بن گئی۔

اسلام میں عدل کی اہمیت

           عدل عالمی صداقتوں (Universal Trust) میں سے ایک ہے۔ ہر مذہب اور قانون میں عدل گستری کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں مگر ان کے ماننے والوں اور پیروکاروں نے اس کی تشریح و توضیح (Interpretations) میں بڑا فرق پیدا کردیا ہے۔ حکمرانوں یا بزعم خویش اونچی ذات کے لوگوں نے عدل و انصاف کے مطابق واجب العمل سزا و عتاب سے اپنے آپ کو مستثنیٰ (Exempted) قرار دی جس سے عدل و انصاف کے وہ اثرات رونما نہ ہو پائے جن کی بنیاد پر معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو بعینہ عدل کا مذہب ہے روز اول سے نہ صرف عدل کی اہمیت و ضرورت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا اور زندگی کے تمام معاملات میں عدل کی تفصیلات و جزیات سے آگاہ کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کیلئے بلا امتیاز واجب العمل قرار دیا۔

عدل کی اہمیت قرآن حکیم کی روشنی میں

           کتاب الٰہی اسلام کی آفاقی تعلیمات کا مآخذ اول ہے چنانچہ عدل کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اللہ وحدہ لا شریک فرماتا ہے:

           واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل11

           اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ کرو۔

           عام لوگوں کے علاوہ اس حکم کے خصوصی مخاطب امراء اور حکام ہیں۔ اور اگر نبی اکرمﷺ کا یہ ارشاد پیش نظر ہو تو پھر ہر شخص اس آیت کا خصوصی خطاب ہے۔ ارشاد ہے:

کلکم راع و هو مسؤل عن رعية لا مام راہ وهو مسؤل عن رعية الرجل راع علی اهله وهو مسؤل عنهم المراۃ رعية بیت زوجها وهی زوجها وهی مسؤلة  عنها 12

           تم میں سے ہر شخص اپنے مرتبہ کے لحاظ سے پاسبان ہے اور جوابدہ ہے امام اور خلیفہ بھی راعی ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائیگا اپنے گھر والوں کا رئیس ہے اور بیوی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔ ہر ایک سے اس کی حیثیت کے مطابق (بروز قیامت) سوال کیا جائے گا۔

           اگر آپ کو اقتدار و حکومت حاصل ہے تو غریب اور امیر، قوی و ضعیف میں مساوات قائم کرنا، عدل کے ترازو کو تمام مخالف رجحانات کے باوجود برابر رکھنا، حکومت کے عہدوں پر تقرر کیلئے کنبہ پروری اور دوست نوازی کے بجائے صرف اہلیت و قابلیت کو معیار قرار دینا بھی اس حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ اسی طرح ایک مقام پر ارشاد باری ہے:

یٰاایها الذین اٰمنو کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ولو علیٰ انفسکم اولوالدین والاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فالله اولیٰ فلا تتبعوا الهویٰ ان تعدلو وان تلوا اوتعرضوا فان الله کان بما تعلمون خبیراَ13

           اے ایمان والو ہوجاؤ مضبوطی سے قائم رہنے والے نصاب پر گواہی دینے والے محض اللہ کیلئے، چاہے گواہی دینا پڑے تمہیں اپنے نفسوں کے خلاف یا اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف خواہ دولت مند یا ہو غریب پس اللہ زیادہ خیر خواہ ہے دونوں کا۔ تم نہ پیروی کرو خواہش نفس کی انصاف کرنے میں، اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو بیشک اللہ تعالیؒ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

           قوام مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے مراد کثرت عددی نہیں بلک ثبات اور استحکام فی الشبہادۃ کی تاکید مقصود ہے یعنی جب گواہی دو تو خواب مستحکم ہو کر دو کسی کی جاہ و حشمت، الفت و محبت، خوف خطر اور قوت تمہارے پائے ثبات میں لغزش کا سبب نھ بنے کہ مبادا تم عدل و انصاف سے انحراف کے مرتکب ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ظالم قرار پاؤ۔14  

ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 15

ترجمہ :اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ کیلئے عدل و انصاف کے ساتھ گواہی دینے پر قائم رہو اور کسی قوم کی

                                                                  دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم جادہ انصاف سے ہٹ جاؤ (بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں)

انصاف سے کام لو، کیونکہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔

           مذکورہ بالا آیت کریمہ اسلام کے قانون عدل کی اہمیت کو واشگاف الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔ ان آیات طیبات میں اللہ تعالیٰ نے تمام مکلفین اسلام کو یہ حکم دیا ہے کہ تم صرف اللہ کیلئے انصاف پر قائم رہو اور اللہ ہی کیلئے گواہی دو تمہارا ہر عمل اللہ کیلئے ہو حتیٰ کہ ہر حرکت اور ہر سکون، ہر قول اور ہر فعل صرف اور صرف اللہ کیلئے کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ انصاف میں تمہارے اقرباء، احباب، والدین رکاوٹ بنیں۔ ایسا ہوا تو درحقیقت یہ ان سب پر ظلم ڈھائے جانے کے مترادف ہے۔ راہ عدل میں کبھی مظالم اور اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور کئی متوقع فوائد کو ہاتھ سے کھو کر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ بظاہر یہ راستہ بہت کٹھن ہے کیونکہ زندگی اپنی باغ بن میں کافی کشش رکھتی ہے۔ انسان اس کیلئے کیا کیا پاپڑ بیل سکتا، کیسے کیسے جتن کرتا، کن کن امتحانوں سے دوچار ہوتا کیسے کیسے فیصلوں پر کمندیں ڈالنے کی کوشش کرتا اور کن کن سنگلاخ چٹانوں سے جوئے شیر بہا لانے کے سبیلیں تراشتا ہے، برآں اسکے سر پر ایک دھن سی سوار رہتی ہے کوئی مجھ سے آگے نہ نکل جائے کوئی مجھ پر بازی نہ لے جائے، کسی کا قد مجھ سے بالا نہ ہوجائے، کوئی مجھ سے زیادہ نامور نہ ہونے پائے، اونچی مسند اور بلند منصب پانے کیلئے ہم کیسی کیسی معرکہ آرائیاں کرتے، کیسے کیسے ارفع نظریات کی بولی لگاتے، کیسے کیسے اصولوں کو منڈی خام مال بناتے، کیسے کیسے اخلاق اقتدار کو کوڑیوں کے مول لٹاتے اور کیسے کیسے سنگ آستاں کو اپنی سجدہ گاہ بناتے ہیں۔ اختیار اور اقتدار پر قابض رہنے کے لیے ذہن و فکر کی توانائیوں کو مہمیز کرتے، کیسے کیسے جادوگروں کو جاگیری عطا کرتے یاور کیسے کیسے بازیگروں کے کرتبوں کا سہارا ہیں۔ کوئی اچھی سی نوکری، کوئی بڑا سا گھر، ایک نئی نویلی گاڑی، آسائشیں، آرائش، اسباب، اثاثے، جائدادیں، پلاٹ، پلازے، کارخانے، فیکٹریاں، کاروبار، نگر نگر کے تفریحی دواری، دولت، شہرت، نام، مقام۔ کیسے کیسے سراب ہیں کہ ہم انسان مسلسل ان کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ نیلے آسمانوں کے اوپر عرش معلیٰ پر موجود ہستی ہماری اس سیماب پائی اور اضطراب پر مسکراتی رہتی ہے۔ پھر اچانک ایک نامطلوب گھڑی سر پہ آ کھڑی ہوتی ہے۔ کہیں دور رخصتی کا ناقوس بجتا ہے۔ جاہ جلال، کرو گر، تخت و تاج، خدامادب، نیزہ بردار،،وبدار، شاہی طیب سب ہار جاتے ہیں۔ رگوں میں رواں لہو سرد پڑنے لگتا ہے۔ زمانے بھر کو امنی مٹھی مییں لینے والی انگلیاں بے جان سی ہونے لگتی ہیں، نبض ڈوبنے لگتی ہے اور پھر سارا تماشہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس دنیا سے ہمیں ایک دوسری دنیا میں منتقل ہونا ہے، جہاں عدل و انصاف کا میزان قائم ہوگا۔ لہٰذا جس کسی نے اپنی نفس اور دوسری نفوس کے ساتھ عدل کو اس دنیا میں روا رکھا وہی کامیاب و کامران ہوگا۔ یہ ہی اعلان ہے کلام الٰہی کا اور یہ ہی منشا ہے دین اسلام کا عدل کی اہمیت احادیث نبویﷺ کی روشنی۔ نبی آخرالزمان محبوب کبرﷺ کی بعث کا سب سے اہم پہلو بنی نوع انسان کو راہ اعتدال دکھانا تھا۔ آپﷺ نے اپنے قول اور فعل سے چراغ عدل کو دیا بخشا اور عدل کی اہمیت کو معاشرے میں اُجاگر کیا۔ اس کی طرف ترغیب و تحریص دلائی۔ ارشادات نبویﷺ ہے:

           ارشاد الٰہی ہے۔

ترجمہ: ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تا کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں 16

اس آیت میں لوہے سے مراد سیاسی قوت ہے اور کتاب و میزان و معتدل نظام ہے جس کے تحت اجتمائی عدل قائم ہوتا ہے۔

ارشاد الٰہی ہے۔

ترجمہ: اور انصاف کے ساتھ پوری پوری ناپ تول کرو17

انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے قریب نورانی ممبروں پر خدائے مہربان کے دائیں ہاتھ پر بٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں پر رہیں یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت کے معاملات میں بھی انصاف کرتے ہیں، اپنے گھر والوں کے مابین بھی انصاف کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالٰی ہے۔

ترجمہ: اور آپ کہہ دے کہ جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں سب پر ایمان لاتا ہوں اور مجھ کو یہ بھی حکم ہوا ہے کہ

تمہارے درمیان عدل رکھوں۔ اللہ ہمارا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی، ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور ہماری کچھ بحث نہیں ، اللہ ہم سب کو جمع کریگا اور اسی کے پاس جانا ہے۔18


افضل الناس منزلة یوم القیامة امام عادل رفیق و شر عباد الله منزلة یوم القیامة امام جائز خرق

ترجمہ:قیامت کے روز تمام لوگوں سے بہترن مرتبہ پر فائز ترقی کرنے والد عادل حکمران ہوگا اور قیام کے

روز تمام لوگوں سے مرتبہ میں بدترین شخص سختی کرنے والا ظالم حکمران ہوگا۔19

یوم من امام عادل افضل من عبادۃ ستین سنة یقام فی الارض بحقه اذکر فیها من مطر اربعین صباثا

           ترجمہ:عادل حکمران کا ایک دین ۲۰سال کی نفلی عبادت سے بہتر ہے اور ایک شرعی سزا جو حق و انصاف کے ساتھ زمین میں قائم کی جاتے ہے تو یہ چالیس روز کی بارش سے زیادہ برکت دلاتی ہے۔

ثلاثة لا تردد دعوتهم الصائم حتیٰ بفطر والامام العادل و دعوۃ المظلوم

           تین افراد کی دعا رد نہیں کی جاتی روزے دار کی، عادل حکمران کی اور مظلوم کی۔20

           ان احادیث مبارکہ سے ہمیں واضح طور پر عدل و انصاف کی اسلامی معاشرہ میں قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے نہ صرف یہ کے قول کے ذریعہ بلکہ عملی طور پر بھی ایک عادل حکمران ہونے کا ثبوت دیا اور آپ کے بعد خلفاء اربعہ نے ریاست اسلامیہ کا نظم و نسق قوانین عدل ہی کی روشنی میں چلایا۔ ذیل میں چند ایک مثالیں پیش کر رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اکابرین اسلام نے نفاذ عدل کو اولین ترجیح دی۔

ریاست ہائے اسلامیہ میں قانون عدل کا عملی نفاذ

           ایک بار جب قبلیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی اور معاملہ فیصلے کیلئے دربار رسالت میں لایا گیا تو سرداران قریش نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں اس عورت کی سفارش کیلئے بھیجا کیونیکہ وہ عورت ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور بدنامی کے خوف سے قریش یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کے خلاف فیصلہ کردیا جائے۔ حضرت اُسامہ چونکہ بارگاہِ رسالت میں مقبول اور محبوب تھے اس لیے قریش نے آپ کو سفارش کیلئے روانہ کیا۔ نبی کریمﷺ نے حضرت اسامہ کی بات سننے کے بعد لوگوں کو اکٹھا کیا اور یہ خطاب فرمایا:

یاایها الناس انما ضل من کان قبلکم انهم کانوا اذا سرق الشریف ترکوہ و اذا سرق الضعیف فیهم اقاموا علیه الحد والله لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدها 21

ترجمہ:اے لوگوں تم سے پہلی قومیں اس لئے گمراہ ہوئی ہیں کہ ان میں سے جب اونچے درجہ کے لوگ چوری کرتے تھے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی عام آدم چوری کرتا تو اس کو مقررہ سزا دیتے۔ خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

آپ کے یہ کلمات قیامت تک کیلئے معرکہ عدل و انصاف کو کمک فراہم کرتے رہیں گے۔

           ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے یہودی کو دیکھا کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ تو اس یہودی نے کہا کہ ایک تو مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اسے ادا کرنے کی ہمت نہیں ہے، دوسرا میں ضرورتمند ہوں اور تیسرا میں بوڑھا ہو چکا ہوں روزی کمانے کی ہمت نہیں رہی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقد اپنے ہاں سے اسے عطا کی اور بیت المال کے انچارج کو کہلا بھیجا کہ اس قسم کے معذوروں کیلئے بیت المال سے وضیفہ مقرر کیا جائے اور فرمایا خدا کی قسم یہ انصاف نہیں کہ ہم ان کی جوانی سے تو فائدہ اٹھائیں اور ان کے بڑھاپے کے وقت انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیں اور ساتھ ہی قرآنِ حکیم کی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایاَ:

انما الصدقات للفقراء والمساکین ثم قال فال فقراءهم المسلمون و عذا من المساکین من اهل الکتاب و وضع عنه الجزیة و عن جزباه 22

ترجمہ:فقراء سے مراد مسلمان غریب لوگ ہیں اور مساکین سے مراد اہل کتاب غریب لوگ ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے لہٰذا اس سے اور اس جیسے دوسرے اہل کتاب سے جزیہ نہ لیا جائے۔

اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے عدل اسلامی کی اس سنہری باب کو پیش نظر رکھیں اور تجزیہ کریں کہ کیا آج تم اپنا آبا و اجداد کی اس قدر تعظیم کرتے ہو، جس قدر ریاست ہائے اسلامیہ میں تمہارے آبا و اجداد کی کی جاتی تھی اور کی جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانی کو بازار میں اپنی زرہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: ”یہ زیرہ میری ہے“ اس نے انکار کیا۔ مقدمہ قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شہادت طلب کی، جسے وہ پیش نہ کر سکے، چنانچہ فیصلہ نصرانی کے حق میں سنا دیا گیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے فرمایا: ”شریح تم نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے“۔ یہ سن کی نصرانی حیرت زدہ رہ یا اور بولا، یہ پیغمبرانہ عدل ہے کہ حاکم کو بھی عدالت میں آنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے خلاف فیصلہ بھی سننا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقی عدل ہے جس میں دوست و دشمن کی کوئی تمیز نہیں اور پھر یہ کہ یہ زرہ امیرالمومنین ہی کی ہے۔صفین جاتے ہوئے ان کے اونٹ سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی تھی۔23

           یہ ہے اسلام کا قانون عدل جس میں اپنے پرائے، دوست و دشمن کا فرق روا نہ رکھا دور خلافت راشدہ میں عملاً عدل کا بول بالا ہوا۔ عدل کی دو قسمیں ہیں۔


           قانونی عدل (Judicial Justice)

           عمرانی عدل (Social Justice)

           قانونی عدل وہ ہے جو عدالتوں کے ذریعہ لوگوں کو اپنے حقوق کی بازیابی کے سلسلے میں میسر آتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی “اسلامی نظام عدل” پر مبنی رپورٹ میں قانون عدل کی تعریف یوں کی گئی ہے: “عدل قانون سے مراد فریقین تنازعہ کے مابین نزاع کا قانون کے مطابق عدالت کا فیصلہ دینا۔24

           اور عمرانی عدل کے معنی ہیں ہر صاحب حق کو اس کا حق دینا خواہ یہ سربراہ حکومت کے ذریعہ ہو یا سربرہ محکمہ یا سربرہ عدالت یا کسی اور فرد کے ذریعہ سے ہو۔ چنانچہ عمرانی عدل زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے اور اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ قانونی عدل کو بھی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے کیونکہ عدالتیں بھی معاشرہ اور سماج کا حصہ ہیں۔ تاریخ اسلام میں ہر دو عدل پر عمل کا ثبوت ملتا ہے۔25

           مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے نے ایک قبطی کو ناحق تازیانے مارے تھے ، آپ کو پتا چلا تو دونوں باپ بیٹے کو بلا کر قبطی کو ابن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے بدلا لینے کی اجازت دی اور عمرو بن العاص رح    کو بھی سخت تنبیہ کی بلکہ قبطی کو دو کوڑے ان کو بھی مارنے کو کہا جس پر قبطی نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جس نے مجھے مارا تھا میں اس سے بدلا لے چکا ہوں۔ 26

اس سے پتا چلتا ہے کہ حکمران اگر عادل ہو تو رعیت کو بھی عدل کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔

 

Conclusion:

عدل سے معاشرے میں قوت قائم ہو تی ہے، نیکیوں میں تعاون بڑتا ہے، خیر خواہانہ فضا قائم ہوتی ہے۔

عدل کی وجہ سے ہی ملک مضبوط و توانا اور اسکی اجتماعیت بڑھتی ہے۔ جبکہ معاشرے میں نا انصافی سے انفرادی اور اجتماعی تعلقات متاثر ہوتے ہیں آپس میں عناد ، حسد، نفرت پیدا ہوتی ہے۔ الزام تراشی اور مختلف اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جو کہ اسلامی معاشرہ کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا۔    

صرف اور صرف اسلام کے اس ہمہ گیر عدل کا نتیجہ تھا کہ معاشرہ کے ہر فرد کو آسائش و آرام اور امن اور سکون کی دولت میسر آگئی تھی اور کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی تھی کہ اس امن و سکون میں کسی قسم کا کوئی خلل ڈال سکے اور آج بھی اگر اسلام کے اس ہمہ گیر قانون عدل کو پوری قوت و صداقت کے ساتھ اپنا لیا جائے تو رب العزت کے وعدے کے مطابق یقینا معاشرہ بھی ایک مثالی اور قوام عالم کیلئے قابل رشک بن سکتا ہے۔

حواشی و حوالہ جات 

1                   مير سيد شريف جرجانی ،کتاب تعريفات ص 35، مير محمد کتب خانہ، کراچی 2000ء

2                   ابن منظور جمال للدين ،لسان العرب ص 49۔ نشر ادب الحوزه، يران 2001ء

3                   جلال الدين سيوطی، الاتقان فی علوم القرآن ص 40، المکتبه العصريہ، بيروت 2003ء

4                   عبدالله بن عمر بيضاوی, البيضاوی ص 10، دارالکتب العلميہ، بيروت 1998ء

5                   عبدالله بن عمر بيضاوی

6                   النحل آيت 76، القرآن

7                   حٰم سجده آيت 30 ، القرآن

8                    النساء ، القرآن

9                   التوبة آيت 60 تا  62 ، القرآن

10               مسلم بن حجاج قشيری 100 ، صحيح مسلم ، دارالفکر، بيروت 2000ء

11               احمد بن حنبل ، کتاب الزہد ، دارالکتب العلميہ، بيروت 1997ء

12               سليمان بن اشعث ، سنن ابی داود ص 25، دارالکتب العلميہ، بيروت 1998ء

13               محمد بن عيسی، سنن ترمذی ص 36 ، المکتبہ التجاريہ، مکہ مکرمہ 1998ء

14               حکومت پاکستان رپورٹ ، اسلامی نظام عدل ، 26 فروری 1984ء

15               النساء آيت 135 ، القرآن

16               الحدیہ آیت 35 ، القرآن

17               الانعام آیت 153 ، القرآن

18               الشورہ آیت 15 ، القرآن

19               پروفیسر مفتی منیب الرحمان ، اسلامیات ص 311 ، مکتبہ الفریدی

20               پروفیسر مفتی منیب الرحمان ، اسلامیات ص 315 ، مکتبہ الفریدی

21               مسلم بخاری ، الحدود علی الشریف و الوضیح ص 170 ، دارالاسلام ایڈیشن

22               امام ابو یوسف ، کتاب الخراج ص 111، الدولتہ الاسلامیہ، قاھرہ ،مصر

23               امام ابو یوسف ، کتاب الخراج ص 46، الدولتہ الاسلامیہ، قاھرہ ،مصر

24               ڈاکٹر خالد علوی ، اسلام کا معاشرتی نظام ص 284 ، افضل اردو بازار لاہور

25               علامہ ابی جعفر بن جریرالطبری، تاریخ الطبری ص 33 ، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت لبنان 1405 ھ

26               المبقی علاء الدین الھندی الاعمال ، ص 421 ، حیدرآباد دکن مطبعہ مجلس دائرہ المعارف العثمانیہ1373 ھ جلد 4

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...