Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

بدائع التفاسیرکی روشنی میں سماجی حسد سے بچنے کے تدابیر کا تحقیقی مطالعہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_606

Pages

42-74

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/180/169

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/180

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بدائع التفسیرکامختصر تعارف

بدائع التفسیر الجامع لما فسّرہ الامام"ابن القیّم الجوزیّہ رحمہ اللہ"،عربی زبان میں ایک معروف ومشہور تفسیر ہے،یہ درحقیقت ا ن آیات کی تفاسیر کا مجموعہ ہے جن کو ابن ا لقیّمؒ نے اپنی مختلف تصانیف میں مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔

یہ تفسیر قرآنی مشکلات کے حل کرنے میں خصوصی طور پر اپنی مثال آپ ہے۔اس کے محققانہ طرز استدلال اور حکیمانہ اسلوبِ بیان سے قرآن مجید کے مطالب آسانی سے دل نشین ہو جاتے ہیں اور کم علمی اورکم فہمی سےپیدا ہونےوالےتمام شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔اس تفسیر کو باریک بینی اور استخراج مسائل واحکام میں دوسری تفاسیرپرایک امتیازی مقام حاصل ہے ۔اس میں اسلاف کے طرز پر عقیدہ کی اصلاح اور بدعت و گمراہی کودلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ،نیز اس تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال کو ذکر کر کے ان میں حتّی الامکان انضمام اور توافق پیدا کیا گیا ہے ۔اور جہاں ممکن ہوا ،وہاں راجح قول کو اختیار کیا گیا ہے۔اس تفسیر کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں تفسیری روایات کاایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

ابن القیمؒ کے حالاتِ زندگی

آپ کاپورانام تھا:أبو عبد الله شمس الدين محمَّدُ بنُ أبو بكر بن سعد بن حُريزٍبن مکی الزَّرعی([1])الدمشقی الحنبلی(۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ)آپؒ ملکِ شام کے ایک مشہورشہردمشق([2])میں ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ ؒ کو ابن قيّم الجوزیہ ؒاسی لئے کہاجاتاہے کہ آپ کے والد أبو بكرشہرِدمشق میں مدرسہ جوزیہ([3] )کے قیّم یعنی منتظم اور نگران تھے۔ آپؒ ۷صفر ۶۹۱ھ([4]) بمطابق ۲فروری۱۲۹۲ ءکو شام([5])کے جنوب میں ایک قصبہ ازرع میں پیدا ہوئے ([6]

علامہ ابن قیمؒ ایک جید عالم، باکمال مفسر اورایک عظیم مدبِّر کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ حنبلیؒ مسلک پر عامل بلند پایہ مفسر قرآن، علم نحو کے امام، فن علم الکلام کے اُستاد اوراپنے وقت کے بہت بڑے متکلم تھے۔ علامہ ابن قیمؒ ایک عظیم مجتہد مطلق بھی تھے،جس نے بہت سے اجتہادی مسائل میں استنباط سے کام لیا ۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ([7] )کے دامنِ علم سے وابستہ ہوکر تمام علومِ دینیہ واسلامیہ کافیض انہی سے حاصل کیا۔ فن تفسیر میں وہ لاجواب تھے۔ اصول دین سے واقفیت، حدیث، فقہ اورمعانی پر نہایت گہری نظر رکھنے والے،مشکل مسائل میں استنباط کرنےمیں بے نظیراوریدِطولیٰ رکھتے تھے۔تصوف کے ساتھ بھی خصوصی اورگہرا تعلق تھا۔ اپنے بعض عقائد کی پاداش میں کال کی کوٹھریوں میں بندش کے علاوہ اس نےزنداں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ حددرجہ عبادت گزار اورتہجد پابندی سے پڑھتے تھے۔ قرآن، حدیث اورایمان کے حقائق کا علم تو گویا اُن ہی کیلئے مخصوص کیاگیا تھا۔کئی مرتبہ امتحان وایذاء کے سخت ترین مرحلوں سے گزرے مگر پیشانی پر شکن تک نہیں آئی۔ کئی مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی ، اورمکہ مکرمہ میں اقامت بھی اختیارکیا۔ اہل مکہ ان کی کثرت طواف وعبادت مدتوں یاد رکھا کرتے تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے ان سے اوران کے علم سے استفادہ کیا۔

وفات

آپؒ جمعہ کی شب ۱۳رجب ۷۵۱ھ بمطابق ۱۳۴۹ ءکوعشاء کی اذان کے وقت ۶۰ سال کی عمر میں دنیائے فانی سےکوچ کر گئے۔ آپ ؒ کی نمازِ جنازہ جامعِ اموی ([8])میں پڑھائی گئی اور آپؒ کو اپنی والدہ کے پاس باب الصغیر ([9])کے مقبرہ میں دفن کیا گیا([10])۔رحمہ اللہ

بدائع التفسیرکی روشنی میں حاسداورمعاشرتی حسدکے شرسے بچنے کی تدابیر

جس طرح ایک عام انسان کےلئے جسمانی برائیاں نقصان دِہ ہے،اسی طرح اس کےلئےتمام اخلاقی برائیاں بھی مضِر ہے ، جیسےکینہ،طمع،لالچ،غصّہ اورحسدوغیرہ۔لیکن ان اخلاقی بیماریوں میں حسدایک ایسی رسواکن بیماری ہےجس کے مضِراثرات تمام معاشرے پرپڑتےہیں ۔ حسدیا جلن ایک ایسی ہی موذی مرض ہے جس کا شکار دنیا ہی میں نفسیاتی تکلیف اور اذیت اٹھاتا پھرتاہےاور دل ہی دل میں گھٹ کر مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔ گویاکہ حاسدکواپنےحسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ تعالیٰ کےساتھ پناہ مانگنےکاحکم ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ([11])ترجمہ: اور حسد کرنے والے کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔

اسی طرح حضورِاکرمﷺ نے حسدسےبچنےکی تاکیدیوں فرمائی ہے:

إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ([12])

ترجمہ: حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔

لہٰذا دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی اورکامیابی کے لئے حسدجیسی موذی بیماری کی وجوہات کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیراختیا ر کرنا انتہائی لازمی اور ضروری ہے،جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

حسدکے لغوی معنی

"حسد"عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لْغوی معنیٰ ہے کینہ، جلن، بدخواہی یازوال نعمت کی تمنا کرنایادوسرے سے نعمت کے زوال اوراپنےلئے حصول کی تمناکرنا۔([13])

مشہور ڈکشنری القاموس الوحیدكے مطابق:حسدکےمعنی ہے:کسی کی خوشحالی پرجلنااوراس کی تمناکرناکہ اس کی نعمت وخوشحالی دورہوکراسےمل جائے، ([14]

اِصطلاحِ عام میں حسد اْن خداداد نعمتوں اور ترقیات و بلندی مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہنر، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت وناموری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئےہوں ۔

حسد كے مراتب

امام غزالیؒ نے حسدکے مندرجہ ذیل چارمراتب بیان کئے ہیں :

(۱)حسدكاپہلامرتبہ یہ ہےکہ حاسد محسود سے نعمت کے زوال کی تمناکرے خواہ یہی نعمت اس (حاسد)کونہ بھی ملے (لیکن محسود سے وہ نعمت زائل ہوجائے) اوریہ حسد كاخبیث ترین مرتبہ ہے۔

(۲)حسد کادوسرامرتبہ یہ ہے کہ حاسدمحسود سے نعمت کے زوال کی خواہش رکھےاورچاہےکہ زائل ہونےکےبعد وه نعمت اس كومل جائے،كيونكہ وه اس نعمت كومرغوب ركهتاہے۔جیسےمحسود سے اس كی خوبصورت بیوی،یاخوبصورت گھر زائل ہوکراس کومل جائے۔یہ قسم بھی بالاتفاق مذموم ہے،اورایساکرناگناہ ہے۔

(۳)حسدكا تیسرامرتبہ یہ ہےکہ حاسد محسود سے اپنےلئےنعمت کی زوال نہیں چاہتابلکہ وہ محسودکی طرح نعمت حاصل کرنے کی خواہش رکھتاہے(کہ ا س کو بھی محسودکی طرح وہ نعمت مل جائے)لیکن اگروہ نعمت کے ملنے سے عاجز آجائے تووہ(حاسد)یہی چاہتاہےکہ محسودسے بھی وہ نعمت زائل ہوجائے تاکہ دونوں میں تفاوت اورفرق نہ رہے(کہ محسودکے پاس نعمت رہے اورحاسدکےپاس نہ رہے)۔حسد کی یہ قسم اگردنیاکے اس اعتبارسےہوتومذموم ہے،لیکن اگرآخرت کے اعتبارسے ہوتومذموم نہیں۔

(۴)حسدکاچوتھامرتبہ یہ ہے( جس کوغبطہ اوررشک بھی کہتےہیں ) كہ صاحب نعمت کے پاس نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اس کے پاس یہ نعمت رہے،اورمجهےبھی اس کی مثل مل جائے،لیکن اگراس کووہ نعمت حاصل نہ ہوجائےتووہ یہ نہیں چاہتاکہ منعم علیہ(جس پروہ نعمت کی گئی ہو) سے بھی وہ نعمت زائل ہو(بلكہ اس کے پاس نعمت رہنےكی خواہش رکھتاہےاگرچہ اس کونہ مل گیاہو)۔

یہ چوتھی قسم اگردنیاوی امورکے لحاظ سے ہوتومعفو عنہ(معاف کیاگیا)ہے،لیکن اگردین کے کسی امرکےاعتبارسے ہو تو مندوب (مستحب)ہے([15]

حسد اور غبطہ (رشک ) میں فرق

حسداورغبطہ(رشک)میں واضح فرق پایاجاتاہےچنانچہ حسد کے معنی ہے: کسی کی نعمت یا اچھی خصلت کا زوال چاہنا یا اس کے چھیننے کی خواہش کرنا ۔ جبکہ غبطہ( رشک) کےمعنی ہے: کسی شخص کی نیکی اورخصلت کی آرزوکرنا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ۔

اسی طرح حسد میں محسود سے نعمت کےزوال کی خواہش ہوتی ہے جبکہ رشک میں وہ نعمت محسود(جس سے حسد کیا جائے)سے چِھن جانےیا اس نعمت کونقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی ، ناپسندیدہ اور مکروہ جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے،جوکہ قابلِ تحسین ہے۔

حسد کی مختلف شکلیں اورصورتیں

ہمارےمعاشرے میں حسد عام طور پر مندرجہ ذیل صورتوں میں پایا جاتا ہے:

(۱)کسی کی اچھی اورقیمتی اشیاء سے جلناجیسے اچھالباس ،زیورات ،خوبصورت مکان ،بیوی، بنگلہ، اور دیگر سامانِ راحت وتعیش وغیرہ ۔

(۲) کسی کی ظاہری خوبیوں سے حسدکرنا جیسے اچھی شکل و صورت ،وجاہت ،قابلیت یاشخصیت کےظاہری خدوخال وغیرہ۔

(۳) کسی کی باطنی خصوصیات سے حسدکرنا جن میں خوش اخلاقی، ملنساری، بردباری،ہر دلعزیزی ، دیانت داری، دینداری و عبادت گذاری اور تقویٰ وغیرہ شامل ہیں۔

(۴) کسی کی مالی ترقی سے جلنا: جیسے کاروبار کی ترقی، اعلیٰ تعلیم یا اچھاعہدہ وغیرہ۔

(۵) کسی کے قبیلہ ،کنبہ یا اولا دبالخصوص اولادِ نرینہ سے حسد یا اولاد کی ترقی پر جلنا وغیرہ۔

(۶)کسی کی شہرت ،عزت، اوربلندمرتبے سے حسدکرنا۔

(۷)کسی کی صحت،تندرستی ، اطمینان، خوشی اور راحت سے حسدکرنا اور جلنا۔

(۸) اسکے علاوہ بھی حسد کرنے کی لامحدود صورتیں ہیں جو ایک حاسدہی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

حسد کے نقصانات

حسد کے بے شمار دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) حسد ہمیشہ حاسدکونفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔

(۲) حسد کئی نفسیاتی امراض کا باعث بنتاہے جیسے غصہ، کینہ،ڈپریشن، احساس کمتری، اورچڑچڑا پن ۔

(۳) حسدحاسد کودشمنی کی طرف اور دشمنی فساد اوربگاڑکی جانب لے جاتی ہے جوگھر اورمعاشرے میں فساد پھیلنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

(۴)حسد دیگر اخلاقی کبیرہ گناہوں کا بھی سبب بنتا ہے جن میں غیبت، بہتان، تجُّسس اور جھوٹ وغیرہ شامل ہیں۔

(۵) حسد انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے ،بڑھنے اور پروان چڑھنے جیسی موذی اوررسواکن بیماریوں کاسبب بنتاہے۔

(۶) حسدمحسود کے علمی وفکری کارناموں اور قومی وملی خدمات سوچنے والے لوگوں کو طرح طرح سے بدظن کرتا ہےاور اس کے بارے میں لوگوں کی رائیں مشکوک بناتا ہے۔

(۷)حاسدحسد كی وجہ سےرشک اورحسد کوتوازن کےایک ہی پلڑے میں رکھ کردونوں کوایک ہی نظرسے دیکھتا ہے ، اوردونوں کوایک ہی چیزسمجھتاہے،حالانکہ دونوں کے جائزہونے اورنہ ہونےمیں واضح فرق پایاجاتاہے۔

(۸) حسد آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے۔

اس لئے حسد سے اپنے آپ کو بچانااوردوسروں کواس کی تلقین کرنا انتہائی ضروری ہے،جس سے معاشرےمیں سکون کی فضاء قائم ہوگی،اورلوگ بھائی چارے کی زندگی گزاریں گے۔

حاسد کے شرسے بچاؤ کے تدابیر

حاسد کاشر مندرجہ ذیل دس تدابیرکےذریعے دفع کیاجاسکتاہے:

پہلی تدبیر: استعاذہ باللہ(اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگنا)

پہلی تدبیر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حاسد کے شرسےپناہ مانگنااور اس کی حفاظت میں رہنے کےلئےاس کوآہ وزاری اور التجاء کرناہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پناہ مانگنے والے کی آواز کو سنتاہےاور جس چیز سے پناہ مانگتاہے اس کواچھی طرح جانتا ہے،اورالتجاء کرنے والے کی التجاء کوسنتاہے ۔ جیساکہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ الصلوات والتسلیمات نے بڑھاپے میں بیٹاعطاء کئے جانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو ان الفاظ میں پکاراتھا:

إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ۔([16]) ترجمہ:۔( بیشک میرا پروردگار دعا سننے والا ہے ۔

قرآنِ پاک میں "سَمِيعٌ"کے ساتھ بعض جگہ"عَليمٌ" اور بعض جگہ"بَصیرٌ"مستعیذ کے حال کے مقتضاء کی وجہ سےذکر کیا گیا ہے کیونکہ مستعیذ اس دشمن سے پناہ چاہتاہے جس کے بارے میں و ہ جانتاہےکہ اللہ تعالیٰ اس کودیکھتا بھی ہےاوراس کے منصوبوں اور شرور سے بھی باخبر ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام کی مناسبت کی وجہ سے" عَليمٌ" کالفظ بڑھاکر اس مستعیذ کے بارے میں یہ خبر دی کہ وہ (اللہ تعالیٰ ) پناہ مانگنے والے کی آواز کوسننے والاہے ،یعنی اس کی آوازکاجواب دینے والا ، اپنےدشمن کی چالوں سے باخبر ہے،اپنے دشمن کو دیکھتاہے اور اس پرنظر رکھے ہوئے ہیں ،تاکہ مستعیذ کی امیدوں کو آسان بنائے،اور دل سے کئےگئے دعاؤوں کوقبول کرے۔

اگرغورکیاجائے،تومعلوم ہوگاکہ (جہاں کسی ایسے دشمن کاذکرہےجس کا وجودتومعلوم ہےلیکن ا س کو دیکھ نہیں سکتےجیسے شیطان، جوخفیہ طور پرشرارتیں کرتاہے) اس سے پناہ مانگنے کےلئےاللہ تعالیٰ نےسور ۃالاعراف اور سورۃ حمٓ السجدہ میں "السمیع العلیم" کےالفاظ ذکرکئےہیں ،اور انسانوں کے شر (جوآنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں ) سےپناہ مانگنے کےلئے حمٓ سورۃ المؤمن میں "السمیع البصیر"کےالفاظ آئے ہیں ۔

سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ([17])

ترجمہ:۔اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو خدا سے پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے۔

اسی طرح سورۃ حمٓ السجدہ میں ارشاد فرمایا:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ([18])

ترجمہ:۔ اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو بیشک وہ سنتا (اور) جانتا ہے۔

لیکن اس کے خلاف سورۃ مؤمن میں" السَّمِيعُ "کے ساتھ" الْبَصِير ُ"کےالفاظ آئےہیں ،جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ([19])

ترجمہ:۔ جو لوگ بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں (ارادہ) عظمت ہے اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں تو خدا کی پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ۔

دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسانوں کے افعال ایسے ہیں جو آنکھوں سے دیکھے جاتےہیں اوراس کاادراک بھی کیاجاتاہے اس لئے وہاں "الْبَصِيرُ" کالفظ لاکراللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے افعال سے پناہ مانگنےکاحکم ہے ۔ لیکن شیطان کی طرف سے جونزغ ہے اس سے وساوس مراد ہے،اور وہ خطرات بھی مراد ہے،جووہ انسانوں کےدلوں میں ڈالتاہےجس کے ساتھ علم متعلق ہے، اور اس کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کوہے اس لئے وہاں پر علیمٌ کالفظ استعمال کرکےاللہ تعالیٰ کےساتھ پناہ مانگنےکاحکم کیاگیاہے۔

معلوم ہواکہ انسانوں اورشیاطین دونوں کے افعال(حسد اوروساوس)سےبچنے اورحفاظت کاذریعہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ پناہ مانگنےمیں ہے۔

دوسری تدبیر:خشيتِ الٰہی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپرعمل

دوسری تدبیر اللہ تعالیٰ سے ڈرنااور اس کے امر اور نہی کو بجالاناہے،کیوں کہ جوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہےاور تقویٰ اختیار کرتاہےتو اللہ تعالیٰ خود اس کانگہبان اور متولی ہوتاہےاو راس کو دوسروں کے حوالے نہیں کرتا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ([20])

ترجمہ:۔ اور اگر تم تکلیفوں کی برداشت اور (ان سے) کنارہ کشی کرتے رہو گے تو ان کا فریب تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔

ایک مرتبہ حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایا:

احفظ یحفظک،احفظ اللہ تجدہ تجاھدک ([21])

ترجمہ:"اگر تم اللہ تعالیٰ کالحاظ رکھو گے توتم اس کواپنے سامنے پاؤ گےاوراگرتم اللہ تعالیٰ کالحاظ رکھوگے تووہ تمہارانگہبان ہوگا "۔ توجوشخص اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھےگااللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرےگا،اور وہ جہاں طرف بھی مُنہ کرےگااللہ تعالیٰ کو سامنے پائےگااور جس کا اللہ تعالیٰ حافظ اور سامنے ہووہ کس سے ڈرتاہے؟

تیسری تدبیر:الصبر علیٰ عدوہٖ (دشمن کے مقابلے میں صبرکرنا)

اپنے دشمن کے مقابلے میں صبرکرنااور اس کےساتھ نہ لڑنااوراس کے ایذاءپہنچانے اور تکلیف دینے کاخیال تک دل میں نہ لانا،اور نفس کاان تکالیف پرکچھ نہ کہنا، کیونکہ حاسد اور اس کے دشمن کے خلاف مدداس وقت کی جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ پرصبر اور توکل کیاجائے،اور صبر اور توکل علی اللہ کاثمرہ اورنتیجہ ہمیشہ دشمن پرفتح اور کامیابی ہوتی ہے۔بے شک بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نصرت (انسان کے اپنے تخمینہ اور خیال وسوچ کے بموجب)کس قدردیر سے پہنچتی ہے،لیکن ا س سے گھبرانانہیں چاہئے،اور دشمن کے بغی(سرکشی) اور عدوان(ظلم) کو دیکھ کربےصبر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ جب وہ ظلم کرتاہے تو یہ ظلم اس محسود کےلئےایک قوت بن جاتی ہےجس سے باغی (ظلم کرنے والا)اپنے آپ کو قتل کرتاہے لیکن وہ نہیں سمجھتا۔تویہ ظلم اس کےلئے ایک تیر کی حیثیت رکھتاہےجوظالم اس کے نفس سے اپنی نفس کومارتاہے۔اگرمظلوم اس کو دیکھ لے تو اس کاظلم اس کے لئے خوشی کا سبب بنے گالیکن مظلوم اپنی کوتاہ نظری کے باعث صرف بغی اور عدوان دیکھ سکتاہے،لیکن اس کامآل(نتیجہ)اور انجام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس (مظلوم) کی کامیابی پر ہوتاہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللَّهُ ([22])

ترجمہ:۔ اور جو شخص (کسی کو) اتنی ہی ایذا دے جتنی ایذا اس کو دی گئی پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو خدا اس کی مدد کرے گا۔

تو جب اللہ تعالیٰ ا س مظلوم شخص کے مددکا ضامن ہے،جب کہ ا س نےایک مرتبہ بقدراپنے حق کےانتقام لیاہواور پھر اس پرظلم کیاگیاتو کیسے ا س شخص کی مدد نہیں کرےگاجس نے ابتداء میں صبرکیااوراپنے آپ کو انتقام سے بازرکھا، بلکہ ا س پرظلم کیاگیااور وہ اس پرصبر کررہاتھا۔اور گناہوں میں جلدسزاءملنے والے گناہوں میں سے ظلم اور قطع رحمی سے سخت گناہ نہیں ہیں ۔(یعنی یہ دونوں سخت گناہ ہیں جس کی سزاء جلدی مل جاتی ہے)اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہےکہ وہ ہمیشہ ظالم کو سزاء دیتاہےیہاں تک کہ کہاگیاہےکہ اگرفی المثل ایک پہاڑدوسرے پہاڑ پر ظلم کرے تو خدا کا قانون اس کو ہموارکئے بغیرنہیں چھوڑےگا۔

چوتھی تدبیر:توکل علی اللہ(اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرنا)

چوتھی تدبیر اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرناہے ۔کیونکہ جوشخص اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتاہے وہ اس کوتمام مہمات سے بے فکرکردیتاہے۔اگر مخلوق کی طرف سے انسان کوکوئی ایسی تکلیف پہنچےجس کو وہ اپنی طاقت اور قوت سے رفع اوردفع نہیں کرسکتے ،توایسی حالت میں اللہ تعالیٰ پربھروسہ رکھنااور اسی کی نصرت کا امیدواررہنا کامیابی اورفتح مندی کا قوی ترین سبب ہے۔او راس کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے، اورجس کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہواوروہ اس کوہرقسم آفات اورتکالیف سے بچائےتوا س کواپنے دشمن سے نہیں ڈرناچاہئے،کیونکہ اب اس کو صرف وہی تکلیف پہنچےگاجس سے اس کی خلاصی نہیں ہے: جیسےگرمی،سردی، بھوک ، پیاس وغیرہ۔

اس لئے کسی ایسی تکلیف جوانسان کےلئے ظاہر میں تکلیف کاباعث ہے،اور ایسی تکلیف جس سےانسان کوشفاءحاصل ہو (کے درمیان ) بڑافرق ہے ۔بعض سلف سے یہ منقول ہے کہ اللہ تعالی ٰنے ہرعمل کےلئے اس کابدلہ اپنے جنس سےبنایاہے(الجزآءمن جنس العمل)(باالفاظِ دیگرہرعمل کاردعمل ضرورہوتاہے)۔اوراللہ تعالیٰ نے ا س پرتوکل کرنےکی وجہ سےبندے کے نفس کی کفایت کو بھی اپنے اوپرلازم کیاہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ([23])

ترجمہ:۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے۔

یہاں پراللہ تعالیٰ نے اس طرح نہیں فرمایاکہ ہم ان کو اتنااتنااجروثواب دیں گےجیساکہ اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایاہے،بلکہ اس(اللہ تعالیٰ )نے اپنی ذات مقدسہ کومتوکل بندے کےلئے کافی اور اس کوحفاظت کرنےوالافرمایا۔اس لئےاگر انسان اللہ تعالیٰ پرسچے طور سے توکل کرےتواگرزمین وآسمان مل کر بھی اس کے خلاف کوئی سازش کرے،تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو ان کی سازش کےشر سے محفوظ رکھ کراس کی نصرت ومددفرمائےگا ۔

پانچویں تدبیر :قلب(دِل)اور فکر کوحسد سے خالی کرنا

پانچواں سبب یہ ہے کہ اپنے دل کو حاسد کے ساتھ مشغول رکھنے اوراس کے بارے میں کچھ سوچنے سےبالکل بچایاجائے،اوراگراس قسم کاکوئی خطرہ دل میں پیداہوتواس کے مٹانے کی فکر میں مصروف ہوبلکہ اس کی طرف التفات کرے اور نہ اس سے ڈرےاور نہ اس فکرسے اپنادل بھرنے کی کوشش کرے۔اور یہ اس کےشر کودفع کرنےکاایک بہترین علاج اور اسباب میں سے ایک قوی سبب ہے کیونکہ یہ اس شخص کے منزلہ پرہے،کہ اس کو اس کادشمن اس لئے ڈھونڈتاپھرتاہےکہ وہ اس سے دست وگریباں ہوجائےتو اس صورت میں اگر وہ اپنے دشمن سے گتھم گتھا ہوجائےتو یقیناً وہ بہت تکلیف پائےگا،اور دشمن کو اس پرزور آزمائی کرنے کا موقع مل جائےگالیکن اگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہواور اس سےبالکل بے اعتنائی کرےتواس حالت میں وہ اس کے شر سے بالکل محفوظ رہےگا۔ ارواح کی بھی یہی کیفیت ہےکہ وہ اس کے ساتھ اپنی روح کو متوجہ کرتاہے۔اورحاسد کی روح نیند اور حالتِ بیداری میں محسود کوایذاء پہنچانے میں متوجہ رہتی ہےاوراس سے جدا نہیں رہتااور اس کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ دونوں روحیں پس میں مل جائیں ، تواگر محسود کی رو ح بھی اس کی طرف متوجہ ہوتو دونوں کے درمیان ایک دائمی آویزش(لڑائی/فساد) کی صورت پیداہو جائےگی ،اور دونوں روح اس وقت تک بے چَین اور بےقرار رہیں گے جب تک ایک ان میں سے ہلاک نہ ہوجائے ۔ اوراگربالفرض اس قسم کاکوئی خطرہ اس کے دل میں پیداہوتواس کومٹانے اور زائل کرنے میں مشغول ہو،یہ طرزِ عمل اس کے حق میں بہت زیادہ مفیدہوگا۔اور باغی حاسد اپنی حالت پرباقی رہے گاکہ اس کی بعض حالت بعض کو کھائے گا، کیونکہ حسد ایک آگ کی طرح ہے اگر اس آگ کوکھانےکوکچھ نہ ملےتو ان میں سے بعض اپنے بعض دوسرے حصے کو کھاجاتی ہے۔اور یہ وہ عظیم النفع تدبیرہےجس کے ساتھ صرف نفوسِ شریفہ،اور بلند ہمتیں ہی ملاقات کرتے ہیں ۔اوران میں ایک ایسی روحانی حلاوت(مٹھاس)ہےکہ جس نے ایک مرتبہ چکھ لیاہوا س کو اپنےدشمن کےخیال میں منہمک ہونااور اپنے قوائے روحانی اورآلاتِ فکرکوادھر متوجہ رکھنادشمن کی طرف سے دل اور روح کوایک مصیبت اور عذاب معلوم ہوتاہےاوروہ اس سے زیادہ درد دینےوالی چیز نہیں دیکھتا،اور اس کونفوسِ مطمئنہ ہی سچاجانتےہیں جواللہ تعالیٰ کی وکالت پرراضی رہتےہیں ۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی نصرت پرپورا بھروسہ ہوتاہے،اور وہ جانتے ہیں کہ ہماری کوششیں اللہ تعالیٰ کی کفالت کے سامنےہیچ ہیں ،اس کے وعدے سچےاور اس کی نصرت تمام دوسرے نصرت کے اقسام سے بڑھ کر ہےتووہ اللہ تعالیٰ پراعتماد کرنے والا،اس سے سکون واطمینان حاصل کرتاہے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت اوروعدہ حق اور سچ ہےاو روہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتااور قول میں اس سے زیادہ سچاکوئی نہیں ۔اسی طر ح وہ یہ بھی جانتےہیں کہ اس کی مدداقویٰ،زیادہ مستحکم ،اورہمیشہ رہنے والاہےاو راس کی مددکاسب سے بڑا فائدہ نفس کو یااس کے مخلوق کوہوتاہےاور اس کے ذریعے ہی قوت حاصل کی جاتی ہے۔

چھٹی تدبیر:رضائے الٰہی کی تلاش میں استغراق

چھٹاسبب یہ ہے کہ اپنی توجہ کو نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے پرمرکوز رکھے اوراپنے دل کواللہ تعالیٰ کی محبت اور اخلاص سے اس حد تک معمورکردےکہ جہاں خواطرِ نفسانی او روساوس شیطانی کا گزر ہوا کرتاتھاوہاں پراللہ تعالیٰ کی محبت ا س کےلئےاخلاص اور اس کی خوشنودی کی طلب لبالب بھری ہو۔اس کی مثال ایک محبّ صادق کی ہو،جس کاباطن اپنے محبوب کے خیال سےاس قدر بھرپور ہوتاہےکہ اس میں یادِ محبوب کے بغیراور کسی چیز کی مطلق گنجائش نہیں ہوتی۔اور اس کادل اس کے ذکرسے او راس کی روح اس کی محبت سے دوسری طرف نہیں پھیرتی۔

ایسی حالت میں وہ اس بات کو کب گواراکرسکتاہےکہ اس کے قلب میں حاسد کاخیال جاگزیں ہواور اس سے انتقام لینے کی فکر اور اس کےخلاف تدبیر کرنے میں مشغول ہو؟ایسے خیالات صرف اس دل میں آسکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت او راس کی خوشنودی نے جگہ نہ بنائی ہو۔بےشک جن دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کےاخلاص نےگھرکرلیاہے،ان کانگہبان خوداللہ پاک ہےاور وہ دشمن کے تسلط سے محفوظ رہتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نےاپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایاہےکہ جب ابلیس کواپنی نجات سے مایوسی ہوئی تواس نے بارگاہِ الہی میں عرض کی:

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ۔ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ([24])

ترجمہ:۔( کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں)۔

ابليس كی اس بات كی تصديق كےطور پراللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ([25])

ترجمہ:۔ جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے۔

ايك دوسری جگہ ارشاد ہے:

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ0إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ([26])

ترجمہ:۔ بیشك جو مومن ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں ان پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا اس کا زور انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسو سے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں ۔

حضرت يوسف علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:

كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ([27])

ترجمہ:۔ یوں اس لئے (کیا گیا) کہ ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو روک دیں ۔ بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

جوشخص اس قلعہ میں داخل ہواوہ بڑا سعادت مندہے،اور وہ ایسا محفوظ ہوگاکہ ہرقسم کے خوف سے امن میں رہے گا اور جس نے اس کوامن دیاہے اس پرکوئی بوجھ نہیں ہوگا،اور دشمن اس کے قریب بھی نہیں جاسکے گا،اور یہ سب خدا کافضل واحسان ہےیعنی!

ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ([28])

ترجمہ:۔ یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔

ساتویں تدبیر:گناہوں سے استغفار کی تجرید(خالی ہونا)

ساتویں تدبیر گناہوں سے استغفار کی تجریدیعنی ان گناہوں سے توبہ کرناہےجودشمن نے ان پرمسلط کئے ہیں کیونکہ انسان کے اکثرمصائب کاسبب گناہوں کاارتکاب ہے ۔جیساکہ ارشادِ ربّانی ہے:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ([29])

ترجمہ:۔ا ور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف ہی کر دیتا ہے۔

آنحضرت ﷺکے صحابہ کرامؓ کو( جواس امت کے برگزیدہ ترین افراد کامجموعہ تھا)اس طرح مخاطب کیاگیاہے:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ ([30])

ترجمہ:۔ (بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (احد کے دن کفار کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑ چکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آپڑی کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا۔

الغرض انسان كوجوتكلیف پیش آتاہےوہ اس کے گناہوں کانتیجہ ہوتاہے خواہ اس کو اس کا علم ہویانہ ہو،کیونکہ جن گناہوں کاانسان کوعلم ہوتاہےان سے کئی گنّاایسے گناہ ہوتے ہیں جن کااس کو علم نہیں ہوتااور وہ ان کوبھول جاتاہے۔ایک مشہوردعائے ماثورہ میں ہے:

اللھمّ انّی اعوذ بک من ان اشرک بک شیئاوانااعلم بہ ،واستغفرک لما لااعلم ([31])

ترجمہ:۔یااللہ!میں تیرے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نے دانستہ تیرے ساتھ کسی کو شریک بنایاہواو ر میں ان گناہوں کی تجھ سے معافی چاہتاہوں جن کو میں نہیں جانتا۔

اس لئے بندہ پرلازم ہے کہ وہ اپنےان گناہوں کی بابت بھی استغفار(معافی اور مغفرت)طلب کرےجواضعاف (دُگنا) ہیں اورجن کووہ نہیں جانتاہےاور جن کی شامت سےاس کومصائب اور تکالیف پیش آتی ہیں ۔

يہ لازمی اورضروری بات ہے کہ جہاں بھر میں جتنی شر کی قسمیں پائی جاتی ہیں وہ بنی نوع انسان کے گناہوں اور ان کے نتائج واسباب تک محدود ہیں،اگرانسان گناہوں سے سلامت رہےتوبالضروران کے نتائج سے بھی سلامت رہےگا۔اس لئے اگر کسی آدمی پردشمن مسلط ہواوراس پرتعدی کرکے اس کوتکلیف پہنچائےتواس کےلئےمفیدترین تدبیریہ ہےکہ وہ سچےدل سے توبہ کرے۔اور اس کی سعادت مندی کی علامت یہ ہےکہ اپنےدشمن سے انتقام لینے کی سوچ اور فکر کرنے کی بجائےاپنے نفس،اپنےگناہوں اوراپنے عیوب پر نظر رکھیں اوران سے تائب ہوکراپنے اعمال کی اصلاح میں مشغول ہو۔اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت اوراس کی نصرت فرمائےگا۔ایک انسان کی سعادت مندی،یااس پرنازل ہونے والےمشکلات،یااس پرمرتب ہونے والے اثرات نہیں آتے مگر توفیق اور ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔وہ جسے دیتاہے اسے کوئی روکنے والانہیں،اورجس سےاللہ تعالیٰ روکے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے ۔ان تمام چیزوں کی توفیق دینے والاکوئی نہیں ،نہ اس کی معرفت کی ،نہ اس کے ارادہ کی،اور نہ اس پرقدرت کی۔

آٹھویں تدبیر:صدقہ اور نیکی کاعمل لازم گرداننا

آٹھویں تدبیر یہ ہے کہ انسان صدقہ اوراحسان کوامکان کی حد تک لازم کرےکیونکہ ان دونوں چیزوں کابلا، مصیبت، نظرِبد اور حسد کےشرکودفع کرنے میں اثرحیرت انگیزہوتاہے۔زمانۂ قدیم اورزمانۂ حال میں لوگوں نےتجربے کئے اور اب یہ بات مسلم ہوچکی ہے کہ صدقہ دینے والے اور نیکی کرنےوالےاشخاص نظرِ بد اورحسد کے شر سےمحفوظ رہتے ہیں۔اوراگران کواس سے کوئی تکلیف اور مصیبت پہنچ بھی جائےتواس کی عاقبت (خاتمہ)محمود ہوتی ہے،اوراللہ تعالیٰ کالطف وکرم اوراس کی تائید ان کے شاملِ حال رہتی ہےصدقہ دینے والےمحسن کےلئے اس کاصدقہ اوراحسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قلعہ اورایک قوت ہےجو اس کامحافظ ہوتاہے۔

مختصر بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کاشکرنعمت کوزوال سے محفوظ رکھتاہےاورنعمت کے زائل ہونےکی ایک قوی ترین تدبیرحاسد کا حسد اوربدنظری کرنےوالاہےجن کے دل محسود سے نعمت کے زائل ہوئے بغیرٹھنڈانہیں ہوتا۔جب وہ ان نعمتوں کے زوا ل کودیکھتےہیں تو اس کے دل کی آگ بجھ جاتی ہے ۔توایک بندے کےلئےاللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاشکرکرنےجیسا محافظ نہیں ہے،اوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی (جواللہ تعالیٰ کی نعمتوں کوزائل کرتاہے)جیساعمل نہیں ہےاوراسی کانام کفرانِ نعمت ہےجس کامآل بعض اوقات یااکثراوقات کفر ہوتاہے۔تومحسن اور صدقہ دینے والاایک جماعت اورلشکرسےخدمت کامطالبہ کرتاہےتاکہ اس کی طرف سے اس کامقابلہ کریں اوروہ خوداپنے بسترے پرمزے کی نیند اڑائے۔اورجس کاکوئی لشکریاجماعت نہ ہواور اس کادشمن بھی ہوتو شاید کہ عنقریب اس پر اس کادشمن اس کے خلاف کامیابی حاصل کرے،اگرچہ کامیابی کی مدت میں ذراتاخیرآجائے۔اوراللہ تعالیٰ ہی سے مددطلب کی جاتی ہے۔

نویں تدبیر:حاسد کی آگ،ظلم اورتکلیف کواحسان کے ذریعےدورکرنا

نویں تدبیر (جوتمام اسباب میں نفس پر سب سے مشکل اور سب سے بھاری ہے،اورجس کی توفیق صرف اس شخص کوملتی ہےجس کواللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک بڑاحصہ دیاہو)یہ ہےکہ حاسدکی آگ،اس کاظلم اوراس کی طرف سے تکلیف کواحسان کے ذریعےدورکیا جائے۔اورجس قدروہ تعدی(ظلم) میں زیادتی کرے اتناہی اس کے ساتھ احسان زیادہ کرےاوراس کے ساتھ اظہارِہمدردی کرکےاس کی اعانت ،خیرخواہی اورشفقت کاسلوک کرے۔لیکن دشمن سے ایساسلوک کرنانفس پرنہایت شاق گزرتاہےاوراس لئے بہت کم خوش نصیب اور سعادت مندلوگوں کوایساکرنے کی توفیق ملتی ہےجیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادمبارک ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ0 وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ 0وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ([32])

ترجمہ:۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔ اور یہ بات انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں، اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو بیشک وہ سنتا (اور) جانتا ہے۔

دوسری جگہ ارشادربّانی ہے:

أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ([33])

ترجمہ:۔ ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

آپ حضورﷺ کی اس حالت پرغور کیجئے کہ حضورﷺ نے ایک مرتبہ ایک نبی علیہ السلام(بعض کے نزدیک اس سے نوح علیہ السلام مرادہےجب کہ بعض کےنزدیک یہ حضورﷺاپناحال بیان فرمارہاہے) کاحال بیان فرمایاکہ ا سکی قوم نے راہِ حق میں اس کو پتھروں سے مارمارکرخون آلودکیاتواس نے اپنے چہرے سے خو ن پونچھتے ہوئےکہا:

اللھمّ اغفرلقومی فانھم لایعلمون ([34])

ترجمہ:۔اےاللہ !میری قوم کوبخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔

اس پیغمبر نے کس طرح ایک ہی جملے میں احسان کے چارطرح مقامات کوجمع کیاجس نے ان کی بڑے بڑے گناہوں کے مقابلے میں ا ن کے ساتھ یہ احسانات کئے۔

(۱)ایک یہ کہ ان کی سخت ترین برائی کومعاف کیا ۔

(۲) یہ کہ ان کےلئے بخشش طلب کی۔

(۳) یہ کہ ان کےلئےایک عذرپیش کیاکہ وہ نہیں جانتے۔

(۴) یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کوزیادہ قریب لانے کےلئےان کی نسبت اپنی طرف کی اور کہا(اغفرلقومی)(یعنی میری قوم کومعاف کرو) جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے پاس سفارش کرتے ہوئے کہتاہےکہ یہ میرابیٹاہے، میراغلام یامیرادوست ہےاس کے حق میں میری سفارش قبول کرو۔

اب وہ کون سی چیز ہےجونفس پرزیادہ آسان ہو،اس کواچھالگےاوراس پرانعام کرے۔تو سمجھوکہ اے مخاطب! تم اپنے دل میں سوچ لوکہ آخرتم نےبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکےبہت سے گناہ کئےہیں جن کی سزاء سے تم خائف ہواور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش کے تم امیدواربھی ہو،اور اس معافی کی امید پراکتفاء نہیں کرتے،بلکہ تم یہ بھی چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پراپنافضل اور انعام فرمائے،اور تم پرتمہاری اپنی امیدوں سے بڑھ کراحسان کرکے تم کوفائدہ پہنچائے ۔ جب تم اپنے حق میں اللہ تعالیٰ سےیہ سلوک چاہتے ہوتواس سے پہلے تم کوچاہئےکہ خود اپنے حاسدوں اور بدخواہوں سے(جوتمہارے گناہگارہیں)عفوواحسان کاسلوک کرے۔یقین کامل یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے ایساہی سلوک کرےگاکیونکہ جزاء(بدلہ)عمل کے جنس سے ہوتی ہے۔ توجیساتم لوگوں کے ساتھ برائی کے دوران جوعمل کروگے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ تمہارے گناہوں اوربرائیوں میں ایساہی پورامعاملہ کرےگا،توان سے اس کے بعدانتقا م لے لو،یااس کو معا ف کردو،یااس کےساتھ احسان کرو،اوریااس کو چھوڑدو،جیسامعاملہ کروگے،تمہارے ساتھ بھی ایسامعاملہ ہوگا،اورجیساتم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ جوعمل کروگے آپ سے بھی ایساہی ہوگا۔توجب کوئی یہ معنی سوچ لیں اور اس کے ساتھ اپنی سوچ مشغول رکھیں ،تواس کے لئے اس شخص کے ساتھ احسان کرناآسان ہوگاجس نے ا س کے ساتھ برائی کی ہے۔اوریہ چیز اورخاصیت صرف اس شخص کوہی حاصل ہوتی ہے جس کے ساتھ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی معاونت اور مددہو۔

جیساکہ مروی ہےکہ کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں اپنے قرابت والوں کی شکایت کی کہ میں ان سے نیکی کرتاہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا:

لایزال معک من اللہ ظہیر،مادمت علیٰ ذلک ([35])

ترجمہ:۔" جب تک تم اس عمل پرقائم رہوگے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارےساتھ ایک (غیبی) مددگار رہےگا"۔

قطع نظرآخرت کے ثواب اور اجرکے اس دنیا میں بھی ایساشخص لوگوں میں ہردل عزیز ہوتاہےاور وہ اس کے ثناخوان رہتے ہیں اور دشمن کے مقابلے میں وہ ہمیشہ ا س کاساتھ دیتے ہیں کیونکہ جوشخص کسی دوسرے کےساتھ احسان کرتاہےاوروہ اس سے برائی کرتاہے،توہرایک شخص فطری طورپراوّل الذکر (محسِن) کا ساتھ دےگااور دوسرا(برائی کرنےوالا)اس کے نزدیک قابلِ ملامت ہوگااس لئے دشمن کے ساتھ احسان کرکے تم نے گویانامعلوم طور پراپنےلئے ساتھیوں اورمددگاروں کاایک بڑالشکربنالیاجونہ اس کوپہچانتے ہیں اورنہ وہ ان کوپہچانتے ہیں ،اوروہ نہ تم سےتنخواہ مانگتے ہیں اور نہ روٹی کامطالبہ کرتے ہیں ۔

محسِن کے دشمن اورحاسد کےلئے ایسی حالت میں دوصورتیں اورحالتیں ہیں !

ایک صورت اور حالت یہ ہے کہ وہ اس کے متواتر احسانات سے متاثرہوکرحسد چھوڑدےاور اس کااحسان مند بن جائے ۔اس صورت میں وہ دونوں شیروشکر ہوکرایک دوسرے کے دوست بن جائیں گےاورلوگوں کی نظر میں بھی یہ حاسد محبوب بن جائےگا۔اوراگربالفرض اس کاخبثِ نفس اس کوحسدچھوڑنے نہیں دیتااوروہ اپنے محسود کوضرروتکلیف پہنچانے سےبازنہیں آتاتواس کاانجام یقیناًہلاکت ہی ہوگا،اوراس کومحسِن کےاحسان کے بدلے میں سخت انتقام سے گزرناپڑےگا۔ اور جس نے بھی اس کام کاتجربہ کیاہےاس نے حق کی معرفت ضرور کی ہے۔اوراللہ تعالیٰ توفیق دینے والااوربہترین مددگارہے،تمام نیک کام اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے،اس کے سِوا کوئی معبودنہیں ۔اوروہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ہمیں اورہمارے بھائیوں کواپنے فضل واحسان سے اس کام (احسان کرنے)کی توفیق دے۔

دسویں تدبیر:عالمِ اسباب کونظراندازکرکے خالقِ حقیقی کونفع وضررکامالک سمجھنا

دسویں تدبیر (جوان تمام اسباب کاجامع ہے اور سب کامدار اسی پرہے )یہ ہےکہ تمام ظاہری اسباب سے اپنی نظرکوآگے بڑھاکرمسبّب الاسباب پراپنی نظرجمانا،اوراس بات کا یقین رکھناکہ یہ تمام علل واسباب ہواکے حرکات کی مانندہیں اوراس کوحرکت دینے والاایک ذات موجود ہے جوان کاپیداکرنےوالااوران کووجودبخشنےوالاہےاوردنیامیں کوئی کسی کونفع اورنقصان اس کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچاسکتا۔وہی کسی کے دل میں ڈالتاہے کہ تم سےاحسان کرےاورکسی کے دل میں ایسی صفت پیداکردیتاہےجس کی وجہ سےوہ تمہارےساتھ برائی کرنےپرآمادہ ہوتاہے۔اس کے سِواکوئی دوسرامعبودِ حقیقی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ([36])

ترجمہ:۔اور اگر خدا تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں ۔ اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ۔

اسی طرح ایک مرتبہ حضورﷺ نےعبداللہ بن عباسؓ کومخاطب کرکے فرمایا:

واعلم ان الامۃ لواجتمعوا علیٰ ان ینفعوک بشئی لم ینفعوک الابشئی کتبہ اللہ لک،ولواجتمعوا علی ان یضروک بشئی لم یضروک الابشئی کتبہ اللہ علیک ([37])

ترجمہ:۔ تم جان لوکہ اگرتمام لوگ اکٹھےہوکرتم کوکوئی نفع پہنچاناچاہیں ،اوراللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدرنہ کیاہوتووہ ہرگزتم کو نفع نہیں پہنچاسکیں گےاسی طرح اگروہ سب اکٹھے ہوکرتم کوکوئی تکلیف پہنچاناچاہیں جواللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تقدیر میں نہیں لکھی ہےتووہ ہرگزتم کوکسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے۔

جب انسان اس حقیقت کو پیشِ نظررکھ لے اوراپنی توحید کوخالص کرلےتواس کے دل سے ماسویٰ(اللہ تعالیٰ کے علاوہ)کاخوف نکل جاتاہے،بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سےڈرتاہےاور وہ اس کوخوف سے امن دیتاہے۔اوراس کے دل سے خوف کااہتمام ،اشتغال اورفکرنکال دیتاہے اوراس کوخالص اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت (خوف) ، انابت (رجوع)توکل(بھروسہ)اورذکراللہ کے ساتھ غیر کے علاوہ مشغول کردیتاہے،اوروہ سمجھتاہےکہ اگروہ اپنے آلاتِ فکریہ کودشمن سےڈرنےاوراس سے انتقام لینے کےخیال میں صرف کرےتواس سے اس کی توحید میں نقصان آجائےگاجس کووہ ہمیشہ خالص اورکامل رکھناچاہتاہےاوراس حالت میں خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت اورنصرت فرماتاہے اوراس کوحاسدوں اوردشمنوں کے شرسےبچاتاہےکیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی حمایت فرماتاہے،اس لئے اگرکسی شخص کاایمان کامل ہےتواللہ تعالیٰ ضرور اس کی حمایت کرےگاکیونکہ اس کے وعدے سچے ہیں اوران کے خلاف ہوناناممکن ہے،لیکن اگراللہ تعالیٰ اس کی حمایت کماحقہ نہیں فرماتاہے تویقین سمجھ لوکہ اتنا ہی اس کاایمان ناقص ہوگا۔

ایک بزرگ کاقول ہے کہ جوشخص بالکلیہ اپنے خداکی طرف متوجہ ہوتاہے تواللہ تعالیٰ بھی بالکلیہ اس کی طرف متوجہ ہوتاہے ، اورجوشخص بالکلیہ اللہ تعالیٰ سے منہ پھیرتاہے،اللہ تعالیٰ بھی اس سےمنہ پھیرلیتاہے۔لیکن جوشخص کبھی کبھی خدا کی طرف متوجہ ہوتاہےاللہ تعالیٰ بھی کبھی کبھی اس کی طرف متوجہ ہوتاہے۔

الغرض توحیدایک مستحکم قلعہ ہےجوشخص اس کے اندرداخل ہواوہ تمام بلیّات ،آفات اورمصائب سے مامون ہوگا۔ ایک بزرگ کاقول ہےکہ "جوشخص اللہ تعالیٰ سےڈرتاہےاس سے ہرچیزڈرتی ہے،لیکن جوشخص اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتاوہ ہرایک چیز سےڈرتاہے۔ "

خلاصۃ البحث

حسددوسری جسمانی بیماریوں کی طرح ایک مہلک روحانی بیماری ہے،جس کااثرصرف حاسد کی جسم ،روح اورزندگی پرنہیں پڑتا،بلکہ ا س سےمعاشرے کے دوسرے افرادبھی متاثرہوتےہیں۔اس لئے قرآن وحدیث میں ا س سے سخت پناہ مانگی گئی ہے،اورمسلمانوں کوبھی پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے،کیونکہ حاسد ایک انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ایک عظیم نعمت کامقابلہ حسدسےکرتاہےجوکہ ایک ممنوع عمل ہےاس لئےکہ حاسد کی چاہت محسودسےاللہ تعالیٰ کی نعمت کازوال ہوتاہے،خواہ اس کووہ نعمت مل جائے یانہیں جب کہ اس نعمت کاحصول وہ رشک کی صورت میں بھی کرسکتاہےجس کافائدہ یہ ہوگاکہ محسودسے نعمت بھی زائل نہ ہوگااورحاسدکووہ نعمت مل جائےگا،اوریہ ایک مشروع اور جائز عمل ہے،اس صورت میں وہ ایک مہلک گناہ اوربیماری سے محفوظ رہےگا۔اس کے علاوہ مذکورہ پورے دس وہ بہترین تدابیر ہیں جن کے ذریعے حاسد اورنظرِ بدلگانے والےکےشرکودفع کیاجاسکتاہے، اورحاسد خودبھی حسدجیسی موذی بیماری سےبچ کردنیااورآخرت دونوں جہانوں کی ذلت اوررسوائی کی بجائےاللہ تعالیٰ کےہاں بہترین اجروثواب کامستحق بن سکتاہے،جوکہ ایک یقینی اورحقیقی کامیابی ہے۔

حوالہ جات

  1. حواشی وحوالہ جات (1)یہ زرع کی طرف منسوب ہے جو کہ شام کے جنوب میں حوران کا ایک گاؤں ہے ۔سخاوی، شمس الدین محمد بن عبد الرحمن، الضوء اللامع لأهل القرن التاسع،منشورات دار مکتبۃ الحیاۃ، بیروت، ج۱۱/۲۰۴
  2. (2)دمشق:۔یہ شام کا ایک مشہور شہر(دارالحکومت)ہے اور اس کو خوبصورت عمارات،سرسبزی، پھلوں کی بہتات اور پانی کی کثرت کی وجہ سے"جنۃ الارض"(زمینی جنت) کہا جاتا ہے۔ اور اس کو دمشق اس لئے کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں نے اس کے تعمیر میں کافی تیزی کا مظاہرہ کیا تھا۔جیسے اہل عرب کہتے ہیں۔ناقۃٌ دِمشقٌ یعنی تیز اونٹنی۔جبکہ اہل سیر کہتے ہیں کہ دماشق بن قانی بن مالک بن ارفخشذ بن سام بن نوحؑ کے نام پر اسے دمشق کہا جاتا ہے۔الحموی، شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومی (م: 62ھ)معجم البلدان،دِمَشْقُ الشّام،دار صادر، بيروت ، 1995 م ، ج 2 ، ص 463
  3. (3)یہ مدرسہ دمشق میں "سوق البزوریہ "میں واقع ہے جس کا پرانا نام "سوق القمح" ہے اس مدرسے کے بقایا جات اب بھی ہیں ۔ابن بدران ، عبد القادر بن أحمد بن مصطفى بن عبد الرحيم بن محمد بدران (م: 1346ھ) منادمة الأطلال ومسامرة الخيال،محقق: زهير الشاويش المكتب الإسلامی – بيروت(لبنان)، 1985م ،عدد الأجزاء: 1 ، ج ۱ ، ص ۲۲۷
  4. (4)۔الصفدی، صلاح الدين خليل بن أيبك الصفدی (م: 764ھ) ،الوافي بالوفيات،ابن ابی بکر،دار إحياء التراث – بيروت ، 1420ھ- 2000م، ج۲ ، ص ۱۹۵۔
  5. (5)شام :یہ شہر طولاً فرات سے عریش تک اور عرضاً طیء کے پہاڑوں سے لے کر بحر روم تک ہے ۔ نبی کریمﷺ سے روایت ہے کہ شام اللہ تعالٰی کے شہروں میں سے منتحب شہر ہے اور اس کی طرف اللہ تعالٰی کے منتحب بندوں کو لایا جاتا ہے ۔ شام وہ پاک زمین ہے جس کو اللہ تعالٰی نے انبیاءؑ کا منزل اور وحی کا مھبط بنایا ہے اس کی آب و ہوا اچھی ،پانی میٹھا اور لوگ ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے نیک ہیں ۔القزوينی، زكريا بن محمد بن محمود (م: 682ھ)آثار البلاد وأخبار العباد،الشام ،دار صادر – بيروت ،عدد الأجزاء: 1، ج ۱، ص ۲۰۵۔ ۲۰۶ ملخصًا۔
  6. (6)أبو زید ،بکر بن عبداللہ ، ابن قیم الجوزیۃ حیاتہ آثارہ مواردہ ، دارالعاصمۃ۔ ا۱۴۲۳ھ ، ص۲۱۔
  7. (7):۔ابن تیمیہ:ابو عبداللہ محمد بن ابی القاسم الخضر بن محمد بن الخضر علی بن عبداللہ المعروف بابن تیمیہ المقلب فخرالدین الخطیب الواعظ الفقیہ الحنبلی۔آپ اواخر شعبان ۵۴۲ھ کو حران شہر میں پیدا ہوئےوہاں پرفقیہ ابوالفتح احمد بن ابوالوفاء،ابوالفضل حامد بن ابوالحجرسے فقہ کی تعلیم حاصل کی،اورپھربغداد چلےگئےابوالفتح نصربن المنی،ابوالعباس احمد بن بکروس سےفقہ سیکھا۔وہ ایک عظیم شاعرہونے کے ساتھ ساتھ ایک کثیرالتصانیف مصنف بھی ہے۔وہ ۱۱صفرالمظفر ۶۲۱ھ کوحرّان میں وفات ہوئے ۔ ابن کثیر(۷۲۴ھ) ،اسماعیل بن عمربن کثیرالقرشی البصری،البدایہ النہایہ،ج۱۴،ص۱۳۵ ،داراحیاءالتراث العربی، ۱۴۰۸
  8. (8)اس سے مراد دمشق کی تاریخی جامع مسجد ہے جو اپنی حسن ، رونق اور شاندار ماضی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے،اس کی لمبائی دوسو اٹھاسی (۲۸۸) اور چوڑائی ایک سو اسی (۱۸۰) ذراع ہے ۔ السيرافی ، أبو زيد حسن بن يزيد (م: بعد 330ھ)رحلة السيرافي،مدينة دمشق، ج 1 ، ص 100 ۔ 102، ناشرمجمع الثقافی، أبو ظبی : 1999 م
  9. (9)مقبرة باب الصغير:دمشق شہر کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام باب الجابیہ اور دوسرے کا نام باب الصغیر ہے ان دونوں کے درمیان یہ مقبرہ ہے جس میں صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے شہداء کی کثیر تعداد مدفون ہےجس میں امّ المؤمنین امّ حبیبہؓ بنت ابّو سفیانؓ،امیر المؤمنین معاویہؓ بن سفیانؓ،بلال حبشیؓ، اویس قرنیؓ اور کعب الاحبارؓ شامل ہیں ۔ابن بطوطہ، محمد بن عبد الله بن محمد بن إبراهيم اللواتی الطنجی، أبو عبد الله، ابن بطوطہ (م: 779ھ)،رحلة ابن بطوطة ،ذكر أبواب دمشق،ج۱،ص ۳۱۹،ناشر: أكاديميہ المملكةالمغربية، الرباط : 1417 ھ
  10. (10)وليدُ بنُ حُسْنِي بنِ بَدَوِي بنِ مُحَمَّدٍ الأُمَوِيِّ ،معجم أصحاب شيخ الإسلام ابن تيمية ج1،ص146،ناشروسطن۔
  11. (11):۔ القرآن: الفلق ۱۱۳، ۵
  12. (12):۔ السِّجِسْتانی ،أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدی (م: 275ھـ) سنن أبي داود ج4، ص276،باب في الحسد،حديث نمبر4903، ناشر: المكتبۃ العصریۃ، صيدا – بيروت(لبنان)سطن۔
  13. (13):۔ابوالفضل،مولاناعبدالحفیظ بلیاویؒ،استاذ ادب ندوۃ العلماءلکھنؤ۔مصباح اللغات ص ۱۵۲،المصباح ۱۶۔اردو بازار لاہور،پاکستان سطن۔
  14. (14):۔کیرانوی،مولاناوحیدالزمان قاسمیؒ،استاد حدیث وادب دارالعلوم دیوبند،القاموس الوحید ج۱،ص ۳۳۶۔ادارۂ اسلامیات لاہور پاکستان سطن۔
  15. (15):۔أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمی الرازی،الملقب بفخر الدين الرازی خطيب الری(م: 606ھ)مفاتيح الغيب = التفسير الكبير ج ص3، 647، ناشر: دار إحياء التراث العربی – بيروت(لبنان)
  16. (16):۔ القرآن :ابراہیم۱۴، ۳۹
  17. (17):۔القرآن:الاعراف۷، ۲۰۰
  18. (18):القرآن: حمٓ السجدۃ۴۱، ۳۶
  19. (19):۔ القرآن:غافر۸۵،۴۰
  20. (20): ۔القرآن:آل عمران ۳، ۱۲۰
  21. (21):۔ الترمذی،ابو عیسی ٰ،محمد بن عیسیٰ بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك (م: 279ھـ)سنن الترمذی،ج4،ص 667، حديث نمبر 2516،ناشر:شركہ مكتبہ ومطبعہ مصطفى البابی الحلبی۔مصر،1395ه/ 1975م۔
  22. ((22):۔ القرآن: الحج۲۲، ۶۰
  23. (23):۔ القرآن:الطلاق ۶۵، ۳
  24. (24):۔ القرآن:صٓ ۳۸، ۸۳،۸۲
  25. (25):۔ القرآن: الحجر ۱۵، ۴۲
  26. (26):۔ القرآن:النحل ۱۶، ۱۰۰،۹۹
  27. (27):۔القرآن :یوسف ۱۲، ۲۴
  28. (28):۔القرآن: الجمعہ ۶۲، ۴
  29. (29):۔القرآن :الشوریٰ ۴۲، ۳۰
  30. (30):۔القرآن :آل عمران ۳، ۱۶۵
  31. (31):۔ ابو عبداللہ، البخاری ،محمد بن اسمٰعیلؒ بن ابراہیم ابن المغیرۃ بن بردِزبۃ [م:256ه] الادب المفرد بالتعلیقات،،ص 377،ج 11،ص حدیث نمبر716 ،باب ،فضل الدعاء۔ ناشر: مكتبۃ المعارف للنشر والتوزيع، الرياض، 1419 ھ - 1998 م ۔
  32. (32):۔القرآن : فصلت۴۱، ۳۶،۳۵،۳۴
  33. (33):۔القرآن : القصص ۲۸، ۵۴
  34. (34):۔ ابو عبداللہ، البخاری ،محمد بن اسمٰعیلؒ بن ابراہیم ابن المغیرۃ بن بردِزبۃ [م: ۲۵۶ھ]الادب المفرد بالتعلیقات،ج4،ص 175،حدیث نمبر3477 ،باب ،فضل الدعاء۔ ناشر: مكتبۃ المعارف للنشر والتوزيع، الرياض، 1419 ھ - 1998 م ۔
  35. (35):۔محمود محمد خليل،المسند الجامع ج12،ص149،حديث نمبر9327،ناشر: دار الجيل للطباعۃ والنشر والتوزيع، بيروت(لبنان)، الشركۃالمتحدة لتوزيع الصحف والمطبوعات، الكويت، 1413 ھ- 1993 م
  36. (36):۔ القرآن : یونس ۱۰، ۱۰۷
  37. (37):۔ الترمذی،ابو عیسی ٰ،محمد بن عیسیٰ بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك (م: 279ھـ)سنن الترمذی،ج4،ص 667،حديث نمبر2516، ناشر:شركہ مكتبہ ومطبعہ مصطفى البابی الحلبی۔ مصر، 1395ھ/ 1975 م۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...