Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

بچوں کی جسمانی سزا کا اسلام، بائبل اور عصر حاضر کے نظریات کی روشنی میں جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_607

Pages

24-41

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/179/168

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/179

Subjects

Bible Islam Contemporary Era Corporal Punishment

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اولاد وہ عظیم نعمت ہے جس کے لئے انبیاء السلام بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوتے تھے۔حضرت زکریا ؑ نے اولاد کے لئے دعا فرمائی :

رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ[1]

ترجمہ: اے میرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو دعا کا سننے والا ہے۔

اسی طرح حضرت ابراھیم ؑ کی اپنی اولاد کے نیک ہونے کی بہت ساری دعائیں قرآن مجید میں منقول ہیں۔ ہمارے یہاں بچوں کی پیدائش پر خوشیاں تو منائی جاتی ہیں لیکن ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت کے تقاضے عموماً نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں۔ والد ین کو اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور طبعی ضروریات پوری کرنے اور نقصان سے بچانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اسی طرح اساتذہ کرام کے لئے بھی ضروری کہ وہ بچوں کو اچھے اعمال واخلاق کا عادی بنائے اس لئے خالق کے بندے ہونے کی بنا ءپر ہمارا یقین ہے کہ انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کے نتائج ضرور واقع ہوں گے کیونکہ خالق کائنات کو جزا یا سزا مطلوب نہیں بلکہ انسان کی کامیاب زندگی مطلوب ہےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

مَايَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا[2]

ترجمہ: اگر تم (خدا کے) شکر گزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اور خدا تو قدر شناس اور دانا ہے۔

اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے باربار انسانوں میں سے ان کے خیر خواہ انبیاء علیہ السلام بھی بھیجے تا کہ انہیں بھولاہوا سبق یاد دلائیں اور سزاکی نوبت نہ رہے، توساتھ ہی توبہ جیسی عمل سے ان کی خطائیں معاف کرتا رہا ہے کہ خواہ مخواہ سزا دینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں لیکن ان تمام تر انعامات ،دلائل وبراہین اور انبیاء کے رسالت کے باوجود کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانےتو سزا کا حق محفوظ ہے ۔

بچوں کی تربیت اور اصلاح احوال کے لئےجو تادیبی رویہ اپنایا جاتا ہے اور ان کی اصلاح کی خاطرجو مناسب سرزنش اور سزا کا تصور ہے اس کےبارے میں دو قسم کے آراء ہیں ایک رائے مذہبی طبقہ کا ہے جس میں غالب اکثریت سامی مذاہب (یہودیت،عیسائیت اور اسلام) والوں کی ہے اور دوسرا لادینNon-religious طبقہ والوں کی رائےہے جو,Modernism Humanism اور Individualism کے علمبردار ہیں۔

اسلام اور تربیت اولاد

مذہبی طبقہ میں اسلام والدین کوبچوں کی تربیت کے ذمہ دار ٹھہراتا ہے انہیں بنیادی قوانین کے پابند بنانے کے لئے خودپیار ومحبت ، راست بازی اور درست عمل کا عملی نمونہ بننے کا حکم دیتا ہے تاکہ بچے نقصان سے بچ سکے اس طرح نافرمانی کی صورت میں والدین سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ[3]

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں "۔ حضرت عمر  فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے پر میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا"

يا رسول الله نقي أنفسنا فكيف لنا بأهلينا؟ فقال عليه الصلاة والسلام : " تنهوهن عما نهاكم الله عنه وتأمروهن بما أمركم الله به فيكون ذلك وقاية بينهن وبين النار[4] ترجمہ:اے اللہ کے رسول ! ہم تو اپنے آپ کو ( جہنم ) سے بچاتے ہیں لیکن اپنے اہل وعیال کو کیسے بچائے؟ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:انہیں ایسے اعمال سے منع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے اور ایسے اعمال کرانے کا حکم دو جس پر اللہ نے تمہیں حکم دیاہے جو ان کے اور جہنم کے درمیان مانع ہوگا۔ جبکہ حضرت علی سے اس آیت کے بارے میں نقل ہے کہ:

علموا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم[5]

ترجمہ:یعنی اپنے آپ کو اور اہل وعیال کو خیر کا علم سکھاؤاور انہیں ادب سکھاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر لازم کیا ہے کہ وہ خود ایسے اعمال صالحہ کیا کریں کہ اللہ کی رضا حاصل کرکے جہنم کی آگ سے بچ سکے توساتھ ہی اپنے اہل وعیال کو بھی نیک عمل پر آمادہ کریں تاکہ وہ بھی جہنم کی آگ سے بچ سکے ۔علامہ آلوسیؒ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ذکر کیاہے کہ اہل وعیال میں آدمی کی بیوی،بچے،غلام اور کنیز شامل ہیں[6]۔چونکہ بیوی،غلام اور کنیز بنیادی فرائض سے باخبر ہوتے ہیں اس لئے ان کی ذمہ داری کابوجھ کم تر ہوتا ہے لیکن بچوں کے بارے میں والدین پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کیونکہ انہیں اچھے اور برے اعمال میں تمیز سکھانا ہوتا ہے انہیں ایسی اعمال کی عادت ڈالنی ہوتی ہے جو اخلاق کے اعلیٰ معیار پر پورا اترے اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور خوشحالی ان کا مقدر بنے۔بچوں کی تربیت کے بارے میں عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے :

وعودوهم الخير، فإن الخير عادة[7]

ترجمہ: یعنی اپنے بچوں سے خیر کی اعمال باربار کراؤ کیونکہ خیر تو ایک عادت ہوتی ہے۔

اسی طرح نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :

إنّ أشد الناس عذاباً يوم القيامة من جهل أهله[8]

ترجمہ:یعنی قیامت کے دن وہ شخص زیادہ عذاب میں مبتلا ہوگا جس نے اپنے اہل وعیال کی تربیت میں کوتاہی کی۔

اسی طرح تاریخ بخاری میں ایک روایت بھی مذکور ہے:

قال النبي صلى الله عليه وسلم قال "ما نحل والد ولدا أفضل من أدب حسن[9]

ترجمہ:رسولﷺ نے فرمایا والد کا اپنے بچے کے لئے اس سے زیادہ بہتر عطیہ کوئی نہیں کہ اسے اچھا ادب سکھائے۔

معجم الطبرانی کی روایت میں ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:

ترجمہ:لأن يؤدب أحدكم ولده خير له من أم يتصدق كل يوم بنصف صاع على المساكين[10]

ترجمہ: یعنی کسی کا اپنے اولاد کو ادب سکھانا ہر روز مسکین کو نصف صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے"

اسی طرح تربیت اولاد کے سلسلے میں مرد و زن کا کوئی فرق نہیں رکھا بلکہ بیٹے اور بیٹی دونوں کی یکساں ومناسب تربیت کی ترغیب دلائی ہے بیٹیوں کی تربیت کے فضیلت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :

من عال جاريتين بنتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين وضم أصابعه [11]ترجمہ:.یعنی جس نے دو بیٹیوں کی بلوغت تک پرورش کی تو قیامت کے دن وہی شخص میرے ساتھ اس طرح قریب ہوگا آپ ﷺ نے دو انگلیوں کو ایک ساتھ ملاکر اشارہ کیا۔

بچوں کی تربیت کے بارے میں جو فضائل اور تاکیدات ذکر ہوئے وہ اس معاملے کی حساسیت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے وہ بچے کی دنیوی زندگی کے ساتھ اخروی زندگی بھی بربادکردیتی ہےتو ساتھ ہی والدین کی زندگی پر بھی برے اثرات چھوڑدیتی ہے اس لئے والدین کوبچوں کے اچھے اخلاق کے ساتھ ان کے بے ضابطگی کے جواب دہ بھی بنائے ہیں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ[12]

ترجمہ:تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ان سے اپنے رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا پس لوگوں کا امیر ایک نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی اپنے اہل کا نگہبان ہے جس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگہبان ہے جس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے جس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

جہاں تک بچوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاق کا تعلق ہے تو ماں باپ کی اپنی تربیت واخلاق ،ان کے جذبات وخواہشات اوران کے علم و ذہانت اور ماحول کااثر براہ راست بچوں پر پڑتا ہے، اس لیے مثالی اور باکردار اولاد کی آرزو کے حوالہ سے والدین خود کوسچائی،دیانت داری،دین داری اور اچھے اخلاق کا نمونہ بنانا چاہیے جس سے معاشرہ اور ماحول بھی ایک اچھا نمونہ پیش کرسکے گا تو بچوں میں بھی یہی صفات بآسانی پروان چڑھ سکیں گےجہاں کہیں کوتاہی نظر آئے گی تو اس کی اصلاح حضورﷺ کےبتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرنی چاہئے ۔

بچوں کی تہذیبی وتادیبی عمل

بچوں میں نماز کی عادت ڈالنے اور انہیں اس فریضہ کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے کے لئے حضورﷺ نے جو طریقہ کا ر ارشاد فرمایا ہے اس سے ہمیں بچوں کی تربیت اور راہ راست پر لانے میں کافی رہنمائی ملتی ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ[13]

ترجمہ:اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں اور جب دس برس ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو اور ان کے بستر بھی الگ کردو۔

نماز چونکہ خاص عمر تک پہنچنے کے بعد ہر مسلمان عاقل بچے پر اس طرح فرض ہوجاتی ہے جو کسی بھی طورپر معاف نہیں ہوسکتا اس لئے ابتداء ہی سے بچوں کو گفتگو سکھاتے وقت نماز کے الفاظ سکھانے چاہئے تاکہ عمر کے بڑھنے پر وہ نماز کے الفاظ سیکھ چکے ہووالدین کو دیکھ دیکھ کر نماز کا طریقہ بھی سیکھتے رہےسات سال کے بعد بچے کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے مسجد لے جانا چاہئےگھر پر بھی نماز کا ماحول پیدا کرکے بچوں میں اس کی عادت ڈالنی چاہئے دس سال کی عمر تک انہیں صرف محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے نمازی بنانے کی کوشش کرنے چاہئے اگر وہ اس میں غلطی کریں یا کوتاہی کا ارتکاب کریں تو انہیں کوئی خاص سزا یا سرزنش نہیں کرنی چاہئے بلکہ پیار ومحبت سے انہیں نماز کا عادی بنایاجائے۔

دس سال تک جب نماز جیسی اہم عبادت کے لئے بچوں پر زبردستی کی بجائے پیار ومحبت اور دوسرے طریقوں سے نماز سیکھنے اور اس کی عادت ڈالنے کی تاکید کی گئی ہو تو دوسرے علوم وفنون سکھانے کے لئے سختی کی بجائے پیار ومحبت اور کھیل کھیل میں سیکھنے کا ماحول پیدا کرنا والدین اور معلمین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سات سال کی عمر تک پڑھانے کے لئے جسمانی سزا کا تصور بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں انعامات واعزازات وغیرہ کا لالچ دیکر یا انہیں ایسی امتیازی پوزیشن سے محرومی کا خوف دلاکر سیکھنے میں دلچسپی پیدا کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر انہی ابتدائی سالوں میں والدین غفلت کا ارتکاب کریں سیکھنے کے لئے مناسب ماحول پیدا نہ کریں بچوں کے اساتذہ کے ساتھ تعاون نہ کریں ان کے سیکھنے سکھانے سے بے خبر ہو تو نتیجتاً اساتذہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دوسرے نامناسب طریقےاستعمال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

نماز نہ پڑھنے پر سزا کا تصور

دس سال کی عمر کے بعد بھی اگر کوئی بچہ نماز جیسی اہم فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو پھر انہیں مناسب سزا دی جانی چاہئے رحمت عالم ﷺ نے ہمارے لئے سزا دینے کی اصولی اجازت دی لیکن خود سزا دینے کی کبھی نوبت نہ آنے دی بلکہ اپنے بہترین اخلاق سے بچوں اور بڑوں کو گرویدہ بنا رکھے تھے۔حضور ﷺ مناسب سزا کے تصور کو اہل وعیال کے لئے قائم رکھنے کی ترغیب دلاتے تھے، جیسا کہ حضرت معاذ  کو فرمایا

علق سوطك حيث يراه أهلك[14]

ترجمہ: اپنےگھر میں ایک چھڑی لٹکائے رکھ تاکہ گھر والے اسے دیکھا کریں۔

نبی کریم ﷺ تو حیوانوں پر بھی مہربان تھے جب ایک اونٹ ہانکنے والا تیز چلنے کے لئے اپنے اونٹ کو ماررہے تھے جو زیادہ وزن کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے تو آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔حضرت انس  نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس سال تک خدمت میں رہے لیکن کبھی بھی آپ ﷺ نے اس کی سرزنش نہیں کی جو آپ ﷺ کی نہایت مہربان ہونے اور شفقت بھرے ماحول کی واضح دلیل ہے[15]

نماز کی ادائیگی میں کوتاہی بچے کے خلاف مناسب سزا کا حق دیکر اسلام نے بچے کی تربیت میں ایک نمایاں عمل کی طرف اشارہ دیا کہ بچے کے سرپرست اور استاد کو حق حاصل ہے کہ دس سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو تعلیم وتربیت دینے کے لئے تمام نفسیاتی پہلووں پر عمل کریں انہیں اچھے برے اعمال کی مسلسل مشق کے ذریعے اپنانے یا دریغ کرنے کی عادت ڈالی جائے مسلسل اچھی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں انعامات سے نوازا جائے ناکامی یا کوتاہی کی صورت میں محرومی کا خوف دلاکر استاد اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کریں اگر یہ حربے کاگر ثابت نہ ہو تو پھر مناسب جسمانی سزا کا حق بھی والدین اور اساتذہ کو حاصل ہےجیسا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایاہے۔

جسمانی سزا کے لئے ضوابط: جسمانی سزا کا اثر بچے کے فطرت پر ضرور پڑے گاکیونکہ خود خالق کائنات نے اپنے بندوں کو وعظ ونصیحت کے بعد حکم عدولی کی صورت میں سخت سزا کی وعید سنائی ہے اورقیامت کا عقیدہ بھی انسان کی اعمال پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اسی تناظر میں آپ ﷺ نے نماز جیسی عبادت میں کوتاہی کرنے والے کے خلاف تادیبی کروائی کا حکم دے کر اس کی اہمیت واضح کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کے اصلاح کے لئے سزا ہی کو اصل کل نہیں بتایا ہے بلکہ ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء علیہ السلام بھیج کر وعظ و نصیحت کو ترجیح دی،وعظ ونصیحت اور روئیے سےناگواری کا اظہار کرکے آخر میں مناسب سزا کی ایک مثال قرآن کریم میں میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی صورت میں ملتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَعِظُوهُنَّ یعنی سب سے پہلےانہیں سمجھا بجھا کر راضی کرنے کی کوشش کرو اگر یہ طریقہ کامیاب نہ رہے تو اگلے مرحلے میں ان سے دوری اختیار کرو لیکن وہ بھی صرف فراش پر، گھر سے باہر رہ کر بھی دوری اختیار کرنے کی ممانعت فرمائی کہ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِع [16]اور اس عمل سے بھی ان کی کوئی اصلاح نظر نہ آئے تو پھر انہیں مناسب سزا دو وَاضْرِبُوهُنَّ یہاں پر سزا کے اختیار کو بہت بعد میں عمل میں لانے کا طریقہ بتلایا ہے اور سزابھی غصے کی حالت میں دینے سے منع فرمایا ہے سر اور چہرے یا دیگر نازک اعضاء سے بھی بچے رہنے کی ترغیب دلائی گئی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:

ضربا غیر مبرح [17]سزا زخم چھوڑنے والی نہ ہو۔

والدین و اساتذہ کو سزا کا اختیار دے کر اسلام نے انہیں ہر گز آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ ہر وقت ہاتھ میں لاٹھی لیکر بچوں کو جانوروں کی طرح ہانکتے جائے معمولی معمولی باتوں پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنائے۔بلکہ اپنی فنی مہارت کو استعمال کرکے بچوں کی نفسیاتی فرق(Individual Differences) کو مدنظر رکھ کر ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں ان کی ذہنی استعداد(IQ)کے مطابق ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے ان کے گھریلوں مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لئے مناسب اقدامات کرنی چاہئے ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ اگر جسمانی سزا کی ضرورت پڑے تو جرم کا مناسب اندازہ لگا کر انتہائی سرد دماغ کے ساتھ شفقت بھرے لہجے میں سزا دینی چاہئے جس سے بچوں میں دشمنی کی بجائے ایک مشفق سرپرست کا تصور پیدا ہوجائے، غصے کی حالت میں کبھی بھی سزا نہیں دینی چاہیئے کیونکہ خطا کی مناسبت کا درست اندازہ اس وقت ممکن نہیں ہوتا،پانی پی کر،چند قدم چل کر یا بیٹھ کر جب غصہ چلاجائے تب سزا دینی چاہیئے اور سر،چہرہ یا دوسرے نازک اعضا کو ہر حال میں مدنظر رکھنی چاہئے اور سزا بھی کسی قسم کی زخم چھوڑنے والی نہ ہو[18],لیکن ہمارے ہاں بعض والدین اور عام طورپر اساتذہ کرام ومعلمین حضرات بچوں کے سزا کے لئے اپنے آپ کو ہر قسم کی پابندی سے مبرا سمجھتے ہیں وہ کسی بھی قسم کی غلطی کی صورت میں سزا ہی کو واحد حل تصور کرتے ہیں نہ حالات کا ادراک کرتے ہیں اور نہ ہی سزا کی مناسبت کو دیکھتے ہیں بلکہ بعض اوقات غصے کی حالت میں سزا دیکر نازک اعضاء کو متاثر کرتے ہیں جو ہر گز کسی مسلمان سرپرست یا استاد کو زیب نہیں دیتا۔

بائبل اور تربیت اولاد

اہل مذاہب میں اسلام کے علاوہ اہل بائبل یعنی عیسائی بھی اس دنیا میں کثیر تعداد میں موجود ہیں لہذا اولاد کی تہذیب و تربیت اور انہیں مناسب سزا دینے کے لئے بائبل کے تعلیمات کو پیش کرنا ضروری ہیں۔

1۔ لڑکے سے تادیب کو دریغ نہ کر۔اگر تو اسے چھڑی سے مارے گا تو وہ مر نہ جائے گا۔تو اسے چھڑی سے مارے گا اور اس کی جان کو پاتال سے بچائے گا۔ [19]

2۔ لڑکے کی اس راہ میں تربیت کر جس پر اسے جانا ہے تو وہ بوڑھا ہوکر بھی اس سے نہیں مڑے گا ۔[20]

3۔ حماقت لڑکے کے دل سے وابستہ ہے لیکن تربیت کی چھڑی اس کو اس سے دور کرے گی۔ [21]

4- چھڑی اور تنبیہ حکمت بخشتی ہے لیکن جو لڑکا بے تربیت چھوڑدیاجاتا ہے اپنی ماں کو رسوا کرے گا۔[22]

5۔ جو اپنی چھڑی کوباز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے پر وہ جو اس سے محبت رکھتا ہے ہر وقت اس کو تنبیہ کرتا ہے ۔[23]

6- اے اولاد والو! تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاو بلکہ خداوند کی طرف سے تربیت اور نصحیت دے کر ان کی پرورش کرو[24]

7- اپنے بیٹے کی تربیت کراور وہ تجھے آرام دے گا اور تیری جان کو شادمان کرے گا۔ [25] 
9-اے فرزندو! خداوند میں اپنے ماں باپ کے فرمان بردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔ [26] 
10-اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوکر ناصرہ میں آیا اور ان کے تابع رہا اور اس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں۔[27] 
بائبل کی ان تعلیمات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے واسطے صرف سزا ہی کا راستہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ مناسب انداز میں ہر طرح سے اچھی تعلیم وتربیت کی کوشش کرنی چاہیے اس لئے بچوں میں حماقت ہوتی ہے اور اچھی تعلیم وتربیت سے ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے لیکن بچوں کو بھی حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کا فرمان بردار رہنا ان پر واجب ہے۔

بچوں کی جسمانی سزا، غیر مذہبی طبقہ کی نظر میں

تربیت اولاداور ان کو جسمانی سزا دینے کے حوالے سے دنیا میں تیسرا طبقہ غیر مذہبی Non-religiousکہلاتا ہے جو انسانیت[28] Humanismاور انفرادیت Individualism[29] کے علمبردار ہیں جن کے مطابق تمام لوگ فطری طورپر آزاد زندگی بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں جوچاہے کھائے پیئے قوانین ان کے خواہشات پر بناکرتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئےکسی مخصوص قانون اور ثقافت کے پابند نہیں ہوتے ۔ ان کےہاں ضابطہ اخلاق Code of Conductان کے اپنے مرضی سے بنائے ہوئےقوانین ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت کثرت رائے سے تبدیل ہوسکتے ہیں ۔اس نظرئیے کو دنیا کے بہت سے ممالک میں شعوری یا لاشعوری طورپر اپنایاگیا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی اکثریت مذہب سے بیزار زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں پر انسانی حقوق کے خصوصی آوازیں اٹھائی جاتی ہیں حقوق نسواںمیں عورتوں کے لئے مردوں کے برابریکساں حقوق کی بات کی جاتی ہے جبکہ بچوں کے حقوق(Children’s Right) کے تحت بچوں سے مشقت اور ان کے جسمانی سزا سے متعلق تحاریک کام کرتے ہیں جس میں گھر کے اندر یا سکول میں بچوں کو کسی بھی قسم کی سزا جو اس کے لئے ضرر والی ہو یا اس سے وہ اپنی ہتک محسوس کریں کے خلاف رائے عامہ تیار کی جاتی ہےاس کے خلاف باقاعدہ قانون سازی کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں سب سے پہلا ملک پولینڈ ہےجس نے 1783 میں سکول کے بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پاندی لگائی ہےجس کے لئے انگریز فلسفی جان لاک نے کام کرکے اسے ممکن بنایا:

The English philosopher John[1]Locke who’s Some Thoughts Concerning Education explicitly criticized the central role of corporal punishment in education. Locke's work was highly influential, and may have helped influence Polish legislators to ban corporal punishment from Poland's schools in 1783, the first country in the world to do so.[30]

اسی طرح یورپی ملک سویڈن نے بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف قانون سازی کرکےدوسرے ممالک کے لئے لائحہ عمل پیش کیا اس کے بعد تقریبا41 ممالک نے اس قانون کو منظور کیا .[31] 

The new Swedish Parental Code reads: "Children are entitled to care, security and a good upbringing. Children are to be treated with respect for their person and individuality and may not be subjected to corporal punishment or any other humiliating treatment.[32]

اس قانون سازی کی بنیادی وجوہات میں سے چند ایک وہ حادثاتی واقعات ہیں جس میں سزا سے بعض بچوں کے ہڈیاں ٹوٹی جبکہ بعض کی موت بھی واقع ہوئی تھی۔

In some countries this was encouraged by scandals involving individuals seriously hurt during acts of corporal punishment. For instance, in Britain, popular opposition to punishment was encouraged by two significant cases, the death of Private Frederick John White, who died after a military flogging in 1846[33].

 And the death of Reginald Chancellor, killed by his schoolmaster in 1860.[34]

دوسری طرف دیکھاجائے تو ان ترقی یافتہ ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ مہارت کے بدولت تدریسی ماحول کے لئے وہ تمام سہولیات فراہم کرنا ہے جو ایک فرد یا ریاست فراہم کرسکتا ہے لیکن سائنس کے افادیت کے مقابلے میں ایک مسلمہ کمی یہ بھی ہے کہ یہ اپنے کارندوں میں اچھے اور برے کی کوئی تمیز سکھانے میں ناکام رہا ہےیہی قانون سازی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔لیکن اس قانونی پابندی کے نتیجے میں بہت سے بچے جو جسمانی طورپر تو خاصے اچھے ہیں لیکن اخلاقی اور ذہنی طورپر وہ مرچکے ہوتے ہیں جو ان کے جسمانی موت سے زیاہ نقصان دہ ہے۔ اس فکر والوں کی رائے یہ ہے کہ ہر انسان فطری طورپر آزاد ہے اور وہ اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کرسکتا ہے ۔تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ لوگوں میں کچھ حد تک پذیرائی ملنے کے بعد اس نظرئے کو بچوں کے بارے میں بھی اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ان لوگوں کی اپنی خاص تہذیب اور تمدن ہے جس میں لوگوں خاندانی نظام سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیں بچے والدین کی رہنمائی کو خاص اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی والدین اپنے بچوں پر کوئی خاص رائے منواسکتے ہیں بچوں کو والدین کے نامناسب رویے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے اولاد اگر کسی نامناسب رویے کے مرتکب ہورہے ہیں تو والدین ہاتھوں پر ہاتھ دھرے رہتے ہیں جو بعض اوقات بڑی پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں اور والدین کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کررہے ہوتے ہیں کیونکہ پہلے پہل تو وہ ان جانے میں ایسا کرتے ہیں پھر یہ ان کی عادت بن جاتی ہے اور اگر جان چھڑانا بھی چاہے تو نہیں چھڑاسکتے ۔جس کا واحد حل والدین کو بچو ں کی اصلاح کے اختیارات واپس دلا کر انہیں بااختیار بنانا ہے کیونکہ یہی ایسا طبقہ ہےجو ریاست اور بچوں کے اصل خیر خواہ ہیں۔انہیں مختلف طریقوں سے برے عمل سے پرہیز اور درست عمل کی ترغیب دینے پڑے گی جو انعام واکرام،عزت افزائی، ترقی وتنزلی،خوف محرومی اور خوف سزا کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

خلاصہ البحث

اس سارے بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کی جسمانی سزا کے بارے میں تین قسم کی آراء ہمیں ملتی ہیں ایک رائے ان لوگوں کی ہے جو جسمانی سزا کو اپنا حق سمجھ کر بچوں کے ساتھ ہر قسم کا جارحانہ رویہ رواء رکھتے ہیں ان کے ساتھ گھروں اور سکولوں میں معمولی معمولی غلطی پر بڑے بڑے سزاؤں کو جائز خیال کرتے ہیں ان کے ساتھ شفقت کا رویہ یا ان کا مسئلہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ بعض اوقات ان کے جسم کو بہت بڑا نقصان بھی پہنچاتے ہیں یہ لوگ مذہب سے بے خبر ہوتے ہوئے مذہب کی آڑ میں ایسا کرتے ہیں یا جدید تدریسی طریقوں سے ناواقف رہ کر روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہوتے ہیں جو لامحالہ ایک دوسری انتہاء کا باعث بنتے ہیں اور وہ بچوں کے جسمانی سزا کے خلاف قانون کی شکل میں ایکٹ منظور ہونا اور اس جرم کے مرتکب کو جیل اور بھاری جرمانے تک کی قانونی کاروائی کا حق ریاستی اداروں کو حاصل ہوناہے۔

بچوں کی جسمانی سزا کے بارے میں دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو اس کو بالکل شجر ممنوعہ سمجھتے ہے حالانکہ بچے تو نادان ہوتے ہیں جو اپنے نفع ونقصان میں تمیز نہیں کر سکتے ۔جس طرح ان کو چلنا پھرنا ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا والدین یا ان کے سرپرست سکھاتے ہیں ۔اسی طرح ان کی علمی،اخلاقی ،روحانی تربیت کے لئے مناسب تادیب کروانا ضروری ہو تا ہے۔

بچوں کی جسمانی سزا کے بارے میں تیسرا اور معتدل رویہ یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تربیت کے لئے جسمانی سزا کا حق حاصل ہے لیکن سزا کی اس اختیار کو بہت بعد میں استعمال کیا جائے گا جب بچوں کے نفسیاتی مسائل جان کر،ان کے انفرادی اختلافات معلوم کرکے ان کے ذہنی معیار کے مطابق تعلیم وتدریس کا ماحول پیدا کیا جائے کلاس اور سکول یا گھر کا ماحول ہر لحاظ سے معتدل اور نفسیاتی اصولوں پر قائم ہو،اگر پہلی بار کوئی غلطی کریں تو اسے معاف کرکے اصلا ح کی کوشش کی جائے انہیں انعام واکرام کے ماحول میں حوصلہ افزائی کرکے سیکھنے کی ترغیب دلائی جائے انہیں اچھے اور برے اعمال کا خود نمونہ بن کربتانے کی کوشش کی جائے سچ اور جھوٹ کو والدین اوراساتذہ اپنے عمل سے ثابت کریں ،اس کے بعد بھی جب سزا کی نوبت آئے تو غصہ ٹھنڈا کرکے جرم کی مناسبت کو دیکھ کر شفقت بھرے لہجے کے ساتھ سزا دی جائے اگر کوئی استاد یا سرپرست ان اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو شائد اسے سزا دینے کی بجائے بہت سےدوسرے طریقوں کے ذریعے ان کے مسائل کو حل کرچکے ہوں گے۔سزا کا یہ تصور بنیادی طورپر اسلام ہی دیتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب بھی اپنے حقیقت کے ساتھ اس رویے کی حمایت کرتے ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی وحوالہ جات القرآن: آل عمران: 38
  2. لقرآن:النساء:147
  3. لقرآن: التحريم : 6
  4. الالوسی،شھاب الدین محمود ابن عبدللہ الحسینی،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم وسبع المثانی،دارالکتب العلمی ، بیروت،زیر آیت التحریم:6۔
  5. علامہ آلالوسی، روح المعانی تفسیر زیر آیت سورۃ التحریم
  6. علامہ آلالوسی، روح المعانی تفسیر زیر آیت سورۃ التحریم 6
  7. السیوطی،عبدالرحمن بن الکمال جلال الدین،الدرالمنثور2/216،دارالفکر ،بیروت،1993
  8. الزمخشری،ابوالقاسم محمود بن عمرو بن احمد،تفسیر الکشاف، دارالفکر، بیروت،زیرآیت سورۃالتحریم 6
  9. البخاری،محمد بن ابراہیم بن اسماعیل،التاریخ الکبیر،حدیث رقم:1356،دارالفکر،بیروت۔
  10. الطبرانی،سلیمان بن احمد بن ایوب ابوالقاسم،المعجم الکبیر،حدیث رقم:2032،مکتب العلوم والحکم،موصل،1404ھ۔
  11. مسلم،الامام،مسلم بن الحجاج ابوالحسن النیسابوری،صحیح مسلم،حدیث رقم :2631، دار احیاء التراث العربی،بیروت۔
  12. صحیح بخاری،حدیث رقم:893۔
  13. ابوداود،الامام،سلیمان بن الاشغث السجستانی،1/187،رقم495،دارالفکر،بیروت۔
  14. الطبرانی ،المعجم الکبیر،رقم: 10672، 10/285۔
  15. البغوی،الحسین بن مسعود،شرح السنۃ،المکتب الاسلامی،دمشق، بیروت1403ھ،حدیث رقم:3635، 13/235
  16. لقرآن:النساء: 34۔
  17. صحیح مسلم ،رقم:1218۔
  18. البیہقی،ابوبکراحمد بن الحسین بن علی،الاداب،1/24،رقم:41،دارالکتب العلمی، بیروت،1986م۔
  19. کتاب مقدس، عہد نامہ عتیق، ( لاہور: بائبل سوسائٹی )، امثال، باب 23، آیت،13
  20. عہد نامہ عتیق، امثال،باب 22،آیت 6
  21. عہد نامہ عتیق، امثال، باب 22،آیت 15
  22. عہد نامہ عتیق، امثال، باب 29،آیت 15
  23. عہد نامہ عتیق، امثال،باب 13،آیت 24
  24. عہد نامہ جدید،افیسیوں،باب 6 آیت 4
  25. عہد نامہ عتیق، امثال ، باب 29،آیت 17
  26. عہد نامہ جدید،افسیوں،باب 6،آیت 1
  27. عہد نامہ جدید، لوقا،باب 2،آیت 51
  28. A non-religious philosophy, based on liberal human value, Rejection of religion in favors of the advancement of humanity by its own efforts.)Little Oxford dictionary, Collins concise dictionary)
  29. That man should show respect to man, irrespective of class, race or creed, is fundamental to the humanist attitude to life. The attitude that people can live an honest, meaningful life without following a formal religious creed. Believing that it is possible to live confidently without metaphysical or religious certainty and that all opinions are open to revision and correction.) Pears Cyclopedia, 1978. Cambridge dictionary of Philosophy (
  30. Jump up, Newell, Peter ،A Last Resort Corporal Punishment in Schools, Penguin, London, 1972, p. 9. ISBN 0-14-080698-9
  31. www.endcorporalpunishment.org/pages/progress/prohib_states.html
  32. Jump up, Council of Europe (2007). Abolishing corporal punishment of children. Questions and answers. Building a Europe for and with children. Council of Europe Publishing: 32.
  33. Jump up Barrett’s, C.R.B. The History of the 7th Queen's Own Hussars Vol. II.
  34. Jump up Middleton, Jacob (2005). "Thomas Haply and mid-Victorian attitudes to corporal punishment”  History of Education.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...