Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

تاویل نصوص کی شرعی حیثیت |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029336_661

Pages

76-91

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/123/112

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/123

Subjects

Religious Texts Legal Status Qurān Hadith

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

قرآن و حدیث کے بعض نصوص بالکل واضح، صریح اور غیر متعارض ہیں جن میں کسی ابہام اور تاویل کی گنجائش نہیں، اور نہ ہی ان میں مختلف معانی اور آراء کا احتمال ہے، جبکہ بعض نصوص ایسے ہیں جو غیر واضح اور مجمل ہیں یا باہم متعارض ہیں ان میں کسی ایک معنیٰ کی تعیین اور ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لئے تاویل کی ضرورت پڑتی ہے مگر نصوص متعارضہ اور مجملہ میں تاویل کرکے کسی ایک معنیٰ اور مراد کی تعیین ہر کسی کا کام نہیں، نہ ہی ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت ہے بلکہ اس کے لئے قرآن و سنت، لغتِ عرب، قواعدِ عربیہ اور دیگر متعلقہ علوم و فنون میں مہارت ضروری ہے، تاکہ قرآن و سنت کا صحیح مفہوم متعین ہو سکے۔ عصرِ حاضر میں بہت سے لوگ قرآن و حدیث کے نصوص کی تعبیر و تشریح اور اس میں من مانی تاویل کو نہ صرف دین کی خدمت بلکہ اپنا ذاتی حق سمجھتے ہیں جبکہ اس کی اہلیت ان میں نہیں ہوتی۔ جس کے نتیجے میں وہ طرح طرح کی بے راہرویوں اور غلط فہمیوں کے شکار ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے فتنے کا باعث بنتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن و سنت کی من مانی تشریح اور بغیر علمی مہارت کے اس میں رائے دہی سے منع فرمایا ہے۔ حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں:

من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد أخطأ[1]

جس نے قرآن کی تفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اور (اتفاقاً) وہ درست تھی تب بھی اس نے غلطی اور گناہ کیا۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں تاویل کا معنیٰ و مفہوم اور اس کی شرائط اور اہلیت پر بحث کی جائے گی۔

تاویل کا لغوی معنیٰ:

لفظِ تاویل لغت میں "اَول" سے ماخوذ ہے، جس کے معنیٰ ہیں رجوع کرنا اور انجام کی طرف لوٹانا۔ علامہ ابن منظور افریقیؒ فرماتے ہیں:

قال ابن الأثير هو من آل الشيء يؤول إلى كذا أي رجع وصار إليه[2]

ترجمہ : علامہ ابن الاثیرؒ فرماتے ہیں: تاویل " آل" سے نکلا ہے جس کا معنیٰ ہے لوٹنا اور واپس جانا۔

عرب کے اس قول: ما تأويل هذا الكلام؟ کا مطلب یہ ہے کہ "اس کلام سے کیا مراد ہے؟" قرآنِ کریم میں بھی یہ لفظ انجام واضح کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ[3] یعنی جس دن اس کا انجام واضح ہو جائے گا۔

پس گویا کہ تاویل آیات و نصوص کو ان معانی کی طرف پھیر دینے کا نام ہے جن کی وہ محتمل ہوتی ہیں[4]۔

دوسرا قول یہ ہے کہ تاویل "ايالة" سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں سیاست، گویا کہ کلام کی تاویل کرنے والے نے اس کا انتظام درست کر دیا اور اس میں معنیٰ کو اس کی جگہ پر رکھ لیاہے[5]۔

اصطلاحی تعریف:

اصطلاح میں تاویل کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں، چند اہم تعریفات اور ان کے باہمی فرق کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تاویل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

توجيه لفظ متوجه إلى معان مختلفة إلى واحد منها بما ظهر من الأدلة[6]

ترجمہ : مختلف معانی کی طرف متوجہ ہونے والے لفظ کو ان معانی میں سے کسی ایسے معنیٰ کی طرف متوجہ کرنے (کوئی ایک معنیٰ متعین کرنے) کا نام تاویل ہے جو کہ دلائل سے ظاہر ہو۔

2۔ علامہ امیر بادشاہؒ نے تاویل کی یہ تعریف کی ہے:

حمل الظاهر على المحتمل المرجوح[7]

ترجمہ : ظاہر کو ایسے احتمال پر حمل کرنا جو کہ مرجوح ہو تاویل کہلاتا ہے۔

ان دونوں تعریفوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی تعریف کی بناء پر مشترک کے چند معانی میں سے کسی ایک کی تعیین تاویل کہلائے گی جیسا کہ احناف فرماتے ہیں کہ لفظِ مشترک کے چند معانی میں سے کسی ایک کی ترجیح جب تک ظاہر نہ ہو اسے مشترک کہتے ہیں اور کسی ایک معنیٰ کی ترجیح کے بعد بعینہٖ اسی مشترک کو موول کہا جاتا ہے[8]۔

جبکہ شوافع کے نزدیک مشترک کا اس کے کسی ایک معنیٰ پر حمل کرنا تاویل کے زمرے میں نہیں آتا[9]۔ اس لئے وہ عموماً تاویل کی دوسری تعریف کرتے ہیں، جو کہ مطلق تاویل کی تعریف ہے ورنہ اگر تاویل صحیح کی تعریف مطلوب ہو تو اس میں "بدليل يصيره راجحا" جیسے الفاظ کا اضافہ ضروری ہے[10]۔ جیسا کہ علامہ ابن منظورؒ نے تاویل کی تعریف کرتے ہوئے دلیل کی قید کا اضافہ فرمایا ہے:

والمراد بالتأويل نقل ظاهر اللفظ عن وضعه الأصلي إلى ما يحتاج إلى دليل لولاه ما ترك ظاهر اللفظ[11]

ترجمہ : تاویل سے مراد لفظ کے ظاہر کو اس کے معنیٰ اصلی سے ایسے معنیٰ کی طرف نقل کرنا ہے جو دلیل کا محتاج ہو اگر یہ دلیل نہ ہوتی تو لفظ کے ظاہری معنیٰ کو نہ چھوڑا جاتا۔

علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ تعددِ اصطلاحات کی بناء پر تاویل کے تین معانی ہیں:

1۔ تاویل سے مراد معنیٰ کی وہ حقیق ات ہو جس کی طرف کلام کو لوٹایا گیا ہو اگرچہ وہ معنیٰ ظاہر کے موافق ہو، قرآن و سنت میں تاویل کا یہی معنیٰ مراد ہوتا ہے۔

2۔ تاویل سے مراد تفسیر ہو، یہ اکثر مفسرین کی رائے ہے۔

3۔ تاویل سے مراد لفظ کو کسی خارجی دلیل کی بنیادی پر اس کے ظاہری معنیٰ کے مخالف معنیٰ کی طرف پھیرنا ہو۔ یہ تاویل لفظ کے مدلول کے خلاف ہی ہو گا۔ یہ اسلاف کی اصطلاح نہیں ہے بلکہ فقہ، اصول فقہ اور علمِ کلام میں مہارت رکھنے والے متاخرین کی اصطلاح ہے[12]۔

تفسیر اور تاویل میں فرق:

تاویل کے ساتھ تفسیر کا لفظ بکثرت استعمال ہوتا ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان فرق کو اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

بعض حضرات کے نزدیک تفسیر اور تاویل میں کوئی فرق نہیں یعنی یہ الفاظِ مترادفہ میں سے ہیں، کیونکہ قدیم زمانے میں تفسیر کے لئے لفظ تاویل کا استعمال بھی بکثرت ہوتا تھا۔ خود قرآن کریم نے بھی اپنی تفسیر کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ [13]ترجمہ : اور نہیں جانتا اس کے مطلب کو مگر اللہ تعالیٰ۔

امام ابو عبیدؒ کی رائے بھی یہی ہے کہ یہ دونوں الفاظ بالکل مترادف ہیں۔علامہ ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:

و الثاني: يراد بلفظ التأويل: التفسير، و هو اصطلاح كثيرمن المفسرين[14].

ترجمہ : دوسری اصطلاح یہ ہے کہ تاویل تفسیر کے معنیٰ میں ہے اور یہ اکثر مفسرین کی اصطلاح ہے۔

جبکہ بعض دیگر حضرات کے نزدیک ان دونوں میں فرق ہے۔ جن حضرات نے فرق بیان کرنے کی کوشش کی ہے ان سے اس حوالے سے مختلف اقوال منقول ہیں، جن میں چند اہم یہ ہیں:

1۔ تفسیر الفاظ اور مفردات کی تشریح کو کہتے ہیں جبکہ تاویل جملوں کی تشریح و توضیح کا نام ہے۔

2۔ تفسیر کا اطلاق کتبِ الٰہیہ کی توضٰح پر بھی ہوتا ہے اور غیر کتبِ الٰہیہ کی توضیح پر بھی جبکہ تاویل کا استعمال عموماً کتبِ الٰہیہ کے لئے ہوتا ہے۔

3۔ تفسیر الفاظ کے ظاہری معنیٰ بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کو۔

4۔ تفسیر ایک ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کا۔

5۔ تفسیر اس لفظ کی ہوتی ہے جس میں صرف ایک احتمال ہو جبکہ تاویل سے مراد یہ ہے کہ جن الفاظ کی کئی مختلف تشریحات ہو سکتی ہوں ان میں کسی ایک معنیٰ کودلیل کی بنیاد پر اختیار کیا جائے۔

6۔ تفسیر کا مطلب ہے لفظ کے یقینی مراد کو بیان کرنا جبکہ تاویل کئی احتمالات میں سے کسی ایک کو قطعیت کے بغیر ترجیح دینے کو کہتے ہیں۔

7۔ تفسیر الفاظ کا معنیٰ اور مفہوم بیان کرنے کا نام ہے جبکہ تاویل اس مفہوم کے نتائج کی وضاحت کا[15]۔

مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ابو عبید رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں لفظوں میں استعمال کے لحاظ سے کو ئی حقیقی فرق نہیں۔ جن حضرات نے فرق بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے شدید اختلافِ آراء پر غور کرنے سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی معین اور اتفاقی اصطلاح نہیں بن سکی، اگر ان میں حقیقتاً فرق ہوتا تو ایسے شیدید اختلاف کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ واقعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض اہل علم نے تفسیر اور تاویل کو الگ الگ اصطلاحات قرار دینے کی کوشش کی ہوگی، لیکن اس میں ایسا اختلاف رونما ہوا کہ کوئی بھی اصطلاح عالمگیر قبولیت حاصل نہ کر سکی، یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے مفسرین ان الفاظ کے ساتھ عموماً ہم معنیٰ الفاظ کا سا معاملہ کرتے آئے ہیں اور ایک کو دوسرے کی جگہ بلا تکلف استعمال کیا جا رہا ہے، لہٰذا اس بحث میں وقت کھپانے کی ضرورت نہیں[16]۔

تاویل کی قسمیں:

صحت اور فساد کے اعتبار سے تاویل کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہیں:

1۔ تاویل قریب2۔ تاویل بعید3۔ تاویل مستبعد (متعذر)

1۔ تاویل قریب:

یہ وہ تاویل ہے جو واضح اور ظاہر ہو اور اس مؤول معنیٰ کی ترجیح و تعیین کے لئے ادنیٰ مرجِح کافی ہو یعنی اگر اسے کسی قرینہ اور بحث و جدل کے بغیر عقولِ سلیمہ پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کریں[17]۔ تاویل قریب کی وضاحت کے لئے چند مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

مثال نمبر: 1

قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ [18]

ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم نماز کی طرف اٹھو تو اپنے مونہوں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو۔"

یہاں اس آیت میں قیام الیٰ الصلوٰۃ (نماز کے لئے کھڑا ہونے) کو اپنے ظاہری معنیٰ سے پھیر کر دوسرا معنیٰ مراد لیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب تم نماز اداء کرنے کا ارادہ کرو تو منہ ہاتھ وغیرہ دھو لو یعنی وضوء کرو۔ اس میں ادنیٰ مرجح یہ ہے کہ شارع مکلفین سے نماز شروع کرنے کے بعد وضوء کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ نماز صحیح ہونے کے لئے وضوء شرط ہے، اور شرط کا مشروط سے پہلے موجود ہونا ضروری ہے، یہ ایسا قرینہ ہے کہ ہر سننے والے عقلمند کے ذہن میں آتا ہے اور اس کے لئے کسی بحث و جدل اور قرینہ کی ضرورت نہیں۔

مثال نمبر: 2

یتیم کے مال کھانے کو قرآن کریم نے اپنے پیٹ میں آگ ڈالنے سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا [19]

ترجمہ : بے شک جو لوگ ظلم کے طریقے پر یتیموں کا مال کھاتے ہیں بات یہی ہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔

اس کا ایک قریبی معنیٰ یہ ہے کہ جوشخص یتیم کا مال خود نہ کھائے بلکہ کسی اور کو ہبہ کرکے دیدے تو وہ بھی "ياکلون" میں داخل ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص یتمی کا مال غلط اور بیجا خرچ کرے تو وہ بھی اسی میں داخل ہے۔ نیز "ياکلون" کا قریبی معنیٰ یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب دیا جائے گا اس اعتبار سے اس مال کو آگ کہا گیا ہے۔

تاویل بعید:

وہ ہے کہ قوی مرجح کے بغیر راجح نہ ہو۔ یعنی اس تاویل کو عقل اس وقت تسلیم کرے جب اس پر کوئی قرینہ یا دلیل موجود ہو اور اگر کسی دلیل یا قرینہ کے بغیر اسے عقولِ سلیمہ پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول نہ کریں[20]۔ اس کی چند مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

مثال نمبر:1

مدتِ رضاعت کے متعلق قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:

وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا [21]

ترجمہ : اور اس کا حمل میں رہنا اور دودھ چھڑانا تیس ماہ کی مدت میں ہے[22]۔

علماء احناف کے ہاں حمل کا پیٹ میں رہنے کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، وہ اس آیت میں تاویل کر کے فرماتے ہیں کہ سورۂ بقرہ کی آیت سے مدتِ رضاعت معلوم ہوتی ہے کہ وہ دو سال ہے وہ آیت یہ ہے:

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ [23]

ترجمہ : اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔

یہ تاویل اس آیت میں اگر چہ بعید ہے لیکن اس پر قرینہ اس دوسری آیت میں موجود ہے۔

مثال نمبر: 2

وضوء کے شروع میں تسمیہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه[24]

ترجمہ : جس شخص نے وضوء کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا اس کا وضوء نہیں۔"

اس حدیث میں وضوء سے مراد کامل وضوء لینا تاویل بعید ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اس شخص کا وضوء کامل نہیں، لیکن میرے نزدیک یہ تاویل صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ یہ اس تاویل بعید میں سے ہے جس کا ماٰل اختلافِ لفظی ہے[25]۔

3۔ تاویل مستبعد

یہ وہ تاویل ہے کہ لفظ میں اس کا احتمال ہی نہ ہو[26]۔ نیز یہ کہ سلف صالحین میں سے کسی سے بھی یہ تاویل منقول نہ ہو۔ اس کی چند مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

مثال نمبر: 1

وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ [27]

ترجمہ : اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے انہیں دلائل اور ڈرانے والی چیزیں نفع نہیں دیتیں[28]۔

اس آیت میں "ایات" سے ائمہ اور "نذر" سے انبیاء مراد لینا تاویل مستبعد و متعذر ہے، کیونکہ اس آیت میں اس کا کوئی احتمال موجود نہیں ہے اور نہ اس پر کوئی دلیل ہے اور نہ سلف صالحین میں سے کسی مفسر سے یہ منقول ہے۔

مثال نمبر: 2

قرآن کریم میں قیامت کو عظیم الشان خبر قرار دیتے ہوئے ارشاد ہے:

عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ (1) عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ (2) [29]

ترجمہ : یہ لوگ کس چیز کے بارے میں دریافت کرتے ہیں؟ بڑی خبر کے بارے میں۔[30]

اس آیت میں بعض حضرات النبا سے مراد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیتے ہیں، جو کہ تاویل متعذر ہے اور اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

تاویل کا محل:

اس بات پر اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ جو نصوص واضح اور غیر مبہم ہوں ان میں تاویل اور اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قطعیات مثلاً عقائد، حدود، اور اصول میں تاویل جائز نہیں ہے، بلکہ تاویل کا محل وہ نصوص ہیں جو مبہم اور محتمل ہوں تاکہ تاویل کے ذریعے ان کے کسی ایک مفہوم کو واضح اور متعین کیا جا سکے[31]۔

تاویل کی شرائط :

نصوص میں تاویل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ہر شخص اس کی اہلیت رکھتا ہے، بلکہ اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جنہیں ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ تاویل کرنے والا اہلِ اجتہاد میں سے ہو[32]۔ یعنی اس میں مجتہد کی شرائط پائی جائیں، قرآن، حدیث، عربی لغت اور دیگر علوم میں اس کو مہارت حاصل ہو۔

2۔ نص سے جو معنیٰ مراد لیا گیا ہو، وہ ان معانی میں سے ہو جن کا نص احتمال رکھتا ہو، چنانچہ اگر نص سے کوئی ایسا معنیٰ مراد لیا جائے جس کا نص میں احتمال ہی نہ ہو تو وہ تاویل فاسد ہے۔ [33]

3۔ تاویل ایسی صحیح دلیل کی بنیاد پر ہو جو لفظ کو ظاہری معنیٰ سے دوسرے معنیٰ کی طرف پھیرنے پر واضح اور صریح دلالت کرتی ہو۔[34]

4۔ تاویل پر قوی قرینہ موجود ہو۔ [35]

5۔ وہ تاویل کسی فقیہ صحابی سے منقول ہو۔[36]

تاویل سیکھنے کا حکم اور اس شرعی حیثیت

تاویل کا علم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ قرآن و سنت سے اس کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ[37]

ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے آپﷺ کی طرف نازل کی ہے مبارک ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔ [38]

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنی نصوص میں غور و فکر کرنا (متشابہات کے علاوہ) مطلوب ہے، اور تدبر و تفکر ہی قرآنی علوم و معارف سے آگاہی کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی ٰعنہ کے لئے دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اللهم فقهه فی الدين و علمه التاويل

ترجمہ : اے اللہ اس کو دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما اور اور اس کو تاویل کا علم عطا فرما۔

اس سے معلوم ہوا کہ شرائط کے ساتھ تاویل سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کا صحیح مفہوم سمجھا جا سکے شرعاً محمود ہے۔

تاویل اگر اپنی تمام شرائط کے ساتھ ہو تو وہ مقبول اور معتبر ہو گا یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور سے لیکر ہر زمانہ میں اہلِ علم اس پر عمل کرتے چلے آئے ہیں، اور ان پر کسی نے نکیر نہیں کی ہے، جیسا کہ صاحبِ مہذب کی عبارت سے واضح ہے کہ تاویلِ صحیح اسلاف میں قابلِ عمل رہا ہے اور ضرورت کے وقت وہ اس کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ [39]

تاویل کے حوالے سے ہونے والی کوتاہیاں

تاویل اگر شرائط اور حدود و قیود کی رعایت کے ساتھ ہو تو یہ نہ صرف شرعاً جائز ہے بلکہ بعض اوقات ضروری بھی ہوا کرتا ہے، لیکن اگر تمام شرائط اور حدود کی رعایت کئے بغیر ہو تو یہ ناجائز بھی ہے اور بہت سے مفاسد اور لوگوں کی گمراہی کا سبب بھی ہے۔ چنانچہ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ جتنے گمراہ فرقے ہیں ان سب کی بنیاد نصوص میں فاسد تاویلات ہیں، وہ لوگ قرآن و سنت کے نصوص کی خود ساختہ تشریحات اور بے بنیاد تاویلات کے مرتکب ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں وہ طرح طرح کی کج رویوں اور گمراہیوں کے شکار ہو گئے۔ علامہ ابن تیمیہؒ تاویلاتِ فاسدہ کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فإن هذا التأويل في كثير من المواضع - أو أكثرها وعامتها - من باب تحريف الكلم عن مواضعه من جنس تأويلات القرامطة والباطنية . وهذا هو التأويل الذي اتفق سلف الأمة وأئمتها على ذمه وصاحوا بأهله من أقطار الأرض ورموا في آثارهم بالشهب [40].

ترجمہ : اس طرح کی تاویلات اکثر جگہوں میں تحریف کے زمرے میں آتی ہیں، جیسا کہ قرامطہ اور باطنیہ کی تاویلات۔ اس قسم کی تاویلات کے فاسد ہونے پر ائمہ سلف کا اتفاق رہا ہے، انہوں نے علی الاعلان اس کی مذمت کی ہے، اور ان لوگوں کے مقابلے میں واضح براہین اور دلائل قائم کئے ہیں۔

ایک اور مقام پر بغیر دلیل کے تاویلات کرنے کی قباحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وأما التأويل المذموم والباطل : فهو تأويل أهل التحريف والبدع الذين يتأولونه على غير تأويله ويدعون صرف اللفظ عن مدلوله إلى غير مدلوله بغير دليل يوجب ذلك[41]

ترجمہ :تاویل مذموم اور باطل اہلِ تحریف اور مبتدعین کی تاویل ہے جو فاسد تاویلات کرتے ہیں اور لفظ کو اس کے مدلول سے غیرِ مدلول کی طرف پھیرنے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ یہ سب بغیر کسی دلیل کے ہوتا ہے۔

علامہ بدر الدین زرکشیؒ تاویل کی اہمیت اور تاویلاتِ باطلہ کی تباہ کاریوں کے بیان میں فرماتے ہیں:

قال ابن برهان وهو أنفع كتب الأصول وأجلها ولم يزل الزال إلا بالتأويل الفاسد[42]

ترجمہ :ابن برہان کا قول ہے کہ بابِ تاویل کتبِ اصول کا عظیم اور سب سے زیادہ مفید باب ہے، اور جو شخص بھی پھسلا ہے(گمراہی کا شکار ہوا ہے) وہ تاویلِ فاسد کی وجہ سے ہوا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہر باطل اور گمراہ فرقے کے پیچھے تاویلاتِ فاسدہ کا ایک لمبا سلسلہ ہے، اور جتنے لوگ بھی راہِ راست سے ہٹ چکے ہیں ان کی بنیادی وجہ قرآن و سنت کی تشریح و تاویل میں کوتاہی اور کج روی ہے۔

عصرِ حاضر میں بھی بہت سے لوگ قرآن و سنت کے نصوص کی تشریحات کرتے نظر آتے ہیں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر ہر طرح کے لوگ اس میدان میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں اور نصوص کی غلط اور من مانی تفسیر کرتے ہیں، بسا اوقات وہ نصوص میں اس طرح کی تاویلات کر لیتے ہیں جو ناجائز اور حرام ہوتے ہیں اور لفاظی کے زور سے اس کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ بہت سے سادہ لوح لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے، جو انتہائی مذموم اور گمراہ کن عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مختلف گمراہیوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور راہِ راست سے بھٹک جاتے ہیں۔ تاویلِ نصوص میں ہونے والی کوتاہیوں کی چند مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

1۔ قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون[43]

ترجمہ :بے شک ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

یہ آیت بالکل واضح اور صریح ہے کہ قرآن کریم ہر طرح کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہے، جبکہ بعض لوگ اس میں یہ تاویل کرتےہیں کہ قرآن کریم اگرچہ محفوظ ہے مگر وہ لوحِ محفوظ میں ہے[44] جو قرآن کریم ہمارے پاس ہے یہ (العیاذ باللہ) محفوظ نہیں ہے، یہ تاویل باطل اور موجبِ کفر ہے کیونکہ یہ نصوصِ قطعیہ کے بالکل خلاف ہے۔

2: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيّ[45]

ترجمہ:اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے عیسیٰ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔

اس آیت میں لفظ " مُتَوَفِّيكَ" آیا ہے جو "توفی"سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ ہوتا ہے: "اخذ الشئی وافيا"یعنی کسی چیز کا مکمل طور پر وصول کرنا اور قبضہ لینا، جبکہ اس کا اطلاق موت اور نیند پر بھی ہوا ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ[46]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو رات کو تمہاری روحوں کو قبض کر لیتا ہے۔

مذکورہ بالا آیت میں پہلا معنیٰ مراد ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں اپنی طرف اٹھایا ہے، اور قیامت کے قریب آپ دوبارہ زمین پر اتریں گے۔ جبکہ بعض گمراہ لوگوں نے یہاں پر غلط تاویل کرکے موت والا معنیٰ مراد لیا ہے، اور جن احادیث میں نزولِ مسیح کا ذکر ہے ان سے مراد مثیلِ مسیح (مرزا قادیانی) لیتے ہیں[47]، جو کہ تاویلِ باطل اور نصوصِ قطعیہ کی مخالفت اور موجبِ گمراہی و ضلالت ہے۔

3۔ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے، قرآن کریم نے انہیں قیامت کی نشانی قراد دیتے ہوئے فرمایا ہے:

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ[48]

ترجمہ:اور بے شک وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو، اور میرا کہنا مانو یہی سیدھی راہ ہے۔

احادیث مبارکہ میں آپ کے نزول کی تصریح موجود ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم[49]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی قسم! عنقریب حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان نزول فرمائیں گے۔

علامہ ابو حیان اندلسیؒ فرماتے ہیں:

وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من : ( أن عيسى في السماء حي ، وأنه ينزل في آخر الزمان[50]

اس حدیث متواتر کے مضمون پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمان میں تشریف لائیں گے۔

مگر اس کے باوجود بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ :

نزولِ مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھئے تو وہ بھی محلِ نظر ہیں[51]۔

یہ احادیث میں کتنی باطل تاویل اور کس حد تک خطرناک طرزِ عمل ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ قرآن و حدیث کی من مانی تشریحات اور فاسد تاویلات کی کارستانیاں ہیں۔

ان کے علاوہ بے شمار ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اکثر لوگ نصوص میں باطل تاویلات ہی کے نتیجے میں گمراہی اور بے راہروی کے شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ بوقتِ ضرورت نصوص میں ایسی تاویل کرے جس پر کوئی مرجح دلیل موجود ہو، بغیر قوی دلائل کے نہ خود تاویلات کرے اور نہ دیگر لوگوں کی ایسی تاویلات کو قبول کرے۔

تجاویز :

نصوصِ شرعیہ میں تاویل کے حوالے سے چند تجاویز ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

1۔ اگر قرآن کریم کی کسی آیت یا رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث کی تشریح و تفسیر مطلوب ہو تو مستند اہلِ علم کی طرف رجوع کیا جائے۔

2۔ اگر کوئی شخص قرآن و سنت کے نصوص کا صحیح مفہوم اور تفصیلات معلوم کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہئے کہ متعلقہ جملہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلے تاکہ وہ کسی غلط فہمی یا گمراہی کا شکار نہ ہو جائے۔

3۔ حکومت اور میڈیا کے بااثر افراد پر لازم ہے کہ میڈیا کو متنازعہ مسائل اور نصوص میں من مانی تشریحات اور فلاسفی مباحث کے لئے استعمال نہ کرے۔ بلکہ اس طرح کے لوگوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے جو نسلِ نو کے عقائد و نظریات کو نصوصِ قطعیہ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دین کے مسلمات کے خلاف کسی اور طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور امت میں افتراق و انتشار پھیلانے کا باعث ہیں۔ بلکہ میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے، نیز نسلِ نو کی ذہن سازی اور ان میں مثبت اور مفید سرگرمیاں پھیلانے والے پروگرامز جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین موافق ہوں، کو عام کرنے کے لئے میڈیا کے استعمال کی منصوبہ بندی کی جائے۔

4۔ دورانِ تحقیق اگر تاویل کی ضرورت پیش آ جائے تو قوی دلائل اور مستند اہلِ علم کے حوالے سے نہایت احتیاط کے ساتھ عمل کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ اس معاملے میں بے احتیاطی حق سے دوری اور گمراہی کا سبب بن جائے۔

5۔ متنازعہ مسائل اور تاویلات کا میدان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نہیں ہے اس لئے اس حوالے سے سنجیدہ اور موثر کوششوں کی ضرورت ہے۔

خلاصۂ بحث:

مذکورہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ نصوص کے متعارض ہونے یا مجمل اور مبہم ہونے کی صورت میں تاویل کی ضرورت پڑتی ہے، جس پر ہمیشہ سے اہلِ علم عمل کرتے آئے ہیں، اور اس کی ضرورت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، البتہ اس کی تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، چنانچہ ہر کس و نا کس کو یہ حق نہیں کہ وہ نصوص میں اپنی مرضی سے تاویلیں کرتا پھرے۔ بلکہ اس کے لئے قرآن و سنت اور متعلقہ علوم میں مہارت اور گہری بصیرت ضروری ہے۔ آج کے دور میں بھی اہلِ علم حسبِ ضرورت نصوص میں تاویل کر سکتے ہیں۔ تاہم میڈیا پر تاویلی اور فلاسفی مباحث کو نہ چھیڑا جائے۔

 

حوالہ جات

  1. سنن الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي، دار إحياء التراث العربي، بيروت،الطبعة: الثانية، 1395 هـ، ج:5،ص:200
  2. لسان العرب، محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي، الطبعة الأولى، دار صادر، بيروت، ج: 11، ص: 32
  3. القرآن: الأعراف : 53
  4. البرهان في علوم القرآن، بدر الدين محمد بن عبد الله الزركشي (المتوفى : 794هـ)، دار إحياء الكتب العربية، الطبعة : الأولى ، 1376 هـ ، ج: 2، ص: 148
  5. الإتقان في علوم القرآن، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي، مکتبه نزار، مصطفی البانی، الرياض، ط: 1394هـ، ج:2، ص: 460
  6. الإتقان في علوم القرآن، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي، مکتبه نزار، مصطفی البانی، الرياض، ط: 1394هـ، ج:4، ص: 1155
  7. تيسير التحرير، محمد أمين المعروف بأمير بادشاه م 972 هـ، دار الفكر، بيروت، ج: 1، ص: 168
  8. نور الانوار، حافظ شيخ احمد المعروف بملا جيون، المکتبة النعمانية، کوئته، ط: 1427 هـ، ص: 85
  9. الإحكام في أصول الأحكام، علي بن محمد الآمدي، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الأولى ، 1404 هـ ، ج: 3، ص: 49
  10. إرشاد الفحول، محمد بن علي الشوكاني (م: 1250هـ)، دار الكتاب العربي، الطبعة الأولى، 1419 هـ ، ج: 2، ص: 32
  11. لسان العرب، محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي، دار صادر، بيروت، الطبعة الأولى، ج: 11، ص: 32
  12. مجموع الفتاوى، أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية ، دار الوفاء، الطبعة : الثالثة ، 1426 هـ ، ج: 4، ص: 68،69
  13. القرآن: آل عمران : 7
  14. مجموع الفتاوى، أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية ، دار الوفاء، الطبعة : الثالثة ، 1426 هـ ، ج: 4، ص:69
  15. الموسوعة القرآنية، إبراهيم الإبيارى، موسسة سجل العرب، سنة الطبع : 1405ھ، ج: 1، ص: 3727
  16. علوم القرآن، مفتی محمد تقی عثمانی، مکتبہ دارالعلوم کراچی، 1415 هـ ، ص: 325، 326
  17. اصولِ فقہ اور شاہ ولی اللہ، ڈاکٹر مظہر بقاء، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1423 هـ ص: 237
  18. القرآن: المائدة : 6
  19. القرآن: النساء : 10
  20. اصول فقہ اور شاہ ولی اللہؒ، ڈاکٹر مظہر بقاء، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1423 هـ، ص: 237
  21. القرآن: الأحقاف : 15
  22. انوار البیان، مفتی عاشق الٰہی البرنیؒ، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، 1413 هـ، ج: 1، ص: 380
  23. القرآن: البقرة : 233
  24. سنن الترمذي، محمد بن عيسى الترمذي، ، دار إحياء التراث العربي, بيروت، الطبعة: الثانية، 1395 هـ، ج:1، ص: 37
  25. حجۃ اللہ البالغۃ، شیخ احمد المعروف بشاہ ولی اللہ المحدث الدھلویؒ، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ج: 1، ص: 499
  26. اصول فقہ اور شاہ ولی اللہؒ، ڈاکٹر مظہر بقاء، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1423 هـ، ص: 237
  27. القرآن: يونس : 101
  28. انوار البیان، مفتی عاشق الٰہی البرنیؒ، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، 1413 هـ، ج: 4، ص: 369
  29. القرآن: النبأ : 1 ، 2
  30. انوار البیان، مفتی عاشق الٰہی البرنیؒ، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، 1413 هـ، ج: 9، ص: 338
  31. التأويل عند أهل العلم، الشريف أبي محمد الحسن بن علي الكتاني، ط ن، ج:1، ص: 4
  32. المهذب فی اصول الفقه، الدکتور عبد الکريم بن علی بن محمد، مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة الأولى: 1420 هـ ج:3، ص: 1207،
  33. نفسِ مصدر، ص: 1208
  34. نفس مصدر، ص: 1208
  35. اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1423 هـ، ص: 237
  36. نفس مصدر، ص: 237
  37. نفس مصدر،ص : 29
  38. انوار البیان، مفتی عاشق الٰہی البرنیؒ، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، 1413 هـ، ج: 8، ص: 293
  39. المهذب فی اصول الفقه، الدکتور عبد الکريم بن علی بن محمد، مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة الأولى: 1420 هـ ج: 3، ص: 1211
  40. مجموع الفتاوى، تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ)، الناشر : دار الوفاء، الطبعة : الثالثة ، 1426 هـ، ج:4 ، ص: 69
  41. مجموع الفتاوى، تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ)، الناشر: دار الوفاء، الطبعة : الثالثة ، 1426 هـ، ج:3، ص: 67
  42. البحر المحيط في أصول الفقه، بدر الدين محمد بن بهادر بن عبد الله الزركشي، الناشر دار الكتب العلمية، بيروت، سنة النشر 1421هـ، ج: 3 ، ص: 25
  43. القرآن: الحجر : 9
  44. معارف القرآن، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مکتبۃ المعارف، شہداد پور، سندھ، ط: دوم، 1422ھ، ج: 4، ص: 289
  45. القرآن: آل عمران : 55
  46. القرآن: الأنعام : 60
  47. اس کی مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تفسیر معالم العرفان، صوفی عبد الحمید سواتی، مکتبہ دروس القرآن، گوجرانوالہ، ط: 1428ھ، ج: 4، ص: 185 تا 188
  48. القرآن: الزخرف : 61
  49. صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، دار طوق النجاة، الطبعة: الأولى، 1422هـ، باب قتل الخنزير، رقم: 2222
  50. تفسير البحر المحيط، محمد بن يوسف، أبو حيان الأندلسي، دار الكتب العلمية، بيروت، 1422 هـ، الطبعة : الأولى، ج: 2، ص: 497
  51. میزان، جاوید احمد غامدی، ادارہ علم و تحقیق، لاہور، 2010، ص:68
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...