Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 2 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

جماعت احمدیہ کے مولوی عبد اللطیف بہاولپوری کی چار قرآنی سورتوں کی تفاسیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060029336_709

Pages

47-63

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/84/75

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/84

Subjects

Quran alterations Mūlvi Abdul Latīf Mīrza Ghūlām Ahmad Qādyāni Tafsīr

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد(۱۸۳۵ء۔۱۹۰۸ء)نے اپنے باطل عقائد و نظریات کو پھیلانے کے لیے تحریک قرآنی کاسہارا بھی لیااور اس تحریک کو تقویت دینے کے لیے متقدمین کے تفسیری منہج سے ہٹ کر ایک نیا تفسیری منہج درج ذیل اصولوں میں پیش کیا۔"تفسیر القرآن بالقرآن،تفسیر القرآن بالحدیث،تفسیرالقرآن باقوال الصحابہ،خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن میں غور کرنا،لغت عربیہ  اور روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لیے سلسلہ جسمانی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلی تطابق ہے اور وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کاپورا ہمرنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدیداحکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہوجاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں سو اس کا بیان محض اٹکلی نہیں ہوتابلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لیے کھلی ہے۔"(۱)اس آخری اصول کے پیش نظر تمام قادیانی مفسرین مرزا غلام احمد کے عقائد و نظریات(مرزا غلام احمد رسول اور نبی ہیں، قرآنی آیت میں "اسمہ احمد" کا مصداق مرزا غلام احمد ہے، مرزا غلام احمد پر ایمان نہ لانے والا کافر ہے، مرزا غلام احمد نے جس مصلح موعود کی پیشین گوئی کی تھی اس سے مراد مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اورجماعتِ احمدیہ کا خلیفہ خدا کی طرف سے بنایا جاتا ہے لہٰذا نہ تو اس کے حکم کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی خلیفہ کو معزول کیا جاسکتا ہے۔) کو ثابت کرنے کے لیے قرآن،حدیث اور اقوال صحابہؓ سے ہٹ کر تفسیر کر کے اس کو خدائی تفسیر قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کے مفسرین قرآنی آیات کا مصداق مرزا غلام احمد اورجماعت احمدیہ کو قرار دیتے ہوئے درج ذیل آیت قرآنی کا مصداق ٹھہراتے ہیں:ومَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّهِ کَذِباً أَوْ قَالَ أُوْحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِل ُمِثْلَ مَاأَنَزل َاللّهُ وَلَوْتَرَی إِذِالظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآءِکَةُ بَاسِطُواْ أَیْدِیْهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا کُنتُمْ

تَقُولُونَ عَلَی اللّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَکْبِرُون(۲)۔

"اور اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو باندھے اللہ پر بہتان یا کہے مجھ پر وحی اتری اور اس پر وحی نہیں اتری کچھ بھی اور کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اس کے جو اللہ نے اتارا۔ اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ہوں ظالم موت کی سختیوں میں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں کہ نکالواپنی جانیں آج تم کو بدلے میں ملے گا ذلت کا عذاب اس سبب سے کہ تم کہتے تھے اللہ پر جھوٹی باتیں اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے"۔

ان قادیانی مفسرین میں سے ایک مولوی عبداللطیف بہاولپوری(۱۸۹۵ء۔۱۹۷۷ء)بھی ہیں۔جنہوں نے سورہ بنی اسرائیل،سورہ کہف،سورہ یٰس،سورہ قیامہ اور سورہ دھر کی تفسیر میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بھر پور کوشش کی ہے کہ ان سورتوں کا مصداق مرزا غلام احمد،جماعت احمدیہ کے خلفاء اور جماعت احمدیہ کے افراد ہیں۔عبداللطیف بہاولپوری کے حالات اور تفسیر بالرائے المذموم کی صورت میں لکھی گئی تفاسیر قرآنی کی تفصیل درج ذیل ہے۔

مولوی عبد اللطیف بہاولپوری

مولوی عبد اللطیف بہاولپوری جماعت احمدیہ ربوہ  کے مشہور ادارہ جامعۃ المبشرین  پاکستان  میں پروفیسر تھے ۔اس سے پہلے وہ قادیان میں بھی مختلف علوم پڑھاتے رہے ۔ان کی خدمات وحالات کے بارے میں جماعت احمدیہ ربوہ کے مشہور روزنامہ "الفضل" میں لکھا ہے کہ"عبد الطیف بہاولپوری ۱۸۹۵ء میں احمد پور لیہ ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔مدرسہ عربیہ دیوبند (یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ دیو بند شہر کے کس مدرسہ میں تحصیل علم کی ہے)میں تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد ہائی سکول خانپور ضلع رحیم یار خان میں بطور عربی استاد کے فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۲۷ء میں جماعت احمدیہ(بقول بہاولپوری کے، ان کو خوابوں اور الہاموں کے ذریعہ سے بیعت کا حکم ہوا تھا)میں شامل ہوئے۔۱۹۴۱ء میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد (۱۸۸۹ء۔۱۹۶۵ء)کے کہنے پر ہائی سکول کی ملازمت چھوڑکر قادیان جاکر مختلف علوم پڑھاتے رہے۔پھر مرزا بشیر الدین محمود احمدکے پاکستان آنے کے بعد بہاولپوری بھی پاکستان آگئے اور یہاں جامعۃ المبشرین میں بطور پروفیسر جماعت احمدیہ کے لیے خدمات انجام دیتے رہے"۔(۳(

عبد اللطیف بہاولپوری کا عقیدہ:

مولوی عبد الطیف بہاولپوری نے اپنی تفاسیر میں انتہائی خطرناک طریقہ اپنایا ہےجس سے  

بہاولپوری کے کفریہ عقائد کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ان کی تفاسیر سے ہمیں ان کے درج ذیل عقائد کا پتا چلتا ہے۔

۱۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو  مہدی اور نبی تسلیم کرنا۔ ۲۔ باقی جماعت احمدیہ کی طرح مرزا غلام احمد پر قرآن کے نزول ثانی کا عقیدہ رکھنا۔

۳۔ بہاولپوری مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام الہامات ومعجزات کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد کے قرآنی الفاظ کی تحریف پر بھی ایمان رکھتا ہے اور اس کو اپنی تفسیر میں بیان بھی کیاہے۔چنانچہ ایک جگہ پر لکھتا ہے کہ"جب میں نے سورہ کہف کے مضامین پر غور کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصٰلوۃوالسلام کا یہ الہام سامنے آیا۔ام حسبت ان اصحاب الکهف والرقیم کانوا من اٰیاتنا عجباجس میں اشارہ ہے کہ آیت قرآنی کا مصداق اب دہرایا جانے والا ہےکیونکہ جب کسی قرآنی پیشنگوئی کا ظہور مقدر ہوتا ہے تو اس وقت وہ آیت قرآنی جس میں پیشنگوئی مضمر ہوتی ہے اس کا کچھ حصہ نازل کیا جاتا ہے"۔(۴)

۴۔ بہاولپوری نے مرزا غلام احمد قادیانی کو قرآن مجید کی ہر ہر آیت کا مصداق ٹھہرایاہےاور سورۃ یٰس،سورۃالقیامۃاور سورۃ الدھر کے بارے میں تو یہ کہاہے کہ ان سورتوں سے مراد ہی مرزا غلام احمد اور اس کی جماعت ہے۔چنانچہ لکھتا ہے کہ"خاکسار نے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد پڑھا کہ"ساراقرآن میرے ذکر سے بھرا پڑا ہے"۔تو طبیعت میں ایک قسم کی انبساطی کیفیت پیدا ہوئی اور بارگاہ الٰہی میں التجائیں کیں کہ الٰہی اپنا فضل فرماتاکہ میں بھی ان حقائق سے بہرہ یاب ہوسکوں۔اس کے بعد جب بھی یہ عاجز تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوا۔جس سورت پر بھی نگاہ ڈالی اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے وقائع حیات کی کوئی نہ کوئی تصویر سامنے آگئی۔بلکہ بعض سورتوں میں تو حضور اقدس کی زندگی کے واقعات کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ مل گیااور نہ صرف حضور کی حیات طیبہ کے واقعات کا علم ہوابلکہ حضور کے خلفائے کرام کی مساعی جمیلہ جو غلبہ اسلام کے متعلق ان

کی تجویز کردہ سکیمیں تھیں، قرآن مجید کی روشنی میں وہ بھی آنکھو ں کے سامنے آگئیں"۔(۵)

عبد الطیف کی اس بات سے ان کا قرآن مجید کے متعلق نظریہ بھی واضح ہوجاتا ہےکہ وہ کتنے متشدد تھے۔

وفات:عبداللطیف بہاولپوری کی وفات ۸۵ سال کی عمر میں ۱۹۷۷ء کو لاہور میں ہوئی "۔(۶)

عبداللطیف بہاولپوری بطور مصنف:

بہاولپوری جماعت احمدیہ میں ایک بڑا  علمی مقام رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنی جماعت کے لیے درج ذیل خدمات بھی کیں ہیں۔

۱۔ دستورالارتقاء تفسیر سورۃ الاسراء۔یہ سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر ہے جس کو عبدالطیف بہاولپوری نے ہائی سکول کی ملازمت  کے دوران لکھا تھا۔

۲۔۱۹۵۳ء  ۔ ۵۵ ۱۹ ءتک مرزا غلام احمد کے الہامات پر مشتمل کتاب "تذکرہ"کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں شامل رہے۔

۳۔ اس کے بعد قرآن مجید کی تین سورتیں تفسیر سورہ کہف،البشریٰ للیائسین اور تفسیر سورۃ القیامہ والدھر کی تفسیر لکھی۔

۴۔ اس کے علاوہ رسالہ حج،قوانین الصرف اور مضامین لطیفہ بھی بہاولپوری کی کتب میں شامل ہیں۔

عبداللطیف بہاولپوری کی چار قرآنی سورتوں کی تفاسیر کا تعارف:

یہ چار سورتوں والی تفاسیر اب بالکل نایاب ہیں۔

۱۔ دستورالارتقاء تفسیر سورۃالاسراء:یہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر ہے ۔بہاولپوری نے اس کو

اپنی ہائی سکول کی مدت ملازمت کے دوران لکھا تھا ۔عبدالطیف بہاولپوری اس میں کھل کر آیات مبارکہ کا مصداق مرزا غلام احمد اور جماعت کو قرار نہیں دیتے لیکن یہ بات ثابت کرنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد مہدی موعود ہے اور مرزا غلام احمد ہی ان حالات سے مسلمانوں کو نجات دے سکتا ہے۔

۲۔ تفسیر سورہ کہف:اس کاعربی نام "اقامۃ الزحف لاظہار انباء سورۃ الکہف" ہے۔اس سورت میں بہاولپوری نے کہف اور رقیم سے قادیان و ربوہ مراد لے کر ساری سورۃ کو آنحضرتﷺکی طرح مرزا غلام احمد اور خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین کو بھی اس کا مصداق ٹھہرایا ہے۔اس کی تصنیف ۱۹۷۳ء میں شروع  کی تھی۔

۳۔ البشریٰ للیائسین تفسیر سورۃ یٰس:اس کادوسرا نام  "مشاھدات عین الیقین بانباء سورہ یٰس" ہے اس میں بھی بہاولپوری نے ہر آ یت کا مصداق مرزا غلام احمد اور اس کے خلفاء کو قرا ردیا ہے۔یہ تفسیر جماعت کے  خلیفہ ثالث مرزا ناصر احمد (۱۹۰۹ء۔۱۹۸۲ء) کے دور میں لکھی گئی۔

۴۔ تفسیر سورۃ القیامۃ والدھر:اس کا عربی نام "نشید الثقلین علیٰ تنشیط تفسیر السورتین" ہے ۔ یہ تفسیر ۱۹۷۹ء میں ضیاء الاسلام ربوہ نے شائع کی تھی ۔اس میں بہاولپوری نے مضامین کی صورت میں ان کو مرزا غلام احمد اور جماعت پر چسپاں کیا ہے۔

عبداللطیف بہاولپوری کا اپنی تفاسیر میں منہج:

جعبداللطیف بہاولپوری کی تفاسیر میں مصادر و مراجع:

بہاولپوری نے اپنی تفاسیر میں درج ذیل امور سے استفادہ کیا ہے۔

۱۔ بہاولپوری نے اپنی ان تفاسیر میں قرآنی آیات سے بھی استدلال کیا ہے لیکن اس انداز میں استدلال کیا ہے کہ آج تک کسی مفسر نے ان آیات کا ایسا مفہوم بیان نہیں کیا ۔چنانچہ بہاولپوری ربوہ کی ترتیب مکانی کے متعلق سورہ کہف کی آیت نمبر سترہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ"واضح ہو کہ تعمیر ربوہ کی ہیئت کذائی کا نقشہ ہمارا تجویز کردہ نہیں۔اگر جماعت کی مرضی پر تیار کیا جاتاتو یہ جماعت تو ایک مذہبی جماعت ہے۔پابندی نماز اس کے اولین فرائض میں سے ہے۔مکانوں کی تعمیر کا نقشہ قبلہ رخ بنایا جاتا۔الٰہی حکم بھی یہی ہے کہ"واجعلوابیوتکم قبلة"مگر حکومت وقت نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ جو اس کا نقشہ تجویز کیاوہ اگرچہ ابتداءً ہمیں نا گوار گزرا کیونکہ مساجد کی تعمیر اور گھروں میں نمازوں کی ادائیگی میں قبلہ رخ ہونے کے باعث سخت دقتیں پیش آتی ہیں مگر ارشاد الٰہی "عسٰی ان تکرهوا شیئا وهو خیرلکم"کے مطابق جلد ہی ہمیں اطمینان قلب ہوگیا اور قرآنی پیشنگوئی پاکر ازدیاد ایمان کا ذریعہ بنا"۔(۷)

اس میں بہاولپوری نے قرآنی پیشن  گوئی کا عجیب مفہوم پیش کیا ہے۔اسی طرح عبدالطیف بہاولپوری جماعت احمدیہ کے مبلغین کی شان میں لکھتا ہے کہ"پس وہ سعید الفطرت نفوس جو اس وقت تک اسلام اختیار کر چکے ہو ں گے وہ اپنے ان مبلغوں سے گفتگوکے دوران یہ سوال بھی کریں گے۔ لیتسآءلوا بینهم کم لبثتم(یہاں پر لفظ "قال"کو حذف کر لیا گیا ہے)"کہ ہمارے ملکوں میں جو تمہارا تبلیغ کے لیے آنا ہوا ۔ اس سے پہلے تم نے اپنے مرکز میں جو وقت گزاراوہ کتنی مدت ہے؟  قالو لبثنا یوما او بعض یوم۔ "جواب میں کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ" (یہاں پر ایک دن سے مرزا غلام احمد کا زمانہ مراد لیا ہے اور دوسرے دن سے خلفاء کا زمانہ)۔(۸ )اسی طرح سورۃ  یٰس کی آیت نمبر چار کی تشریح میں لکھاہے کہ”یہ آیت آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کے بارے میں ہے اور اس پر درج ذیل قرآنی آیات پیش کرتا ہے ۔

i۔ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَسِدْرَةِالْمُنْتَهَى۔(۹)

ii۔واشرقة الارض بنور ربها۔(۱۰)

iii۔واٰ خرین منهم لما یلحقوا بهم۔(۱۱)ان آیات مبارکہ سے بہاولپوری اس بات کو بطور استشہاد کے پیش کر کے ثابت کر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانی مرزا غلام احمد کی صورت میں ہوئی ہے۔

۲۔ بہاولپوری اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے احادیث مبارکہ سے بھی غلط استدلال کرتا ہے۔چنانچہ سورۃ کہف کی تشریح میں ایک حدیث لکھ کر یہ استدلال کیا ہے کہعن ابی سعید الخدری عن النبیﷺ قال یقول الله تعالیٰ یا اٰدم فیقول لبیک وسعدیک والخیر بیدیک قال فیقول اخرج بعث النار قال وما بعث النار قال من کل الف تسعمئاة وتسعة وتسعین فعنده یشیب الصفیر وتضع کل ذات حمل حملها وتري الناس سکاری ٰوماهم بسکاری ٰولکن عذاب الله شدید۔ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس میں قیامت کا واقعہ نہیں بلکہ یہاں آدم سے مراد آخری زمانہ کا آ دم حضرت امام مہدی ہے جسے اللہ تعالےٰ نے وحی میں بھی آدم فرمایا"۔(۱۲)

۳۔ اس کے بعد بہاولپوری مرزا غلام احمد کے الہامات اور وحی سے بھی استدلال کرتا ہے اور اس کے لیے تذکرہ،حقیقت الوحی اور کشتی نوح کے حوالے کثرت سے دیتے  ہیں۔

۴۔ بہاولپوری نے قادیانیوں کے مختلف رسائل سے استدلال کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی مفکرین کا بھی سہارا لیا ہے۔

عبداللطیف بہاولپوری کی تفاسیر کا اصول تفسیر کی روشنی میں جائزہ:

           تفسیر بالرائے المذموم کے متعلق علامہ ابن نقیب لکھتے ہیں"قال ابن نقیب جملة ما تحصل فی معنیٰ حدیث التفسیر بالرائ خمسة اقوال، احدها التفسیر من غیرحصول العلوم التی یجوز معها التفسیر، الثانی تفسیر المتشابه الذی لایعلمه الاالله، الثالث التفسیر المقدر لمذهب الفاسد بان یجعل المذهب اصلاً والتفسیر تابعا فیرد الیه بأی طریق امکن وان کان ضعیفا، الرابع التفسیر ان مراد الله کذا علی القطع من غیر دلیل، الخامس التفسیر بالاستحسان والهویٰ۔ (۱۳)

"ابن نقیب کہتے ہیں کہ تفسیر بالرای کے بارے میں من جملہ پانچ اقوال ہیں۔ پہلا وہ تفسیر ہے جوتفسیر کے لازمی علوم کے حصول کے بغیر ہو( جن کے بغیر تفسیر کرنا جائز نہیں)۔ دوسرا  وہ تفسیر متشابہ جس کی تفسیر ماسوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، تیسرا وہ تفسیر جو مذہب فاسد کے لئے ہو بایں صورت کہ مذہب (فاسد)کو اصل قرار دیاجائے اور تفسیر کو اس کے تابع اور ہر ممکن طریق سے اس کو پھیرا جائے، چوتھا وہ تفسیر ہے کہ کوئی بغیر دلیل قطعی کے کہے کہ اللہ کی مراد یہ ہے، پانچویں وہ تفسیر ہے جو خواہش نفس کے مطابق ہو "۔

علامہ زرقانیؒ  نے مناہل العرفان میں قرآن کی ہر اس تفسیر کو غلط قرار دیا ہے جو صحابہؓ اور تابعین ؒ کی تفسیر

کے خلاف ہو۔چنانچہ لکھتے ہیں:وفی الجملة من عدل عن مذاهب الصحابة والتابعین وتفسیرهم الی ٰمایخالف ذالک کان مخطاً فی ذالک بل مبتدعاً لانه ماعلم بتفسیر هو معانیه کما انه ماعلم باالحق الذی بعث الله به رسوله(۱۴)۔

           بہاولپوری نے اپنی ان تفاسیر میں تفسیر بالرائے مذموم کی خطرناک شکل اختیار کر کے قرآنی آیات کو مرزا غلام احمد اور جماعت پر چسپاں کئے ہیں اور بعض جگہوں پر تو قرآنی آیت کا ترجمہ ہی تبدیل کردیا ہے ۔جیسے کہ:

تَنزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ (۱۵) ۔" (یہ قرآن حکیم)نازل کردہ ہے غالب اور مہربان ہستی کا"۔

عبد اللطیف کی طرف سے ترجمہ:

"تیرا نزول (دوبارہ بھی)خدائے عزیز ورحیم کی طرف سے ہے"۔(۱۶)

قرآنی آیت کا یہ ترجمہ جماعت احمدیہ کے درج ذیل نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔جماعت کا یہ نظریہ ہے کہ قرآن مجہد ۱۸۵۷ء کو زمین سے اٹھا لیا گیا تھاپھر دوبارہ  مرزا غلام احمد پر ظہور کر کے اس کی تعلیم دی گئی۔چنانچہ اسی نظریہ کے متعلق لکھا ہے کہ"قرآنی آیت"انا علی ذهاب به لقٰدرون"اس آیت کے اعداد بحساب جمل ۱۲۷۴ ہیں اور ۱۲۷۴ کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو ۱۸۵۷ء ہوتا ہے۔ سو درحقیقت ضعف اسلام کا زمانہ ابتدائی یہی ۱۸۵۷ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالیٰ آیتِ موصوفہ بالا میں فرماتے  ہیں  کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائے گا ۔ (۱۷)یہ وہ خطرناک عقیدہ ہے جس کے ذریعہ سے جماعتِ احمدیہ آنحضرتﷺکی بعثتِ ثانیہ مرزا غلام احمد کی صورت میں ثابت کرتی ہے،چنانچہ مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے کہ:"ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے؟ اگر قرآن موجودہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے، اسی لئے ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ ﷺ(مرزا قادیانی) کو بروزی طور پر دوبارہ دنیا میں مبعوث کرکے آپ پر قرآن شریف اتارا جاوے"۔(۱۸)

دوسری آیت کا ترجمہ اس طرح سے کرتے ہیں:

هَلْ أَتَی عَلَی الْإِنسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُن شَیْئاً مَّذْکُوراً إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِیْعاً بَصِیْراً(۱۹)

"کیا گزرا ہے انسان پر ایک ایسا وقت،زمانے کا نہ تھا وہ کوئی قابلِ ذکر چیز ۔بے شک ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے تاکہ امتحان لیں اس کا اسی لیے بنایا ہے ہم نے اسے سننے والا"۔

عبداللطیف کی طرف سے ترجمہ:

"کیا اس انسان (کامل)پر وہ گھڑی آ گئی ہے کہ اسے بے حقیقت قرار دیا جاتا ہے اور اس کے کاموں کو کوئی یاد نہیں کرتا (گھبراؤ نہیں)ہم نے اس انسان کو بھی پیدا کردیا ہے (جو ان بہتان تراشوں کا خوب مقابلہ کرے  گا)ایسے نطفہ سے جس میں مختلف (خاندانوں کی)ملاوٹ ہے ہم اس کی آزمائش کریں گے۔پھر ہم اس کو سمیع بصیر بنائیں گے"۔(۲۰)

ان آیات کے ترجمہ میں آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کو مرزا غلام احمد کی روپ میں ثابت کرنے کے لیے ترجمہ ہی تبدیل کردیا ہے۔

اس کے علاوہ بہاولپوری نے قرآن کی مراد لینے میں بھی بہت زیادہ تحریف کی ہے ۔چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت سبحان الذی اسریٰ بعبده لیلا من المسجد الحرام(۲۱)کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ" فرقان حمید کا قاعدہ ہے کہ جہاں کہیں اس میں اسراء باللیل کا ذکر آتاہے وہاں اس سے مراد ہجرت ہوتی ہے۔پس اس اصول کے مطابق یہاں" اسریٰ بعبدہ "کے ضمن میں آنحضرت ﷺکی ہجرت کی طرف اشارہ ہےاور اس میں یہ پیشنگوئی ہے کہ یہی ہجرت آپ ﷺ کے آئندہ دور عروج و اقبال کے لئے شاندار معراج ہوگی"۔(۲۲)جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ آنحضرتﷺکو معراج مع الجسد نہیں ہوا تھا۔اسی نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے بہاولپوری نے مفہوم میں تبدیلی کی ہے۔لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معراج جسمانی پر امت کا اجماع رہا ہے اور صحابہؓ کو  اس مسئلہ میں کبھی اختلاف نہیں ہوا۔اگر اختلاف ہوا بھی ہے تو اس بارے میں کہ آنحضرت ﷺنے اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی کیا ہے یا نہیں؟اور اس آیت میں لفظ "عبد"آیا ہے جس کا ترجمہ ہے بندہ اور یہ روح و جسد کا مجموعہ ہے اس کا اطلاق صرف روح پر صحیح نہیں۔ قرآن میں بھی یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے جیسے:ارایت الذی ینهی عبدا اذا صلی(۲۳)وانه لما قام عبدالله یدعوه کادوا یکونون علیه لبدا(۲۴)ذکر رحمة ربک عبده زکریاً(۲۵)ان مقامات میں لفظ عبد آیا ہے لیکن کہیں بھی صرف روح مراد نہیں لے سکتے۔اسی طرح "اسریٰ بعبده" بھی اس پر دلالت کرتا ہے جس کا معنی ہے کہ خدا اپنے بندے کو بحالت بیداری مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئےاور اگر یہ معنی لیں کہ بحالت خواب یا محض روحانی طور پر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئے تو پھر قرآنی آیت فاسر بعبادی لیلاً(۲۶)اور فاسر باهلک بقطع من اللیل(۲۷)کا ترجمہ کیا ہوگا؟اور اسی طرحلنریه من آیٰتنا سے معلوم ہوتا ہے کہ "اسریٰ"سے خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرانا تھا۔اسی طرح تواتر کے ساتھ حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ ﷺ نے اس واقعہ کو لوگوں میں بیان کیا تو کفار نے آپ ﷺکا مذاق اڑایا اور مشرکین   نے تالیاں بجائیں اور مختلف سوالات کئے اگر یہ بیداری کا واقعہ نہ ہوتا تو یہ لوگ مذاق نہ کرتے اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ یہ واقعہ سن کر کچھ لوگ مرتد ہوگئے اگر یہ بیداری کا واقعہ نہ ہوتا تو یہ حالات کبھی پیدا نہ ہوتے۔

           بہاولپوری نے اس تمہید میں غلط اصول بیان کر کے جو استدلال کیا ہے اصل میں اس کے بعد بہاولپوری نے معراج کے بارے میں وہی مذہب اپنایا ہے جو مرزا غلام احمد کے ہا ں پایا جاتا ہے۔ایک اور جگہ پر مقام محمود کی غلط تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مقام محمود کے سات ادوار ارتقاء ہیں ۔چھ تو آنحضرت ﷺکی زندگی میں ہوگئے۔لیکن اس کا ساتواں دور جس میں مقام محمود کی تجلیات کا کامل ظہور ہوگا وہ مسیح موعود مرزا غلام احمدکی شکل میں ہوا ہے۔اس وقت حضرت مسیح موعود پر ایک طرف تو یہ وحی بالفاظ قرآنی عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محموداہو کر سابقہ وعدہ کی یاد تازہ کرتی ہے تو دوسری طرف آپ کو یہ الہام ہوا کہارادالله ان یبعثک مقاما محمودایہ ظاہر کرتا ہے کہ وحی سابقہ میں جس وعدہ کی توقع تھی اس کے وقوع و ایفاء کا زمانہ یہی ہے۔آپ کو اس موعود مقام پر کھڑا کر کے عظیم الشان فتوحات کا وعدہ دیا جاتا ہے اور اس کے لئے آپ کو ایک موعود بیٹے مثیل فاروق فضل عمر محمود کی بشارت دی جاتی ہے"۔(۲۸)

یہاں پر بہاولپوری نے قرآنی آیت میں تحریف کرکے آیت کا مصداق مرزا غلام احمد کو قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ مقام محمود کا غلط مفہوم بیان کرکے آنحضرت ﷺکی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خوش کرنے کے لیے اس کی پیدائش کو بھی وحی سے ثابت کیا ہے ۔چنانچہ مقام محمود کے متعلق علامہ نسفی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ای عسی ان یبعثک یوم القیامة فیقیمک مقاما محمودا اوضمن یبعثک معنی یقیمک وهو مقام الشفاعة عند الجمهور ویدل علیه الاخبار او هو مقام یعطی فیه لواء الحمد"۔(۲۹)

سورہ کہف میں قل لئن اجتمعت الانس والجن (۳۰)کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "(جِن بمعنی پوشیدہ )وہ قوم جزائر اور پہاڑوں میں رہنے والی ہوگی (جِن پہاڑی لوگوں کو بھی کہتے ہیں)یہ قوم یاجوج ماجوج کی ہوگی جو آگ سے بکثرت کام لینے کے باعث اس نام سے نامزد ہوگی"۔(۳۱)

اس میں بہاولپوری نے جِن سے یاموج ماجوج مراد لیا ہے جو کہ کسی لغت کی کتاب میں نہیں ہیں۔

بہاولپوری سورہ کہف کی تشریح میں اپنی جماعت کی فضیلت اورقرآن کے نزول ثانی کوثابت کرتے ہوئے بڑے عجیب انداز میں لکھتے ہیں کہ "عالمگیر جنگ کی صورت میں، ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک عذاب الٰہی کا کوڑا مغربی اقوام پر پڑ کر انہیں بیدار کرنے والا تھا۔آیت  الحمد لله الذی انزل علیٰ۔۔۔۔"میں اس کی پیشنگوئی مخفی تھی ۔اس کے اعداد ۱۹۱۸ء ہیں جو جنگ کے خاتمے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔اس جنگ کے بعد احمدیہ مشن ان ممالک میں جلد ہی پھیلنا شروع ہوگیا"(۳۲)اس کے بعد قرآن کے نزول ثانی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہلم یجعل له عوجایہاںلم یجعلکا لفظ رکھا ہے۔"لایجعل" نہیں فرمایا ۔جس سے قرآن حکیم کے نزول ثانی کے عہد کی طرف اشارہ ہے"۔(۳۳)

اس میں بہاولپوری نے قرآنی مصداق کو ہی بدل دیا ہے۔

           بہاولپوری سورہ کہف کی آیت"ام حسبت ان اصحٰب الکهف والرقیم"(۳۴)میں کہف اور رقیم سے قادیان اور ربوہ ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اصحٰب الکهف والرقیم  ان دو جگہوں میں بسنے والی اور ان سے رابطہ رکھنے والی ان بستیوں کا نام ہے جب کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے یہ دو جگہیں اشاعت اسلام کا مرکز بننے والی تھیں ایک مکی مرکز قادیان ہے جسے الکہف کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔دوسرا مدنی مرکز ربوہ ہے جسے الرقیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔یہ مرکز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود فرزند مصلح موعود کی مساعی جمیلہ کا شاندار کارنامہ ہے"۔(۳۵)

یہاں پر بھی بہاولپوری نے دونوں لفظوں کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔چنانچہ صاحب کشاف اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:والکهف:الغار الواسع فی الجبل[والرقیم] اسم کلبهم، وقیل هو لوح من رصاص رقمت فیه اسماؤهم جعل علی باب الکهف. وقیل: الجبل. وقیل: قریتهم. وقیل: مکانهم بین غضبان وایلة دون فلسطین"۔(۳۶)

اس کے بعد بہاولپوری سورہ کہف کی آیت نمبر ۱۰ سے ۲۶ تک آ یات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے : "اصحاب الکہف کے واقعات کو بھی حواریان مسیح محمدی کی پیشنگوئیاں سمجھو، نہ کہ صرف گزشتہ زمانہ کی تاریخ"۔(۳۷)

بہاولپوری نے سورہ یٰس کی تشریح کرتے ہوئے اس سورۃ کی ہر آیت کو مرزا غلام احمد اور جماعت احمدیہ پر چسپاں کیا ہے ۔چنانچہ سورۃ یٰس کی آیت "تنزیل العزیز الرحیم"(۳۸)کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "مفسرین عام طور پر اس سے صرف قرآن کی تنزیل مراد لیتے ہیں ۔یہ بھی صحیح ہے مگر مضمون کے سیاق و سباق کی رو سے میرے نزدیک اس میں آنحضرت ﷺکی دوبارہ تنزیل کی طرف اشارہ ہے"۔(۳۹) حضورﷺکی بعثت ثانیہ کو ثابت کرنے کے لیے یہ غلط تفسیر کی ہے۔

اسی طرح سورہ یٰس میں "وجآء من اقصی المدینة رجل یسعیٰ"(۴۰) کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ "یہاں رجل سے مراد مرد فارس حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور اقصی المدینۃ سے مراد قادیان ہے"۔(۴۱)

صاحب کشاف لکھتے ہیں کہ"(رجل یسعی)هوحبیب بن اسرائیل النجار"۔(۴۲)

اسی طرح "لا ا قسم بیوم القیامة"(۴۳)کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "میں شہادت کے طور پر پیش

کرتا ہوں اس مبارک وقت یوم القیامہ(حاشیہ میں مرزا بشیر الدین کا قول بیان کیا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے۔) کو جب کہ خدا کا مامور ۔موعود اقوام عالم کا سر صلیب ۔قاتل دجال حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہو کر روحانی حشرونشر بر پا کرے گا۔اس دنیا میں یوم القیامہ کا نمونہ پیش کرکے دنیا کی کایا پلٹ دے گا"۔(۴۴)حالانکہ تمام مفسرین نے یہاں قیامہ سے مراد حشر کا دن لیا ہے۔

بہاولپوری سورہ دھر کی پہلی دو آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ"اس آیت میں لفظ انسان کو دو دفعہ دہرایاگیا ہےورنہ بظاہر چاہیے تو یوں تھا کہ دوسری ضمیر پر اکتفاء کی جاتی کہ فصاحت وبلاغت کلام کا یہی تقاضا ہےمگر ضمیر کی جگہ لفظ انسان کو دہرانا ایک خاص حکمت اور مصلحت کے ما تحت ہے جس میں موجود ہ زمانہ کے متعلق عظیم الشان پیشنگوئی کی طرف اشارہ ہے جس کا انکشاف عصر حاضر میں ہونا ہی مناسب تھا ۔ پس پیشنگوئی کے لحاظ سے پہلے انسان سے آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس مراد ہے اور دوسرے میں آپ کے غلام ۔بروز اکمل۔مہدی موعود۔مسیح موعود۔موعود اقوام عالم کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ ان ہر دو انسانوں کی شخصیت اور مراتب میں بہت بڑا فرق اور امتیاز تھا اس لئے دوسرے کو پہلے سے جدا رکھا اور ضمیر پر اکتفاء نہ کیا"۔(45)

           بہاولپوری "انا نحن"کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ"یہ خطاب جس طرح آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کو اس وقت ہوا تھا جب کہ قرآن حکیم آپ پر تدریجا نازل ہورہا تھا۔اسی طرح یہ خطاب آج بھی حضور ﷺکے بروز مہدی معہود کو بھی ہے کہ وہ قرآن جو دنیائے قلوب انسانی سے اٹھ چکا تھا ۔ اب چونکہ اسلام کی نشا ۃ ثانیہ کا دور ہے۔لہذا وہ قرآن دوبارہ تیرے ذریعہ قلوب انسانی میں اتارا جارہا ہے"۔(۴۶)

 

خلاصہ کلام:  

جماعت احمدیہ میں مولوی عبداللطیف بہاولپوری کے تراجم قرآن سلف وصالحین کے اصول تفسیر سے ہٹ کر لکھے گئے ہیں۔ان تراجم قرآن میں جماعت احمدیہ کی بھر پور انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔اسی وجہ سے قرآنی تراجم کے ساتھ ساتھ تفسیر اور قرآنی مصداق میں بھی کثرت سے غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔

خاتم النبیین آنحضرت ﷺ کی امت ہونے کے ناطے اہل علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دین کی سر بلندی اور اس کی حفاظت کے لیے قادیانیوں کے باطل عقائد و نظریات کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے اصول تفسیر اور غلط تراجم قرآن سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں۔تاکہ اس پر فتن دور میں امت مسلمہ کا ہر فرد اس فتنے سے محفوظ رہ سکے۔دعاء ہے اللہ ہم سب کو تمام فتنوں سے محفوظ فرمائے۔آمین

حوالہ جات

۱۔ قادیانی،غلام احمد،مرزا،براہین احمدیہ(ناشر:شیخ یعقوب علی تراب احمدی،۱۹۰۸ء)ص:۵۸۰۔

۲۔انعام:۹۳۔

۳۔ روزنامہ”الفضل‘‘ربوہ،(۵نومبر،۱۹۷۷ء۔)ج۶۶/۳۱،شمارہ نمبر۲۴۹۔

۴۔ بہاولپوری،عبدالطیف،تفسیر سورہ کہف،(ضیاء الاسلام پریس،ربوہ۔)ص:۳۔

۵۔ بہاولپوری،تفسیر سورۃالقیامہ والدھر(ضیاء الاسلام پریس،ربوہ،۱۹۷۹ء۔)ص:۵۔۶۔

۶۔ روزنامہ”الفضل‘‘ربوہ،(۵نومبر،۱۹۷۷ء۔)ج۶۶/۳۱،شمارہ نمبر۲۴۹۔

۷۔ تفسیر سورہ کہف،ص:۳۷۔

۸۔ تفسیر سورہ کہف،ص:۴۰۔

۹۔ النجم:۱۳، ۱۴۔

۱۰۔ الزمر:۶۹۔

۱۱۔ الجمعہ:۲۔

۱۲۔ تفسیر سورہ کہف،ص:۷۵۔

۱۳۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن( دارالنثر،سعودیہ۔ط:۱) ۲/۴۰۳۔

۱۴۔ زرقانی، محمد عبد العظیم، مناہل العرفان(دارِ احیاء التراث العربی بیروت)۱/۵۴۹۔

۱۵۔ سورۃ یٰس:۴۔

۱۶۔ بہاولپوری،عبداللطیف،تفسیر سورہ یٰس(ضیاء الاسلام پریس،ربوہ)ص:۱۰۔

۱۷۔ قادیانی،غلام احمد،مرزاا، زالہ اوہام(ناشر: شیخ نور احمد ملک)حصہ دوم:حاشیہ،ص:۷۲۲۔

۱۸۔ بشیر احمد ایم اے،مرزا،کلمۃ الفصل(نظارت اشاعت،ربوہ)ص:۱۷۳۔

۱۹۔ سورۃ الدھر:   ۱،۲۔

۲۰۔ تفسیر سورہ قیامہ والدھر،ص:۲۶۔

۲۱۔ بنی اسرائل:۱۔

۲۲۔ تفسیر سورہ بنی اسرائیل،ص:۱۹۔۲۰۔

۲۳۔ سورۃ العلق:۹۔۱۰۔

۲۴۔ سورۃ الجن:۱۹۔

۲۵۔ سورۃالمریم:۲۔

۲۶۔ سورۃالدخان:۲۳۔

۲۷۔ سورۃالحجر:۶۵۔

۲۸۔ تفسیر سورۃبنی اسرائیل،ص:۲۴۲۔۲۴۵۔

۲۹۔ عبداللہ بن احمد بن محمود،تفسیر نسفی(مکتبہ توفیقیہ،مصر)۱/۴۰۲۔

۳۰۔ سورۃبنی اسرائیل:۸۸۔

۳۱۔ تفسیر سورہ بنی اسرائیل،حاشیہ ص:۲۷۱۔۲۷۲۔

۳۲۔ تفسیر سورہ کہف،ص:۶۔

۳۳۔تفسیر سورہ کہف،ص: ۷۔

۳۴۔ سورۃکہف:۹۔

۳۵۔ تفسیر سورہ کہف،ص:۷۔

۳۶۔ زمخشری،ابوالقاسم محمود بن عمر،الکشاف عن حقائق التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التاویل(دار احیاء التراث العربی،بیروت) ۲/۷۰۴۔۷۰۵۔

۳۷۔ تفسیر سورہ الکہف،ص:۳۳۔

۳۸۔سورۃیٰس:۴۔

۳۹۔ تفسیر سورہ یٰس،ص:۲۱۔

۴۰۔ سورۃیٰس:۲۰۔

۴۱۔ تفسیر کشاف،۴/۱۰۔

۴۲۔ایضاً۔

۴۳۔سورۃقیامۃ،۱۔

۴۴۔تفسیرسورۃالقیامۃوالدھر،ص:۸۔۹۔

۴۵۔ تفسیر سورۃالقیامۃ والدھر،ص:۲۷۔

۴۶۔ تفسیر سورۃالقیامۃ والدھر،ص:۱۶۱۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...