Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 6 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

حوالہ کا فقہی تصور اور اس کی جدید صورتیں |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060029336_741

Pages

01-15

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/167/157

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/167

Subjects

Ḥawāla credit card Wakāla discounting of bill of exchange.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

عملی زندگی میں ”حوالہ“ کاشمار اہم موضوعات میں ہوتاہے ۔شخصی اور اجتماعی امور سے اس کا گہرا تعلق ہے۔فقہاء کرام ؒنے حوالہ کے موضوع پرتفصیلی کلام کیاہےجس میں حوالہ کی تعریف سے لے کراس کی شرائط وصفات اوراس کے تقاضے تک شامل ہیں ۔ زمانہ قدیم میں حوالہ کاتعلق زیادہ تر شخصی معاملات سے متعلق تھا،بعض موقعوں پراجتماعی معاملات میں بھی ضرورت پڑتی تھی لیکن معاشیات میں آج کی طرح کی چونکہ جدت نہ تھی لہٰذا بینکاری اور اس کے علاوہ جدید صورتوں میں اس کا استعمال بھی نہ تھالیکن جب سے کنونشنل بینکوں کے متبادل غیرسودی بینک یااسلامی بینک وجود میں آئے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ حوالہ کااستعمال بھی ان بینکوں کے اندروسیع پیمانے پرشروع ہواہے۔چونکہ حوالہ کی بعض صورتیں انتہائی حساس تھیں یعنی معمولی سی بےاصولی یاغفلت کی وجہ سے معاملے کوجائز سے ناجائز کے حدود میں شامل ہونے کا قوی اندیشہ تھا لہٰذاموضوع کی اس حساسیت کے پیش نظر یہ داعیہ پیداہواکہ حوالہ کی فقہی، تطبیقی اور عملی صورتوں کاجائز ہ لیا جائےتاکہ یہ واضح ہوجائے کہ حوالہ کونسی صورتوں میں درست ہےاورکونسی صورتوں میں حرام یا اس کی حدود میں داخل ہے۔

حوالہ کا لغوی معنی

حوالہ نقل وتحویل کوکہاجاتاہے ۔یقال تحول حاله من الفقر الی الغناء"[1]یعنی اس کی حالت فقر سے مالداری کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔

اصطلاحی معنی:نقل الدین من ذمة الی ذمة شخص اخر،یعنی قرض کو ایک شخص کی ذمہ سے دوسرے کی ذمہ داری کی طرف منتقل کرنا۔[2]

حوالہ میں استعمال ہونے والے اصطلاحات

محیل: مدیون جواپنے ذمہ واجب الاداء قرض کودوسرے کے حوالہ کررہاہے۔

محال علیہ:جودوسرے شخص کے قرض کی ادائیگی کو اپنے ذمہ میں قبول کررہاہے۔

محتال لہ:دائن وہ قرض خواہ جس کاقرض محیل کے ذمہ لازم ہے۔

حوالہ کی مشروعیت

حوالہ کی مشروعیت حدیث واجماع سے ثابت ہے۔

عن ابی هریرة رضی الله عنه أن رسول الله ﷺ قال؛ مطل الغنی ظلم واذا اتبع احدکم علی ملئ فلیتبع؛[3]

"حضورﷺ نےارشاد فرمایا کہ مالدار کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے ۔جب تم میں سے کسی کو (قرض کے مطالبہ میں) مالدار کے حوالہ کیاجائے تو اسی کا پیچھاکرے،یعنی محتال علیہ (مالدار) سے مطالبہ کرے"۔

یہ بات ائمہ اربعہ ؒکے درمیان متفق علیہ ہے کہ فلیتبع کاامر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ دائن کی مرضی ہے ،اگرچاہے توحوالہ قبول کرلےاور اگر چاہے توقبول نہ کرے،لیکن آپ ﷺ نے مشورہ یہ دیاکہ اگر کوئی حوالہ کرناچاہے اور جس کی طرف حوالہ کرناچاہتاہے وہ غنی بھی ہے ،ادائیگی پرقادر بھی ہے توخواہ مخواہ تم اصل مدیون سے لینے پرکیوں اصرار کرو؟اس سے حوالہ قبول کرواوراس سےوصول کرو۔اتنی بات تو متفق علیہ ہے ۔[4]

حوالہ کے احکام

۱۔۔دائن ،مدیون محتال علیہ کی رضامندی سے عقد حوالہ مکمل ہونے کے بعد مدیون کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی ۔

۲۔۔ اس کے بعد دائن کوحق ہوگاکہ اپنے قرض کا محتال علیہ سے مطالبہ کرے۔

۳۔۔ اگر قرض کی ادائیگی سے پہلے محتال علیہ انتقال کرجائے یاغریب ہوجائے یاقرض اداکرنے سے انکار کردے ،تودائن کوحق ہوگاکہ دوبارہ مدیون سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے،کیوں کہ مدیون سے مطالبہ کاحق اس وقت ساقط ہوتاہے جب اس کا قرض محتال علیہ سے وصول ہو،وصول نہ ہونے کی صورت میں اس کاحق باقی رہے گا۔[5]

۴۔۔اگر محتال علیہ قرض ادا کرے تو اب اس کو مدیون سے وصول کرنےکاحق حاصل ہوگا ،دو شرطوں کے ساتھ ؛

نمبر ایک یہ کہ اس نے مدیون کے حکم سے ذمہ داری اٹھائی ہو۔نمبر دویہ کہ اس کے ذمہ مدیون کا کوئی قرض نہ ہو،اگر قرض ہوتو مطالبہ کاحق نہ ہوگا،کیونکہ اس نے اپناحق تو پہلے وصول کرلیا۔

حوالہ اورکفالہ کے درمیان فرق (Difference Between Debt Guarantee and Debt Transferring)

حوالہ اور کفالہ دونوں اس بات میں تو مشترک ہیں کہ ان دونوں میں کسی مقروض کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری کسی تیسرے شخص کی طرف سےاپنے اوپرلی جاتی ہے ،لیکن ان دونوں کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہے کہ کفالہ کی صورت میں حسب سابق اصل مقروض شخص ہی حقیقی طور پر مقروض رہتاہے اور دوسرا شخص محض اس کے اوپر لازم شدہ قرض کی ادائیگی کی یقین دہانی کراتاہے،جبکہ حوالہ کی صورت میں اصل مقروض شخص،مقروض ہونے سے نکل جاتاہے اوراس کی جگہ دوسراشخص اپنی مرضی سےاپنے آپ کومقروض قراردیتاہے۔

حکم اور اثرات کے لحاظ سے کفالہ اورحوالہ میں یوں فرق کیاجائے گاکہ کفالہ کی صورت میں قرض خواہ کواصل مقروض شخص اور اس کی طرف سے بننے والے کفیل دونوں سے برابر مطالبے کاحق حاصل ہوتاہے اور یہ اس کی مرضی پرمنحصر ہوتاہے کہ وہ کس سے اپنے حق کا مطالبہ مناسب سمجھتاہے ،جبکہ حوالہ کی صورت میں قرض خواہ کواصل مقروض سے مطالبے کاحق باقی نہیں رہتا،بلکہ وہ صرف اور صرف محتال علیہ (ثانوی مقروض شخص) سے اپنے حق کامطالبہ کرے گا،البتہ بعض خاص صورتوں میں وہ اصل مقروض سے بھی مطالبہ کرسکتاہے۔

مذکورہ بالاتفصیل سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ اگر کفالہ کی صورت میں یہ شر ط لگائی جائے کہ اصل مقروض شخص سے مطالبہ نہیں کیاجاسکے گاتو یہ کفالہ پھرحوالہ کاحکم اورحیثیت اختیارکرجائےگا،اس طرح اس کے برعکس اگر حوالہ کی صورت میں یہ شرط لگائی جائے کہ محتال علیہ (ثانوی مقروض) کے ساتھ اصل مقروض( محیل) سے بھی مطالبہ کیاجاسکے گاتوپھریہ حوالہ کفالہ کاحکم اورحیثیت اختیارکرےگااوراس میں وہ سارے مسائل لاگو ہوں گے جوکفالہ کی بحث سے تعلق رکھتے ہیں ۔

حوالہ اور وکالہ کے درمیان فرق

حوالہ اور وکالہ کے درمیان مشترک بات یہ ہے کہ دونوں میں قرض خواہ کے علاوہ کسی تیسرے شخص کوقرض کی وصولی کی اجازت دی جاتی ہے ،لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ حوالہ میں ایک شخص دوسرے کامقروض ہوتاہے اور وہ اپنے قرض خواہ کو کسی تیسرے شخص (جو اس مقروض کامقروض ہوتاہے )کے اوپرمنتقل کرلیتاہے،جبکہ وکالت کی صورت میں وکیل بنانے والادوسرے شخص (یعنی جسے وکیل بنایاگیاہو)کامقروض نہیں ہوتا،بلکہ وہ اپنے قرض کی وصولی کےلیے دوسرے کواختیار دیتاہے کہ اصل مقروض شخص سے وہ اس کاقرض وصول کرکے اسکے حوالہ کردے۔

یہ واضح رہے کہ وکالہ کی صورت میں یہ بھی ہوسکتاہے کہ وکیل کااس وکیل بنانے والے (مؤکل) پرقرض ہو لیکن بنانے والااس کواپنے مقروض پرحوالہ کرنے کی بجائے اسے صرف قرض کی وصولی کاوکیل بنائے ،ایسی صورت میں جب تک وکیل کویہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ وصول کردہ رقم کواپنے قرض میں منہاکرلےاس وقت تک وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ وکالت کے تحت حاصل کردہ رقم اپنے پاس روک لے ،بلکہ وہ پابند ہوگاکہ حاصل شدہ رقم مؤکل کے حوالے کردے اوراس سے اپنے قرض کامطالبہ الگ سے کرلے۔

حوالہ میں رجوع کامسئلہ:اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب ایک مرتبہ حوالہ ہوگیااوردائن نے حوالہ قبول کرلیاتواس کے بعد دائن اصل مدیون سے کسی وقت رجوع کرسکتاہے یانہیں؟

اصل بات تو یہ ہے کہ جب حوالہ کردیاگیاتواب اصل مدیون بیچ سے نکل گیا،اب مدیون بدل گیا،اب مطالبہ کاحق محتال علیہ سے ہوگااورکفالہ اورحوالہ میں یہی فرق ہے کہ کفالت میں ضم الذمۃ الی الذمۃ ہوتاہے یعنی پہلے مطالبہ کاحق صرف مدیون سے تھا،اب کفیل سے بھی حاصل ہوگیاہے یعنی دونوں سے مطالبہ ہوسکتاہے ،اصل سے بھی اور کفیل سے بھی ،اورحوالہ میں مطالبہ منتقل ہوجاتاہے ،یعنی نقل الذمہ الی الذمہ ہوجاتاہے لہذا جب محتال نے محتال علیہ کی طرف سے حوالہ قبول کرلیاتواب اصل دائن کی طرف رجوع نہیں کرے گا،مطالبہ محتال علیہ سے کرےگا،لیکن امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جن میں محیل سے مطالبہ کاحق ہوتاہے اوریہ وہ حالات ہیں جس میں حوالہ (تویٰ) ہلاک ہوجائے اس کوحوالہ کاتوی ٰ ہوجانا کہتے ہیں ۔

مثلاً جس شخص کی طرف حوالہ کیاگیاتھایعنی محتال علیہ ،وہ مفلّس ہوکرمرگیااورترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا تواب دائن کس سے مطالبہ کرےگا،اس کاحوالہ تویٰ تو ہلاک ہوگیایابعد میں محتال علیہ حوالہ سے منکرہوجائے گاکہ جاؤ، میرے پاس کچھ نہیں ہے ،میں نہیں دوں گا،میں نے حوالہ قبول نہیں کیاتھااوراس دائن یعنی محتال علیہ کے پاس ثبوت بھی نہ ہوکہ عدالت میں جاکرپیش کرکے وصول کرلے،تواس صورت میں بھی حوالہ تویٰ ہوگیا۔ اب محیل یعنی اصل مدیون سے وصول کرسکتاہے توحوالہ تویٰ ہونے کی صورت میں دین اصل مدیون (محیل) کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔ توحنفیہ کے نزدیک رجوع کرسکتاہے۔[6]

ائمہ ثلاثہ رحمھم اللہ کامسلک

ائمہ ثلاثہ ؒ کہتے ہیں کہ چاہے حوالہ ہلاک ہوجائے تب بھی اصل مدیون سے مطالبہ کاحق نہیں لوٹتااور محتال کو محیل ( اصل مدیون) کی طرف رجوع کرنے کاکوئی حق حاصل نہیں ۔[7]

ارکان وشرائط: تمام معاملات کی طرح حوالہ کےلیے بھی ایجاب وقبول ضروری ہے ،یعنی مدیون اپنی طرف سے ایجاب کرے کہ قرض خواہ فلاں شخص سے اپنےواجبات وصول کرلے اور صاحب دین اور وہ شخص جس کو ادائیگی کاذمہ دار بنایاگیاہے دونوں اس کوقبول کرلیں۔[8]

شرائط: حوالہ کےلیے کچھ شرطیں بھی ہیں اور یہ شرطیں چار قسم کی ہیں۔

(1)۔ مدیون سے متعلق(2)۔ صاحب دین سے متعلق(3)۔ اداء دین کے ذمہ دار سے متعلق(4)۔اور خود اس دین سے متعلق جس کی ادائیگی کاذمہ لیاگیاہو۔

1۔مدیون سے متعلق: مدیون کے لیے ضروری ہے کہ عاقل ہو ،بالغ ہو اورحوالہ پرراضی ہو یعنی اس کوحوالہ پرمجبور نہ کیاگیاہو۔

۲۔۔صاحب دین سے متعلق: صاحب دین کےلیے شرط یہ ہے کہ وہ بھی عاقل وبالغ ہو اور اس معاملہ پرراضی ہو،نیز جس مجلس میں مدیون نے حوالہ کی پیش کش کی ہواسی مجلس میں اس نے قبول بھی کرلیاہو۔

۳۔۔اداء دین سے متعلق: جس شخص نےاداء دین کا ذمہ لیاہو،بعینہ یہی تینوں شرطیں اس میں ضروری ہیں۔

۴۔۔دین سے متعلق: جس دین کی ادائیگی پر"حوالہ" کیاجارہاہوضروری ہے کہ وہ "دین لازم" ہواورمدیون پراس کی ادائیگی ضروری ہو۔[9]

حوالہ کے معاملہ میں اضافی شرائط لگانے کاحکم

حوالہ کے معاملے میں کسی خارجی اوراضافی شرط(یعنی وہ شرط جوحوالہ کے معاملے کے بنیادی تقاضوں میں شامل نہ ہو)کےحوالے سے پہلے تویہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ مشروط حوالہ صرف اس معاملے کوکہاجائےگاجہاں معاملہ کے اندر ( حوالہ کے لیے ایجاب وقبول کرتے وقت)وہ شرط عائد کی گئی ہو،یاحوالہ کامعاملہ انجام دینے سے پہلے اس شرط پر فریقین کااتفاق ہوچکاہواور اس کے بعد اس شرط کو ملحوظ رکھ کر ہی حوالہ کامعاملہ کیاگیاہو،لہذااگر حوالہ کےمعاملہ کے وقت بھی کوئی شرط نہ لگائی گئی ہونہ اس سے قبل لگائی گئی ہو،بلکہ حوالہ کامعاملہ مکمل ہونے کے بعد کوئی شرط لگائی گئی ہوتوایسی صورت کو مشروط حوالہ نہیں کہاجائے گابلکہ ایسی صورت میں حوالہ کوالگ اورشرط والے معاملے کوالگ سمجھاجائے گااور وہ شرط اگرکوئی ایسی چیز ہوجوبذات خود خلاف شریعت نہ ہوتو اس پر ایک وعدہ کی حیثیت سے عمل درآمد لازم بھی ہوگا،البتہ اگر کسی خاص علاقے یامارکیٹ یاتجارتی ماحول میں کوئی شرط متعارف ومشہور ہوئی ہوتوایسی شرط اگر حوالہ کی تکمیل کے بعد بھی لگائی جائے تب بھی اس کی وجہ سے حوالہ کو مشروط سمجھاجائے گااور وہ شرط خود بخود حوالہ کے معاملے کاحصہ بنتی جائے گی۔[10]

حوالہ کے معاملہ کی تکمیل کے بعد کوئی اضافی شرط لگانا

اگر حوالہ کے معاملے کے اندر یااس کی تکمیل کے بعد محتال (قرض خواہ) یہ شرط لگائے کہ مجھے کسی بھی وقت اپنے قرض کے مطالبے کے سلسلےمیں محیل (اصل مقروض شخص) کی طرف رجوع کرنےکاحق حاصل رہے گا،میں صرف محتال علیہ سے مطالبے پراکتفاء نہیں کروں گا،تواس طرح کی شرط معاملہ کاحصہ بنے گی،لیکن اس کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد نہیں ہو گا،بلکہ معاملہ کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی یعنی حوالہ کامعاملہ کفالہ کے معاملے میں تبدیل ہوجائے گااوراس معاملے کے احکام حوالہ کے بجائے کفالہ کےمعاملےکے ہوں گے۔[11]

اصل مقروض شخص کی طرف کسی بھی صورت میں رجوع نہ ہونے کی شرط

اگر حوالہ کے اندر یہ شرط لگائی جائے کہ اس حوالہ کے بعد محتال ّ(قرض خواہ) کومحیل (اصل مقروض شخص) کی طرف کسی بھی صورت میں رجوع کرنےکاحق نہیں رہے گا،خواہ محتال علیہ زندہ رہے یافوت ہوجائے،وہ ادائیگی پر قادر رہے یامفلس بن جائے، کسی بھی صورت میں محیل کی طرف رجوع نہیں ہوگابلکہ اس (محیل ) کاذمہ مکمل طور پراور دائمی طور پر فارغ سمجھاجائے گا،تو یہ ایک فاسد شرط ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد اور ناقابل عمل بن جاتاہے۔[12]

حوالہ مقیدہ میں محیل کی طرف رجوع نہ کئے جانےکی شرط

اگر حوالہ مقیدہ کی صورت ہو(یعنی محیل نے محتال کو اس وجہ سے محتال علیہ کے اوپرحوالہ کیاہوکہ محتال علیہ پہلے سے محیل کامقروض تھااوراس قرض کی طرف نسبت کرکے اس کے اوپرحوالہ کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہو)اورحوالے میں محیل کی طرف سے یہ شرط ہوکہ اگر اس محتال علیہ کے ذمہ میں یہ قرض باقی نہ رہے تب بھی محیل کی طرف رجوع نہیں کیاجاسکے گا،تو یہ بھی ایک شرط فاسد ہوگی ،جس کی وجہ سے معاملہ فاسداورناقابل عمل بن جائے گا۔[13]

حوالہ کے اندر کسی اورکے مملوکہ اثاثہ سے قرض کی ادائیگی کاطے ہونا

اگر حوالہ کے معاملہ میں محتال علیہ کی طرف سے یہ شرط لگائی جائے کہ وہ قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری مطلق طور پرقبول نہیں کرتا،بلکہ ایک اثاثے کی فروختگی سے حاصل ہونے والی قیمت سے قرض کی ادائیگی کرے گااوروہ اثاثہ اس وقت اس (محتال علیہ) کی ملکیت میں نہ ہوبلکہ محیل یاکسی اور کی ملکیت میں ہوتو یہ حوالہ بھی فاسد اورناقابل عمل ہے،اس کی وجہ سے محتال علیہ کے اوپرکوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔[14]

کوئی ایسی شرط لگاناجس سے قرض کی ادائیگی مزید یقینی ہوجاتی ہو

اگرحوالہ میں کوئی ایسی شرط لگائی جائے جوعام طور پرنہ لگائی جاتی ہولیکن اس کی وجہ سے حوالے کے اصل تقاضوں پرکوئی فرق بھی نہ پڑتاہو،بلکہ اس کےلیے مزید تقویت کاباعث ہوتووہ شرط درست ہوگی ،مثلاً یہ شرط لگائی جائے کہ حوالہ قبول کرنے کے ساتھ ساتھ محتال علیہ اس محتال (قرض خواہ) کوکوئی چیز بطور رہن دے گایاقرض کی ادائیگی کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل فراہم کرے گااورمحتال علیہ اس شرط کو قبو ل کرلےتو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔[15]

حوالہ میں محتال علیہ کی طرف سے تاخیرسے ادائیگی کی شرط لگانا

اگر حوالہ میں محتال علیہ کی طرف سے یہ شرط لگائی جائے کہ میں فوری طور پر نہیں بلکہ مستقبل کی کسی معین تاریخ پرادائیگی کروں گاتویہ شرط بھی درست ہوگی ،اگرچہ محیل کے اوپر وہ قرض فی الحال واجب الاداء ہو،البتہ ادائیگی کی اس تاریخ کامتعین ہوناضروری ہے ورنہ حوالہ فاسد بن جائے گا۔[16]

حوالہ کے معاملہ میں خیارشرط طے کرنا

اگر حوالہ کے معاملہ میں کسی فریق کے لیے تین دن یااس سے زیادہ کسی بھی متعین مدت کے لیے یہ اختیار رکھ دیاجائے کہ اس وقت تک اس معاملے کو حتمی یاختم کرنے کااس کے پاس اختیارہوگاتو اس میں بھی حرج نہیں۔اسی طرح اگر حوالہ کے معاملہ کی تکمیل کے بعد بلکہ اس پر کچھ عرصہ گزرنےکے بعد بھی اگر اس طرح کی شرط جانبین کی مرضی سےلگائی جائے تو وہ درست ہوگی اوراس طے شدہ مدت میں شرط لگانے والے ( اختیار ملنے والے )کومعاملہ ختم کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔[17]

حوالہ میں محتال علیہ کی مالی حیثیت کے مستحکم ہونے کی شرط لگانا

اگر حوالہ کے اندرمحتال کی طرف سے یہ شرط ہو کہ محتال علیہ کی مالی حیثیت ایسی ہونی چاہیےجس کی بناء پر وہ فوری طور پرقرض کی

ادائیگی پرقادر نہ ہوورنہ میں اس حوالہ کو قبول نہیں کروں گا،تویہ شرط بھی درست ہے،لہذا اگرمحتال علیہ کی مالی حیثیت شرط کے مطابق نہ ہوتومحتال (قرض خواہ ) کویکطرفہ طور پر معاملہ ختم کرنے کااختیارہوگا۔[18]

حوالہ کب ختم ہوگا؟

مندرجہ ذیل صورتوں میں حوالہ ختم ہوجاتاہے ۔

۱۔۔حوالہ فسخ کردیاجائے ،ایسی صورت میں صاحب دین اصل مدیون ومقروض سے مطالبہ کرےگا۔

۲۔۔ جس شخص نے حوالہ قبول کیاتھااوردین اداکرنے کا ذمہ دار بناتھا،اس کی وفات ہوجائے یادیوالیہ ہوجائے یاکوئی بھی ایسی بات پیش آجائے کہ اب اس سے دین کی وصولی ممکن نہ رہے،یہ رائے حنفیہ کی ہے اورمفلس ودیوالیہ ہوجانے کی وجہ سے اصل مقروض پر ذمہ داری کالوٹ آنا حنفیہ میں بھی صاحبین کی رائے ہے،امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک مفلس ہونے کااعتبار نہیں۔

۳۔۔مقروض شخص اصل قرض دہندہ کوقرض ادا کردے۔

۴۔۔ قرض دہندہ اس شخص کومطلوبہ مال ہبہ یاصدقہ کردے،جس نے قرض کی ادائیگی کاذمہ لیاتھا۔

۵۔۔قرض دہندہ قرض اداکرنے کی ذمہ داری لینے والے شخص کواس مطالبہ سے بری کردے۔

۶۔۔صاحب دین کاانتقال ہوجائے اورجس نے دین کی ادائیگی کاذمہ قبول کیاتھا،وہی اس کاوارث قرار پائے ۔[19]

مقروض سے کب رجوع ہوگا؟

جس شخص نے دین اداکرنے کا ذمہ لیاہے ،وہ مدیون سے اداکردہ دین وصول کرنے کے لیے رجوع کرسکتاہے ،اس سلسلہ میں دوباتیں قابل غور ہیں:

اول یہ کہ رجوع کے درست ہونے کی شرطیں کیاکیاہیں ؟ دوسرایہ کہ کس چیزکےلیے رجوع کرےگا؟

رجوع کرنے سے متعلق یہ شرطیں ہیں:

۱۔۔ اس نے حوالہ کی ذمہ داری مقروض کے حکم سے قبول کیاتھی نہ کہ کسی اور کے حکم سے ۔

۲۔۔جس شخص نے دین اداکرنے کی ذمہ داری قبول کی ہو،اس نے قرض دہندہ کومال حوالہ اداکیاہو یااسے مال ِ حوالہ بطور ہبہ یاصدقہ کردیاہو،اگر قرض دہندہ نے قرض کی ذمہ داری قبول کرنے والے شخص کودین سے بری کردیاتواصل مدیون بھی برئ الذمہ ہوجائےگا،اورذمہ داری قبول کرنے والے شخص کو مدیون سے رجوع کرنے اور ما ل حوالہ وصول کرنے کاحق حاصل نہیں ہوگا۔

۳۔۔ مقروض شخص کا قرض اداکرنے والے شخص پر اسی کے برابر دین باقی نہ ہو،اگر دین باقی ہوتودونوں دین برابر ہوجائیں گے اوررجوع کرنے کی گنجائش نہ ہوگی۔[20]

موجودہ دور میں حوالہ کی صورتیں

اس دور میں حوالہ کی بہت ساری قسمیں رائج ہیں،اصل میں نوٹ حوالہ کی رسید تھی،اب تو یہ ثمن عرفی بن گیالیکن اس کی ابتداء

اسی طرح ہوئی تھی کہ یہ حوالہ تھا،لیکن بینک کاچیک حوالہ ہے مثلاً نے کوئی سامان خریدااوربائع کوپیسے دینےکےبجائے اس کے نام چیک لکھ کر دستخط کرکےاس کو دے دیا۔اس کامطلب یہ ہوا کہ تمہارے جو پیسے میرے ذمہ واجب ہیں وہ تم مجھ سے وصول کرنے کے بجائے جاکربینک سے وصول کرنایہ حوالہ ہوگیا۔

حوالہ صحیح ہونے کی شرط: حوالہ کے تام ہونے کے لیے تینوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے اگر بیع میں ایک فریق بھی راضی نہیں ہوتاتو حوالہ صحیح نہیں ہوتا۔[21]

جب زیدنے کسی کو چیک کاٹ کردیا تودین کاحوالہ اس بینک پر کیاجس کا وہ چیک کاٹاگیاہے اس معاملے میں زید محیل ہوااور جس کوچیک دیاگیا وہ محتال اور بینک محتال علیہ ہوا۔محیل اور محتال تو راضی ہوگئے لیکن بینک راضی نہیں ہوا،اس لیے کہ پتہ نہیں جتنی رقم چیک میں لکھی ہے اتنی رقم زید کے اکاؤنٹ میں موجود ہےبھی یانہیں؟جب بینک تصدیق نہ کردے کہ ہاں اس شخص کی اتنی رقم ہمارے پاس موجود ہے اور اسے دینے کو تیار ہیں اس وقت تک اس کی رضامندی متحقق نہ ہوئی ،لہذا حوالہ تام نہ ہوا۔

حوالہ کے تام ہونے کی دو صورتیں ہیں ؛ایک صورت یہ ہے کہ جس کو چیک دیاگیاوہ چیک لے کر بینک چلا گیااور بینک نے اس کو قبول کرلیاتو حوالہ تام ہوگیا۔دوسری صورت یہ ہے کہ بینک ایسا چیک جاری کرے جس پر خود بینک کی تصدیق ہو۔

آ ج کل جودوصورتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک ڈرافٹ(Draft) ہوتاہےاورایک پےآرڈر(Pay order)کہلاتاہے۔جب چیک جاری کیاجاتاہے تواس وقت بینک اس کی تصدیق کرتاہے کہ اکاؤنٹ میں اتناپیسہ موجود ہے یانہیں ؟اس تصدیق کے بعد جوجاری کرتاہے وہ ڈرافٹ یاپےآرڈر ہوتاہے تووہ حوالہ تام ہوتاہے ۔

بل آ ف ایکسچینج:(Bill of Exchange) آج کل ایک طریقہ رائج ہے جس کو بل آ ف ایکسچینج کہتے ہیں ۔اصل میں اس کو ہنڈی کہتے تھے ۔اب ہنڈی کے معنی لوگ کچھ اور لینے لگے ہیں۔

اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ تاجر نے کچھ سامان بیچااور مشتری کے نام ایک بل بھیجاکہ آپ کے نام اتنے پیسے واجب ہوگئے ہیں، مشتری نے اس پر دستخط کردیے کہ ہاں میں نے یہ سامان خریداہے اور یہ رقم میرے ذمہ واجب ہوگئی ہے توبائع دائن ہوگیااورمشتری مدیون ہوگیالیکن ساتھ ہی مشتری اس بل میں یہ لکھتاہے کہ میں یہ رقم تین مہینے بعد اداکروں گا۔بائع وہ بل لے کر اپنے پاس رکھ لیتاہے اس کو بل آف ایکسچینج اور ہنڈی بھی کہتے ہیں ۔

حوالہ کی پہلی شکل:بعض اوقت بائع یہ چاہتاہے کہ مجھے ابھی پیسے مل جائیں وہ جاکرکسی تیسرے فریق سے کہتاہے کہ میرے پاس بل آف ایکسچینج رکھاہواہے ،وہ مجھ سے تم لےلواور مجھے ابھی پیسے دےدو،تین مہینے بعد جاکرمیرے مدیون سے وصول کرلینا۔اس کو بل آف ایکسچینج اور عربی میں کمبیالہ کہتے ہیں۔جس شخص کے سامنے کمبیالہ پیش کرکے کہاکہ تم مجھے پیسے دےدواس نے پیسے دے دیے تو وہ پیسے دینے والادائن ہوگیااور حامل کمبیالہ مدیون ہوگیا۔اب یہ حامل کمبیالہ اس کو کہتاہے کہ میرے ذمہ جودین واجب ہواہے تم وہ مجھ سے وصول کرنے کے بجائے میرے مشتری سے وصول کرلینایہ حوالہ ہوگیااور یہ حوالہ تام ہے ،اس لیے کہ جب مشتری نے اس بل کے اوپر دستخط کیے تھے توساتھ ہی اس نے اس بات پر رضامندی کااظہارکیاتھاکہ جوشخص بھی یہ کمبیالہ میرے پاس لے کر آئے گا،میں اس کو دے دوں گاتو اس نے حوالہ اسی دن قبول کرلیاتھا،تویہ حوالہ تام ہوا۔

حوالہ کی دوسری شکل:اس حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ حامل کمبیالہ جب کسی شخص سے جاکر یہ کہتاہے کہ تم مجھے ابھی پیسے دو،تین مہینے بعد میرے مشتری سے وصول کرلیناوہ شخص کہے گاکہ میں یہ کام اس وقت کروں گاجب تم مجھے کمیشن دوگے،لہذا عام طور پر کمبیالہ کی رقم سے کم دیتاہے اور بعد میں زیادہ وصول کرتاہے۔اس کو بل آف ایکسچینج کوڈسکاؤنٹ کرنا کہتے ہیں ۔

فرض کریں کہ ایک لاکھ روپے کابل ہے وہ اس کو95 ہزاردروپے دے دے گااور بعد میں مدیون سے ایک لاکھ وصول کرے گا۔شرعاً یہ بٹہ لگاناجائز نہیں ہے کیونکہ یہ سود کی ایک قسم ہے کہ گویاآ ج95 ہزار دے رہاہے اورایک لاکھ کاحوالہ دے رہاہے تو جو 5ہزار روپے زیادہ لےرہاہے وہ سود ہے ۔یہ حوالہ کی دوسری شکل ہے۔

حوالہ کی تیسری شکل: بعض اوقات حکومت یا کمپنیاں لوگوں سے قرضہ لیتی ہیں اور اس قرضے کے عوض ایک رسید جاری کردی جاتی ہے جس کو بانڈ کہتے ہیں ۔اس بانڈ کی ایک مدت ہوتی ہے کہ مثلاً 6 مہینے بعد جو بھی اس بانڈ کو لے کر آئےگا،حکومت اس کواس بانڈکی رقم دینے کاپابندہے۔اب اگر ایک شخص کے پاس ایک ہزار روپے کابانڈ ہے اور وہ بازار میں جاکرکہتاہے کہ دیکھو یہ ایک ہزار کابانڈہے یہ مجھ سے لے لواور اس کے پیسے مجھے ابھی دے دو۔یہ بھی حوالہ کی ایک شکل ہے کہ اس سے ایک ہزار قرض لیے اور مدیون بن گئے ۔اب یہ مدیون کہتاہے کہ مجھ سے وصول کرنے کے بجائے جومیرامدیون ہے یعنی حکومت ،تم اس سے وصول کرلینا۔یہاں پربھی وہی صورت ہے کہ اگر برابر سربرابر ہوتوشرعاًکوئی مضائقہ نہیں اور اگر کمی بیشی ہوتوسود ہوگا۔اس کے علاوہ اس طرح کے بے شمار اوراق جودرحقیقت دیون کی رسیدیں ہوتی ہیں آج کل بازار میں کثرت سے ان کی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔ اسٹاک ایکسچنج میں بھی جہاں کمپنیوں کے Sharesفروخت ہوتے ہیں وہاں ان اوراق کوبھی فروخت کیاجاتاہے جن کو فائنانشل پیپرزFinancial Papers کہتے ہیں۔ عربی میں اسے اوراق المالیہ کہتے ہیں ۔

دین کی بیع جائز ہے یانہیں؟دین کی بیع کے جواز اورعدم جواز میں ائمہ کااختلاف ہے ۔حنفیہ اور جمہورکے نزدیک دین کی بیع جائز نہیں ہے " بیع الدین من غیر من علیه الدین"دین کوکسی ایسے شخص کے ہاتھوں بیچناجس پر دین واجب نہیں تھا۔یہ حنفیہ اور اکثر ائمہ کے نزدیک جائز نہیں۔بعض ائمہ نے بعض شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے ۔امام مالک نے نو شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے ۔[22]امام شافعی ؒ کے بھی دو قول ہیں لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائزنہیں ۔امام احمد بن حنبلؒ کے ہاں بھی بالکل جائز نہیں ،البتہ دین کاحوالہ جائز ہے ۔

بیع الدین کی ایک صورت یہ ہے کہ دائن اپنا دین مدیون کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کردے ،اس صورت میں فقہاء کرام کااختلاف ہے۔

احناف ،حنابلہ اور ظاہریہ اس طرف گئے ہیں کہ بیع الدین من غیر من علیه الدین جائز نہیں ،چنانچہ امام محمد بن حسن شیبانی ؒ فرماتے ہیںلاینبغی للرجل اذا کان له دین أن یبیعه حتی یستوفیه، لأنه غرر فلا یدری أیخرج أم لایخرج[23]

اگرکسی شخص کا دوسرے کے ذمہ دین ہو،تو اس کے لیے اس دین کو اس وقت تک فروخت کرنامناسب نہیں ،جب تک اس دین کو وصول نہ کرلے،اس لیے کہ ایسے دین کوفروخت کرناغرر( غیریقینی صورتحال)ہے،اس لیے کہ وہ خود نہیں جانتاکہ وہ اس دین سے نکل سگے گایانہیں( دین وصول بھی ہوگایانہیں )۔

اسی طرح صاحب بدائع علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں :

ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا[24]

مديون كے علاوه دوسرے كودين فروخت كرنے كی صورت میں وہ بیع منعقد نہیں ہوگی ،کیونکہ دین سے مراد یاتو مال حکمی ہے جومدیون کے ذمے ہے یادین سے مراد مال کا مالک بنانے اوراس کے سپرد کرنے کافعل ہے اوریہ دونو چیزیں بائع کے حق میں غیرمقدورالتسلیم ہیں ۔اوراگر مال سپرد کرنے کی شرط مدیون پرلگادی جائے تویہ بھی درست نہیں اس لیے کہ یہ بائع کے علاوہ دوسرے پر تسلیم کی شرط لگاناہوجائےگا،لہذا یہ شرط فاسد ہوگی ،اورشرط فاسد ہونے کی وجہ سے بیع بھی فاسد ہوجائے گی ۔بہرحال جن فقہاء نے دین کی بیع کو غیرمدیون سے کرنےسے منع فرمایاہے وہ بیع کو بیع کے طریقے پرکرنے سے منع کیاہے ،لیکن اگردین کی منتقلی غیر مدیون کی طرف "حوالہ" کے طریقے پر ہوتو یہ صورت تمام فقہاء کے نزدیک جائز ہے ۔اور بیع اور حوالہ کے درمیان فرق مذہب حنفیہ میں بالکل ظاہرہے،کیونکہ فقہاء حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر محال علیہ کے مفلس ہونے کے نتیجے میں یامحال علیہ کے حوالہ سے انکار کرنے کے نتیجے میں "حوالہ" ضائع ہوجائے اور بینہ اور ثبوت موجود نہ ہو تو اس صورت میں محتال (اصل دائن) کےلیے جائز ہوگاکہ وہ دین کی وصولی کےلیے محیل (اصل مدیون ) سے رجوع کرے۔[25]

لیکن اگر مدیون اپنادین فروخت کردے گاتو گویاکہ اس نے دین خریدنے والے کوتمام حقوق اور تمام خطرات میں اپنی جگہ پرلاکھڑا کردیا،لہذا اگر بعد میں اصل مدیون مفلس اور قلاش ہوجائے ،یااصل مدیون دین سے ہی انکار کردے تو اب مشتری دین فروخت کرنے والے کی طرف رجوع نہیں کرے گاکیونکہ وہ برئ الذمہ ہوچکا۔بس یہیں سے دین کی بیع کے نتیجے میں اس دھوکہ کاتحقق ہوگیاجس کی بنیاد پر فقہاء نے دین کی بیع سے منع فرمایاہے جبکہ "حوالہ" کی صورت اختیار کرنے میں اس دھوکہ کاتحقق نہیں ہوگا،اس لیے کہ حوالہ میں محال علیہ کے مفلس ہوجانےیادین سے انکار کی صورت میں دائن محیل سے اپنے دین کےلیے رجوع کرسکتاہے۔

جہاں تک حنابلہ کاتعلق ہے تو ان کے نزدیک محتال (اصل دائن) محیل (اصل مدیون ) سے دین کےلیے کبھی بھی رجوع نہیں

کرسکےگا،اگرچہ محتال علیہ مفلس ہوجائےیادین کاانکار کردے ،لیکن اگر عقد حوالہ میں محتال ،محتال علیہ کے مالدار ہونے کی شرط لگائے ،اوراسی بنیاد پر وہ حوالہ کوقبول کرے،بعد میں محتال علیہ کاتنگ دست ہوناظاہر ہوجائے تو اس صورت میں محتال کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے دین کی وصولی کےلیے محیل سے رجوع کرے[26]

اسی وجہ سے ان کے نزدیک بیع الدین اور حوالہ کے درمیان فرق ہے کہ" بیع الدین "جائز نہیں اور"حوالہ" جائز ہے اور یہ فرق دو اعتبار سے ہے۔

اوّلاً: یہ کہ دین کی بیع میں محض عقد کرتے ہی دین مشتری کی طرف منتقل ہوجائے گاجبکہ دین کاحصول مشتری سے یقینی نہیں ،لہذا محض عقد ہی کے نتیجے میں " غرر لازم آجائے گااس وجہ سے دین کی بیع جائز نہیں ،لیکن اگر ایک شخص نے کوئی چیز ثمن کے عوض فروخت کی، اورثمن پر بائع نے قبضہ نہیں کیا اور اب مشتری نے یہ چاہاکہ وہ بائع کواپنے مدیون کی طرف حوالہ کردے تو مشتری کےلیےایساکرنااس وقت تک ممکن نہیں جب تک مدیون اس حوالہ پرراضی نہ ہو،اور صر ف اس عقد حوالہ کے نتیجے میں بائع کی طرف دین منتقل نہیں ہوگا،اسی لیے یہ جائز ہے کہ بائع حوالگی پر راضی نہ ہو،لہذا حوالگی میں کوئی غرر نہیں،اس لیے عقد حوالہ جائز ہے اور بائع کی رضامندی سے مستقل عقد کے ذریعے حوالہ منعقد ہوجائے گا۔

ثانیاً:یہ کہ جب محتال نے محتال علیہ کے مالدار ہونے کی شرط پر حوالہ قبول کرلیا،بعد میں ظاہرہواکہ محتال علیہ تنگ دست ہے ،تو اس صورت میں محتال کےلیے جائز ہے کہ اپنے دین کےلیے محیل سے رجوع کرے،جبکہ بیع الدین میں یہ سہولت میسر نہیں۔

حوالہ اور دَین میں فرق:سوال یہ پیداہوتاہے کہ دونوں میں فرق کیاہے؟ مثلاً زید کےپاس ایک ہزار روپے کابانڈہے ،وہ یہ بانڈ کسی کوفروخت کرتاہے اس کامطلب یہ ہے کہ نے اس کو اپنادَین فروخت کردیاکہ مجھ سے ایک ہزار کایہ بانڈ لےلواور مجھے ایک ہزار روپے دے دو،جب یہ بانڈ کسی کو بیچ دیا تویہ دین کی بیع ہوئی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مثلاً زید بکرسے کہے کہ مجھے ایک ہزار روپے قرض دے دو ،بکرنے قرض دےدیا جس کی وجہ سے زید بکرکا مقروض بن گیا۔اب زید بکر سے کہتا ہے کہ یہ قرض جوآپ کا میرے ذمہ ہے اس کو حکومت سے وصول کرلیں کیونکہ حکومت کے ذمہ میرا قرض ہے بالفاظ دیگر زید بکر کو اس دین کاحوالہ دیتاہے جو زید کا حکومت کے ذمہ ہے،کہ بکروہاں سے وصول کرلیں،یہ صورت جائز ہے ،یہ حوالہ ہے اور بیع کی صورت ناجائز ہے تودونوں میں فرق کیاہوا؟حاصل دونوں کا یہ ہواکہ وہاں سے جاکر وصول کرے گا۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ بیع کا معنی ہے کہ تم میرے قائم مقام ہوگئے،لہذا اب بعد میں تمہیں دین وصول ہو یانہ ہو ،میں اس کاذمہ دارنہیں۔میں نے ایک ہزار لےلیےاوراس کے بدلے اپناایک ہزار کابانڈ تمہیں فروخت کردیا، اب وصولیابی تمہاری ذمہ داری ہے۔چونکہ اس میں غرر ہے کہ بائع نے پیسے توابھی لےلیے اور اس کے عوض جوپیسے اس کو ملنے ہیں وہ موہوم اور محتمل ہیں ۔پتہ نہیں مدیون دے گایانہیں دے گا؟اس غرر کی وجہ سے اکثر ائمہ اس کو جائز نہیں کہتے۔

امام مالک ؒ نے اس کی نو شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے کہ یہ بات طے شدہ ہو کہ وہ ضرور دے گا،غنی ہو،اس سے وصولیابی ممکن ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جمہور کہتے ہیں کہ ناجائز ہے ان چکروں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔[27]

تو دونوں میں یہ فرق ہے کہ بیع میں غرر ہے اور حوالہ میں غرر نہیں ،اس لیے بیع الدین ناجائز ہے اور حوالہ جائز ہے ،لیکن حوالہ درست ہونے کےلیے ضروری ہے کہ جتنی رقم لے رہاہے اتنی ہی رقم کاحوالہ بھی کرے،اس سے کمی بیشی کرے گاتو اس میں ربواداخل ہوجائے گا۔اس لیے بازار میں جوبانڈ کی خریدوفروخت ہوتی ہے وہ درست نہیں لیکن حوالہ کے طور پر درست ہے بشرطیکہ برابر برابرہو۔یہی حکم بل آف ایکسچنج اوردوسرے اوراق المالیہ کابھی ہے ،البتہ کمپنی کے شئیرز کامعاملہ مختلف ہے کہ وہ کمی بیشی سے بھی جائزہے۔

بینکوں میں حوالہ کی شکلیں

کرنٹ اکاؤنٹ سے رقم نکلوانےکاچیک جاری کرنا

حوالہ کی صورت میں کسی قرض خواہ کوایک شخص سے دوسرے کی طرف قرض کی وصولی کی خاطر منتقل کیاجاتاہے،لہذا یہ ضروری ہے کہ حوالہ کامعاملہ کسی قرض خواہ ہی کے ساتھ ہو،اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی شخص کو کرنٹ اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے کےلیے چیک جاری کرنے کی صورت میں اگریہ چیک جاری کرنےوالا،چیک وصول کرنے والے Beneficiary کےلیے مقروض ہو تویہ حوالہ کی صورت ہوگی ۔اس صورت میں چیک جاری کرنے والا محیل ہوگا،چیک وصول کرنے والا محتال ہوگااور بینک محتال علیہ ہوگا،اگر اس صورت میں چیک جاری کرنےوالا مقروض نہ ہوتو پھر بھی یہ معاملہ جائز تو رہے گا،لیکن یہ حوالہ کی بجائے وکالت کامعاملہ ہوگاجس میں ایک شخص دوسرے کوقرض کی وصولی کے لیے وکیل بنارہاہے۔

اکاؤنٹ میں رقم کم یانہ ہونے کی صورت میں چیک جاری کرنا

اگر ایک شخص دوسرے کے نام اپنے بینک اکاؤنٹ سے رقم وصول کرنے کے لیے چیک جاری کردے،لیکن چیک جاری کرنے والے کے اکاؤنٹ میں چیک جاری کرتے وقت رقم موجود نہ ہویاموجود تو ہو لیکن اتنی مقدار میں نہ ہو جتنی مقدارکاوہ مقروض ہے تو یہ صورت بھی حوالہ کی ہے ،لیکن یہ حوالہ مطلقہ کی صورت ہوگی ۔اس صورت میں اگر بینک اس چیک کو اپنے قواعد وضوابط کی رو سے قبول کرتاہو تو یہ حوالہ نافذ ہوگااور اس کے نتیجے میں چیک جاری کرنے والے کے ذمہ سے قرض منتقل ہوکربینک کے ذمہ میں آجائے گا،البتہ اگر بینک کے ہاں اس قواعد وضوابط کی رو سے یہ چیک قابل قبول نہ ہو گاتو پھر یہ حوالہ کالعدم تصور ہوگااورچیک ہولڈر کو چیک جاری کرنے والے سے حسب سابق اپنے قرض کے مطالبے کاحق رہےگا۔

ٹریولرچیک کی صورت میں حوالہ

ٹریولرچیک (غیرملکی کرنسی کے چیک جوبیرون ملک میں مسافر بنواکرنقدی حاصل کرتے ہیں)کی صورت میں جب چیک حاصل کرنےوالا اس ادارے کو، جس نے چیک جاری کیے ہیں رقم کی ادائیگی کرکے غیر ملکی کرنسی کاچیک حاصل کرلے تو اس کے بعد یہ چیک حاصل کرنےوالا قرض دہندہ شمار ہوتاہے اور چیک جاری کرنے والا ادارہ مقروض کی حیثیت اختیار کرلیتاہے،ایسی صورت میں جب سفر کےدوران مسافر یہ چیک استعمال کرےگا( انڈورسمنٹ کے طریقہ ءکارکے مطابق اس کے پشت پر دستخط کرکے کسی اور کو اس کے حق کی وصولی کےلیے یہ چیک دے گا)تویہ عمل بھی حوالہ کہلائے گا،لیکن یہ حوالہ مقیدہ کی صورت ہوگی ۔اس صورت میں جب تک چیک ہولڈر کے اکاؤنٹ میں رقم موجود ہوگی تواس وقت تک یہ حوالے نافذ ہوں گے اور جب رقم ختم ہوجائے گی تو یہ حوالہ کامعاملہ لغووکالعدم قرار پائے گا،اگر اس کے باوجود ادائیگی کرلے تویہ اس کی طرف سے ایک الگ قرض کامعاملہ ہوگا۔

نتائج

تقریباً تمام فقہاء کرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ حوالہ کےمعاملے کے نتیجے میں محیل (اصل مقروض شخص) کے ذمہ واجب الاداء قرض محتال علیہ ( ثانوی مقروض )کی طرف منتقل ہوجاتاہےاورپھراس قرض کی منتقلی کے نتیجے میں مطالبہ کاحق بھی صرف محتال علیہ تک محدود ہوجاتاہے اور محتال یعنی قرض خواہ کاجوحق مطالبہ محیل کی بنسبت تھاوہ ختم ہوجاتاہےاورجب تک محتال علیہ اپنےاوپرحوالہ کو تسلیم کرتاہواوروہ دیوالیہ نہ ہوچکاہوتواس وقت تک یہ ذمہ داری اس کی طرف منتقل سمجھی جائے گی ،البتہ اگر وہ اپنے اوپرحوالہ قبول کرنے سے (محتال علیہ) انکار کرکے قسم اٹھانے کےلیے تیار ہوجائےاوراس کے خلاف کوئی گواہ بھی نہ ہو،یاوہ حالت افلاس میں مرجائے اوراس کے ترکہ میں کوئی اثاثہ یاکسی کے ذمہ میں واجب الاداء قرض نہ بچے جس سے قرض کی وصولی ہوسکے ،یاعدالت کی جانب سے اسے مفلس ودیوالیہ قراردیاجائے،یاحوالہ مطلقہ کے بجائے حوالہ مقیدہ کی صورت ہو اور وہ چیز جس کے ساتھ حوالہ کو مربوط کیاگیاہوضائع ہوجائے،تواس طرح کی تمام صورتوں میں محتال ( قرض خواہ) کاحق دوبارہ محیل یعنی اصل مقروض شخص کی طرف لوٹ جاتاہے اوراس کے بعد محتال محیل سے مطالبہ کرسکتاہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت حوالہ کے معاملہ میں محیل اپنے ذمہ سے قرض دوسرے کے ذمہ میں منتقل کرنے کے ساتھ اس محتال علیہ جس کی طرف قرض منتقل ہواہے، کی طرف سے کفیل بھی بنتاہے،لیکن یہ کفالہ فی الحال نہیں ہوتا،بلکہ صرف اس وقت ہوتاہے جب محتال علیہ سے قرض کی وصولی ممکن نہ رہے،لہذا جب محتال علیہ سے قرض کی وصولی ناممکن ہوجائے تواس وقت محیل کے کفیل ہونے اورضامن ہونے کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کیاجائے گا۔

مذکورہ بالااصول فقہائے احناف کی رائے کےمطابق ہے،جب کہ باقی فقہاء کرام ان جیسی صورتوں یعنی جن میں محتال علیہ کی طرف سے ادائیگی ممکن نہ رہے ،میں بھی محتال کومحیل کی طرف رجوع کرنےکاحق نہیں دیتے،بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ فریقین کی رضامندی سے حوالے کامعاملہ وجود میں آجائے تواس کے بعد محیل کےاوپرسے قرض اورحق مطالبہ دائمی طورپرختم ہوجاتاہے اورچاہے محتال علیہ کے ساتھ جو بھی معاملہ پیش آئے وہ ادائیگی پرقادرر رہے یانہ رہے کسی بھی صورت میں دوبارہ محیل کی طرف رجوع نہیں کیاجاسکتا۔[28]

فقہی اختلاف کی صورت میں زیادہ موزوں اورحقوق کی حفاظت کےلیے زیادہ مناسب فقہائے احناف کامذہب ہے ،لہذااس کے مطابق ہی عمل درآمد کرناضروری ہے۔

احناف کے مذکورہ اصول کے مطابق اگر محیل نے اپنے قرض کی ادائیگی کی پختگی کےلیے حوالہ کےمعاملے سے پہلے کوئی کفیل قرض خواہ کودیاہوتوحوالہ کے نتیجے میں جیساکہ محیل کے ذمہ سے قرض منتقل ہوجاتاہے تواسی طرح محیل کی طرف سے جس نے کفالہ قبول کیاہووہ کفالہ بھی خود بخود ختم ہوجاتاہے اورکفیل کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی ،اس طرح اگرکسی جگہ کفیل اپنے اوپر سے قرض کے مطالبے کابوجھ ہٹانے کےلیے قرض خواہ کوکسی اورکے اوپرحوالہ کردے تواس حوالہ کے نتیجے میں جیساکہ کفیل سے ذمہ داری ختم ہوکرمحتال علیہ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے تواس طرح اصل مقروض یعنی مکفول عنہ سے بھی قرض کی ذمہ داری ختم ہوکرمحتال علیہ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ،البتہ اگر اس صورت میں کفیل یہ صراحت کردے کہ اس حوالہ کے نتیجے میں اصل مقروض بری نہیں ہوسکے گااورمحتال کوحق حاصل ہوگاکہ مکفول عنہ اورمحتال علیہ دونوں سے مطالبہ جاری رکھے۔[29]

احناف کے مذکورہ بالااصول کے مطابق اگر حوالے کی صورت میں محیل فوت ہوجائے تومحتال کواس کے ترکہ پرکسی قسم کے دعوی کاحق نہیں ہوگااوروہ ترکہ کو ورثہ کے درمیان تقسیم کرنے سے نہیں روک سکتا،بلکہ ترکہ ورثہ کے درمیان شرعی حصص کےمطابق تقسیم ہوگا،البتہ محال کواتناحق حاصل رہےگاکہ وہ ورثہ سے شخصی ضمانت طلب کرےکہ جب محتال علیہ قرض کی ادائیگی کےقابل نہ رہے تو وہ کفیل ان ورثہ سے اس محتال کاقرض وصول کرکے اس کو ادائیگی کاپابند ہوگا۔

خلاصہ بحث

حوالہ کا معنی ہے "قرض کو ایک شخص کی ذمہ سے دوسرے کی ذمہ داری کی طرف منتقل کرنا"۔حوالہ شریعت اسلامی کی رو سے جائز ہے اور خیرون القرون سے اس پر تعامل بھی چلا آرہا ہےلیکن عصر حاضر میں اکثر کاروباری سرگرمیاں بینکوں کے ذریعے ہوتے ہیں اس لئے حوالہ کے معاملہ میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ جائز حوالہ ناجائز بھی ہوسکتا ہے۔ ہنڈی کا کاروبار ہو یا بینک کے ذریعے ڈرافٹ یا پھر پرائز بانڈ، سب میں حوالہ ہوسکتا ہے لیکن شرائط کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، قاموس الفقہ،زم زم پبلشرز،نز د مقدس مسجد،اردو بازار کراچی۔ ج3،ص،300
  2. ۔ لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي ، الھندیہ،کتاب الحوالہ ، دار الفكر الطبعة: الثانية، 1310ھ۔ ج3،ص 95۔
  3. ۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری، کتاب الحوالہ، قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی، ج2 ص37۔
  4. ۔ کمال الدین محمد بن عبد الواحد ، شرح فتح القدیر، دارالفکر۔بیروت، ج7ص239
  5. ۔ إبراهيم بن محمد بن إبراهيم الحَلَبي الحنفي، ملتقی الابحر، (م956ھ) دار الكتب العلمية – لبنان، 1419ھ۔ 1998م۔ ج2ص266۔
  6. ۔ فتح القدير للكمال ابن الهمام، ج 7، ص 245۔
  7. ۔ مفتی تقی عثمانی، اسلام اورجدید معاشی مسائل،ادارہ ءاسلامیات،لاہور۔ ج2 ص،216۔
  8. ۔ ھندیہ،ج3 ص 295۔
  9. ۔ الكاسانی، أبو بكر بن مسعود ، بدائع الصنائع في ترتيب شرائع، دار الكتب العلمية، بیروت، 1406ھ۔ 1986م۔ج6/ص16۔
  10. ۔ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز (م1252ھـ) رد المحتار على الدر المختار دار الفكر-بيروت ، 1412ھـ۔ 1992م۔ ج4،ص120۔
  11. ۔ خانیہ علی الھٍندیہ، دارالفکر۔ بیروت۔ ج 3ص 78
  12. ۔ مفتی محمد حسین خلیل خیل، آسان فقہ المعاملات،الحجاز، 1440ھ 2018م۔ ج2،ص234تا236۔
  13. ۔ ایضاً۔
  14. ۔ ایضا۔
  15. ۔ ایضاً۔
  16. ۔ ایضاً۔
  17. ۔ ایضاً۔
  18. ۔ ایضاً
  19. ۔ بدائع الصنائع ج5ص 13۔
  20. ۔ ایضاً۔
  21. ۔ شرح فتح القدیرج7ص 239۔
  22. ۔ أبو الفرج، عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن قدامۃالمقدسي(م682ھـ)الشرح الکبیر، دار الكتاب العربي للنشر والتوزيع ج3،ص 325۔
  23. ۔ المؤطالامام محمدؒ باب الرجل یکون لہ العطایاأو الدین علی الرجل یبیعہ ص: 345۔
  24. ۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، ج5، ص 148۔
  25. ۔ فتح القدیرج6ص352۔
  26. ۔ أبو محمد، موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامۃ، (م 620ھ) المغنی، دارالفکربیروت، 1388ھ۔ 1968م۔ ج5ص159۔
  27. ۔ الدرالمختارج5ص 345۔
  28. ۔ فتاویٰ ابن عابدین،ج4،ص293، داراحیاء التراث العربی،حاشیہ الدسوقی؛ دارالفکر۔ بیروت۔ج3 ص328۔
  29. ۔ البحرالرائق ، دارالکتاب الاسلامی۔ بیروت۔ ج6،ص269تا271۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...