Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں بچوں کی نفسیات کا تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029336_860

Pages

60-74

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/129/118

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/129

Subjects

Psychology Children Qur’an Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نفسیات ایک دلچسپ موضوع ہےیہ انسان کے بنیادی رویے کے بارے میں جاننے میں مدد دیتا ہےاسی لیے ماہرین آئے دن انسانی نفسیات کے پوشیدہ راز جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس حوالے سے نت نئے انداز کا سہارا لیتے ہیں نفسیات ایک بہت وسیع علم ہےاس میں انسانی عقل وفطرت اور رویوں پرتحقیق کی جاتی ہے اور ان کے بارے میں آگاہی حاصل کی جاتی ہے[1] موضوع کی مناسبت سے سب سے پہلے ہم نفسیات کی لغوی تعریف بیان کرتےہیں۔

نفسیات کی لغوی تعریف: لغوی تحقیق: نفسیات نفسیۃ کی جمع ہے جسکا معنیٰ ہے ذہنیت ، نفسیۃ نفس کی مؤنث ہے تلفظ کے اعتبار سے اسے دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں(ا)نَفس ف کے سکون کے ساتھ جسکا معنیٰ ہے روح، جان ، شخصیت(ب) نَفَس ف کے فتحہ کے ساتھ، جس کامعنیٰ ہے سانس، خوشگوار ہوا [2]۔

نفسیات کے لئے انگریزی زبان میں سائیکالوجی(Psychology) کا لفظ استعمال ہوتاہے درحقیقت یہ لفظ دو یونانی لفظوں"Psyche" اور"Logos"سے مل کر بنا ہے۔

یونانی زبان میں"Psycho" کا لفظ نفس، روح اور ذہن وغیرہ مختلف معانی کےلئےاستعمال ہوتاہے اور"logy" کا لفظ علم، وضاحت اور تشریح کےلئے استعمال ہوتا ہےیوں یونانی زبان میں "Psychology" کا مطلب یہ نکلتاہے کہ"روح کا علم"یعنی وہ علم جس میں روح کےمباحث کوبیان کیاجاتاہے[3]۔

نفسیات کی اصطلاحی تعریف:

The scientific study of the behavior of individuals and their mental processes is called psychology.[4]

ترجمہ : اس تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے کردار اور اس کے ذہنی عمل کے سائنسی مطالعہ کو نفسیات کہاجاتاہے۔

بچپن کی تربیت کی اہمیت:انسان اپنی زندگی میں کئی مراحل سے گذرتاہے انسان کا پہلا دور بچپن کا ہوتاہے ماہرین نفسیات کے نزدیک یہ دور بہت اہمیت کا حامل ہوتاہے اور یہ ماہرین زیادہ تر بچپن کے معاشریت کے عامل پر بحث و تحقیق کرتے ہیں، کیونکہ بچپن ہی سےانسانی طرزِزندگی کی بنیاد پڑتی ہے چنانچہ اگر ہم غور سے بچوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہےکہ بچے بچپن ہی سے زندگی کا معنیٰ اور س کا مقصد جاننے کی کچھ نہ کچھ کوشش کرتے ہیں بچے ماحول اور معاشرے میں اپنی قابلیتیں، قوتیں اور صلاحیتوں کوجاننےکی کوشش کرتے ہیں اور پانچ سال کی عمر میں ایک خاص طرزِ زندگی اپنانے لگتے ہیں اور ایک مخصوص طریقے سے اپنے مسائل حل کرنے لگتے ہیں عموماََ اس عمر میں پہنچ کربچے یہ بات سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان سے کیاتوقعات رکھتے ہیں؟ نیز انہیں دوسروں سے کیا توقعات ہیں؟ خلاصہ یہ کہ عموماََ اس عمر میں بچے دنیا کو ایک پائیدار ادراکی نظام کے تحت دیکھتے ہیں [5]چنانچہ انسانی فطرت کی رو سے بچپن کا زمانہ ہی آئندہ کی پوری زندگی کے لئے بنیاد رکھنے کاوقت ہے ، یہی دور بچے کےذہن سازی کا ہوتاہے اس وقت جیسا ذہن بنے گا زندگی کے بقیہ مراحل جوانی اور بڑھاپے تک اس کے اثرات باقی رہیں گےاگر بچے کے کردار وخلاق کو اچھی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائےگا تو یہ آئندہ زندگی میں اس کے لئے ایک مفید سرمایہ ہوگااور اگر شروع ہی میں بری خصلتیں جڑ پکڑ گئیں توآگے چل کر اصلاح کا عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا[6]چونکہ بچہ دودھ پینے کے زمانے ہی سے والدین کے تعلقات ، ان کے رویے اور تربیت کے طریقوں سے متاثر ہوتاہے اسی طرح بچپن میں بچے کی شخصیت پر خاندانی رویوں ، رجحانات اور اقدار کابھی اثر ہوتاہے نیز نفسیاتی اعتبار سے اس زمانہ کے دیگر تجربات بھی بہت اہم ہوتے ہیں اس وجہ سے ماہرین اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں [7]اس حوالے سے سیرت نبویﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺنے اس حقیقت کو یوں بیان کیاہے ۔

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ البَهِيمَةِ تُنْتَجُ البَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ[8]۔

ترجمہ:ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے ۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے ؟۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر معاشرتی عوامل میں سے ایک عامل اس کی نفسیات پر اثر اندازہوکراس کےطرز زندگی کو بدل کر رکھ دیتاہے۔

بچوں کی تربیت کے نفسیاتی اصول:

(1) پرتپاک استقبال کرنا: کسی بھی انسان کی آمد کےموقع پر گرمجوشی سے اس کا استقبال کرنا اس کے دل جیتنے کا آسان طریقہ ہے، اور بچے اس انسان سےزیادہ جلدی مانوس اورخوش ہوتے ہیں جو، ان سے پیار کرے اس وجہ سے آپﷺ بچوں کی آمد پر خوشی کااظہارکیاکرتےتھےچنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں آپﷺ کے ساتھ تھا، آپﷺ واپس ہوئے تو میں بھی آپ ﷺکے ساتھ واپس ہوا، آپ ﷺنے تین مرتبہ فرمایا بچہ کہاں ہے؟حسن بن علی [9]کو بلاؤ، وہ آ رہے تھےاور ان کی گردن میں ہار پڑا تھانبی کریم ﷺنے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حسن ؓنے بھی اپنا ہاتھ پھیلایااور وہ نبی کریم ﷺسے لپٹ گئے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ ابوہریرہ ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺکے اس ارشاد کے بعد کوئی بھی شخص مجھے حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا[10]۔

(2)صحبت :اولادکی تربیت میں صحبت ایک بہت بڑاعنصرہےکیونکہ ایک دوست دوسرےدوست کاآئینہ دارہوتاہےاوروہ ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں لہٰذا جب بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اپنے بچوں کو نیک بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی تاکید کریں اور ان کی اخلاق و عادات کی نگرانی کریں اور یہ بھی کوشش کریں کہ مختلف مواقع پر بچے کو اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ یہ بھی بچوں کا ایک حق ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر تہذیب سیکھ کر اپنی عادات سنوارے اس حوالےسےآپﷺکاطرزِ عمل یہ تھاکہ آپﷺزندگی کے مختلف مراحل میں بچوں کواپنے ساتھ رکھتےتھےاس معاملےمیں آپﷺکوادنیٰ تامل بھی نہ تھااور نہ ہی کوئی تکلف تھا، نہ کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیا[11]چنانچہ بخاری کی روایت ہے،

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي العَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا[12] ترجمہ:آپﷺامامہ بنتِ زینبؓ [13]کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھتےتھے اور سجدے میں جاتے وقت اسے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھراٹھالیتے۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ[14]سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایادرختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اوریہ مومن کی مانند ہے ، بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟ حضرت عبداللہ ابن عمرؓفرماتے ہیں ، لوگ اسے جنگلوں کےدرختوں میں ڈھونڈنے لگےاور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ لیکن اپنی کم عمری کی وجہ سے نہ بولا پھر آپﷺ نے صحابہ کرام کے پوچھنے پرخود ہی بتادیا کہ یہ کھجور کا درخت ہےپھر میں نےاپنے والدحضرت عمر ؓکو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی، تو اس پر انہوں نے کہااگر تم نے یہ بات بتا دی ہوتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتی کہ میرے پاس اس اس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں[15]۔

اس واقعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ بڑوں کوچاہیئے کہ وہ مختلف مواقع پرچھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھے تا کہ بچپن ہی سے وہ آداب ِمجلس سیکھ لیں بلکہ احادیث میں تو یہاں تک تذکرہ آیا ہے کہ صحابہ کرام ؓاپنے دودھ پیتے بچے آپﷺ کی خدمت میں لے کر آتے اور بسا اوقات وہ آپﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کرلیتےلیکن آپﷺ نے کبھی بھی ناگواری کااظہار نہیں کیا چنانچہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔

أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ[16]

ترجمہ :ایک بچہ آپﷺکی خدمت میں لایا گیا تو اس نے آپﷺ کےکپڑوں پرپیشاب کیا آپﷺ نے پانی منگواکر اس پر بہایا۔

(3) بچوں کا دل خوش کرنا : بچوں کے معصوم ذہنوں پرخوشی اور مسکراہٹ بہت گہرااثرڈالتی ہےبچے فطری طورپر خوش دلی اور انبساط کوبہت چاہتےہیں بچےجب اپنےوالدین اوردیگرقریبی رشتہ داروں کے چہروں پرخوشی کے آثاردیکھتے ہیں تواس سے ان کی طبیعیتوں میں بھی چستی اور تازگی پیداہوتی ہیں جس کی بناء پر ان میں سیکھنے کا عمل تیزہوتاہےچنانچہ آپﷺ بچوں کے دل خوش کرنے کے لئےمختلف اندازاختیاررفرماتےتھے[17] لہٰذا ہم ذیل میں انہیں درج کرتے ہیں۔

(4)بچوں کو اہمیت دینا :بچوں کے ساتھ میل جول رکھناانتہائی اہمیت کاحامل ہےجب ان کے ساتھ خوشگوارانداز میں میل جول رکھاجائےاور انہیں اہمیت دی جائےتو بچے پراس کے عمدہ اثرات پڑتے ہیں اس کا ایک نفسیاتی فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ بچہ آپ کوتوجہ دے گا آپ کی بات غور سے سنےگااور دوسرانفسیاتی فائدہ یہ ہوتاہےکہ ایسے بچے آگےچل کر مستقبل میں خود بھی کشادہ دل واقع ہوتےہیں اورپھر وہ دوسروں کو بھی اہمیت دیتے ہیں صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہتےہیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ [18]سےمروی ہے کہ جب آپﷺسفرسےواپس آتے تواپنےگھر کےبچوں سےملتے ایک مرتبہ جب آپﷺسفر سے واپس تشریف لے آئےتو مجھے آپﷺ کی خدمت میں حاضرکیا گیاتو آپﷺنےمجھےاپنی سواری پراپنےآگےبٹھالیاپھرآپﷺ کےنواسوں میں سے کسی ایک کو لایاگیا تو آپﷺ نےاسے اپنے پیچھے سوار کرلیا [19]۔

دیکھئے اس موقع پر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓکو وہی اہمیت دی جو اپنے نواسوں کودیاکرتےتھےجس کااثر یہ ہوا کہ وہ زندگی بھر اس واقعہ کو نہ بھولے اور اسےبہت خوشی خوشی بیان کرتے تھے۔

(5)بچے کےسرپر دستِ شفقت پھیرنا: بچوں کی فطرت ہے کہ جب ان سے پیارکیاجاتاہے مثلاََسر پرہاتھ پھیراجائے تو وہ بہت زیادہ خوشی اوراپنائیت محسوس کرتے ہیں چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آپﷺ انصاریوں کےہاں آتے تو بچوں کو بھی سلام کرتے اور ان کے سر پر دستِ شفقت رکھتے[20]اسی طرح آپﷺ سر پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھاربچے کے رخساروں پر دستِ مبارک پھیرتے اس سے بچوں کواور بھی زیادہ دلی محبت کااحساس ہوتا چنانچہ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آپﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی جب آپ مسجد سے باہر نکلنے لگےتو میں بھی آپﷺ کے ساتھ نکلا باہر آکر بچے آپﷺ سے ملنے لگے آپ ﷺتمام بچوں سے ملے اور ن کے چہروں پر ہاتھ پھرامیرے چہرے پر بھی آپﷺنے ہاتھ پھیرا تو مجھے آپﷺ کےہاتھوں میں ایسی خوشبو اور ٹھنڈک محسوس ہوئی گویا کہ عطار کاعطر دان ہو[21]۔

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ بچوں کو اپنائیت کا احساس دلانا ، ان کے سراور چہرے پر ہاتھ پھیرنا سنتِ نبوی ہےنیزاپنے اور پرائے تمام بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کارویہ رکھنا چاہئےاور یہ رویہ یکساں سلوک کا حامل ہونا چائے تاکہ بچوں کے معصوم ذھنوں پر منفی اثرات نہ پڑے۔

(6)بچوں کوچومنا: بچوں کی محبت اور اپنائیت حاصل کرنے میں بچے کا بوسہ لینا ایک اہم عنصر ہے اس سے بڑے اور چھوٹے کےدرمیان محبت پیداہوجاتی ہےبچہ یہ سمجھتاہے کہ بڑا اسے چاہتاہے جس سے بچے کے دل ودماغ پراچھے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور محبت ملنے کی وجہ سے وہ دوسروں کے ساتھ بھی محبت سے پیش آنے لگتاہے[22] چنانچہ حضرت عائشہؓ [23]سے روایت ہے کہ آپﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے اور آپﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟تو آپﷺ نے جوابا ارشاد فرمایا ! ہاں اس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے تو آپﷺ نے فرمایا اس میں میرا کوئی ختیار نہیں کہ اللہ تعالٰی نے تم لوگوں کے دل سے رحم نکال دیاہےاسی طرح ایک موقع پر آپﷺنے حضرت حسن کو چوما تو اقرع بن حابسؓ نے کہا کہ میرے تو دس بچے ہیں میں نے تو انہیں کبھی نہیں چوما اس پر آپﷺنے فرمایا کہ جورحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیا جاتا[24]۔

(7)بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کرنا :بچے خود ہنس مکھ ہوتے ہیں اور معصوم حرکتیں کرکے بڑوں کی ہنسی اور خوشی کاذریعہ بنتے ہیں بچے جس معصومانہ انداز میں بڑوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح وہ بڑوں سے بھی اس امر کی امید رکھتے ہیں کہ بڑے بھی ان کی نفسیات کا خیال رکھے چنانچہ آپﷺ نے بچوں کی اس فطرت کا بھی خیال رکھاہےچنانچہ آپﷺابو عمیرؓ سے ہنسی مذاق کی باتیں کیاکرتے تھے ایک روز جب آپﷺ تشریف لائے تو ابو عمیر کو غمگین دیکھا آپﷺ نے ان سے پوچھا ابوعمیر!تم غمگین نظر آرہےہو، کیا ہواہے؟ تو گھر والوں نے بتایا کہ اس کا ایک بلبل تھا جس کے ساتھ یہ کھیلتاتھا وہ مرگیاہے یہ سن کر آپﷺ فرمانے لگے اے ابوعمیر بلبل کاکیا بنا؟[25] اسی طرح حضرت جابرؓ [26]سے مروی ہے کہ ہم آپﷺ کے ساتھ موجودتھے کہ ہمیں کھانے کے لئے بلایاگیا رستے میں آپﷺ کانواسہ حضرت حسین ؓ [27]دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا توآپﷺ دیگر لوگوں سے آگے بڑھےاور حسین کوپکڑنے کےلئے اپنے ہاتھ پھیلالئے تو وہ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے آپﷺ انہیں ہنساتے رہے یہاں تک کہ انہیں پکڑلیا اور گلے سے لگاکر بولے حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو بھی اس سے محبت رکھے اللہ اس سےمحبت رکھے حسن اورحسین میرے نواسے ہیں اسی طرح آپﷺ حضرت انسؓ[28]کو از راہِ مذاح "يَا ذَا الأُذُنَيْنِ"اےدو کانوں والےکہہ کربلاتےتھے، نیز انہیں ابو بقلہ بھی فرماتے کیونکہ وہ سبزی توڑکرلاتےتھے [29]۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کی نفسیات کی رعایت رکھتے ہوئےان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا، ان سے دل لگی کی باتیں کرنا آپﷺ کی سنت ہے۔

(8)بچوں کو کچھ نہ کچھ تحفہ دینا:انسانی طبائع پر تحفوں کا بڑا اثر پڑتاہے کسی بھی معاشرےمیں دوسرے فرد کی محبت اور توجہ حاصل کرنے کاآسان طریقہ اسے ہدیہ دینا ہے چنانچہ اسی انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے آپﷺ کا فرمان ہے"تَهَادُوا تَحَابُّوا"[30] یعنی آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے دیاکرو ا س سےتمہارے درمیا ن محبت بڑھے گی ۔ آپﷺ نے بچوں کے حوالے سے بھی اس اصول پر عمل کیاہے چنانچہ حضرت ابوھریرہؓ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ کی خدمت میں موسم کا پہلا پھل لایاجاتھاتو اولاََ آپﷺ برکت کی دعا فرماتےتھے اور پھر وہ پھل اس مجلس میں موجود سب سے کم عمر بچے کو بطورِہدیہ کے دیتےتھے [31]۔

(9)بچوں کے ساتھ کھیل کود :اچھلنا، کودنا، دوڑنا اور کھیل کود کسی بھی بچے کی زندگی کے لازمی اجزاء ہوتے ہیں بظاہر تو یہ تمام سرگرمیاں فضول دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقتاََ یہی چیزیں اس کے جسمانی و نفسیاتی قوتوں کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں ، کھیل کود کے نتیجے میں ایک طرف تو اس کے جسمانی قواء مظوط اور توانا ہوتے ہیں تو دوسری طرف کھیل کود میں ذہن کے استعمال سے اس کے غور وفکر کی نشونما اور تخلیقی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ اس کی فطری پوشیدہ صلاحیتیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جوآگے چل کر اس کی شخصیت کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔

بچوں کی شخصیت نکھارنے اور ان مناسب تربیت کے لئے ان کے ساتھ کھیل کود ایک بنیادی امر ہے اپنی اولاد کے ساتھ کھیلنے کا ایک نفسیاتی فائدہ یہ ہوتاہے کہ اولاد کو خوشی اور فرحت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کام کی اہمیت کااندازہ ہوتاہےوالدین سے تعلق مزید مضبوط بن جاتاہے دوسرا نفسیاتی فائدہ یہ ہوتاہےکہ بچے فطرتاََ کمزور ہوتے ہیں لیکن جب وہ بڑوں میں قوت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ بھی بڑوں جیسا بننا پسند کرتے ہیں اس کے لئے وہ بڑوں کا طریقہء کار اختیار کرتے ہیں ۔ آج کل بچوں کے تربیتی پروگراموں میں اس بات پر زور دیا جاتاہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ کھیل کود میں شرکت کریں اور اسے والدین کی ذمہ داریوں میں شمار کیا جاتا ہے تاہم آپﷺ نے آج سے چودہ سو صدیاں قبل اپنی امت کو عملاََ ایسا کرکے دکھایا۔ آئیے ذیل میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

آنحضرتﷺ عبداللہ بن عباسؓ [32]اور عبیداللہ بن عباسؓ کو ایک قطار میں کھڑا کرتےاور ان سے فرماتے تھے"جو پہلےمجھ تک پہنچے گا اسے یہ یہ انعام ملے گا"تو وہ دونوں دوڑ پڑتےاور آپﷺ کے سینہ مبارک اور پیٹھ پر چڑھتے آُﷺ انہیں بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے۔ اسی طرح حضرت علیؓ سے مروی ہےکہ ایک مرتبہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپس میں الجھ رہے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا شاباش حسین! حسن کو پکڑیئے حضرت علیؓ نے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپﷺ حسن کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ وہ تو حسینؓ سے بڑے ہیں توآپﷺ نے انہیں جواب دیا کہ دراصل جبرئیل حسنؓ کو شاباش دے رہے ہین اس لئےمیں نے حسین ؓ کو شاباش دی [33]۔

آپﷺ کابذات ِخود بچوں سے کھیلنا:آپﷺ خود بھی بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے آپﷺ اپنے دونوں نواسوں کو اپنی پیٹھ پرسوارکرلیتے تھے چنانچہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپﷺ کےدونوں نواسے آپﷺ کی پیٹھ پر سوار ہیں اور آپﷺ چار پاؤں پر چل رہے ہیں اورآپﷺ دونوں سے فرمارہے تھے کہ تمہاری سواری بہت اچھی سواری ہے اور تم دونوں بہت اچھے سوار ہوں [34]۔

(10)بچوں میں مقابلہ کروانا اور انعام سے نوازنا :کسی بھی انسان میں تحریک اور فعالیت پیدا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دوسرے سے اس کامقابلہ کرایا جائےاور چھوٹے بچوں میں تو اس کا اثر اور بھی زیادہ ہوتا ہے ان میں بہت سی مختلف قوتیں اورجذبات پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہ چیزی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ان بچوں کا دوسروں سے مقابلہ کروایا جائےآپﷺ نے مختلف مواقع پر بچوں میں مقابلہ بازی کے جذبے کو ابھاراکرتے تھے اور یہ مقابلہ کبھی تو فکری صورت میں ہوتاتھا اور کبھی جسمانی دوڑ وغیرہ کی صورت میں ہوتاتھا ، مقابلہ بازی کا ایک اور نفسیاتی فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ یہ اجتماعیت پسندی کو پروان چڑھاتی ہے نیز اس سے مسائل زندگی کو سمجھنے اور اسے حل کرنے کے طریقے سکھاتی ہے [35]۔

اس اندازِتربیت کا اثر:بچپن میں جب بچے کے ساتھ گھل مل کر کھیلا جائے اور اس کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھا جائے تو اس سے بچے میں خوداعتمادی پیدا ہوجاتی ہے جو آگے چل کر مستقبل میں اس کی زندگی پر بہتر نفسیاتی اثرات ڈالتی ہے کیونکہ جب ہم کسی بچے کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرتے ہیں تو ایسا کرنے سے اس کے دل سے احساس محروومی کےاثرات ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ خود اعتمادی اورحوصلہ مندی پیدا ہوجاتی ہےجس سے بچے کے اندر پوشیدہ فطری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں [36]۔

(11)لڑکیوں کو بھی لڑکو ں کے برابر توجہ دینا:آج کے اس جدید دور میں بھی لڑکیاں عموماََ کمزورسمجھی جاتی ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں انہیں اہمیت بھی کم دی جاتی ہیں جبکہ جاہلیت کے زمانے میں تو ان پراور زیادہ مظالم ڈھائے جاتےتھے عرب کے کئی قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگورکرنا عام تھا ، لڑکیوں کی پیدائش پرغمگین ہونا تو آج بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے زمانہءجاھلیت میں جب کسی شخص کوبیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تھی تو باپ کے تاءثرات کو قرآن کریم نے اس انداز میں بیان کیا ہے.

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [37]

ترجمہ : جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو سارا دن اس کا چہرہ بےرونق رہتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہتاہےاور جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہوتی ہے اس کی عار سے لوگوں سے لوگوں سے چھپتا پھرتاہے آیا اسے ذلت کی حالت میں لیے پھرتا رہے یا مٹی میں گاڑ دے ۔ خبردار ان کی تجویز کیسی بری ہے۔

ایسے تاریک دور میں آپﷺنےوالدین کو لڑکیوں کے متعلق صحیح تعلیمات سے روشناس کرایا ان سےمحبت اور موانست کے برتاؤ کاحکم دیااوربچیوں کی پیدائش پر تنگ دل ہونےکومشرکانہ طرزِعمل ہےقراردیاہےلہٰذابچیوں کی پیدائش پرناگواری کااظہار جائز نہیں ہے کیونکہ ایساکرنے سے انسان اپنے رب کی ناشکری کرتاہے کیونکہ لڑکا ہو یالڑکی ، دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے [38]۔

لڑکیوں کی پرورش پر زیادہ اجروثواب ملتاہے:عربوں کےمعاشرے میں لڑکیوں کوزندہ دفن کیاجاتاتھا ، آپﷺنے اس مشرکانہ طرزِعمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے بچیوں کی پرورش کی حوصلہ افزائی کی ہےچنانچہ آپﷺ کافرمان ہے ۔

مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا،جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ [39]

ترجمہ:جس کسی نے دو لڑکیوں کے بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ اور میں روزِقیامت ان دو انگلیوں کی طرح اکھٹے ہونگے یہ فرماکر آپﷺ نےاپنی انگلیوں کو باہم ملادیا۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہےجس کسی کو لڑکیوں کے ذریعے آزمایاجائے اور پھروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ عمل اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کاذریعہ ہوگا، [40]۔

اچھاسلوک کیا ہے؟:اچھے سلوک کی عمدہ تعبیرخودآپﷺسے ایک حدیث میں منقول ہےچنانچہ آپﷺ نے فرمایا:مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا،وَلَمْ يُهِنْهَا،وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا، قَالَ: يَعْنِي الذُّكُورَ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ [41]

ترجمہ : جس کسی کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور نہ ہی لڑکے کو اس پرترجیح دے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرینگےیعنی اولاد کی ضروریات پورا کرنے میں کوئی امتیازی سلوک نہ کرے، کھانے پینے، رہنےسہنےمیں تمام اولاد کو یکساں رکھے اسی طرح تعلیم وتربیت وغیرہ تمام امور میں دونوں کو برابررکھے۔

لڑکیوں کی پرورش پر زیادہ اجر کی وجہ:شریعت نے لڑکیوں کی پرورش پر جو اجر مقرر کیاہے اتنا لڑکوں کی پرورش پرنہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نرینہ اولاد کی پرورش اس امید پر کی جاتی ہےکہ وہ بڑھاپے میں سہارابنے گی اور لڑکیاں تو دوسرے گھروں کی امانت ہوتی ہیں تو ان کی پرورش صرف خالصۃََ اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئے ہوگی اس لئے اس پر زیادہ ثواب ملےگا [42]۔

(12)تمام اولاد میں برابری سے کام لینا:آپﷺنےاولادکےمعاملےمیں برابری نہ کرنےکوظلم قراردیاہےچنانچہ ایک روایت ہےکہ ایک صحابیؓ کی بیوی نےاپنےشوہرسےکہا، اپناغلام میرےبیٹےکودےدیں اوررسولاللہﷺکواس بات پرمیرےلیےگواہ بنا دیں، تو بشیرؓ [43]، رسول اللہﷺکےپاس آئےاورعرض کیامیری بیوی نےمجھ سےمطالبہ کیاہےکہ میں اس کےبیٹےکوغلام ہبہ کردوں اوراس پرآپﷺکوگواہ بنالوں توآپﷺنےفرمایاکہ کیااس کےاوربھی بھائی ہیں؟توانہوں نےکہا، ہاں، توآپﷺنےان سےپوچھاکیاتم نےسب کوایساہی غلام دیاہےجیسااسےدیاہے؟انہوں نےکہا نہیں، توآپﷺنےفرمایایہ تودرست نہیں اورمیں توصرف حق بات ہی کی گواہی دےسکتاہوں [44]۔

واضح رہےکہ" تمام اولاد میں برابری کرنا"ان کی تربیت کےحوالےسےایک اہم بنیادی چیزہے، اولاد میں سے کسی کو نوازنا اور کسی کو بالکل محروم کرنا یا کم دیناجائزنہیں اگر اولاد میں برابری سے کام نہ لیاجائےتواس کئی خرابیاں جنم لیں گی۔

1۔ اولاد میں باہمی دشمنی پیداہوگی۔

2۔ نوازنےجانے والے میں تکبر اور احساسِ برتری پیداہوگا۔

3۔ محروم ہونے والےمیں احساسِ کمتری پیداہوگا۔

4۔ محروم ہونےوالے میں والدین سےبغض پیداہوگا۔

مذکورہ خرابیوں کےسدِباب کےحوالے سےآپﷺنےاولادمیں امتیاز کو روا نہیں رکھاہے [45]۔

خلا صۃ البحث

ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بچوں کی نفسیات کا وافرعلم عطا فرمایا تھا اور آپﷺ نے بچوں کی نفسیات کی جیسی رعایت رکھی ہے کوئی اور نہیں رکھ سکتا ،آج کے اس مشینی دور میں اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں جس تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے اور بچے مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہورہے ہیں اگر ہم آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی تعلیمات کو اپنا لیں تو ان مختلف عارضوں سے بچوں کی حفاظت ممکن ہوسکے گی اور ہمیں مستقبل میں ایسی نوجواں نسل ملے گی جوذہنی طور پر بھی توانا اور تندرست ہوگی ۔

 

حوالہ جات

  1. . نقوی،ضامن نقوی، فلسفہ نفس،ص6،ہندوستانی اکیڈیمی،1932،
  2. ۔ کیرانوی، وحیدالزماں قاسمی، القاموس الوحید، ص1684ج2، ادارہ اسلامیات لاہور، 2001ء۔
  3. ۔ جماعت علماء، ڈاکٹر عمارہ یوسف، صائمہ ندیم، ٹی۔ ایم یوسف، نفسیات کے اساسی نظریات، ص2، علمی کتب خانہ لاہور، 2105۔
  4. ۔ Group, Richard JGerig, Philip G Zimbardo, Psychology and Life, p/2, Sixteenth Edition, Allyn and Bacon,2002.
  5. ۔ اڈلر،الفرڈاڈلر،what life should mean to you ، مترجم،سید محمد حسین جعفری ،ص13 ،اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد دکن انڈیا،۔
  6. ۔ عثمانی، ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی، اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار، ص5، بیت العلوم، لاہور، سن اشاعت ندارد۔
  7. ۔ زیدی، ساجدہ زیدی، شخصیت کے نظریات، ص211، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، 1999۔
  8. ۔ امام بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعيل(ف256ھ)، الجامع الصحیح ، ج2، ص100، دار طوق النجاةبیروت، 2001ء۔
  9. ۔ آپ کی کنیت ابومحمدہے ،نبی کریم ﷺ کےبڑے نواسے ہیں۔والدہ کا نام فاطمہ بنت محمدﷺ ہیں جو جنت میں عورتوں کی سردارنی ہیں اور آپؓ جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔صورت میں آپﷺ کے مشابہ تھے۔ان کانام حسن آپﷺ نے رکھاتھا۔15 رمضان المبارک3 ہجری کو پیدا ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ 49ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن اثیر،اسد الغابہ،ج2، ص13۔
  10. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج7، ص159۔
  11. ۔ نور،محمدنور، تربیت اولاد کانبو ی اندازاور اس کے زریں اصول ، ص200،دارالقلم لاہور،2009۔
  12. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج1، ص109۔
  13. ۔ حضرت زینب کی صاحبزادی اورآپ ﷺکی نواسی تھی۔ 66 ہجری میں وفات ہوئی۔ ابن حجر، الاصابہ، ج8، ص24۔
  14. ۔ آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے۔ اسلام ہی میں ہوش سنبھالا اور اپنے والد کی معیت میں ہجرت کی۔بدر اور احد میں کم سنی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے باقی تمام غز وات میں شریک رہیں۔نبی کریم ﷺ نے آپؓ کو رجل صالح سے یاد کیا ہیں۔فقیہ اور کثیرالروایہصحابی ہی ۔73 ہجری کو مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابۃ،ج4،ص181۔
  15. ۔ امام ترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ(ف279ھ)، السنن، ج5، ص151، مصطفى البابی الحلبی، مصر، 1975ء۔
  16. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج1، ص54۔
  17. ۔ تربیتِ اولادکانبوی اندازاور اس کے زریں اصول، ص 203۔
  18. ۔ آپ حضرت جعفرکے بیٹے اورحضرت علیؓ کے بھتیجے تھے۔ حبشہ میں پیداہوئے تھے۔ 80 ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔ قرطبی، الاستیعاب، ج3، ص880۔
  19. ۔ مسلم، مسلم بن الحجاج ابوالحسن القشيري (المتوفی261ھـ)، الجامع الصحیح ج4، ص1885، دار احياء التراث العربي – بيروت،1954ء۔
  20. ۔ ابن ماجہ، ابو عبدالله محمدبن يزيد ، (ف273ھ)، السنن، ج2،ص1220، داراحياءالكتب العربیۃ بیروت، 2009ء۔
  21. ۔ مسلم ،الجامع الصحیح،ج4 ،ص1814۔
  22. ۔ تربیتِ اولادکانبوی اندازاور اس کے زریں اصول، ص، 423۔
  23. ۔ آپ مکہ معظمہ میں 9سال قبل ہجری 613ء کو پیدا ہوئی۔ فقیہ ، عالمہ اور فاضلہ صحابیہ ہیں۔ اکابر صحابہ آپؓ سے میراث کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔2 ہجری کو رسول اللہﷺ سے ان کی شادی ہوگئی۔ آپؓ سے 2210 احادیث کی روایت کی گئی ہیں۔ آپ نے57ہجری کو وفات پائی۔ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج4،ص108۔
  24. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج8، ص7۔
  25. ۔ امام حنبل، ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل، مسنداحمد (ف، 241ھـ)، ج19،ص185۔ مؤسسۃ الرسالۃ ، 1421ھ/2001ء۔
  26. ۔ آپ انصاری صحابی ہے۔ عقبہ ثانیہ میں بیعت کی تھی۔آپؓ سے منقول روایات پندرہ سوسے زائد ہے۔ 68 یا78 ہجری میں وفات پائی۔ ابن حجر، الاصابہ، ج1، ص547۔
  27. ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے،نبی کریمﷺ کے نواسے ہیں ۔پیدائش شعبان 4ہجری کو ہوئی، جب یہ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی۔اور 10محرم الحرام 61ہجری کو کربلا کے واقعہ میں شہید ہوئے۔ابن اثیر،اسد الغابہ،ج2، ص24
  28. ۔ آپ خزرجی انصاری صحابی ہیں۔خادم رسول اللہﷺ تھے۔مرویات کی تعداد 2286 ہیں۔مدینہ منورہ میں 10 ہجری کو پیدا ہوئے۔ بچپن میں اسلام قبول کیا اور بنی کریم ﷺ کی وفات تک ان کی خدمت کرتے رہے۔دمشق اور بصرہ میں رہائش پذیررہے۔بصرہ میں 93ہجری کو وفات پائی۔ ابن الاثیر ،اسد الغابۃ ،ج1،ص294۔
  29. ۔ ترمذی، السنن، ج3، ص426۔
  30. ۔ بخاری،محمد بن اسماعيل (المتوفى: 256ھـ) الادب المفرد ، ج1، ص208،دار البشائر الاسلاميۃ بيروت،1989ء۔
  31. ۔ مسلم،الجامع الصحیح،ج2، ص1000۔
  32. ۔ آپ 3ہجری کوپیدا ہوئے۔حضورﷺ کے چچازاد بھائی اورجلیل القدرصحابی ہیں۔حبرالامۃاور ترجمان القرآن جیسے القاب سے نوازے گئے۔طائف میں سکونت پذیرتھے۔اور وہیں68 ہجری کو وفات پائی۔ابن الاثیر ، اسد الغابۃ ج3،ص291 ۔
  33. ۔ جمعہ،احمد خلیل جمعہ،اولاد کی تربیت قرآن وحدیث کی روشنی میں،ص351،بیت العلوم،2003۔
  34. ۔ تربیتِ اولادکانبوی اندازاور اس کے زریں اصول، ص، 210۔
  35. ۔ ایضا،ص204ء۔
  36. ۔ اولاد کی تربیت قرآن وحدیث کی روشنی میں ،ص352۔
  37. ۔ القرآن الکریم،النحل:58/59۔
  38. ۔ القرآن الکریم،الشوریٰ49/50۔
  39. ۔ مسلم،الجامع الصحیح،ج4، ص2027۔
  40. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج2، ص110۔
  41. ۔ امام ابوداود،ابوداودسليمان بن الاشعث(ف 275ھ)، السنن، ج4، ص337، میرمحمدکتب خانہ کراچی،1949ء۔
  42. ۔ ابوعبدالرحمان،شبیر،تہذیب الاطفال، ص30،نوراسلام اکیڈمی لاہور،2005۔
  43. ۔ آپ بشیرؓبن سعد بن ثعلبہ بن خلاس ہے، کنیت ابونعمان ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ اور تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے۔ بنوسقیفہ میں حضرت ابوبکرصدیقؓ سے انصار میں سب سے پہلے ان ہی نے بیعت کی ۔ 12ہجری میں حضرت خالدبن ولیدؓ کے ہمراہ جنگِ یمامہ سے لوٹتے ہوئے شہیدہوئے۔ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج1، ص231۔
  44. ۔ ابوداود، السنن ، ج3، ص293 ۔
  45. ۔ نعمانی، مولانا منظوراحمد نعمانی، معارف الحدیث ، ج6، ص278،دارالاشاعت کراچی، 2007۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...