Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

شاہ ولی اللہ کی نظر میں مسالک فقہیہ کا تعارف |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060029336_887

Pages

53-64

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/39/36

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/39

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلامی تاریخ میں دوسری صدی ہجری کا زمانہ اسلامی علوم وفنون کے حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔بالخصوص اس کا نصف آخر اسلامی علوم وفنون اور ان کی  تشکیل و تدوین کے لئے مثالی دور کہلا تا ہے۔ اس وقت تیزی سے پھیلتی ہوئی اسلامی ریاست اور امت مسلمہ کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل سوچا جا رہا تھا۔ اسلام میں نئے نئے داخل ہونے والے ایرانی ،عراقی،مصری،ترکی، ہندوستانی،بربری اور دیگر اقوام کے لوگ اپنے مقامی حالات اور رسم وراج کے بارے میں اسلامی موقف معلوم کرنا چاہتے تھے۔نئے سوالات پیدا ہو رہے تھے۔ مثلاً سنت کی تشریعی حیثیت ، قرآن حکیم کی تعبیر و تشریح،اجماع کا قانونی حیثیت ،قوانین کے نفاذ میں تدریج ،نسخ اور تخصیص جیسے مسائل زیر بحث آنے لگے،اس دور کے  ائمہ کرام نے اپنی خداد اد علمی و فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسب ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہ مرتب کئے جوبعد میں مسا لک  فقہیہ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ان مسالک  فقہیہ کے تعارف سےمتعلق شاہ صاحب کی انفرادیت کو مشخص کرنے کے لئے ضروری ہےکہ فقہ کے ارتقائی ادوار کا عہد بہ عہد پس منظر کا تحقیقی بیان ہو،یہ ادوار درج ذیل ہیں۔

عہد رسالت و صحابہ کرام کادور (0-60ھ)

رسول اللہ ﷺاللہ تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر دینی احکام جاری فرماتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وحی سے کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں آپﷺ اجتہاد فرماتے۔ بعد میں اللہ تعالی کی جانب سے بذریعہ وحی اس اجتہاد کی توثیق کر دی جاتی یا اگر کسی تغیر و تبدل کی ضرورت پیش آتی تو اس بارے میں آپ ﷺکو وحی کے ذریعے رہنمائی فراہم کر دی جاتی۔

رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ اصحاب میں بہت سے ایسے تھے جو آپ کی حیات طیبہ ہی میں فتوی (دینی معاملات میں ماہرانہ رائے) دینا شروع کر چکے تھے۔ ظاہر ہے ایسا حضور ﷺکی اجازت کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ ان صحابہ میں سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عائشہ، عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کے فتاوی مشہور ہیں۔

ان کے فتوی دینے کا طریق کار یہ تھا کہ جب ان کے سامنے کوئی صورت حال پیش کی جاتی تو وہ اس کا موازنہ رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش آ نے   والی صورتحال سے کرتے اور ان میں مشابہت کی بنیاد پر حضورﷺ کے فیصلے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنا دیتے۔ خلافت راشدہ کے دور میں بھی یہی طریق کار جاری رہا۔ حکومت سے ہٹ کر انفرادی طور پر بھی بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں فقہی اور قانونی معاملات میں فتاوی جاری کیا کرتے تھے۔ یہ فتاوی اگرچہ قانون نہ تھے لیکن لوگ ان صحابہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے اجتہادات کی پیروی کرتے۔ سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں بہت سے صحابہ مفتوحہ ممالک میں پھیل گئے اور مقامی آبادی کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ یہ حضرات لوگوں کے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتے اور فتاوی جاری کرتے۔[1]

تابعین کا دور (90-150ھ)

پہلی صدی ہجری کے آخری عشرہ(تقریباً 730ء) تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ سیدنا سہل بن سعد الساعدی، انس بن مالک اور عامر بن واثلہ بن ابو عبداللہ رضی اللہ عنہم آخر میں وفات پانے والے صحابہ ہیں۔ اب تابعین کا دور تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تربیت یافتہ افراد کثرت سے موجود تھے۔ ان میں نافع مولی ابن عمر، عکرمہ مولی ابن عباس، مکہ کے عطاء بن رباح، یمن کے طاؤس بن کیسان، یمامہ کے یحیی بن کثیر، کوفہ کے ابراہیم النخعی، بصرہ کے حسن بصری اور ابن سیرین، خراسان کے عطاء الخراسانی، اور مدینہ کے سعید بن مسیب اور عمر بن عبدالعزیز (رحمهم الله) کے نام زیادہ مشہور ہیں۔[2] شاہ ولی ؒاللہ لکھتے ہیں:

نبی ﷺکے اصحاب کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف پیدا ہو گیا اور تابعین نے حسب توفیق ان کے علوم کو ان سے اخذ کر لیا۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کی احادیث اور صحابہ کرام کے نقطہ ہائے نظر کو سنا اور سمجھا۔ اس کے بعد انہوں نے اختلافی مسائل کو اکٹھا کیا اور ان میں سے بعض نقطہ ہائے نظر کو ترجیح دی۔ اس طرح ہر تابعی نے اپنے علم کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر اختیار کر لیا اور ان میں سے ہر ایک کسی شہر کا امام (لیڈر) بن گیا۔ مثال کے طور پر مدینہ میں سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ بن عمر اور ان کے بعد زہری، قاضی یحیی بن سعید اور ربیعۃ بن عبدالرحمٰن، مکہ میں عطاء بن ابی رباح، کوفہ میں شعبی اور ابراہیم النخعی، بصرہ میں حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں مکحول۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے دل میں علوم کا شوق پیدا کر دیا تھا، اس وجہ سے لوگ ان اہل علم کی طرف راغب ہو گئے اور ان سے حدیث اور صحابہ کے نقطہ ہائے نظر اور آراء حاصل کرنے لگے۔ تابعین نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے ریکارڈ کو محفوظ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر شاگرد نے اپنے استاذ صحابی کے عدالتی فیصلوں اور فقہی آراء کو محفوظ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے دور حکومت میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں اور احادیث کو محفوظ کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا اور فتوی دینے کا اختیار اہل علم تک ہی محدود کیا۔ آپ ابوبکر محمد بن عمرو بن حزم الانصاری کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺکی جو حدیث بھی آپ کو ملے، اسے لکھ کر مجھے بھیج دیجیے کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اہل علم کے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ علم بھی ضائع نہ ہو جائے۔"[3]

تبع تابعین کا دور (150-225ھ)

تابعین کا دور کم و بیش 150 ہجری (تقریباً 780ء) کے آس پاس ختم ہوا۔ اپنے دور میں تابعین کے اہل علم اگلی نسل میں کثیر تعداد میں عالم تیار کر چکے تھے۔ یہ حضرات تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ ان میں امام ابوحنیفہ ؒ بھی شامل ہیں۔ اس وقت تک اصول فقہ کے قواعد اور قوانین پر اگرچہ مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں عمل کیا جا رہا تھا لیکن انہیں باضابطہ طور پر تحریر نہیں کیا گیا تھا۔یہ دور فقہ کے مشہور ائمہ کا دور تھا۔

کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ (وفات 150ھ) فقہیہ تھے ۔ انہوں نے کوفہ میں قیام پذیر ہو جانے والے فقہاء صحابہ سیدنا عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما اور فقہا ءتابعین جیسے قاضی شریح (وفات 77ھ)، شعبی (وفات 104ھ)، ابراہیم نخعی (وفات 96ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل جاری رکھا۔[4]

اہل مدینہ میں امام مالکؒ  (وفات 179ھ) کا مکتب فکر وجود پذیر ہوا۔ انہوں نے مدینہ کے فقہاء صحابہ سیدنا عمر، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور فقہا تابعین و تبع تابعین سعید بن مسیب (وفات 93 (، عروہ بن زبیر(وفات 94ھ)، سالم (وفات 106ھ)، عطاء بن یسار (وفات 103ھ)، قاسم بن محمد بن ابوبکر (وفات 103ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ (وفات 99ھ)، ابن شہاب زہری (وفات 124ھ)، یحیی بن سعد (وفات 143ھ)، زید بن اسلم (وفات 136ھ)، ربیعۃ الرائے (وفات 136ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا۔

امام ابوحنیفہ  جو کہ حماد (وفات 120ھ) اور امام جعفر صادق (وفات 148ھ) رحمہم اللہ کے شاگرد تھے، کی تقریباً چالیس افراد

پر مشتمل ایک ٹیم تھی جو قرآن و سنت کی بنیادوں پر قانون سازی کا کام کر رہی تھی۔ اس ٹیم میں ہر شعبے کے ماہرین شامل تھے جن میں زبان، شعر و ادب، لغت، گرائمر، حدیث، تجارت ، سیاست ، فلسفے  بلکہ ہر علم کے ماہرین نمایاں تھے۔ ہر سوال پر تفصیلی بحث ہوتی اور پھر نتائج کو مرتب کر لیا جاتا۔ امام صاحب نے خود تو فقہ اور اصول فقہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے فیصلوں کو ان کے شاگردوں بالخصوص امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی علیہما الرحمۃ نے مدون کیا۔ امام ابوحنیفہ اور مالک کے علاوہ دیگر اہل علم جیسے سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد علیہم الرحمۃ یہی کام کر رہے تھے لیکن ان کے فقہ کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جو حنفی اور مالکی فقہ کو ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہارون رشید کے دور میں حنفی فقہ کو مملکت اسلامی کا قانون بنا دیا گیا اور مالکی فقہ کو سپین کی مسلم حکومت نے اپنا قانون بنا دیا۔[5]

اہلسنت والجماعت کے چار ائمہ :

1.     امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ (م 150 ھ)

2.     امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ ( م 189 ھ)

3.     امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ (م 204 ھ)

4.     امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ (م 241 ھ)

ان ائمہ کرام نے اپنی خداد اد علمی و فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسب ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہ مرتب کئے، یوں ان ائمہ کے زیر اثر مسالک فقہیہ اور چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔جن میں:

  • امام اعظم کے مقلدین حنفی کہلاتے ہیں۔
  • امام مالک کے مقلدین مالکی کہلاتے ہیں۔
  • امام شافعی کے مقلدین شوافع کہلاتے ہیں۔
  • امام احمد بن حنبل کے مقلدین حنبلی کہلاتے ہیں۔[6]

مسالک فقہیہ و اجتہادی مکاتب فکر:

اس دور میں دوسرے علوم کی اشاعت سے قطع نظر چار فقہی و اجتہادی مکاتب فکر کی تشکیل و رواج تاریخ اسلامی کا نمایاں باب ہے۔ عام اصولیین کے ہاں تشکیل مذاہب میں مذہب حنفی کو زمانی اولیت حاصل ہے۔ مگر شاہ و لی اﷲ ؒ حجۃ اﷲ البالغہ میں حنفی مذہب کی تشہیر و تدوین کا بڑا باعث چونکہ امام محمد بن حسن شیبانی ؒ 805ء/189ھ کی کتب ظا ہر الروایہ کو قرار دیتے ہیں اور یہ حضرت امام مالکؒ کے شاگرد وں میں بھی  ہیں۔ یہ امر بھی شاہ ولی اﷲؒ کے ہاں مسلم ہے کہ موطا امام مالک تمام صحاح ستہ اور مذاہب کے لئے بطور اساس و اُم کی ہے۔ لہٰذا وہ مالکی مذہب کو پہلے ذکر کرتے ہیں۔ [7]۔شاہ صاحب مسالک فقہیہ کی تشکیل کے حوالہ سے منفردانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ صحابہؓ کی اجتہادی آراء کو تابعین کے دور میں دو بڑے حجازی اور عراقی فقہی رجحانات پر منتج مانتے ہیں۔مالکی مذہب کو حجازی مکتب فکر کے نمائندہ کے طور پر  جب کہ حنفی مسلک کو عراقی مکتب فکر کے نمائندہ کے طور پر مانتے ہیں ،دونوں مذاہب کے امتزاج سے شافعی مسلک کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ شاہ صاحب یہ بھی مدلل طریقے سے لکھتے ہیں کہ مذہب شافعی اپنے پیش رو ومکاتب فکر یعنی موالک و احناف سے صرف پانچ اعتبار سے مختلف ہیں۔

شاہ صاحب تینوں مذاہب کا تاریخی پس منظر اور ان کے طرق اجتہادات کا جائزہ پیش کرکے اصحاب الحدیث والرائے کے باہمی رجحانات کا تنقیدی جائزہ پیش کر کے لکھتے ہیں کہ ان دونوں رجحانات میں بنیادی فرق دینی معاملات میں رائے کا استعمال و عدم استعمال ہے۔ ابتداء میں علماء کی ایک جماعت دینی معامالت میں رائے سے گریزاں تھی،بعد کے ادوار میں رائے کا استعمال کثرت سے ہونے لگا۔ اس تناظر میں شاہ صاحب  اصحاب الحدیث کی علمی کاوشوں خصوصاً صحاح ستہ کی تدوین ،فن اسماء الرجال کو مخصوص خطوط پر استوار کرنا اور بڑے بڑے محدثین کے تراجم کے بارے میں تفصیلی خاکہ پیش کرتے ہیں۔[8]

فقہ حنفی

اس فقہ کا انتساب نعمان بن ثابت امام ابو حنیفہؒ کی طرف ہے۔آپ کی ولادت 700ء/ 80 ھ جب کہ وفات 768ء/ 150ھ میں ہوئی۔ آپ اہل عراق کے گل سر سید،موالی تابعی اور نہایت تقویٰ دار، بصیرت والی شخصیت کے حامل تھے۔ امام صاحب نے عراق کے مخصوص ماحول میں پرورش پائی،آپ کی علمی زندگی کی ابتداء علم کلام کے مطالعے سے ہوئی ۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کی فقہ اپنے استاد حماد بن ابی سلیمانؒ (م 738ء/120ھ) سے پڑھی۔آپ نے کپڑے کی تجارت کو ذریعہ معاش بنایا آپ کے تعلیمی مشاغل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو علم کلام میں تخصیص کا درجہ حاصل تھا۔ جیسا کہ خود آپ کا بیان ہے۔ کنت انظر فی الکلام حتیٰ بلغت فیہ مبلغاً یشار الیّ بالاصابع۔[9] "میں علم کلام میں دلچسپی رکھتا تھا، حتیٰ کہ اس میں وہ مقام حاصل کرلیا کہ لوگ میری طرف انگلیوں سے اشارہ کرنے لگے"۔

امام صاحب نے قوت استدلال میں خوب مہارت حاصل کرلی حتیٰ کہ فہم واستنباط میں آپ کی ہستی نادر روزگار قرار پائی،فقہ میں امام مالکؒ کے مصالح مرسلہ کی طرح آپ نے اپنے مذہب کو استحسان پر استوار کیا۔ استحسان عام قیاس کے مقابلے میں مصلحت کے اعتبار سے اوفق و اصلح ہوتا ہے۔  امام صاحب کی ہی فقہیانہ بصیرت کا نتیجہ ہے کہ فقہ حنفی معاصر فقہی مکاتب سے برتر قرار پائی ہے اور یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ عملی مسائل میں یہ زیادہ قابل عمل اور سائنسی وقانونی ہے، امام محمدؒ امام صاحب کے استحسانی ملکہ استنباط سے متعلق لکھتے ہیں " ان اصحابه کانوا ینازعونه المقائس فاذا قال استحسن لم یلحق به احد"[10]

" امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد قیاسی معاملات میں ان کے ساتھ ردو قدح کرتے تھے لیکن جب وہ یہ کہہ دیتے کہ میں نے استحسان کیا

ہے تو پھر اس تک کوئی پہنچ نہ پایا"۔

امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد:

امام ابو حنیفہ ؒ کے مذہب کے شیوع کا بڑا باعث ان کے مایہ ناز شاگردوں کا میسر ہونا ہے۔ آپ کے شاگردوں میں  سب سے زیادہ امام ابو یوسفؒ ،

زفربن ہذیلؒ ،محمد بن حسن شیبانیؒ اور حسن بن زیادلوئی مشہور ہیں۔

فقہ حنفی کا اہم کردار:

امام حافظ شمس الدین ذھبی ،جو علم تاریخ اور اسماء الرجال کی اہم ترین شخصیت سمجھے جاتے ہیں ، اپنی مشہور کتاب"سیراعلا م النبلاء" میں فقہ حنفی کے اہم کردار کی یوں تصویر کشی کرتے ہیں۔ ترجمہ: کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ علیؓ اور ابن مسعودؓ ہیں اور ان دونوں کے اصحاب میں سب سے بڑے فقیہ علقمہ ہیں اور علقمہ کے اصحاب میں سب سے بڑے فقیہ ابراھیم نخعی اور ابراھیم نخعی کے اصحاب میں سب سے بڑے فقیہ حماد اور حماد کے اصحاب میں سب سے بڑے فقیہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب میں سب سے بڑےفقیہ  امام ابو یوسفؒ او رامام ابو یوسفؒ کے اصحاب آفاق عالم میں پھیل گئی اور ان میں سب سے بڑے فقیہ امام محمدؒ اور ان کے اصحاب میں سب سے بڑے فقیہ امام ابو عبد اﷲ الشافعیؒ ہیں۔ [11]

فقہ مالکی:

یہ فقہ مالک بن انسؒ (م796ء/ 179ھ) کی طرف منسوب ہے۔ امام صاحب کی ولادت 712ء / 93ھ مدینہ میں ہوئی۔آپ کے داد اابو عاصم اصحاب رسولؐ میں سے تھے۔ وہ یمن سے آکر یہاں آباد ہوئے۔مالک بن انسؒ نے  ہوش سنبھالتے ہی علماء مدینہ سے اخذ و استفادہ کیا، عبدالرحمان بن ہرمز کے پاس مدت طویلہ تک رہنے کے بعد حضرت ابن عمرؓ کے مولیٰ نافع اور ابن شہاب الزہری سے علم حدیث کی تحصیل کی۔ فقہ میں آپ کے شیخ ربیعہ ابن عبدالرحمان ہیں۔جب آپ کے شیوخ نے آپ کو  حدیث و فقہ کی شہادت دی تو مدینہ کے مسند روایت و فتویٰ پر بیٹھ گئے۔

امام مالکؒ خود فرماتے ہیں کہ میں اس وقت تک منصب قضا پر نہیں بیٹھا جب تک کہ ستر (70) اہل شیوخ نے میرے لئے یہ شہادت نہ دی کہ میں اس کا اہل ہوں۔[12] یقیناًآپ مدینہ کے علمی توارث کے امین ثابت ہوئے۔ امام مالکؒ کے شخصی حالات کے تعارف کے درجہ میں کچھ تفصیل یہ ہے کہ اما م مالکؒ مدینہ کے عالم ،فقیہ اور محدث تھے۔حتیٰ کہ یہ کہا جاتا تھاکہ مدینہ میں امام مالکؒ کے موجودہوتے ہوئے کون فتویٰ دے سکتاہے؟ آپ کی جلالتِ علمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ امام شافعیؒ کے بھی استاد ہیں ۔امام شافعیؒ ان کو حجۃ اﷲ یعنی اﷲ کی نشانی قرار دیتے تھے۔امام مالک نے اپنے فقہی اجتہادات کا مبنیٰ حدیث صحیح اور تعامل مدینہ پر رکھا۔آپ نے پیش آمدہ مسائل میں مصالح مرسلہ کو بروئے کار لایا۔ آپ کی فقہ یحی ٰ بن مسعودالاندلسیؒ کی وجہ سے خصوصاًمغرب میں رواج پاگئی۔[13]

اندلس میں فقہ مالکی کی شہرت کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ فقہ مالکی\" بداوت\" کے زیادہ قریب تھی۔چونکہ اہل مغرب اور اندلس والوں کی پہنچ مدینہ اور مکہ تک تھی، یہیں ان کا سفر ختم ہو لیتا، لہٰذا مدینہ جس کی حیثیت  اس وقت ایک دار العلم کی تھی، سے  اخذ و استفادہ کرتے رہے۔ یوں اندلس میں فقہ حجازی ہی رواج پاگئی، بعد میں یہ مذہب الجزائر،  تیونس اور طرابلس کے باشندوں نے اختیار کیا، حتیٰ کہ پوری دنیا میں اس مذہب کے پیروں کا روں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ بتائی جاتی ہیں۔ [14]

امام مالکؒ چونکہ امام ابو حنیفہؒ کے بھی معاصر تھے،لہٰذا ان کے ساتھ ملاقات اور ان سے علمی مذاکرے ثابت ہیں۔ امام مالکؒ عالی ہمت ،صاحب جرا ت، راسخ العقیدہ اور قوی الایمان عالم تھے،کسی کی جاہ وجلال سے مرعوب ہونے والے نہ تھے۔ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ درس حدیث دیتے،آپ کی راسخ العقیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ حاکم مدینہ جعفر بن سلیمان نے اس لئے آپ کو کوڑے لگوائے کہ آپ نے جبریہ بیعت کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ۔[15]

==امام مالکؒ کے اصول استنباط مسائل:

نصوص یعنی قرآن و سنت سے استدلا ل تو تمام ائمہ مجتہدین کے ہاں اصل ہے۔ البتہ روایات حدیث میں رفع تعارض اور بعض احادیث کو بعض پر ترجیح کا عمل مختلف ائمہ کے ہاں مختلف اصولوں پر مبنی ہیں۔ اس ضمن میں امام شافعیؒ عموماً اصح اسانید کو اختیار کرتے ہیں،امام مالکؒ کے ہاں بڑا مرجح عمل مدینہ اور فقہاء سبعہ کا مسلک ہے۔ امام ابو حنیفہؒ قرآن و سنت مشہورہ سے مستنبط اصول و کلیات اور صحابہ کرام خصوصاً خلفائے راشدین کے فتویٰ و عمل سے مطابقت کو زبردست مرجح تصور کرتے ہیں،لہٰذا امام مالکؒ اہل حجاز کے امام ہیں، آپ نے اہل مدینہ کے عمل کو معیار قرار دے کر ان پر استنباط احکام کا مدار رکھا۔ مصالح مرسلہ کو بھی وہ اہم استدلال کے طور پر اطلاق کرتے تھے۔ امام مالکؒ کے شاگرد وں میں امام محمد بن حسن شیبانیؒ حنفی اور صاحب مذہب امام شافعیؒ قابل ذکر ہیں۔ [16]

فقہ شافعی:

امام محمدبن ادریس شافعی قریشی م 768ء/ 150ھ"غزہ" میں پیدا ہوئے۔ 820ء/204ھ کو مصر میں ان کی وفات ہوئی، امام شافعیؒ کی زندگی واقعۃً متحرک تھی،آپ نے متعدد اسفار اختیار کئے جس کی وجہ سے ان کے مذہبی رجحانات بدلتے گئے۔آپ نے حجاز میں امام مالک بن انس سے حجازی فقہ کا علم حاصل کیا پھر عراق پہنچ کر امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام محمدبن حسن شیبانی سے اخذ علم کیا۔ صحرا عرب ،یمن،مصر،عراق وغیرہ مقامات پر قیام پزیر ہوئے۔ عمر کے آخری مرحلہ 198ھ میں مصر تشریف لے گئے اور یہیں 820تا204ھ میں وفات پائی۔[17]

امام شافعیؒ ابتداءً امام مالکؒ سے بڑے متاثر تھے اور ان کے مقلد تھے۔ بعد میں اپنے اسفار کے تجربات کی بنیاد پر اپنے پہلے اقوال ترک کرکے مصر میں اقامت گزیں ہونے کے ساتھ ساتھ نئے مصری مذہب کی بنیاد ڈالی اور یہی مذہب ان کا شعار بنا۔ امام شافعیؒ فن لغت،فقہ اور حدیث کے متبحر عالم تھے۔ دقیق نظر اور استنباط مسائل میں مہارت رکھتے تھے۔اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ امام شافعیؒ کا علمی سرمایہ ہمیں " کتاب الام" کی شکل میں ملا ہے۔ محقق امر یہ ہے کہ یہ کتاب خود امام شافعیؒ کی تصنیف کردہ ہے۔ [18]اس بارے میں امام غزالی کا یہ نقد کہ امام شافعیؒ کے شاگرد ابو یعقوب بویطی کا تحریر کردہ ہے خود محل نظر ہے،کتاب الام سات اجزاء پر مشتمل ہے اورعلوم فقہیہ کی جامع ترین کتاب ہے،جس میں عبادات،  معاملات،مناکحات اور عقوبات وغیرہ مسائل پر سیر حاصل بحث کے ساتھ صحابہ و تابعین مجتہدین کے اختلاف کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے  کہ یہ  اصول فقہ کے موضوع پر یہ ایک اساسی کتاب ہے۔

امام شافعیؒ کے شاگرد و مقلدین:

امام شافعیؒ کے شاگردوں میں امام احمد بن حنبلؒ جو صاحب مذہب ہیں کے علاوہ امام داؤد ظاہری ،ابو ثور،بغدادی،ابو جعفر بن جریر طبری شامل ہیں،ان کے علاوہ ابو یعقوب بویطی (م 864ء/ 231ھ) اسماعیل مزنی (878ءْ/ 264ھ) اور ربیع سلیمان جیزی( م870ء/ 256ھ) آپ کے مصری شاگرد وں میں شمار ہوتے ہیں۔ شافعی مذہب کے مقلدین کی بڑی تعداد مصر میں پائی جاتی ہے۔ خود امام شافعیؒ  نے اپنے مذہب کی ترویج یہیں سے کی تھی۔ شافعیت کیوں پھیلی؟ اس بارے میں شاہ ولیؒ اﷲ کے فکر کے ترجمان عبیداﷲ سندھیؒ کا خیال ہے کہ حنفیت و شافعیت ہر دو مسالک کے تنوع و ترویج میں بالترتیب حکومتی سر پرستی اور علمی جلالت دو اہم عناصر کا عمل دخل ہے۔ سندھیؒ صاحب یہ لکھتے ہیں کہ حنفیت و شافعیت کے اختلاف پر شاہ صاحب زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے،اس لئے کہ اسلام کی بین الاقوامی سیاست میں جیسے عربوں کو عمل دخل رہا ہےایسے ہی عجم نے بھی سیاست اسلامیہ کا فرض ادا کیا ہے۔ عربوں کے علاقہ  میں فقہ شافعیؒ مناسب ہے جب کہ عجم ممالک میں فقہ حنفی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ اس کی تخلیق میں ہر متعلقہ خطہ کے عناصر شامل ہیں۔ [19]

فقہ حنبلی:

شاہ صاحب تینوں مکاتب فکر کا تذکرہ کرکے طبقہ اہل الحدیث کے سرخیل امام احمد بن حنبلؒ (م856ء/ 241ھ) اور اسحاق بن

راہویہ(م853ء/ 238ھ) کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ ائمہ حدیث امام بخاریؒ ،امام مسلم اور ابو داؤد سجستانی کو بھی اس مذہب کے پیرو بتاتے ہیں، کبھی ان حضرات کے مسلک کو فقہ الحدیث  کا مذہب لکھتے ہیں،شاہ صاحب خود امام احمدبن حنبلؒ کی علمی جلالت کو یوں بیان کرتے ہیں:

"وکان اعظمهم شاناًواوسعهم روایة واعرفهم للحدیث مرتبة واعمتهم فقها:احمدبن حنبل و اسحاق بن راهوية" [20]۔ترجمہ: وہ بڑے شان والے تھے،روایت کے لحاظ سے بڑی وسیع معلومات رکھتے تھے۔ حدیثوں کی صحت اور مرتبہ کو زیادہ جانتے تھے،اور فقاہت کے میدان میں سب سے گہرے احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ تھے۔

امام احمد بن حنبل کی ولادت (146ھ) کو بغداد میں ہوئی اور وہیں (241ھ)  ان کی وفات ہوئی۔ آپ نے طلب علم میں بڑی سیاحت کی۔ لہٰذا آپ نے شام ،حجاز،یمن،کوفہ اور بصرہ کے اسفار اختیار کئےجس کے نتیجے میں آپ حدیث کے بڑے امام قرار پائے اور چھ جلدوں پر مشتمل مسند احمد بن حنبل کے نام سے مجموعہ احادیث تیار کیاجس میں چالیس ہزار حدیثیں ہیں۔

آپ نے اپنے مذہب کی بنیاد ظاہر حدیث پر رکھی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اجتہاد باالرائے سے محترز تھے۔آپ کے اس رجحان کو دیکھ کر ابن جوزیہ نے آپ کو زمرہ مجتہدین کی بجائے زمرہ محدثین امام بخاریؒ امام مسلم اور امام ترمذی میں سے شمار کیا ہے۔ ابن ندیم بھی محدثین کی فہرست میں ان کا نام ذکر کرتے ہیں۔

حنبلی مذہب میں حدیثی اثر کا انکار تو نہیں کیا جاسکتا ہےمگر ان کا مذہب اہل سنت کے فقہی مذاہب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، امام احمد بن حنبلؒ خاص فقہی اسلوب رکھتے تھے۔ اصول و فروع میں ان کے اپنے باقاعدہ اصول تھے، وہ گو امام شافعیؒ کے باقاعدہ شا گرد تھے،تاہم آپ نے مجتہد مستقل کی حیثیت سے اپنے مذہب کی بنیاد جن اصولوں پر استوار کیا، استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہیں:

1.     آیت قرآنی و احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا۔

2.     صحابہؓ کے فتا ویٰ و اقوال پر مذہب کی بنیاد بشرط یہ کہ وہ اقوال متفق علیہ ہوں۔

3.     بعض صحابہ کے اقوال کو جو موافق قرآن و سنت ہوں،کو ترجیح دینا۔

4.     مرسل احادیث سے استدلال کرنا ورنہ ضرورت کے وقت قیاس سے مسئلہ حل کرنا۔

امام احمد بن حنبلؒ عقیدے کے بڑے پکے تھے۔ خلیفہ واثق با اﷲ نے آپ کو مجبور کرنا چاہا کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کریں تو آپ نے صاف صاف انکار کیا۔ جس کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

امام احمد بن حنبل کے شاگرد و مقلدین:

امام احمد بن حنبل کے کئی نامور شاگرد و مقلدین آپ کے مذہب کی اشاعت کا باعث بنے، جن میں خصوصاً درج ذیل اہل علم کے نام نمایاں ہیں:

1.     ابو القاسم خرقی (م 334ھ) جو مصنف" المختصر"ہیں۔

2.     موقف الدین ابن قدامہ(م620ھ) مصنف" المغنی" ہیں۔

3.     تقی الدین احمد بن تیمیہ(م 728ھ) مصنف"فتاویٰ ابن تیمیہ مجموعۃالر سائل،الکبریٰ ومنہاج السنۃ و رسالہ معارج الاصول۔

4.     ابن القیم الجوزیہ(م751ھ) مولف اعلام المو قعین عن رب العالمین.والطرق الحکمیہ فی السیاسیۃ الشرعیہ،زادالمعاد فی ھدی خیرا لعباد۔

امام احمد بن حنبل کا مذہب بہت کم پھیلا:

اس مذہب کی ابتداء بغداد سے ہوئی پھر مصر و عراق تک وسیع ہوا۔ ابن تیمیہ اور ان کے مایہ ناز شاگرد ابن قیم کے ذریعے آٹھویں صدی ہجری میں

اس کی تجدید ہوئی۔تحریکات اسلامی پر نظر رکھتے ہوئے مورخین اٹھارویں صدی  عیسوی میں شیخ محمد بن عبد الوہاب (م1206ھ) کی دینی اصلاحی تحریک کے ڈانڈے حنبلی مذہب کے ساتھ ملاتے ہیں کیونکہ سلف کا سرمایہ استدلال بھی قرآن و حدیث صحیح رہا۔ تقلید کے یہ قائل نہ تھے اور ان کا دعویٰ ہے کہ امت اسلامیہ کے ذہنوں سے نقدو نظر کے جوہرنے  اندھی تقلید ہی فنا کردی ہے۔

یہ امر بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ شاہ ولیؒ اﷲ اور شیخ عبد الوہاب نجدی دونوں ہم عصر تھے، دونوں نے اسلام کو اصولی روح پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس عہد میں جیسے اسلامیان ہند کے سامنے اسلام کی حقیقی شکل مفقود ہو چکی تھی۔ ایسے ہی اہل عرب عیش پرستوں میں گھرے ہوئے تھے اور اسلام کی روشنی سے محروم تھے، دونوں کا مقصد امت اسلامیہ کی اجتماعی اصلاح تھا، ایک مفکر نے ہند میں اصلاحی تحریک کی بنیاد ڈالی،دوسرے نے عرب خطے میں سکہ منوایا۔ امر طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا دونوں مصلحین کی ملاقات بھی ثابت ہے یا نہیں، خصوصاً جب کہ شاہ صاحب خود مکہ میں مقیم بھی رہے،ابھی تک عقدہ کسی سے نہ کھل سکا۔ غالب یہی ہے کہ دونوں کی ملاقات ثابت نہیں۔

فقہ محمد بن جریر طبریؒ:

ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری،224ھ کو  طبرستان کے علاقہ آمل میں پیدا ہوئے، علم حاصل کیا اور شہروں کی خوب سیاحت کی اور اس قدر علوم جمع کئے جس میں ان کے زمانہ والے ان کے شریک فن نہ ہو سکے۔ حافظ قرآن،  اصحاب اور تابعین کے اصول سے واقف لوگوں کا زمانہ اور ان کی تاریخ سے واقف تھے۔ آپ کی تصانیف میں مشہور تاریخ کی کتاب"تاریخ الامم والملوک المشہور بتاریخ الطبری"   ہے۔ عربی تاریخوں میں اس  سے بہتر کوئی تاریخ نہیں اور آپ کی  ایک مشہور تفسیر"جامع البیان فی تاویل القرآن" ہے جس کی مثل کوئی تفسیر نہیں ۔آپ کی ایک کتاب تہذیب وآ ثار ہے جس کو آپ  مکمل نہ کر سکے اور  ایک اختلاف فقہاء ہے۔ آپؒ  کی تصنیف میں ایک کتاب لطیف القول ہےجس میں آپؒ  کے منتخب اقوال درج ہیں۔ ایک کتاب خفیف ہے جس کو مکتفی وزیر کی فرمائش پر لکھا اس کے بعد کتاب بسیط لکھنا شروع کی جس میں کتاب الطھارۃ اور احکام نماز لکھے اور اسی میں کتاب الحکام و محاضرو سجلات مرتب کیں۔ابتداءً آپؒ نے مصر میں مذہب شافعیؒ کے مطابق ربیع بن سلیمان سے فقہ حاصل کی اور امام مالکؒ کی فقہ یونس ابن عبدالاعلیٰ اور بنی عبد الحکیمؒ سے حاصل کی اورمقام  رے میں ابو مقاتل سے اہل عراق کا فقہ سیکھایہاں تک کہ آپ کا  علم اس قدر وسیع ہوا کہ اجتہاد میں آپ نے  اپنا ایک مستقل مذہب اختیار کرلیا۔

آپ کے وہ  شاگرد جنہوں نے آپ  کے منصب کے مطابق فقہ حاصل کیا حسب ذیل ہیں۔

1.     علی بن عبد العزیز بن محمد بن دولابی ہیں جن کی متعدد تصانیف ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب داؤد بن مفلس جو داؤد کے شاگرد ہیں کے رد میں لکھی اور ایک کتاب افعال النبیﷺ ہے۔

2.     محمد بن احمد بن ابی الثلج کا تب ۔

3.     ابو ا لحسن احمد بن یحیٰ منجم متکلم ۔ ان کی تصانیف المدخل الیٰ مذہب الطبری و نصرۃ مذہبہ اور کتاب الاجماع فی الفقہ علی مذہب الطبری اور کتاب الرد علی المخا لفین ہیں۔

4.     ابو الحسن دقیق حلوانی ۔

5.     ابو الفرج معانی بن زکریا نہروانیہ ۔ جو ابو جعفر کے مذہب اور ان کی کتابوں کے حفظ کرنے میں یگانہ روزگار اور ان علوم کے علاوہ بہت سے علوم میں ماہر و یکتا تھے  اور انتہاء ذکی اور بہتر ین حافظ اور حاضرجوابی میں مشہور تھے۔فقہ میں بہت سی کتابیں طبری کے مذہب پر رکھی ہیں۔ یہ مذہب پانچویں صدی کے نصف تک مشہور اور معمول بہ رہا۔یہ وہ مشہور مذہب ہیں جن پر ایک زمانہ تک عمل ہوایا رہا پھر اس کے بعد ان کے جاننے والے ختم ہو گئے، اور صرف کتابوں میں ان کا نام باقی رہ گیا۔

ان کے علا وہ اور بھی بہت ائمہ ہیں کہ وہ خود اجتہاد کرتے تھے لیکن ان کے مذاہب کے پھیلانے والے ان کو میسر نہ ہوئے جیسے لیث بن سعد امام اہل مصر اور مالکؒ کے دوست جن کے بارے میں امام شافعیؒ کا قول ہے کہ وہ اما م مالکؒ سے زیادہ فقیہ ہیں لیکن ان کے شاگرد وں نے ان کو بلند نہیں کیا۔ [21]

خلاصۃ البحث:

شاہ ولی اللہ دہلویؒ اختلافات ائمہ کو مخصوص نظر سے دیکھتے ہیں، یہ اختلافات ظاہر ہیں اصولی حوالے سے نہیں بلکہ فروعی اختلاف تنوع کی بہترین شکل ہے۔ دور حاضر کی زبان میں یہ اعلیٰ درجے کی تنقید ہے، ان اختلافات کو خلاف کی شکل میں پیش کرنا بڑی غلطی ہوگی ، ان اختلافات سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ اختلاف رائے ہی سے ایک مثبت نتیجہ  برآمد ہوتا ہے۔اگر ایسے اختلافات پر قدغن لگا دیا جائے تو تخلیقی سوچ منجمد ہوکر رہ جائے گی۔

حواشی وحوالہ جات

1.     علامہ ابن قیم، اعلام الموقعین عن رب العٰلمین، مطبوعہ دارولفکر بیروت لبنان، الطبعۃ الثانیہ۱۳۹۷ھ، ۱/۳۴۔

2.      الرملی، خیر الدین، منحۃ الخالق علی البحر الرائق، مطبوعہ دارالکتب العربیہ الکبریٰ مصر، سن، ۱/۳۲۔

3.      بحوالہ دہلوی، شا ہ ولی اللہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، مطبوعہ ہیت الاوقاف حکومت پنجاب، لاہور ۱۹۷۱م، ص۴۔

4.      صبحی الصالح: فلسفہ التشریع الاسلامی ، مکتبہ دارالکبریٰ بمصر ، ص ۲۵۔

5.      حوالہ بالا

6.      ابو زہرہ محمد، اصول الفقہ و  ادلتہ، دارالفکر العربی بمصر ، مطبوعہ۱۴۰۰ھ، ۱/۱۱۔

7.      بحوالہ دہلوی، شا ہ ولی اللہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، مطبوعہ ہیت الاوقاف حکومت پنجاب، لاہور ۱۹۷۱م، ص۴۔

8.      حوالہ بالا

9.      علامہ السیوطی، تسہیل الدرایۃ الموطاء، مقدمہ دارالفکر العربی بمصر ، مطبوعہ۱۴۰۰ھ، جلد۱، ص ۱۱ مقدمہ۔

10.    حوالہ بالا۔

11.      بحوالہ دہلوی، شا ہ ولی اللہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، مطبوعہ ہیت الاوقاف حکومت پنجاب، لاہور ۱۹۷۱م، ص۴۔

12.     علامہ السیوطی، تسہیل الدرایۃ الموطاء: ۱/ ۱۱ ۔

13.      حوالہ بالا۔

14۔ صبحی الصالح: فلسفہ التشریع الاسلامی : ص ۲۵۔

15۔ دہلوی ، شاہ ولی اللہ"مسویٰ" شرح الموطاء العربی،  قدیمی کُتب خانہ آرام باغ  کراچی، مقدمہ۔

16۔ حوالہبالا۔

17۔ صبحی الصالح: فلسفہ التشریع الاسلامی ، مکتبہ دارالکبریٰ بمصر ، ص ۲۵۔

18۔ دہلوی شاہ ولی اللہ"مسویٰ" شرح الموطاء العربی، قدیمی کُتب خانہ آرام باغ  کراچی، مقدمہ۔

19۔  سندھی عبید اللہ، شاہ ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف، الفرقان نمبر،۱۴۰۰ ھ  ص ۵۰۔

20۔ دہلوی شاہ ولی اللہ"مسویٰ" شرح الموطاء العربی، قدیمی کُتب خانہ آرام باغ  کراچی، مقدمہ۔

21۔ سندھی عبید اللہ، شاہ ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف، الفرقان نمبر،۱۴۰۰ ھ ص ۵۰۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...