Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 6 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

صرف میں غیروں کی پیروی کے نقصانات اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تعلیمات کی روشنی میں تدارک کے جہات |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029336_901

Pages

80-90

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/164/154

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/164

Subjects

Halal Haram Consumption Demerits Qurʻan Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

اسلامی جذبہ سے معمورصارف کے طرزعمل کے تعین کرنے میں حلال وحرام کے تصورات کو بڑی اہمیت حاصل ہے،مروجہ مادہ پرستانہ معیشت کے دائرہ میں صارف کا مطمع نظراپنی مادی احتیاجات کو پوراکرکے زیادہ سے زیادہ افادہ (Utility)یا تسکین حاصل کرنا ہوتا ہے ۔احتیاجات کی نوعیت اورانہیں پوراکرنے والے ذرائع کے جائزاورناجائزہونے سے اسے کوئی بحث نہیں ہوتی ۔کسی صارف کو شراب کے ایک گلاس سے دودھ کی نسبت اگر زیادہ تسکین حاصل ہوتی ہے تو شراب کا استعمال ایک عمل معقول (Rational Act)تصورکیا جائےگا ،گویا صارف کا مقصوداپنے وسائل سے زیادہ سے زیادہ مادی تسکین حاصل کرناہے ۔یہی اس کی فلاح کا پیمانہ اورمعیارہے ۔اسلام کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے ۔اسلام کے نزدیک صارف کا نصب العین زیادہ سے زیادہ حقیقی فلاح (Real Welfare)کا حصول ہے ۔جو دنیاوی اوراخروی فلاح کا مجموعہ ہوتا ہے ۔اس نصب العین تک رسائی حلال وحرام کی حدودکو ملحوظ رکھ کر ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔حرام اورممنوعہ احتیاجات اوروسائل خواہ کتنے ہی پرکشش اورلطف لذت کا باعث بننے والے ہوں وہ زیادہ سے زیادہ فلاح کا نصب العین سے صارف کو ہمکنارنہیں کرسکتے ۔زیادہ سے زیادہ تسکین نفسی کے ساتھ اگر اللہ کی ناراضی ملی ہوئی ہو توصارف کی حقیقی فلاح کاپلڑاہلکا ہوگیا ۔زیادہ سے زیادہ حقیقی فلاح کے حصول کی صرف اورصرف ایک شکل ہے کہ صرف اشیاء رضائے الہی کے تابع ہو اورحرام سے بچ کرحلال دائرہ کے اندر ہو۔ اسلامی نقطہ نظر سے صارف کا یہ رویہ عمل معقول (Rational Act)کہلانے کا مستحق ہے ۔حرام وحلال کی حدودمیں رہتے ہوئے صارف اپنے وسائل کے استعمال کے مختلف اشتراک (Combination) بنا سکتا ہے اورتوازن کا ایسا نقطہ حاصل کرسکتا ہے جو اسے زیادہ سے زیادہ حقیقی فلاح سے ہمکنا رکرنے والا ہو۔اس آرٹیکل میں اسی تناظر میں بحث کی جائےگی کہ صرف میں ہم کونسا طریقہ اختیار کریں جس سے زیادہ سے زیادہ حقیقی فلاح (Real Welfare)کا حصول ممکن ہوسکے ۔

صرف ،خرچ میں تقلید اورپیروی

صرف اورخرچ میں دوسروں کی پیروی تین طرح کی ہے:* خرچ اورصرف میں پیروی مسلمانوں کی معاشرتی اعتبار سے

  • خرچ اورصرف میں پیروی کافروں کی معاشرتی اعتبارسے
  • تنعمات اورتعیشات(Luxuries) والوں کی پیروی

1۔خرچ اورصرف میں مسلمانوں کی معاشرتی پیروی

اسلامی معاشرے میں بعض افراد کے صرف کے طریقے بہت برے پائے جاتےتھے اورپھر یہ برے طریقے دوسرے مسلمانوں میں بطورپیروی سرایت کرتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اس کا بہت خدشہ رہتا تھا کہ مسلمان صرف میں برے طریقے سےمتاثر نہ ہوجائیں اسی لئے مسلمانوں کوصرف کے برے طریقوں سے بچانے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے کئی طرح کے وسائل استعمال کئے تھے اسی تناظر میں آپ مسلمانوں کو منع کرتے تھے کہ ایسے لوگوں پر نہ گزروجو دسترخوان کے پجاری ہوں۔ آپ فرماتے : قال عمر: «يا معشر الناس لا تمروا على أصحاب الموائد، إن اشتهيتم اللحم مرة بلحم، مرة بسمن، مرة بزيت، مرة بملح[1]»اے لوگوں !تم دسترخوان والوں پر نہ گزروتم اپنا اشتہاء کبھی گوشت ،کبھی گھی ،کبھی زیتون اورکبھی نمک سے پوری کرو۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامقصداپنے آپ کو ان لوگوں سے بچاناتھا تاکہ ان کے دسترخوان پر کئی قسم کے لگے ہوئے کھانوں سے متاثرنہ ہوسکیں اور وہ انہی کی طرح خرچ کرنے پر مجبور نہ کریں ۔

جیسے روایت میں آتا ہے،قال الهرمزان لعمر رضي الله عنه: ايذن لي أصنع طعاما للمسلمين؟ قال: إني أخاف أن تعجز، قال: لا، قال: فدونك، قال: فصنع لهم ألوانا من حلو وحامض، ثم جاء إلى عمر رضي الله عنه فقال: قد فرغت فأقبل، فقام عمر رضي الله عنه وسط المسجد فقال: «يا معشر المسلمين، أنا رسول الهرمزان إليكم» فاتبعه المسلمون، فلما انتهى إلى بابه قال للمسلمين: مكانكم، ثم دخل فقال: أرني ما صنعته، ثم دعا، أحسبه قال، بأنطاع، فقال: ألق هذا كله عليها، واخلطوا بعضه ببعض، فقال الهرمزان: إنك تفسده، هذا حلو وهذا حامض، فقال عمر رضي الله عنه: «أردت أن تفسد على المسلمين، ثم أذن للمسلمين فدخلوا فأكلوا» [2]۔ "ہرمزان نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی کہ مسلمانوں کے لئے کھانابناؤں (کھانے کی دعوت دوں )آپ نے فرمایا :مجھے خدشہ ہے کہ تم اس سے عاجزہوجاؤگے،ہرمزان نے کہا :نہیں، آپ نے کہا :پھر تمہیں اجازت ہے ،کہتے ہیں کہ ہرمزان نے کئی قسم کے میٹھے اورنمکین کھانے بنائے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہا :میں نے تیار کیا اورآگے آیا ، حضرت عمررضی اللہ عنہ مسجد کے وسط میں کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے :اے مسلمانوں کی جماعت !میں ہرمزان کی طرف سے قاصد ہوں ،مسلمان آپ کے پیچھے روانہ ہوئے ،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرمزان کے گھر کے دروازے پرپہنچے تو مسلمانوں سے کہا :اپنی جگہ پر ٹھہرو،پھر آپ خود(اکیلے ) داخل ہوئے اورہرمزان سے کہا : مجھے دکھاؤآپ نے کیا تیار کیا ہے ؟راوی کے گمان کے مطابق دسترخوان منگوایا اورکہا :اس پر تمام کھانے ڈال دواورتما م کھانوں کو ایک دوسرےمیں خلط ملط (گڈمڈ) کردو،ہرمزان نےکہا :اسی طرح کھانے خراب ہوجائیں گے یہ علیحدہ میٹھا ہے اوریہ علیحدہ نمکین ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں مسلمانوں کوخراب کردوں ۔پھر مسلمانوں کو اجازت دی ، وہ اندر آئے اورکھاناکھانے لگے"۔

2۔خرچ اورصرف کے طریقہ کار میں کافروں کی معاشرتی پیروی سے اجتناب

یہ تقلید اورپیروی ماقبل پیروی اورتقلید سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ماقبل طریقہ کا رکی وجہ سے صرف اورخرچ میں اسراف اورتوسع ہوسکتاتھا اوراس میں فقراء کو اغنیاء کی پیروی کرنےسےاجتناب وغیرہ مقصد تھا ،جبکہ خرچ میں کافروں کی معاشرتی پیروی کرنےکی وجہ سے صرف اقتصادی نقصان نہیں بلکہ امت کے عقیدے ،اخلاقیات اوراستحکام کے لئے نقصان ہوتا ہے ، اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کااس بارے میں موقف بہت سخت تھا ۔ذیل میں اس کی مثالیں ذکرکی جاتی ہیں۔

1۔سوید بن غفلۃ فرماتے ہیں ہم یرموک میں شریک ہوئے، عن سويد بن غفلة، قال: شهدنا اليرموك فاستقبلنا عمر وعلينا الديباج والحرير، فأمر فرمينا بالحجارة قال: فقلنا ما بلغه عنا؟ فنزعناه وقلنا كره زينا، فلما استقبلنا رحب بنا ثم قال: «إنكم جئتموني في زي أهل الشرك[3] "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارا استقبال کیا اورہمارے اوپر ریشم کے کپڑے تھے ،اس نے حکم دیاتوہم نے پتھر پرماردئے ،ہم نے کہا:ہمارے بارے کس نے بتایا؟کہتے ہیں :پھر ہم نے اتاردئے ،ہم نے کہا :ہمیں اس سے مزین ہونا پسند نہیں ،پھر جب ہمارااستقبال کیا تو ہمیں مرحبا کہا ،پھر کہا:تم میرے پاس مشرکین کے لباس میں آئے تھے"۔

دوسری روایت میں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تم لباس میں مشرکین کے ساتھ مشابہت نہ کروکیونکہ یہ ان کے لئے دنیا میں ہے اورتمہارے لئے آخرت میں "۔

2۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب مجاہدین بھیجواتے تھے تو انہیں سختی کے ساتھ ہدایت فرماتے کہ خرچ اورصرف میں کافروں کی پیروی سے اپنے آپ کوبچاکے رکھنا ۔آپ فرماتے : وإياكم والتنعم، وزي أهل الشرك، ولبوس الحرير، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لبوس الحرير»[4] "تم اپنے آپ کو نازونعمت سے بچاؤ،مشرکین کے لباس اورریشم کے استعمال سے

بچاؤ"۔

دوسری روایت میں ہے:"تم عجمیوں کے اخلاق سے اپنے آپ کو بچاؤاورجبار /متکبر لوگوں کی ہم نشینی اورصلیب اٹھانے سے بچاؤاورا س دسترخوان سے بچاؤجس پر شراب پیئے جاتے ہوں ۔مزید کہا : وذروا التنعم وزي العجم، وإياكم وهدي العجم، فإن شر الهدي هدي العجم[5] "نازونعمتیں چھوڑو،عجمیوں کی لباس اورعجمیوں کے پیروی سے کیونکہ بدترین پیروی عجمیوں کی ہے"۔

3۔روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام کی طرف نکلے تو بصریٰ کے قسطنطین نے عرض کیا کہ آپ اورآپ کے اصحاب کے مہمان نوازی کرنا چاہتا ہوں ، ثم بدا لعمر رضي الله عنه فقال: لا يتبعني أحد، ثم مضى هو والنبطي، فلما دخل الكنيسة إذا هو بالستور والبسط وقباب الخبيص والمجمر، فقال للنبطي: ويلك لو نظر من خلفي إلى ما هاهنا أفسدت علي قلوبهم، اهتك ما أرى، قال: يا أمير المؤمنين، إني أحب أن تنظروا إلى نعمة الله علي، فقال له: «إن أردت أن نأكل طعامك فاصنع ما آمرك» ، فهتك الستور ونزع البسط، وأخرج عنه المجمر، ثم قال له: «اخرج إلى رحالنا فأتني بأنطاع» ، فأخذها عمر رضي الله عنه فبسطها في الكنيسة، ثم عمد عمر رضي الله عنه إلى ذلك الخبيص وما كان هنا فعكس بعضه على بعض، فجعل يحمل بيديه ويجعله على الأنطاع، ثم قال: «ادع الناس» ، فجاءوا فجثوا على ركبهم وأقبلوا يأكلون، فربما وقعت القطعة من الخبيص في فم الرجل فيقول: إن هذا طعام ما رأيناه، فقال عمر رضي الله عنه: «ويحك أما تسمع؟ كيف لو رأوا ما رأيت؟[6]» "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےاتفاق کیا جب نبطی نے مکان اورکھانا تیارکیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےمسلمانوں کو پہلے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی پہلے خود داخل ہوئے ،جب آپ نے پردے،شمعیں اورمختلف قسم کے کھانے دیکھے ،تو نبطی سے کہا:افسوس ہوتیرے لئے !میرے پیچھےلوگوں نےاگر یہ دیکھا تو ان کے دل خراب کروگے ،پھر اسے پردے پھاڑنے ،قالین ٹٹولنے اورشمعیں نکالنے کا کہا،پھر چمڑے کے دسترخوان منگواکر مختلف قسم کے کھانوں کو گڈمڈ(خلط ملط)کردئے ،پھر کہا :لوگوں کوبلاؤ۔وہ اند ر آئے اورزانو پر بیٹھ کر کھاناکھاناشروع کردیا کبھی کبھار کسی آدمی کی منہ میں حلوے کاٹکڑواقع ہوجاتا،تو کہتے :ایسا کھاناہم نے نہیں دیکھا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے:خداتمہارابھلاکردے !کیاتم سناتےہو ؟(کیاکہتےہو )اگر وہ چیزیں دیکھتے جو میں نے دیکھا ؟"۔

یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے بڑوں میں سے کسی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تھا ،اورفرمایا:ہم تمہارے کنیسوں میں ان تصویروں یعنی مورتیوں کی وجہ سے داخل نہیں ہوتے ۔

4۔ فلما اقتربوا من المدينة هيئوا الهرمزان بلبسه الذي كان يلبسه من الديباج والذهب المكلل بالياقوت واللآلئ. ثم دخلوا المدينة وهو كذلك فتيمموا به منزل أمير المؤمنين، فسألوا عنه..... وكثر الناس فاستيقظ عمر بالجلبة فاستوى جالسا، ثم نظر إلى الهرمزان، فقال:الهرمزان؟ قالوا: نعم. فتأمله وتأمل ما عليه ثم قال: أعوذ بالله من النار وأستعين بالله. ثم قال: الحمد الله الذي أذل بالإسلام هذا وأشياعه، يا معشر المسلمين تمسكوا بهذا الدين، واهتدوا بهدي نبيكم، ولا تبطرنكم الدنيا فإنها غدارة. فقال له الوفد: هذا ملك الأهواز فكلمه. فقال: لا حتى لا يبقى عليه من حليته شيء. ففعلوا ذلك وألبسوه ثوبا صفيقا[7]

"جب ہرمزان کو مدینہ کےقریب لےآیا تو انہوں نے مدینہ میں داخل ہونے کے لئے خوب تیار کیا اسے ریشم کے ایسےکپڑے پہنائے جس میں یاقوت اورموتی لگے ہوئے تھے جب ہرمزان مدینہ میں داخل ہواتو لوگ اس پر جمع ہوئے اوراس کی طرف دیکھ کر تعجب کرتے ،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو فرمایا:میں آگ سے اللہ کے ذریعے پناہ مانگتا ہوں اوراللہ کی مدد چاہتاہوں ، پھرفرمایا:حمد ہے اللہ کے لئے جس نے اس کو اوراس جیسے دوسروں کو ذلیل کیا ،اے مسلمانوں کی جماعت !اس دین کے ساتھ چمٹے رہواورنبی کے راستے پرچلواورتمہیں دنیا دھوکہ میں نہ ڈالےکیونکہ یہ بے وفاء ہے ،وفد نے کہا :یہ اہواز کا بادشاہ اس سے بات کیجئے!آپ نے فرمایا :نہیں ،(اس وقت تک بات نہیں کروں گا)جب تک اس سے یہ چیزیں دورنہ کی جائے ،انہوں نے اس طرح کیا اوراسے موٹے کپڑے پہنادئے "۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ہرمزا ن کودیکھا جس پر سوناچاندی وغیرہ تھا لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے اورتعجب کے نظر سے دیکھ رہے تھے ،آپ نے چاہاکہ میں انہیں یاد دلاؤں کہ جو تم دیکھ رہے ہو یہ دنیا کی معمولی متاع ہے دائمی نعمتیں ،دنیااورآخرت کی کامیابی دین اور حضرت محمد ﷺکے طریقوں پر چلنے میں ہے اوریہ جو تم دیکھ رہے ہو یہ تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے ،گویا مسلمانوں کو اس ایت مبارکہ کی طرف متوجہ کرنا ہے(باری تعالیٰ کا ارشادہے (وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِه۪ٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاﺃ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی)[8]

یہاں پہ دنیا اوراہل دنیا کو نظرتعجب سے دیکھنے سے منع آیا ہے یا ان کے جو احوال ہیں اوردنیا کے مختلف کھانوں ،زرق برق کپڑوں، مزین گھروں اورمختلف قسم کے سواریوں میں مگن اورمدہوش ہیں ان کو بھی تعجب کی نظر سے نہ دیکھاجائے ۔ لہذا جب ان کی طرف تعجب نظر سے دیکھنا منع ہے تو اس کے ساتھ دل لگانا،ان کے نقش قدم ،طریقہ کار یا ان کی معیشت واقتصاداختیار کرنے سے بطریق اولیٰ ممانعت ہوگی ۔

ماقبل آثار سے معلو م ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کفار کے طریقے پر خرچ کرنے کے برے اثرات معلوم تھے نیز یہ برے اثرات صرف اقتصادی جانب پر نہیں بلکہ اخلاقی ،معاشرتی اوراجتماعی احوال پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔

3۔آرائش وتعیشات (Luxuries)پرمداومت اختیار کرنے سے ممانعت

نفوس کو عیش وعشرت اورتن آسانی بنانے کے نقصانات کااندازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تھا اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو خوش عیشی ،تن آسانی ترک کرنے اورنفوس کو مشکلات کے جھیلنے کے عادی بنانے کی دعوت دیتے تھے تاکہ انہیں استغناء حاصل ہو اورزمانے کےمشکلات جھیل سکے۔آپ فرماتے :سادہ اورسختی کے عادی بنو کیونکہ نعتیں ہمیشہ نہیں ہوتیں۔ آپ عیش وعشرت اورتن آسانی پرمداومت اختیار کرنے سے منع کرتے،خود بھی جفاکشی اختیار کرتے اور اپنے عمال کوبھی یہی طرزاختیارکرنے کی ہدایت دیتے : وكان عمر رضي الله عنه مخشوشنا في أكله ولباسه وكذلك في كتابه إلى أهل البصرة إياكم والتنعم وزي العجم واخشوشنوا [9]"اپنے آپ کو عیش وعشرت کی زندگی اورعجمیوں کے لباس سے بچاؤاورسادہ زندگی گزارو"۔

آپ امت کو گوشت کھانے پر ہمیشگی اختیار کرنے سے منع کرتےاور لوگوں کوواضح الفاظ سے فرماتے جیسے روایت میں ہے : أن عمر بن الخطاب قال: إياكم واللحم. فإن له ضراوة كضراوة الخمر[10]."گوشت سے بچو کیونکہ اس کا چسکہ شراب کی طرح ہوتا ہے "۔

میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انصارکے ایک آدمی کاحضرت عمر رضی اللہ عنہ پرگزرہوا، گوشت بھی لے کے جارہاتھا ، عن ميمون بن مهران أن رجلا من الأنصار مر بعمر بن الخطاب وقد تعلق لحما، فقال له عمر: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي يا أمير المؤمنين، قال: حسن، ثم مر به من الغد ومعه لحم فقال: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي قال: حسن، ثم مر به اليوم الثالث ومعه لحم، فقال: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي يا أمير المؤمنين، فعلا رأسه بالدرة، ثم صعد المنبر فقال: إياكم والأحمرين اللحم والنبيذ فإنهما مفسدة للدين متلفة للمال[11] "حضرت عمر نے فرمایا :یہ کیا ہے ؟اس نے کہا : اے امیرالمؤمنین یہ میرے گھر کے لئے گوشت ہے ،آپ نے فرمایا:اچھا /ٹھیک ہے ۔دوسرے دن آپ پر گوشت کے ساتھ گزرا،آپ نے فرمایا:یہ کیا ہے ؟اس نے کہا : اے امیرالمؤمنین یہ میرے گھر کے لئے گوشت ہے ،آپ نے فرمایا:ٹھیک ہے ۔پھر تیسرے دن آپ پر گوشت کے ساتھ گزرا،آپ نے فرمایا:یہ کیا ہے ؟اس نے کہا : اے امیرالمؤمنین یہ میرے گھر کا گوشت ہے۔ آپ نے اس کا سردرۃسے مارا،پھر منبر پر آئے اورفرمایا:تم دوسرخ چیزوں سے بچو ؛گوشت اورنبیذسے ،کیونکہ یہ دین کو خراب کرتےہیں اورمال کو ہلاک کرتے ہیں "۔

گوشت کا سالن تمام سالنوں میں زیادہ لذیذ اورمزیدار ہوتا ہے ،اور جب اس کے کھانے پر مداومت اختیار کیا جائے تو انسان اس کا عادی بن جاتا ہے اورشراب کی طرح چسکہ رکھنے کی وجہ سے عادت بن جاتی ہے ،اس لئے عمر رضی اللہ عنہ نے گوشت کے کھانے پر مداومت اختیار کرنےسے منع فرمایا ،نیز آپ کو یہ خدشہ بھی تھا کہ انسان پھر شہوات اورلذتوں کا عادی بن جائےگا اورآخرت بھول جائےگا۔

اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے حلال اورمباح کردہ شے کو ممنوع قراردیا تھا ہرگز ایسا نہیں ۔عیش وعشرت اورخوش عیشی کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

"تم اپنے آپ کو حمام میں کثرت کے ساتھ نہانے سے بچاؤ،کثرت کے ساتھ نورہ (بال صفا)کو استعمال کرنے سے بچاؤ اورنرم بستروں کو استعمال کرنے سے بچاؤکیونکہ اللہ کے بندے خوش عیش نہیں ہوتے "۔آپ خرچ کے تمام میدانوں میں خواہ کھانا ہو، پینے کی چیزیں ہو یا لباس وغیرہ ہو ہر چیز میں خوش عیشی سے بچنے کی دعوت دیتے تھے ۔

آپ نے فرمایا :امابعد !تم ازارباندھو اوررداء استعمال کرو اورخفاف اورسراویل چھوڑواورتم اپنے باپ اسماعیل کے لباس کولازم کرو (إياكم والتنعم وزي العجم وعليكم بالشمس فإنها حمام العرب، وتمعددوا، واخشوشنوا، واخشوشبوا، واخلولقوا، وأعطوا الركب أسنتها، وانزوا نزوا، وارموا الأغراض[12] "اورتم اپنے آپ کو عیش وعشرت والی زندگی اورعجمیوں کے لبا س سے بچواورسورج سے تپش لو کیونکہ یہ عرب کا حمام ہے،سخت موٹے کپڑے اورسادہ زندگی اختیار کرو"۔

اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود عرب کا طریقہ اختیار کرنے کی طرف دعوت دیناتھا جو سادگی والی زندگی سے عبارت تھی ۔

قال عمر لبنيه: «لا تديموا أكل اللحم، ولا تلمظوا بالماء العذب، ولا تديموا لبس القميص»[13] "آپ اپنے بیٹوں سے فرماتے :ہمیشہ گوشت مت کھاؤاورمیٹھے پانی کے ساتھ اپنے آپ کو لازم نہ کرواورنہ ہمیشہ قمیص پہنو "۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک بار یزید بن ابی سفیان کا پیٹ بغیر کپڑے دیکھا رأى عمر بن الخطاب يزيد بن أبي سفيان كاشفا عن بطنه، فرأى جلدة نقية، فرفع عليه الدرة، وقال: «أجلدة كافر؟» ، فقيل له: إن أرض الشام أرض طيبة العيش، فسكت[14]

" آپ نے اس کاچمڑاصاف نرم دیکھ کر اس پر درہ اٹھایا اورکہا؛کیا یہ کافرکا چمڑا ہے ؟کسی نے آپ سے کہا:کہ شام کی زمین گزر بسر کے لحاظ سے اچھی ہے ،سوآپ خاموش ہوئے"۔

خرچ ،صرف برائے ریا،شہرت اورتفاخر

کسی چیز کے خریدنےسے مقصد صرف دکھانے کےلئے یا تفاخر کرنے کے لئے ہو، صارف کو اس چیز کے خریدنے سےبالذات کوئی اورمنفعت حاصل کرنا مقصودنہ ہو بلکہ دوسروں کی نظریں اپنی طرف متوجہ کرنا ہو ۔اسلام میں ہر ایسا خرچ /صَرف منع ہے جس سے تفاخر اورریاء مقصود ہو یا ایسا نفقہ جس کی بنیاد شہرت ،عظمت اوردوسروں پر اپنے آپ کو بڑاظاہر کرنے کے لئے کیا جائے ، شریعت مطہرہ نے اس پر بہت زجر وتوبیخ دی ہے ۔

آپ ﷺکا ارشاد ہے(أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "كلوا، واشربوا، وتصدقوا، والبسوا، غير مخيلة، ولا سرف[15]") "کھاؤ،پیو،صدقہ کرواورپہنو بغیر تکبر اوراسراف کے"۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتصادی بصیرت میں اس کے متعلق بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔

1۔حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو کھانے کی دعوت دی گئی، دونوں نے دعوت قبول کی جب دونوں نکلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ سے کہا : أن عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان "دعيا إلى طعام فأجابا فلما خرجا قال عمر لعثمان: لقد شهدت طعاما لوددت أني لم أشهده قال: وما ذاك؟ قال: خشيت أن يكون مباهاة" [16]میں کھانےمیں شریک ہوالیکن کا ش میں شریک نہ ہوتا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیوں ؟ آپنے فرمایا؛خدشہ ہے کہ یہ سبب فخر ومباہات نہ بن جائے"۔

2۔روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام آئے تو آپ کے لئے ایک نہایت عمدہ گھوڑامہیاکیا گیا ، لما أتى عمر الشام أتي ببرذون فركبه، فلما سار جعل يتخلج به، فنزل عنه، وضرب وجهه، وقال: لا علم الله من علمك! هذا من الخيلاء، ولم يركب برذونا قبله ولا بعده[17] "آپ اس پر سوار ہوئے جب وہ روانہ ہواتووہ آپ کو زورزورسے ہلانے لگا، اس پرآپ نیچے اترے اوراس کے منہ پرمارتے ہوئے فرمایا: اللہ تجھے کچھ سکھائے کسی نے تجھے یہ تعلیم دی ہے کہ تم اکڑ کر چلو،آپ اس سے پہلے اوربعد میں کبھی پھر کسی عمدہ گھوڑے پر سوار نہیں ہوئے" ۔

دوسری روایت میں ہے قال: فأتي ببرذون فركبه، فجعل البرذون يحركه، فجعل عمر رضي الله عنه يضربه ويضرب وجهه فلا يزيده إلا مشيا فقال سائس الدابة: ما ينقم أمير المؤمنين منه؟ ثم نزل فقال: ما حملتموني إلا على شيطان، وما نزلت عنه حتى أنكرت نفسي[18]"حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب عمدہ گھوڑے پر سوارہوئے تو اس نے اکڑکے چلنا شروع کیا آپ جتنا زیادہ اس کو مارتے اتنا ہی وہ زیادہ اکڑ کے چلتا پھر اس سے اتر گئے اورفرمایا:تم نے مجھ شیطان پر سوارکیا تھا میں اس سے اس وقت اتر ا جب دل میں براسمجھا ،میرے پاس میری سواری لے آؤ،پھر اس پر سوار ہوئے"۔

آپ عمال کو بھی عمدہ گھوڑے پر سوارہونے سے منع کرتے تھے کیونکہ اس پر سوار ہونے سے تکبر اوردل میں فخر پیدا ہوتا ہے لہذا اس جیسے سواریوں پر سوار ہونے سے دل میں ایک برا اثر پید اہوتا ہے جس کی طرف خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا(وما نزلت عنه حتى أنكرت نفسي)۔

اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو لباس کے بارے میں تنبیہ دی ہے کیونکہ عورتیں کپڑوں کی زیادہ اورقیمتی ہونے پرایک دوسرے پر فخر کرتی ہیں اورقسما قسم مہنگی قیمتی کپڑوں کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھ کر خاوند سےمطالبہ کرتی ہیں جو خاوندوں کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا: (قال عمر بن الخطّاب رضي الله عنه: "استعينوا على النساء بالعري، فإن إحداهن إذا كثرت ثيابها وحسنت زينتُها أعجبها الخروج"[19])

خلاصہ بحث :

دوسرے معاشی نظام صرف وسرمایہ کاری کو خالصۃ مادی علم کے تناظر میں دیکھتا ہے جس کا مقصد بغیر کسی دینی اوراخلاقی پابندی کے انسان کی احتیاجات کی تکمیل کا طریقہ بتا تا ہے یا دولت کمانے اورخرچ کرنے کی راہیں سمجھا تا ہے یا محدودذرائع سے لا محدود خواہشات پوری کرنے کا طریقہ تعلیم کرتاہے اس میں کہیں اللہ کریم کو رزاق اوروسائل رزق مہیا کرنے والے کا ذکر نہیں ہوگا،کہیں محتاجوں کی مدد ،اللہ کریم کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب بیان نہ ہوگا ۔ جب کہ اسلام صرف اورخرچ کی ان تمام صورتوں کو جائز قرار دیتا ہے جن کے نتیجہ میں انسان ایک اوسط درجہ کی شستہ اورپاکیزہ زندگی گزارسکے ،خرچ کرنے کے وہ تمام طریقے جو اخلاق اورمعاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہوں ممنوع ہیں ،مثلا جواحرام ہے ،شراب پینےپر پابندی ہے ،زنا اسلام کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے ،گانابجانا ،ناچ رنگ اورعیش و عشرت کے دوسرے ذرائع پر پیسہ ضائع کرنا بہت بڑی اخلاقی خرابی ہے ۔ ریشمی لباس ،سونے چاندی کے زیورات کا مردوں کے لئے پہننا،سونے چاندی کے برتن میں کھاناپینا ناپسندیدہ ہے ۔غرض انسان کے لئے بلند ترین اخلاق کا معیار یہ ہے کہ انسان جو کچھ کمائے اسے اپنی جائزاورمعقول ضروریات پر خرچ کرے اورجو بچ جائے اس میں اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرے یا اپنے پیسے کو کسی جائز کاروبار میں لگا دے ،گویا یا تو کمائی ہوئی دولت صرف ہورہی ہو یعنی (Consumption)یا کسی جائز کاروبار میں لگائی جارہی ہو (Investment)اسی طرح اپنی کمائی ہوئی دولت میں دوسروں کو شریک کیا جائے (یعنی انفاق فی سبیل اللہ ،صدقہ وخیرات وغیرہ )۔سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ کمائی ہوئی دولت کا ایک حصہ بچتوں کی صورت میں رکھا جائے یعنی (Saving)لیکن اس صورت میں ایک سال کی مدت گزرنے پر زکوۃ کی ادائیگی کو فرض قراردے دیا گیا ہے جو کہ معاشرے کی اجتماعی خزانے (یعنی بیت المال )میں جمع ہو اوریہ خزانہ ان تما م لوگوں کی ضروریات کا کفیل بن جائے جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں (یعنی فقراء )یا اپنی پوری کوشش اورجدوجہد کے باوجود اپنا پوراحصہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں یا اپنی ضروریات پوری نہیں کرپاتے یعنی مساکین اورایک انسان اپنی پوری زندگی میں جائز ذرائع سے دولت کماتا ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک بناتا ہے جو کچھ بچاتا ہے اس میں سے زکوۃ کی ادائیگی کا بندوبست کرتا ہے مرنے کے وقت اگر اس کے پاس دولت اوراملاک موجود ہوتی ہے تو قانون وراثت کے ذریعے ان کی تقسیم کا اہتمام ہوجاتا ہے ۔

حوالہ جات

  1. ۔ ابن أبى الدنىا،إصلاح المال، ج1،ص105،حدیث نمبر358،محقق محمد عبد القادر عطا،ناشر مؤسسۃ الكتب الثقافىۃ بىروت لبنان،طبعۃ الأولى، 1414ھ۔
  2. ۔عمر بن شبۃ (اسمه زىد) بن عبىد ۃ بن رىطۃ، تارىخ المدىنۃ لابن شبۃ،ج3،ص857، عام النشر 1399ھ۔
  3. ۔أبو بكر بن أبى شىبۃ، عبد الله بن محمد بن إبراهىم، المصنف فى الأحادىث والآثار،ج7،ص8،حدیث نمبر33837، محقق كمال ىوسف الحوت،ناشر مكتبۃ الرشد الرىاض،طبعۃ الأولى، 1409ھ۔
  4. ۔ القشىرى مسلم بن الحجاج،الصحىح المسلم،ج3،ص1642،حدیث نمبر2069،محقق محمد فؤاد عبد الباقى،ناشر دار إحىاء التراث العربى بىروت۔
  5. ۔علاء الدىن على بن حسام الدىن،كنز العمال فى سنن الأقوال والأفعال،ج3،ص694،حدیث نمبر8486، مؤسسۃ الرسالۃ،طبعۃ الخامسۃ، 1401ھ۔
  6. ۔ عمر بن شبۃ (اسمه زىد) بن عبىد ۃ بن رىطۃ، تارىخ المدىنۃ لابن شبۃ،ج3،ص826۔
  7. ۔ابن كثىرإسماعىل بن عمر،البداىۃ والنهاىۃ،ج7،ص87، ناشردارالفكر،عام النشر 1407ھ۔
  8. ۔ سورۃ ظٰہ:131
  9. ۔أبوعمر ىوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر،الاستذكار،ج8،ص390،ناشردارالكتب العلمىۃ بىروت،طبعۃ الأولى، 1421ھ
  10. ۔مالك بن أنس بن مالك، الموطأ،ج5،ص1369،حدیث نمبر3450،حقق محمد مصطفى الأعظمى،ناشر مؤسسۃ زاىد بن سلطان آل نهىان للأعمال الخىرىۃ والإنسانىۃ أبو ظبى ،طبعۃ الأولى، 1425ھ۔
  11. ۔علاء الدىن على بن حسام الدىن،كنز العمال فى سنن الأقوال والأفعال،ج5،ص522،حدیث نمبر13794۔
  12. ۔الندوى على أبو الحسن بن عبد الحى، ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمىن،ج1،ص247،ناشر مكتبۃ الإىمان، المنصور ۃ مصر۔
  13. ۔أبو بكر بن أبى شىبۃ، المصنف فى الأحادىث والآثار،ج5،ص141،حدیث نمبر24530۔
  14. ۔معمر بن أبى عمرو راشد، الجامع،ج11،ص86،حدیث نمبر19995، محقق حبىب الرحمن الأعظمى،ناشر المجلس العلمى باكستان،طبعۃ الثانىۃ، 1403ھ۔
  15. ۔الشىبانى,أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل, مسند الإمام أحمد بن حنبل،ج11،ص295،حدیث نمبر6694، محقق شعىب الأرنؤوط،ناشر مؤسسۃ الرسال ۃ،طبعۃ الأولى،1421ھ۔
  16. ۔ علاء الدىن على بن حسام الدىن،كنز العمال فى سنن الأقوال والأفعال،ج9،ص271،حدیث نمبر25981۔
  17. : الطبرى محمد بن جرىر بن ىزىد،تارىخ الرسل والملوك،ج3،ص610۔دار التراث بىروت،الطبعۃالثانىۃ 1387ھ۔
  18. ۔عمر بن شبۃ (اسمه زىد) بن عبىد ۃ بن رىطۃ، تارىخ المدىنۃ لابن شبۃ،ج3،ص823۔
  19. ۔أبو بكر بن أبى شىبۃ، المصنف فى الأحادىث والآثار،ج4،ص53،حدیث نمبر17711۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...