Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

علم الروایہ و الدرايۃ٬ مفہوم اور تاریخی پس منظر |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060029336_969

Pages

10-25

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/36/34

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/36

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خلفا ءراشدين كے دور ميں جب عالم اسلام كے حدود وسيع سے وسيع تر ہونے لگيں اور مفتوحہ علاقوں كے لوگ جوق درجوق اسلام ميں داخل ہونے لگے تو ضرورت اس بات کی محسوس ہوئى كہ احكام شريعت كے بارے ميں عامۃ الناس كو علم سے بہر ور كيا جائے۔ خلفاءراشدين کی قيادت ميں مختلف بلاد كی طرف نكلے ہوئے ان صحابہؓ كو بھی معلوم تھا كہ ہمارا مقصد لوگوں كوكفر كی تارىكی سے نكال كر اسلام كی روشنى ميں لانا ہے۔دين اسلام كے حوالے سے علم كو پھيلانا  اور جہل كو مٹانا ہے اس لئے فاتحين صحابہؓ  نے مختلف علاقوں ميں احاديث بىان كرنا شروع كيا اور اس ضمن ميں خلفاءراشدين نے بھی لوگوں كو اموردين سكھانے كے لئے مختلف ممالك كی طرف  كبار صحابہؓ كو روانہ كىا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضى  اللہ عنہ  نےعبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ كو  كوفہ كی طرف روانہ كرتے وقت اہل كوفہ سے كہا  "وقد آثرتُكم بعبدِ اللهِ عَلى نَفْسِي"([1])مفتوحہ علاقوں كے لوگوں پر اس كا بہت اچھا اثر ہوا۔ علم سكھانے كا يہ حرص اور اہتمام تابعين كو بھی منتقل ہوگيا۔ انہوں نے  نہ صر ف يہ كہ صحابہ كرام سے سنى  ہوئى احاديث پر اكتفا نہيں كيا بلكہ علم كے اصل مركز مدينہ منورہ كا رخ  كيا تاكہ صحابہ كرام سے احاديث رسول اللہ كے بارے ميں معلومات حاصل كريں ۔ احاديث جمع كرنے اوراعلی راوى تك پہنچنے كا يہ اہتمام انہوں نے صحابہ كرام كی زندگى ميں ديكھا تھا جنہوں نے ايك ايك حديث  كو اس صحابى سے سننے كے لئے دور دراز كا سفر كيا جس نے حديث براہ راست رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے لى ہے ۔ جيسا كہ كثير بن قيس ابو درداءؓكے بارے ميں فرماتے ہيں كہ آپ دمشق كے جامع مسجد ميں تشريف فرماتھے ايك شخص مدىنہ منورہ سے سفر كرتے ہوئے آپ سے ملنے آئے اور اتنے دور دراز علاقے سے آنے كا مقصد ايك حديث كا سننا تھا جو ابو درداء نے حضورﷺ سے سنى تھى  جس ميں علم اور علماء كی فضيلت بيان كی گئى  تھی([2])يہاں سے معلوم ہوتا ہے كہ علم رواىۃ الحديث كے شروع كرنے  ميں سب سے زىادہ مؤثر  اور بنىادى كردار جس طبقے نے ادا كىا وہ صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا طبقہ ہی ہے  اور يہ اس لئےكہ رسول اللہ ﷺ كے زمانہ مباركہ ميں حديث نبوی صرف اس حدتك محدود تھی كہ آپ ﷺ سے سنى جائےليكن آپ كے وصال كے بعد اس كی حيثيث ايك علم كی ہوگئى جس كو رواىت كياجائے  اور آگے جاكر اوروں كو منتقل كيا جائے ۔ يہاں سے علم رواىت  الحديث كی بنياد پڑ گئى ۔پھر وہ مرحلہ آىا كہ صحابہ ہی كے زمانے ميں رواىت كے لئے قوانين وضع كئے گئے تاكہ ضبط وعدل اور مقبول و مردود وغيرہ كے بارے ميں آگاہى حاصل ہوجائے  اور يوں علم مصطلح الحديث وجود ميں آىا۔ چونكہ روايۃ الحديث اور درايۃ الحديث علم الحديث ہی سے متعلقہ موضوعات ہيں اس لئے سب سے پہلے علم الحديث كا معنی ومفہوم بيان كيا جاتا ہے :

علم الحديث كي تعريف :

علم الحديث دو  لفظوں  "علم " اور "الحديث" سے مركب ہے ۔

علم: لغوى معنی ميں علم ادراك/جاننے كو كہتے ہيں ۔(عَلِمَ) فُلانٌ عِلْما۔ارشاد بارى تعالى ہے:"لا تَعْلَمُونَهم اللهُ

يَعَلَمُهم"([3])

حديث : حديث كے بارے ميں المعجم الوسيط ميں ہے : (الحديث) كل ما يتحدث به من كلام وخبر و في اصطلاح المحدثين قولٌ أو فعلٌ أو تقريرٌ نُسِبَ إلى النبيِ صَلَّى اللهُ عَليه وسلم۔  (والجديدُ يُقال هُو حديث عهد بِكذا قريبُ عهد به) ([4])

"لغوى معنی ميں كلمہ حديث كلام اورخبر كے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اصطلاح محدثين ميں يہ نبی  کریم ﷺكی طرف منسوب  قول ، فعل اور تقرير كے لئے استعمال كيا جاتا ہے ۔  جديد كو بھی حديث كہا جاتا ہے" ۔  آئمہ حديث حديث كی لغوى اور اصطلاحى تعريف كرتے ہوئے لكھتے ہيں : ابن حجر كا قول ہے :’’المرادُ بالحديثِ في الشرعِ ما أُضِيفَ إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم كأنه اُريدَ به مقابلةُ القرآنِ لأنه قديم“([5])

"عرف شرع ميں حديث سے مراد وہ ہے جس كی نسبت رسول اللہﷺكی طرف ہو گويا اس سے مراد قرآن كے مقابل ہے چونكہ وہ قديم ہے "۔

امام سيوطى ؒ كے نزديك حديث لغوى اعتبار سے جديد كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے ([6])۔ابو البقاءكے بقو ل يہ حدث سے اسم ہے جس كے معنی خبردينا ہے  اور اصطلاحاً اس سے مراد قول ، فعل ىاتقرير ہے ۔ جس كی نسبت رسول اللہ ﷺكی طرف ہو ([7])اور(علم الحديث) علمٌ يُعْرَفُ بِه أقوالُ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْه وسلَّم وأفعالُه وأحوالُه([8])"علم حديث سے مراد وہ علم ہے جس كے ذريعے حضور ﷺ كے افعال ، اقوال اور احوال معلوم كئے جاتے ہيں"۔علامہ شبلى نعمانی لكھتے ہيں: علم حديث سے مراد وه علم ہے جس ميں راوى او رروايت كےبارے ميں قبوليت اور رد كے حوالے سے پتہ چلتا ہے۔([9])  علامہ بدرالدين عینی  نے  اپنی كتاب عمدة القارى  اور علامہ سخاوى نے كتاب فتح المغيث ميں بھی اس علم كی يہی تعريف كی ہے ۔ خلاصہ كلام يہ ہوا كہ  حديث : لغت كے اعتبار سے ہر قسم كے كلام كو كہا جاتا ہے۔اصطلاحى مفہوم كے لحاظ سے حديث  مندرجہ ذيل عناصر پر مشتمل ہے۔

حضورﷺكے اقوال ، افعال اور احوال۔جس كلام كا تعلق مندرجہ بالا تين چيزوں ميں سے كسی بھی ايك كے ساتھ ہو وه علماء حديث كے نزديك حدىث كہلاتی ہے۔ حديث كے لئے مترادف الفاظ روايت ،خبر، اثر اور سنت استعمال ہوتی ہے۔ اگرچہ بعض علماء حديث، اثر او رخبر اور سنت ميں تھوڑا بہت فرق كرتے ہيں۔

حديث كا موضوع :

حدیث كا موضوع حضور ﷺ كی ذات مباركہ ہے ، آپ كے اقوال ، افعال، احوال،  تقرىر، رنگ مبارك ، طول، عرض اور اسی طرح آپ ﷺكے تمام تر حالات۔

علم الحديث (روايۃ ودرايۃ)

حديث كے مستقل علم ہونے كےبناءپر علماءحديث نے اس كی تعريف كے تعين اورغرض وغاىت كی بحث ميں اظہار خيال كيا ہے ۔ چنانچہ علم حديث روايۃ اور علم حديث درايۃ كی طرف تقسيم كی گئى اور اس كے مطابق تعريف كی گئى۔

قسم اول: علم الحديث روايۃ

تعريف :علماء حديث نے علم روايت الحديث كی متعدد تعريفات كی ہيں جن میں  چندایک  پيش  كی جاتى ہيں :

ابن الأكفانى  كے نزديك: "عِلْمٌ يَشْتَمِل عَلى اَقوالِ النبي صلى  اللهُ عليه وآله وسلم واَفعالِه وروايتِها، وضبطِها وتحريرِ الفاظِها"([10])

"وہ علم جورسول اللہ ﷺكے اقوال ، افعال ، ان كی رواىت  كرنے، حفظ او ر ان كے الفاظ كو تحريركرنے كو شامل ہو"۔

شيخ عبد الله بن فودیؒ كے نزديك: "وهو الذي يَشْتَمِلُ عَلى ضَبْطِ الحديثِ ونَقْلِه وروايتِه وتحريرِ ألفاظِه ومِنْ كُتبِ هذا النوع الصحيحان والسننُ الأربعة وكذلك المسانيدُ والمعاجمُ والأجزاء الحديثية"([11]

"وه علم جو حديث كے حفظ ،نقل ، رواىت اور اس كے الفاظ لكھنے كو شامل ہو۔ اور علم حديث كی اس قسم كے نمائندہ كتابوں ميں سے صحيح بخارى، صحيح مسلم ، سنن أربعۃ ، مسانيد ، معاجم اورالأجزا الحديثيۃ ہيں"۔

علامہ سيوطى ؒ كے نزديك : "علمُ الحديثِ الخاص بالرواية: عِلْمٌ يَشْتَمِلُ عَلى أقوالِ النَّبِي صلى اللهُ عليه وسلم وأفعالِه وروايتِها وضبطِها وتحريرِ ألفاظِها"([12]

"علم الحديث روايت كے اعتبار سے ايك ايسا علم ہے جو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كےاقوال ، افعال تقارير اور صفات ، اور اس كی روايت اسے ضبط كرنے اور اس كے الفاظ كی تحرير كو شامل ہے"۔

بعض كے نزديك اس سے زىادہ جامع تعريف وہ ہے جس ميں صحابہ اورتابعين سے منسوب اقوال او رافعال كو رواىت كرنے ، حفظ كرنے اور لكھنے كو بھی  شامل كيا گيا ہے ۔

دكتور احمد عمر ہاشم كے نزديك:" هو علمٌ يُعرَف به ما أضِيفَ إلى رسول اللهِ صلى اللهُ عليه وآله وسلم مِن قول أو فعل او تقرير او صِفةِ ونُقِلَ ما اُضيفَ إلى الصحابةِ والتابعين على الرأي المختار"([13]

"يعنی يہ وه علم ہے جس كے ذريعے  رسول اللهﷺكی طرف منسوب اقوال ، افعال اوراحوال اور اسی طرح صحابہ اور تابعين كی طرف (مختار قول كے مطابق) منسوب اقوال وغيره كے بارے ميں جانا جاتا ہے"۔

اس علم ميں حديث كی روايت ،اسے ضبط كرنے ، اس كی اسانيد ، قبول اور رد كے اعتبار سے ہر حديث كو پركھنا ، اس كی شرح اور

معنى كو جاننا اور اس سے جو فوائد اخذ ہوتے ہيں،  ان كو جاننے كے حوالے سے بحث ہوتى ہے ۔ 

قسم ثانى: علم الحديث درايۃ

مختلف علماء  حديث نے دراىت حديث كی مختلف  تعريفات بيان كی ہيں ان ميں سے چند ايك مندرجہ ذیل ہیں :

 ظاہر بن صلاح الجزائرى الدمشقى لكھتےہيں : "علمُ درايةِ الحديثِ عِلمٌ يُعرَفُ منه انواعُ الروايةِ واحكامُها وشروطُ الرواة واَصنافُ المروياتِ واستخراجُ معانِيها"([14]

" درايت حديث وه علم ہے جس سے راوی كی شرطيں ، روايت كی قسميں او ر اس كے احكام كی معرفت ہوتی ہے۔ نيز مرويات كی قسميں اس كے معانی كے استخراج كا علم ہوتا ہے"۔

ابن الاكفانى  درايۃ الحديث كی تعريف يوں كرتے ہيں: " علم يعرف منه حقيقة الرواية وشروطها وأنواعها وأحكامها وحال الرواة، وشروطهم وأصناف المرويات وما يتعلق بها "([15])

"يہ وہ علم ہے جس سے روايت كی حقيقت ، شروط ، أقسام ، أحكام ، راويوں كے احوال ،  شروط ، روايات كی اقسام اور اس سے متعلقہ ديگر امور كا علم ہوتا ہے "۔

عزالدين ابن جماعہ كہتےہيں: "علمٌ بِقَوانِينِ يُعْرَفُ بِها احوالُ السَّنَد والمتنِ"([16]

" درايتى علم حديث ان قوانين كے جاننے كو كہتے ہيں جن كے ذريعہ سند او ر متن كے احوال كی معرفت حاصل ہوتی  ہے۔زين الدين بن على كہتےہيں :"درايةُ الحديثِ وهو علمٌ يُبحثَ فيه مِن متن الحديث وطُرُقِه من

صحيحها وسقْمِها وَعِلْمِها ومايحتاج اليها"([17]

"درايت حديث وه علم ہے جس ميں حديث كے متن اور اس كی سند سے بحث ہوتی ہے او ر حديث کی صحت او سقم كا پتہ چلتا ہے۔ نيز جن چيزوں كی معلومات ضروری ہیں ان كے متعلق علم ہوتا ہے"۔

طاش كبرى زاده كہتے  ہيں : "هو عِلْمٌ باحثٌ عَن المَعْنى المفهومِ من الفاظِ الحديثِ وَعن المرادِ منها  مَبْنِيًّا على قواعدِ العربيةِ و ضوابطِ الشريعةِ ومطابقتِها لأحوالِ النبى صلى اللهُ عَلَيهِ وآله وسَلَّم "([18]

" درايت حديث وه علم ہے جس ميں الفاظ حديث سے سمجھے گئے مفہوم ومراد سے بحث ہوتی ہے جب کہ وه عربی قواعد وشرعی ضوابط پر مبنى اور رسول الله كے احوال كے مطابق ہوں"۔

شيخ عبد الله بن فودی درايۃ كی تعريف ميں لكھتے ہيں :

"وهو العلم الذي يُعْرَفُ بِه حقيقةُ الروايةِ وشروطُها وأنواعُها وأحكامُها وحالُ الرواةِ وشروطِهم وأصنافُ المروياتِ

وفِقْهِهَا"([19]

"يہ وه علم ہے جس كے ذريعے رواىت کی حقيقت ، شروط ، انواع ، أحكام ، راوى كا حال ، شروط ، مروىات كی اقسام اور اس كی  سمجھ كے بارے ميں معلوم ہوجاتا ہے "۔

الكافيجى كہتے ہيں :

"فهو علمٌ يُقْتَدى بِه عَلى مَعْرِفَةِ اقوالِ الرسولِ وافعالِه عَلى وَجْهِ مَخْصُوصِ كالاِتصاف والاِرسالِ ونحوِها، ويُطْلق أيضا عَلى معلومات وقواعدمخصوصة كما تقولُ فلان يَعْلَمُ الحديث تريد به معلوماتَه قواعدَه“ ([20])

"يہ وہ علم ہے جس كے ذريعے رسول اللہ ﷺكے اقوال اور افعال كی معرفت ايك خصوصى پہلو سے حاصل ہوتى ہے جيسے اتصال وارسال وغيرہ اور اس كا اطلاق خاص معلومات وقواعد پر بھی ہوتا ہے جيسے تم كہو كہ اس شخص كو حديث كا علم ہے اور تمہارى مراد اس كی معلومات اور قواعد ہوں"۔

دكتور احمد عمر ہاشم علم درايۃ الحديث كی تعريف كرتے ہوئے لكھتےہيں :

"يہ وہ علم ہے جس كے ذريعے قبول اور رد كےاعتبار سے  سند اور متن كے احوال جانے جاتے ہيں "۔

اس علم كے مختلف نام :

چونكہ يہ علم مختلف علوم كے متنوع معارف كا خلاصہ ہے اس لئے بعض علماءكرام نے اس كو ”علوم حديث “ كا نام ديا كيونكہ اصل ميں  اس علم كا تعلق رواىت حديث سے ہے ۔

اس كو ”علم اصول حديث “كا نام بھی ديا گيا اس لئے كہ اس ميں اصول او ر قواعد بىان كيے جاتے ہيں ۔ اور اسى  طرح اس كو ”علم مصطلح الحديث “بھی كہا گيا ۔ اس لئے كہ يہ رواىت حديث كے مقابلے ميں ہے اور اس كو” علم الحديث درايۃ “بھی  كہا گيا ۔ تو يہ اس علم كے چار مختلف اسماءہوگئے۔

فائدۃ: معرفة ما يُقبل وما يردّ من الحديث۔ وهذا مهمّ بحد ذاته؛ لأن الأحكام الشرعيةَ مَبْنِيَّةٌ على ثبوتِ الدليلِ وَعَدْمِه، وصحتِه وضُعْفِه۔

"مقبول اور مردود حديث كا جاننا  اوراس كی اہمىت زىادہ اس لئےہے كہ احكام شرعى كی بنىاد دليل كے ثبوت اور عدم ثبوت، اس كے صحيح اوغير صحيح ہونےپر ہے "۔

موضوع:

اس علم كا موضوع راوى اور رواىت كا رد وقبول ہے ([21])۔اور اس كی غرض وغاىت يہ رہی ہے كہ صحيح وحسن اور سقيم وشاذ وغيرہ ميں تميز ہوسكےاور حديث پر اعتماد كرتے ہوئے اسے احساس ہو كہ وہ اپنے قول وفعل كی بنىاد كس نوعيت كی روايت پرر كھتا ہے ۔خلاصہ كلام يہ ہوا كہ " يہ وه علم ہے جس كے ذريعے سے روايت کی حقيقت ، راويوں كے شروط، روايات كی  اصناف اور معانی كے استخراج كی پہچان ہوتی ہے" ۔

علم روايۃ الحديث اور درايۃ  الحديث کی  عمومی تقسيم كے علاوه فن حديث كے سلسلے ميں علماء نے مندرجہ ذيل ا ہم علوم مدون كيے :

الجرح والتعدىل: راوي كے ثقہ ہونے کی شروط اور ضعف كے اسباب كا علم۔  ابو حاتم  ،ابو زرعہ اور علامہ سيوطى كاشمار اس فن كے ماہرين ميں ہوتا ہے۔

معرفة الصحابۃ: صحابہ كے اصل ناموں اور ان كے القاب كی تحقيق تارىخ الرواة وعلم الرجال، راوىو ں كی تارىخ پيدائش ووفات ، ان كے علاقے يا شہر او ر ان كے عام حالات كی تحقيق۔

معرفۃالأسماء والكنى والالقاب۔              علم تاويل مشكل الحديث۔                  معرفۃ الناسخ والمنسوخ

ذيل ميں چند اہم كتب حديث كا ذكر كرتےہيں جن ميں آپﷺ كی طرف منسوب اقوال، افعال اور احوال وغيره منسوب كئے گئے ہيں اور جن ميں علم حديث روايۃ ودرايۃ كا پورا پورا خيال ركھا گيا  ہے۔

موطأ امام مالك :  يہ امام مالك بن انس بن مالك ؒكی تاليف ہے۔ اس ميں آپ نے اہل حجاز كی قوی روايات كا قصد كيا اور

 ا س كے ساتھ صحابہ كرام رضوان الله عليهم اجمعين كے اقوال اورتابعين وعلماء ما بعد كے فتاوى بھی درج كيے۔

الجامع الصحیح للإمام  أبو عبد الله محمد بن اسماعيل البخارى ؒ  جس كے بارے ميں علماء الحديث فرماتے ہيں "اصح كتاب بعد كتاب الله تعالى"۔

الجامع الصحیح  للإمام أبو الحسين مسلم بن الحجاج ؒ۔

سنن  أبى داؤد للإمام أبو داؤد السجستانی ؒ۔

جامع ترمذی للإمام أبو عيسى الترمذیؒ۔

سنن النسائى للإمام أبو عبد الرحمن احمد بن على بن شعيب بن على بن بحر النسائى ؒ۔

سنن ابن ماجہ للإمام أبو عبد الله محمد بن يزيد بن ماجہ الريعی القزوينى([22]

روايت او ردرايت كی ابتداء:

===روايت كی ابتداء:=== روايت حديث كے بارے ميں يہ معلوم ہے کہ اس كی ابتداء عہد صحابہ سے ہی  ہوئى تھی۔ حضرت ابوبكر صديق رضى الله عنہ نے ايك صحیفہ  تيار كيا تھا ليكن اس خيال سے تلف كرديا كہ مبادا رسول اكرم ﷺكی طرف كوئی ايسی بات منسوب نہ ہوجائے جو آپ نےنہ فرمائى ہو۔حضر ت ابوبكر او رحضرت عمر رضى الله عنهما كے سامنے كوئى  معروف ثقہ شخص بھی حديث بيان كرتا  تو بغير شہادت كے اسے قبول نہ كرتے۔ جب شہادت مل جاتی تو سختی سے اس پر عمل كرتے۔اسی طرح حضرت على رضى الله عنہ كے سامنے كوئی شخص حديث روايت كرتا تو آپ اس سے قسم ليتے تھے۔اسی طرح دوسرے صحابہ بھی قبول روايت كے معاملے ميں بہت محتاط تھےكيونکہ نبى كريمﷺكا يہ ارشاد پيش نظر تھا كہ"من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار"([23]

شروع شروع ميں  اسناد كے بيان كی زياده اہميت نہيں تھی ليكن جب لوگوں نے عقائد باطلہ كو ثابت كرنے كے لئے احاديث وضع كرنا شروع كيں تو سند حديث كی روايت كے لئے ايك لازمی اور اہم جز وقرار دے دى گئى۔ حضرت سفىان ثورى فرماتے ہيں:

         "راويوں نے جھوٹ كی آميزش شروع كی توہم نے تارىخ سے كام لينا شروع كيا"۔

اسناد كی اہميت كا اندازہ عبدالله بن مبارك ؒ كے اس قول سے لگايا جاسكتا ہے: "الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ ، لَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ"([24]

"اسناد دىن كا جزو ہے اگر يہ نہ ہو تو جس كے جی ميں جو آتا كہہ گزرتا"۔

احمد بن حنبلؒ فرماتے ہيں: "طَلَبُ الْإِسْنَادِ الْعَالِي سُنَّةٌ عَمَّنْ سَلَفَ" ([25]

"عالى اسناد  كو ڈھونڈنا سلف صالحين كی سنت ہے "۔

اس لئے تو فن اسماء الرجال كی تدوين كی وجہ سے لاكھوں راويوں كے حالات مدون ہوگئے۔ راويوں كے اوصاف اور سلسلہ سند كے اتصال اور انقطاع كے اعتبار سے احاديث كی متعدد اقسام متعين كی گئيں ۔

درايت كی ابتداء:  

فقہاء ميں بعض اس بات كے قائل ہيں كہ آگ پر پكی ہوئی چيز كے كھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے حضرت ابو ہريرهؓ  نے جب عبد الله بن عباسؓ كے سامنے يہ مسئلہ آنحضرت ﷺكی طرف منسوب كيا تو آپ نے كہا اگر یہ صحيح ہے تو

ا س پانی كے پينے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا جو آگ پر گرم كيا گياہو([26])۔ چونكہ عبد الله بن عباسؓ كے نزديك يہ روايت درايت كے خلاف تھی اس لئے انہوں نے تسليم نہيں كی اور يہ خيال كيا کہ سمجھنے ميں غلطی ہوگئى ہوگى۔

محدثين كے نزدىك درايت كے اصول:

"قال ابن الجوزى وكل حديث رأيته يُخالِفُ العقولَ او يُناقِضُ  الأصولَ فَاعْلَم أنه موضوعٌ فَلا يُتَكَلَّفُ اعتبارُه أي لا تُعْتَبَرُ روايةٌ ولا تُنْظَرُ في جَرْحِهِم اَوْ يكون مما يَدْفَعُه الْحِسُّ والمشاهدةُ او مُبَايِنا لِنَص الكتابِ والسنة المتواترةِ او الاجماع القَطْعى......"([27]

ابن جوزىؒ كی اس عبارت كا ماحصل يہ ہے كہ حسب ذيل صورتوں ميں روايت اعتبار كے قابل نہ ہوگی اور اس كے متعلق اس تحقيق كی ضرورت نہ ہوگى كہ راوى معتبرہيں يا نہيں۔

·       جو روايت عقل كے مخالف ہو۔

·       جو روايت مسلمہ اصول كے مخالف ہو۔

·       محسوسات او رمشاہده كے مخالف ہو۔

·       قرآن مجيد،  حديث متواتره يا اجماع قطعی كے مخالف ہو او ر اس ميں تاويل كی گنجائش نہ ہو۔

·       جس حديث ميں معمولى بات پر سخت عذاب كی دھمكی ہو۔

·       معمولى كام پر بڑے انعام كا وعده ہو۔

·       وه روايت جو ركيك المعنی ہو۔ مثلاً كدو كو بغير ذبح كيے نہ كھاؤ۔

·       جو راوی كسی شخص سے ایسی روايت كرتاہے كہ كسی او رنے نہيں كی اور يہ راوى اس شخص سے نہ ملا ہو۔

·       جس روايت ميں كوئی ايسا قابل اعتناء  واقعہ بيان كيا گيا ہو كہ اگر وقوع ميں آتا تو سينكڑو ں آدمی اس  کے گواہ بنتے۔

ملا على قارىؒ نے روايت كےغير معتبر ہونے كے چند اصول تفصيل سے لكھے ہيں جس كا خلاصہ يہ ہے۔

جس حديث ميں فضول باتيں ہوں جو رسول الله ﷺكی زبان مبار ك سے نہيں نكل سكتیں  مثلا ًيہ كہ " جو شخص لا إله إلا الله " كہتا ہے خدا اس كلمہ سے ايك پرنده                   پيدا كرتا ہے جس كی ستر زبانيں ہوتی ہيں ،ہر زبان ميں ستر ہزار لغت ہوتےہيں "الخ۔

وه حديث جو مشاہده كے خلاف ہو جيسے "بینگن كھاناہر مرض كی دوا ہے "۔

وه حديث جو صرىح حديثوں كے خلاف ہو۔

جو حديث واقع كے خلاف ہو۔ مثلاً يہ كہ "دھوپ ميں ركھے ہوئے پانی سے غسل نہيں كرنا چاہيے كيونكہ   اس سے برص  پيداہوتا ہے"۔

وه حديث جو انبياء عليهم السلام كے كلام سے مشابہت  نہ ركھتی  ہو۔ مثلاًیہ كہ "تين چيز يں نظر كو ترقى ديتی ہيں ،سبزه زار، آب رواں او ر خوبصورت چہره كا ديكھنا"۔

وه حديثيں جن ميں آئنده واقعات كی پيشن گوئى بقيد تارىخ مذكورہوتی ہے۔

وه حديثيں جو طبيبوں كے كلام سے مشابہ  ہيں۔ مثلاًیہ  "ہريسہ كے كھانے سے قوت آتی ہے"۔ يا " مسلمان  شيريں ہوتا ہے اور شرينى كو پسند كرتا ہے"۔

وه حديثيں جن كے غلط ہونے كے دلائل موجود ہوں۔

وه حديثيں جو صريح قرآن كے خلاف ہوں۔

وه حديثيں جو حضر عليہ السلام كے متعلق ہيں۔

جس حديث كے الفاظ ركيك ہوں۔

وه حديثيں جو قرآن كريم كی الگ الگ سورتوں كے فضائل ميں واردہيں([28]

علم الروایہ پر لکھی گئی اہم کتب کا تعارف

ابتدائى تين صديوں ميں يہ علم اس طرح نہ تھا  جس طرح آج كل ہے۔ نہ اس كا نا م موجود تھا نہ كسی ايك تصنيف ميں اس كے تمام انواع كويكجا كيا گيا تھا۔ اگر چہ لوگ اس علم كی جداگانہ انواع پر بات چىت كرتے تھے۔ حديثيں قبول كرتے وقت وہ چھان بين اور احتىاط سے كام ليتے تھے۔جيسا كہ حضرت ابوبكر وعمر رضى اللہ عنہما كے بارے ميں منقول ہے  كہ وہ جرح وتعديل سے متعلق گفتگو كرتےتھے ۔ علل الاحاديث كی تلاش بھی ان كے  يہاں پائى جاتى تھى۔ اس علم كے بعض انواع كے بارے ميں انہوں نے كتابيں بھی تصنيف كى تھيں۔ جيسا كہ على بن المدينى شيخ البخارى كے بارے ميں معروف ہے كہ موصوف علوم الحديث ميں اپنےزمانہ كے يكتائے روزگار فاضل تھے ۔ علوم الحديث ميں سے كوئی علم ايسا نہ تھا جس كے بارے ميں آپ نے كتاب نہ لكھی ہو۔ اسى طرح ديگر محدثين نے الگ الگ انواع پر جداگانہ كتب مرتب كيں۔ مثلا ًبخارى ومسلم وترمذی وغيرہ۔ ان كی تصنيف كا انداز يہی  تھا كہ وہ ہر نوع پر الگ الگ كام كرتے تھے جہاں تك اس بات كا تعلق ہے كہ جملہ انواع كو جمع كركے ايك ہی  تصنيف ميں ان پر بحث كی جائےتو يہ بات چوتھی  صدی  كے نصف ميں جاكر پيداہوئى ([29]

اس سے ثابت ہوا كہ اسلام كی ابتدائی تين صديوں ميں فن حديث كی  كوئى  مستقل درجہ بندی  نہ تھی ۔ بقول ابن ملقن اس كی دو سو سے زىادہ قسمیں پائى جاتی  تھيں([30]) ۔ چوتھی  صدی ہجری  ميں جب تمام علوم كی  باقاعدہ تدوين ہونے لگی  اور اصطلاحاحت سازى كا كام ہونے لگا تو علماء نے بڑى عرق ريزی  اور محنت سے ان بكھرى ہوئى اصطلاحات كو  ایسے كتب ميں جمع كرديا جو بعد ميں ايك مرجع كی  حيثيت اختىار كرگئيں اس سلسلہ ميں جو جامع تصانيف سب سے پہلے منظر شہود پر آئيں وہ يہ ہيں : '

      المحدث الفاصل بين الراوی  والواعی

قاضى ابو محمد الحسن بن عبد الرحمن بن خلاد رامہرمزى (ت٣٦٠ھ/٩٧٠ء)كی  اصطلاح حديث پر پہلى كتاب ہے ۔ اس سے قبل ىا اس زمانے ميں اس موضوع پر اوركوئى كتاب نہيں لكھی  گئى۔ مؤلف نے اس كتاب ميں راوى اور محدث كے آداب ، تحمل حديث اور صيغ اداءكے طريقے بىان كيے ہيں۔ حافظ ابن حجر ؒ اس كتاب كے متعلق فرماتے ہيں : لكنہ لم يستوعب (اس كتاب نے پورا احاطہ نہيں كيا)يہ كتاب فن اصطلاح حديث  كے بہت سے مسائل پر حاوى ہے([31])۔اس كتاب كو رامہرمزى نے اپنے طلباء كو املاء كرايا ،  ان سے كثير تعداد ميں لوگوں نے سنا اور نسل درنسل يہ كتاب علماء حديث نقل كرتے رہے۔ جب بھی  كسی  كتاب ميں ذكر ہو كہ رامہرمزى نے كہا يا ابن خلادنے كہا تو اس سے مراد يہی ہوتا ہے كہ"المحدث الفاصل" ميں بيان كيا گيا۔ اس كتاب كی  بڑے بڑے محدثين حافظ الذہبی  اور ابن حجر وغيرہ نے بہت تعريف كی  ہے۔ اس ميں علم حديث اور راوىوں كا مقام ، طلب حديث ميں نيت ، اوصاف طالب حديث، عالى اور نازل ،  طلب حديث ميں سفر، ايسے لوگ جو اپنے اجدادكے ساتھ منسوب ہيں ، ىا جن كے  نام متفق ہيں ىا جو كنیتوں   سے معروف ہوگئے ہيں ان كے ناموں كو اچھى  طرح ضبط كيا گيا ہے۔ پھر سماع حديث كی  تفصىل ہے بعد ازاں دراىت كی  فصل بہت اہم ہے ۔

معرفۃ علوم الحديث

اس فن كے اول مؤلف رامہر مزى كے بعد حاكم ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ نيشا پورى (٣٠١ -٤٠٥ھ/٩٣٣-١٠١٤م)ہيں۔ حاكم نے اس فن پر دوكتابيں لكھی  ہيں ۔ ايك"معرفۃ علوم الحديث" ہے يہ كتاب علماء  ميں مشہور ہے ۔"معرفۃ علوم الحديث" ميں بعض چىزيں زائد ہيں لہذا كانٹ چھانٹ اور تعليق وتصحیح  كی محتاج ہے ۔ حافظ ابن حجر نے فرماىا: "لكِنَّه لَمْ يُهَذَّبْ وَلَمْ يُرَتَّبْ"([32])نہ تو اس كتاب كی  تہذيب كی  گئى اور نہ ترتيب ۔يہ فن علوم الحديث كی  دوسرى معروف كتاب ہے اس ميں امام حاكم نے حديث كی 52انواع ذكر كی         ہيں جن ميں اہم درج ذيل ہيں  :

معرفةٌ عالى ونازل، المسانيدٌ، الموقوفات، المنقطع، المسلسل٬ المغضل، المدرج، الصحابة، تابعين واتباع التابعين٬ معرفة الاكابر، اولاد الصحابة، الجرح والتعديل٬ فقه الحديث، ناسخ الحديث ومنسوخه، مشهور، غريب، مدلسين٬ علل الحديث، مذاكرة الحديث، معرفة التصحيفات٬ معرفة الاخوة والاخوات٬ انساب المحدثين٬ القاب المحدثين وجماعة من الرواة لم يحتج بحديثهم وغيره ۔آپؒ  كی دوسرى كتاب كا نام"كتاب العلل " ہے ۔

المستخرج

اس كتاب كے مؤلف ابو نعيم احمد بن عبد اللہ اصفہانى (٣٣٦-٤٣٠ھ/٩٤٨-١٠٤٠م)ہيں۔ فن اصطلاحات حديث كی  جو مسائل حاكم سے رہ گئے تھے  انہيں ابو نعيم نے اپنى كتاب ميں سمونے كی  كوشش كی  ہے ۔ يہ كتاب حافظ ابن حجر كے بقول ناتمام تھی  اسی  وجہ سے اس كا نام المستخرج  پڑ گىاوہ اس كتاب كے متعلق لكھتے ہيں :

"اَبْقَى اَشْيَاء لِلْمُتَعَقِّب"([33])"انہوں نے آنے والوں كے لئے اس كتاب ميں بہت سی چىزيں چھوڑى ہيں"۔ اس كتاب  كا ايك مخطوطہ مكتبہ كوبرلى (تركى) ميں موجود ہے([34]) ۔

الكفايۃ فی علم الروايۃ

قاضى ، حاكم اور ابو نعيم كے بعد خطيب بغداى ؒ  آئے جو آخر المتقدمين اور اول المتاخرين شمار كئے جاتے

ہيں۔  آپ نے جہاں دوسرے مجالات ميں اپنى علمی  استعداد كا مظاہرہ كرتے ہوئے گراں قدر تصانيف لكھیں  وہاں آپ نے حديث كی  خدمت كرتے ہوئے اس فن ميں فقيد النظىركتاب پيش كی جو علوم حديث ميں الكفايۃ فی  علم الروايۃ  كے نام سے پہچانى جاتى ہے۔ عظىم محدث ، حافظ المشرق ابو بكر احمد  بن على الخطيب البغدادی  رحمہ اللہ(٣٩٢-٤٦٣ھ/١٠٠٢-١٠٧٠م) نے يہ كتاب قوانين الروايۃ  پر لكھى ۔ اس كے علاوہ ايك اور كتاب الجامع لآداب الشیخ  والسامع كے نام سے تحمل الروايۃ  اور اس كے آداب پر لكھى  ۔

موصوف كی  يہ كتاب الكفايۃ فی  علم الروايۃ اصول حديث كی  كتب ميں نہايت اہم مقام كی  حامل ہے اور فن كے مسائل پر حاوی كتاب ہے ۔ حافظ ابن حجر ؒ  خطيب بغدادى كے بارے ميں فرماتے ہيں :

"وَقَلَّ فَنٌ مِنْ فُنُونِ الْحَدِيثِ اِلا وَقَد صَنَّفَ فِيه كتابامُفْردا"([35])

"مصطلح الحديث كے  ہر فن ميں خطيب نے مستقل كتاب لكھی  شاذ ہی  كوئى فن رہ گيا ہوگا "۔

الحافظ أبوبكر بن نقطۃ  فرماتے ہيں :

"كُلُّ مَن أنصَف عَلِمَ أن المحدثين بعدَ الخطيبِ عَيال عَلى كتبه"([36])

مذكورہ كتاب ميں اہمىت حديث قرآن كی سنت ميں تخصىص، خبر متواتراورآحاد، راوی كے احوال كی جانچ پڑتال اور تزكىہ، عدالت صحابہ، صحابى كی پہچان، صحت سماع صغير ، صفات محدث، جرح وتعدىل كی تفصىل ، اس آدمى  كی حديث كا حكم جو حديث رسول كے علاوہ جھوٹ بولتا ہو، اہل بدعت سے رواىت  لينااور اس كا حكم ، احكام احاديث ميں تشدد، ايسے راوى جن كی  رواىت كو رد كيا جائے ، رواىت لفظى اور  رواىت بالمعنى كا حكم ، سماع حديث كے طريقے ، انواع الاجازہ، تدليس كے احكام ، مرسل كا حكم خصوصا مرسل سعىد بن المسيب اورحديث كی كتب ميں استعمال ہونے والے بعض الفاظ كا ذكر ہے ، يہ اختصار سے لكھاگيا ہے اس كتاب ميں عام طور پر سند كے ساتھ رواىات بىان كی گئى ہيں ۔ ([37]

الجامع لاخلاق الراوى وآداب السامع

يہ كتاب  عظىم محدث ، مؤرخ اور حافظ المشرق ابو بكر احمد بن على الخطيب البغدادیؒ كى اصول حديث پر دوسرى كتاب ہے ۔ اس كتاب ميں خطيب بغدادى نے تفصيل كے ساتھ راوى اور محدث كے آداب بيان فرمائے ہيں جن  ميں سے  بعض درج ذيل ہيں:

راوى اور سامع كے اخلاق شريفہ ، اہل خانہ كے لئے رزق حلال سے كسب،علم حديث كے لئے ترك تزويج، اسناد عالى، اساتذہ كا انتخاب ، حديث كی طلب ميں جلدی، محدث كے پاس جانے كے آداب ، تعظىم محدث، ادب سماع، ادب سوال محدث، محدث سے حفظ كی كيفيت ، تدوين حديث ، آلات نسخ ، تحسين خط ، ايسے آدمى كو حديث سنانے كی ممانعت جو نہ چاہتا ہو، محدث كا طلباء كی عزت كرنا ، محدث كابادشاہوں كے اموال كی قبولىت سے بچنا، حديث بيان كرتے وقت آداب زيب وزىنت وغيرہ، محدث كا گفتگو ميں ہميشہ سچ بولنا ، محدث كا اپنے حفظ سے بىان كرنا ، شاگرد كا محدث كی تعريف كرنا ، حديث بىان كرتے وقت ابتدا ميں آداب ، علم حديث كے لئے سفر كرنا ، حفظ حديث كی  ترغيب اور مذاكرۃ وغيرہ۔

الالماع إلى معرفۃ اصول الروايۃ وتقيد السماع

يہ كتاب قاضى عياض بن موسى الیحصبی(٥٤٤- ٦٧٧ھ /١٠٨٣-١١٤٩ء)كی نہايت مفيد تاليف ہے(٥٤)۔ اس كی ابتدا ميں ہے كہ كسی نے ان سے كہا كہ وہ اختصار سے معرفت ضبط ، تقييد السماع والرواىات اور دراىت وغيرہ پر تبصرہ كريں تو انہوں نے اس كا جواب اس كتاب كی صورت ميں ديا۔ اس ميں انہوں نے طلب علم حديث كا وجوب، شرف علم الحديث، شرف اہلہ وآداب طالب حديث، سماع اور اس كے آداب ، طلب حديث ميں اخلاص نيت اور انواع اخذ ونقل اور  رواىت كی اقسام ، الوصيۃ بالكتاب ، خط ، تقييد الضبط والسماع، الكتابۃ ، رواىت باللفظ ورواىت بالمعنی وغيرہ كے عنوانات پر تبصرہ كيا ہے ۔

ما لا يسع المحدث جہلہ

اس كے مؤلف ابو حفص عمر بن عبد المجيد بن عمر بن حسين بن محمد بن أحمد (م٥٨٣ھ) ہيں۔ آپ مىانشى لقب سے جانے جاتے ہيں ۔ آپ  اپنے دور كے بڑے مشہور محدث ہيں۔آپ كی يہ كتاب نہايت مختصر ہے ابتدا ميں علم كی فضيلت ميں احاديث لكھی ہيں ، اگرچہ ان كا درجہ ثقاہت سے گرا ہوا ہے پھر علم حديث كی فضيلت ، اس كی كتابت احاديث كی روسے ، پھر حدثنا اور اخبرنا ميں فرق اور بعد ازاں اجازہ اور مناولہ كے متعلق تفصىل ہے ۔ پھر ايك باب فی اللحن ہے جس ميں حديث "نَضَّرَ اللهُ امرء" لكھی ہے پھر باب من يُروى عنہ ومن لا يُروى عنہ ہے([38]) ۔

كتاب علوم الحدیث(المعروف مقدمۃ ابن صلاح)

یہ کتاب ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمٰن الشہرزوری (م 643ھ) کی تصنیف کردہ ہے۔ مصنف 'ابن صلاح' کے نام سے زیادہ مشہور ہیں اور یہ کتاب "مقدمہ ابن صلاح" کے نام سے معروف ہے۔ یہ علوم حدیث پر نفیس ترین کتاب ہے۔ مصنف نے اس میں خطیب بغدادی اور ان سے پہلے کے مصنفین کی کتابوں میں بکھرے ہوئے مواد کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہ کتاب بہت سے فوائد کی حامل ہے البتہ اسے مناسب انداز میں ترتیب نہیں دیا گیا۔

التقریب و التیسیر لمعرفۃ السنن البشیر و النذیر

یہ محیی الدین یحیی بن شرف النووی (م 676ھ) کی کتاب ہے۔ یہ ابن صلاح کی "علوم الحدیث" کی تلخیص ہے۔ یہ کتاب نہایت ہی اہم سمجھی جاتی ہے۔

·       المنہل الراوی فی الحديث النبوى

بدرالدين ابن جماعۃ (م ٧٣٣ھ)نے اپنى اس كتاب ميں مقدمۃ ابن صلاح كے اختصار كے ساتھ كچھ اہم اضافے بھی كئے ۔ ايك مخطو ط کا نسخہ دار الكتب المصرىہ ميں (٣١٧ مصطلح الحديث) اور دوسرا مكتبہ ريال ميڈرڈ(٥٩٨) ميں موجود ہے ۔

·       نظم الدرر فی علم الاثر

اس کتاب کے مصنف زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی (م 806ھ) ہیں۔ یہ کتاب "الفیۃ العراقی" کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انہوں نے ابن صلاح کی کتاب "علوم الحدیث" کو منظم کر کے پیش کیا ہے اور اس میں مزید مباحث کا اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی مفید کتاب ہے اور اس کی متعدد شروح لکھی گئی ہیں۔ خود مصنف نے بھی اس کتاب کی دو شروحات لکھی ہیں۔

نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر

یہ حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ) کی مختصر کتاب ہے لیکن اپنے مباحث اور ترتیب کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو ایسے عمدہ انداز میں ترتیب دیا ہے جو اس سے پہلے کے مصنفین کے ہاں موجود نہیں ہے۔ مصنف نے خود اس کتاب کی شرح "نزھۃ النظر" کے نام سے لکھی ہے۔

فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث

یہ کتاب محمد بن عبد الرحمٰن السخاوی (م 902ھ) کی تصنیف ہے۔ یہ الفیۃ العراقی کی تشریح پر مبنی ہے اور اس کی سب سے عمدہ شرح سمجھی جاتی ہے۔

تدریب الراوی فی شرح التقریب النواوی

یہ جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی (م 911ھ) کی تصنیف ہے اور امام نووی کی کتاب "التقریب" کی شرح (تشریح) پر مبنی ہے۔ اس میں مولف نے بہت سے نتائج بحث کو شامل کر دیا ہے۔

المنظومۃ البیقونیۃ

اس کتاب کے مصنف عمر بن محمد البیقونی (م 1080ھ) ہیں جنہوں نے ایک مختصر نظم کی صورت میں قواعد حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کے اشعار کی تعداد 34 سے زیادہ نہیں ہے لیکن اپنے اختصار کے باعث یہ بہت مشہور ہوئی۔ اس کی متعدد شروح لکھی جا چکی ہیں۔

قواعد التحدیث

اس کتاب کے مصنف محمد جمال الدین قاسمی (م 1332ھ) ہیں۔ یہ بھی ایک مفید کتاب ہے۔

اس كے علاوہ اور بھی بہت سارى كتابيں اس فن پر لكھی گئى  ہيں جن كا احاطہ كرنا   اگر ناممكن نہيں تو مشكل ضرور ہے ۔

حوالہ جات وحواشی

[1] .     ابن الأثير، علی بن محمد بن عبد الكريم الجزری ، عز الدين،  أسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ، دار السلام قاہرة  ، مصر ،  3/ 258-259۔

[2] . أبو بكرالبغدادی، أحمد بن علی بن ثابت، الرحلۃ فی طلب الحديث ،  دار الكتب العلمیۃ –  بيروت ، الطبعة الأولى ، 1395 ، ص1(عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِى الدَّرْدَاءِ فِى مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّى جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم لِحَدِيثٍ بَلَغَنِى أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ. قَالَ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِى السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِى الأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِى جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. أبو داود السجستانی، سليمان بن الأشعث،  سنن أبی داود،  دار الكتاب العربي ـ بيروت،  باب الحث على طلب العلم)1/354۔

[3] . الأنفال: 60۔

[4] . إبراهيم مصطفى ـ أحمد الزيات وآخرون، المعجم الوسيط ، دار النشر : دار الدعوةتحقيق / مجمع اللغۃ العربيۃ،   ٢ / ٦٢٤۔

[5] ۔    السيوطی ، عبد الرحمن بن أبی بكر، جلال الدين،   تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی،   مكتبۃالرياض الحديث ۔ الرياض، 1/32۔

[6] ۔     أيضاً۔

[7] ۔     كتاب ابو البقاء: ص، 152۔

[8] .      المعجم الوسيط : 1/160۔

[9] .     شبلى نعمانى ، علامہ ، ندوى ، سيد سليمان ، علامہ، سيرة النبى،   شمع بك ايجنسى لاہور، 1/40، 41۔

[10].      جلال الدين السيوطى ، تدريب الراوی ، ص، 21۔

[11] .    عبد الله بن فودی ، شيخ ،منظومۃ مصباح الراوی فی علم الحديث، دار العلم للطباعۃوالنشر،سكتو ، نيجيريا، 1/23۔

[12] .    السيوطى ،تدريب الراوی ، ص4. نقلا عن إرشاد القاصد الذي تكلم فيه ابن الأكفاني على أنواع العلوم۔     وانظر التعاريف الأخرى في فتح الباقي شرح ألفية العراقي للشيخ زكريا الأنصاری، 1/7۔والكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري للكرماني: 1/ 12۔ والمقاصد في أصول الحديث لكمال بن محمد اللاوي ق1ب.

[13] . احمد عمر هاشم ، الدكتور، مباحث فی الحديث الشريف ، دار السلام ،  قاہره ، مصر، ص:12، 13۔

[14] . الدمشقی، طاهر الجزائری، توجیہ النظر إلى أصول الأثر ،  مكتبۃ المطبوعات الإسلامیۃ ۔ حلب،  الطبعۃ الأولى ، 1416ھ۔ 1995م،  تحقيق : عبد الفتاح أبو غدة، 1/2۔

[15] .ديكھئے تدريب الراوى فی شرح تقريب النواوى ۔ جلال الدين سيوطى۔

[16] . نور الدين عشر الدخل ،مقدمہ علوم الحديث لابن صلاح ۔

[17] . زين الدين بن على بن محمد ،شرح البدایۃ فی علم الدرایۃ ، (مخطوطہ آزاد لائبريرى  مسلم يونيورسٹى على گڑھ، انڈیا)۔

[18] . مفتاح السعادة ومفتاح السيادة ، داریۃ الحديث، طاش كبرى زاده۔

[19] . عبد الله بن فودی ، شيخ، منظومۃ مصباح الراوی فی علم الحديث، دار العلم للطباعۃ والنشر،سكتو ، نيجيريا۔

[20] .      المختصر فی علم الاثر (مخطوط)، 1/23۔

[21] ۔ أبو الفضل العسقلانی(المتوفى : 852ھ) ، أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر ،     نزهۃالنظر فی توضيح نخبۃ الفكر فی مصطلح أهل الأثر ،   المحقق : عبد الله بن ضيف الله الرحيلی،  الطبعۃ الأولى، مطبعۃ سفير            بالرياض عام (1422ھ)ـ )مصدر الكتاب : موقع مكتبۃ المدينۃالرقمیۃ)، 1/22۔

[22] .بحوالہ مباحث فی الحديث الشريف لأحمد عمر هاشم۔

[23] . أبو عيسى الترمذی، محمد بن عيسى، الجامع سنن الترمذی،   دار إحياء التراث العربی۔ بيروت، تحقيق : أحمد محمد شاكر وآخرون باب تعظيم الكذب على رسول الله، 5/35۔

[24] . أبو عمرو الشهرزوری ،             عثمان بن عبد الرحمن ، مقدمۃ ابن الصلاح ، النوع التاسع والعشرون، مكتبۃالفارابی ، طبع،  1984 م ،  1/256۔

[25] . أيضاً۔

[26] .ابو عیسی الترمذی، سنن ترمذی، باب الوضوء۔

[27] . ابن جوزى ،فتح المغیث ، مطبع لكھنو ، ص،  14۔

[28] . ملا على قارى ،موضوعات، مطبعہ مجتبائى دهلی،   ص 29 ۔

[29] ۔ محمد ابو زہرۃ ،تاريخ حديث ومحدثين ، ناشران قرآن لمٹیڈ اردو  بازار لاهور۔

[30] .   محمود الطحان، تيسير مصطلح الحديث ،دار الفكر بيروت ، 1/7۔

[31] . ابن الاثير، جامع الأصول من احاديث الرسول ، تحقيق محمد حامد ،بيروت ، ص:114،       محمد ابو زہرۃ ،   تاريخ حديث ومحدثين ، ص، 618۔

[32] .   العلائى، صلاح الدين ، حافظ،  جامع التحصيل فی أحكام المراسيل، عالم الكتب بيروت، 1/138۔

[33] .    ابن حجر، نزهۃالنظر فی توضيح نخبۃالفكر فی مصطلح أهل الأثر،1/32۔

[34] . ابو عیسی الترمذی، سنن ترمذی،  تحقيق احمد محمود شاكر، بيروت، رقم، 48۔

[35] .    نزهۃالنظر ،1/32۔

[36] .  تيسير مصطلح الحديث ، 1/7۔

[37] .  حافظ ابن قيم ، الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافی، دار الفكر بيروت ۔

[38].   السخاوى ،التحفۃ اللطيفۃ فی تاريخ المدينۃالشريفۃ، مصدر الكتاب : موقع الوراق ،  2/57۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...