Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

قرآن کا تصور امن اور عصر حاضر |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1067

Pages

52-70

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/107/97

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/107

Subjects

Peaceful Forgiveness Characters Barbarism Testimony Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام امن و آشتی کا نام ہے اس کے ہر عمل سے سلامتی کی شعاعیں پھوٹتی ہیں اور امن کی کرنیں پھیلتی ہیں۔ ہر باشعور آدمی غور و فکر کی نعمت سے اس حقیقت کو پاسکتا ہے ۔ نبی کریم ﷺکی آمد سے قبل انسانوں کے اعمال جس خباثت اورطاغوتیت میں مبتلا تھے اسلام نے ان ہی اعمال ذمیمہ و عقائدِ باطلہ کو اُسوۂ حسنہ کالبادہ چڑھاکراُنھیں محبت، مروت اور امن ، سلامتی کا دلدادہ بنادیا ۔

اﷲتعالیٰ تمام مخلوق کا مالک ہے ،اور اس کا قانون خالص انصاف پر مبنی ہے ،اور جب انصاف کی حکومت قائم ہوگی تو امن قائم رہے گا ، دنیا کے امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہوجو خدا کا قانون ہے ۔اس لیے تمام دنیا کے اعلیٰ حکمرانون کے لیے بالعموم اور اُمت مسلمہ کے لیے بالخصوص خلافت راشدہ ایک بے مثال نمونہ ہے۔ حکمرانی کے حوالے سے اگر اسلامی حکمران اِن کو اُسوۂ بنالیں تو امن وامان بھی مثالی ہوجائے گا اورخوش حالی بھی لا ثانی ہو گی ، اور غیروں کے حملے اوریلغار سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

قرآن مجید میں امن سے متعلق بڑے جامع ہدایات موجود ہیں  جن کو ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقسیم کرکے  ذکر کرتے ہیں قرآن نے انسان  کے بنیادی حقوق کا تذکرہ کیا ہے لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ عدل و انصاف ورواداری دوسروں پر ظلم کے روک تھام کا تلقین کرتا ہے آپس میں باہمی تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے  تاکہ امن وامان کےنعمت سے   انسان اور معاشرہ مالامال ہو جائے ۔

قرآن حکیم اور قیام امن :

قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے  کیونکہ فساد سے روئے  زمین سے سکون اور امن خراب ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

والله لا یحب الفساد 1 ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ فساد کو  پسند نہیں کرتا ’’

اور نہ فساد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے:  فرمان ہے:

إن الله لا یحب المفسدین2 ،  ْْ ْبے شک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو نا پسند کرتا ہے ’’،

اور یہ بھی فرمایا کہ تم سکون اور امن برباد نہ کرو ۔ ارشاد خدا وندی ہے :

لا تفسدوا  فی الارض بعد اصلاحها3  ْ ْاور اصلاح کے بعد فساد نہ کرو ’’

وہ آیات جس میں اللہ تعالیٰ موضوع امن کے متعلق قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور اس طرح امن کے مشتقات جیسے الایمان، الآمانة والمؤمنون تو یہ ۷۰۰ آیات تک  ہیں، اور وہ آیات جس میں موضوع امن کے متعلق فقط بحث کرتے ہیں تو وہ   پچاس  تک ہیں ،اور جس میں یہ بیان ہوا  کہ ایمان مشتق ہے  اور امن فعل ثلاثی  ہے اس طرح کے آیات تقریبا  تین سو  کے لگ بھگ ہیں  ۔(4)

قرآن مجید میں فتنہ کا مفہوم: 

فتنہ کے اصل معنی آزمائش اور کھرے کھوٹے کی پہچان کرنے کے ہیں ، اگر اس لفظ کا فاعل اللہ ہو اور اس کی نسبت خدا کے طرف سے ہو تو آزمائش کے معنی میں ہے اور اگر اس کی نسبت انسانوں  کی طرف ہو   تو قرآن نے درج ذیل معنی میں  فتنہ کو استعمال کیا ہے:

=='۱ ۔کمزوروں پر ظلم  :==' ان کے جائز حقوق سلب کرنا، دربدر کرنا، تکلیف پہنچانا، ارشاد ہے :

(الف): ثم إن ربک للذین هاجروا من بعد ما فتنوا5

ْ ْجن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد  ہجرت کی ٗ ٗ۔

(ب):وإخراج اهله منه أکبر عندالله والفتنة أکبر من  القتل6

‘‘اور اس کے رہنے والوں کو نکال دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا گناہ ہےاور( فساد یعنی  شرک کرنا  )اس قتل سے بھی زیادہ سخت ہے’’ ۔

۲۔ جبر و استداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبول حق سے لوگون کو روکنا ،مثلا: ’’

فما أمن لموسیٰ  إلا ذریة من قومه علی خوف فرعون وملأئهم أن یفتنهم7

‘‘ پس موسیٰ  علیہ السلام  پر ان کی قوم میں سے  صرف قدر ےقلیل  آدمی ایمان لائے  وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے’’ ۔

۳  ۔ لوگوں کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع و فریب و طمع کی کوششیں کرنا  :

جیسے اللہ تعالیٰ قرآن میں  فرماتے ہیں  : وان کادوا لیفتنونک عن الذي أوحینا إلیک لتفتری علینا غیره8

ترجمہ :یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے ہیں کہ اس کے سوا  کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑگھڑا لیں۔

۴ ۔ غیر کےلئے جنگ کرنا اور قتل و خونریزی کرنا:

جیسے اللہ تعالیٰ قرآن میں  فرماتے ہیں  : ‘‘ولودخلت علیهم من أقطارها ثم سئلو الفتنة لاتوها وما تلبثوا بها إلا یسیراً 9 اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر( لشکر ) داخل کئے جاتے پھر ان سے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کر دیتے  اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت.

کلما ردوا الیٰ الفتنة أرکسوا فیها10،لیکن جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دئیے جاتے ہیں ٗ ٗ۔

۵ ۔ پیروان حق پر باطل پرستوں کا غلبہ اور ظلم و زیادتی:

جیسے اللہ تعالیٰ قرآن میں  فرماتے ہیں  :

إلا تفعلوه تکن فتنة في الأرض و فساد کبیر11

‘‘ اگر تم نے ایسا نہ کیا  تو ملک میں فتنہ ہو گا  اور زبردست فساد ہو جائے گا’’ ۔

فساد کا مفہوم:

ہر وہ فعل جو عدل و انصاف و صلاح کے خلاف ہو فساد ہے ۔ قرآن میں عموما اس کا اطلاق اجتماعی اخلاق اور نظام تمدن و سیاست کے بگاڑ پر کیا گیا ہے مثلا قرآن فرعون عاد و ثمود کو فساد کا مجرم قرار دیتا ہے:’’

الذین طغوا في  البلاد فأکثرو فيها الفساد12

‘‘ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا اور بہت فساد مچا رکھا تھاٗ ٗ۔

==ملک میں بد امنی پھیلانے والوں کےلئے  سزائیں==:

قرآن نے جرائم پیشہ افراد کو سخت سے سخت سزا کا اعلان فرمایا ہے:

إنما جزآؤ یحاربون الله و رسوله و یسعون في الأرض فساداً أن یقتلو أو یصلبو أو تقطع أیدیهم وارجلهم من خلاف او ینفوا من الأرض ذلک لهم خزی في الدنیا ولهم في الآخرة عذاب عظیم(13)

‘‘جو لوگ اور اس  کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کیا

جائے یا سولی پر لٹکا یا جائے  یا ان کے ہاتھ الٹی طرف سے کاٹے جائے یا ان کو ملک بدر کیا جائے یہ ان کے لئے دنیا

میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے’’۔

قتل نفس کی ممانعت:

قرآن مجید میں قتل نفس کو یعنی بے گناہ انسان کے قتل کو  پورے انسانیت کا قتل قرار دیا ارشاد فرمایا:

من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعًا ط ومن أحیاها فکأنما أحیا الناس جمیعاً (14) ‘‘جس نے کسی کو بغیر قصاص کے  یا بغیر زمین میں  فساد پھیلانے  کی سزا قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا  اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی اس نے گویا سارے انسانوں کی جان بچائی’’۔ 

اور اس کے لئے سخت وعید سنائی :

رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا:

من یقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤه جهنم خلداً فیها و غضب الله علیه ولعنه وأعد له عذابا عظیماً(15)اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہے  جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  اس پر اللہ کا عذاب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

قتل نا حق کو بھی ممنوع قرار دیا ہے:

جیسے اللہ تعالیٰ قرآن میں  فرماتے ہیں  :  ولا تقتلوا النفس التی حرم الله إلا بالحق ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیه سلطنا فلا یسرف في القتل  انه کان منصوراً (16)،

‘‘اور جس جان کو اللہ نے محترم قرار دیا اسے ناحق قتل نہ کرو جس شخص کو نا حق قتل کیا گیا تو ہم نے اس کے وارث کو قصاص کے مطالبے کا اختیار دیا لہذا اسے چاہئے وہ قصاص لینے میں کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کیونکہ قانون میں اس کی داد رسی کی گئی ہے ’’۔

==اللہ تعالیٰ نے رزق کا وعدہ بذات خود لیا ہے:== 

رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہیں کہ تم تنگ دستی کی وجہ سے یا شرم و عار کی وجہ سے اپنے بچوں کا قاتل نہ بنو 

ولا تقتلوا اولادکم من  املاق ‘‘(17)اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو’’،

ولا تقتلو أولادکم خشیة املاق نخن نرزقهم و إیاکم إن قتلهم کان خطا کبیرا(18) ، 

‘‘اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی  بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘اور اپنی  بیٹیوں کو زنددہ دفن کرنے سے ممانعت کی گئی  کہ اگر تم اپنی بیٹیوں کو عار اور شرم کی علامت سمجھتے ہو   تو تم کہاں سے آئے ہو تمہاری ماں بھی کسی کی بیٹی ہوگی جو تم اپنی بیٹیوں کو باعث عار گردانتے ہوٗ ٗ ۔

            واذا الموءدة سئلت ط  بأی ذنب قتلت(19) ،

‘‘اور جب زندہ گاڑی گئی بچی سے پوچھا جائے گا وہ کس گناہ میں ماری گئی؟  ٗ ٗ۔

خودکشی سے منع فرمایا:

دوسروں کا قتل تو جرم ہے ہی خودکشی کو بھی منع فرمایا، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’

ولا تقتلوا أنفسکم (20)، ْ ْ ْاور اپنے آپ کو ہلاک مت کرو ٗ  ٗ۔

قصاص کو زندگی کہا:

دوسروں کے قتل کا قصاص قاتل سے لیا جائے گا ’’

یٰٓأیها الذین آمنوا کتب علیکم القصاص في القتلیٰ (21)

‘‘اے ایمان والو! مقتول کے خون کا قصاص (بدلہ لینا) تم پر فرض ہےٗ ٗ۔

ظالم کے خلاف جہاد کی اجازت:

قرآن مجید ظالم کو ظلم سے باز رکھنے  اور اس ظالم کے دماغ کو ٹھکانے لگانے کےلئے  مظلوم کی مدد کو  ضروری قرار دیتا ہے تاکہ امن سب کو یکساں ملے ۔’’

اذن للذین یقٰتلون بانهم ظلموا وان الله  علی نصرهم لقدیر ط الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق إلا ان یقولوا ربنا الله‘‘(22)

‘‘جن مظلوم مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے  انہیں اب جوابی کاروئی کی اجازت دی جاتی ہے  بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے  ان بے چاروں کو ان کی گھروں سے نکالا گیا صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہےٗ ٗ۔

قرآن امن اور صلح کو ترجیح دیتا ہے :

قرآن غیر مسلم یعنی عیسائی اور یہودی وغیرہ کو بھی امن میں برابر کا حقدار  قرار دیتے ہیں :

ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع و بیع و صلٰوت و مسجد یذکر فیها اسم الله کثیرا(23) ،

‘‘ اور اگر اللہ تعالیٰ  لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرے تو خانقاہیں ،گرجے ،عبادت خانےاور مسجدیں  جن میں اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب ڈھا دیئےجایئںٗ ٗ۔

قرآن  اللہ کے خاص بندوں کے اوصاف بیان کرتا ہے:

قرآن کریم میں جہاں  خدا نے بندگان خاص کے اوصاف بیان کئے ہیں  ان میں ایک یہ بھی ہے  کہ میرے بندے انسانیت کے ساتھ ظلم نہیں کر سکتے بلکہ وہ کمزوروں اور جنگی قیدیوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں حالا نکہ وہ خودکھجور کھا کر سو جاتے اور  قیدیوں کو  روٹی کھلاتے تھے  اللہ نے ارشاد فرمایا ہے :  ’’

ویطعمون الطعام  علیٰ حبه مسکیناً ویتیماً واَسیراً (24)  ،

‘‘اور یہ لوگ خدا  کی محبت میں مسکین کو اور یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیںٗ ٗ  ۔

اور جنگ صرف  إعلاء کلمۃ اللہ  کے لئے :

قرآن میں ان لوگوں کے لئے سخت قسم کے الفاظ بیان ہوئے ہیں جو جنگ خالصۃً دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے کرتے ہیں ، جنگ احد میں اس بناء پر فتح کے قریب  جنگ میں کچھ لوگ مال غنیمت جمع کرنے  میں مصروف ہو گئے  تو یہ آیت اتری : ’’ 

         منکم من یرید الدنیا و منکم من یرید الآ خرة(25) ،

‘‘تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طلبگار تھے ، اور کچھ آخرت کے’’  ۔(26)

جنگ بدر میں لوگوں نے اجازت سے پہلے غنیمت جمع کرنی شروع کی تھی تو یہ آیت اتری :

یریدون  عرض الدنیا والله یرید الآ خرة (27)،

  ‘‘َ تم لوگ دنیا کی پونجی چاہتے ہو ، اور خدا آخرت چاہتا ہے ’’۔ (28)

صلح کو پسند فرمایا:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :

وإن جنحوا للسلم فا جنح لها (29)

‘‘اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کےلئے جھک جاؤ ٗ ٗ، والصلح خیر(30) ‘‘ اور صلح بہتر ہے ٗ ٗ۔

مسلمانوں کی باہمی صلح کو بھی پسند فرمایا:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : 

وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ج فان بغت احداهما علی الاخری فقاتلوا التي تبغی حتی تفیء الیٰ امر الله ج فإن فاءت فاصلحوا بینهما بالعدل واقسطوا ط إن الله یحب المقسطین (31) ، 

‘‘اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں  تو ان کے درمیان صلح کرا دو پھر  اگر ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک  کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کراؤ اور انصاف کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے’’۔

قرآن  ایفائے عہد کی تلقین کرتا ہے:

  اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

واوفوا بالعهد ان العهد کان مسئولاً (32)

            ‘‘اور عہد کو پورا کرو بے شک عہد کی پوچھ ہوگی’’۔

آگے فرماتے ہیں : یٰآیها الذین امنوا اوفو بالعقود (33)

‘‘اے ایمان والو! عہدو پیمان پورے کرو’’۔

قرآن مجید ناپ تول صحیح رکھنے کی تلقین کرتا ہے :

تاکہ دوسروں کے حقوق ان تک  پہنچ جایئں ’’

واوفو الکیل و المیزان بالقسط (34)،

‘‘ اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو’’  ،

  اور اسی طرح  کسی کا مال ناحق کھانے سے محفوط ہوجائے ،  دوسری جگہ فرماتے ہیں :

’’ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (35) ،

‘‘ اور ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ کھاؤ’’۔

قرآن عزت نفس و آبرو کا حق دیتا ہے :

اس لئے کے عزت نفس اور مال محفوظ نہ ہونے پر معاشرے میں بد امنی پیدا ہوتی ہے : ’’ لا یسخر قوم من قوم ۔۔ ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزو بالألقاب۔۔ ولا یغتب بعضکم بعضا(36)، مرد مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔۔اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو۔۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے‘‘

دوسروں کو گالی نہ دینا اورمذہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق :

دوسروں کو گالی دیناچوں کہ بدامنی کی سبب بنتا ہے اس طور پر اگر تم آج کسی کو گالی دیتے ہو خدا نخواستہ وہ آپ کے معبود برحق اور نبی برحق کو گالی دیتے رہیں گے  اس بناء پر گالی دینا غیر اخلاقی فعل قرار دیاگیا ’’ ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ(37) ‘‘ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں تم ان کے معبودوں کو گالی نہ دوٗ ٗ۔

عدل و انصاف و مساوات:

قرآن عدل و انصاف اور مساوات  کا داعی ہے کیونکہ جب تک معاشرے میں  عدل و انصاف اور مساوات نہ ہو تو بدامنی کے چرچے ہوں گے کسی کو اپنا حق نہ ملے تو  وہ پورے سسٹم کو مفلوج کرنے پر تلا ہوتا ہے معاشرتی اور اقتصادی امن اور ترقی مکمل امن کے بغیر ناممکن ہے اس امن کے حصول کےلئے عدل و انصاف اور مساوات بہت اہمیت کا حامل ہے  قرآن اس کی تلقین کرتا ہے ’’

إن الله یأمر بالعدل(38) ‘‘بے شک اللہ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہےٗ ٗ،

اعدلوا هو اقرب للتقوٰی(39)  ‘‘انصاف کرو یہی تقوی سے زیادہ قریب ہے   ،   ’’

والله یحب المقسطین (40) ‘‘اور اللہ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے  ،   ’’

واذا حکمتم بین الناس أن تحکموا بالعدل (41) ،

‘‘اور جب  لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو  ٗ ٗ،

یٰٓأیها الذین آمنوا کونوا قوّامین لله شهدآء بالقسط(42)

ْ ْ اے ایمان والو! اللہ کےلئے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنوٗ ٗ۔

مشرک کےلئے بھی پناہ کا حکم :

مشرک  کو بھی پناہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے تاکہ اس کو مذہب اسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے اور شرک سے باز آئے ،

وان احد من المشرکین استجارک فاجره حتی یسمع کلٰم الله ثم ابلغه مأ منه ذالک بأنهم قوم لا یعلمون(43) 

‘‘اور کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے پھر اس کی اس کی امان کی جگہ پہنچادو  کیوں کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے ’’۔

مکہ امن کا شہر:

قرآن کریم نے مکہ کو امن کا شہر بتایا ہے اور یہ برکات جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کی دعا کے بدولت مکہ کے شہر امن والا بنا یا تھا قرآن نے ذکر کیا ہے’[ و هٰذا البلدالامین‘] (44)

دوسری جگہ فرماتےہیں ، ’’ واذ قال ابراهیم رب اجعل هذا البلدا امنا(45)اور یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی تھی ‘‘ ، ’’  اے میرے رب ! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے ٗ ٗ۔

بیت اللہ  شریف امن کی جگہ:

اللہ تعالیٰ  قرآن کریم میں اپنے محبوب کے وطن مبارک حرمین کے بارے میں فرماتے ہیں : 

إن اوّل بیت وضع للناس للذی ببکة مبٰرکا و هدی للعٰلمین ط فیه آیٰت بینت مقام ابراهیم ط ومن دخله کان آمنا(46)،

‘‘بے شک اللہ کا سب سے پہلا گھر جسے اس نے لوگوں کے لئے عبادت کا مرکز قرار دیا وہی ہے جو مکے میں ہے

  برکت والا اور سارے جہان کےلئے ہدایت کا سر چشمہ ہے وہاں اللہ کی کھلی نشانیاں ہیں  مقام ابراہیم ہے جو کوئی وہاں داخل ہو جائے اسے امن حاصل ہے ’’۔

==شخصی زندگی  و تحفظ اختیار== (حقیقی  آزادی):

    گھریلو زندگی یعنی انفرادی زندگی میں ہر کسی کو اختیار ہے تاکہ وہ اپنے راز پوشیدہ رکھ سکیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے   کسی کے گھر جانے کو اس  کے اجازت پر  موقوف کر دیا تاکہ عام زندگی بھی ہر  انسان کی ضرورت ہوتی ہے، وہ حق بھی ہر کسی کو حاصل ہو چناں چہ فرمایا: 

یاأیها الذین آمنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستأنسو و تسلموا علی اهلها(47) ،

  ‘‘ اے ایمان والوں ! تم اپنے گھر کے  سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو ، جب تک اجازت حاصل نہ کر لو اور ان کو سلام نہ کرلو’’۔

جاسوسی کی ممانعت:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم لوگوں کے عیوب ظاہر نہ کرو  اور نہ کسی کی  کمزوری تلاش کرو کسی کی جاسوسی کرکے اسکی کمزوریوں سے  لوگوں کو آگاہ  کرنا اور اس کے عیوب ظاہر کرنا اس کا حق تلف کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولا تجسسوا (48)‘‘اور ایک  دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو‘‘۔

قرآن کے احکامات  اوامر ونواہی :

اللہ تعالیٰ کے مقدس احکامات بھی خواہ وہ اوامر ہیں یا نواہی انسان  کے بہبود  اور امن پر مبنی ہیں مثلاْ نماز  انسان کو برائیوں اور منکرات سے بچاتا ہے   == ’’ وَأَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ‘‘ ، ’’ اور نماز قائم کرو بے شک نماز فخاشی اور منکرات سے منع کرتا ہے ‘‘ تفسیر طبری  میں علامہ ابن جریر ؒ  فرماتے ہیں کہ’’  فخش ‘‘ سے مراد ’’ زنا ‘‘ اور ’’منکر‘‘ سے مراد معاصی  اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی مراد ہے (۴۹) ۔اور اسی طرح بقیہ اوامر الٰہیہ جو معاشرے کے پائیدار امن کے ضامن   ہیں ۔

اور’’  نواہی ‘‘ وہ احکامات الہٰیہ ہیں  جس میں اللہ تعالیٰ نے  اپنے بندوں کو براہ راست اس گناہ سے  منع کرنے یا کروانے  کا انداز اختیار کیا ہو جیسے  مثلا شراب نوشی  سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا  ’’   يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ‘‘ ’’لوگ آپﷺ  سے شراب اور جوئےکا مسئلہ پوچھتے ہیں  آپ ﷺ ان سے کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں  بہت بڑا گناہ ہے اور  لوگوں کو اس سے  دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہےلیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت ذ یادہ ہے ‘‘ "الخمر" كل شراب خمَّر العقل فستره وغطى عليه ‘‘  علامہ ابن جریر ؒ  اس آیت کے تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خمر ہر اس پینے والی شئی کو کہتے ہیں جو عقل پر پردہ ڈال دے اور عقل کو بالکل  احاطہ کرلے ڈھانپ لے ،  تب عقل کو کسی اچھے برے کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے اسی لئے تو اللہ کریم نے نشہ  کی حالت میں نماز جو اسلام   کا  سب سے  اہم رکن ہے  منع فرمایا :  ’’   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ) (50)، قال: فكانوا يدعونها في حين الصلاة ويشربونها في غير حين الصلاة، حتى نزلت: (إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ) (۵۱)الغرض اللہ تعالیٰ نے انسان   پر  اپنی اطاعت واجب کردی تاکہ کوئی انسان اوامر ونواہی کو بجا لاتے ہوئے انسانیت کے دائرے کھبی پار نہ کرے اور اطاعت الہٰی میں ہی انسانیت کی امن ہے ۔

ظلم کے خلاف آواز اٹھانے(احتجاج) کا حق  :

اگر معاشرے میں کسی انسان یا گروہ کے ساتھ ظلم اور نا انصافی ہو رہی ہوتی ہے  اور کسی کا حق ہڑپ ہو رہا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ  یہ حق ہر کسی کو دیتا ہے  ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الامن ظلم  (۵۲)   ’’   اللہ کو پسند نہیں کہ تم کسی کی برائی بیان کرتے پھر و البتہ مظلوم کو ظالم کے خلاف ایسا کرنے کی اجازت ہے  ‘‘  ۔

بنیادی ضروریات زندگی کا تحفظ:

ضروریات زندگی جو ہر انسان کا  بنیادی حق ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرما رہے ہیں :وفی امولھم حق للسائل والمحروم (۵۳) ‘‘اور ان  کے مال میں سائل اور محروم کا حصہ ہےٗ ٗ۔

الحاصل:۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انسان کی بنیادی   انفرادی ضروریات سے لے کر  وہ تمام تر حقوق کی تصریح کی ہے جو اجتماعی زندگی کی   سکون کا ضامن ہے جس  پر عمل درآمد کرکے کوئی بھی (State ) پر امن  اور ترقی یا فتہ     ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ  کا قانون ہے کہ دنیا میں جہاں عدل    مساوات ہو گی  کسی قسم کی امتیازی قوانین نہ ہوں تو کم سے کم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اس معاشرے کو پر امن اور پر سکون بنا دیتا ہے ۔

جس معاشرے  اور سماج میں انسان کو ہر وقت اپنی جان ومال کی فکر اور اس کے بارے میں خطرہ لگا رہتا ہواور جہاں انسان ہر لمحہ اپنی عزت وآبرو کے بارے میں مختلف اندیشوں سے دوچار ہو۔تووہ کسی صورت میں بھی پُر امن زندگی نہیں گذار سکتا۔بد امنی کا شکار آدمی دوسروں کو بھی بد امنی سے دوچار کر دیتا ہے،اور ایک پُرامن اور متوازن معاشرے کے خدوخال اور بنیادی ڈھانچہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ معاشرے سے معاشی محرومیوں اور خوف و ہراس کا قلع قمع کیاجائے ۔

آج ہم کہتے ہیں  کہ یورپی ممالک میں امن ہے اور ہم ان کی طرف رخ کرتے ہیں  اور ان کی تعریف کر کر کے تھکتے  نہیں اس کی ایک وجہ ہے  ، وہ یہ ہے کہ ان ممالک نے اگرچہ  اسلام بحیثیت مذہب قبول نہیں کیا ہے لیکن اسلامی قوانین کو اپنے سسٹم  میں جذب کرکے بہت حد تک لوگوں کو مطمئن کیا ہوا ہے ۔اور اسلامی ممالک کے سربراہان تو اپنے باشندوں کو اس پر مجبور کر  رہے ہیں کہ وہ انتہا پسند بن جائیں نہ عدل وانصاف ہے  ،انفرادی اور اجتماعی ظلم و ذیادتی شروع ہے ، اسلامی قوانین کو  نظر انداز کر رہے ہیں  تو بلا کیسے ممکن  ہے کہ امن آجائے اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو جائے ۔آمین

 

حوالہ جات

(1)سورۃالبقر ۃ: 2/ ۲۰۵

(2)سورۃ  القصص :28/۷۷ ۔

(3)سورۃ الأعراف:7/ ۸۵ ۔

(4)المعجم المفہرس للآیات القرآن الکریم  لمحمد فواد عبد الباقی ،   باب الھمزہ ، دار الحدیث، القاھرہ،ص:1/81

(5)سورۃ النخل :16/۱۱۰ ۔

(6)سورۃ البقرہ:2/  ۲۱۷ ۔

(7)سورۃ یونس : 10/  ۸۳ ۔

(8)سورۃ  الإسراء :17 /۷۳  ۔

(9)سورۃ أحزاب:33/۱۴۔

(10)سورۃ النساء : 4/۹۰ ۔

(11)سورۃالأنفال : 8 / ۷۳۔

(12)سورۃ  الفجر : 89 /۱۱ـ۱۲۔

(13)سورۃ المائدۃ : 5 /۳۳۔

(14)سورۃ المائدۃ : 5/۳۲۔

(15)سورۃ النساء:  4/ ۹۳۔

(16)سورۃ بنی اسرائیل :17/۳۳۔

(17)سورۃ الأنعام :  6/۱۵۱ ۔

(18)سورۃ بنی اسرائیل  : 16 / ۳۱  ۔

(19)سورۃالتکویر:  81/ ۹۔۸ ۔

(20)سورۃ النساء :  4/۲۹ ۔

(21)سورۃ البقرۃ: 2/ ۱۷۸۔

(22)سورۃ  الحج : 22 /۳۹۔۴۰۔

(23)سورۃ الحج: 22 / ۴۰ ۔

(24)سورۃ الدہر : 76/ ۱ ۔

(25)سورۃ آل عمران  : 3/ ۱۶ ۔

(26) شمس الدين القرطبی:الجامع لأحكام القرآن الکریم، دار الكتب المصریۃ ، القاهرة   ، الطبعۃ: الثانیۃ، 1964 م، ص:4/237    

(27)سورۃ الأنفال : 8/ ۹ ۔

(28)حوالہ سابقہ : ۸/ ۴۶ ۔

(29)سورۃ  الأنفال  : 8 /۶۱۔

(30)سورۃ النساء : 4/ ۱۲۸۔

(31)سورۃ الحجرات: 49/۹۔

(32)سورۃ بنی اسرائیل: 17/۳۴۔

(33)سورۃ المائدہ:  5/۵۱ ۔

(34)سورۃ الانعام: 6/۱۵۳۔

(35)سورۃالبقرۃ:  2/ ۱۸۸۔

(36)سورۃ الحجرات  :  49/۱۱۔

(37)سورۃ الأنعام :  6/ ۱۰۸۔

(38)سورۃ النحل:  16/۹۰۔

(39)سورۃ المائدۃ: 5/ ۸۔

(40)سورۃ المائدۃ: 5/۴۱۔

(41)سورۃ النساء: 4/ ۵۸۔

(42)سورۃ المائدۃ: 5/۸۔

(43)سورۃ التوبۃ:  9/۶۔

(44)سورۃ التین:  95/۳۔

(45)سورۃ إبراہیم : 14/۳۵  ۔

(46)سورۃ  آل عمران: 3/۹۷۔۹۶۔

(47)سورۃ النور:  24/۲۷  ۔

(48)سورۃ الحجرات: 49/۱۲ ۔

(49) سورة العنكبوت  الآیۃ:  ۴۵  ، تفسیر طبری   ،جامع البیان فی تاویل القرآن ،  لمحمد ابن جریر ابو جعفر طبری  ، ج ۲۰/۴۱،  ط،الاولی(ٰ۱۴۲۰ھ ۔۲۰۰۰م)،الناشر ، موسستہ الرسالہ۔

(50) سورة النساء:5/ 43۔

(۵۱) سورة المائدة: 90  ،  تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر طبری ۴/۳۳۱۔

(۵۲)   سورۃ النساء :۵/ ۱۴۸

(۵۳) سورۃ  الذاریات: 51/۱۹ ۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...