Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 2 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

مختلف ادیان میں سزاؤں کا تصور اور اسلامی حدود پر غیر انسانی ہونے کے الزام کا تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060029336_1166

Pages

35-46

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/83/74

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/83

Subjects

Hudūd World Religions Punishment

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

حدوداورحد کا لغوی معنی:

حدود جمع ہے اور اس کا مفر د حد ہے یہ عربی زبا ن کا لفظ ہے اس کا مادہ ،ح دد،یعنی حدد ہے (1)یہ ایک کثیر المعنی لفظ ہے ،عربی لغت میں اس کا معنی ہے ،الفصل ،الحاجز، منتهیٰ الشئ، رق الشفرة، الدفع، المنع، تمییز الشئ عن الشئ (2)

"سرحد ،باڑھ ،کسی شی کی انتہاء ،طرف کنارہ ،سرا،دھار ،مانع ،کسی چیز کا دفع کرنا ،اس سے بچنا ،کسی شے کو دوسرے شے سے جداکرنا "۔

حد کا اصطلاحی معنی :

حد کے لغوی معنی سے یہ بات واضح ہوئی کہ حد وہ  ڈیڈ لائن ،انتہاء اور رکاوٹ ہے جس سے تجاوز کرنا منع ہے ۔چنانچہ حدود اللہ کی اصطلاح ایسے امو ر کے لئے وضع شدہ ہے کہ جن سے تجاوز کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔وضاحت کے ساتھ حدود اللہ سے مراد وہ امور ہیں کہ جن کی حلت وحرمت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے اور ساتھ ہی  یہ بیان فرمایا ہےکہ :

تِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا(3)۔  "یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا"۔

تِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا(4)۔"یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا"۔

یہ طے ہو اکہ جو ان حدود سے تجاوز کرے گا وہ مستوجب سزا ہوگا ۔

قدیم لغت نویس الازھری کہتے ہیں کہ حدود اللہ دو طرح کی ہیں ۔

1:         حلال وحرام کی وہ حدود جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے کھانے پینے اور ازدواجی معاملات کے سلسلہ میں مقر ر فرمائی ہیں اور جن کے بارے میں  حکم ہے کہ ان سے تجاوز نہ کرو ۔

2:         دوسری سزاکی وہ مقداریں جو بعض جرائم پر مقر کردی گئی ہیں جیسے حد قذف میں اسی کوڑے اور حد سرقہ میں قطع ید (5)

حد فقہاء کی اصطلاح  میں  :

حدود فقہاء کی اصطلاح میں  وہ خاص سزائیں ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے پر بطور تادیب دی جاتی ہیں ۔علامہ شوکانی فرماتے ہیں :فی الشرع عقوبة مقدرة لاجل حق الله فیخرج التعزیر لعدم التقدیر والقصاص لانه حق آدمی(6)۔

"شریعت میں حد اس مقرر سزاکو کہتے ہیں جو حق اللہ کے طور پر متعین کی گئی ہو ،تعزیر اس سے خارج ہے کیونکہ تعزیر ی سزامقرر نہیں اور قصاص بھی اس سے خارج ہے کیونکہ قصاص حق العبد ہے حق اللہ نہیں ہے "۔

علامہ سرخسی فرماتے ہیں :

وفی الشرع الحد اسم لعقوبة مقدرة تجب حقالله تعالیٰ ولهذا لایسمیٰ التعزیر لانه غیر مقدرة ولا یسمیٰ به القصاص لانه حق العبد. (7)

" شریعت میں حد اس مقرر ہ سزا کا نام ہے جو اللہ کے حق کے طور پر واجب ہوتی ہے اس لئے تعزیر کو اسم حد سے موسوم نہیں کرتے کہ وہ غیر مقرر کردہ سزاہے اور نہ ہی قصاص کو حد کانام دیا جاتا ہے کہ وہ حق اللہ نہیں حق العبد ہے"۔

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں : ان الحد هو العقوبة المقدرة شرعا(8)"حد شریعت کی مقرر کردہ سزاہے "۔

فقہائے احناف کے علاوہ باقی جمہور  فقہاء نے حد کی اصطلاحی  تعریف یہ کی ہے ۔

عقوبة شرعا سواء کا نت حقالله ام للعبد(9)

" شرعی سزا خواہ حق اللہ کے طور پر ہو یا حق العبد کے طور پر "۔

جرائم واجب الحد کی تعداد :

فقہاء نے بالعموم پانچ جرائم کو قابل حد قرار دیا ہے جو درجہ ذیل ہیں :

(1)حد زنا (2)حد قذف(3)حد سرقہ (4)حدحرابہ(5)حد شرب ۔

حدود کی تعداد کے بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں ۔بعض کے نزدیک قابل حد جرائم تین ہیں ،بعض کے نزدیک چھ ،بعض کے نزدیک آٹھ ،بعض کے نزدیک گیارہ  اوربعض نے سترہ جرائم کو جرائم حد قرار دیا ہے۔

فقہ حنفی میں قابل حد پانچ جرائم ہیں اس لئے یہاں پہ اسی کو ہی موضو ع بحث بنادیا گیا ہے ۔مذکورہ جرائم میں سے چارجرائم (حدزنا ،حدقذف ،حد سرقہ،حدحرابہ )تو ایسے ہیں جو قرآن پاک میں صراحتا مذکور ہیں رہا معاملہ حد شرب خمر کا تو وہ حدیث اوراجماع صحابہ  سے ثابت ہے۔ ان کے علاوہ باقی جرائم میں تعزیری سزادی جاتی ہے ۔(11)

قابل حد جرائم  کی مقدار سزاء :

قرآن کریم نے چارجرموں کی سزائیں خود مقرر کی ہیں ۔(1)حد حرابہ کی سزاء داہنا ہاتھ بایاں پیر (2)چوری کی سزا داہنا ہاتھ پہونچے پر سے کاٹنا ۔(3)زنا کی سزابعض صور توں میں سو کوڑے (جب زانی یا زانیہ غیر شادی شدہ ہو)اور بعض صورتوں میں سنگسار کرنا (جب زانی یا زانیہ شادی شدہ ہو )۔(4)زنا کی جھوٹی تہمت کسی پر لگانے کی سزاء  اسی کوڑے ہیں (5) پانچویں حد شرعی شراب پینے کی ہے جو بااجماع صحابہ اسی کوڑے مقر ر کئے گئے ہیں ۔ان پانچ جرائم کے علاوہ  باقی تما م جرائم کی سزاء حاکم وقت کی صوابدید پر

ہے ۔  (12)

اسلام کا نظام جرم وسزا اور نفاذ حدود کا فلسفہ :

اسلام میں جرم کی تعریف :

الماوردی نے لکھا ہے : اتیان فعل محرم معاقب علیٰ فعله اوترک فعل واجب معاقب علیٰ ترکه. "ایسے فعل محرم کا ارتکاب جس کا کرنا قابل سزاہو یا ایسے لازمی فعل کا ترک کردینا جس کا ترک کرنا قابل سزا ہو" ۔(12)

دوسری تعریف :الجرائم هی محظورات شرعیة زجرالله عنها بحد اوتعزیر۔(13)

" جرائم وہ شرعی ممانعتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے حد یا تعزیر کے ذریعے منع کردیا ہو"۔

امام غزالی رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق اسلامی نظام جرم وسزاکا فلسفہ دراصل یہ ہے کہ اسلام انسانی مصالح کا سب سے بڑا محافظ ہے چنانچہ شریعت اسلامیہ نے انسانی مصالح کے تحفظ کی غرض سے کچھ سزائیں مقرر کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

" جلب منفعت اور دفع مضرت مقاصد خلق میں سے ہیں ،مخلوقات کی اصلاح ان کے مقاصد کے حصول میں

دائر ہیں ۔مصلحت سے مراد شریعت کے پیش نظر مخلوقات کے پانچ مقاصد ہیں ،تحفظ دین ،تحفظ نفس ،تحفظ عقل ،تحفظ نسل اور تحفظ مال ۔اب جو امر ان اصول خمسہ کی حفاظت کرنے والا ہو وہ مصلحت ہے اور جس سے ان اصولوں کو نقصان پہنچتا ہو وہ مفسدہ ہے اور اس کا دور کرنا  مصلحت ہے ۔ان اصول خمسہ کا تحفظ ضرورت کے درجہ میں ہے اور یہ مصالح کے درجات میں قوی ترین درجہ ہے ۔گمراہ کافر (مرتد )اور بدعتی لوگوں کے دین کو تباہ کرتا ہے اس لئے شریعت نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے اور جرم قتل پر قصاص مقرر کیا ہے تاکہ تحٖفظ نفس کے مقصود کو حاصل کیا جاسکے ۔عقل انسان کے مکلف ہونے کی اساس ہے ،اس عقل کے تحفظ کے لئے شراب نوشی کی سزا مقرر کی گئ ہےاسی طرح حد زنا کو لازم کیا ہے تاکہ انساب کا تحفظ کیا جائے۔غاصبوں اور چوروں کے لئے سزامقرر کی  ہے تاکہ لوگوں کے مال کو اور ان کی معیشت کو تحفظ فراہم کیا جاسکے ۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی شریعت ان پانچ اصولوں کی پامالی کو جائز قرار دے اور ان کی حفاظت کے لئے ان کو پامال کرنےوالوں کی سرزنش اور تنبیہ کا سامان نہ کرے اس لئے کفر ،قتل ،زنا ،سرقہ اور نشہ آور آشیاء کا استعمال ہر شریعت میں حرام قرار دیا گیا "۔(14)

امام غزالیؒ کے بیان سے معلوم ہو ا کہ شریعت کے جملہ اوامر ونواہی کلیۃً انسانی مصالح پر مبنی ہیں اور انسانی مصالح کی اساس مندرجہ ذیل پانچ امور ہیں ۔(1)حفظ دین ،(2)حفظ نفس، (3)حفظ عقل ،(4)حفظ نسل ، اور(5)حفظ مال۔

اسلام میں سزا کا مقصد :

اسلامی نقطہ نظر سے سزاکا مقصد دراصل دفع مفاسد اور حصول مصالح پرمبنی ہے چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒنے سزاکی تعریف کچھ یوں کی ہے : العقوبة فی الشریعة هی الجزاء لمن خالف اوامرا لله ونواهیه والعقوبة شرعت داعیه الیٰ فعل الواجبات وترک المحرمات۔(15)

"عقوبت دراصل شریعت میں اس شخص کی سزا کا نام ہے جس نے اللہ کے اوامر ونواہی کی مخالفت کی ہو اور سزااس لئے مقر ر کی گئی ہے تا کہ یہ واجبات کے انجام دینے اور محرمات کے ترک کرنے پر آمادہ ہو "۔

علامہ ماوردیؒ لکھتے ہیں:ای ان العقوبا ت زواجر وضعها لله تعالیٰ عن ارتکاب ما حظر وتر ک ما مر۔(16)

" سزائیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقر ر کردہ زواجر ہیں تاکہ کوئی اس کے احکا مات کی خلاف ورزی اور اس کے منہیا ت کا ارتکاب نہ کرنے پائے"۔

علامہ کاسانی ؒفرماتے ہیں عقوبت نا م ہے:الانزجار عما یتضرر به العباد کله۔(17)

"سزا ہر اس برائی سے روکنے کا  نام ہے جس سے مخلوق خد اکو ضرر اور تکلیف پہنچتا ہو"۔

سزا کا دوسرا مقصد اصلاح ہےتاکہ مجر م میں میلان  جرم راسخ نہ ہوجائےاور یہ ایسا مقصد ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شریک ہیں ۔

تیسرا مقصد:تطہیر عن الذنوب  یعنی شرعی سزا  سے مسلمان کی عاقبت درست ہوجاتی ہے اور حساب کے دن اس سے اس کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی ۔ ابتداء اسلام میں اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اعتراف جرم کرکے ازخود سزا کا مطالبہ کرتا تھا ۔

اسلامی حدود کا عالمی مذاہب کے سزاؤں کے ساتھ موازنہ :

آج کل اسلامی حدود کو بے رحمانہ اوروحشیانہ تصور کیا جا تا ہے لیکن اسلام نے جرم وسزا کا جو تصور پیش کیا ہے اس سے بہتر تصور آج تک کسی نظام نے پیش نہیں کیا ،ظاہر ہے کہ انسان اور کائنات کے خالق نے جو سزاتجویز فرمائی ہے اور پھر اس کی جو حکمت بیان کی ہے اس کے مقابلہ میں خود مخلوق کی تجویز کردہ سزاؤں کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے یہ تو انسان کی نادانی ہے کہ وہ اپنی تجویز کردہ سزاؤں کو اپنے پیداکرنے والے اور معبود کی مقررکردہ سزاؤں سے بہتر سمجھتے ہیں۔

کتاب مقدس کےمروجہ مجموعہ بائبل کی پہلی پانچ کتابیں اسفارخمسہ تورات کہلاتی ہیں،  یہود ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اورقابل عمل سمجھتے ہیں ۔

تورات میں سزاؤں کا اجمالی خاکہ درجہ ذیل ہے :

بائبل (تورات)میں رجم کی سزا:

تورات میں  کئی جرائم کی سزارجم (سنگساری )ہے ۔جیسے:

(1)جو خداوند کے نام پر بکے ضرور جان سے ماراجائے ،ساری جماعت اسے قطعی سنگسارکرے ۔(18)

(2)جو شخص اورمعبودوں کو سورج ،چاند یا اجرام فلکی کی پوجا کرے اس کی سزاپھانکوں سے باہر لے جاکر ایساسنگسار کرنا ہے کہ وہ مرجائے ۔(19)

(3)وہ مرد یا عورت جس میں جن ہو یا جادوگر ہو تو وہ ضرور جان سے ماراجائے ایسوں کو لوگ سنگسار  

کریں ۔ (20)

(4)ماں باپ کے نافرمان بیٹے کوشہر کے سب لوگ سنگسار کریں کہ وہ مرجائے ۔(21)

(5)صحرانوردی کے دنوں میں ایک یہودی سبت کے دن لکڑیان اکھٹی کرتے پکڑا گیا،  جماعت نے اسے پکڑ کر حوالات میں بند کردیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحکم خداوندی اسے لشکر گاہ سے باہر لے جاکر خود سنگسار کردیا اور وہ مرگیا ۔(22)

بائبل (تورات) میں آگ  سے جلانے کی سزا:

(1)اگر کوئی شخص بیوی اور ساس دونوں کو رکھے تو تینوں جلادئے جائیں ۔(23)

(2)کپڑا جتنا سفید ہوگا اس پرداغ  اتنا ہی برالگے گا ،چنانچہ اگر کاہن کی بیٹی فاحشہ بن کر اپنے آپ کو ناپاک کرے تو وہ عورت آگ میں جلائی جائے ،کیونکہ وہ اپنے باپ کو ناپاک ٹھہراتی ہے ۔(24)

بائبل (تورات )میں سزائے موت :

(1)قاتل کا ماراجانا باآسانی سمجھ میں آجاتا ہے ۔(25)

(2)لیکن زنا اور لواطت کی  سزابھی موت ہی ہے ۔(26)

(3)جانورسے جماع کرنے والا بھی جان سے مارا جائے ۔(27)

(4)اگر کوئی شخص کاہن (یہودی مولوی )سے گستا خی سے پیش آئے یا قاضی کا کہا نہ مانے تو اسے بھی قتل کردیا جائے ۔(28)

بائبل (انجیل )میں رجم (سنگساری )کی سزا:

(1)حضرت مسیح علیہ السلام کےزمانہ میں بھی زنا کی سزاسنگساری تھی ۔(29)

(2)ستفنس کو شریعت کی مخالفت اور موسیؑ کی رسموں کو بدلنے کے الزام میں سنگسار کیا گیا تھا ۔ (30)

بائبل میں کوڑوں کی سزا:

اگر لوگوں میں کسی طرح جھگڑاہو اور عدالت میں آئیں تاکہ قاضی ان سے انصاف کریں تو وہ صادق کو بے گناہ ٹھہرائیں اور شریر کے خلاف فتوی ٰ دیں اور اگر وہ شریر پٹنے کے لائق نکلے تو قاضی اسے زمین پر لٹوا کر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی شرارت کے مطابق اسے گن گن کر کوڑے لگوائے ، وہ چالیس کوڑے لگوائے اس سے زیادہ نہ مارے ۔(31)

ہندومت میں سزائیں :

ہندو دھرم میں زنا کی سزایہ تھی کہ زانیہ کو بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا تھا ۔تاکہ وہ اسے پھاڑ کھائیں اور زانی کو لوہے کا پلنگ تپا کر اس پر ڈال دیا جاتا  ۔ ہندودھرم کے بعض اشلوک اس قسم کے بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے لئے زنا کی سزا پانچ سوسے ایک ہزار تک جرمانہ کی صورت میں بھی دی جاتی تھی ،زنا کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ زانیہ کس حیثیت کی عورت ہے ،اگر کوئی سپاہی یعنی چھتری کسی برہمنی عورت سے زنا کرتا تو اسے بہت سخت سزادی جاتی تھی۔ سوکھی گھاس یا نرسل اس پر ڈال کر اس کو جلادیا جاتا تھا ۔(32)

ہندو مت میں  چور کی سزا:

عہد برہمنی میں معمول کی اشیاء کی چوری پر چوروں کو معمولی ساجرمانہ کیا جاتا تھا لیکن  بڑی رقم کی چوری کی سزاہاتھ کاٹنا تھی ۔اور اگر کسی چور سے گرفتار کئے جانے پر مال مسروقہ برآمد ہوجاتاتو ایسے چور کو سزائے موت دی جاتی تھی ۔چوری کا مال لینے والوں اور چوروں کوپنا ہ دینے والوں کو بھی وہی سزادی جاتی تھی جو چوروں کو دی جاتی ۔(33)

ہندومت میں ڈاکہ زنی کی سزا:

عہد برہمنی میں ڈاکہ زنی کے مرتکب مجرموں کے ہاتھ کاٹے جاتے اور اگر ڈاکہ زنی کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں کوئی قتل ہوجاتا تو اس صورت میں ڈاکوؤں کو سزائے موت دی جاتی تھی ۔(34)

جو لوگ ڈاکوؤں کو پناہ دیتا یاا نہیں خوراک پہنچاتا تو اس کی سزاموت ہوتی  ۔(35)

بدھ مت میں زنا کی سزا:

بدھ مت میں زنا کی سزایہ تھی کہ زانی زنا کرتا ہواجہاں پکڑا جائے وہیں اسے قتل کردیا جائے ۔ ساتیر کے زمانہ میں قانون یہ تھاکہ  اگر کوئی شخص ایسی حالت میں پکڑاجاتا جس کا  شادی شدہ عورت سے زنا کرنا ثابت ہوتا تو اس شخص کو سزادینے کا اختیار زانیہ اور اس کے شوہر کو دے دیا جاتا  اور وہ جس قسم کی سزادینا چاہتے  دے سکتے تھے ۔ (36)

انگریزی نظام جرم وسزا:

شاہ ولیم دوم کے زمانے میں انسان کے اعضاء بطور سزاکاٹ دئے جاتے تھے۔ شاہ چارلس دوم کے زمانے میں بدعت مذہبی کی پاداش میں لوگ زندہ جلائے جاتے تھے ۔چھوٹے چھوٹے جرائم کی پاداش میں شکنجہ کی سزادی جاتی ۔ 1770ءتک بعض جرائم کی سزامیں بدن کے ٹکڑے کردئے جاتے تھے ،بعض یورپی ممالک میں اور سزائیں مثلا پہاڑ پر سے لڑھکا دینا بھی عام تھا۔تقریبادوسو جرائم ایسے تھے کہ جن کی پاداش میں سزائے موت مقرر تھی ۔(37)

انگریزی نظام جرم وسزامیں کوڑوں کی سزا:

سزاؤں کا جو نظام ہندوستان میں انگریزوں نے نافذکیا تھا اس میں بھی کوڑوں کی سزا کو باقی رکھا گیا تاہم کوڑوں کی سزادینے کے لئے جرائم کی نوعیت کا کوئی تعین نہ تھا۔ خود انگریز مورخ اس بات کے قائل ہیں کہ معمولی نوعیت کے جرائم کے لئے بھی کوڑے مارنے کی سزا عام تھی اور کوڑے کھلے عام لگائے جاتے تھے ،کوڑے لگاتے وقت جنس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا اور عورتوں کو اتنی ہی طاقت سے کوڑے لگائے جاتے  جتنی کہ مردوں کو۔ شکنجے میں کسنے کی سزابھی اس وقت عام تھی۔ (38)عام طور پر تیس کوڑے مارنے کی سزا مناسب سمجھی جاتی تھی ،سنگین جرائم کے لئے تیس کوڑے دویا تین بار لگتے تھے ،عدالتی اندراجات میں بعض ایسے مقدمات ملتے ہیں جن میں کبھی کبھی سو کوڑے تک بھی لگانے کی سزا دی جاتی ۔ (39)بحری قزاق کو سنگین جرم سمجھا جاتا تھا جس کے لئے موت کی سزا مقررتھی ۔رہزنی کی سزا موت تھی ، چوری کے لئے غلام بنانے کی سزامقررتھی ۔(40)

کوڑہ زنی ،غلام سازی اور سزائے موت پر اکتفاء نہیں بلکہ کبھی کبھی ملزموں کو داغٖنے کا اصول بھی "انصاف پسند "انگریزی حکومت  کے دور میں کار فرماتھا۔(41)

قدیم بابلی تمدن اور حد زنا :

زنا قدیم بابلی تمدن میں قبیح فعل سمجھا جا تا تھا اور زانی وزانیہ کےلئے حالات وزمانہ کی  رعایت کرتے ہوئے سزامقرر تھی تا ہم فعل زنا کی انتہائی سخت سزا سزائے موت مقرر تھی ۔قدیم بابلی قانون، قانون اور نمو ،میں زنا کے متعلق ضابطہ نمبر 4اور ضابطہ نمبر 5 کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔

"اگر کسی کی بیوی کسی غیر شخص کو اپنے دامن فریب میں اس طرح گرفتارکرلے کہ وہ اجنبی شخص اس سے جماع کربیٹھے تو اس عورت کے شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو قتل کرڈالے جب کہ اس زانی شخص کو جسے اس عورت نے پھسلایا ہو چھوڑ دیا جائے گا "۔(42)

(ضابطہ نمبر 130)آزاد لڑکی سے زنا بالجبر کی سزاموت تھی ۔

قانون حمورابی کا ضابطہ نمبر 126زانیہ شادی شدہ عورت  کے بارے میں کچھ یوں تھا ۔

"شادی شدہ زانیہ عورت کو باندھ کر دریا میں ڈالا جاتا ،ہاں اگر اس کا شوہر اسے معاف کردیتا یا بادشاہ اسے

چھوڑ دیتا تو خلاصی ممکن تھی" ۔ (43)دوسری جگہ ہے"کہ اگر کوئی بیوی دوسرے شخص کے چرنوں سے  

پکڑی  جائے تو اسے قتل کرنا چاہئے "۔ (44)

جرم زنا اور قدیم مصری تمدن :

مصری تمدن میں زنا کی سخت  سزا دی جاتی ،بعض قوانین سے پتہ چلتا ہے کہ زانی اور زانیہ کو دریا برد کرکے یا نذر آتش کرکے سزائے موت دی جاتی تھی۔ اس سلسلہ میں ایک روایت یوں ملتی ہے کہ ایک نوجوان کا کسی کاہن کی بیوی سے ناجائز تعلق قائم ہوگیا چنانچہ کاہن نےاس نوجوان کو مگر مچھ کے منہ میں ڈلوادیا جب کہ اپنی فاحشہ بیوی کو محل کے شمالی میدان میں جلوادیا اور اس کے راکھ کو دریا میں ڈال دیا گیا۔ غالبا یہ زانیہ محصنہ کی سزا تھی تا ہم بہت سے شواہد اس با ت کا پتہ دیتے ہیں کہ اس جرم کی سزا میں بعد  کے زمانوں میں تخفیف ہوتی چلی گئی تاآنکہ صرف ناک کاٹنے پر اکتفا ء کیا گیا۔

اس طرح ایک اور واقعہ میں ایک عورت کے اپنے دیور سے زنا کرنے کی خواہش   اور دیور کے انکا ر پر عورت کی طرف سے اس پر تہمت لگانے اور عورت کی خاوند کی طرف سے عورت کو کتوں کے آگے ڈلوانے کا ذکر بھی ملتا ہے ۔(45)

جرم سرقہ اور قدیم ہندی تمدن :

سرقہ کے بارے  میں منوسمرتی کے مختلف النوع سزائیں پائی جاتی ہیں ۔

1:خاندانی عورت یا عمدہ جواہر کو اگر کوئی چرالے تو اسے قتل کر ڈالنا چاہیے ۔(46)

2:جو چور نقب زنی کرکے رات میں چوری کرتے ہیں ان کے دونوں ہاتھ کا ٹ کر ان کی تشہیر کرنا چاہیے۔جو چور اول مرتبہ گرہ کاٹے اس کے انگھوٹے کے پاس کی انگلی کٹنا چاہیے دوسری مرتبہ ارتکا ب جرم ہو تو ہاتھ یا پاؤں کاٹنا چاہئے اور تیسری مرتبہ قتل کرنا منا سب ہے ۔(47)

3:  برہمن کی گائے چرانے والے کا آدھا پاؤں کاٹ لینا چاہیے ۔(48)

حاصل کلام :

اسلام کے علاوہ باقی   ادیان کی سزائیں اسلامی حدودسے یاتو بعض جگہ پر مطابقت رکھتی ہیں یا ان سے بھی بڑھ کر سخت ہیں بلکہ اسلام نے سنگین نوعیت کے جرائم میں جو سزائیں مقرر کی ہیں اس سے کہیں زیادہ سخت  سزائیں ان ادیان میں معمولی جرائم پر دی جاتی ہیں۔

حواشی وحوالہ جات :

1: الافریقی ،ابن منظور جمال الدین محمد بن مکرم ،لسان العرب ،حرف الدال فصل الحاء المہملۃ ،ج3،ص140،دار صادر بيروت،طبع ثالث  1414ھ۔

2:الزَّبيدي محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق ، تاج العروس من جواهر القاموس، ج8،ص6،فصل الحاء المہملۃ مع الدال ، دار الهدایۃ۔

3:البقرۃ :229۔

4:البقرۃ :187۔

5:ابن منظور جمال الدین محمد بن مکرم ،لسان العر ب ،ج3،ص140۔

6:الشوكانی ،محمد بن علی بن محمد بن عبد الله ، نيل الأوطار،ج7،ص103،دار الحديث مصر،طبع أولى، 1413ھ۔

7:السرخسی، محمد بن أحمد بن أبی سهل، المبسوط،ج9،ص36، دار المعرفۃ  بيروت،1993م۔

8:ابن ہمام ،فتح القدیر ،ج5،ص3،المطبعۃ الامیریہ،1315ھ۔

9:الجزیری ،عبدالرحمن ،کتا ب الفقہ علیٰ المذاہب الاربعۃ ،ج5،ص7،دارالفکر بیروت ۔

10:محمد شفیع ،معارف القرآن ،ج3،ص133،مکتبہ معارف القرآن کراچی ،2008ء۔

11:ایضاً۔

12:الماوردی ،الاحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ ،ص219،دارالکتاب بیروت ،1982ء۔

13:ابو یعلیٰ ،الاحکام السلطانیۃ،ص257،انصارالسنۃالمحمدیۃ مصر،1938۔

14:الغزالی ،المستصفیٰ،ج1،ص287،مطبعۃ امیریہ مصر ،1294ھ۔

15:ابن تیمیہ ،السیاسۃ الشرعیۃ ،ص120،کلام کمپنی کراچی ۔

16:الماوردی ،الاحکام السلطانیۃ،ص221۔

17: الكاسانی ،علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد ، بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع،ج4،ص111،مرکز تحقیق دیال سنگھ لایبریری لاہور،1987ء۔

18: احبار ،16:24۔

19: استثناء،6:17۔

20: احبار،27:20۔

21: استثناء،21:21۔

22: گنتی ،36:15۔

23: احبار14:20۔

24: احبار9:21۔

25: احبار18:24۔

26:ا حبارباب 20۔

27:احبار45:20۔

28: استثناء12:7۔

29: انجیل یوحنا باب 8۔

30: کتاب اعمال باب6۔

31: استثناء25: 1-3

32: امداد صابری ،قدیم ہندوستان کی تاریخ جرم وسزا،ج1،ص47،بمبئی پریس دہلی ۔

33: ایضاً، ص48۔

34: ایضاً۔

35؛حوالہ بالا۔

36: ایضاً۔

37:غلام کبریا خان ،کتاب الحدو د،ص1،ڈسٹرکٹ کورٹ کوئٹہ ۔

38: ایم بی جین ،ہندوستان کی قانونی تاریخ ،ج1،ص62،ترقی اردونئی دہلی انڈیا ،1992ء۔

39:ایضاً، ص77۔

40:ایضاً، ص61۔

41:ایضاً، ص77۔

42:فوزی رشید ،الشرائع العراقیۃ القدیمہ ،ص17،وزارۃ الاعلام الجمہوریۃ العراقیۃ ۔

43:سامی سعید ،المدخل فی التاریخ العالم  القدیم ،ج2،ص252،جامعہ بغداد عراق ،1983۔

44:ایضاً۔

45:محمد بیوی مہران ،التاریخ الشرق الادنیٰ القدیم ،ص 226،مدینہ النصر،1984۔

46:نجیب آبادی ،اکبر شاہ خان ،مقدمہ تاریخ ہند ،ج2،ص123،مکتبہ عبرت نجیب آباد،1935ء(بحوالہ منوسمرتی  8/323)۔

47:حوالہ بالا(بحوالہ منوسمرتی9/237-274) ۔

48:حوالہ بالا(بحوالہ منوسمرتی8/325-414)۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...