Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

مشائخِ خانقاہ قادریہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1167

Pages

1-19

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/104/94

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/104

Subjects

Tasūf Tazkiya Shariʻat. Qura’n Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خانقاہ قادریہ چھوہرکا تعارف :

چھوہر ہزارہ میں ہری پورشہر سے مغرب کی جانب 2 کلو میٹر کے فاصلے پر سرسبز و شاداب اور دل فریب مناظر سے بھر پور ایک گاؤں ہے۔ چھوہر میں خانقاہ قادریہ کی بنیاد خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ نےاپنی کمسنی میں تقریبا1860ً ء میں رکھی جس سے ہزارہا نفوس نے دین کی جامعیت کا سبق حاصل کیا۔ اس خانقاہ نے اپنے دور کی روایتی خانقاہوں کے برخلاف فکری اور عملی میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جب انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی کوایک نئے دور میں داخل کیا تو اس خانقاہ کےمشائخ نے ان کا بھر پور ساتھ دیا اور مخلوق خدا کی روحانی و اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو غلامی کی دلدل سے نکالنے کی بھی جدو جہد کی۔اس خانقاہ کا عمومی مزاج ہے کہ اس نے دین کی جامعیت کو ملحوظ خاطر رکھا۔ چنانچہ اس خانقاہ نے شریعت و طریقت  اورسیاست کے میدان میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1

خانقاہ قادریہ چھوہر کی خصو صیت:

خانقاہ قادریہ چھوہر کے بانی خواجہ چھوہرویؒ نے تصوف میں انسان دوستی اور تزکیہ نفس کے اجتماعی ثمرات پر بہت زور دیا ہے۔ چنانچہ اس خانقاہ کے عمومی مزاج میں طویل مجاہدے، ریاضت اور اذکار کے ساتھ ساتھ عملیت پسندی اور اعلیٰ انسانی اخلاق پیدا کرنے کا جذبہ ہمیشہ کار فرما رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس خانقاہ

کی تعلیمات عام فہم اور انسانی فطرت سے قریب تر ہیں۔ اس خانقاہ کے مشائخ روحانیت میں بلندمقام رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گردوپیش کے حالات سے بھی مکمل آگاہی رکھتے رہے ہیں۔اس حوالے سے خانقاہ کی چاردیواری میں محصور ہونے اور معاشرےکے عصری تقاضوں سے لا تعلق و بے خبر رہنے کا مزاج اس خانقاہ کا کبھی نہیں رہا۔خانقاہ پر اکتساب فیض کے شائقین اور متعلقین میں خشیت الٰہی و تقویٰ، عشقِ الٰہی اور حبِّ رسولﷺکا جذبہ پیدا کرنا اس خانقاہ کا خصوصی امتیاز رہا ہے۔2

خانقاہ قادریہ چھوہر کے مشائخ:

اس خانقاہ کے اب تک چار مشائخ کے اسماء درج ذیل ہیں۔

1۔ خواجہ محمد عبدالرحمٰن ؒ (1840ء-1924ء)

(1907ء-1986ء) 2۔ خواجہ محمد محمود الرحمٰن ؒ

(1935ء-1995ء) 3۔ خواجہ محمد طیب الرحمٰن ؒ

4۔ خواجہ محمد احمد الرحمٰن (مسند نشین)

ذیل میں  اس خانقاہ کے مشائخ کا تعارف کراتےہوئے ان کی دینی فکر کا تجزیاتی مطالعہ پیش  کیاجا تا ہے۔

1۔ خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہروی

خواجہ عبدالرحمٰن ؒکی ولادت 1262ھ/1840ء میں "چھوہر" میں ہوئی اِسی نسبت سے آپؒ چھوہروی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔آپ کے والد کا نام فقیر محمؒد تھا۔آپ کے والد کے متعلق تفصیل نہیں ملتی۔البتہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے دور کے بڑے نیک انسان تھے۔ آپ کی عمر آٹھ سال تھی کہ والد کا انتقال ہو گیا۔قرآنِ پاک کی تعلیم اپنے گاؤں "چھوہر" میں ہی حاصل کی۔ علوم تفسیر، حدیث، فقہ ودیگر علوم اسلامیہ باقاعدہ طور پرآپ نے کسی سے نہیں پڑھے      ۔آپ کے بارے میں معروف یہ ہےکہ اللہ نے آپ کو وہبی طور پر علوم و معارف میں غیر معمولی ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ 3

کشمیرکےایک بزرگ جناب یعقوب شاہ(گن چھتریؒ) آپ کے گاؤں چھوہرمیں تشریف لائےجنھوں نےآپ کوسلسلہ قادریہ میں بیعت فرمایااوربعدازاںمجازبھی کیا۔ 2 آپ کے دو بیٹے فضل الرحمٰن ؒاور فضل السبحان ؒ پہلی زوجہ سے پیدا ہوئے۔   آپ کی دوسری شادی ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں "گوجری" کے ایک معزز خاندان کے متورع و متشرع ہستی میاں برکت اللہ کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے خواجہ محمد محمود الرحمٰن ؒ متوفی (1987ء) پیدا ہوئے۔آپ کا انتقال تقریباً80سال کی عمر میں 1342ھ /1924ءکو ہوا۔ آپ کے انتقال کے بعدآپ کے بیٹے خواجہ محمد محمود الرحمٰن ؒمسند نشین ہوئے پھر اُن کے انتقال کے بعد آپ کے پوتے خواجہ محمد طیب الرحمٰن ؒمتوفی(1990ء) بعد ازاں آپ کے پرپوتےخواجہ محمداحمدالرحمٰن مسندنشین ہوئےجواس وقت خانقاہ قادریہ چھوہرکےجملہ امور انجام دے رہے ہیں۔ 4

      حضرت خواجہ چھوہرویؒ نے دعوت الی الحق، تزکیہ نفوس، اصلاح ظاہر و باطن اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں جو کردار ادا کیا ہےزیرِ نظر سطور میں اس کو اُن کی دینی فکر کے تجزیاتی مطالعہ کے تناظرمیں پیش کیا جاتا ہے۔

(الف)    جامعیت تصوّف وسلاسلِ اربعہ:

خواجہ چھوہروی تصوف کی جامعیت کے قائل ہونے کے ساتھ تصوّف کےسلاسل اربعہ قادریہ، چشتیہ ، نقشبندیہ اور سہروردیہ سے خلافت یافتہ تھےاورخصوصا سلسلہ قادریہ کےفیوضات وکمالات کا مظہر تھے۔ اِس کے اثرات نمایاں طور پر اُن کے مزاج اور طریقہ تربیت میں دیکھے جا سکتے ہیں جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں۔

1۔      ابتدائی ذکر و اذکار، فکر و شعور کی بلندی اور روحانی عروج و ترقی کے حوالے سے آپ میں سلسلہ "قادریہ" کا رنگ غالب تھا۔

2۔       جذب و کیف اور قبولیتِ عامہ، نیز عوامی رابطے کے لحاظ سے آپ میں سلسلہ "چشتیہ" کے اثرات نمایاں تھے۔

3۔      طبیعت و مزاج میں ٹھہراؤ، عقل و فہم میں پختگی اور فکر و شعور میں گہرائی کے حوالے سے آپ میں سلسلہ "نقشبندیہ" کا ظہور دکھائی دیتا تھا۔

  تصوف و سلوک کےاطوار و آداب،نظم و نسق اور انتظامی صلاحیت کے شعور اور طبعی اُنس و طمانینت کے حوالے سے آپ میں سلسلہ" سہروردیہ" کا اثر دکھائی دیتا تھا۔5

(ب)  مدارسِ دینیہ کی ضرورت:

آپ مدارسِ دینیہ کو ہزارہ کے خطے پر دینِ اسلام کے فروغ کے لئے ضروری خیال فرماتے تھے۔آپ کی خواہش تھی کہ عوام الناس میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص قرآنی تعلیمات کو عام کیا جائے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے 1325ھ/1902ء کو ہری پور شہر میں دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اسی طرح اپنے گاؤں چھو ہر میں خانقاہ قادریہ کے متصل دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ (بنات)کی بھی سرپرستی کرتے تھے۔ان مدارس کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ آپ نے مکاتب اسلامیہ و مدارس دینیہ کا ایک مربوط نظام قائم فرمایا اور ان مدارس کی آپ نے تمام عمر سرپرستی اور رہنمائی فرمائی۔آپ ؒ کے قائم کردہ مدرسہ میں ابتدائی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریاضی اور دیگر عصری علوم کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔

مدارس کے اساتذہ کے لئے ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا تھا جس کی رو سے ان کی تربیت بھی کی جاتی تھی اور طلباء پر بھی نے سختی کی بجائےان کی صلاحیت اور مزاج کو پیشِ نظر رکھا جاتا تھا۔ادارے کے قیام کے اہداف و مقاصد درج ذیل تھے۔

1.       علوم قرآنیہ کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا۔

2.       انسانی سماج کی تشکیل کے بنیادی علوم اور ان کو قرآنی اصول سے واقفیت بہم پہنچانا۔

3.      علوم قرآنیہ کی اساس پر روحانی، اخلاقی اور شعوری تربیت کا اہتمام کرنا۔ 6

دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ:

آپؒ نے اسلام کے دینی و علمی سرمایہ کی حفاظت اور مسلمانوں کےدینی تعلق و احساس کو باقی رکھنے کے لئے مدارس کا قیام ضروری سمجھا جو مسلمانوں کو دینی و اخلاقی زوال سے محفوظ رکھیں، اور اُن میں ایسے علماء تیار ہو کر نکلیں جو اسلامی شریعت و فقہ سے گہری وافقیت رکھتے ہوں اور اُن میں داعیانہ روح اور رضاکارانہ خدمت و اشاعتِ علم کا جذبہ ہو اور جو حکومت کی امانت و سرپرستی کے بغیر مسلمانوں کی دینی خدمت اور رہنمائی اور علم کی اشاعت و حفا ظت کا فرض انجام دے سکیں، اِن مدارس میں ملک کے دیگر بڑےمدارس کے علاوہ دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ (ہری پور) کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔

خواجہ صاحب نےیہ ادارہ ایک چھوٹے سے مدرسہ کی حیثیت سے قائم کیا لیکن اس کے ذمہ داروں اور مدرسہ کے اساتذہ کے اخلاص، قناعت اور ایثار کی بدولت برابر ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی حیثیت ہزارہ کی سطح پر ایک بڑی اسلامی درسگاہ ہو گئی۔اس مدرسہ کی ساری ترقی و توسیع،شہرت و مقبولیت خواجہ عبدالرحمٰنؒ چھوہروی کے اخلاص و للّہیت، بلند ہمتی و بلند نظری کی مرہون منت ہے جو ابتدا ء ہی سے اس کے انتظام و انصرام میں شریک تھے،اور اُنھوں نے اپنی ساری علمی و فکری صلاحیتیں اور توجہات اس پر مرکوز فرما دیں، خوش قسمتی سے دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کو روزِ اول سے مخلص کارکن اور صاحبِ دل اساتذہ کا تعاون حاصل رہا،جس کی وجہ سے تقویٰ و طہارت، اخلاص ،تواضع اور خاکساری کی روح ہزارہ کے ماحول پر طاری رہی،ان کے باکمال اور مشہور اساتذہ یہ ہیں۔ قاضی عبدالسبحان(ہری پور)،مولانا خلیل الرحمٰن (سکندر پور)، مفتی سیف الرحمٰن (کھلابٹ) ، مولانا زبیر شاہ( اٹک)، مولٰناعبدالحکیم قادری (لاہور)، مولٰنا ا میرشاہ ( پشاور)، مولٰنا اللہ دتہ ( سرگودھا)، مولٰنا امیر علی شاہ (مانسہرہ)، مولٰنا دلنواز( فیصل آباد)، مولٰنا محبوب (مردان)، قاضی محمد ارشاد(میر پور کشمیر)، مولٰنا معرفت حسین (مانسہرہ)۔      

دارالعلوم کا دائرہ عمل روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا، اس کی شہرت اور اساتذہ دارالعلوم کے صلاح و تقویٰ اور ان کی مہارتِ خصوصی کے چرچے دور دور پھیل گئے۔ جن کو سن کر پاکستان کے  مختلف گوشوں سے کثیر تعداد میں طلباء حصولِ علم دین کے لئے وہاں آئے۔ سال2015ءکے اعداد و شمار کے مطابق زیرتعلیم طلباء کی تعداد تقریباچار سو  ہے۔دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کی سو سالہ تاریخ میں تحصیلِ علم کر کے نکلنے والوں کی تعداد چار ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ جن میں ڈھائی ہزار فارغ التحصیل علماء ہیں جنھوں نے سند فراغ حاصل کی۔ 7اس دارالعلوم کا شمار پاکستان کے قدیم اداروں میں ہوتا ہے۔لیاقت علی خان مرحوم سابقہ وزیر اعظم پاکستان ، سردار عبدالرب نشتر اور فضل القادر چوہدری جیسے ملک کے نامور اور مشاہیر اس مدرسے میں تشریف لا چکے ہیں اور اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔8 ہزارہ کے مسلمانوں کی دینی زندگی پر دارالعلوم کے فضلاء کی اصلاحی کوششوں کے نمایاں اثرات رونما ہوئے، بدعات و رسوم کی اصلاح، عقائد کی درستی، تبلیغِ دین اور فرقِ ضالہ سے مناظر وغیرہ میں ان حضرات کی جدو جہد لائقِ تحسین ہے۔ متعدد فضلاء نے سیاسی میدان اور وطنِ عزیز کے دفاع میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔تمسک بالدین، مسلک احناف کی سختی سے پابندی، اسلاف کی روایات کی حفاظت اور سنت کی مدافعت علماءحق کا شعار رہا ہے۔

(ج) تصنیفِ انیق" مجموعہ صلوٰت الرسول" ﷺ:

مجموعہ صلوٰت الرسولؐ آپ کی عدیم النظیر تصنیف ہے جو اپنی ضحامت، ندرت اور علوم و معارف کے اعتبار سے ایک منفرد اور نادر کتاب ہے۔یہ کتاب آپؒ کی تعلیمات اور افکار کا مرقع ہےجو آپ کے وہبی علم کا عظیم شاہکار ہے ۔  مجموعہ صلوٰت الرسولؐ آپؒ کی تعلیمات کی جامع تصنیف ہے جو متلاشیانِ حق کے لئےرہبر و رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ذیل میں کتاب کا مختصر تعارف کیا جاتا ہے۔

مجموعہ صلوٰت الرسولﷺ کا اجمالی تعارف :

رسول اکرم ﷺ کی شان میں درودو سلام پیش کرنے کے سلسلے میں یہ کتاب عربی میں تیس پاروں پر مشتمل ہے۔ ہر پارہ 84 صفحات پر محیط ہے۔ کتاب کی کل پانچ جلدیں ہیں۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔درود پاک کا یہ عظیم الشان مجموعہ بے شمار درودوسلام کے علاوہ بسم اللہ کے فضائل اور ذکر کے فضائل پر مشتمل ہے۔ نبی ﷺ کی مبارک احادیث موجود ہیں۔دعا مانگنے کے طریقہ کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ہر پارے سے پہلے اردو میں چند فضائل بیان کیے گئے ہیں تاکہ مجموعہ کا کچھ تعارف ہو جائے۔

پہلا پارہ نبی کریم ﷺ کے مبارک نور سے متعلق ہے۔ دوسرا پارہ خصوصی طور پر نبی ﷺ کی شان میں صلوٰۃ و سلام کے متعلق ہے۔ تیسرا پارہ حضورﷺ کے تمام جسم اطہر کے اعضاء پر صلوٰۃ و سلام کے متعلق ہے۔چوتھا پارہ آپ ﷺ کے لباس اور عام استعمال کردہ اشیاء کے متعلق ہے۔پانچواں پارہ آپﷺ کے عالی اور پاکیزہ حسب و نسب کے متعلق ہے۔چھٹاپارہ آپﷺ کے شرف و شرافت کے بارے میں ہے۔ ساتواں پارہ آپﷺ کے اسماء و صفات کے متعلق ہے۔ آٹھواں پارہ آپﷺ کے سیدو سردار ہونے کے بارے میں ہے۔ نواں پارہ آپﷺ کی تعریف و فضیلت کے بارے میں ہے۔ دسواں پارہ آپﷺ کے اسراء و معراج کے سفر کے بارے میں ہے۔ گیارھوں پارہ حضورﷺ کی تسبیح و تہلیل سے متعلق ہے۔ بارھواں پارہ حضورﷺ کی صفت حلم اور خواب کے بارے میں ہے۔تیرھواں پارہ آپﷺ کی دعا والتجا کے بارے میں ہے۔ چودھواں پارہ آپﷺ کے کلام و گفتگو کے بارے میں ہے۔ پندرھواں پارہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے بارے میں ہے۔ سولہواں پارہ آپﷺ کی شان، عزت و عظمت کے بارے میں اٹھارواں پارہ آپﷺ کے اقتدارو اختیار کے متعلق ہے۔ انیسواں پارہ حضورﷺ کے متعلق آیتوں اور بشارتوں کے سلسلہ میں ہے۔ بیسواں پارہ حضورﷺ کی محبت اور ان کے محبوب ہونے کے بارے میں ہے۔ اکیسواں پارہ حضورﷺ کے علم غیب کے بارے میں ہے۔ بائیسواں پارہ حضورﷺ کے معجزات کے بار ے میں ہے۔تئیسواں پارہ حضورﷺ کے وسیلہ سے دُعاؤں کے بارے میں ہے۔ چوبیسواں پارہ امر و نہی کے متعلق احکام پچیسواں پارہ آپﷺ کے حاضر و ناظر ہو نے کے متعلق ہے۔ چھبیسواں پارہ آپﷺ کے عالی اخلاق کے متعلق ہے۔ ستائسواں پارہ آپﷺ کے رشتہ داروں کے متعلق ہے۔ اٹھائیسواں پارہ آپﷺ کے ساتھ معیت و رفاقت کے متعلق ہے۔ انتیسواں پارہ آپﷺ کے مقام محمود کے  متعلق ہے۔تیسواں پارہ حضورﷺ کی بہترین امت ہونے کے متعلق ہے۔9 تیس اجزاء پر مشتمل اس تصنیف کا ہر جزو حضورﷺ کی کسی نہ کسی شان کے بیان پرمشتمل ہے۔یہ کتاب اپنے اندر بے شمار محاسن کو سمیٹے ہوئے ہے اس کے چند نمایاں اوصاف درج ذیل ہیں۔ 1.رسول کریم ﷺ کی شان میں درود و سلام پیش کرنے کے سلسلے میں یہ کتاب پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔

2.   کتاب کے کل تیس پارے ہیں اور ہر پارہ 84 صفحات پر مشتمل ہے قابل تعجب بات یہ ہے کہ تمام پارے ایک جیسے ہیں کوئی بڑا چھوٹا نہیں۔

3.   ہر پارے کی ابتداء بسم اللہ سورۃ فاتحہ سے اور انتہا سورۃ اخلاص پر ہوتی ہے۔

4. حضوراکرمﷺکے  جسداطہر،آپ کےلباس مبارک، اوصاف و اخلاق غرضیکہ ذاتِ نبویؐ سے متعلق ہر شے پر درود صلوٰۃ پر مشتمل ہے۔محبتِ رسول ؐ کا یہ عظیم شاہکار ہے۔

5. حضور اکرم ﷺ کی سیرتِ مطھرہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ مجموعہ آپ ؐ کے خصائص، کمالات اور مختلف شانوں کو بھی انتہائی مئوثر پیرائے میں بیان کرتا ہے۔

6. مصنفؒ نےاہلِ بیتِ رسولؐ، اصحابِ بدراور دیگر اجل صحابہ کرام کے ذکر اور اسمائے مبارکہ کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا۔

7. درودِ پاک کے اِس مجموعہ میں کم و بیش تین سو انبیاء کرام پردرودوسلام کا تذکرہ ملتا ہے۔  

8.   بظاہر یہ درود شریف کی تالیف ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی تحمید، تہلیل،تکبیر اور تسبیح نیز اسمائے حسنیٰ کے ساتھ منوّر ہے۔

9.  تیس اجزاء پر مشتمل اس تصنیف کا ہر جزو حضور ﷺ کی کسی نہ کسی شان کے  بیان پر مشتمل ہے۔

10.  قرآن مجید کی حلال ، حرامِ حقوق ، فرائض اور واجبات پر مشتمل آیات میں سے تقریباً453 آیات ان تیس پاروں میں موجود ہیں۔

11.  خواجہ صاحبؒ کی تصنیفِ انیق تصوف و طریقت کے اسرار و رموز کا بحر ذخار تو ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں مختلف علوم و فنون کا اجمالی ذکر بھی ملتا ہے۔ مثلا علمِ طب، علمِ نفسیات، علم الاشکال، علم کتابت،علمِ ریاضی، علم الحروف، علم التاریخ، علم الانساب، مجموعہ صلوٰۃ الرسول کے مختلف مقامات و اجزاء میں یہ بیان تعلیماتی اور اطلاقی انداز سے کیا گیا ہے۔ 10 

مذکورہ کتاب آپ کے کمالات پر شاید ہے۔ اس کتاب کے علوم قرآن و حدیث سے اخذ کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں یہ کتاب درودوسلام اور وظائف کا ایک نایاب مجموعہ ہے۔ خواجہ علیہ الرحمہ نے اپنی اس کتاب کی ترتیب تیس پاروں  پر رکھی ہےاور اپنے مریدین کو یہ نصیحت کی روزانہ ایک پارہ یا نصف پارہ اس کی تلاوت کی جائے۔ کم از کم ربع پارہ تلاوت روزانہ کے معمول میں شامل کی جائے۔اگر مخلوقِ خدا کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو ایک مجلس میں اس کا پڑھنا تمام آفات و بلیات،قحط، وباء، طاعون اور مصائب سے نجات کے لئے مجرب ہے۔11

آپ کی یہ تصنیف آپ کے حال کی عکاس ہے۔ اس میں آپ نے اپنے احوال و تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے روایتی طریقہ کی طرح کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ دُعا کا طریق اختیار فرمایا ۔ آپ نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں اس مقام پر فائز ہوں بلکہ فرمایا اے اللہ مجھے اس مقام پر فائز کر دے۔ دُعا ایک ذہنی رویہ اور طرز فکر ہے جو دعا کرنے والے کے طرز عمل کو متعین کرتی ہے۔بعینہ مجموعہ صلوٰت الرسول ﷺ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ قاری کے ذہنی رویّے اور طرزفکر کی تربیت کا ضابطہ ہے جو اسے ایک محمود طرز عمل تک لانے کا ذریعہ بنتا ہے۔12

2۔ خواجہ محمد محمود الرحمٰن

محمد محمود الرحمٰن چھوہرویؒ خانقاہ  قادریہ کے بانی خواجہ محمدعبدالرحمٰن چھوہروی کے بیٹے تھے۔آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کی ولادت کی خوشخبری حضرت خضرعلیہ السلام نے آپ کے والد بزرگوار کو قبل از ولادت دے دی تھی۔13آپ کی ولادت 1907ء میں اپنے آبائی گاؤں چھوہر میں ہوئی ۔آپ نے بچپن اپنی والدہ محترمہ کی تربیت میں گزاراجوضلع ایبٹ آبادکے گاؤ ں" گوجری" کی متورع و متشرع بزرگ ہستی میاں برکت اللہ ؒکی عابدہ ، زاہدہ اور شب بیدارصاحبزادی تھیں۔آپ نے اپنے شیخ(والد) کے زیر سایہ مجاہدہ، ریاضت اور تربیت کے تمام مراحل انتہائی عزم و ہمت اورجانفشانی سے طے کئے۔خواجہ عبدالرحمٰن چھوہروی ؒ نے پہلےسلسلہ قادریہ میں بیعت فرمایااور جب آپ نے منازل سلوک طے کر لیں توپھر بعد میں چاروں سلسلوں میں بھی اجازت و خلافت عطا فرما دی۔آپ کو اپنے شیخ سے والہانہ محبت تھی اور بڑی تن دہی سے ان کی خدمت میں لگے رہتے تھےتا ہم یہ محبت یک طرفہ نہ تھی بلکہ حضرت عالی چھوہرویؒ بھی آپ سےحد درجہ محبت کرتے تھے اور سفر و خضر میں آپ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔آپ کے والد بزرگوارکی وفات کے بعد احباب و مریدین نے دستار خلافت آپ کے بڑے بھائی حضرت فضل الرحمٰن ؒ المعروف چن پیر کے سر پر رکھنا چاہی مگر انھوں نے دستار خلافت قبول کرنے کی بجائے آپ کو مسند نشینی کا اہل قرار دیا۔جانشینی کے بعد آپ ؒکے اخلاص ،للٰہیت اور جذبے نے خانقاہ قادریہ کو مرجع خاص و عام بنا دیا۔خانقاہ کو عوامی سطح پر جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ آپ ہی کی محنت و خلوص کا نتیجہ ہے۔ذکر و اذکار و دیگر باطنی اشغال نے خانقاہ کے ماحول کو پر کیف اور اثر انگیز بنا دیا تھااور کوئی بھی شخص اس  ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔سلا سل تصوف کی جامعیت نے آپ کی سوچ میں جو اعتدال و توازن پیدا کر دیا تھا اس کی وجہ سے مسلکی اور فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر ہر طبقے کے لوگ تزکیہ نفس کے لئے اس خانقاہ کا رخ کرتےاور انسان دوستی اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم کے ساتھ اجتماعیت کا درس حاصل کرتے۔14

       آپؒ بھی اپنے والد بزرگوار حضرت خواجہ چھوہرویؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دعوت الی الحق اورمخلوق خدا کی اصلاح و تزکیہ نفسوس کے سلسلے میں یکسوئی سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے آپ کی دینی و اصلاحی فکر کو ذیل میں بیان کیا جاتاہے۔

(الف)     تصوف کا عملی اطلاق:

آپ کے نزدیک تصوف صرف رسم و رواج یا روایتی اعمال کا نام نہیں بلکہ یہ احوال و اعمال کی دنیا کو منقلب کر دینے کا نام ہے۔ آپ نے اپنے مخصوص انداز میں ہر ہر ذکر ، دعا اور طرزِ عمل کے اس گوشے اور پہلو کو بیان کر دیا جو اس کے عملی اطلاق کے لئے ضروری تھا۔آپ نے احوال و تعلقات اور اعلیٰ منازلِ تصوف کو صرف تخیّل واسرار کی دنیا تک محدود نہیں رکھاتھا۔ آپ تصّوف کو محض ذہنی آسودگی اور انفرادی تزکیہ تک ہی محدود نہیں کرتے تھےاور نہ ہی آپ کے نزدیک تصوّف گوشہ نشینی و عزلت نشینی ہی کا نام تھا بلکہ اس کے برعکس آپ تصوّف کو عملیت پسندی اور اجتماعی ذمہ داری کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ تصوّف کے حوالے سے آپ کا ذہن بڑا عملیت پسند تھا۔ آپ کے نزدیک تصوّف ظاہری طور پر محض ذہنی آسودگی اور روح حیوانی کی تسکین کا نام نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ عقل و شعور کی بالیدگی اور قلب کے پختہ عزم و ہمت کے ساتھ انسانی معاشرے کے لئےبہترین فکر و عمل کی تحریک پیدا کرنا تصوّف کا انتہائی اعلیٰ مقصد ہے۔15

آپ کی تعلیمات میں وصالِ حق اور معرفتِ ربّ کے حصول کا مئوثر اور زودرساں موجود ہےجس پر عمل کر کے سالکانِ حق اپنے سفر کو طے کر سکتے ہیں۔آپ کے طریقِ تصوّف کے چند نمایاں اجزاء یہ ہیں:

1۔       مجاہدہ:

آپ کے نزدیک مجاہدات سالک کے لئےبہت ضروری ہیں۔یہ مجاہدات حصولِ وصل کے امین اورسالک کو فراق و ہجر کی وادیوں سے نکالنے والے ہیں۔آپ کی تعلیمات میں ایک مربوط و منظم سلسلہ مجاہدہ سے گزرنے کی تربیت پائی جاتی ہے۔16

2۔ پاس انفاس:

آپ کے ہاں پاس انفاس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔پاس انفاس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کا ایک سانس بھی اللہ کی یاد سے خالی نہ ہو۔ آپ کے ہاں کسی بھی سانس کا خالی رہ جانا کبیرہ گناہ ہے۔ہر وقت اس محبوب حقیقی کے ذکر میں مستغرق رہنا پاس انفاس کی حقیقت ہے۔ پاس انفاس کا مقصود اس منزل کا حصول ہےجہاں وہ تصوّرجس سے سفر کا آغاز ہوا تھاوہ حقیقت میں تبدیل ہو جائے۔آپ کی افکار بینی تصور شیخ کے نور کے ذریعے استحکام نسبت، ربطِ قلبی اور الحاقِ اصلی کے بعد جس امر کی بہت تاکید ملتی ہےوہ"دم" یعنی پاس انفاس کی قدر و قیمت ہے۔ 17

3۔ تصحیحِ خیال:

تصحیح خیال سے مراداپنے بیگانے سے تعلق دلی کو توڑکر اپنے دل کو اللہ کے ساتھ لگا لینا، ماسوائے اللہ کے دل کا تمام ا غیارسے پاک ہو جاناہے۔

آپ کے نزدیک سالک کے لئے وہم اور تشکیک ایک خطرہ ہے۔جب تک سالک وساوس، اوھام اور شکوک سے مبرا و منزہ نہ ہو جائےوہ خیالی خیال سے حقیقت کی طرف سفر نہیں کر سکتا۔ لہٰذا خیال کی تصحیح ضروری ہے۔18

4۔   تربیت طریقِ عشق:

آپ ؒ نے اپنے طریقہ تعلیم و تربیت کی بنیاد دو اساس عشق حقیقی کو قراردیا۔جذبہ عشق و محبت ہر تحریر و تصنیف میں نمایاں نظر آتا ہے۔اور ہر تعلیم اور ہر واعظ سے واضح معلوم کیا جا سکتا ہے۔آپ کے ہاں قابلِ قدر شے صرف عشقِ حقیقی ہے اور بقیہ سب کچھ اس کی تفصیل ہےاور شے کی حقیقت اور اہمیت اس سے کم ہے۔19

(ب)  شریعت کی پابندی اور التزام:                                                                                                                              

خواجہ محمودالرحمٰن ؒ   کی شخصیت شریعت کی پابندی کا نمونہ تھی۔ آپ کی خانقاہ کا ماحول سنت کی پابندی کا عملی نمونہ پیش کرتا تھا۔اپنے متعلقین کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے۔آپ کے باطنی کمالات اور اوصاف شریعت کے تابع تھے ۔ آپ کی طبیعت عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کی طرف مائل تھی اور آپ ہر اُس عمل سے متنفراور بیزار تھے جس میں شریعت کی پابندی کو ملحوظ نہ رکھا جاتا ہو۔ آپ نے اپنے مریدین اور متعلقین کی تربیت پر بڑا زور دیا۔ عام معمولاتِ زندگی میں شریعت کی پابندی کی تلقین کرتے۔ گناہ کی حفاظت حتیٰ کہ خیال کی حفاظت پر بھی بہت زور دیتے۔بری محفل ،فحش مجلس،غیر شرعی افعال اور وقت کےضیاع سے منع فرماتے۔ دینی و دنیاوی معاملات میں تر بیت و اصلاح فرماتے ہوئے اپنے وابستگان کی طبیعت و میلان کا بھی خصوصی لحاظ رکھتے۔ زندگی کی مشکلات کا سامنا استقلال اور یادِ الٰہی پر استقامت سے کرنے کی تلقین فرماتے ۔ثابت قلبی و ثابت قدمی آپ کی اصلاح کا بنیادی جزو تھا۔20

(ج)  اجتماعی تزکیہ اور طریقت کا باہمی ربط:

شریعت کے التزام کے ساتھ ساتھ طریقت میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ آپ نے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے طریقت و سلوک کے ذریعے معاشرے میں اجتماعی تزکیہ اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے کام کیا۔آپ کی روحانی تعلیمات میں محدودیت اور رجائیت کے بجائے وسعت اور عالمگیریت ہے جس کی وجہ سے ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لوگ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔آپ کے نزدیک اصلاحِ نفس کے لئے اولیاءاللہ کی صحبت بہت ضروری ہے۔جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ 21 "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو" آپ کے ہاں اجتماعی مفاد انفرادی مفاد پر مقدم ہے۔ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اجتماعی اصلاح کی جدو جہد ضروری ہے۔

(د)  دینی و عصری طلباء کا اشتراک فکر و عمل:

خواجہ محمد محمود الرحمٰن ؒ دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کے سرپرست اور مدرسہ کی مجلس شوریٰ کے صدر تھے۔دارالعلوم کے استحکام و فروغ کے لئے بڑی کوششیں سر انجام دیں۔آپ ؒ کے مطابق مروجہ دینی و عصری تعلیم اور اس کے حاملین ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل اور ادھورے ہیں۔ چنانچہ دونوں میں باہمی اتحاد و اتفاق پیدا کرنا اور مل کر چلنے کے جذبہ کو بیدار کرنا ہو گا۔ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ ؒ نے 1357ھ/1937ء میں ایک ٹرسٹ "رحمانیہ" قائم کیا۔جس میں عصری تعلیمی اداروں کے طلباء کی فکری تربیت کے کام کو تنظیمی شکل دے کر ان کے لئے عملی جدو جہد کا ایک باقاعدہ پلیٹ فارم مہیا کیادرس قرآن و دینی علوم کے علاوہ عصری تعلیم کے لئےپرائمری کلاسوں کا اجراء فرمایا۔22

آپ کے والد خواجہ چھوہروی ؒنے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی تصنیف"مجموعہ صلوات الرسول"کی طباعت کی خواہش کا اظہار فرمایا تھاچنانچہ یہ خواہش خواجہ محمد محمودالرحمٰن ؒ کے دورجانشینی میں پایہء تکمیل کو پہنچی۔ آپ کا انتقال 79سال کی عمر میں 1986ء میں ہوا۔23

3۔ خواجہ محمد طیب الرحمٰن

خواجہ محمد طیب الرحمٰن  ؒ کاسن ولادت  1935ءہے۔آپ قطب عالم خواجہ عبدالرحمٰن چھوہرویؒ کے پوتے اور خواجہ محمود الرحمٰن کے بیٹے ہیں۔آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نےاپنی زندگی کے فکر و شعور کی بالیدگی اورارتقاء کا دور اپنے شیخ و مرشد والد بزرگوار خواجہ محمودالرحمٰن کی تربیت میں گزارا۔آپ نے دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ (ہری پور) میں ہی رہ کر مکمل انہماک اور توجہ سے درس نظامی کے ابتدائی درجات کی  کتب پڑھیں اور مزید تعلیم کے لئےدارالعلوم حزب الاحناف (لاہور)تشریف لے گئےاورپچیس سال کی عمر میں تمام ظاہری علوم سے فراغت حاصل کی۔لاہور میں مدرسہ میں دن کو اکتساب علم کرتے اور رات کو حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضر رہتے۔آپ فرماتے تھے کہ حضرت داتا صاحب کا مزار طالبان حق کے لئے بہترین راہنما  ہے۔آپ اپنی زندگی کے ساٹھ سال گزار کر 16شوال 1415ھ بمطابق 1995 ءکو اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔24

      خواجہ محمد طیب الرحمٰن اپنے مشائخ کی روایات کو باقی رکھنے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق اور دین و دنیاکے علوم  میں حسین امتزاج کا عنصر اپنے مشن میں شامل کیاجس کی وضاحت درج ذیل ہے۔

(الف)  دین اور دنیا میں اعتدال کی تعلیم:

ہمارے ہاں بعض حضرات نے دین و دنیا کی تفریق اس بنیاد پر کر رکھی ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر ذکر و تلاوت جیسی عبادات تو "دین" ہیں اور سیاست، معیشت اور تجارت کے امور "دنیا" کے کام ہیں۔تاہم حضرت اس طرز فکر کی شدید مذمت کرتےہیں۔ ان تمام امور میں اعتدال اختیار کرنے اور تمام حقوق کو بطورِ احسن ادائیگی کی تعلیم فرماتے ہیں۔ 25دین اور دنیا کی اس تفریق کے سلسلے میں شاہ عبدالقادرؒ کا قول زریں یادرکھنے کے قابل ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ:

" نیک نیتی سے ملک کی (سیاسی، معاشی اور دفاعی) طاقت پیداکرنے کی کوشش کیجائے، سب دین ہی ہے۔۔۔۔۔۔ صالح نیت سے حکومت کی ترقی کا جو بھی کام کیا جائے، سارے کا سارا دین ہی دین ہے۔"26

) ب  (خدمت خلق:

آپ نے اپنے عہد کے پیر خانوں کے رواجات اور خانقاہی رسومات سے ہٹ کر لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔تزکیہ نفوس، اصلاح اخلاق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی کے تمام امور میں خدمت خلق کا جذبہ ہی کار فرما تھا۔آپ اپنے مہمان خانے پر دینی علوم کےطلباء کی پرورش اور فقراء و مساکین کی خود خدمت کر کے خوش ہوتے۔خدمت خلق کا جو جذبہ آپ کے دل میں تھا وہ آپ کے عمل سے ظاہر تھا۔  آپ نے دعوت الی الحق میں مساکین کو کھانا کھلانے کی افادیت کو پیش نظر رکھ کر اس میں مزید ترقی دی ،آپ کےمہمان خانے  پر آنے والےسائلین و مساکین اور مسافرین کی حسن خلق، ایثار، مہمان نوازی ، تواضع اور مساوات سے خدمت کی جاتی اور ان کی ظاہری و باطنی امداد کو ہر حالت میں مقدم رکھا جاتا۔ہر خاص و عام آپ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اورآپ کی مجلس سے فیض یاب ہوتا ۔27

(ج)  عصری و جدید سائنسی علوم سے استفادہ :

آپ کے مطابق بھی مروجہ دینی و عصری تعلیم اور اس کے حاملین ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل اور ادھورے ہیں۔چنانچہ دونوں میں باہمی اتحاد و اتفاق پیدا کرنا اورمل کر چلنے کی سوچ کو بیدار کرنا ہو گا۔دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کے انتظامی امور کی اصلاح کے ساتھ ساتھ آپ نے عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور آج کے انسان کے مزاج کے مطابق روحانی تعلیم و تربیت کو رواج دیا۔آپ کے نزدیک مسلمانوں کے لئے ترقیات کےحصول کے لئے جدید سائنسی علوم سے استفادہ ناگزیر ہے۔نیز اس بنا ء پر ان علوم کی مخالفت  کہ یہ غیر مسلموں کے زیر اثر ہیں اس لئے ان کی تحصیل بھی غیر اسلامی ہے قطعاً درست نہیں۔چنانچہ آج کے معروضی حالات کے پیش نظر دنیا کی قیادت و سیادت کے لئے ان علوم سےاستفادہ میں کوئی قباحت نہیں۔ہاں یہ بات درست ہے کہ مغرب کے سائنسی علوم اور وہ فنون جو ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوں ان کو سیکھا جائےلیکن ان کی تہذیب سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس بات کا شعور پیدا کرنا ضروری ہو گاکہ جدید سائنسی ترقیات چونکہ سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں اس لئے انسانی فلاح کے عالمگیر اثرات مرتب نہیں ہو رہے۔اسلام اور مغرب تعلقات کے حوالے سے آپ کی فکر یہ تھی کہ ہمیں ان کے علوم و فنون اورنظم و نسق جیسی خصوصیات اخذ کرنے کو خلاف اسلام نہیں سمجھنا چاہیے۔اس حوالے سے آپ کی سوچ مغرب کی تہذیب سے زیادہ اس کے ظالمانہ نظام  کےخلاف تھی۔28

4۔ خواجہ محمد احمد الرحمٰن:

خواجہ محمد احمد الرحمٰن اپنے والد خواجہ محمد طیب الرحمٰن  کے انتقال کے بعد1995ء کو مسند نشین ہوئے۔ اشاعت اسلام اور دین کی خدمت کا جذبہ ان کے دل میں بہ عہد طفلی موجزن تھا ۔ابتدائی تعلیم اپنے شیخ والد بزرگوار خواجہ محمد طیب الرحمٰن ؒ  اور دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ  کے قابل اساتذہ سے حاصل کی اور فراغت کے بعد جامعہ کی مجلس شوریٰ کے صدرکے فرائض انجام دے رہے ہیں اور دارالعلوم کے تعلیمی اور انتظامی امور کی نگرانی کرتےہیں۔آپ کےعلم میں تھا کہ آپ کے جد امجد حضرت خواجہ چھو ہروی ؒکی خوشنودی کا انحصار دارالعلوم کی خدمت و فروغ میں ہے اس لئےآپ کو دارالعلوم سے بڑا گہرا لگا ؤتھا لہٰذا آپ نے دارالعلوم کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا۔29

      خواجہ محمد احمد الرحمٰن اس وقت خانقاہ قادریہ کے جملہ امور کے نگران ہیں آپ اپنے بزرگان و مشائخ کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔خلق خدا کی اصلاح باطن کے لیے ان کا تعلق اپنے جد امجد کی طرح خانقاہ سے مربوط رکھا اور مسلسل ان کی تربیت فرما رہے ہیں۔آپ کے ہاں مدارس و علماء کا اپس میں اتحاد امت  مسلمہ کی ترقی کا بنیادی سبب ہے جیسا کہ ذیل کی سطور سے واضح ہوتا ہے۔

(الف) مدارس کی تنظیم اور علماء کی ذمہ داریاں:

آپ کی یہ خواہش ہے کہ عربی مدارس ایک سلسلے میں منسلک ہوں، اور ان کی تنظیم کی جائے،علماء کم سے کم سال میں ایک مرتبہ ایک جگہ جمع ہوں، ایک دوسرے کے خیالات اور کوششوں سے واقف ہوں، اور اشتراک عمل کی صورت پیدا کریں،مدارس کے اساتذہ و طلبااسلام کے احیاء اور مسلمانوں کی از سرنوع زندگی کی کوشش کریں اور حقیقی اسلام کی تبلیغ کی کوشش کریں اور ان کا تزکیہ کریں۔ پہلے قدم سے خالص پیغمبرانہ اصول پر اور اسلاف کےنقش قدم پر انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں۔عوام کے مقا بلے میں علماء کویہ امتیاز ہونا چاہیئے کہ وہ اسلامی نظام سے دوسرے نظاموں کا تقابل کرکے اسلامی نظام کی برتری کو علمی حیثیت سے بھی سمجھتے ہوں، اور اس علم وتحقیق سے ان کے ایمان،اسلامی نظام کی محبت وترجیح اور غیر اسلامی نظاموں کی نفرت میں اور اضافہ ہونا چاہیے۔ آپ کے ہاں ان کو دنیا میں اس نظام کو قائم کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، اور وہ اس کے پر جوش داعی اور مبلغ ہوں ، اور ان میں اس کے لیے قربانی اور ایثار کا جذبہ ہو۔ 30

(ب)   مدارس دینیہ کی ترقی اور توسیع کی ضرورت:

آپ چاہتے ہیں کہ مدارس دینیہ ترقی کریں تاہم  بعض چیزوں میں اصلاح کی ضرورت ہے، اور ہم اس کے داعی ہیں، اور داعی رہیں گے، ہم اس موقف پر ہیں کہ ہمیشہ جائزہ لیتے رہیں مدارس کا اور جن چیزوں کی ضرورت ہو، اسلام کے اصول، کتاب و سنت کےرہنما اصول کی روشنی میں ان کا اضافہ کرتے رہیں،اس کے باوجود یہ جیسے کچھ بھی مدارس ہیں، جہاں چٹائیوں پر لوگ پڑھتے ہیں،یا جو اتنے ترقی یافتہ نہیں ہیں جیسے اور بڑے بڑے مدارس ہیں، یہ سب غنیمت ہیں، ایک بہت بڑی نعمت ہیں، ان کی وجہ سے اسلام آج پاکستان و ہندوستان میں اپنی خصوصیات کے ساتھ قائم ہے، آپ دنیا کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں اور آپ کو بھی یہ سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم اس برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے کتنے بڑے کرم سےنوازا ہے، آج اس گئی گزری حالت میں اور اس دور مادیت میں جو انقلابات آتے ہیں سیاسی بھی غیر سیاسی بھی،یہ کس چیز کا نتیجہ ہے ؟کو ن اس کے شروع کرنے والے تھے؟یہ انہی مدارس کے طالب علم تھے اور یہیں کے اساتذہ سے انھوں نے پڑھا ہے۔آپ کا یہ پیغام ہے کہ ان مدارس کو قائم رکھا جائے، ان کی خدمت ایمان اور اہل ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔31

نتیجہ بحث:

نتیجہ بحث یہ کہ صوفیائے کرام ملت اسلامیہ کا وہ طبقہ ہیں جنہوں نے ہر دور میں اپنے تقوی، روحانی پاکیزگی اور کردار کی قوت سے اسلام کے ظاہر و باطن کی حفاظت کی۔فروغ دین اور دعوت اسلام کے لئے صوفیائے کرام کا کردار اور خدمات ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔  مشائخ چھوہر نےبھی اپنے دور کی روایتی خانقاہوں کے برعکس دینی، فکری اور شعوری میدان میں بھر پور کردار ادا کیا۔ اس خانقاہ کے مشائخ نے انفرادیت پسندی کی سوچ کی نفی کرتے ہوئے اجتماعی اصلاحی رجحانات کو فروغ دیا۔ نیز فرقہ واریت اورمذہب کو گروہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی نفی کی۔ اس خانقاہ کے مشائخ نے سرمایہ دارانہ سوچ کی سخت مذمت کی اور خود کو محض روحانیت تک محدود رکھنےکی بجائے اسلام کے حقیقی معاشی نظام کو بھی اجاگر کیا۔ ان حضرات کا ماننا ہے کہ شرعی اور روحانی نظام کو غالب کرنے کے  لئے سیاسی نظام کا ہا تھ میں ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ تہذیب و تمدن بھی اسی قوم کا غالب ہو گا جس کا سیاسی نظام غالب ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ  اس خانقاہ کے مشائخ کے "فلسفہ جامعیتِ دین" کو اجاگر کیا جائے تاکہ سوسائٹی میں شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع فکر تشکیل پائے۔ بقیناًاس عمل سے جہاں خانقاہی نظام کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے میں مدد ملے گی وہیں دین کے عصری اور سماجی تقاضوں کا بھی شعوربھی حاصل ہو گا، جس کی ہمارے سماج کو سخت ضرورت ہے۔

حواشی و حوالہ جات

1.                 قادری، مولانا محمد اعظم ، ڈائریکٹری علماء کرام و مدارس اہل سنت ، سنی علماء کونسل ، ایبٹ آباد 2015ء، ص1

2.                  خانقاہ کے تعارف کے سلسلے میں موادخواجہ محمداحمدالرحمٰن حالیہ مسندنشین سے حاصل کی گئی

3.                 شامی، علامہ محمد سجاد، مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ،ہری پور2015ء ،ص30

4.                  قادری، محمد عبدالرشید، حالات و کمالات سلطان عارفان خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ، ہری پور 2012ء ،ص 39

5.                 قادری، محمد عبدالرشید، مجموعہ صلوات الرسول کے آئینہ میں حضورﷺ کے اسمائے مبارکہ، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ،ہری پور2013ء،ص9

6.                  قادری، محمد عبدالرشید، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ،ہری پور 2012ء،ص 4

7.                  دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پورکے اساتذہ کے اسمائےگرامی،فضلاءوطلباءکے اعدادوشمارراجہ محمد یوسف جامعہ ھذا کے ناظم سے با المشافہ مل کر حاصل کیے گئے۔راجہ محمد یوسف کا تعلق جہلم کے گاﺅں پنڈ راجول سے ہے۔ ان کی سن پیدائش 1945ءہے۔پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہیں۔خواجہ عبد الرحمٰن چھوہرویؒ سے روحانی تعلق قائم ہونےکے بعد دارالعلوم رحمانیہ کی پچاس سال سے خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

8.                  حافظ نذر احمد، جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان، مسلم اکادمی، محمد نگر، علامہ اقبال روڈ لاہور1972ء،ص 45

9.                  مجموعہ صلوات الرسول کے آئینہ میں حضورﷺ کے اسمائے مبارکہ،ص83

10.              شامی، علامہ محمد سجاد، مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ،ہری پور2015ء ،ص12

11.              مجموعہ صلوات الرسول کے آئینہ میں حضورﷺ کے اسمائے مبارکہ،ص8

12.              سیالوی، مولٰنا محمد اشرف، مجموعہ صلوات الرسول مترجم، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ، ہری پور1995ء،ص7

13.              حالات و کمالات سلطان عارفان خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ،ص 59

14.              حالات و کمالات سلطان عارفان خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ،ص 61

15.              مجموعہ صلوات الرسول مترجم، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ،ص7

16.              تنولی، ڈاکٹر طاہر حمید، مکتوباتِ رحمانیہ، انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لاہور 2006،ص38۔

17.              مکتوباتِ رحمانیہ ،ص35۔

18.              مکتوباتِ رحمانیہ ،ص37۔

19.              مکتوباتِ رحمانیہ،ص15

20.              مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ، ،ص45

21.              التوبہ، 9:119۔

22.              مجموعہ صلوات الرسول کے آئینہ میں حضورﷺ کے اسمائے مبارکہ ،ص9

23.              مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ ،ص36

24.              حالات و کمالات سلطان عارفان خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ،ص68

25.              اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ،ص 4

26.              ندوی، ابوالحسن، سوانح حضرت مولٰنا شاہ عبدالقادر رائے پوری، ص 279

27.              مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ،ص42

28.              مجموعہ صلوات الرسول مترجم ،ص11

29.              حالات و کمالات سلطان عارفان خواجہ محمد عبدالرحمٰن چھوہرویؒ، ص80

30.              مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ، ص47

31.              مجموعہ صلوات الرسول کا مختصر تحقیقی جائزہ،ص48

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...