Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

معروف معالجاتی اقسام کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029336_1171

Pages

01-27

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/134/124

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/134

Subjects

Medication Jurisprudence Healing Disease Significant.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسان کی صحت اخلاط اربعہ کے توازن اور حرارت و برودت اور رطوبت و یبوست کے اعتدال سے قائم ہے ان اخلاط اور کیفیات میں سے کسی خلط اور کیفیت میں اگر خلط آجائے تو انسان کا مزاج فاسد اور اس کی صحت بگڑ جاتی ہے ۔صحت کی بحالی کے لئے ہر کیفیت کو اس کی اصل حال کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور اسی عمل کو عرف میں علاج معالجہ سے تعبیر کرتے ہیں۔[1]

تغیّر زمانہ کے ساتھ طب میں بہت ترقی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بحیثیت مسلمان اس بات کی فکر کی ضرورت ہے کہ علاج کرانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور معروف معالجاتی طریقوں کو اپناتے ہوئے کن اُمور کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے؟ زیر ِ نظر مقالہ میں انہیں پہلوؤ پر روشنی ڈالی جائے گی۔

علاج کی تعریف اور توضیح لغوی معنیٰ:

علاج عربی لغت کا لفظ ہے جوکہ ثلاثی مجردکےباب سےمشتق ہے۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ’’Medical Treatment[2]‘‘ یا ’’Therapy‘‘سے کیا جاتا ہے[3] ۔ معروف عربی لغت’’معجم اللغة العربية المعاصرة‘‘میں علاج کے مندرجہ ذیل لغوی معانی ذکر کئے گئے ہیں :

’’عالجَ يعالج، معالجةً وعِلاجًا، فهو مُعالِج، والمفعول مُعالَج عالج المريضَ: داواه‘‘عالج العطلَ:بحث عنه وأصلحه عالج المشكلة: بحث عن أخطائها وصحَّحها۔‘‘[4]

’’علاج عالج کا مصدر ہے اوراس کا معنیٰ دوا کرنے کے ہیں اور اس کااستعمال کسی مشکل کا حل تلاش کرنے یاکسی کام کی اصلاح کے لئے بھی ہوتا ہے‘‘۔

مزید بر آں عربی لغت میں علاج کے لئے’’طب‘‘اور ’’تداوی‘‘ جیسے الفاظ کا بھی استعمال اسی معنیٰ میں ہوتا ہے۔[5] ’’لسان العرب‘‘ میں طب کے ذیل میں لکھا گیا ہے:

’’الطب: علاج الجسم والنفس. رجل طب وطبيب: عالم بالطب؛ تقول: ما كنت طبيبا،ولقد طببت، بالكسر والمتطبب: الذي يتعاطى علم الطب. ولغتان في الطب.[6] ‘‘

’’طب جسمانی یا روحانی بیماری کا علاج کرنے کو کہا جاتا ہے اور طبیب اس آدمی کو کہا جاتا ہے جو علاج کرتا ہے یا طب کا علم جانتا ہے‘‘

تاج العروس میں علاج کے ضمن میں اس کے لغوی معنیٰ پر اس انداز میں بحث کی گئی ہے:

’’علج: العلج، بالكسر: العير الوحشي إذا سمن و قوي و يقال: هو حمارالوحش السمين القوي، لاستعلاج خلقه وغلظه. عن أبي العميثل الأعرابي. العلج: الرجل من كفار العجم، والقوي الضخم منهم۔‘‘[7]

’’عِلجموٹے تازے جانور کو کہا جاتا ہے یا بطور اطلاق گدھے کو بھی اس کے مضبوط اور تندرست جسم کی وجہ سے کہا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ عجم سے تعلق رکھنے والے اچھی صحت کے مالک غیر مسلم کے لئے بھی یہ لفظ مستعمل ہے‘‘۔

اسی طرح ایک لفظ ’’معالجہ‘‘ بھی ہے جو کہ باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور اس کے حروف اصلی بھی( ع-ل-ج )ہی ہیں، کبھی کبھار ان دونوں کو ایک ساتھ یعنی مرکب بھی لایا جاتا ہے جیسا کہ’علاج معالجہ‘لفظ معروف ہے[8]۔ اس کا مطلب بھی وہی ہے جو علاج کا بیان کیا گیا یعنی دوا دارو کرنا اور بیماری کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔

اصطلاحی معنیٰ:

لفظ علاج کی کئی اصطلاحی تعریفات کی گئی ہیں جن کے الفاظ تو مختلف ہیں مگر معانی سب کے لگ بھگ ایک ہیں، جیسا کہ ذیل سے واضح ہوتا ہے۔

علاج کا اصطلاحی استعمال (اردو میں ) :

لفظ علاج اب عربی میں بہت کم جب کہ اردوزبان میں کثیر الاستعمال ہے۔ لغاتِ اردو میں اسم کے طور پر استعمال ہوتاہےاس کے 3 معانی زیادہ معروف ہیں جن میں دو معانی حقیقی اور ایک مجازی ہے۔

حقیقی معانی:

(ا)دواداروکرنا،معالجہ اورتدبیر یا کسی خرابی یادشواری کورفع کرنےکاعمل،(ب)تدارک یا روک[9] ۔

مجازی معنیٰ:

سزا،پاداش،تعزیر،کسی کا مزاج درست کرنےکاعمل[10]۔

اس کے مترادفات میں روک (ہندی میں)، دارو(فارسی میں)،چارہ،دوا اورتدبیر وغیرہ شامل ہیں جو کم و بیش اسی معنیٰ میں مستعمل ہیں[11]۔

علاج کا اصطلاحی استعمال (عربی میں ) :

طب کی اولین کتب میں شامل ابن سینا (المتوفى: 428هـ)کی معروف کتاب ‘’القانون فی الطب ‘’میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

"ھو علم یتعرف منه أحوال بدن الإنسان من جهة ما يصح و يزول عن الصحة؛ليحفظ الصحة حاصلة،ويستردها زائلة‘‘ ۔[12]

’’طب وہ علم ہے جس کے ذریعے انسانی بدن کے احوال کو صحت اور زوال صحت کے اعتبار سے جانا جاتا ہے تاکہ اس کی

صحت کی حفاظت کی جا سکے اور زائل شدہ کو واپس لایا جا سکے‘‘ ۔

علامہ ابوالفیض الزبیدی(المتوفى: 1205هـ) تاج العروس میں طب کی اصطلاحی تعریف میں فرماتے ہیں:

’’علم و فن يتعلق بالمحافظة على الصحة والوقاية من الأمراض وتخفيفها وعلاجها‘‘ [13]۔

’’وہ علم ہے جس کا تعلق صحت کی حفاظت اور امراض سے بچاؤ سے ہے‘‘۔

موسوعة الفقه الطبي میں طب کے اصطلاحی معنیٰ کے بارے میں لکھا گیا ہے :

’’الكشف عن مسببات المرض العضوي، أو النفسي، وتعاطي الدواء المناسب لتخليص المريض من مرضه، أوتخفيف حدته، أو الوقاية منه‘‘۔[14]

’’کسی بھی جسمانی یا نفسیاتی بیماری کو دریافت کر کے اس کے مناسب دوا دینا تاکہ مریض کو اس بیماری سے شفا مل جائے، اس

بیماری کی شدّت کم ہو جائے یا اس بیماری کے آنے سے قبل ہی اس کا سد باب کیا جائے‘‘

محمد رواس قلعجي اپنی کتاب معجم لغة الفقهاء میں طب کے اصطلاحی معنیٰ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

استعمال ما يكون به شفاءالمرض بإذن الله تعالى من عقار،أو رقية، أو علاج طبيعي، كالتمسيد ونحوه۔”۔[15]

کسی بھی ایسی چیز کا استعمال کرنا علاج (طب)کہلاتا ہے جس کے سبب سےمن جانب اللہ بیماری سے نجات مل جائے چاہے

وہ طریقہ دوائی لینا ہو، دم کرنا یا مساج کراناہو‘‘۔

سلسة اعلام المسلمين میں عبد الغنی باقر طب کا اصطلاحی معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

المرض هو خروج الجسم عن المجرى الطبيعي، والمداواة رد إليه ، ورده يكون بالموافق من الأدويةالمضادة للمرض‘‘[16]۔

"جسم کے اپنی طبعی حالت سے نکل جانے کو مرض کہتے ہیں اور علاج اس کے توڑ کا نام ہے، اور یہ علاج ایسی مناسب دوا سے

ہو جوبیماری کےخلاف عمل کرے‘‘۔

Collins English Dictionary میں علاج کی تعریف یوں کی گئی ہے:

The act, manner, or method of handling or dealing with someone or something’’.[17]

’’کسی عمل ،انداز،یاطریقہ سے کسی شخص یا کسی چیز کے ساتھ نمٹنا یا اس کے ساتھ معاملہ کرنا‘‘۔

اصطلاحات طب کی معروف کتاب Miller-Keane Encyclopedia and Dictionary of Medicine, Nursing, and Allied Health’’میں علاج کا اصطلاحی معنیٰ اس طرح بیان کیا گیا ہے

“The use of an agent, procedure, or regimen, such as a drug, surgery, or exercise in an attempt to cure or mitigate a disease, condition, or injury”.[18]

’’کسی بیماری یاچوٹ کو ٹھیک کرنے یا کم کرنےکی کوشش میں دوا ،سرجری، یاورزش وغیرہ کو بطور طریقہ کار

استعمال کرنا‘‘۔

اس کے علاوہ بھی علاج کی بہت سی تعریفات کی گئی ہیں تاہم اس بات میں کوئی اخفاء نہیں کہ مذکورہ تمام معانی کا مطلب و مفہوم کم و بیش ایک ہی ہےاور ان میں صرف الفاظ الگ الگ ہیں ۔

علاج کی اقسام

دنیا میں علاج کے بہت سے طریقے دریافت کئے گئے جو وقت کے ساتھ ساتھ انسانی تجربات اور ترقیات کے تحت وجود میں آئے ، موجودہ زمانے میں علاج کے بہت سے طریقےموجود ہیں ، جیسے ایلوپیتھی ،یونانی ،آیورویدی، ہومیوپیتھی ، ایکوپنکچر ( سوئیوں کے ذریعہ علاج )، پچھنے لگوانا (Cupping Therapy)۔جن میں فی الوقت تین طریقہ علاج زیادہ مشہور ہیں :* طب یونانی (Unani Medicine)

  • ایلو پیتھی (Allopathy)
  • ہومیو پیتھی (Homeopathy)

مذکورہ تینوں طریقہ ہائے علا ج کی وضاحت قدرےاختصار کے ساتھ درج ذیل ہے:

]Unani Medicine الف:طب یونانی [

طب یونانی ملک یونان کی طرف منسوب ایک عربی اصطلاح ہے۔ [19]اس کو 377-460 قبل مسیح میں قدیم یونان کے علاقے میں طب کے ایک نظام کے طور پر وضع کیا گیا جس کو یونانی نظام کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ اس سے قبل علاج کو ایک جادو مانا جاتا تھا ۔طب یونانی کے موجدین میں بقراط (متوفی 370ق-م) کا ذکر آتا ہے۔ بقراط نے ایسے مقالات تحریر کیے جنہوں نے طب کی بنیاد بننے والے اصولوں کو ایک مضبوط مقام دیا۔ انہوں نے علاج کو جادوگری اور جادو کے دائرے سے نکالا اور اس کو ایک مستقل سائنس کی حیثیت سے الگ پہچان دی۔ اسی لئے بقراط کو ’’طب کا باپ‘‘[20] لقب دیا گیا ۔ بقراط کے بارے میں یہ یقینا کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے موجود علم میں بے پناہ اضافہ، نئے خیالات و تصورات شامل کیے اور اصلاحات کر کے اس کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سے آنے والے زمانوں میں طب کے میدان میں تحقیق اور ترقی کی بنیادیں فراہم ہوئيں۔

یونانی علاج کا آغاز کرنے والوں اور اس کی بنیاد رکھنے والوں میں بقراط کے ساتھ جالینوس (متوفی 201ء) کا نام بھی سر فہرست ہے۔[21] انہوں نے قدیم یونانی نظریات کو ایک شفاف شکل دی اور اس کو عملی طور پر سمجھنے کی کوششیں کیں، مثلاً انہوں نے جانوروں پر تجربات کیے اور گردوں ، اعصاب اور خون کی دل میں گردش کے بارے میں اپنے نظریات پیش کیے[22] ۔ یوں بعدمیں آنے والے طبیبوں کے واسطے ایک واضح راستہ بنا دیا۔

]Allopathy ب: ایلوپیتھی[

موجودہ دور کا سب سے مقبول سلسلہ ایلو پیتھک علاج کا ہےاور اسے سائنس اور ٹیکنالوجی کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے۔اس طب میں خاصی بڑی تعداد میں مفید ادویات بھی موجود ہیں جو مہلک جراثیم ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ایلو پیتھک دو یونانی الفاظ ’’Allos ‘‘( یعنی دیگر یا علاوہ) اور ’’Patheia‘‘( یعنی بیماری) سے مل کر بنا ہےجس کے معنیٰ ہوئے ’’بیماری کے مخالف یا بیماری کے علاوہ ‘‘[23]۔ اس کی تعریف یوں ہے’’Treatment of disease by remedies that produce effects opposite to the symptoms[24]‘‘یعنی ’’ایسا طریقہ ء علاج جس میں کسی بیماری کی علامات کے مخالف اثرات پیدا کر کے اس کا علاج کیا جاتا ہے ‘‘۔ اسی وجہ سے اس کو ’’معالجۂ اخلافیہ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔

اس طریقہء علاج کے لئے Allopathy لفظ کا استعمال سب سے پہلے ہومیو پیتھک کے بانی ڈاکٹر سیموئیل ہانی مَن نے 1810ء میں میں کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اپنے طریقۂ علاج یعنی معالجہءمثلیہ [25]سے دوسرے تمام طریقہ معالجات سے جدا شناخت دی جائے[26]۔19ویں صدی کے اوائل میں یورپ اور امریکہ دونوں جگہ اس طریقہ علاج کو اپنایا گیا جہاں اس سے قبل ’’[27] Heroic Medicine‘‘ سے لوگ علاج کرتے تھے جیسے خون نکالنا یا آنتوں کو صاف کرنا۔اس کو علاج کا تکلیف دہ طریقہ سمجھا جاتا تھا۔

پہلے شاید علاج کی اس تقسیم میں ایلوپیتھک کو معالجہ اخلافیہ کہہ کر ہومیو پیتھک (معالجہ مثلیہ )سے الگ کرنا درست ہو لیکن آج کل یہ تقسیم زیادہ پراثر نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایلو پیتھک میں بھی بہت سے ایسے طریقہ کار آچکے ہیں جن میں بیماری کا علاج ،علاج بالمثل سے ہی کیا جاتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال ویکسین ہے جسے جسم میں داخل کرنے پر جسم کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے اور جسم میں داخل ہونے پر کوئی بیماری پیدا نہیں ہوتی کیونکہ اسی سے بنا ئی گئی ویکسین اسی کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کر چکا ہوتا ہے۔ اس کی افادیت بھی مسلّم ہے جس کی سب سے بڑی مثال موجودہ دور میں پولیو ویکسین ہے[28] ۔

]Homeopathyث: ہومیو پیتھی[

ہومیوپیتھک دوالفاظ ’’ Homoios‘‘ اور ’’ Patheia‘‘ سے مل کر بنا ہے۔ Homoios اس کا مطلب ہے’’کسی جیسا ہونا‘‘اور Patheia کا مطلب ہے ’’بیماری‘‘۔اس میں امراض کے علاج میں ایسے ادویاتی نسخے استعمال کیے جاتے ہیں کہ جن کی زیادہ مقدار عام افراد میں وہی مرض پیدا کرتا ہے جس کے علاج کے لیے وہ نسخہ ہو۔یعنی جس بیماری کے علاج کے لئے دوا کم مقدار میں دی جاتی ہے یہی دوا اگر زیادہ مقدار میں دی جائے تو یہ دوا اس مرض کا باعث بھی بن سکتی ہےاسی لیے اس کوLike اور اردو میں معالجہ مثلیہ یا ’’بالمثل طریقہ علاج‘‘بھی کہا جاتا ہے [29]۔

ہومیو پیتھک کی قدیم ترین تاریخ دیکھی جائے تو ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح یعنی پانچویں صدی (۴۰۰ سے ۴۷۰ ق م) میں ایک نام بقراط (Hippocrates) کا ملتا ہے۔جسے بابا ئے طب کہا جاتا ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ صحت پانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک’’ بالضد‘‘اور دوسرا ’’بالمثل‘‘ ہے[30]۔ یہ علاج بالمثل ہی ہومیو پیتھی ہے ۔اُس نے تنبیہ کی کہ مرض کی قدرتی علامات کی پیروی کرو ،نہ کہ مخالفت۔ اُس نے علاجِ بالمثل پر ایک مدلل کتاب لکھی[31]۔

عصرِ حاضر میں ہومیو پیتھی کے بانی سیموئیل ہانی مَن ’’Samuel Hahnemann ‘‘ [32]ہیں ،جنہوں نے سالہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد اس طریقہء علاج کو دریافت کیا ۔ سیموئیل ہانی مَن بذات خود ایلو پیتھک ڈاکٹر تھے ان کی بیٹی بیمار ہوئی جس کا انگریزی دواؤں کے ذریعے علاج کیا گیا تاہم دواؤں کے مضر اثرات (Side Effect )کے باعث ان کی اکلوتی بیٹی کا انتقال ہوگیا ۔تب وہ ایلو پیتھک طریقہ علاج کو خیر باد کہہ کر ہومیو طریقہ علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے۔

سیموئیل ہانی مَن کو چودہ مختلف زبانوں پہ عبور حاصل تھا جب اس نے ایلو پیتھک طریقہ علاج کو چھوڑا تو اپنا گھر چلانے کے لئے مختلف کتابوں کے ترجمے کرنا شروع کر دیئے ۔’سنکونا‘ (Cinchona)جسے کونین بھی کہا جاتا ہے (ایک خاص قسم کی جڑی بوٹی ہے جو ملیریا کی بیماری میں بطور دوا استعمال ہوتی ہے ) کے مطالعہ سے اسے ایک نئی راہ ملی بلکہ ہومیوپیتھی دریافت کرنے میں آسانی پیدا ہوئی ۔[33] مزید تحقیق کے بعد سیموئیل ہانی مَن نے دنیا کے سامنے کونین کا نیا فلسفہ پیش کیا اور بتایا کہ :’’کونین کو بخار اتارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کونین تندرستی کی حالت میں کھائی جائے تو بخار پیدا بھی کر تی ہے‘‘ ۔یہی علاج بالمثل کا آغاز تھا اور اسکے بعد ہومیو پیتھک ادویات کی تیاری اور تحقیق کا عمل شروع ہوگیا۔

ہومیوپیتھی کی ابتداء1790ءکی دہائی میں جرمنی میں ہوئی پھر فرانس اور برطانیہ پہنچی۔19ویں صدی میں ہومیو پیتھی کو سب سے زیادہ شہرت ملنا شروع ہوئی ۔امریکہ میں اس کا آغاز 1825ء میں ہوا۔[34]اس کے بعد 1835 ء میں امریکہ میں پہلے ہومیو پیتھک سکول کا قیام عمل میں آیا اور 1844ء میں پہلی بار اس کی باقاعدہ ایک تنظیم ’’American Institute of Homeopathy ‘‘ وجود میں آئی۔ اس کے بعد 19ویں صدی میں امریکہ اور یورپ میں ہومیو طریقہء علاج بہت تیزی سے پھیلا اور اس کے درجنوں ادارے بنے اور کچھ عرصے بعد اس کے ہزاروں ماہر ین تیار ہو گئے جو اسی طریقے پر لوگوں کا علاج کرتے[35]۔اسی صدی کے اواخر میں طب کے شعبے میں بڑا نام و مقام رکھنے والے سائنسدانوں کی طرف سے ہومیو پیتھی کی مخالفت کا آغاز ہو گیا جس کی وجہ سے اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا اور یہ طریقہ علاج زوال کا شکار ہو گیا یہاں تک کہ 1920ء میں امریکہ میں ہومیو پیتھی کا آخری سکول بھی بند ہوگیا[36]۔ اس کا دوبارہ عروج جرمنی کی نازی افواج کے ساتھ ساتھ پھیلا جس نے اس پر ایک کثیر رقم خرچ کی اس کے باوجود کہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آرہا تھا۔[37]

فرانس میں 90 کی دہائی میں ہومیوپیتھی کو میڈیکل کا بہترین نظام قرار دیا ہے[38]۔یہی وجہ ہے کہ2000ء جنیوا میں دنیا بھر سے سروے رپورٹ کے بعدWHOنے ہومیوپیتھک کو امراض کی روک تھام کا دوسرا بڑا طریقہ علاج قرار دیا ہے ۔ 2000ءہی میں برطانوی ایوان امرا ء نے اور22 مارچ 2002ء وائٹ ہاؤس کمیشن، واشنگٹن نے ہومیوپیتھی کی حیثیت کو تسلیم کیا[39]۔ آج بھی دنیا میں اس طریقہ علاج پر لاکھوں لوگ عمل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی بیماریوں کا علاج کراتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی طریقۂ علاج موجودہیں اور جن کی سرپرستی ہورہی ہے،اُن میں ہومیو پیتھی طریقہ ٔ علاج بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ذرائع ابلاغ میں تشہیر کے بغیر ہی روز افزوں مقبولیت اس کے کامیاب نتائج کا ثبوت ہے۔ بلاشبہ اس کی اہمیت کو اس کی افادیت اور شفایابی کی صلاحیت نے اُجاگر کیا ہے۔

علاج کا حکم اور جواز:

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو بنیادی طور پر اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے[40] اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس کا صحت مند ہونا ضروری ہے، لیکن بعض اوقات انسان کو جسمانی یانفسیاتی امراض لاحق ہو جاتے ہیں جن کے علاج معالجے کاحکم قرآن وسنّت میں موجود ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کےحل تجویز فرمائے وہیں جسمانی ا ورظاہری امراض کے لیے بھی آسان اورنفع بخش ہدایات دی ہیں ۔ ہمیں قرآن و سنت میں بہت سے احکام صرف علاج کے بھی ملتے ہیں۔

علاج جائز اور مشروع ہے اور اس کے جواز میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے۔ ذیل میں اس سلسلے میں قرآن و سنت میں موجود نصوص میں سے چند ذکر کئے جاتے ہیں:

حالت احرام میں سر کے بالوں کو کٹوانا منع ہے لیکن اگر کسی شخص کے سر میں جوئیں پڑ جائیں تو اس کو تکلیف سے نجات پانے کے لئے بالوں کو منڈوا کر فدیہ ادا کرسکتا ہے، اور اس پر کسی قسم کا گناہ بھی لازم نہ آئے گا۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَحْلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوْ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدْیَۃ[41] ترجمہ:’’اور اپنے سر کے بالوں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک کہ ہدی اپنی جگہ پر نہ پہنچ لے اور جو بیمار ہو یا جس کے سر میں جوئیں ہوں تو وہ (بال منڈوا کر) فدیہ ادا کردے‘‘۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ القُر‌ٰانِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ۙ وَلا يَزيدُ الظّـٰلِمينَ إِلّا خَسارً‌ا [42]’’اورہم قرآن(کے ذریعے) سےوہ چیز نازل کرتےہیں جومومنوں کےلیےشفاءاوررحمت ہے،اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے‘‘۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ(متوفى: 671ھ) اس آیت کے ضمن میں شفاء کے دو معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اختلف العلماء في كونه شفاء على قولين : أحدهما : أنه شفاء للقلوب بزوال الجهل عنها وإزالة الريب، ولكشف غطاء القلب من مرض الجهل لفهم المعجزات والأمور الدالة على الله تعالى الثاني : شفاء من الأمراض الظاهرة بالرقى والتعوذ ونحوه‘‘۔[43]

’’قرآن پاک کے شفاء ہونے کے بارے میں علماء کی دو مختلف آراء ہیں : پہلی رائے یہ ہے کہ یہ (صرف) دل کی

بیماریوں کے لئے شفاء ہے جیسے دل سے جہالت اور شک کو دور کرنا ، اوردل سے جہالت کے پردے کو ہٹانا تاکہ وہ

معجزات کو اور اللہ کی پہچان والے امور کو سمجھے( یعنی صرف روحانی بیماریوں کا علاج ہے)۔ دوسری رائے یہ ہے

کہ اس میں امراض ظاہرہ کا بھی علاج ہے جیسے دم کرنا یا تعویذ کرنا وغیرہ‘‘۔

تفسیر کبیر میں امام فخرالدين رازی رحمہ اللہ(المتوفى: 606ھ) بھی اس آیت کے تحت قرآن کو روحانی اور جسمانی دونو ں بیماریوں کے لئے شفاء قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’والمعنى : وننزل من هذا الجنس الذي هو قرآن ما هو شفاء ، فجميع القرآن شفاء للمؤمنين ،واعلم أن القرآن شفاء من الأمراض الروحانية ، وشفاء أيضا من الأمراض الجسمانية‘‘[44]

’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جنس قرآن ہی شفاء کا باعث ہے ، پس قرآن سارا کا سارا ہی ایمان والوں کے لئے شفاء ہے۔ یہ بات جان لینی چاہئے کہ قرآن جس طرح روحانی امراض کے لئے شفاء ہے اسی طرح جسمانی امراض سے بھی شفاء کا ذریعہ ہے‘‘

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’عليكم بالشفائين: العسل والقرآن ‘‘[45]

’’دو چیزوں سے شفاء حاصل کرنا تم پر ضروری ہے (ایک) شہد اور (دوسرا )قرآن‘‘۔

قرآن پاک میں بھی شہد کو شفاء کہا گیا ہے ۔سورہ النحل میں﴿ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ﴾[46]کے الفاظ اس حدیث کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :

’’لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بـإذن الله عزّوجلّ‘‘[47]

’’ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کو اس کی اصل دوامیسر ہوجائے تو انسان اللہ عزوجل کے حکم سےشفایاب ہوجاتا

ہے‘‘۔

صحیح بخاری میں مذکور ہے:

’’ما أنزل الله دآء إلا أنزل له شفاء‘‘[48]

’’ اللہ عزوجل نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو‘‘۔

جناب نبی کریمﷺ کا تعامل خود علاج کے جواز بلکہ حکم پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو علاج کا حکم فرمایا تھا، جیسا کہ ترمذی شریف میں حدیث موجود ہے۔

’’نعم، يا عباد الله تداووا، فإن الله لم يضع داء إلا وضع له شفاء، أو قال: دواء إلا داء واحدا قالوا: يا

رسول الله، وما هو؟ قال: الهرم.‘‘[49]

’’ہاں ، اللہ کے بندو !علاج کروایا کرو، اس لئے کہ اللہ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں کی جس کی شفاء نہ ہو۔ یا فرمایا:جس

کی دوا نہ ہو، سوائے ایک بیماری کے، صحابہ کرام نے عرض کیا وہ ایک بیماری کون سی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :

بڑھاپا‘‘۔

علاج کروانا تقدیر کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ اسباب کو اختیار کرنے کا ہی ایک انداز ہے ۔اس بات کی طرف بھی سنن ابن ماجہ کی حدیث میں اشارہ ملتا ہے جس میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے اس شبہ کو دور کرنے کے لئے فرمایا:’’هي من قدر الله ‘‘[50] "یہ(علاج ) بھی اللہ کی تقدیر (ہی)ہے‘‘۔

خود نبی کریمﷺ نے بھی اپنا علاج کروایا ہے اور آپﷺ اس زمانے کے رائج علاج کے مطابق پچھنے لگواتے تھے۔ روایت میں آتا ہے:

’’ كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يحتجم على الأخدعين ، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين‘‘[51]

’’ نبی کریمﷺدونوں کندہوں پر پچھنے لگوایا کرتے تھے اور چاند کی سترہ تاریخ یا انیس تاریخ یا اکیس تاریخ

کو پچھنے لگواتے تھے‘‘

علاج کرنے سے یا کروانے سے توکل کی نفی نہیں ہوتی۔ اسی بات کو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفى: 751ھ) زادالمعاد میں علاج کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’وفيهاردعلى من أنكرالتداوي،وقال: إن كان الشفاء قدقدر فالتداوي لايفيد،وإن لم يكن قدقدر فكذلك ‘‘[52] ترجمہ : ’’علاج معالجہ کرانے کے حکم میں ان لوگوں کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ اگر مقدر میں شفاءلکھی ہے توعلاج کاکوئی فائدہ نہیں ہے،اگرمقدرمیں شفاءنہیں توبھی علاج کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

نبی کریمﷺ نے باقی جسمانی اور روحانی بیماریوں کے علاوہ نظر کے علاج کی طرف بھی رہنمائی فرمائی جو کہ سنن ترمذی میں موجود ہے۔

’’العين حقّ ‘‘[53] ترجمہ: ’’نظر بد کا اثر برحق ہے‘‘

ایک اور مقام پر نظر کی اہمیت کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا : ’’ولو كان شيء سابق القدر لسبقتْه العينُ ‘‘[54]

’’اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی ہے تو وہ نظر بد ہی ہے‘‘۔

اما م مسلم رحمہ اللہ(المتوفى: 261ھ) نے صحیح مسلم میں’’ باب جواز أخذ الأجرة على الرقية بالقرآن والأذكار‘‘[55]کے عنوان سے ایک الگ باب قائم کیا ہے جس میں دم کرنے پر اجرت لینے کو حدیث سے جائز ثابت کرتے ہیں ۔

خلاصۃ البحث

علاج کرانا شرعاً جائز ہے۔ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ خود جناب نبی کریم ﷺ کے تعامل سے یہ ثابت ہے۔ علاج کرانا تقدیر کے خلاف نہیں بلکہ علاج کرانا بھی تقدیر ہے ،البتہ شفاء من جانب اللہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سےبیماری سے شفاء ملتی ہے۔آج کے دور کا انسان جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے ان میں صحت و تندرستی کے مسائل سرفہرست ہیں۔صحت اللہ تعالیٰ کی اہم ترین نعمت ہے ۔ رسول اللہﷺکا ارشاد پاک ہے:’’ نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس: الصحة والفراغ ‘‘[56] ترجمہ: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں رہتے ہیں ،ایک صحت اور دوسری فراغت‘‘۔

صحت کی قدرو منزلت انسان کو تب معلوم ہوتی ہےجب وہ بیماری میں مبتلا ہو جائے۔صحت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمت ہے، روز قیامت انسان سے جن انعامات کا پوچھا جائے گا، ان میں صحت اور ٹھنڈا پانی سرفہرست ہوں گے جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:

’’أول ما يقال للعبد يوم القيامة: ألم أصحح جسمك وأرويك من الماء البارد‘‘[57]

’’قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے جسم کو صحیح نہیں بنایا تھا اور تمہیں ٹھنڈا

پانی نہیں پلایا تھا ؟‘‘۔

اس کے علاوہ اس باب میں متعدد ایسی احادیث موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے حفظان صحت کوبہت اہمیت دی ہے۔ صحاح ستہ میں وارد اس باب کی احادیث پڑھنے سے یہ اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام حفظان صحت کا کس قدر خواہاں ہے اور وہ کس طرح روحانی ارتقا ءکے ساتھ ساتھ جسمانی صحت اور تندرستی میں بھی دل چسپی لیتا ہے۔[58]

صحت ایک عطیہء خداوندی ہے لیکن اس بیش بہا نعمت کی کماحقہٗ قدر نہیں کی جاتی اور لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں ۔ مال و زر، جائداد اور دیگر املاک کی قدردانی تو ہر ایک کرتا ہے لیکن جس قوت و صلا حیت (یعنی صحت)سے یہ تمام چیزیں میسر آتی ہیں اور جس کے ذریعے ان تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی احتیاط نہ کرنا کم عقلی قرار دی جا سکتی ہے ۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ صحت کا خیال رکھنےاور علاج کرانے کا کیا حکم ہے۔امام ابن تیمیہ (المتوفى: 728ھ) اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں :’’وقد يكون منه ما هو واجب وهو : ما يعلم أنه يحصل به بقاء النفس لا بغيره كما يجب أكل الميتة عند الضرورة فإنه واجب عند الأئمة الأربعة وجمهور العلماء‘‘[59]

’’بعض صورتوں میں علاج معالجہ واجب ہے اوریہ اس صورت میں جب یقین ہوجائے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا

ممکن نہیں مثلاً اضطراری حالت میں مُردارکا کھالینا واجب ہے، ایسی صورتِ حال میں ائمہ اربعہ اور جمہور علما ءکے

نزدیک ایسا کرنا واجب ہے‘‘۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین  (المتوفى: 1421ھ) فرماتے ہیں :

’’ فالأقرب أن يقال ما يلي:

1 ـ أن ما عُلم، أو غلب على الظن نفعه مع احتمال الهلاك بعدمه، فهو واجب.

2 ـ أن ما غلب على الظن نفعه، ولكن ليس هناك هلاك محقق بتركه فهو أفضل.

3 ـ أن ما تساوى فيه الأمران فتركه أفضل؛ لئلا يلقي الإِنسان بنفسه إلى التهلكة من حيث لا يشعر.‘‘[60]

  1. جس مرض کے علاج سے شفا ء کاظن غالب ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت کا احتمال ہوتو اس کا علاج کرانا

واجب ہے۔

  1. جس مرض کے علاج سے ظن غالب کےمطابق نفع ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت یقینی نہ ہو تو اس مرض کا

علاج کرانا افضل ہے۔

  1. جس مرض کے علاج سے شفاء او ر ہلاکت کے خدشات برابر ہوں تو اس کا علاج نہ کرانا افضل ہےتاکہ انسان

لاشعوری طور پر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال بیٹھے‘‘۔

میڈیکل علاج کے بارے میں 'اسلامی فقہی بورڈ' نے اپنے اجلاس( منعقدہ مؤرخہ14-9 مئی 1992ء بمقام جدّہ سعودی عرب )میں قرارداد نمبر 7؍5؍67 پاس کی جس میں ہے کہ:

’’الأصل في حكم التداوي أنه مشروع ، لما ورد في شأنه في القرآن الكريم والسنة القولية والفعلية،و لما فيه من ’’حفظ النفس‘‘ الذي هو أحد المقاصد الكلية من التشريع . وتختلف أحكام التداوي باختلاف الأحوال والأشخاص: فيكون واجباً على الشخص إذا كان تركه يفضي إلى تلف نفسه أو أحد أعضائه أوعجزه ، أو كان المرض ينتقل ضرره إلى غيره ، كالأمراض المعدية. ويكون مندوباً إذا كان تركه يؤدي إلى ضعف البدن ولا يترتب عليه ما سبق في الحالة الأولى .ويكون مباحاً إذا لم يندرج في الحالتين السابقتين.ويكون مكروهاً إذا كان بفعل يخاف منه حدوث مضاعفات أشد من العلة المراد إزالتها.‘‘[61]

’’علاج معالجہ اصلاً جائزہے ،کیونکہ اس کے متعلق قرآنِ کریم اور سنّتِ قولی وفعلی میں دلائل موجود ہیں اور یہ اس

وجہ سے بھی مشروع ہے کہ اس سے انسانی جان کی حفاظت ہوتی ہے جو شریعتِ مطہرہ کےمقاصدِاصلیہ میں سے

ایک اہم مقصد ہے ۔ اور ابدان واحوال کے اختلاف کے مطابق علاج معالجےکے احکام بھی بدلتے رہتے ہیں چنانچہ

جس مرض سے جان کی ہلاکت یا کسی عضوکی خرابی یا اس کے مفلوج ہونے کا اندیشہ ہو ، یا متعدی امراض کی

طرح اس مرض کا اثر دیگر لوگوں تک منتقل ہونے کا خطرہ ہو تو اس کاعلاج کرانا واجب ہے۔جس مرض کے علاج نہ

کرانے سے بدن کے کمزورہونے کا اندیشہ ہو اور مذکورہ بالا خطرات نہ ہوں تو اس کا علاج کرانا مستحب ہے ۔جب

مذکورہ بالا دونوں صورتیں (جان کی ہلاکت /بدن کی کمزوری) نہ ہوں تو علاج کرانا جائز ہےاور جب کسی مرض کے

علاج کی وجہ سے اس سے بدتر مرض کے در آنے کا خطرہ ہو تو اس کا علاج کرانا مکروہ ہے‘‘۔لہذا علاج معالجہ جائز ہے۔ البتہ علماء نے وجوب اور استحباب کے اعتبارسےاس کی درجہ بندی کی ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:* جس بیماری سے ہلاکت کا اندیشہ ہو یا کسی عضو کی خرابی یا مفلوج ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا علاج کرنا واجب ہے۔

  • جس بیماری سے کمزوری کا اندیشہ ہو تو اس کا علاج کرنا مستحب ہے۔
  • جس بیماری سے ہلاکت یا کمزوری کا اندیشہ نہ ہو تو اس کا علاج کرنا جائزہے۔
  • جس بیماری کے علاج سے اس سے بد تر مرض لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتو اس کا علاج کرنا مکروہ ہے۔

علاج کے حکم میں فقہاء کرام کا اختلاف

علاج کےجواز کے دلائل ماقبل میں گزر چکے ہیں تاہم اس کے حکم میں فقہاء اربعہ اور دیگر علماء کے اقوال مختلف ہیں جن کا اگر احاطہ کیا جائے تو اس میں کل چارفقہی آرا ملتی ہیں، جن کا ذکر کرنا افادیت سے خالی نہیں ہے۔

اول قول:اباحت ِ علاج :

اول قول احنافؒ[62]اور مالکیہؒ[63]کا ہے جو کہ علاج معالجہ کو مباح کہتے ہیں۔ ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

دلیل نمبر 1:

حضورﷺ کا ارشاد ہے: ’’ تداووا عباد الله، فإن الله سبحانه لم يضع داءً إلى وضع معه شفاء ‘‘[64]

’’اللہ کے بندو ! علاج معالجہ کرایا کرو اس لئے کے اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری پیدا کی ہے اس کےساتھ ہی اُس کی دوا

بھی پیدا کی ہے‘‘۔

وجہ استدلال:

اس حدیث سے استدلال اِس کے ظاہری الفاظ سے کیا گیا ہے کہ جب آپﷺ سے علاج کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں آپﷺ نے ’’ تداووا عباد الله‘‘ کے الفاظ سے علاج کا حکم صادر فرمایا ہے اور قانون ہے کہ’’ وأقل درجات الامر الإباحة ‘‘ یعنی کہ امر (کسی بھی کام کرنے کےحکم) کا سب سے ادنیٰ درجہ اباحت ہوتا ہے اس لئے اس حدیث پاک سے کم ازکم اباحت معلوم ہوتی ہے۔

علامہ خطابیؒ (المتوفى: 388ھـ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’في هذا الحديث إثبات الطب، والعلاج، وأن التداوي مباح، غير مكروه كما ذهب إليه بعض الناس‘‘[65]

’’ اس حدیث سے طب ،علاج کروانے، دوا کے استعمال کی اباحت اور علاج معالجہ کے مکروہ نہ ہونے کا ثبوت ملتا

ہے جس کی طرف بعض لوگ گئے ہیں‘‘۔

دلیل نمبر 2:

امام مالکؒ نے اپنی مؤطا میں حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ حضورﷺ سے دو آدمیوں نےایک بیماری کا علاج کروانے کے بعد سوال کیا ’’ أوَ في الطب خيرٌ يا رسول الله؟ ‘‘ کہ کیا علاج میں کوئی بھلائی موجود ہے؟ تو آپﷺنےاس کے جواب میں ارشاد فرمایا:

’’ أنزل الدواءَ الذي أنزل الأدواءَ ‘‘[66] ’’دوا بھی اسی(اللہ ) نے ناز ل کی ہے جس نے بیماری نازل کی ہے‘‘۔

علامہ ابن البر ؒ(المتوفى: 463ھ) فرماتے ہیں:

’’وفي هذا الحديث إباحة التعالج لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم ينكر ذلك عليهم‘‘۔[67]

’’اس حدیث میں علاج کی اباحت موجود ہےاس لئے کہ آپﷺ نے ان دونوں اشخاص پر علاج کروانےکے بارے میں کوئی نکیر نہیں فرمائی‘‘۔

دلیل نمبر3:

صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے جس میں آپ ﷺ نے پچھنے لگوانے کے بعد اس طریقہ علاج کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’ إن أمثل ما تداويتم به الحجامة ‘‘[68]۔

’’تم لوگ جس جس طریقے سے علاج کرواتے ہو ان تمام میں سےحجامہ(پچھنے لگوانا)بہترین طریقہ علاج ہے‘‘۔

وجہ استدلال:

اس حدیث میں’’ إن أمثل ما تداويتم به الحجامة ‘‘ کے الفاظ اس سلسلے میں بالکل صریح اور واضح ہیں کہ علاج معالجہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ مباح بھی ہے۔

دلیل نمبر4:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء ‘‘[69]

’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں پیدا کی جس کی دوا پیدا نہ کی ہو‘‘۔

دلیل نمبر5:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ لكل داء دواء فإذا أصيب دواءُ الداء برأَ بإذن الله عز وجل ‘‘[70]

’’ہر بیماری کی دوا موجود ہے، جب دوا بیماری پر صحیح آجاتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفاء مل جاتی ہے‘‘۔

وجہ استدلال:

اس حدیث سے استدلال کے بارے میں علامہ نووی ؒ (المتوفى: 676ھ)فرماتے ہیں:

’’ في هذه الأحاديث، جمل من علوم الدين والدنيا، وصحة علم الطب، وجواز التطبب في الجملة ‘‘[71]

’’ان احادیث میں دینی اور دنیاوی تمام علوم کا اجمالا ذکر ہے، علم ِطب کے صحیح ہونے کا ذکر ہےاور علاج معالجہ کے

جواز کا بھی ذکر ہے‘‘۔

علاج کے بارے میں دوسرا قول: استحباب ِعلاج :

علاج کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ علاج کروانا مستحب ہے ،یہ قول شوافع کی طرف منسوب ہے[72]۔اس کے علاوہ حنابلہ میں سے ابن عقیلؒ اور امام ابن جوزی ؒکی طرف بھی اسی قول کی نسبت کی جاتی ہے[73]۔

دلائل:

جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ علاج معالجہ مستحب ہے ان کے دلائل بھی وہی ہیں جن کا ذکر ماقبل میں گزرا جن میں آپﷺ نے علاج کرانے کا حکم دیا یا خود آپﷺ نے اپنا علاج کروایا ، ان کے مطابق یہ تمام احادیث علاج کے استحباب اور طلب پر دلالت کرتی ہیں۔

علامہ ابن القیم ؒ (المتوفى: 751ھ)فرماتے ہیں : ’’وفي قوله صلى الله عليه وسلم: (لكل داء دواء) تقوية لنفس المريض و الطبيب ، وحث على طلب ذلك الدواء، والتفتيش عليه‘‘[74]

’’آپ ﷺ کے قول (لكل داء دواء) میں مریض اور معالج دونوں کے لئےحوصلہ موجود ہے، اوراس بات پربھی

آمادہ کیا گیا ہے کہ اس دوا کی طلب کے ساتھ ساتھ اس کی جستجو کی جائے‘‘۔

یہ احادیثِ مبارکہ تمام انسانیت کو ہر بیماری کے علاج کے باب میں تسلسل کے ساتھ تحقیق کے عمل کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہیں اوراسلام اس تصور کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ بعض بیماریاں بالکل لاعلاج ہیں۔

کسی بیماری کو لا علاج کہنا دراصل تحقیق اور تنقیح کے اصول کی نفی کرنے کے مترادف ہے بلکہ کسی مرض کا علاج دریافت نہ کرنا اور اس مرض ہی کو ناقابلِ علاج قراردے دینا حدیث کی روح کی نفی ہے۔گزشتہ حدیث میں مریض اور طبیب دونوں کی ڈھارس باندھی گئی ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں ۔حضور ﷺ نے دوا کی جستجو اور اس کی تفتیش پر طبیب و مریض دونوں ہی کو ابھارا ہے اس لیے کہ مریض جب باور کرلیتا ہے کہ اس بیماری کی دوا موجود ہے تو مایوسی اس سے کوسوں دور ہوجاتی ہے، وہ یاس و حرماں سے نکل کر آس کے دروازے میں داخل ہوجاتا ہے۔ جونہی امید کی کرن سے اس کا نفس قوی ہوجاتا ہے،تواس کی توانائی سے مرض پرقابوپانے میں آسانی ہوجاتی ہے۔اور جب طبیب کو اس بات کا علم ہو کہ اس مرض کی دوا موجود ہے ،اس کا حصول ممکن ہے اور جستجو سے دریافت ہوجائے گی ،توطبیب کی طبیعت میں بھی شفا کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔

صحیح احادیث میں معالجہ کرنے کا حکم موجود ہے یہ حکم توکل کے منافی نہیں ۔ جیسے بھوک کے وقت غذا کا استعمال، پیاس کے وقت مشروب کا استعمال ، گرمی سے بچاؤ کے لئے ٹھنڈی چیزوں کا استعمال اور ٹھنڈک سے روک میں گرم چیزوں کا برتنا توکل کے منافی نہیں، ایسے ہی علاج معالجہ کرنابھی توکل کےمنافی نہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان اسباب کے چھوڑنے سے نہ صرف توکل کی روح مجروح ہوگی بلکہ حکمت الٰہی اور امر الٰہی کی بھی تکذیب ہوگی ۔ ابن القیمؒ نے فرمایا:

’’وفي الأحاديث الصحيحة الأمر بالتداوي، وأنه لا ينافي التوكل، كما لا ينافيه دفع داء الجوع، والعطش ،والحر و البرد، بأضدادها، بل لا تتم حقيقة التوحيد إلا بمباشرة الأسباب ، التي نصبها الله مقتضيات لمسبباتها ، قدراً وشرعاً ، وأن تعطيلها يقدح في نفس التوكل ، كما يقدح في الأمر والحكمة و يضعفه من حيث يظن معطلها أن تركها أقوى في التوكل ، فإن تركها عجزاً ينافي التوكل، الذي حقيقته اعتماد القلب على الله في حصول ما ينفع العبد، في دينه ودنياه ، ودفع ما يضره في دينه ودنياه، ولا بد مع هذا الاعتماد من مباشرة الأسباب، وإلا كان معطلاً للحكمة ، والشرع ، فلا يجعل العبد عجزه توكلاً، ولا توكله عجزاً.‘‘[75]

’’صحیح احادیث میں علاج معالجہ کاحکم موجودہے،جس طرح بھوک اور پیاس دورکرنےاورسردی وگرمی سےبچنے کےلئےدوڑدھوپ کرناتوکل کےمنافی نہیں،اسی طرح بیماری کاعلاج کرانابھی توکل اللہ تعالیٰ کےمنافی نہیں ہے،بلکہ

اس وقت تک حقیقتِ توحیدمکمل نہیں ہوتی جب تک انسان شرعاًوتقدیراً ان اسباب کوبروئےکارنہ لائے جنہیں اللہ تعالیٰ

نےاُس کی ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے اور ان اسباب کو اختیار نہ کرنا ، حقیقتِ توکّل سے پہلو تہی کرنا ہے اور یہ علاج معالجے کے حکم کو جھٹلانے اور اس کی حکمت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے‘‘۔

علاج کے بارے میں تیسرا قول:وجوبِ علاج :

علاج کے بارے میں تیسرا قول وجوب کا ہے یعنی علاج کروانا واجب ہے۔ یہ قول شوافع میں سے ایک مختصر جماعت کا ہے اور امام احمد بن حنبل ؒ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی جاتی ہے۔[76]

دلائل:

وجوب کے دلائل وہ تما م احادیث ِ مبارکہ ہیں جن میں آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کوعلاج کروانے کا حکم دیا ، جیسا کہ حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث:

’’ تداووا عباد الله، فإن الله سبحانه لم يضع داءً إلى وضع معه شفاء، إلا الهَرَم ‘‘[77]

’’اللہ کے بندو! علاج کیا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں بناٰئی جس کے لئے شفاء نہ پیدا کی ہو،سوائے

بڑ ھاپے کے‘‘۔

ابو درداء رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں رسول اللہ ﷺکا فرمان مبارک ہے :

’’فتداووا ولا تداووا بحرام ‘‘[78]

’’تم علاج کیا کرو اور حرام چیز سے علاج نہ کیا کرو‘‘۔

اور اس کے علاوہ وہ تمام احادیث جن میں علاج کا حکم موجود ہے۔

مناقشہ:

جو حضرات علاج معالجہ کو مباح قرار دیتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ گو کہ ان روایات میں علاج کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس حکم کو وجوب کی بجائے درج ذیل دو بنیادوں پر اباحت پر محمول کیا جائے گا :

اول وجہ:

ان احادیث کو اباحت یا استحباب پر محمول کرنے کی پہلی وجہ صحیحین کی وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابیہ رضی اللہ عنھا کا ذکر ہے جو آپﷺ سے اپنی بیماری کو دور کرنے کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہیں تو آپﷺ ان کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’ إن شئتِ صَبَرْتِ ولك الجنة، وإن شئتِ دعوت اللهَ أن يعافيك ‘‘[79]

’’اگر تُو چاہے تو صبر کرلے ( تو اس کا بدلہ) تیرے لئے جنت ہے، اور اگر تُوچاہتی ہےتو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ

تجھے(اس بیماری) سے نجات دے‘‘۔

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں:

’’فيه دليل على جواز ترك التداوي‘‘۔[80]

’’اس قول میں علاج معالجہ کے ترک کے جائز ہونے کی دلیل ہے‘‘۔

دوسری وجہ:

تاریخ اور سیر ِصحابہ میں ایسے بہت سےواقعات ہیں جن میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین رحمھم اللہ کا ذکرملتا ہے جو بیماری کا علاج نہیں کرواتے تھے بلکہ اسی بیماری کی حالت میں ہی رہنا پسند کرتے تھے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (المتوفى: 728ھ) اپنے فتاوٰی میں رقمطراز ہیں:

’’ أن خلقاً من الصحابة والتابعين، لم يكونوا يتداوون، بل فيهم من اختار المرض. كأبي بن كعب، وأبي ذر، ومع هذا فلم ينكر عليهم ترك التداوي ‘‘۔[81]

’’صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے ایسے بھی افراد موجود تھے جو علاج نہیں کروایا کرتے تھے بلکہ مرض ہی کو اختیار کر

لیتے جیسے اُبی بن کعب ؓ، ابوذرؓ،وغیرہ کہ ان لوگوں پر باوجود علاج نہ کروانے کے کسی نے نکیر نہیں کی ۔‘‘

اگر علاج معالجہ واجب ہوتا تو یہ صحابہ کرام و تابعین عظام ترکِ علاج کو قطعا ًاختیار نہ فرماتے۔

علاج کے بارے میں چوتھا قول: اباحت ِ علاج اور ترک ِ علاج اولیٰ :

حنابلہ ؒ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ "انہ مباح وترکہ توکلااولیٰ" یعنی علاج کروانا مباح ہے لیکن توکل کرتے ہوئے اس کا ترک کر دینا بہتر ہے[82] ۔اسلام کی تاریخ بہت سے ایسے حضرات کے واقعات سے بھری ہے جو علم و فضل اور تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنا ایک ممتاز مقام ومرتبہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ علاج کو ترک کرنا ہی بہتر سمجھتے تھے اور ’’رضا بالقضاء‘‘ کا عملی نمونہ بن جاتے تھے ۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ (المتوفى: 728ھ) بھی کم و بیش یہی فرماتے ہیں: ؒ

’’ كان كثير من أهل الفضل والمعرفة، يفضل تركه تفضلاً، واختياراً لما اختار الله، ورضي به،وتسليماً به،وهذا المنصوص عن أحمد ‘‘۔[83]

’’بہت سے صاحب فضیلت اور علم و معرفت والے حضرات علاج کو ترک کرنا افضل گردانتے تھے اور اس کو اللہ

کی مرضی پر راضی رہنا مانتے تھے۔ اور یہی بات امام احمد ؒ سے بھی منسوب ہے‘‘۔

یہاں ایک بات کا جاننا بہت ضروری ہے کہ ترکِ علاج کو مطلقا ً نہیں بلکہ توکل کی نیت سے اولیٰ کہا گیا ہے۔ توکل کی نیت سے ترک ِعلاج کواولیٰ قرار دینے کے دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر 1:

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث ہے جس میں ایک گروہ کے بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہونے کا ذکر ہے۔ جن کی علامات کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’هم الذين لا يكتوون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون‘‘[84]

’’جو لوگ بنا حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے ان کی علامت یہ ہےکہ بیماری کی صورت میں وہ نہ جھاڑ

پھونک کریں گے، نہ آگ سے داغیں گے اور نہ ہی تعویذ وغیرہ کریں گے بلکہ وہ اپنے رب پر توکل کریں گے‘‘۔

وجہ استدلال:

اس حدیث میں آپﷺ نے علاج کو ترک کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ علاج کو ترک کرنا اولیٰ ہے۔امام نووی ؒ (المتوفى: 676ھ) فرماتے ہیں:

’’المراد بها الرقى التي هي من كلام الكفار والرقى المجهولة والتى بغير العربية ومالا يعرف معناها فهذه مذمومةلاحتمال أن معناها كفر أو قريب منه أو مكروه وأما الرقى بآيات القرآن وبالأذكار المعروفة فلانهى فيه بل هو سنة‘‘۔[85]

’’اس حدیث میں جس تعویذ کی ممانعت ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جو کفار کے کلام میں سے ہوں ، یا مجہول

المعنیٰ ہوں یا عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے ہوں جن کا مطلب معلوم نہ ہو اس لئے کہ یہ مذموم عمل ہے اس احتمال

کی وجہ سے کہ اس کےمعانی کفریہ ہوں، یا کفر کے قریب ہوں یا مکروہ ہوں، لیکن اگر تعویذقرآن یا معروف و مسنون

اذکار سے کیا جائے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ سنت ہے‘‘۔

دلیل نمبر 2:

ترکِ علاج کے اولیٰ ہونے کی دوسری دلیل حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث پاک ہے جس میں آپﷺ نے صحابیہ رضی اللہ عنھا کو بیماری پر صبر کرنے پران الفاظ میں جنت کی بشارت دی ہے:

’’ إن شئتِ صَبَرْتِ ولك الجنة، وإن شئتِ دعوت اللهَ أن يعافيك، ‘‘[86]

علامہ شوکانی ؒ (المتوفى: 1250ھ)نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:

’’وفيه أن الصبر على بلايا الدنيا يورث الجنة ، وأن الأخذ بالشدة أفضل من الأخذ بالرخصة لمن علم من نفسه الطاقة ولم يضعف عن التزام الشدة . وفيه دليل علىجوازترك التداوي وأن التداوي بالدعاء مع الالتجاء إلى الله أنجع وأنفع من العلاج بالعقاقير‘‘[87]

’’اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ دنیاوی مصائب پر صبر جنت کا ذریعہ ہے ، اوراس بات کا بھی کہ سختی برداشت کر لینا اس کو دور کرنے سے زیادہ افضل ہے لیکن یہ اس آدمی کے لئے ہےجس کو اپنی جسمانی طاقت کا علم ہو اور وہ مصیبت برداشت بھی کر سکتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی دلیل موجود ہےکہ علاج کا ترک جائز امر ہے، اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دعا کے ذریعے علاج دوا کے ذریعے علاج سے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘۔

دلیل نمبر 3:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیمار تھے ، کچھ صحابہ کرام ان کی عیادت کے لئے آئے اور عرض کیا کہ کیا ہم آپ کے لئے طبیب کا انتظام کر لیں ۔اس پر انہوں نے انکار کیا اور فرمایا: مجھے طبیب نے دیکھ لیا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا : طبیب نے کیا کہا ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (اللہ تعالیٰ کے قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)فرمایا :

’’ قال: إني فعال لما أريد ‘‘[88] ’’میں جو چاہتا ہوں کر دیتا ہوں‘‘۔

اسی طرح قاضی شریح رحمہ اللہ (المتوفى: 392ھ)نے بھی مرض کی حالت میں علاج نہیں کروایا اور فرمایا جس نے مرض بھیجا ہے (یعنی اللہ) وہی اس کا علاج بھی کرے گا۔ حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :

’’ أن هذا حال خلق كثير لا يحصون من السلف الصالح ‘‘[89]

’’سلف صالحین میں سے لاتعداد لوگ ایسے تھے جن کا یہ حال تھا (کہ وہ علاج نہیں کرواتے تھے)‘‘۔

خلاصۃ البحث :

علاج کرانا مشروع ہے چنانچہ ڈاکٹر (جو بیماری کے علاج کی قدرت اور اہلیت رکھتے ہیں )پر واجب ہے کہ وہ ان کی شفایابی کی امید پر یا ان کی تکالیف میں تخفیف کی غرض سے حتی الوسع علاج کے لئے اپنی کوششیں اور صلاحتیں بروئےکار لائیں۔

علاج کے بارے میں چار فقہی آرا ہیں:[90]احناف اور مالکیہ کےنزدیک علاج معالجہ مباح ہے۔شوافع اور حنابلہ کے بعض ائمہ کے نزدیک علاج معالجہ مستحب ہے۔شوافع کی ایک جماعت اور حنابلہ کے بعض فقہاء کےنزدیک علاج معالجہ واجب ہے۔امام احمد بن حنبل کےنزدیک علاج معالجہ مباح ہے تاہم توکل کی نیت سے اس کا ترک کر دینا بہتر ہے اور علاج بالدعاء علاج بالدواء سے زیادہ مفید ہے۔

حوالہ جات

  1. . سعیدی، علامہ غلام رسول، مقالات سعیدی، فرید بک سٹال ،لاہور، ۱۹۹۶ء، ص۵۰۹
  2. . Word Reference Random House Learner's Dictionary of American English © 2015
  3. . Therapy. (n.d.). Dictionary.com Unabridged. Retrieved September 09, 2015, from Dictionary.com
  4. . معجم اللغة العربية المعاصرة ،ج:2 ، ص1537،د أحمد مختار عبد الحميد عمر (المتوفى: 1424هـ) ،عالم الكتب ، 1429 هـ - 2008 ء
  5. . الموسوعة الفقهية الكويتية ،ج:12 ، ص:135 ، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت، دارالسلاسل - الكويت، : 1427 هـ
  6. . لسان العرب، ج:1 ، ص:553، محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل، جمال الدين ابن منظور الأنصاري الرويفعى الإفريقى (المتوفى: 711هـ)، دار ، صادر - بيروت، - 1414 ه.
  7. . تاج العروس من جواهر القاموس، ج:6 ، ص:108، : محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني، أبو الفيض، الملقّب بمرتضى، الزَّبيدي (المتوفى: 1205هـ)، ،دار الهداية
  8. . http://urdulughat.info/words/7678-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC
  9. . http://urdulughat.info/words/7679-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%84%D8%AC%DB%81
  10. ایضا
  11. http://182.180.102.251:8081/oud/ViewWord.aspx?refid=8659
  12. القانون في الطب ، ج:1 ، ص:13، الحسين بن عبد الله بن سينا، أبو علي، شرف الملك (المتوفى: 428ه )
  13. تاج العروس من جواهر القاموس، ج:6 ، ص:109
  14. موسوعة الفقه الطبي، ، ص:43،مؤسسة الإعلام الصحي، السعودية
  15. معجم لغة الفقهاء، ج:1ص:126 ، د. محمد رواس قلعجي، دار النفائس، 1988ء
  16. سلسة اعلام المسلمين - النووي، ص:10، عبد الغنی باقر، دارالقلم ،دمشق، 1994ء
  17. treatment. (n.d.) Collins English Dictionary – Complete and Unabridged. (1991, 1994, 1998, 2000, 2003). Retrieved September 17 2015 from http://www.thefreedictionary.com/treatment
  18. treatment. (n.d.) Miller-Keane Encyclopedia and Dictionary of Medicine, Nursing, and Allied Health, Seventh Edition. (2003). Retrieved March 28 2016 from
  19. the transcription as Unani is found in 19th-century English language sources: "the Ayurvedic and Unani systems of medicine" "Madhya Pradesh District Gazetteers: Hoshangabad", Gazetteer of India 17 (1827), p. 587.
  20. "Hippocrates". Microsoft Encarta Online Encyclopedia. Microsoft Corporation. 2006. Archived from the original on 2009-10-31.
  21. Unani Medicine in India: Its Origin and Fundamental Concepts by Hakim Syed Zillur Rahman, History of Science, Philosophy and Culture in Indian Civilization, Vol. IV Part 2 (Medicine and Life Sciences in India), Ed. B. V. Subbarayappa, Centre for Studies in Civilizations, Project of History of Indian Science, Philosophy and Culture, New Delhi, 2001, pp. 298-325
  22. Arthur John Brock (translator), Introduction. Galen. On the Natural Faculties. Edinburgh 1916
  23. allopathy. (n.d.). Collins English Dictionary - Complete & Unabridged 10th Edition. Retrieved May 28, 2016 from Dictionary.com website http://www.dictionary.com/browse/allopathy
  24. "Definition – allopathy". The Free Dictionary. Farlex. Retrieved 25 October 2013.  Citing: Gale Encyclopedia of Medicine (2008) and Mosby's Medical Dictionary, 8th ed. (2009)
  25. ایلوپیتھی(معالجہ اخلافیہ ) اور ہومیو پیتھی (معالجہ المثلیہ) میں بنیادی فرق طریقہ علاج:میں ہے ایلوپیتھی جیسا کہ نام سے واضح ہے بیماری کے مخالف دوا دینے پر یقین رکھتی ہے جب کہ ہومیو طریقہ ءعلاج:میں علاج:بالمثل یعنی "زہر کا علاج:زہر" کا طریقہ رائج:ہے
  26. Whorton JC (2004). Oxford University Press US, ed. Nature Cures: The History of Alternative Medicine in America (illustrated ed.). New York: Oxford University Press. pp. 18, 52. ISBN 0-19-517162-4.
  27. یہ ایک یورپی روایتی طریقہ علاج:تھا جو 18ویں صدی عیسوی سے لے کر 19 ویں صدی کے اوائل تک یورپ میں جاری رہا اس طریقہ ءعلاج میں مریض کو فوری علاج کیا جاتا اگرچہ اس سے مریض کو کافی خطرہ موجود ہوتا۔ اس طریقہ علاج میں مریض کے جسم سے خون نکالا جاتا یا اس کے معدے کی نالیوں کی صفائی کی جاتی تھی ۔19ویں صدی کے اواخر میں قدامت پسندوں کی وجہ سے اس طریقہ علاج کا خاتمہ ہو گیا
  28. Chang Y, Brewer NT, Rinas AC, Schmitt K, Smith JS (July 2009). "Evaluating the impact of human papillomavirus vaccines". Vaccine 27 (32): 4355–62. doi:10.1016/j.vaccine.2009.03.008. PMID 19515467.
  29. homeopathy. (n.d.). Dictionary.com Unabridged. Retrieved May 26, 2016 from Dictionary. com website http://www.dictionary.com/browse/homeopathy
  30. Jones, W. H. S. (1868), Hippocrates Collected Works I, Cambridge Harvard University Press, retrieved September 28, 2006 .
  31. Encyclopædia Britannica (1911), HIPPOCRATES V13, Encyclopædia Britannica, Inc., p. 519, retrieved October 14, 2006 .
  32. مکمل نام کرسچن فریڈرش سیموئل ہانیمن(Christian Friedrich Samuel Hahnemann) ہے 10 اپریل 1755ء کو پیدا ہوئے اور 2 جولائی 1843ء کو 88 سال کی عمر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں وفات ہوئی موصوف اک جرمن ڈاکٹر تھے جنہوں نے بیماری کا علاج:کرنے کے لئے ایک نیا طریقہ کار (ہومیوپیتھی ) کی بنیاد رکھی
  33. Haehl, vol. 1, p.38; Dudgeon, p.48
  34. Miller, Timothy (1995). America's alternative religions. State University of New York Press, Albany. p. 80. ISBN 978-0-7914-2397-4.
  35. Toufexis A, Cole W, Hallanan DB (25 September 1995), "Is homeopathy good medicine?", Time
  36. =History of Homeopathy, Creighton University Department of Pharmacology, archived from the original on 2007-07-05, retrieved 2007-07-23
  37. Paul Ulrich Unschuld (9 August 2009). What Is Medicine?: Western and Eastern Approaches to Healing. University of California Press. p. 171. ISBN 978-0-520-94470-1. Retrieved 7 September 2013
  38. Fisher, P; Ward, A (1994-07-09). "Medicine in Europe: Complementary medicine in Europe". BMJ. doi:10.1136/bmj.309.6947.107. PMC 2540528. PMID 8038643. Retrieved 2012-05-14.
  39. House of Lords Select Committee on Science & Technology. ‘Complementary & Alternative Medicine.’ Session 1999-2000, 6th Report. The Stationery Office, 2000
  40. القرآن: الذاریات،آیت :56
  41. القرآن:البقرۃ ،آیت :۱۹۶
  42. القرآن:الاسراء ،آیت :82
  43. الجامع لأحكام القرآن( تفسير القرطبي) ، ج:10 ، ص:316، أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدين القرطبي (المتوفى: 671هـ): دار الكتب المصرية - القاهرة، ،1964 ء
  44. مفاتيح الغيب = (التفسير الكبير) ج:21 ، ص:389 ، أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي (المتوفى: 606هـ)، دار إحياء التراث العربي - بيروت - 1420 هـ
  45. المستدرك على الصحيحين، ج:4 ، ص:222، کتاب الطب، حدیث 7435،أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)، دار الكتب العلمية - بيروت ،1990ء۔ اس حدیث کے بارے میں مستدرك على الصحيحين میں درج ذیل الفاظ آتے ہیں" هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ"، المستدرك على الصحيحين، ج:4، ص:222،أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)، دار الكتب العلمية - بيروت، 1411 - 1990
  46. القرآن:النحل، آیت :69
  47. المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله ، صلى الله عليه وسلم (صحیح مسلم)، ج:4 ، ص:1729، کتاب السلام 39،باب 26 - لكل داء دواء واستحباب التداوي حدیث 2204 : مسلم بن الحجاج:أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، دار إحياء التراث العربي - بيروت۔ صحيح - - إسناده على شرط مسلم، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج:13، ص:428،محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ)، مؤسسة الرسالة - بيروت، 1414 - 1993
  48. الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله ، صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه ( صحيح البخاري) ج:7، ، ص:122،کتاب الطب، باب ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء، حدیث 5678،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار طوق النجاة ،1422هـ مسند احمد میں لکھا گیا ہے "صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، وروي مرفوعاً وموقوفاً، ورفعه صحيح"، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:6، ص:50۔
  49. سنن الترمذي،ج:4 ، ص:383،ابواب الطب، باب ما جاء في الدواء والحث عليه ،حدیث 2038،محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر، 1975ء ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے، سنن الترمذي، ج:4، ص:383، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر، 1395 هـ - 1975 م
  50. سنن ابن ماجه،ج:2 ، ص:1137کتاب الطب، باب ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء، حدیث 3437 ، ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ) ،: دار إحياء الكتب العربية
  51. المستدرك على الصحيحين ، ج4، ، ص:234،کتاب الطب، حدیث7477۔ علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں وقال الحاكم: " صحيح على شرط الشيخين، سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها، ج:2، ص:576، أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين، بن الحاج نوح بن نجاتي بن آدم، الأشقودري الألباني (المتوفى: 1420هـ)، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض، 1415 هـ - 1995 م
  52. زاد المعاد في هدي خير العباد, ج:4 ، ص:14، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ), مؤسسة الرسالة، بيروت - مكتبة المنار الإسلامية، الكويت , 1994ء
  53. سنن الترمذي،ج:4 ، ص:397 حدیث : 2061 ۔ مسند احمد میں اس روایت کے بارے میں درج ہے "إسناده صحيح على شرط الشيخين" ،مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 13، ص:543
  54. سنن الترمذي،ج:4 ، ص:397 حدیث : 2062 ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے، سنن الترمذي،ج:4، ص:395
  55. صحیح مسلم، ج: 4 ، ص: 1727 ،کتاب السلام ، باب جواز أخذ الأجرة على الرقية بالقرآن والأذكار23
  56. صحیح بخاری ، ج: 8ص:88 حدیث: 6412۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے ، سنن الترمذي، ج: 4، ص:550
  57. صحیح ابن حبان بترتيب ابن بلبان،محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ)، ج:16، ص364، حدیث : 7364، مؤسسة الرسالة - بيروت، 1414 - 1993 ۔ صحیح ابن حبان میں اس حدیث کو صحيح کہاگیا ہے ، الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان ، ج:16، ص:365، محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ)، مؤسسة الرسالة، بيروت، 1408 هـ - 1988 م
  58. دیکھئے صحیح بخاری جس کے کتاب الطب میں 57 ابواب اور 104 احادیث موجود ہیں ، صحیح مسلم میں کتاب السلام کے تحت طب سے متعلقہ 26 ابواب اور117 احادیث موجود ہیں ،سنن ابن ماجہ میں طب کے بارے میں 46 ابواب پر مشتمل 113 احادیث موجود ہیں ،سنن ابی داؤد میں کتاب الطب کے ضمن میں 24 ابواب ہیں جن میں تقریبا 70 احادیث مروی ہیں ، سنن ترمذی کے کتاب الطب میں 35 ابواب اور 53 احادیث مذکور ہیں
  59. مجموع الفتاوى ، ج:18 ، ص:12، : تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ) ، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية، 1995ء
  60. الشرح الممتع على زاد المستقنع، ج:5 ، ص:233، محمد بن ، صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)، دار ابن الجوزي، 1428 هـ
  61. Resolutions And Recommendations Of The Council Of The Islamic Fiqh Academy 1985-2000 ،Page 139, Islamic Research And Training Institute Islamic Development Bank Jeddah – Kingdom of Saudi Arabia, First Edition 1421H (2000)
  62. تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق للزيلعي، ج:6 ، ص:32، عثمان بن علي بن محجن البارعي، فخر الدين الزيلعي الحنفي (المتوفى: 743 هـ)،: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، قاهرة،1313 هـ
  63. كتاب الكافي في فقه أهل المدينة، ج:2ص:1142، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) ،مكتبة الرياض الحديثة، الرياض، المملكة العربية السعودية،1980ء
  64. الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان، ج:13 ، ص:426 ، حدیث 6061، کتاب الطب ،محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) ،مؤسسة الرسالة، بيروت ، 1408 هـ - 1988، وأخرجه أحمد، ج:4ص: 278، وأبو داودحدیث 3855، والنسائي في الكبرى 5875، والترمذي 2038، والبيهقي في السنن ج:9 ، ص:343، إسناده ، صحيح، وصححه الترمذي وابن حبان ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے، سنن ابن ماجه، ج:2، ص:1137، ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي
  65. معالم السنن، ج:4 ، ص:217، کتاب الطب، من کتاب الکی ، : أبو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم بن الخطاب البستي المعروف بالخطابي (المتوفى: 388هـ) ،المطبعة العلمية - حلب،1932 ء
  66. موطأ الإمام مالك، ج:2 ، ص:943 کتاب العین، باب تعالج:المریض ،مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان،1985 ء ، وأشار إلى ، صحة معناه عن النبي ، صلى الله عليه وسلم ابن عبد البر في التمهيد 5ج:ص264 ۔ جامع الاصول میں اس حدیث کے بارے میں لکھا گیا ہے "إسناده ضعيف"، جامع الأصول في أحاديث الرسول، ج :7 ص: 514،مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ابن الأثير (المتوفى : 606هـ)، مكتبة الحلواني - مطبعة الملاح - مكتبة دار البيان
  67. التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، ج:5 ، ص:264،تابع لحرف الزاء ، زید بن اسلم ، الحدیث45، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (علامہ ابن عبد البر)(المتوفى: 463هـ) ،وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية ، المغرب،1387 هـ
  68. صحیح بخاري، ج:7 ، ص:125،حدیث: 5696،کتاب الطب ،باب الحجامۃ من الداء ،صحیح مسلم، ج: 3 ، ص:1204،حدیث1577 کتاب المساقاۃ، باب حل اجرۃ الحجامۃ ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیقی کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے ، سنن ترمذی، ج:3، ص :56
  69. صحیح بخاري ،ج:7 ، ص:122 حدیث : 5678 ۔ مسند احمد میں لکھا گیا ہے "صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، وروي مرفوعاً وموقوفاً، ورفعه صحيح"، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:6، ص:50
  70. صحیح مسلم ج:4 ، ص: 1729،حدیث: 2204 ۔ صحيح - - إسناده على شرط مسلم، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج:13، ص:428،محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ)، مؤسسة الرسالة - بيروت، 1414 - 1993
  71. المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج: 14 ، ص: 191، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)، دار إحياء التراث العربي - بيروت، 1392ھ
  72. شرح النووي على صحيح مسلم ، ج:14، ، ص:191
  73. الإنصاف مع الشرح الكبير، ج: 6،ص: 10،1415ه
  74. زاد المعاد في هدي خير العباد، ج:4 ، ، ص:15،:محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ)، مؤسسة الرسالة، بيروت - مكتبة المنار الإسلامية، الكويت،1994ء
  75. زاد المعاد ، ج:4 ، ، ص:14
  76. مجموع الفتاوى، ج:24 ، ، ص269، کتاب الجنائز، تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية، 1995م، الآداب الشرعية لابن مفلح، ج: 2 ، ص: 335 ،
  77. سنن الترمذي،ج:4 ،ص:383،ابواب الطب، باب ما جاء في الدواء والحث عليه ،حدیث :2038۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے، سنن ابن ماجه، ج:2، ص:1137، ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي
  78. سنن أبي داود، ج:4 ،ص:7 حدیث :3874،کتاب الطب باب فی الادویۃ المکروھۃ ،أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المكتبة العصرية، صيدا - بيروت أبو داود برقم (3874)،معجم الکبیر طبراني ج: 24، ص:254، حدیث: 694، سنن کبری البيهقي،ج:10، ص:9 ۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة ، ج:19، ص:240
  79. صحیح بخاري ، ج:7 ،ص:116 ،حدیث نمبر :5652، صحیح مسلم ،ج:4 ،ص:1994 ،حدیث: 2576 ۔ مسند احمد میں درج ہے "إسناده صحيح على شرط الشيخين"، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:5 ،ص: 292،أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)، مؤسسة الرسالة، 1421 هـ - 2001 م
  80. فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج:10 ،ص:115، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي،دار المعرفة - بيروت، 1379
  81. مجموع الفتاوى، ج:24، ص:269،کتاب الجنائز
  82. كشاف القناع عن متن الإقناع، ج:2 ،ص:269، منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ) ،دار الكتب العلمية،مجموع الفتاوى، ج:24،ص:269،
  83. مجموع الفتاوى ، ج: 21،ص:564.
  84. صحیح بخاري ، ج:7 ،ص:126 ، حدیث نمبر 5705، صحیح مسلم، ج:1ص:198 حدیث 218،۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث صحيح ہے، سنن ترمذی، ج:4، ص:631
  85. شرح النووي على صحيح مسلم ،ج:14، ص: 168
  86. صحیح مسلم ، ج:4 ،ص:1994، حدیث: 2576۔ مسند احمد میں درج ہے "إسناده صحيح على شرط الشيخين"، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:5 ،ص: 292،أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)، مؤسسة الرسالة، 1421 هـ - 2001 م
  87. نيل الأوطار، ج:8 ، ص:233، محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمني (المتوفى: 1250هـ)، دار الحديث، مصر، 1413هـ - 1993
  88. حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج:1 ، ، ص:34، أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)، السعادة - بجوار محافظة مصر، 1974ء
  89. حلية الأولياء، ج:4ص133
  90. فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الأولى ، ج:25، ، ص:43،اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،رئاسة إدارة البحوث العلمية والإفتاء الإدارة العامة للطبع - الرياض
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...