Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

مغرب میں اسلامو فوبیا کے فروغ کے لیے مستعمل ذرائع (الیکٹرانک میڈیا) اور ان کے اثرات |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060029336_1172

Pages

41-53

PDF URL

http://burjis.ustb.edu.pk/images/Articles_pdf/Article_4.pdf

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/38

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف اسلاموفوبیا:

مغرب میں عام طور پر اسلام سے خوف اور مسلمانوں سے کراہت کے لئے اسلاموفوبیا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے(1)فوبیالفظ (xenophobia  )  سے ماخوذ ہے جو ایک قدیم اصطلاح neologism کی جدید شکل ہے اس کے عربی معنی الاِرھاب یعنی ہر چیز سے خوف ہے۔2) (یہ ایک نفسیاتی مرض ہے۔ جس میں مریض ہر اجنبی چیز کو دیکھ کر ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے۔اس سے مختلف اطلاقات وجود میں آئی ہیں جیسےacrophobia یعنی ہر اونچی جگہ سے خوف زدہ ہونا۔atarophobia یعنی شوروشغب سے خوف زدہ ہونا۔ doxophobia یعنی اظہار رائے سے خوف زدہ ہونا اور autophobia یعنی تنہائی سے خوف زدہ ہونا۔(3) لفظ فوبیا phobia کا استعمال تقریبا گزشتہ ۴۰، ۵۰ سال سے اسلام کے لئے بھی ہونے لگا ہے جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے جس کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ متشددانہ ہےنیز یہ کہ مسلمان ہر اس چیز کو ردّ کر دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو جیسے مساوات (Equality)، متحمل مزاجی (Tolerance) ، حقوقِ بشر (Human Rights) اور جمہوریت (Democracy)کے مغربی نظریات۔(۴)لیکن اس لفظ کا عام استعمال امریکہ میں ۱۱ ستمبر 2001 ء کے حادثات کے بعد ہونے لگا ہے۔(۵)

سی این این(۶) معروف امریکی ٹیلی ویژن چینل ہے۔ اس چینل نے اپنی حیثیت الیکٹرانک میڈیا میں منوائی ہے۔ لوگ اس کی رپورٹنگ اور براڈ کاسٹنگ کو انتہائی مستند   (Authentic) سمجھتے ہیں۔یہ چینل ایسے ماہرن کی خدمات حاصل کرتا ہے جن کا اسلام اور اسلامی کلچر سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنے تعصبات اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ٹیلی ویژن پر آکر ناظرین کو اپنے متعصب خیالات سے نوازتے ہیں۔(۷)

ایسے بے شمار نام ہیں لیکن یہاں پر صرف ایک نام جو بہت زیادہ قابل ذکر ہے ’’پروفیسر جان کیسے‘‘John Casey (8) کا اگرچہ یہ پروفیسر گانویلے اور آکسفورڈ کے کائیس کالج کے فیلو رِہ چکے ہیں لیکن ان کے پاس اسلامی امور کے ماہر ہونے کیلئے علم نہیں ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ اُس جیسے افراد جب اخبارات میں لکھتے ہیں یا ٹیلی ویژن پر آتے ہیں تو حقیقت اور فسانہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ میڈیا کے حق میں بھی نہیں جاتا کیونکہ میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے قواعد و ضوابط کا تعین خود ہی کرتا ہے۔ اُن کی خبریں صداقت پر مبنی ، حقیقی اور مصدقہ ہونی چاہیے۔ اگر ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو پھر میڈیا کا کوئی کردار باقی نہیں رہتالیکن نائن ایلیون کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا نے واضح ایجنڈا بنایا ہے۔ ا گرچہ یہ ایجنڈا اس سے پہلے بھی میڈیا کا تھاتا ہم پہلے اتنا واضح نہیں تھا۔

اتفاقی  بات ہے کہ جب میڈیا ایک متعین ایجنڈے پر کام کر رہا ہو اور وہ حقائق سے ہٹ کر کام کر رہا ہو تو غیر محسوس انداز میں اسلام سے خوف اور مخالفت(اسلامو فوبیا) کے عناصر اُن میں شامل ہو جاتے ہیں جس پر ان لوگوں کی اکثریت کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا جوباقاعدہ طور پر ان ذرائع کے ساتھ مصروف عمل رہتے ہیں۔ جو واقعات پیش آتے ہیں، میڈیا ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیشں کرتاہے ۔ میڈیا نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون پر حملے میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کو ایسے پیمانے پر ظاہر کیا جو کسی باقاعدہ جنگ میں بھی نہیں ہوتی۔(9)

اسلامو فوبیاجو ان ممالک کے میڈیا اور قوت مقتدرہ( اسٹیبلشمنٹ) کی پیداوارہے، مغربی معاشرے کا قدر بن گئی ہے جو یقیناًایک خطرناک چیز ہے۔ مغرب فرد کی آزادی کا قائل معاشرہ ہے لیکن اسلامو فوبیا فرد کی آزادی کا احترام نہیں کرتا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہر اُس شخص کو خواہ اُس کا تعلق کسی بھی خطہ سے ہو بلا امتیاز اُس کے کردار پر داغ لگاتا ہے۔ اسلامو فوبیا لاکھوں کروڑوں افراد کے رویوں میں تبدیلی لاچکا ہے۔ اب وہ مسلمانوں کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہےجس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بھی دنیا کے ایک دور دراز کونے میں کوئی معمولی سا واقعہ پیش آتا ہے تومیڈیا مغربی دنیا کے باشندوں میں اسلامو فوبیا کے جذبات اُبھارنے کے لیے ان واقعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں رد عمل کے طور پر اُن مسلمان خواتین پر ہاتھ اُٹھایا جاتاہے جنہوں نے حجاب پہنا ہو۔(۱۰) مسلمان مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔(۱۱) مساجد پر حملوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ (۱۲)ان سب واقعات کا ذمہ دار یقیناًمغربی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔

مغربی الیکٹرانک میڈیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک عجیب انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ مغربی میڈیا کی رپورٹ میں اسلام کا دوسرا نام دہشت گردی رکھا گیا ہے۔ وہ برابر برطانوی مسلمانوں کو یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ مسلمان ہیں تو لازمی طور پر وہ دہشت گرد ہیں۔یہی وجہ ہے بقول اُن کے ، مغربی معاشرہ کے وجود کو اسلام سے شدید خطرہ لاحق ہے(۱۳)اس سلسلے میں ماضی کی طرف جانا پڑے گا۔ جب لندن کے زیر زمین ریلوے نظام پر حملے کیے گئے اور اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن (۱۴) مسلمان راہنماؤں کو صورتحال کا جائزہ لینے اوراس سے نبٹنے پر غور کر رہے تھے اور اُن سے دہشت گردی کے خلاف مدد مانگ رہے تھے تو برطانوی الیکٹرانک میڈیا کو موقع ملا،  انہوں نے سوالات اٹھائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر مسلمان براہ راست ملوث نہیں ہے تو پھر وزیر اعظم صاحب بدھ مت کے پیرو کاروں کو بھی کیوں نہیں بلاتے۔ یہی وہ سوالات تھے جو برطانوی عوام میں اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کے لیے کافی تھے۔ اب وہ باور کرنے لگے کہ واقعی مسلمان بحیثیت قوم دہشت گردی میں مبتلا ہے۔(۱۵)

یہ ذرائع ابلاغ بھول رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہر جگہ ایسی تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف اپنی جانوں اور مالوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کیا عبداللہ بن عزام (۱۶) کو خود امریکہ افغانستان میں نہیں لایا تھا؟ (۱۷) کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ کبھی یہ لوگ اُن مغربی ممالک کے چہیتے تھے؟ وہ مجاہدین نہیں تھے جو سرمایہ دار دنیا کی جنگ میں کمیونزم کے لئے لڑتے تھے ؟ یہ وہی ذرائع ہیں جو بیسویں صدی کی اَسّی کی دہائی میں اُن کے جذبہ جہاد کو سلام پیش کرتے تھے۔ افغانستان میں اُن کے کارہائے نمایاں پر اُن کو خراج تحسین پیش کرتے اور یہ لوگ اُن کے دار الحکومتوں میں سرکاری ایوانوں کو اپنا شرف رونق بخشتے تھے۔اُن کے اعزاز میں ضیافتوں اور ظہرانوں کا انتظام ہوتا تھا۔ اُن تنظیموں کو Stinger جیسے خطرناک میزائل دیئے گئے تھے۔(۱۸) یہ ذرائع (مغربی ذرائع ابلاغ) اسلام کے اُن پہلوؤں کو بھول چکے ہیں جو جو امن وسلامتی اور عالمی بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر ان کے ذرائع ابلاغ اور اُن کی حکومتوں اور ریاستی مشینری نے ان تنظیموں کو پروان چڑھانے میں اتنا بڑا کردار ادا نہ  کیا ہوتا تو آج وہ اتنے طاقتور نہ بنتے اور نہ ان کے لیے خطرہ بنتے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اُس زمانے میں بھی ایک سیاسی معاشی ایجنڈے پر کام کر رہاتھا۔ اُن کا مقصد کمیونزم کو شکست دینا تھا اور آج بھی ایک معاشی سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ ایک طرف تو وہ مسلمان ممالک بالخصوص عرب دنیا کے سیاسی تشکیل نو کروانا چاہتے ہیں جہاں پر ایسے حکمران لائیں جس سے ایک طرف تودنیا کو تأثر ملے کہ اُن ممالک میں عوامی انقلاب آیا ہے۔ جمہوریت کا سورج طلوع ہو چکا ہے اور ساتھ ہی اُن ممالک میں جو تبدیلیاں ہوئیں وہ اُن تبدیلیوں کو قابو کر سکیں تاکہ اپنی پسند کے حکمران مسلط کرسکیں۔ دوسری جانب توانائی کے اُن وسائل پر قبضہ کر لیں جو اُن کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔(۱۹)

مغربی ذرائع ابلاغ بلکہ وہاں کی حکومتیں اسلامو فوبیا کو پھیلانے اور فروغ دینے میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ ایک طرف مغربی معاشروں میں مسلم آبادیاں عدم تحفظ کا شکار ہو جاتیں ہیں تو دوسری طرف مغربی عوام کے ذہن میں اسلام کے لیے نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے معاشرے سے الگ تھلگ سمجھتے ہے اور اگر یہی صورتحال قائم رہی تو پھر مغربی معاشرہ کو سماجی انتشار سے کوئی نہیں روک سکتا۔ (۲۰)

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ اپنے چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلام نے عروج کا ایک طویل زمانہ دیکھا۔ دنیا کے جس خطے پر مسلمانوں کی حکومت رہی، وہاں انصاف، مساوات، بھائی چارے اور سماجی ہم آہنگی کا دور دورہ تھا۔ اسپین میں مسلمانوں نے سات سو سال تک حکومت کی ۔ اسپین میں آج بھی مسلمانوں کی شاندار یادگاریں موجود ہیں۔ وہاں کی محکوم اقلیت  یہودیوں کو مسلمانوں نے معاشرے میں عزت کا مقام دیا۔ کسی کو اُس کی مذہبی وابستگی کی بناء پر تشدد کا نشانہ نہیں بنایاگیا۔ ہر شخص کو جان و مال کی مکمل آزادی حاصل تھی،(۲۱) کیونکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب تمام انسانوں کو عزت و تکریم کا مقام دیتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنیِ آدَم (۲۲)۔ترجمہ:اورہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔

قرآن مجید نے مسلمان کا ذکر نہیں کیا بلکہ انسان کا ذکر کیا ہے کہ سب انسان قابل عزت و تکریم ہیں۔

سٹار ٹی وی(۲۳) اور فاکس نیوز(۲۴) ایسے ٹیلیویژن چینل ہے جو اپنی بے باک آراء کے لیے مشہور ہیں لیکن یہ سب چینل بھی مسلمانوں کے خلاف ایک موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پھر اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کی وابستگی بنیاد پرستی، دہشتگردی اور عدم رواداری سے کرتے ہیں۔

اس طر ح فیس بک اور انڑنیٹ پر بھی :کرآن جلاو دن:منایا جاتا ہے۔(۲۵)

کبھی بھی ذرائع ابلاغ نے ان مسلمان دانشوروں خواہ مذہبی ماہرین ہوں یا جدید علوم کے، پذیرائی نہیں کی جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں تک قربان کیں۔ پاکستان اور افغانستان کےُ ان دلیر صحافیوں کا تذکرہ کبھی نہیں کیا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھینٹ چڑھے۔(۲۶)

مغربی ذرائع ابلاغ اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے لیے صرف منفی پروپیگنڈہ پر اکتفا نہیں کرتابلکہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جانبدارانہ اور نازیبا زبان بھی استعمال کرتاہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اسلام کے کچھ ایسے شعار جن کے بارے میں اُن کی رائے متنازعہ ہے، ہدف تنقید بناتے ہیں کہ اسلام توحید ، فرسودہ روایات اور رسومات کا ایک مجموعہ ہے۔حالانکہ اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے۔ دنیا کے ہر خطے اور ہر حصے میں اس کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ اُن کے عقائد کی بنیاد توحید پر ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات میں دنیاوی اور اخروی امور بڑے واضح اور سہل ہیں جن کی مزید تشریح احادیث نبوی ؐ سے ہوتی ہے پھر اسلام میں روز مرہ زندگی کے مسائل ’’فقہ‘‘ (Jurisprudence) اور اجماع امت سے حل کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک لباس اور کچھ دوسری چیزیں ہیں تو اسلام نے اُس کی اجازت دی ہے کہ لوگ موسم کے مطابق لباس پہن لیں، لیکن ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے پہننے والا برہنہ ہو۔ کچھ روایات مسلمانوں نے اپنے لیے مخصوص جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے اختیار کیں یہ وہی چیزیں ہیں جو اس مخصوص علاقے میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ان کو اختیار کرتے ہیں پھر اُن کو قطعی طور پر مخصوص اسلامی قرار دےکر ایک طرف تو یہ مغربی ذرائع ابلاغ جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی کبھی مسلمان اُن چیزوں کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رد عمل پُر تشدد بھی ہوتا ہے جس کو بہانہ بنا کرکہا جاتا ہیں کہ ہمارے معاشرے اور تہذیب کو مسلمانوں اور ان کے عقائد سے خطرہ ہے۔ یہ طرز عمل اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔

مغربی میڈیا اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے حصول کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ بیک وقت وہ ایک عقیدے کے لوگوں کو اپنا بھائی اور پھر دشمن گردانتے ہیں۔ جہاں انہیں مناسب لگتا ہے تو انہیں اپنے کتابی بھائی کہتے ہیں اور جہاں اُن کے اقتصادی اور معاشی مفادات دوسری چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں تو اُن کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ (۲۷) دراصل مغربی ذرائع خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ، وہ اس طریقہ پر نفرت اور تنگ نظری کی ایک عمارت تعمیر کرتے ہیں اور مغرب میں اسلامو فوبیا کوتقویت پہنچا رہے ہیں۔ (۲۸)

مغرب کا اسلام کے بارے میں بنیادی تصور کچھ اس طرح سے ہے:

ایڈورڈ سعید(۲۹) ایک فلسطینی عیسائی تھے۔ اُنھوں نے فلسطینی عوام کی آواز ہر جگہ اٹھائی،  وہ مسلسل فلسطینیوں کے حق میں لکھتے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ اُنھوں نے امریکہ میں رہ کر امریکہ اور مغربی دنیا کے طرز فکر کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے Orientalism کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے صفحہ 40پر لکھتے ہیں: دوسری چیزوں کے علاوہ مغرب اسلام کو مشرق کا مذہب گردانتے ہیں۔

\"In the West Islam has often been referred to as \"a religion of the East\" and it is therefore associated with the Orient. (۳۰)

ایڈورڈ سعید مشرق اور مشرقی لوگوں کے بارے میں مغربی بالخصوص امریکی رویہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

\"The west held a superior attitude that everything oriental / Eastern was inferior and that the west should be a role model.\" (۳۱)

انھوں نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ مغربی میڈیا نے مشرق کے بارے میں جس عمومی تأثر کو فروغ دیا وہی آخر میں مغربی معاشرے کا اسلام کے بارے میں تصور بن گیا۔مشرق بالخصوص اسلام کے بارے میں مغربی دنیا کا جو تصور بن چکا ہے، ایڈورڈ سعید اس کے تین پہلو بیان کرتے ہیں:

(۱) مغربی معاشرے کا مشرقی یا اسلامی تصور انتہائی سیاسی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ اُن تاریخی عرب دشمن اور اسلام دشمن بنیاد پر قائم ہے جو مغربی معاشرہ میں ایک عرصہ سے پایا جاتا ہے۔

(۲) دوسرا یہ کہ عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان جو جدو جہد چلتی رہی اور اس کے یہودی طرز زندگی پر جو اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔

(۳) تیسری چیز یہ ہے کہ مغربی دنیا کے پاس ایسی ٹھوس ثقافتی بنیاد نہیں ہے جس سے وہ غیر جذباتی انداز میں مشرق اور اسلام کو پہچان سکیں یااس پر بحث کر سکیں۔(۳۲)

امریکہ کاسابق صدر بش عراق کے جنگ کو صلیبی جنگ قرار دیتا ہے۔ پھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک طرح سے امریکہ اور مغربی میڈیا اپنی ریاستوں کا ترجمان بنا بیٹھاہے۔ وہ ریاستی پالیسیوں کو اظہار رائے کی آزادی کی بنیاد پر آگے لے جا رہے ہیں جس سے یہ کہاجاسکتا ہے  کہ مغربی اور امریکی ریاستی مشینری کو مغرب اور امریکی میڈیا کی حمایت حاصل ہے۔(۳۳) کیونکہ لیوس (Lewis) کے مطابق ٹیلیویژن ایک طاقت ور ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس سلسلہ میں وہ لکھتا ہیں:

\"Television remains the most widespread and significant medium in the global communication of terror and political violence.\"(۳۴)

اس طرح اس اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے امریکی الیکٹرانک میڈیا نے نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ ایسے پروگرام جن میں مسلمانوں کو دہشت گرد اور امریکہ و مغرب دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی میڈیا نے امریکی عوام کو مسلمانوں اور شعائرِ اسلام کے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ وہ ہر داڑھی والے مشرقی شخص کو مسلمان سمجھنے لگے۔نائن الیون کے فوراًبعد امریکہ میں کئی ایک سکھ مسلمان ہونے کے شبہ میں قتل کیے گئے۔ مسلمانوں کے احتجاج کو اسلامو فوبیا میں تبدیل کر دیا گیا اور مغربی اور امریکی رائے عامہ کو بجائے یہ کہ سمجھانا چاہیے تھا کہ اصل دہشت گردی میں ملوث افراد مسلمانوں کے مجموعی آبادی کا انتہائی ناقابل ذکر حصہ ہے، سارے مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے وابستہ کرا دیا گیا۔مغربی اور امریکی الیکٹرانک میڈیا نے یہ ظلم نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ کیا بلکہ اپنے عوام کے ساتھ بھی کیا۔ اُن کے نفسیات میں مسلمانوں سے خوف اور دہشت کو داخل کردیا، اُن چیزوں کے مغربی معاشرے پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔  میڈیا نے نائن الیون کی آڑ میں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے خلاف جس قدر معاندانہ پرو پیگنڈہ کیااس نے مغربی معاشرے کے مثبت تصور کو کافی حد تک متاثر کیا۔ اب مغربی معاشرے میں معمولی سا واقعہ بھی ہو جائے تو اس کا براہ راست الزام مسلمانوں پر آتا ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں مغربی معاشرے کے رویے میں جو فرق آیا ہے خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاشرے کو ایک مثبت معاشرے کی بجائے ایک متعصب معاشرے کی طرف لے جائے گا۔ اگر یہی رویہ قائم رہا تو یورپ اور امریکہ کے اس انتہائی ترقی ، اُن کے مضبوط جمہوری اور سیاسی اداروں اور اُن کے جاندارنظام تعلیم کے باوجود مغربی معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے اندھیرے کی طرف بڑھ جائے گا جو مغرب کے لیے اقتصادی، سماجی اور سیاسی طور پر قطعاً اچھا نہیں ہوگا۔ مغربی اور امریکی میڈیا نے اسلامو فوبیا کونائن الیون کے بعد انتہائی بھونڈے انداز میں پروان چڑھا کے دکھایا کہ مسلمان اور اسلام ایسی ہی چیزہے لیکن شاید میڈیا کے ذمہ دارمسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن پاک کے اس پیغام سے بے خبر ہیں۔

إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ۔(۳۵)

"اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔(اور)تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"۔

قرآن پاک کی ان تعلیمات کے پیش نظرمسلمانوں نے نائن الیون کے واقعے کی مذمت کی اور اُن لوگوں کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیاجو ان حملوں کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اصل میں دہشت گردی کی جڑ تک رسائی حاصل کی جائے۔ وہ لوگ معلوم کیے جائے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کیوں ملوث ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے ۔ لیکن یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کو مغربی سیاسی و معاشی ایجنڈا کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہےاس لیے اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کا کام مغربی ذرائع ابلاغ کو سونپ دیا گیا۔مغربی میڈیا نے کمیشن کی اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنا پروپیگنڈہ جاری رکھا جو امریکہ میں نائن الیون کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔(۳۶)

مغربی میڈیا نے اسلام کے خلاف غلط فہمی اور غلط تاثر قائم کرنے کے لیے ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مغربی میڈیا نے بنیاد پرستی اور دہشت گردی جیسے دو اصطلاحات اسلام سے وابستہ کرنے کی مسلسل کوششیں کیں ہیں۔

\"So inflamed against Islam has the media in the United States and the west generally become that when Oklahoma City bomb attack took place in April 1995 the alarm was sounded that Muslims had struck once again\". (۳۷)

امریکی اور مغربی میڈیا کا وطیرہ رہا ہے کہ جب کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی تحقیق و تفتیش سے پہلے اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے۔لیکن کیا بنیاد پرست صرف مسلمان ہیں؟ اور کیا اُن کی بنیاد پرستی یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا ارتکاب کریں؟ ان سوالات کے بہت واضح جوابات ہیں۔ بنیاد پرست وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے مذہب کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو۔ ایک مسیحی، یہودی اور ہندو بھی بنیاد پرست ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان بھی بنیاد پرست ہے تو جارحانہ عزائم پر ہر گز قائم نہیں۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ’’توحید‘‘ ایک اللہ اور ’’رسول‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغمبر ماننا اور یہ کہ قرآن پاک اللہ کی طرف سے ہدایت کی آخری کتاب ہے۔ مسلمان جس خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ ساری دنیا،  سارے عالم کا رب ہے، وہ رب العالمین ہے۔ اس بناء پر اسلام مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی تمیز نہیں کرتا کہ اللہ تعا لیٰ صرف مسلمانوں کا ہے، دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا نہیں ہے۔ حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ آپؐ کو رحمت اللعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا گیا۔ مسلمانوں کی کتاب قرآن کا موضو ع انسان ہے۔ قرآن مسلمان و غیر مسلمان دونوں کو نیکی کی ہدایت اور برائی سے منع کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی بنیاد پرست ہونے سے مغرب یا امریکہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ ہے جو مغربی ذرائع ابلاغ نے پیدا کیا ہے، جو مغربی اور امریکی معاشرہ میں اسلامو فوبیا کا تانا بانا تشکیل دینے کا باعث بن گیا ہے۔ دہشت گردی ایک سیاسی اصطلاح اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک جارحانہ آلہ ہے۔(۳۸)

 

حواشی وتعلیقات:

1. \"Teaching the Global Dimension\" David Hick, Cathie Holden (2007). P.140.

2. Sandra Fredman, Discrimination and Human Rights, Oxford University Press, ISBN 0-19-924603-3, p.121.Yvonne Yazbeck Haddad, Muslims in the West: From Sojourners to Citizens, Oxford University Press, ISBN 0-19-514806-1, p.19۔Islamophobia: A Challenge for Us All, Runnymede Trust, 1997, p. 1, cited in Quraishi, Muzammil. Muslims and Crime: A Comparative Study, Ashgate Publishing Ltd., 2005, p. 60. ISBN 0-7546-4233-X. Early in 1997, the Commission on British Muslims and Islamophobia, at that time part of the Runnymede Trust, issued a consultative document on Islamophobia under the chairmanship of Professor Gordon Conway, Vice-Chancellor of the University of Sussex. The final report, Islamophobia: A Challenge for Us All, was launched in November 1997 by Home Secretary Jack Straw.

3. Roald, Anne Sophie (2004). New Muslims in the European Context: The Experience of Scandinavian Converts. Brill. p. 53. ISBN 9004136797.

4. Runnymede 1997, p. 5, cited in Quraishi 2005, p. 60.

5. Casciani, Dominic. \"Islamophobia pervades UK 150 report\", BBC News, June 2, 2004.

Rima Berns McGowan writes in Muslims in the Diaspora (University of Toronto Press, 1991, p. 268) that the term \"Islamophobia\" was first used in an unnamed American periodical in 1991.

6. Cable News Network (CNN) is a U.S. cable news channel founded in 1980 For details see:http/www.cnn.com

7. Allen, \"Islamophobia in the Media\" P7

8. John Casey is a British academic and a writer for The Daily Telegraph. He has been described as Roger Scruton\'s \"mentor\", and is a lecturer in English at the University of Cambridge and Fellow of Gonville and Caius College, Cambridge. In 1975, along with Scruton, he founded the Conservative Philosophy Group. He was editor of The Cambridge Review between 1975 and 1979, Casey has been a regular contributor to The Spectator, the Sunday and Daily Telegraph, the Daily Mail and the Evening Standard. His special interest is foreign commentary, writing from Japan, Iraq, Iran, Syria and Burma. His articles have included interviews withliberation theologians in Latin America, Hezbollah in Lebanon and Grand Ayatollahs in Iran. He has often written explanatory articles sympathetic to Islam.

9. http://www.dailymail.co.uk/news/article-2056088/Footage-kills-conspiracy- theories-Rare-footage-shows-WTC-7-consumed-fire.html

10. http://www.youtube.com/watch?v=5AGxYsc7RGc

11. http://www.soundvision.com/info/youth/angeramongyouth.asp

12. http://www.youtube.com/watch?v=miAWDxkeZnc s Video: Tenn. Mosque

Targeted by Islamophobia (ABC)

13. http://en.wikipedia.org/wiki/Stop_Islamization_of_America

14. James Gordon Brown (born 20 February 1951) is a British Labour Party politician who was the Prime Minister of the United Kingdom and Leader of the Labour Party from 2007until 2010. He previously served as Chancellor of the Exchequer in the Labour Government from 1997 to 2007, becoming the longest-serving holder of that office in modern history. Brown has been a Member of Parliament (MP) since 1983, for Dunfermline East until 2005.

15.A.http://www.freedomhouse.org/report/freedom-world/2011/united-kingdom

B. http://www.christianwolmar.co.uk/tag/london-underground/

16. Abdullah Yusuf Azzam (1941 - November 24, 1989) was a highly influential Palestinian Sunni Islamic scholar and theologian, who preached in favor of both defensive jihad and offensive jihad by Muslims to help the Afghan mujahideen against the Soviet invaders and became a leader of Al Qaeda. He raised funds, recruited, and organized the international Islamic volunteer effort of Afghan Arabs through the 1980s, and emphasised the political ascension of Islam.He is also known as a teacher and mentor of Osama bin Laden, and persuaded bin Laden to come to Afghanistan and help the jihad, though the two differed as to where the next front in global jihad should be after the withdrawal of the Soviets from Afghanistan. He was also a co-founder ofHamas and Lashkar-e-Taiba. He was killed by a bomb blast on November 24, 1989.For details see: http://en.wikipedia.org/wiki/Abdullah_Yusuf_Azzam

17.http://www.longwarjournal.org/archives/2012/05/us_adds_abd ullah_azz_2.php

18. The FIM-92 Stinger is a personal portable infrared homing surface-to-air missile (SAM), which can be adapted to fire from ground vehicles and helicopters (as an AAM), developed in the United States and entered into service in 1981. Used by the militaries of the US and by 29 other countries, the basic Stinger missile has to date been used in several dozen attacks against civilian aircraft. It is manufactured by Raytheon Missile Systems and under license by EADS in Germany, with 70,000 missiles produced. It is classified as a Man-Portable Air-Defense System (MANPADS).

For details see: http://en.wikipedia.org/wiki/FIM-92_Stinger

۱۹۔ نذر الحفیظ ندوی، مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، ص۱۰۳۔

20. M. Amir Ali \'\'Islam in America, P

۲۱۔پروفیسر رضا محمد،تاریخ مسلمانان عالم،ص۴۳۷۔

۲۲۔سورۃ بنی اسرائیل،آیت۷۰۔

23. http://thinkprogress.org/security/2012/08/03/637861/romney-ref

uses-to-condemn-bachmanns-islamophobic-witch-hunt/?mobile=nc

24. http://video.foxnews.com/v/4342024/islamophobia-media-myth/

25. https://www.facebook.com/pages/International-burn-the-Quran-day-2011/

26. http://cpj.org/killed/asia/pakistan/

27. Edward James \"Ted\" Koppel (born February 8, 1940) is an English-born American broadcast journalist, best known as the anchor for Nightline from the program\'s inception in 1980 until his retirement in late 2005. After leaving Nightline, Koppel worked as managing editor for the Discovery Channel before resigning in 2008. Koppel is currently a senior news analyst for National Public Radio and contributing analyst to BBC World News America, and contributes to the new NBC News primetime newsmagazine Rock Center with Brian Williams.

28. C. Amjad Ali, \"Islamophobia or Restorative Justice\" P 88.

29. Edwards Said was a Palestinian literary theorist. He was a Palestinian Arab born in Jerusalem (then in the British Mandate of Palestine), and held an American passport. He was University Professor of English and Comparative Literature at Columbia University, and a founding figure of post-colonial studies. Edward Sa239d was an advocate for the human rights of the Palestinian people, whom the commentator Robert Fisk described as the most powerful voice speaking for the Palestinians.

30. Edward Sa239d , \"Orientalism: Western conceptions of the Orien\"t, (England: Clays Ltd, 2005), P 40.

31. Edward Sa239d , \"Covering Islam: How the media and the experts determine how we see the rest of the world\", (USA:Vintage, 1997).

32. Ibid

33. Ahmad, \"Islam under seige\", P 30.

34. Bernard Lewis,\"The Crises of Islam: Holy war and Unholy terro\"r (Great Britain: Orion Books Ltd).

35۔سورہ النحل،آیت۹۰۔

36. R. Richardson, \"Islamophobia: Issues, challenges and action\". A report by the Commission on British Muslims and Islamophobia.

37. Edward Sa239d , Orientalism, Chapt 14.

38. Amjad Ali, Islamophobia: P.135

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...