Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

ڈاكٹر فضل الرحمن (م۱۹۸۸ء) کے آرا ء كا ایجابی اور سلبى پہلو |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029336_1267

Pages

81-98

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/149/137

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/149

Subjects

Dr Fazl-ur-Rahman Services Islam Qura’n Hadith.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جنرل اىوب خان مرحوم (سابق صدر پاكستان) كى حكومت نے ۱۹۶۰ء مىں اىك ادارہ ‘ ادارہ تحقىقات اسلامى كے نام سے علوم اسلامى مىں تحقىقات اور جدىد ضرورتوں كے لىے اسلام كى تعبىر وتشرىح كى غرض سے قائم كىا ‘ اور بعد ازاں ۱۹۶۳ء مىں اس ادارہ كو اىك آئىنى حىثىت دى گئى ۔ڈاكٹر فضل الرحمن نے اس ادارے مىں شمولت اختىار كى پہلے تو وہ وزٹنگ پروفىسر رہے اور۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۸ كے سات برس كے عرصہ مىں ڈائرىكٹر كے عہدے پر فائز رہے۔ اور بعد ازاں اعلى ترىن پالىسى ساز ادارہ اسلامى نظرىاتى كونسل كے مشىر كے طور پر بھى خدمات سر انجام دىں۔ ادارہ تحقىقات اسلامى سے شائع ہونے والے مجلہ ‘‘فكرونظر ‘‘كے پہلے اىڈىٹر بھى تھے ۔موصوف فقہ‘ علم الكلام‘ حدىث‘ قرآن كى تفسىر‘ منطق اور فلسفہ كے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بىسوىں صدى كے متجددىن احىاء اسلام مىں ان كا شمار ہوتا ہے ۔ بىنك كے سودكا رتبہ‘ زكوة‘ جانوروں كے مشىن سے ذبح كرنا‘ عائلى قوانىن اور خاندانى منصوبہ بندى ‘ حدىث اور سنت كى عملدارى اور وحى كى ماہىت جىسے معاملات مىں ان كى آراء نے كافى شہرت پائى اور جس كے باعث ان پر الزامات عائد كردىے گئے كہ انہوں قرآن كى آسمانى حىثىت سے انكار كىا ۔ چنانچہ موصوف كے لىے اسلامى فكر كے احىاء كا پہلا قدم اسلام مىں قانونى ‘ الہىاتى ‘ اور صوفىانہ كام پر تارىخى و تنقىدى نظر ڈالنا تھا۔ ان كے منصوبے كے مطابق قرآنى نظرىات او رالہىات‘تفسىر اور قانون جىسے شعبوں كے درمىان جو تفاوت پاىا جاتا ہے‘ اس كوسامنے لانا لازمى تھا۔

احىاء دىن كے سلسلے مىں ان كا محور واصول : حدىث كا آغاز اور اس كى نشونما ‘ قانون كا ڈھانچہ‘ جدلىاتى كلام اور شرىعت ۔ اسلامى شرىعت‘ اصول فقہ اور قىاس اور اجماع جىسے مسائل كى بحث مىں گہرائى مىں جاكر بات كرتے ہىں۔

چودہ صدىوں پر پھىلى ہوئى اسلام كى اعتقادى ‘ قانونى‘ عقلى اور روحانى زندگى كا اىك گہرا اور معروضى جائزہ لىنے اور اس كے نشىب وفراز سے گزرنے كے بعد موجودہ دور مىں احىاء دىن كے حوالے سے ڈاكٹر صاحب مرحوم كى كوششوں كا درج ذىل عنوانات كے تحت مقالہ پىش كىاجاتاہے:

۱۔ ڈاكٹر فضل رحمن : تعارف اور علمى خدمات

۲۔ احىاء دىن كے سلسلے مىں ان كا طرىقہ و اصول كااىجابى پہلو

۳۔ احىاء دىن كے حوالے سے ڈاكٹر صاحب كے موقف كا سلبى پہلو۔

۴۔ ان دونوں پہلو ؤں ( اىجابى وسلبى) كا عصرى تناظر مىں تحقىقى وناقدانہ جائزہ۔

۱۔ ڈاكٹر فضل رحمن : تعارف اور علمى خدمات

ڈاكٹر فضل الرحمن اىك علمى گھرانے سے تعلق ركھتے تھے۲۱ ستمبر ۱۹۱۹ء كو ضلع ہرى پورى ہزارہ مىں سرائے صالح كے ملك خاندان مىں پىدا ہوئے۔ ان كے والد مولانا شہاب الدىن دار العلوم دىوبند سے فارغ تحصىل تھے جہاں انہوں نے مولانا محمو الحسن (م ۱۹۲۰ء)شىخ الہند اور فقىہہ اور صوفى مولانا رشىد احمد گنگوہى (م ۱۹۰۵ء) جىسى عظىم شخصىات سے تعلىم حاصل كى[1] ۔

تحصىل علم

ابتدائى طور پر ڈاكٹر صاحب نے اپنے والد كے ساتھ نجى طور پر مطالعہ كر كے درس نظامى كے نصاب پر عبور حاصل كىا۔ اور اس دوران انہوں نے فقہ ‘ علم الكلام‘ حدىث ‘ قرآن كى تفسىر ‘ منطق اور فلسفہ كا مطالعہ بھى كىا‘ اور ۱۹۴۲ مىں پنجاب ىونىورسٹى سے اىم عربى مىں امتىازى پوزىشن حاصل كى ۱۹۴۶ء مىں وہ آكسفورڈ گئے جہاں انہوں نے ابن سىنا كى نفسىات پر اىك مقالہ تىار كىا او اسلامى فلسفہ مىں آكسفورڈ ىونىورسٹى سے پى اىچ ڈى كى ڈگرى حاصل كى ۔

علمى خدمات

آكسفورڈ سے فراغت كے بعد ا ڈاكٹر صاحب نے ۱۹۵۰ سے ۱۹۵۸ تك ڈرہم ىونىورسٹى مىں فارسى اور اسلامى فلسفے كى تدرىس كى۔بعد ازاں برطانىہ سے كىنىڈا چلے گئے جہاں انہوں نے McGill University كے ادارہ برائے اسلامى علوم مىں اىسوسى اىٹ پروفىسر كے طور پر پڑھاىا۔ جب دوبارہ بىرونى ملك چلے گئے تو جامعہ كىلفورنىا‘ لاس اىنجلس مىں مختصر عرصے تك بطور وزٹنك پروفىسر پڑھانے كے بعد انہىں ۱۹۶۹ء كے موسم خزاں مىں جامعہ شكاگو مىں اسلامى فكر كا پروفىسر مقرر كردىا گىا ۱۹۸۶ مىں انہىں شكاگو مىں ہارلى اىچ سوئفٹ امتىازى خدمات كا حامل پروفىسر نامزد كىا گىا[2]۔

پاكستان واپسی

جنرل اىوب خان نے اپنے دور اقتدار مىں جب سىاسى اور قانونى اصلاحا ت شروع كى تو فضل الرحمن نے نئى قائم شدہ مركزى ادارہ برائے اسلامى تحقىقات مىں بطور وزٹنگ پروفىسر كے شمولىت اختىار كى ‘ بعد ازاں ۱۹۶۱ سے ۱۹۶۸ء تك ادارہ كے ڈائىرىكٹر كے عہدے پر فائز رہے[3] ۔

واضح رہے كہ جنرل اىوب خان ادارہ تحقىقات اسلامى كو جن مقاصد كے لىے قائم كىا تھا وہ ىہ ہىں:

۱۔ اسلام كى بنىادى تعلىم كو عقلى او رآزادانہ فكرى پىراىہ مىں پىش كرنا ۔ اور منجملہ او رچىزوں كے ‘ جواسلام نے انسان اخوت ‘ رواہ دارى اور معاشرتى انصاف كے جو بنىادى اصول بتائىے ہىں ان پر خاص كر زور دىنا۔

۲۔ اسلامى تعلىمات كى اىسى تعبىر كرنا كہ جدىد زمانہ كى عقلى اور سائنسى ترقى كے پس منظر مىں اس كاتخلىقى اورفعال كردار واضح ہوسكے۔

۳۔ اسلامى تارىخ ‘ فلسفہ ‘ قانون ‘ فقہ اور اصول فقہ مىں خصوصى تحقىقات كا انتظام كرنا[4]۔

ادارہ كے قىام كا اىك مقصد ىہ بھى تھا كہ ملكى قوانىن كو كتاب وسنت كے مطابق بنانے مىں حكومت كى مدد كى جائے۔ڈاكٹر فضل الرحمن نے اس دوران نہاىت علمى اور مفىد اصلاحات كے لىے ادارہ كے لىے مختلف موضوعات پر اپنى تحرىرات سے مطلوبہ اہداف كو حاصل كرنے كے لىے احىاء دىن كے حوالے سے بہت كام كىا۔ ادارہ سے تحقىقى مجلہ ’’ فكر ونظر ‘‘ كى اشاعت ۱۹۶۳ء مىں ہوئى اور اس مجلہ پہلے مدىر بھى ڈاكٹر موصوف رہے ۔اسلامی علوم اور تہذیب و تاریخ کے حوالے سے گراں قدر مقالات اس کی زینت بنتے رہے ہیں۔ برصغیر کی ممتاز علمی شخصیات کے رشحاتِ قلم فکرونظر میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران میں اس کے کئی یادگار خصوصی نمبر بھی سامنے آئے جنہیں دنیا بھر کے اردو دان طبقے میں سراہا گیا۔ فکر ونظر سہ ماہی جریدہ ہے ۔ اس وقت ادارہ تحقىقات اسلامى كراچى مىں قائم تھى تو اس رسالہ كے شروع كے اشاعت كراچى سے ہى ہوتى رہى۔ اس دوران انہوں نے اعلى ترىن پالىسى ساز ادارے اسلام نظرىاتى كونسل كے مشىر كے طور پر بھى خدمات سر انجام دىں ۱۹۶۹ء مىں پاكستان اىك افراتفرى كے دور مىں داخل ہوا جس كے دوران بائىں بازوں كى جماعتوں اور طلباء تنظىموں كى قىادت نے دور رس نتائج كى حامل سىاسى تحرىك چلا كر اىوب خان كو استعفى دىنے پر مجبور كىا۔ اس دوران بھى بعض اسلامى حلقوں كى طرف سے ڈاكٹر فضل الرحمن كو مسلسل ہراساں كىا جاتا رہا حتى كہ ان كے پاس ملك چھوڑنے كے علاوہ كوئى چارہ نہ رہا وہ امرىكہ چلے گئے اور جامعہ شكاگو مىں اسلامى فكر كے پروفىسر اور محقق كا انتہائى باعزت عہدہ قبول كرلىا۔ ىہ كبھى پاكستان واپس نہ آئے۔ وہ ۲۶ جولائى ۱۹۸۸ كو ۶۸ برس كى عمر مىں دل كے آپرىشن كى باعث امرىكہ مىں انتقال كر گئے اور وہى پر دفن ہوئے[5]۔

تصنىفات

آپ نے دىن كے احىاء كے سلسلے مىں متعدد تصنىفات كىں جن مىں اكثر انگرىزى زبان مىں ہىں تاہم آپ نے اردو مىں مضامىن لكھے ہىں جو فكرونظر سے ا وقتاً وفوقتاً شائع ہوتے رہے۔ ىہاں ىہ واضح رہے كہ جنر ل اىوب خان كے دور مىں ڈاكٹر صاحب اىك مقصد كے تحت پاكستان لوٹے تھے اور وہ مقصد پاكستان كو ڈاكٹر صاحب كى اپنى رائے كے مطابق جدىد اسلامى خطور پر استوار اور گامزن كرنا تھا ۔ چنانچہ ان كے لىے ىہ ضرورى رہا ہوگا وہ پاكستان كے معاشرے كى عام بول چال كى زبان مىں جو علماء كے لىے بھى قابل فہم ہو۔ اپنى فكر كا اظہار كرىں اور فكر ونظر مىں ان كے مضامىن كے موضوعات بھى اس بات كى تصدىق كرتے ہىں كہ اس وقت كے پاكستان كى ضرورت كے مطابق وہ مضامىن تحرىر كىے گئے ۔ اس سلسلے مىں پاكستان مىں موجود مفكرىن اور علماء كے طبقے سے ان كى زبانى اورتحرىر بحث ونزاع بھى رہى۔

۱۔Islamic Methodology in History

ىعنى منہاجىات اسلام تارىخ كے آئنے مىں ‘ مطبوعہ پہلى بار ۱۹۶۵ صفحات ۲۰۸۔ آخرى مرتبہ ادارہ تحقىقات اسلامى اسلام آباد سے شائع ہوا۔ اس سے قبل مارچ ۱۹۶۲ سے جون ۱۹۶۳ تك عالمانہ مضامىن كا اىك سلسلہ سامنے آىا جنہىں تحقىقاتى ادارہ ‘ (جو اب جامعہ اسلامىہ العالمىہ اسلام آباد كااىك حصہ كے )تحقىقى مجلے اسلامى مطالعات ‘ مىں شائع كىا گىا ۔ بعد مىں انہىں ۱۹۶۵ مىں تارىخ مىں اسلامى طرىقىات كے نام سے اىك جلد مىں شائع كىا گىا ۔اس كتاب كا خلاصہ ىہ ہے : قرآن وسنت اجتہاد او راجماع صرف فقہ كے اصول اربعہ نہىں بلكہ تمام فكر اسلامى كى اساس بھى ىہى چار اصول ہىں تارىخ اسلام بالخصوص اس كے قرون اولى مىں ان اصولوں كا كىسے اطلاق كىا گىا اور مختلف حالات زمانوں مىں ان كے تحت افكار اسلامى كىسے ارتقاء پذىر ہوتے رہے ىہ ہے ۔

قرون اول مىں سنت ‘ اجتہا اور اجماع سے كىا مراد ہے نىز سنت كىا ہے او رحدىث كىا؟ كتاب مىں اس بنىادى مسئلہ پر عالمانہ اور محققانہ نقطہ نظر سے بحث كى گئى ہے ‘ فكر اسلامى كے ابتدائى تشكىلى دور كے بعد كے تغىىرات پر بھى محاكمہ كىا گىا ہے ۔ اس سلسلہ مىں اجماع پر بھى بڑى تفصىل سے بحث ہے۔ ىہ كتاب اسلامى افكار كے مطالعہ اىك نىاباب ہے ۔ اس مىں فكر اسلامى كے ارتقاء كو اىك اىسے نقطہ نظر سے دىكھا گىا ہے جو تارىخى شعور كا حامل اور تعمىرى امكانات كى راہ سمجھانے والا ہے ۔

۲۔ اسلام Islam

ىہ كتاب ىونىورسٹى آف شكاگو سے پہلى بار ۱۹۶۹ مىں شائع ہو ہوئى اور اس كا اردو ترجمہ محمد كاظم نے كىا ہے اس كتاب كے متعلق جنرل اىوب خان كى ڈائرى ۳۰ اپرىل ۱۹۶۷ كے اندراج مىں لكھا ہے اسلام تحقىقاتى ادارے كے ڈاكٹر فضل الرحمن مجھ سے ملنے آئے۔ وہ اسلام نظرىے كے بارے مىں اىك كتاب لكھنے مىں مشغول تھے ۔ مىں نے ان كا پہلا باب پڑھا۔ ىہ مسحور كن ہے لىكن انہوں نے جو زبان استعمال كى ہے وہ عالمانہ اور دقىق ہے ۔ ان كے ساتھ كچھ صاحب علم لوگوں كو وابستہ كرنے كا بندوبست كىا گىا ہے تاكہ ہر باب كے مركزى خىال پر بات چىت ہوسكے اور پھر اسے سادہ زبان مىں لكھا جاسكے ۔ ڈاكٹر صاحب بعد ازاں اس پر نظر ثانى كرسكتے ہىں تاكہ ىقىنى بناىا جاسكے كہ مركزى خىال درست انداز مىں برآمد كر لىا گىا ہے ۔ مجھے ىقىن ہے كہ ىہ كتاب جب تصنىف ہوگى تو اسلام كى خدمت مىں اىك حقىقى حصہ ثابت ہوگى زبان كى سادگى كى شرط ضرورى ہے تاكہ اسے محدود تعلىم ىافتہ شخص كے لىے بھى سمجھنے مىں آسان بناىا جاسكے[6]۔

ىہ اىك انتہائى عالمانہ كتاب ہے جو ىورپى قارئىن كے لىے لكھى گئى او راس مىں اسلام كے بارے مىں كچھ غلط فہمىاں دور كرنے كى كوشش كى گئى۔ اس كتاب كے بارے مىں خود فضل الرحمن نے لكھا ہے كہ ىہ كتاب قارى كو اسلام كى تقرىباً چودہ صدىوں پر محىط عام نشو ونما سے آگاہ كرنے كى اىك كوشش ہے۔ اس لىے ىہ بنىادى طور پر معلوماتى ہے۔ چونكہ اس كا مقصد حتى الامكان اىك مربوط اور با معنى بىانہ پىش كرناہے‘ نہ كہ اسلام كى نشوونما كے بظاہر انفرادى مظاہر ىا پہلوؤں كے بارے مىں بے ربط بىانات سامنے لانا‘ اس لىے كتاب كو اپنے اسلوب مىں تعبىر بھى كرناتھا اور وہ صرف معلوماتى نہىں رہ سكتى تھى۔ اپنے اس تعبىرى اسلوب كى وجہ سے كتاب كسى حد تك ىہ فرض كرتى ہے كہ قارى اسلام سے متعلق عام لڑىچر كے كچھ حصے سے جو انگرىزى مىں موجود ہے پہلے ہى آگاہ ہو [7]۔

اس كتاب مىں تجزىاتى ‘ فكرى اور فلسفىانہ انداز بىان ہے جس سے وہ اسلام اور اس كى تعلىمات اور اداروں كے بارے مىں مستشرقىن كى غىر متوازن آراء اور بعض امور مىں ان كى پھىلائى ہوئى غلط فہمىوں كا جواب مستشرقىن كى اپنى زبان اور ان كے مخصوص اصطلاحى محاورے (jargon)مىں دىتے ہىں مصنف كا ىہ تعبىر بىانہ ظاہر ى وجوہات كى بنا پر خاصا دقىق ہے اس انداز كى مثالىں بعض ابواب مىں خاص طور پر زىادہ دكھائى دىتى ہے ۔مثلاً حدىث كا آغاز اور اس كى نشوونما‘ قانون كا ڈھانچا‘ جدلىاتى كلام اور شرىعت وغىرہ ان ابواب مىں اور بعض دوسرى جگہوں پر بھى جہاں جہاں مصنف مستشرقىن كى آراء كو اپنى تنقىد كا موضوع بناتے ہىں : مثلاً اسلامى شرىعت ‘ اصول فقہ اور قىاس اور اجماع جىسے مسائل كى بحث مىں گہرائى مىں جاكر بات كرتے ہىں تو ان كا انداز اتنا مفكرانہ اور فلسفىانہ ہواہے كہ اىك اوسط قارى اسے آسانى سے سمجھ نہىں سكتا۔ اس كتاب مىں احىاء دىن كے حوالے سے اىك جدىدىت انداز اپناىا گىا ہے۔

۳۔Prophecy in Islam: Philosophy and Orthodoxy

فلسفہ اور رواىتى عقائد كے متعلق ىہ كتاب ہے فلسفے مىں تبدىلى اور بعد مىں ٹوٹ پھوٹ كے شكار كى وجہ سے ىہ تحرىر تالىف كى گئى اس كتاب كے متعلق خود ان كے بقول:

۱۹۵۶ء مىں نے Prophecy in Islamكے عنوان سے اىك كتاب تالىف كى جس مىں مىں نے رواىتى اسلام علم كلام اور مسلم فلسفىوں كے خىالات كے درمىان سخت تصادم سے بحث كى فلسفى ذہنى اعتبار سے زىادہ ہنرمند تھے۔ ان كے دلائل بہت لطىف تھے اور اس فن مىں انہىں كمال حاصل تھا ‘ مگر ان كا خدا اىك تجرىدى مجسمہ تھا‘ جو نہ قادر ہے نہ رحىم۔ اس كے برعكس متكلمىن چاہے علمى طور پر قدرے پس ماندہ رہے ہوں ‘ مگر ان كا دل ىہ گواہى دىتا تھا كہ مذہب كا خدا اىك توانا او رزندہ حقىقت ہے ‘ جو دعاؤں كا جواب دىتا ہے او رلوگوں كى انفرادى اور اجتماعى رہنمائى كرتاہے اور تارىخ مىں عمل دخل ركھتا ہے ‘ ابن تىمىہ نے اس بات كو اپتے تىكھے انداز مىں ىوں بىان كىا وہ كہتا ہے اور كر دكھاتاہے[8]۔

۴۔Major Themes of Qur’an

ىعنى قرآن كے اہم مضامىن ‘ اس كے مقدمہ مىں ڈاكٹر صاحب نے كتاب كا مقصد بىان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ مسلمانوں اور غىر مسلموں دونوں نے قرآن پر وسىع پىمانہ پر لكھا ہے ۔ اور اكثر مفسرىن كرام نے آىت كى تشرىح وتوضىح نصوص كے ذرىعے كرنے كى كوشش كى ہے۔تاہم و ہ قرآن كے ان حصے كے متعلق ان كو توجہ نہىں ہوئے۔ چنانچہ فضل الرحمن مرحوم كے لىے اسلامى فكر كےاحىاء كا پہلا قدم اسلام قانون ‘ الہىاتى اور صوفىانہ كام تارىخى تنقىدى نظر ڈالنا تھا ۔ ان كے منصوبے كے مطابق قرآنى نظرىات اور الہىات ‘ تفسىر اور قانون جىسے شعبے كے درمىان جو تفاوت پائى جاتى ہے ‘ اس كا سامنے لانا لازمى تھا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے قرآن سے اس تكلىف دہ انحراف كا آغاز بنو امىہ كى حكومت كے قىام كے بعد ابھرنے والى سنى تقلىدى پسندى كو بتاىا ہے ۔ اس كتاب مىں ىہ بتانے كے كوشش كى خاندانى حكمرانى سامنے آنے سے اسلام كى ترقى پر سب سے منفى اثر پڑا۔ اس كتاب مىں قرآن كے اہم مضامىن مىں سب سے پہلے اللہ ىعنى Godبىان كىا ہے اس كےبعد انسان كا بطور انفرداىت ‘ فطرت‘ وحى اور نبوت‘ اسى طرح گناہ اور ثواب كےتصور پر تفصىل سے لكھا ہے۔

۵۔ Islam and Modernity۔

ىعنى اسلام اور جدىدىت: اس كتاب مىں ڈاكٹر صاحب نے اسلامى معاشروں كے زوال كى بنىادى وجہ اسلام كے فكرى ورثے كو قرار دىا ہے اس مىں وہ لكھتے ہىں كہ اس زوال كا آغاز اٹھارہوىں صدى كے بعد مغرب كى جانب سے اسلامى معاشروں مىں مداخلت سے شروع نہىں ہوا تھا۔ انہوں نے فكرى جمود اور اصلى سوچ كى بجائے توضىحات اور شرحات پر مبنى كام كرنا ‘ اجتہاد كا دروازہ بند كرنا اور اسلام كے طرىقہ كى بنىاد مكمل طور پر اندھى تقلىد پر ركھنا اس كى وجوہات تھىں۔ جو زوال كا باعث بنىں۔اس كتاب كے عناوىن كے شروع مىں تقلىد كے حوالے سے ذكر كىا ہے اور ورثے كا نام دىا بعد مىں كلاسىكل اسلام كے حوالے سے اجتہاد پر گفتگو كى ہے۔

ان كے اہم تصنىفات كے علاوہ آپ كے كئى مضامىن ہىں ىہاں صرف آپ كے ان مضامىن كا تذكرہ كىا جاتاہے جو اردو زبان مىں ہىں:

۔ اسلام كے ابتدائى عہد مىں سنت‘ اجماع واجتہاد كے تصورات‘ فكر ونظر‘ جلد‘ ۱‘ ۱۹۶۳ء ص ۷۔۳۳۔

۔ سنت اور حدىث تصور سنت پر تفصىلى بحث‘ فكرو ونظر ج ۱ شمارہ ۳۔۴‘ ۱۹۶۳‘ ص ۹۔۲۔

۔ تحرىك حدىث‘ فكرو ونظر‘ جلد ۱ شمارہ ۔ ۵۔ ۱۹۶۳ء ص ۷۔ ۲۴۔

۔ حدىث اور اہل سنت والجمات‘ فكرو نظر‘ ج ۱‘ شمارہ ۶۔ ۱۹۶۳, ص ۷۔ ۲۶۔

۔ سنت وحدىث‘ وفكر ونظر ‘ ج ۱ شمارہ‘ ۷۔ ۱۹۶۴۔ ص ۱۷۔ ۲۲۔

۔ قرون اولى كے تشكىلى دور كے بعد اسلام‘ ىہ مضمون چھ اقساط مىں مختلف ذىل عنوانات كے تحت وفكر كى ج ۱‘ كے شمارہ نمبر ۹‘ ۱۹۶۴ء سے ج ۲‘ كے شمارہ ۵۔۶۔ ۱۹۶۴ تك شائع ہوئے۔

۔ معاشرتى تغىر اور سنت اولى‘ دو قسطوں مىں فكرو ونظر ج ۳, شمارہ ۷ ۱۹۶۶‘ ۴۶۵۔ ۴۹۱۔

۔ ابن سىنا اور راسخ العقىدہ اسلام ‘ فكرو ونظر ‘ ج ۳, شمارہ ۹۔۱۰۔ ۱۹۶۶ء۔

۔ اسلام پر تجدد پسندى كے اثرات‘ فكرو نظر ج ۴, شمارہ ۱۔۲‘ ۱۹۶۶ء ص ۹۔۲۸

۔ اسلام‘ فكرونظر ج ۵‘ شمارہ ۱, ۱۹۶۷ء ص ۹۔ ۲۰۔

۔ محمد ﷺ دو اقساط مىں فكر ونظر كى ج ۵‘ شمارات ۲ اور ۳۔ صفحان ۸۹۔ ۱۰۵۔

۔ قرآن مجىد‘ فكر ونظر‘ ج ۵‘ شمارہ ۴‘ ۱۹۶۷ء ‘ ص ۲۴۹۔ ۲۶۸۔

۲۔ ڈاكٹر فضل الرحمن كے افكار كا اىجابى اور سلبى پہلو

۱۔ ڈاكٹر فضل الرحمن مرحوم اسلامى مطالعات‘ خصوصاً اسلام كى فكرى تارىخ اور اسلامى جدىد ىت كے حوالے سے علمى حلقوں مىں پہنچانے جاتے ہىں۔ موصوف كے افكار كے اىجابى پہلو مىں اہم بات قومى زبان كے حوالے سے ہىں اگر زبان كے بارے مىں ڈاكٹر فضل الرحمن كے بنىادى نقطہ نگاہ كا تجزىہ كىا جائے تو ىہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتى ہے كہ ان كے نزدىك فكر خالص ذہن مىں تنہا جنم نہىں لىتى بلكہ اس كے ساتھ الفاظ بھى جڑے ہوتے ہىں ۔ اور اگر كوئى زبان اپنے الفاظ كے ذخىرے سے مالا مال نہ ہو تو اس زبان مىں نئے خىالات اور فكر خالص كا جنم لىنا نا ممكن نہىں تو مشكل ضرور ہے ۔ نتىجہ اىسے ممالك جن كى اىك ترقى ىافتہ قومى زبان نہ ہو ان كا تعلىم وتحقىق كا معىار نہاىت پست رہ جاتاہے ۔ اس كے علاوہ ڈاكٹر فضل الرحمن كى فكر اىك بنىادى امتىاز اور اصلاح كوششوں كا بنىادى مقصد اسلامى ممالك مىں اعلى تعلىم كا فروغ بھى ہے[9]۔ بلكہ وہ مسلم ممالك كى موجودہ معاشى ‘ سماجى اور سىاسى خراب صورت حال كا ذمہ دار ان كے نظام تعلىم كو سمجھتے ہىں۔ اس سلسلے مىں پاكستان مىں نظام تعلىم پر تبصرہ كرتے ہوئے وہ اپنے اىك مضمون مىں لكھتے ہىں:

’’ ہمارا موجودہ نظام تعلىم اور ملك مىں دى جانے والى تعلىم بد قسمتى سے كم وپىش تمام برائىوں اور منفى عوامل كا شكار ہے جو اس مىدان زندگى پر اثر انداز ہوسكتے ہىں‘‘[10]۔

وہ مزىد كہتے ہىں كہ :’’ نہ تو تقسىم سے پہلے اور نہ ہى تقسىم كے بعد اىك دھائى سے زىادہ كے عرصے مىں مسلمانوں نے اسلام پر تخلىق محققىن اور مفكرىن كى تربىت كے لىے مناسب وموافق حالات پىدا كىے ‘‘[11]۔

ڈاكٹر صاحب كے بقول ان برے اور منفى عوامل مىں نماىاں ترىن اىك تو ىہ ہے كہ مجموعى طور پر ہمارى قوم تعلىم كى اہمىت كى جانب اىك لا تعلقى اور سرد مہرى كاروىہ ركھتى ہے۔ دوسرے ىہ كہ ہمارا نظام تعلىم دہرے معىار كا شكار ہے او ر ىہ تقسىم جدىد نظام تعلىم اور مدرسوں كے نظام تعلىم كى وجہ سے ہے ‘ جو عملى سطح پر اىك ہى معاشرے مىں دوطبقات كو جنم دے رہى ہے۔ برائىوں كى اس فہرست مىں زبان كے مسئلے كا اضافہ كرتے ہوئے وہ ىہ بھى كہتے ہىں كہ ’’ جہاں تك اعلى تعلىم او رفكر كا تعلق ہے ہم اىك بے زبان قوم ہىں‘‘[12]۔ وہ مزىد لكھتے ہىں: زبان كے تنازعہ كو سىاسى جذباتىت سے الگ چاہىے ہم كو چاہىے كہ اس وقت كسى اىك زبان كو مناسب طرىقے سے اور فورى طور ترقى دىں ۔ كىونگہ وقت ہمارے ہاتھوں سے چھوٹا جا رہا ہے ۔ ترقى پسند دنىا ہمارا انتظار نہىں كرے گى اور نہ ہى اس كے پاس اس امر كا كوئى خاص جواز ہے كہ وہ ہمارے خودكشى پر مائل ناكامىوں پر ترس كھائے[13]۔

ڈاكٹر صاحب كے بقول : سچ تو ىہ ہےكہ جو بھى قابل ذكر فكرى كام ہم كرتے ہىں وہ انگرىزى مىں ہوتا ہے تاہم بحىثىت قوم انگرىزى ہمارے لىے اىك بىگانى زبان ہى رہتى ہے[14]۔

ڈاكٹر فضل الرحمن انگرىزى زبان كى اہمىت كو تسلىم كرنے كے باوجود وہ اس اعتراف مىں حق بجانب ہے كہ بحىثىت قوم ىہ زبان ہمارے لىے اىك اجبنى اور بىگانى زبان ہى رہتى ہے ۔ وہ اپنے مضمون اردو كا اسلامى ادب‘‘ مىں اردو كے ساتھ ہمارے رواىتى ماضى كے رابطے كى تارىخ پر روشنى ڈالتے ہوئے لكھتے ہىں كہ :

’’ اردو نہ صرف عربى اور فارسى سے بہت متاثر ہے بلكہ ىہ برصغىر پاك وہند مىں مسلمانوں كے ثقافتى ماحول مىں پروان چڑھى اس لىے ان خالص معنوں مىں ىہ اىك اسلامى زبان ہے[15]۔

اس ضمن مىں ڈاكٹر صاحب نثر كو اظہار خىال كے لىے ضرورى سمجھتے ہىں اس لىے ان كو جو بڑى شكاىت اقبال سے تھى اور كبھى نہ دور ہو پائى وہ ىہ كہ : ’’ اقبال نے اپنے منظم او رخاص فكر كے لىے اردو كو نہىں بلكہ انگرىزى كو اپنا ذرىعہ اظہار بناىا۔ اس لىے ان كے منظم اور حىاتىاتى فكرى كى جلىل القدر كتاب انگرىزى مىں ہے[16]۔

ڈاكٹر صاحب كا اصرار ہے كہ آج ضرورت اس بات كى ہے كہ فكر خالص كى زبان اردو كو بناىا جائے اور اس مىں تخلىقى تصانىف ہوں[17]۔

۲۔ قرآنى تعلىمات مىں ان كا اىجابى پہلو ىہ ہے وہ جدىد دور كے تقاضوں سے ہم آہنگ اىك جدىد اسلامى ترقى پسندى كا تصور دىتے ہىں ڈاكٹر صاحب كے مطابق مسلمانوں نے ىا تو اسلام كے بنىادى ماخذ ىعنى قرآن وسنت كو سمجھنے مىں غلطى كى ہے ىا پھر وہ آج كے معاشرے اور مسائل كو سمجھ نہىں پا رہے ۔ ورنہ ىہ ممكن ہى نہىں كہ اسلام سے آج كے دور مىں معاشرتى اصلاح اور ترقى كا كام نہ لىا جاسگے ۔ وہ اس ضمن مىں لكھتے ہىں:

’’ اگر قرآن كى تازہ فہم كا آج اطلاق نہىں ہوسكتا تو اس كا مفہوم ىہ ہوگا كہ ىا تو ہم موجودہ صورت حال كاصحىح تجزىے كرنے مىں ناكام ہوگئے ہىں ىا پھر قرآن كو سمجھنے مىں كوئى نقص رہ گىا ہے۔ ىہ بات ممكن ہى نہىں ہے كہ جس نظرىے پر ماضى كے منفرد حالات مىں عمل درآمد ہوا‘ اس پر موجودہ صورت حال كے نئے تقاضوں سے قطع نظر آج بھى عمل نہ كىا جاسكے‘‘[18]۔

چنانچہ ڈاكٹر صاحب كے پىش نظر ىہ كام تھا كہ اسلام كے پىغام‘ نىز ماضى كے ان حالات كو سمجھا جائے جن مىں ىہ رو بعمل آىا تھا‘ اور اسلام كے ان آفاقى اصولوں كو اخذ كىا جائے جو زمان مكان سے بے نىاز ہىں وہ لكھتے ہىں:

’’ بحىثىت مجموعى قرآن زندگى كى روش كے بارے مىں محكمات كو قائم كرتاہے كائنات كے بارے مىں اس كا اىك مطلق نقطہ نظر ہے ۔ اس كا دعوى ہے كہ اس كى تعلىمات مىں كوئى اندرونى تضاد نہىں ہے ‘ بلكہ ىہ مجموعى طور پر مربوط او رہم آہنگ ہىں‘‘[19]۔

قرآن كے بارے مىں اس واضح او ربنىادى روش كا تقاضا ہے كہ اب تارىخ كے عمىق اور ناقدانہ مطالعہ كے ذرىعے ىہ درىافت كىا جائے كہ خرابى كىسے ‘ كب اور كن مخصوص ضرورىات كے تحت پىدا ہوئى او ربالآخر اسلام كا اصل پىغام كىوں تارىخ مىں مسلم معاشروں كى محدود سمجھ اور وقتى ضرورىات كى نذر ہوگىا۔ ڈاكٹر صاحب اىك بار پھر قرآن كى طرف رجوع كرتے ہىں اور اس مىں اس ان آفاقى اصولوں كو اخذ كرنے كى كوشش كرتے ہىں جن كى صحت زمان ومكان كى قىود كى پابند نہىں او رجن كسوٹى پر خود تارىخ كو پركھا جانا چاہىے۔ىقىناً اس كامل كتاب مىں تمام معاشروں او رتما م وقتوں كے لىے كچھ اعلى آفاقى اخلاقى اصول اور قوانىن ہوں گے جنہىں ڈاكٹر صاحب نے ىوں بىان كىاہے:

’’ آنحضرت ﷺ كا پورا پىغمبرى دور اور ان كا سارا كام بھى شخص او رمابعد الطبىعاتى امور كے بجائے ٹھوس ‘صحىح معنوں مىں انسان كى اخلاقى اصلاح كے لىے وقت تھا ۔ اس بات نے قدرتى طور پر مسلمان فقہاء اوراصحاب علم وفضل كو اس امر پر آمادہ كىا كہ وہ قرآن اور پىغمبر كے نمونے كو ہر طرح كے سوالوں كے جواب كا واحد ماخذ ومنبع قرار دىں۔ ىہ طرىقہ جب عملى طور پر كامىاب ہوا تو اس سے مسلمانوں كےاس بنىادى عقىدے كو مزىد تقوىت ملى كہ تقرىباً تمام حالات مىں وحى ہى صحىح جوابات مہىا كرنے كا كام كرسكتى ہے[20]۔

اجتہاد كے حوالےسے ڈاكٹر صاحب لكھا ہے: ’’ اىك اىسى كوشش ہے جس كے تحت متعلقہ متن ىا ماضى كى قانون نظر كے مطلب كو سمجھا جائے اور اس قاعدے كو وسىع ىا محدود كىا جائے ىا اس مىں اىسى تبدىلى كى جائے كہ اىك نئے حل كے ذرىعے اىك نئى صورت حال پر اس كا اطلاق ہوسكے‘‘[21]۔ يہ چند اىك ڈاكٹر صاحب كے اىجابى پہلو مىں نماىاں پہلو ؤں ہىں ۔ ہاں ڈاكٹر صاحب اسلامى دنىا مىں ملائشىا اور انڈونىشىاء مىں بہت مشہور ہىں ۔ البتہ ڈاكٹر صاحب كےافكار كا اىك بنىادى مقصد اس دنىا مىں اىك عملى اخلاقى اور مثالى معاشرے كا قىام بہت عزىز ہے۔ تاہم ان كے خىال مىں نوآبادىاتى دور مىں مغربى جدىدىت نے مسلمان معاشروں كو متاثر كىا‘ اور اس كے نتىجے مىں مسلم فكر ودانش مىں مختلف روىے پىدا ہوئے چنانچہ ڈاكٹر صاحب لكھتے ہىں:

’’ جہاں تك مسلم دنىا كے ڈھانچے كا تعلق تھا ‘ مغربى دنىا كے نفوذ نے اسے تىن طرح سے متاثر كىا۔ اولاً سىاسى ومعاشى بالادستى‘ چاہے وہ بالواسطہ رہى ہو ىا راست قبضے كى شكل مىں ہو‘ ثانىاً مغربى سائنسى فكر كے اثر ورسوخ كى صورت مىں ثالثاً مسىحى تبلىغ كے ذرىعے‘‘[22]۔

مغربى جدىدىت كے زىر اثر مسلم دنىا مىں بنىادى طور پر دو طرح كے روىے پىدا ہوئے ۔ مغرب سے متاثر جدىدىت پرست مسلمان كھىنچ تان كر ہر حال مىں اسلام كو مغرب كى جدىد سائنس كے مطابق دكھانے كى ہر ممكن كوشش كرتے رہے ۔ ہندوستان مىں سرسىد احمد خان اس فكر كے اىك اہم نمائندہ تھے۔ ان كے بارے مىں ڈاكٹر صاحب لكھتے ہىں:

’’انگلستان مىں قىام ۱۸۶۹ء كے دروان مىں وہ سرسىد جدىد سائنس كےمقابلے مىں قدامت پسند كو نىچرى كا نام دىا گىا ۔ ان كےخلاف جمال الدىن افغانى نے شد ومد سے لكھا اور ان پر مادىت پرست ہونے كا الزام لگاىا ۔ سرسىد نے ان سائنسى اقدار كو مطلق اچھائى كا معىار جانا۔ ان كے نزدىك مسلمانوں كو بحىثىت مسلمان اگر زندہ رہنا او رترقى كرنا ہے تو اسلام كو ان اقدار كو قبول كرنا ہوگا‘‘[23]۔

ان جدىدىت پرستوں نے ماضى كى طرح مذہب كےساتھ جدىد خىالات كا ٹانگا لگانے كے لىے قرآن كى بنىاد بنانے كى كوشش كى اگرچہ ڈاكٹر صاحب خود جدىدىت اور مغرب سے متاثر ہىں تاہم ان كے بقول نتىجہ وہى نكلا جو قرون وسطى مىں سامنے آىا تھا لكھتے ہىں:

’’ خارجى نقطہ نظر سے قرآن مجىد كا جزىاتى مطالعہ اس نئے زمانے مىں بھى ختم نہىں ہوا‘ بلكہ بعض اعتبار سے معاملہ كچھ اور بھى زىادہ بگڑ گىا۔۔۔ بعض مسلمان كچھ بنىادى قسم كے مغربى خىالات اپنانے كى پرجوش حماىت كرتے ہىں اور اكثر قرآن سے اس كو حق بجانب ثابت كرنے كى كوشش كرتے ہىں‘‘[24]۔

احىاء دىن كے حوالے سے ڈاكٹر صاحب كے افكار كے سلبى پہلو

ڈاكٹر فضل الرحمن مغربىت اور استشراق سے زىادہ متاثر نظر آتے ہىں ۔ ڈاكٹر صاحب كے نزدىك مسلمانوں كو مغربىت اختىار كرنے مىں كچھ مضائقہ نہىں ۔ مغربى تہذىب اپنانے كے باوجود مسلمان مكمل رہ سكتے ہىں۔ ڈاكٹر صاحب نے بہت سے تصورات محض مستشرقىن كے تتبع مىں اپنائے ہىں۔مثلاً اىك جگہ وہ كہتے ہىں كہ بعض مسلم او رغىر مسلم اسلام كو اىك مخصوص طرز زندگى سمجھتے ہىں جس مىں مشكل ہى سے كوئى تبدىلى ممكن ہے‘ حالانكہ اسلام كے بہت سے غىر مسلم طالب علم مثلاً پروفىسر گسٹاف اے وان گرونى بام (Gustave E. Von Grunehaum 1972d)[25]كے نزدىك اسلام دراصل كسى تہذىب وثقافت كا نام نہىں بلكہ قرآن وسنت كے فراہم كردہ كچھ اصول وضوابط كا نام ہے‘ جس مىں وقت او ضرورىات سے توافق وتطابق كى گنجائش پائى جاتى ہے[26]۔ ڈاكٹر فضل الرحمن قرآن مىں بىان كردہ قصص كى تفصىلات كو بعىنہ ماننا ضرورى خىال نہىں كرتے ۔ وہ ان قصص كو مغرب كے اصول انتقاد وتارىخ كے تناظر مىں مطالعہ كرنے كى ضرورت كے حامى ہىں۔

تاہم واضح رہے كہ قصص قرآنى كى تارىخىت كے مغربى اصولوں پر تنقىدى مطالعے كے حوالے سے ڈاكٹر فضل الرحمن ڈاكٹر حسىن كے ہم نواز دكھائى دىتے ہىں ۔ حضرت ابراہىم واسماعىل علىم السلام كے تارىخى وجود سے متعلق طہ حسىن كے نظرىہ كى بنىاد پر جب ان كےخلاف شدىد رد عمل آىا او رمعاملہ عدالت تك گىا تو انہوں نے ىہ موقف اختىار كر كے اپنے حق مىں فىصلہ كر لىا تھا كہ بحىثىت مسلم مىں ان پىغمبروں كو مانتا ہوں لىكن بحىثىت محقق اور اصول انتقاد اعلى روشنى مىں مىں مجبور ہوں كہ ان كے وجود كو اس وقت نہ مانوں جب تك كوئى سائنسى شہادت مىسر نہ نہ آئے [27]۔ ڈاكٹر صاحب ىہ باور كرانے كى كوشش كرتے ہوئے كہ اس ضمن مىں تارىخى تصورات واصول انتقاد كو اہمىت دىنے مىں كوئى حرج نہىں اور ىہ قرآن اور محمد ﷺ كے بنىادى پىغام كى مخالفت نہىں لكھتے ہىں:

قصص ان تفصىلات كى تارىخىت ىعنى ان كے قبل از اسلام كے قصوں او رعوامى كہانىوں ہى كى طرح رواىتى ہونے كا سوال بجائے خود بڑا دلچسپ ہے ‘ لىكن اس مىں مسائل بہت ہىں ۔ وحى قرآنى كے مواد كے مآخذ كا سوال بھى نبى كے پىغام كى حقىقى صورت اہمىت جو اس مقصد مىں پنہاں ہے ‘ جس كے لىے ىہ مواد استعمال كىا گىا۔ گو پركھنے مىں زىادہ اہمىت نہىں ركھتا۔ دوسرى طرف مسلمانوں كو ڈرنے اور اس مواد سے متعلق تارىخى نظرىے كو رد كرنے كى كوئى ضرورت نہىں ۔ قرآن وقصص سے متعلق ىقىناً ہى كہتاہے كہ ىہ وحى كے بىان كردہ حقائق ہىں ۔ لىكن ىہ وحى ىقىناً وہى پىغام ہے جو دىنا چاہتے[28]۔

محمد ﷺ پر وحى كے خارج سے نزول اور فرشتہ وحى كے خارجى وجود كا تصور ڈاكٹر فضل الرحمن كے نزدىك مسلم الہىىات كى بعد كى بچگانہ تخلىق ہے‘ ىاد رہے كہ اس سلسلے مىں ڈاكٹر فضل الرحمن سرسىد كے ہم نوا ہىں ۔ ڈاكٹر صاحب كے نزدىك جس نے حقىقىت كو اىسا گہناىا ہے كہ اس سے نفرت ہى پىدا كردى ہے مثلاً ڈاكٹر صاحب لكھتے ہىں:

ىہ اس لىے فرض كىا گىا كہ فرشتہ جبرىل ىا سماوى آواز كى خارجىت كو موكد كىا جاسكے۔ س مىں وحى كى معروضىت كو تحفظ دىنے كے مقاصد كا رفرما تھے۔ ىہ كوشش ہمىں بچگانہ معلوم ہوسكتى ہے لىكن جب عقائد پروان چڑھ رہے تھے اس اقدام كے واضح اسباب موجود تھے وحى اور فرشتے كى خارجىت كا ىہ تصور عام مسلم ذہىن مىں اتنا گہرا ہوگىا ہے كہ معاملے كى حقىقى صورت گم اور قابل نفرىن ہى ہوگئى ہے[29]۔

اس ضمن مىں ڈاكٹر صاحب حضور ﷺ كى وحى كى عدم خارجىت پر قرآنى دلىل قائم كرتے ہوئے ڈاكٹر صاحب لكھتے ہىں: ’’ قرآن كا بىان ہے كہ بنى ﷺ نے بہت دور‘ ىا افق پر‘ كچھ دىكھا اور ىہ چىز واضح كرتى ہے كہ آپ ﷺ كے تجربہ وحى مىں اىك اہم عنصر توسىع ذات كا ہے‘‘[30]۔

محمد اسد (م ۱۹۹۲ء) كے مطاابق حدىث كو نظر انداز كر كے قرآنى تعلىمات كو آسانى سے مغربى تہذىب كے سانچے مىں ڈھالا جاسكتا ہے[31]۔ اس تناظر مىں جائزہ لىا جائے تو تجدد ومغربىت كے لىے كوشا دانش وروں كے ہاں ىہ قدر مشترك نظر آئے گى كہ وہ تمام حدىث پر اعتراضات كرتے اور اسے ناقابل اعتبار ٹھہرانے كى كوشش كرتے ہىں۔ڈاكٹر صاحب نے بھى حدىث پراعتراضات اٹھائى اور اسے نشانہ تنقىد بناىا ہے ۔ حدىث كے حوالے سے ان كا نظرىہ جوزف شاخت سے واضح تاثر لىے ہوئے ہے۔ وہ شاخت ہى كى طرح حدىث وسنت كو ابتدائى مسلم سوسائٹى كى عملى زندگى كا لفظى اظہار قرار دىتے ہىں‘ ان كہنا ہے كہ حدىث كا ىہ مواد وقت كے ساتھ ساتھ ضرورىات زمانہ كے لحاظ سے بدلتا رہا ہے۔ مختلف لوگوں كى ذاتى آرا كو بعد مىں حدىث كے باقاعدہ نظام كى شكل دے دى گئى [32]۔ وہ حدىث كو اىك تارىخى افسانہ قرار دىتے ہىں ہوئے لكھتے ہىں: ’’ حدىث اىك تارىخى افسانے كے سوا كچھ نہىں جس كا مواد مختلف ذرائع سے جمع ہوا‘‘[33]۔

ڈاكٹر فضل الرحمن كے مطابق مسلمانوں مىں پانچ نمازوں كا تصور حدىث كى بعد مىں اٹھنے والى لہر كا نتىجہ ہے ‘ قرآن مىں ىہ كہىں مذكور نہىں لكھتے ہىں : ’’ نمازوں كو بلا كسى تبدىلى ومتبادل كے پانچ مقرر كرنا پىغمبر اسلام كے زمانے كے بعد كى اىجاد ہے نمازىں بنىادى طور تىن تھىں‘ لىكن نمازوں كو پانچ قرار دىنے كے تصور كى تاىىد مىں گردش مىں آنے والى حدىث كى لہر اس حقىقت كو بہا لے گئى‘‘[34]۔

آن حضور ﷺ كے معراج جسمانى كا تصور بھى ڈاكٹر فضل الرحمن كے نزدىك جعلى احادىث كے ذرىعے رائج ہوا‘ ورنہ حضور ﷺ كا ى تجربہ بھى آپ كے دىگر تجربات كى مانند محض روحانى تھا وہ لكھتے ہىں:

پىغمبر ﷺ كے روحانى تجربات حدىث كے ذرىعے جسمانى نوعىت كے بنا دىے گئے ‘ بالخصوص جب قدامت پسندى تقرىباً مسىح علىہ السلام كے آسمان پر چلے جانے كے تصور كے انداز مىں محمد ﷺ كے مشىنى انداز مىں جسمانى طور پر آسمانوں پر جانے كے عقىدے كى شكل مىں تشكىل پذىر تھى ‘ اور اسے حدىث كے ذرىعے تقوىت دى جارہى تھى[35]۔

فضل الرحمن نے قرآن كے متعلق لكھا ہے :

قرآن كا قانونى ىا نىم قانون حصہ خود واضح طور پر اىك موقع محل كى مناسبت بتاتاہے۔ مثال كے طور پر مسلمانوں او رن كے مخالفىن كے درمىان جنگ او رامن قرآنى اعلانات خاصے مواقعاتى ہىں ۔۔اىسے بىانات جو سخت جدوجہد كى صورت مىں كسى آبادى كے دشمن كے ساتھ مثالى برتاؤ سے متعلق تو ہىں تاہم وہ اتنے مواقعاتى ہىں كہ انہىں صرف نىم قانونى كا درجہ ہى دىا جاسكتا ہے نہ كہ انہىں خصوصى قانون ما جائے[36]۔

اسلامى قانون كے حوالے سے ڈاكٹر صاحب لكھتے ہىں كہ : ’’ آنحضرت ﷺ اساسى طور پر بنى نوع انسان كے اخلاق مصلح تھے‘‘[37]۔ وہ مزىد لكھتے ہىں كہ آپ ﷺ شارع قانون ساز نہ تھے اس لىے اسلام كى ترقى كے لىے نہ آپ ﷺ نے قانونى سازى كى ‘ نہ ازروئے قىاس اس كے لىے آپ ﷺ كو فرصت تھى[38]۔

اسى طرح وہ لكھتے ہىں : ’’ معمولى حالات مىں ذات نبوى ﷺ كو زحمت بھى دى جاتى ‘ ىا بہت خاص حالات مىں قرآن كا سہارا لىنا ہى پڑتا‘ تو ان قرآنى اور نبوى فىصلوں كى نوعىت محض ہنگامى اور وقتى ہوتى ‘ جنہں قانون كا درجہ نہىں دىا جاسكتا ‘ زىادہ سے زىادہ اىك گونہ نظىر ہى كہا جاسكتاہے‘‘[39]۔ گوىا ىہ وہ نظرىہ ہے جو جوزف شاخت اور كولسن كا ہے۔

صحىح بخارى كے بارے مىں لكھا ہے ىہ سجھنا كہ صحىح بخارى كى ہر حدىث صحىح ہے ‘ غاىت رواىت پرستى ہے ‘ صحىح بخارى مىں تو كذب صرىح تك موجودہے ‘ جس سے ہر بخارى كاپڑھنے والا واقف ہے ‘ زبان سے اقرار نہ كرے ىہ اور بات ہے[40]۔

كتب صحاح كے بارے مىں لكھتے ہىں كہ صحاح تك كى ہر كتاب مىں قرآن مجىد كى محفوظىت ولا رىبىت اور خلق عظىم نبوى پر حرف لانے والى احادث پاكر ان كتابوں كو پھاڑ ڈالنے اور چولہے مىں جھونكے كو جى چاہتا ہے[41]۔

ڈاكٹر صاحب كى كتاب ’’ اسلامى منہاج كى تارىخ‘‘ جو انگرىزى زبان ہے تاہم اس كتاب كے مضامىن كا اردو ترجمہ فكرونظر مىں شائع ہوتا رہا۔ اس تفسىر ‘ حدىث ‘ فقہ اور عقائد اصول وغىرہ كى شكل مىں عبادات‘ عقائد ‘ معاملات اخلاق‘ حدود اور سىاسىات وغىرہ كے مختف شعبوں پر مشتمل ہے ىہ آخر كہاں سے آىا ؟ بس اسى سوال كے جواب كانام ’’فلسفہ ارتقاء اسلام‘‘ ہے ‘ پہلے اجمالاً ا تنى بات ذہن نشىن كرائى گئ كہ ىہ سب عہد وسطى كے فقہاء اور محدثىن كى رنگ آمىزى ہے[42]۔ اس كے بعد حدىث ‘ فقہ ‘ عقاىد اور اصول الغرض علوم اسلامىہ كے اىك اىك شعبہ كو لے كر اس كے بالكل فرض ارتقائى منازل بىان كىے جانے لگے اور اسلام كے اىك اىك جزئى مسئلہ كا سر محمد سے كاٹ كر زمانہ بعد سےجوڑا جانے لگا اور ساتھ ساتھ ہر ہر مرحلہ پر امت مسلمہ كے قائدىن اور دىن اسلام كے مخالفىن ‘ ائمہ مجتہدىن ‘ فقہاء ومحدثىن بلكہ صحابہ وتابعىن كى فرض لغزشوں كے افسانے تراشے جانے لگے اور ىہ سب كچھ اتنى صفائى ‘ چابكدستى ‘ سبك روى ‘ ملمع كارى ارو معصومانہ انداز مىں كہا گىا كہ قارى خود بخود ىہ فىصلہ كرنے پر مجبور ہوجائے كہ معاذ اللہ دنىا كا سب سے بڑا سازشى اور مكروہ مذہب اسلام ہے اور خطہ زمىن كے سب سے بد تر مكار اور فرىبى ہر دور كے مسلمان علماء كرام ‘ محافظىن اسلام ہىں معاذ اللہ۔

ىہى وہ كام ہے جو اصل مىں مستشرقىن كى تصنىفات مىں جا بجا ملتا ہے ۔ڈاكٹر فضل الرحمن نے وہى تصور ان كا اپنے قلم سے دىنے سے كوشش كى ہے ۔زكوة كے حوالے سے ڈاكٹر صاحب نے اسلامى مشاورتى كونس كے قىام اس كے اغراض ومقاصد ‘ ان دونوں اداروں كے تعلق كى نوعىت كا ذكر كىا اور ان كے الفاظ مىں بہلى آزمائش ىعنى مسئلہ سود كے بارے مىں اصلامى مشاروتى كونس كے پھس پھس روىہ پر تنقىد كرتے ہوئے اس موقعہ پر ادارہ تحقىقات اسلامى كى جرات كا قصىدہ شروع ہوتاہے ۔ ىہاں ىوں بقول لدھىانوى صاحب كے كے اىسا لگتا ہے آپ ابو حنىفہ اور امام شافعى كى حىثىت سے نہىں بلكہ دنىائے اسلام كى سب سے بڑى اتھارٹى كى پوزىشن مىں مصروف گو ىائى ہىں:

ادارہ تحقىقات اسلامى كے تحقىقى مطالعہ نے بتلاىا كہ رسول اللہ ﷺ كے عہد مىں عرب مىں ربا كا واقعہ نظام مروج تھا وہ انتہائى بھونڈے قسم كے معاشى استحصال اور لوٹ كھسوٹ كا تھا اس لىے قرآن مجىد نے بار بار كى تنبىہات كے بعد اسے ممنوع قرار دىا اور ىہ كہ بعد كى صدىوں مىں مسلمان فقہاء نے غىر ضرورى طور پر اس ممانعت كا دائرہ ان تمام مالى معاملات پر كردىا جن مىں اصل رقم پر كچھ اضافہ ہوتاہو‘ چنانچہ اس ضمن مىں ارداہ تحقىقات كا استدلال ىہ تھا كہ اسلام كو آج بروئے كار لانے كے لىے سب سے پہلے تو ىہ لازمى ہے كہ قرآن مجىد كے احكامات كا تارىخى پس منظر سمجھا جائے تاكہ اخلاق‘ روحانى اور معاشرتى واقتصادى مىدانوں مىں قرآن مجىد كس قسم كى اغراض كى تكمىل چاہتاہے‘ ان كا تعىن كىا جائے ‘ نىز آج كے سىاق وسباق مىں قرآن كى عملى تطبىق لفظ نہىں كى جاسكتى [43]۔

۱۹۶۷ء مىں اىك لىكچر پاكستان كے سركارى ٹىلى وزن چنىل پى ٹى وى پر دىے گئے اىك لىكچر كے دوران فضل الرحمن نے رائے دى كہ شراب پىنا اسلام مىں گناہ كبىرہ نہىں ہے ۔ ىہ سابق افكار كى تسلسل كے طور پر ان كى تقرىر تھىں ۔ ڈاكٹر صاحب سود كے حوالے سے مزىد ىوں لكھتے ہىں :

اگر حكومت تجارتى سود كا تمام نظام اپنے ہاتھوں مىں لے لے تو مىرے خىال مىں اس كے جو از كى گنجائش موجود ہے كىونكہ فقہ كا اصول ہے ’’ لا ربوا بىن المولى وعبدہ‘‘ آقا او رغلام كے درمىان سود جائز ہے ۔ حكومت اوررعىت كے تعلق كو بھى اسى پر قىاس كىا جاسكتا ہے [44]۔

تعدد ازواج كے بارے مىں ان كے تصرىحات كا خلاصہ ىہ ہے كہ قرآن حكىم نے چار تك بىوىاں ركھنے كى اجازت دے دى ہے اور ساتھ ہى ىہ ارشاد فرماىا كہ عام حالات مىں اىك مرد كے لىے اك ہى بىوى كا ہونا ہى مثالى حىثىت ركھتا ہے ۔ مگر چونكہ عرب معاشرے مىں تعدد ازواد كى جڑىں گہرى تھىں ‘ اس لىے اس وقت كے معاشرے كے ساتھ مصالحت كرنے كے لىے قرآن نے قانونى سطح پر تعداد ازواج كو ممكن حد تك تحدىد اور پابندىوں كے ساتھ قبول كرلىا اور ىہ صراحت بھى كردى كہ مثالى اخلاقى معاشرہ وہ ہے جس مىں اىك مرد كى اىك ہى بىوى ہو اور آنحضرت ﷺ كى ىہ آرزو تھى كہ مسلمان اس معاشرے كو تدرىجاً اپنائىں گے‘ بہر حال تارىخى لحاظ سے ہوا اس كے برعكس كىونكہ رسول اللہ ﷺ كے انتقال كے بعد وسىع پىمانے پر مسلمانوں كو فتوحات حاصل ہوئىں ‘ جن كے نتىجہ مىں مسلم معاشرے مىں بہت بھارى تعداد مىں باہر سے عورتىں اور لونڈىاں آئىں اور ىہ چىز اس معاملے مىں قرآن مجىد كے اصل مقصد كے لىے ركاوٹ بن گئى[45]۔

اس كا مطلب ىہ ہوا كہ اسلام كى پورى تارىخ مىں بشمول دور نبوى نہ ڈاكٹر صاحب كا فرضى مثالى اخلاقى معاشرہ كبھى قائم ہوا ‘ نہ تمنائے نبوى بر آئى نہ قرآن كا اصل مقصد كبھى پورا ‘ بلكہ اسلام فتوحات اس كے لىے ركاوٹ بنتى چلى گئىں۔

ان دونوں پہلو ؤں ( اىجابى وسلبى) كا عصرى تناظر مىں تحقىقى وناقدانہ جائزہ

ڈاكٹر صاحب كےدونوں مىں پہلوؤ ں سلبى زىادہ ہے جس كے بدولت ان كو پاكستان مىں وہ پذىرائى حاصل نہىں ہوئى جس طرح كہ كسى اىسے علمى شخصىت كى ہونے چاہىے تھے ۔ فضل الرحمن كے لىے فكر كے احىاء كا پہلا قدم اسلام مىں قانونى الہىاتى ‘ اور صوفىانہ كام پر تارىخى تنقىدى نظر ڈالنا تھا۔ ان كے منصوبے كے مطابق قرآن نظرىات اور الہىات ‘ تفسىر اور قانون جىسے شعبوں كے درمىان جو تفاوت پائى جاتى ہے ا س كا سامنا ىوں لانا لازمى سمجھنا جو مستشرقىن كى تاىىد مىں كردار ادا كرتاہے موجودہ دور جب كہ اسلام پر مختلف زاوىے سے مستشرقىن اعتراض كرتے رہے ہىں اىسے مىں ڈاكٹر فضل الرحمن كے آراء كو وہ بطور نمونہ پىش كرتے ہىں۔ ڈاكٹر فضل الرحمن كى كتاب اسلام كے جائزے مىں مرىم جملىہ نے ڈاكٹر صاحب كےنتائج فكر اصل ہونے كى تردىد اور ان كے اہل استشراق وتجدد كے نتائج فكر سے مماثل ہونے كا ذكر كرتے ہوخے زىر بحث نكتے كو خوب نماىا كىا ہے وہ لكھتى ہے كہ علم وتحقىق كے اپنے معىار كے مطابق بھى ڈاكٹر فضل الرحمن اپنے بىان كردہ مقصد اجتہا اور آزاد بحث وتحقىق ارو اس كے لىے سازگار فضا كے حصول مىں ناكام ہوئے ہىں ۔ قرآن پاك پر آپ كا باب اكثر وبىشتر مافوق الفطرت كى اسى نوع كى مخالفت ہے جىسى سرسىد احمد خان كے ىہاں ملتى ہے ۔ حدىث اور شرىعت كے ارتقا سے متعق آپ كى بحث شاخت كے نظرىات سے مماثل ہے ۔ عصر حاضر تك كى اسلامى تارىخى براہ راست اىچ اے آر گپ سے ماخوذ ہے ۔ آپ كى جدىد عذر خواہىاں اىسى ہى ہىں جىسى سىد امىر على كے سپرٹ آف اسلام مىں بائى جاتى ہىں۔ اسلام كے حال اور مستقبل سے متعلق آپ كے تجزىے سمتھ كى ’’اسلام ان ماڈرن ہسٹرى‘‘ سے مختلف نہىں ہىں ۔ اگر ڈاكٹر فضل الرحمن اىسى اہلىت كا حامل شخص بھى ذرا سا اصل ‘ تخلىقى اور آزادى فكر وخىال پر مبنى كام پىش كرنے كے قابل نہىں ‘ تو آپ كے آپ سے كم ذہىن متبعىن سے كىا توقع كى جاسكتى ہے[46]۔

خلاصۃ البحث

اگرچہ اىك اعلى پائے كے مسلم مفكر كى حىثىت سے ڈاكٹر فضل الرحمن كا كام چار دہاىوں پر پھىلا ہوا ہے اگر چہ انہوں نے اپنى زندگى كى آخرى دو دہائىوں ‘ ىعنى ۷۰ اور ۸۰ كى دہائىاں معلم اور مسلم دانشور كى حىثىت سے رىاست ہائے متحدہ امرىكہ مىں گزارىں مگر ۶۰ كى دہائى مىں اىو خان كے دور حكومت مىں وہ ادارہ تحقىقات اسلامى ‘ اسلام آباد كے ڈائىرىكٹر كے عہدے پر فائد ہوئے ىہاں انہوں نے اسلام كى نئى تشرىح وتوجىہ كى جو فكرى اورعملى كوششىں كىں ان كے بارے مىں لكھتے ہىں:

مىں نے اپنا كردار اس وقت ادا كىا جب مىں صدر اىوب خان كى دعوت پر (۱۹۶۱ء ۱۹۶۸) پاكستان مىں تھا ۔ مىں ادارہ تحقىقات اسلامى كا سربراہ تھا جو اىو خان كو حكومتى پالسىوں كے بارے مىں اىسے مشورے دىنے كے لىے قائم كىا گىا تھا جو اسلامى اصولوں كے مطابق ہوں ‘ اور ہم جدىد دنىا كے بدلتے ہوئے تناظر مىں انہىں لاگو كرنے كے لىے مناسب تشرىحات كرىں[47]۔

تاہم امرىكہ اور كىنڈا مىں ان كے شاگردوں كى اىك بڑى تعداد ہے اور انہوں نے اپنے استاد كے كام آگے بڑھا نے كوشش كى اور ان كے كام اور زندگى پر انتہائى اہم مقالات اور مضامىن لكھ كر انہىں زندہ ركھا ہے ۔ پاكستان مىں فضل الرحمن مرحوم كے كتابوں كى تحقىق كى ضرورت ہے۔ مسلم دانش وروں سكالرز كے استشراقى ومغربى افكار سے تاثر او ران كے نتائج فكر كى روشنى مىں اختىار كردہ نظرىات كى ہے ورنہ بعض نظرىات اىك خاص تناظر مىں قابل اعتراض نہں ہوتے‘ جىسا كہ ىہ تصور كہ اسلام مىں ضرورىات زمانہ كا لحاظ ركھا جاتاہے اور ىہ مختلف احوال وظروف سے توافق كى صلاحىت ركھتا ہے ‘ بنىادى طور پر غلط نہىں ہے لىكن مستشرقىن اور ان كے تتبع مىں تجدد پسند اس تصور كو جس حد تك وسعت دىتے ہىں وہ درست نہىں۔

 

حوالہ جات

  1. حواشى وحوالہ جات سہ ماہى كرائٹىرىن‘ مقالہ نگار ‘ اے جى نورانى‘ ڈاكٹر فضل الرحمن‘ ج ۹‘ شمارہ ۱‘ مارچ ۲۰۱۴‘ ص ۷۶۔
  2. ابراہىم موسى‘ اسلام مىں احىاء اور اصلاحى بنىادى پرستى كا اىك مطالعہ‘ ون ورلڈ‘ آكسفورڈ‘ ۲۰۰۶؛ ص ۱۔ ۲۹۔
  3. فكر ونظر ادارہ تحقىقات اسلامى ‘ ‘كراچى‘ ۱۹۶۳‘ ج ۱‘ شمارہ ۱‘۔
  4. فكرو نظر‘ ادارہ تحقىقات اسلامى ‘ كراچى’ اپرىل ۱۹۶۸۔ شمار نمبر ۹, ص ۲۔
  5. منج‘ محمد شہباز‘ ڈاكٹر‘ فكر استشراق اور عالم اسلام اس كا اثر ونفوذ‘ القمر پبلى كىشنز ‘ لاور‘ ۲۰۱۶‘ ص ۱۹۹
  6. فىلڈ مارشل محمد اىوب خان كى ڈائرىاں ۱۹۶۶ تا ۱۹۷۲ تدوىن وشرح از كرىك بىكسٹر ‘ آكسفورڈ ىونىورسٹى پرىس ‘ كراچى ۲۰۰۷ ‘ ص ۹۰۔
  7. فضل الرحمن ‘ ڈاكٹر ‘ اسلام‘ مصنف كا پىش لفظ۔ مترجم : محمد كاظم
  8. Fazal ur-Rehman, Islamic Methodology in Histroy (1965) p. 70۔
  9. Fazul Rehman, Quranic Solution of Pakistan’s Educational Problems Islamic Studeis, Vol 6, No 4, 1967, p.320
  10. حوالہ مذكور
  11. حوالہ مذكور‘ ص ۳۲۲
  12. حوالہ مذكور
  13. حوالہ مذكور
  14. فكر ونظر‘ اردو كا اسلامى ادب‘ ج ۲‘ شمارہ‘ ۷ جنورى ۱۹۶۵ء۔
  15. حوالہ مذكور ‘ ص ۴۰۹
  16. اگرچہ اقبال كى فكر كے بعض پہلوؤں كے حوالے سے ڈاكٹر فضل الرحمن كے خىالات مىں وقت كے ساتھ ساتھ نماىاں تبدىلى واقع ہوئى اور آہستہ آہستہ ان كے شكوے شكاىت كم ىا ختم ہونے چلے گئے ۔ اقبال كے حوالے سے ڈاكٹر فضل لرحمن كے فكرى ارتقاء كى جھلك ن كى تحرىروں مىں ملتى ہے جن كا ذكر حوالہ نمبر ۲۱ مىں كىا گىا ہے۔ اردو سلامى ادب ص ۴۱۴‘ ىہ اشارہ اقبال كى مشہور انگرىزى تصنىف Reconstruction of Relious Thought كى طرف ہے۔
  17.   حوالہ مذكور ص ۴۳۱۔
  18. فضل الرحمن ‘ اسلام اور جدىدىت‘ مترجم محمد كاظم ‘ مشعل لاہور‘ ۱۹۹۸ء ص ۳۰
  19. حوالہ مذكور۔
  20. حوالہ مذكور۔
  21. فضل الرحمن ‘ اسلام مترجم محمد كاظم‘ ص ۸۔
  22. Fazl ur Rehman, Internal Religious Development in the present , century Islam in Journal of World History vol 2, No 4, 1955 p. 865.
  23. ۔ Fazl ur. Rehman, Muslim Modernis in the indo Pakistn sub content in Bullentin Schol of oriental and African stdies vol 21, n 1958, p 83
  24. اسلامي جديديت ص ۶۵
  25. آسٹرىن متشرق آسٹرىا كى ىونى ورسٹى آف دىانا سے قدىم عربى شاعرى پر پى اىچ ڈى كى ڈگرى جاصل كى شكا ىونورسٹى اور كىلى فورنىاىونىورسٹى مىں پروفىسر رہے۔
  26. فضل الرحمن ڈاكٹر‘ اسلامى ثقافت كىا ہے ‘ فكرو نظر, شمارہ ۵۔۴ ‘ ۱۹۶۷ ‘ ص ۳۴۵۔ انگرىزى مضمون Dr Fazul Rhman “what is islamic Cultrue? “ The Light, Lahore March 24, 1973 , 5
  27. چارلسس آدم ‘ اسلام او رتحرىك تجدد مصر مىں اردو ترجمہ‘ ص ۳۶۸۔
  28. ۔فضل الرحمن‘ ڈاكٹر ‘ اسلام‘ مترجم محمدكاظم’ ص ۲۶۔ ۲۷۔
  29. حوالہ مذكور۔
  30. حوالہ مذكور
  31. Asad , Islam at the Cross Roads, P 112, 130
  32. فضل الرحمن ‘ اسلام‘ ص ۵۶۔
  33. حوالہ مذكور۔
  34. حوالہ مذكور ص ۲۸
  35. حوالہ مذكور‘ ص ۳۶
  36. حوالہ مذكور‘ ص ۴۹۔
  37. فكرو نظر ‘ ج ۱‘ شمارہ ۱‘ ص ۱۶‘ ۱۹۶۳ء۔
  38. حوالہ مذكور‘ ص ۱۸۔
  39. حوالہ مذكور۔
  40. حوالہ مذكور‘ ج ۲‘ شارہ ۲‘ ص ۲۷۔
  41. حوالہ مذكور ص ۲۷
  42. حوالہ مذكور۔ ص ۱۶
  43. حوالہ مذكو‘ ص ۲۷؛ لدھىانوى ‘ دور جدىد كے تجدد پسند كے آفكار‘ ص ۵۴۔
  44. فكرو نظر‘ ج ۳‘ ص ۵۷۔
  45. حوالہ مذكو‘ ج ۴, شمارہ ۱ ‘ ص ۲۸۔
  46. Jamila , Islam and Modernism p 121.
  47. My Relef in Action p.157
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...