Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

توہین رسالت، خدشات، اعتراضات اور اس کے جوابات |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060034450_671

Pages

183-215

PDF URL

http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/download/18/18

Chapter URL

http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/view/18

Subjects

ختم نبوت توہین رسالت شاتم رسول ذمی معاہد Islam Deen Asnam Parasthi waham Parasthi Dunia

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

رسالتمآبﷺکی توہین و تنقیص کا جو سلسلہ مغرب یا عیسائی دنیا کی جانب سے جاری ہے ، اس اندازِ فکر کا تاریخی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اس دریدہ ذہنی کے مختلف عوامل ہیں ۔ مسلمانوں کے مقابل میدانِ جنگ میں شکست کی ذلت ، اسلام کی غیر معمولی نشر و اشاعت کے سامنے اپنی بے بسی ،مسلمانوں کی اخلاقی وسعت کے سامنے اپنی برہنہ تہذیب کا احساس اور ان سب سے بڑھ کر سیرتِ محمدی ﷺکی حیرت انگیز روحانی تاثیر ، یہ وہ عوامل ہیں جو ان کی طبیعتوں پر اسلام کے حوالے سے جھنجھلاہٹ ، ہٹ دھرمی اور عامیانہ پن پیدا کردیتے ہیں ۔

پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔ قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں۔ ایک تو یہ سیدھا سیدھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب وغریب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ

یہاں یہ بات یاد رہے کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی اور پارلیمنٹ وغیرہ اسلامی نقطہ نظر سے ضرور بحث کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے لیکن یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ توہین رسالت کا قانون ختم ہو جائے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کو ایک طرف کر کے فرض کریں اگر کوئی ہندؤ یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟ اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندؤں یہ برداشت کریں گے؟ ہر گز نہیں اور کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہو گیں کہ پوری دنیا کا معاشراتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔ یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔

آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ مانتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟

توہین رسالت کی سزا پر اُٹھائے جانیوالے اعتراضات​:

توہین رسالت کا مسئلہ قرآن وسنت میں بڑی شرح وبسط سے بیان ہوچکاہے ، اور اجماع امت سے اس کی توثیق ہوچکی ہے ۔ توہین رسالت کے حوالے سے جو اعتراضات بالعموم اُٹھائے جاتے ہیں، ان کا حقیقت میں نہ علم سے تعلق ہے اور نہ ہی قرآن کے متون سے ان کا کوئی دور کا واسطہ ہے ۔ اسی طرح تفسیر وحدیث اور نہ ہی اجماعِ اُمت اس کی تائید کرتے ہیں ۔ یہ محض ضد، انانیت اور جناب رسو ل ﷺ کے بارے میں عقیدت ومحبت کی کمی ہے جس کی بنیاد پر اس طرح کی بے ہودہ باتیں سربازار عام کی جاتی ہیں ۔ 

قانون توہین رسالت295-Cکے حوالے سے اور شاتم رسول ﷺ کی سزا اور اس کے نفاذ کے حوالے سے جوبھی اعتراض اٹھائے گئے ہیں، اُن کی بنیاد نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ تاریخ ہے،نہ سیر ت۔یہ اعتراضات محض مغرب زدہ اور علم سے بے بہرہ لوگوں کے پیدا کردہ ہیں ۔قانونِ توہین رسالت295-Cمتن یوں ہے:

’’جو بھی حضرت رسول اللہ ﷺ کی شان کے اندر کوئی توہین آمیز الفاظ یا کوئی (Derogatory) کہے گا تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے ‘‘۔ 

لہذا توہین رسالت کے قانون اور شرعی سزا پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

پہلا اعتراض: نیت کا معاملہ

جہاں (Derogatory) الفاظ کی بات ہوئی عام طور پر وہاں نیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ضروری نہیں کہ جس شخص نے رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں معاذ اللہ تنقیص کی ہے، اس کی نیت میں بھی وہ بات موجود ہو۔ 

جواب :شریعت ِاسلامیہ کی رو سے جو اعمال احسن ہوتے ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ کو نیتکی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘کا تعلق بھی ان اعمال سے ہے جو بظاہر خوشنمااور اچھے ہوتے ہیں مگر انسان کی نیت وہاں ریاکاری کی ہوتی ہے، اس لئے اللہ اسے قبول نہیں کرتے ۔اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک غازی،ایک حافظ قرآن ،اور ایک سخی آدمی کو جہنم میں ڈال دیں گے کیونکہ اُنہوں نے یہ اعمال اللہ کی رضا کےعلاوہ دکھلاوے کیلئے کئے ہوں گے۔ 

لیکن جب ہم پوری شریعت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ رہنمائی نہیں ملتی کہ زانی ، چور اورگالی بکنے والے سے ان کی نیتوں کے بارے میں پوچھا جائے ۔ نیت والی بات کو مغرب زدہ لوگ محض بطورِ ڈھال استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اقلیتی رہنما بشپ الیگزینڈر نے بھی ایک پروگرام میں میرے سامنے یہ اعتراض اُٹھایا کہ اس قانون میں نیت کی قید کا اضافہ ضروری ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص محمد عربی ﷺ کو گالی دے آپ کی توہین کرے اور پھر ہم اس سے اس کی نیت معلوم کریں ، ایسا تو اُمت کے عام فرد کی توہین کے متعلق نہیں کیا جاتا کہ اس کو گالی دینے والے کی نیت معلوم کی جائے یہاں سرورِکائنات ﷺکے متعلق نیت کی بحث کیوں چھیڑی جاتی ہے ؟ 

دوسرا اعتراض: قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟ 

یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟ لہذا قرآن سے یہ ثابت نہیں۔

جواب :اس اعتراض کے دو جواب ہیں :

اوّل: یہ کہ قرآن ابھی نازل نہیں ہوا بلکہ رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوا ہے اور پروردگار نے واضح فرمایا:

’’وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ‘‘

’’یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ، شاید کہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا کہ اس کی تشریح کوئی فلسفی اپنے فلسفے سے، کوئی شاعر اپنی شاعری اور کوئی خطیب اپنی خطابت کی روشنی میں کرے۔ یہ وہی بات ہوگی جو غلام احمد پرویز نے کہی کہ:

’’جب قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہو تو مرکزِ ملت سے رجوع کیا جائے ۔‘‘ایک شخص نے اسے مراسلہ بھیجا کہ : صاحب قرآن کے جن معنوں میں ہمیں ابہام نظر آتاہے، ان معانی کو کیسے سمجھیں ؟ اس پر اُس نے کہا کہ میں نے 9 جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے آپ اس کو پڑھیں آپ کو سمجھ آجائے گی کہ حدیث کے بغیر قرآن کو کیسے سمجھا جاتا ہے ۔ اس شخص کا عقیدہ سلامت تھا ۔کہنے لگا: آپ کی لکھی ہوئی 9جلدیں پڑھنے کے بجائے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی یہ چھ کتابیں کیوں نہ پڑھ لوں جس کے بعد مجھ پر بات واضح ہوجائے کہ قرآن کو کیسے سمجھنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جس ذکر کو جس نبی پر نازل کیا، وہی نبی اس ذکر کی شرح کرنے کا سب سے زیادہ اہل ہوتا ہے ۔ لہذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ اگر سنت میں کوئی سزا موجود ہے اور قرآن کے متن سے ہم براہِ راست اس کو اخذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو اس کا سرے سے اس بنیاد پر انکار کردیا جائے کہ وہ قرآن میں موجود نہیں ،اس لئے ہم اسے نہیں مانیں گے ! فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’لَقَدْكَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا‘‘

’’تم کو رسول اللہ کی پیروی (کرنا) بہتر ہے۔اس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روز قیامت کی اُمید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔ ‘‘

نیز فرمایا: 

’’مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا‘‘

’’جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جو نافرمانی کرے تو (اے پیغمبرﷺ)تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:

’’فَلْيَحْذَرِالَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌاَوْيُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ‘‘

’’جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو ‏۔ ‘‘

کیونکہ آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

’’وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى‘‘

آپ ﷺ کا فرمان اسی طرح قطعی الدلیل ہے جیسا کہ ربّ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

دوم :قرآنِ کریم میں متعددایسے شواہد اور نصوص موجود ہیں جن میں توہین رسالت کے مرتکب کی سزا کا تذکرہ ہے ۔

ان میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں کیا جاتاہے ۔قال تعالیٰ :

1:’’ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ‘‘

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سُولی چڑہا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔ ‏‘‘

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فسادی کس کو کہا جاتاہے ؟ جو دو بندوں کے بارے میں بے ہودہ کلمات کہے اور جو کسی وڈیرہ، میر،معتبر یا چوہدری کے بارے میں بات کرے، عرف عام کی زبان اسے فسادی گردانتی ہے ۔ تو جو کائنات کے امام کے بارے میں بیہودہ بکواس کرے ، طعن وتشنیع کرے اس سے بڑا فسادی کون ہوگا ؟

2:’’ وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَاۤ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ‘‘

’’اگر یہ لوگ عہد وپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سردارانِ کفر سے بھڑ جاؤ ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ، ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔ ‘‘

ہمارا اس سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ ہمارے نبی کے بارے میں زبان کو بند رکھیں ہمارے دین پر طعن وتشنیع نہ کریں ۔اگر ایسا کریں گے تو یہ حکم ہے کہ ان کو قتل کیا جائے ۔ان کا کوئی عہد وپیمان نہیں ہے ۔ 

تیسرا اعتراض: اسلام میں جبر نہیں

یہ کہا جاتا ہے کہ اس سزا سے دین کی بنیادی روح پر حرف آتاہے ، کیونکہ دین میں جبر نہیں اور آپ جبر کرنا چاہتے ہیں ۔ 

جواب:دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو بندوق کی نوک پر مؤمن نہیں بناسکتے۔ اگر وہ مطلب ہے جو معترضین سمجھتے ہیں تو پھر جب کسی حکمران ،یا کسی کے ماں باپ کو گالی دی جاتی ہے تو اس کو سزا کیوں دی جاتی ہے ؟! دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ: زبردستی کسی کو اپنے دین میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی جبر والی بات نہیں کہ حضور ﷺ کو گالی دی جائے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں ۔ 

چوتھا اعتراض : شاتم رسول کی توبہ 

شاتم رسول اگر توبہ کرلے تو اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ 

جواب :توبہ کب قبول کی جاتی ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے : فرمان باری تعالیٰ ہے :

’’اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘

’’ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم وکرم والا ہے ۔ ‘‘

توبہ تب قبول ہوتی ہے جب تک کوئی قانون کے شکنجے میں نہیں آتا،جب زانی قانون کے شکنجے میں آگیا تو اس پر زنا کی حد لگے گی۔ قاتل ، شرابی جب قانون کی دسترس میں آگئے ان پر حدود اللہ کا نفاذ ہوگا اور توبہ اُنہیں حد کے ساقط ہونے میں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اسی طرح شاتم رسول ﷺ بھی جب قانون کی گرفت میں آگیا اور شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ فلاں شخص نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے تو اسے قتل کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ آپ ﷺ کے دور میں زنا کے کیس میں گناہ کے مرتکب دو صحابہ: ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد رجم نافذ کی گئی حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے غامدیہ سے متعلق فرمایا تھا :’’لقد تابت توبة لو قسمت بین سبعین بين أهل المدينة لوسعتهم

لہذا جب ستر افراد کی توبہ کے برابر توبہ ان پر سے حد ختم نہ کرسکی تو شاتمین رسول کی توبہ کس طرح ان سے یہ اس مکروہ جرم کی سزا ختم کراسکتی ہے ؟

پانچواں اعتراض : بڑے شاتمین کو سزا

آپ ﷺ نے بڑے شاتمین رسول کو سزا دی تھی اور جو کبھی کبھار شتم کرتا ہے تو کیا اس کو بھی قتل کی سزا دی جائے گی؟

جواب :شاتم رسول کو آپ ﷺ کے عہد میں قتل کرنے کے متعدد واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں ۔جن میں کعب بن اشرف کا قتل کیا جانا، اسے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق قتل کیا گیا اور جب محمد بن مسلمہ اسے قتل کر کے لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: 

’’قد أفلحت الوجوہ‘‘

’’ وہ چہرے کامیاب ہوئے جنہوں نے شاتم رسول کو قتل کیا ۔ ‘‘

دوسرا واقعہ عبد اللہ بن عتیق کے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کا ہے۔ انہوں نے بھی آپ ﷺ کے حکم پر اسے قتل کیا تھا ۔یہ دونوں واقعات بڑے شاتمین سے متعلق تھے جو آپ ﷺ کو مسلسل ایذ ا پہنچایا کرتے تھے ۔ لیکن کتب حدیث وتاریخ میں ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں ایسے افراد کو بھی قتل کیا گیا جوصرف ایک یا دو مرتبہ آپ ﷺ کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے ۔ 

ان واقعات میں ایک نابینا صحابی نے اپنی لونڈی کو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے سبب قتل کردیا ۔یہ واقعہ سنن ابوداؤد اورنسائی میں موجود ہے ۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس عورت نے گھر کی چار دیواری میں حضور ﷺ کو گالی دی تھی، پھر بھی اسے قتل کیا گیا اور اس کے خون کو ہدر یعنی رائیگاں قرار دیا گیا ۔ اس سے معلوم ہواکہ کسی چھوٹی مجلس میں بھی آپ ﷺ کو گالی دینا موجب ِقتل ہے ۔ اس میں اس کیلئے کوئی معافی کی گنجائش نہیں ۔ 

جہاں تک آپ ﷺ کا اپنی زندگی میں چند گستاخانِ رسول کو معاف کردینے کا تعلق ہے تو اس سےمتعلق یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ آپ ﷺ کا حق تھا اور آپ جسے چاہتے معاف کرسکتے تھے ہم اس کا اختیار نہیں رکھتے ۔ جیسا کہ میری بہن اور بھائی میرے والد کی وراثت میں میری طرح برابرکے حقدار ہیں، اب اگر وہ اپنی زندگی میں اس حق کو معاف کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں یہ ان کا حق ہے ۔ مگر جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تو پھر میں دنیا میں ان کے حصے پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اس حق کو اب کوئی معاف نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جس کا حق ہوتاہے، وہ اسے معاف کردے یا حاصل کرلے یہ اس کے لئے جائز اور روا ہے لیکن کوئی دوسرا اس کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ۔ اس لئے شانِ رسالت کی توہین کرنے والے کی سزا ہر حال میں قتل ہوگی ۔ 

چھٹا اعتراض : سزا میں نرمی 

مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سزا بہت سخت ہے، اس میں کچھ نرمی ہونی چاہئے ۔ 

جواب: یہ مطالبہ عمومی طور پہ اہل مغرب کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مغربی معاشرہ چونکہ ایک خاص فکری ارتقا کے نتیجے میں مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، نیز وہاں ریاستی نظم اور معاشرے کے مابین حقوق اور اختیارات کی بھی ایک مخصوص تقسیم وجود میں آ چکی ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

دوسرے یہ کہ مغرب انسانی حقوق اور آزادیِ راے کے اپنے مخصوص تصور کو بین الاقوامی سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت عالم اسلام پربھی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین پر پابندی یا اس کو جرم قرار دیتے ہوئے اس پرتعزیری سزاؤں کو مسلم ممالک کے ضابطہ قوانین سے خارج کیا جائے۔

ممکن ہے اہل مغرب اپنے سیکولر زاویہ نگاہ کے تحت یہ مطالبہ کرنے میں اپنے آپ کو فی الواقع حق بجانب سمجھتے ہوں کہ کوئی ریاست قانونی دائرے میں مذہبی شعائر اور شخصیات کے ساتھ کسی وابستگی کا اظہار نہ کرے، لیکن ایک اسلامی ریاست کے لیے ایسے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں جو نہ صرف ریاست کے مذہبی تشخص کو مجروح کرتا ہو، بلکہ جمہوری اصولوں اور عام انسانی اخلاقیات کی رو سے بھی غیر معقول اور ناقابل دفاع ہو۔ دنیا کا ہر قانونی نظام اپنے باشندوں کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ ان کی عزت اور آبرو کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے اور ہتک عزت اور ازالہ حیثیت عرفی وغیرہ سے متعلق تادیبی سزائیں اسی اصول پر مبنی ہوتی ہیں۔ اگر اس قانونی انتظام کی بنیاد کسی بھی فرد یا جماعت کی عزت نفس کا تحفظ اور ان کو توہین وتذلیل کے احساس سے بچانا ہے تو بدیہی طور پر اس کے دائرے میں صرف زندہ افراد کو نہیں، بلکہ ماضی کی ان شخصیات کو بھی شامل ہونا چاہیے جن کے حوالے سے کوئی بھی فرد یا گروہ اپنے دل میں عزت واحترام اور بالخصوص مذہبی تقدیس وتعظیم کے جذبات رکھتا ہے۔ جدید جمہوری اصولوں کی رو سے کسی بھی مملکت کے حدود میں بسنے والے ہر مذہبی گروہ کو اپنے عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق اور اس کی ضمانت حاصل ہے۔ اس ضمن میں تعصب یا بعض قانونی مجبوریوں پر مبنی مغرب کے عملی رویے سے قطع نظر کر لیا جائے تو انسانی جان و مال اور آبرو کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی گروہوں کے مذہبی جذبات بھی لازمی طور پر ایک قابل احترام اور قابل تحفظ چیز قرار پاتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر ، شخصیات اور جذبات کو جان ومال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعال انگیزی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ انسانی ومذہبی حقوق کی اس خلاف ورزی کو ’’ جرم‘‘ قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اصولوں اور تصورات کے مطابق ہے، البتہ اس ضمن میں حسب ذیل امور ملحوظ رہنے چاہییں:

ایک یہ کہ اس جرم کو ہر حال میں سزائے موت کا مستوجب قرار دینے کے بجائے جرم کی نوعیت اور اس کی مختلف صورتوں کے لحاظ سے متبادل سزاؤں کا امکان بھی تسلیم کیا جانا چاہیے اور مختلف فقہی مکاتب فکر نے اس امکان کو تسلیم کیا ہے۔ امام موسیٰ کاظم روایت کرتے ہیں کہ مدینہ کے عامل زیاد بن عبید اللہ کے دور میں اس نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے مدینہ کے فقہا سے رائے طلب کی تو ربیعۃ الرائے اور بیش تر اہل علم کی رائے یہ تھی کہ مجرم کی زبان کاٹ دی جائے یا کوئی اور تعزیری سزا دے دی جائے، تاہم حضرت جعفر صادق نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مابین فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کی رائے کے مطابق مجرم کو قتل کر دیا گیا۔ فقہاے حنابلہ کے ہاں ایک قول یہ ہے کہ ایسے مجرم کی حیثیت قیدی کی ہے اور حاکم کو اس کو قتل کرنے، غلام بنا لینے، کسی مسلمان قیدی کے ساتھ اس کا تبادلہ کرنے یا کسی معاوضے کے بغیر رہا کر دینے کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو کسی بھی غیر مسلم قیدی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح فقہائے احناف کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کو قتل کرنا لازم نہیں اور عام حالات میں کسی کم تر تعزیری سزا پر ہی اکتفا کی جائے گی، البتہ اگر کوئی غیر مسلم اس عمل کو ایک عادت اور معمول کے طور پر اختیار کر لے تو اسے موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

دوسرے یہ کہ توہین رسالت کی سزا کے نفاذ پر بھی وہ تمام قیود وشرائط لاگو ہوتے ہیں جن کا اطلاق دوسری شرعی سزاؤں پر ہوتا ہے اور جنہیں اسلام کے ضابطہ حدود وتعزیرات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص یا گروہ اپنی انفرادی حیثیت میں توہین رسالت کے مجرم کے لیے سزا کا اعلان کرنے یا اسے سزا دینے کا مجاز نہیں اور دوسرے تمام جرائم کی طرح یہاں بھی جرم کے اثبات اور مجرم کو سزا دینے کے لیے باقاعدہ عدالتی کارروائی ضروری ہوگی۔ اسی طرح کوئی مسلمان عدالت اسلامی ریاست کے قانونی دائرہ اختیار (Jurisdiction) سے باہر کسی مجرم کو سزا دینے کی مجاز نہیں۔ واضح شدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس سزا کے نفاذکے لیے دشمن کے علاقے میں کارروائی کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ ’’قانون رسالت‘‘ پر مبنی تھا جس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرہ عرب میں آباد ہر اس گروہ کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل تھا جو آپ ﷺ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی کفر وانکار پر قائم رہا اور آپ کے مقابلے میں سرکشی اور عناد کی روش اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے دور میں اسلامی ریاست کے حدود سے باہر اس طرح کی کوئی کارروائی کرنے کی کوشش نہیں کی اور فقہی ذخیرے میں بھی اس سزا کے نفاذ کو بین الاقوامی قانون (International Law) کے بجائے اسلامی ریاست کے داخلی قانون کی ایک شق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلم ملک ایسے کسی مجرم پر سزا کا نفاذ چاہتا ہے تو ضروری ہوگا کہ متعلقہ غیر مسلم ملک سے مطالبہ کر کے مجرم کو اپنی تحویل میںلیا جائے اور پھر عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلا کر اسے سزا دی جائے۔ ان حدود وقیود کو نظر انداز کرتے ہوئے اختیار کیا جانے والا کوئی بھی طرزعمل نہ صرف حکمت کے خلاف ہوگا، بلکہ اس سے متنوع قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں بھی جنم لیں گی۔

تیسرے یہ کہ جب مذہبی جذبات اور شخصیات وشعائر کی توہین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے تو اس جرم کے مرتکب کو مستوجب سزا قرار دینے کے حق کو صرف اہل اسلام کے لیے مخصوص قرار دینا مبنی بر انصاف نہیں ہوگا، بلکہ مذہبی جذبات کے احترام اور تحفظ کے اس حق سے ریاست کے دوسرے مذہبی گروہوں کو بھی بہرہ مند کرنا ضروری ہوگا اور بالخصوص اگر اہل اسلام کی طرف سے کسی دوسرے مذہب یا اس کی محترم شخصیات کی توہین وتحقیر کا رویہ سامنے آئے تو اس کا قانونی سدباب ہر لحاظ سے مذہبی اخلاقیات اور عدل وانصاف کا تقاضا ہوگا۔

مالکی اور شافعی فقہا کا ایک گروہ مسلمانوں کے مذہب اورمذہبی شخصیات وشعائر کے احترام کی اس اجمالی شرط کو کافی نہیں سمجھتا اور یہ تجویز کرتا ہے کہ عقد ذمہ میں یہ بات باقاعدہ ایک واضح شرط کے طور پر شامل ہونی چاہیے کہ کوئی ذمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ سب وشتم نہیں کرے گا، اور پھر اگر وہ ایسا کرے تو معاہدہ توڑنے کی پاداش میں اسے قتل کر دیا جائے۔ فقہاے شوافع کے ایک بڑے گروہ کے نزدیک اگر معاہدے میں یہ شرط شامل نہ کی گئی ہو تو پھر شتم رسول کے مرتکب ذمی کو قتل کی سزا نہیں دی جا سکی ۔ حنابلہ کے ہاں بھی شتم رسول کی صورت میں نقض عہد کے متحقق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دو قول پائے جاتے ہیں

فقہا کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے عقد ذمہ پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کفر ہی کی ایک شکل ہے جس پر قائم رہنے کی اجازت عقد ذمہ کی صورت میں غیر مسلموں کو پہلے ہی دی جا چکی ہے، اس وجہ سے شتم رسول کے ارتکاب کو فی نفسہ نقض عہد کے ہم معنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم اس استدلال میں ایک لطیف خلط مبحث پایا جاتا ہے، اس لیے کہ کفر وشرک ایک اعتقادی مسئلہ ہے، جبکہ کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنا ایک اخلاقی جرم ہے اورغیرمسلموں کو پہلی بات کی تو آزادی حاصل ہے، لیکن دوسری کی نہیں، دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ چنانچہ خود فقہاے احناف غیر مسلموں کے کفر وشرک پر تو انہیں کوئی سزا دینے کے قائل نہیں، لیکن توہین رسالت کو ایک قابل تعزیر جرم قرار دیتے ہیں۔

خلاصہ بحث:

ملک کی دِگرگوں حالت اور دین اسلام پر اُٹھنے والے تند وتیز اعتراضات اور حدودِ شرعیہ سے متعلق اُٹھائے جانے والے سوالات نے اُمتِ مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اُمت کے ایک عام فرد کے لئے حق وباطل میں تمیز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے ۔ اس طوفانِ بدتمیزی کی انتہا یہاں آکر ختم ہوتی ہےکہ اب پچانوے فیصد سے زائد آبادی کے ایک مسلم ملک میں ان کے ہاں مقدس ترین ہستی محمد ﷺ جیسی عظیم شخصیت پر کی جانے والی سب وشتم پر بحث ہو رہی ہے کہ اس کے مرتکب سے کیا سلوک کیا جائے!!!

یہی وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی بنا پر اس وقت ملک میں’’تحفظ ِناموس رسالت‘‘کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ تحفظ حرمتِ رسولﷺ پر جہاں سیاسی اور قانونی سطح پر جنگ لڑی جارہی ہے ،وہاں علمی محاذ پر بھی محبین ِرسولﷺکی کاوشیں اور کوششیں اپنے عروج پر ہیں ۔پاکستان میں توہین رسالت کے غلط استعمال کا تعلق انتظامیہ اور پولیس کی نالائقی ہے اور اس کے باجود قانون پر ہی شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی مغرب میں آزادیِ اظہار کے غلط استعمال کا تعلق ان کے اپنے نظریے میں پائے جانے والا سقم ہے ۔ اب پتہ چلا کہ آزادی اظہار کا قانون دنیا کا واحد قانون ہے جوباقاعدہ اس قانون کے غلط استعمال کی بھی ’’قانونی ‘‘اجازت دیتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے وہ کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے والے کےآگے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔مغرب کی سرکردہ شخصیات نے اس قانون کے غلط استعمال کی مذمت تو کی ہے لیکن اس قانون میں پائے جانے والے اتنے بڑے جھول کی نہ مذمت کی ہے اور نہ اس جھول کو تسلیم کیا ہے۔

اب تک مسلمانوں پر بحمدللہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آزادی رائے کا نظریہ اور مغرب میں اس کی عملی شکل دراصل مغرب کے اپنے اندر پائے جانے والے کچھ تناقضات کی نتیجہ ہے۔ یہ نظریہ تبھی چل سکتا ہے جب مغرب کو ایک محصور اور بند نظام کے طور پر دیکھا جائے جو اپنے سے بیرونی دنیا سے تفاعل نہیں کرتا۔ اب چونکہ مغرب کے اپنے کارناموں سے یہ دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر رہی تو مغرب اپنی سماجیات اور سیاسیات میں وہ پختگی پیدا نہیں کر پارہا ہے جو اس بدلتی صورت حال کو سلجھا سکے۔

ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

وہ اپنے پرانے نظریات پر اسی طرح مصر ہے جس طرح یورپ کے تاریک دور میں کلیسا بائبل کی کچھ خاص تشریحات پر مصر تھا۔ بالفاظ دیگر مغرب جو کہ ہر قسم کے مقدسات کو رد کرنے کا عادی تھا اس کے لئے اب اپنے پرانے نظریات مقدسات کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اس میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنا ان کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشرق کے کسی فرد کے لئے اپنے آباء واجدا د کا مذہب چھوڑنا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ توہین رسالت کا آئین قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس آئین پر عمل نہیں ہوتا ہے تو یہ وجہ حکومتی عملداری میں نقص ہے نہ کہ آئین پر۔

حوالہ جات

  1. البخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ، 2005ء، ج1،ص1
  2. النحل:44/27
  3. الاحزاب:21/33
  4. النساء:80/4
  5. النور:63/24
  6. النجم:3، 4/53
  7. المائدۃ:33/5
  8. التوبہ:12/9
  9. المائدۃ:34/5
  10. السجستانی،ابوداؤد سلیمان بن اشعث، سنن ابوداؤد، دارالرسالۃ العالمیۃ، بیروت،کتاب الحدود، باب المرءۃ التی امر النبیﷺ برجمہا من جہینیۃ،ج6،ص487
  11. البیہقی،ابوبکراحمد بن حسین بن علی، السنن الکبری للبیہقی،دائرالمعارف النظامیۃ، الھند، 1344ھ،کتاب الجمعہ،باب حجۃ من زعم ان الانصات للامام اختیار، ج3،ص221
  12. القرآن: 46/4
  13. ایضاً
  14. ابن عبد البر، الکافی،مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ،2001،ج1،ص585
  15. ابو اسحاق الشیرازی، المہذب، حقانیہ، پشاور،س ن،ج3،ص503
  16. ابو یعلیٰ، الاحکام السلطانیہ، رحمانیہ، لاہور،س ن،ص158-159
  17. الکاسانی،علاؤالدین ابی بکر بن مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، مکتبہ دارالحدیث، قاہرہ، 1426ھ، ج7، ص113.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...