Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

دعوت الی اللہ کے اصول قرآن کی نظر میں |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

تخلیق انسانیت کا اساسی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہے۔ لیکن مادی زندگی میں قدم رکھتے ہی انسان فطرتًا حقیقی مقصد کو بھول جاتا ہے اور یہ سلسلہ بنی نوع آدم کی تاریخ سے چلا آرہاہے ۔ چونکہ شیطان نے بھی انسان کی گمراہی کا بیڑہ اٹھا لیا تھا تو اب انسان کو شتر بے مہار رکھنا مناسب نہ تھا، لہٰذا رب کائنات نے راہ مستقیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے انسانوں ہی میں سے کچھ خاص بندے مقرر فرمائے۔ جن کی یہ ذمہ داری رہی کہ وہ ہدایت کا راستہ بھولے ہوئے انسانوں کواس کی منزل کی طرف راہنمائی کریں۔

چونکہ انسان مختلف الطبع ہے، کوئی ترغیب سے متوجہ ہوتا ہے کوئی ترہیب سے مان لیتاہے تو عوارض کے پیش نظر خالق نے اپنے مرسلین کو یہ بھی سکھا دیا تھا کہ تم معاشرے کے لوگوں کی طبعیتوں کو بھانپ کر اس کے مطابق اپنا رویہ رکھنا۔انبیاء کرام نے اپنے معلم حقیقی کے امر پر لبیک کہا اور عین فرمان خداوندی کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ان کے حقیقی مقصد اور صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے گئے۔ اس حوالے سے سب سے بنیادی آیت یہ ہے۔ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (1)

اے رسول معظم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔ (2)

اس آیت سے دعوت الی اللہ کے درجہ ذیل اصول اخذ ہوتے ہیں۔

1: دعوت الی اللہ کا پہلا اصول یہ ہے کہ حکمت کے ساتھ دعوت دی جائے۔ مخاطبوں کے احوال و ظروف پر غور کیا جائے، ہر بار کی دعوت کی مقدار کالحاظ رکھا جائے تاکہ کسی کو دعوت شاق نہ گذرے۔ اور بوجھل معلوم نہ ہو۔ پہلے نفوس کو احکام و تکالیف کی برداشت کے لئے تیار کیا جائے پھر ان پر احکام کا بوجھ رکھا جائے ۔جب ضرورت کا تقاضا ہو تو طریقہ میں تبدیلی کی جائے۔ دعوت میں بہادری ، دفاع اور غیرت کے عناصر کو صرف حسب ضرورت ہی استعمال کیا جائے۔

2: دعوت میں موعظہ حسنہ کو اختیار کیا جائےتاکہ وہ آہستہ سے مخاطبوں کے دلوں میں داخل ہوجائیں اور غیر محسوس طور پر احساس و شعور کی گہرائی میں اترجائیں۔ ضرورت کے بغیر ڈانٹ، ڈپٹ اور سختی کو کام میں نہ لیا جائیں لوگوں کی ان خطاؤں کو فاش نہ کیا جائیں جو ممکن ہے غفلت و نسیان کا نتیجہ ہوں یانادانی سے سرزد ہوئی ہوں۔ واعظ و نصیحت میں نرمی عمومًا متنفر دلوں کو راہ پر لے آتی ہے۔ جدا جدا قلوب کو جوڑ دیتی ہے، زجر و توبیخ و سختی سے یہ فائدے حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔

3: بہتر اور احسن طریقے کے ساتھ جدال کیا جائے ،مخالف پر بوجھ نہ ڈالا جائے، اور نہ اسے ذلیل کیا جائے اسی طرح مخاطب مخالف بن کر سامنے نہیں آئے گا اور اس کے دل میں داعی کی محبت پیدا ہوگی۔وہ سمجھے گا کہ داعی مجھ پر غلبہ پانے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میری اصلاح چاہتا ہے، مخاطب کو مطمئن کیا جائے اور اسے حق تک پہنچاننے کی کوشش کی جائے۔انسانی نفس میں بڑائی اور عناد کے جذبات بھی ہوتے ہیں، وہ نرمی کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترک کردیتا ہے مگر شدت اسے جاہلیت کی حمایت پر آمادہ کرتی ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کرے تو ضد پر اڑ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں اس کا دل صداقت کے لئے مفتوح ہوجاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ داعی کا اس معاملے میں کوئی ذاتی غرض نہیں ہے اور نہ وہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے، یہ بات اس کے دل میں حق کی محبت پیدا کردیتی ہے اوروہ ضدو عناد سے باز آجاتا ہے۔ چونکہ دعوت حق میں داعی کی اپنا کوئی ذاتی غرض نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ داعی کو سمجھانے کے لئے فرماتا ہے کہ "اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے اس کی راہ سے گمراہ کون ہے اور وہ ہی ہدایت یافتہ کو بھی جانتا ہے پس داعی کو ذاتی انا کا مسئلہ بنانا درست نہیں وہ دعوت پیش کرے اور پھر معاملہ اللہ کے سپرد کردے۔" (3)

اسی آیت کی تفسیر میں صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں" ایک نادان و غیر تربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لئے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوسکتا ہے اگر اس کے پیش کردہ دلائل بودے اور کمزور ہوں گے،اگر اس کی تبلیغ اخلاص وللٰہیت کے نور سے محروم ہوگی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کردے گا۔ کیوں کہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے اور اس کو قبول کرنے کے لئے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر و اکرا ہ سے کام لیا جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان ایمان ہی نہیں جس کے پس پردہ کوئی دنیاوی لالچ اور وخوف و ہراس ہو، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم ﷺ کو دعوتِ اسلامی کے آداب کی تعلیم دی۔یہاں اس حقیقت کا اظہار فرمایا جارہاہے کہ ایک داعی اور مبلغ کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ وہ حکیمانہ انداز سے خلق خدا کی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے سرشارہو کر رضائے الٰہی سے تبلیغ کرے اور اگر کوئی قبول نہ کرے تو اس کے لئے اسے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، یہ سب کچھ مشیت الٰہی پر موقوف ہے، وہ جسے چاہتاہے قبول حق کی توفیق ارزانی فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم و نامراد کردیتا ہے۔" (4)

اعلم انہ تعالیٰ لما امر محمدا صلی اللہ علیہ وسلم باتباع ابراہیم علیہ السلام بین الشیء الذی امرہ بمتابعتہ فیہ فقال ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ واعلم انہ تعالیٰ امر رسولہ ان یدعو الناس باحد ھٰذہ الطرق الثلاثۃ وھی الحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ والمجادلۃ للطریق الاحسن وقد ذکراللہ تعالیٰ ھٰذالجدل فی آیات الاخریٰ فقال وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ولما ذکر اللہ تعالیٰ ھٰذا الطرق الثلاثۃ وعطف بعضھا علیٰ بعض وجب ان تکون طرقا متغایرۃ متباینۃ ۔اعلم ان الدعوۃ الی المذہب والمقالۃ لا بد ان تکون مبینۃ علیٰ حجۃ و بینۃ والمقصود من ذکر الحجۃ اما تقریر ذالک المذھب وذالک الاعتقاد فی قلوب المستمعین واما ان یکون المقصود الزام الخصم وافحامہ ۔ (5) "اورجاننا چاہیے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم فرمایا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کرنے کا، اس چیز کے ساتھ کہ جو اس امر کے مطابق ہے۔ فرمایا ( لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلواؤ۔) اور یہ بات بھی علم میں ہو کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم فرمایا تھا کہ لوگوں کو دعوت دیں ،حکمت اور نیک نصیحت اور اچھے طریقے سے ان سے مناظرہ کرنا اور اللہ تعالیٰ اس مناظرہ کا ذکر ایک اور آیت میں فرماتا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے اور فرمایا کہ اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریقے سے کہ نہایت اچھا ہو۔) اور جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اس تیسرے طریقے کا تو ایک کو دوسرے سے ہٹادیا جو واجب ہے اور جو مختلف طریقہ تھا۔ اور وہ جو مفسرین کی نظر میں خالص مضبوط کلام ہے اور جاننا چاہیے کہ جب مذہب کو دعوت یا مقالہ کے ذریعے دیں تو ضروری نہیں کہ وہ صحت و وضاحت پر مبنی ہو، اور صحت کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جب اس مذہب کی وضاحت کا بیان سننے والوں کی دلوں میں اس کا اعتماد ہوجائےاور وہ جو اس کے مخالف کو قبول کرے اسی کو لاجواب کردینا مقصود ہے۔

اسی آیت کے تفسیر میں صاحب معارف القرآن لکھتے ہیں کہ" اس آیت میں دعوت وتبلیغ کا مکمل نصاب ، اس کے اصول اور آداب کی پوری تفسیر چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے۔ دعوت کی لفظی معنیبلانے کی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے پھر تمام تعلیمات نبوت ورسالت اسی دعوت کی تشریحات ہیں۔ "(6)

قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی خاص صفت داعی وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (7)

" اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منور کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا) ہے۔"(8)

"يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ" (9) "اے ہماری قوم! تم اللہ کی طرف بلانے والے یعنی (محمد ﷺ) کی بات قبول کرلو۔"(10)

امت پر بھی آپ کے نقش قدم پر دعوت الی اللہ کو فرض کیا گیاہے۔ "وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔" (11) "اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کونیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامراد ہیں۔" (12)

مندرجہ بالا آیات کی کچھ اصطلاحات پر غور لازمی ہے جو دعوت اللہ کی بنیادیں قرار پاتی ہیں۔

"الیٰ سبیل ربک" اس میں اللہ جل شانہ کی خاص صفت رب اور پھر اس کی نبی کریم ﷺ کی اضافت میں اشارہ ہے کہ دعوت کا کام صفت ربوبیت اور تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی تربیت فرمائی اور آپ کو بھی تربیت کے انداز سے دعوت دینی چاہیے۔ جس میں مخاطب کے حالات کی رعایت کرکے وہ طرز اختیار کیا جائے کہ مخاطب پر بار نہ ہو اور اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ ہو خود لفظ دعوت بھی اس مفہوم کو ادا کرتا ہے ۔ پیغمبر کا کام صرف اللہ کے کام پہنچادینا اور سنادینا نہیں، بلکہ لوگوں کو ان کی تعمیل کی طرف دعوت دینا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی کو دعوت دینے والا اس کے ساتھ ایسا خطاب نہیں کیا کرتا جس سے مخاطب کو وحشت یا نفرت ہو یا جس میں اس کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کیا گیا ہو۔

"بالحکمۃ" لفظ حکمت قرآن کریم میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس جگہ میں حکمت سے مراد قرآن کریم لیا گیا ہے۔ حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعے انسان مقتضیات احوال کو معلوم کرکے اس کے مناسب کلام کرے۔ وقت اور موقع ایساتلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو۔ نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے۔ اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحتًا کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی تو وہاں اشارات سے کلام کرے۔ یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو۔

"الموعظۃ" موعظۃ اور وعظ کی لغوی معنییہ ہے کہ کسی خیر خواہی کی بات کو اسی طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لئے نرم ہوجائے ۔الحسنۃ کی معنی یہ ہے کہ بیان اور عنوان بھی ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو اس کے شکوک و شبہات دور ہوں۔ اور مخاطب یہ محسوس کرلے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں صرف اس کی خیر خواہی کے لئے کہہ رہے ہیں ۔

"وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ" لفظ جادل مجادلہ سے مشتق ہے اس جگہ مجادلہ سے مراد بحث و مناظرہ ہے اور بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث و مناظرہ کی ضرورت پیش آئے تو مباحثہ بھی اچھے طریقے سے ہونا چاہیے۔ دلائل ایسے پیش کئے جائیں جو مخاطب آسانی سے سمجھ سکے۔ دلیل میں وہ مقدمات پیش کئے جائیں جو مشہور و معروف ہوں تاکہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دہرمی کے راستہ نہ پڑجائے ۔ (13)

قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا یہ ارشاد ہے: وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔(14)

ترجمہ: اور اے مؤمنو! اہل کتاب سے نہ جگھڑا کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو۔ (15)

دعوت کے ا صول وآداب

آیت مذکور ہ میں دعوت کے لئے تین چیزوں کا ذکر ہے اول حکمت ، دوسری موعظۃ حسنہ، تیسری مجادلۃ باللتی ھی احسن بعض حضرات مفسرین نے یہ تین چیزیں مخاطبین کے تین قسموں کی بناء پر کی ہیں،

1: دعوت بالحکمۃ اہل علم و فہم کے لئے،

2: دعوت بالموعظۃ عوام کے لئے۔

3: مجادلہ ان لوگوں کے لئے، جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں یا جو عناد اور ہٹ دہرمی کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔

ظاہر یہ کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لئے استعمال کرنے ہیں، دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائزہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے پھر اس کلام میں خیر خواہی وہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شواہد ودلائل سامنے لانا ہے جن سے مخاطب مطمئن ہوسکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھنا ہے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہوجائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں میری ہی مصلحت اور خیر خواہی کے لئے کہہ رہے ہیں۔مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں.

دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ آداب

دعوت الی اللہ دراصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے اور امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت میں استعمال کرتے ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس کے آداب و طریقہ بھی انہی سے سیکھیں،جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے اور دعوت کے بجائے عداوت و جنگ و جدال کا موجب ہوجاتی ہے۔دعوت پیغمبران کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کے لئے نقل کی گئی ہے ۔ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ یَخْشَیٰ (16) سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔ (17) یعنی فرعون سے نرم بات کرو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔

یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے فرعون جیسا سرکش کافر جس کی موت بھی علم الٰہی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی ، اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے برابر ہادی و داعی نہیں۔ تو جو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں ، اس پر فکر کسیں ، اس کی توہین کریں ، وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا، قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھر ا ہوا ہے، اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنے والوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو۔اس کی کچھ مثالیں یہ ہیں:

1: لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (18) "بے شک ہم نے (نوح علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم (کے لوگو) تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقینًا مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہے۔" (19)

حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ اولی العزم پیغمبر ہیں جو طول عمر دنیا میں مشہور ہیں، ساڈھے نو سو برس تک اپنی قوم کی دعوت و تبلیغ اصلاح و ارشاد میں دن رات مشغول رہے۔ مگر اس بدبخت قوم میں سے محدود چند کے علاوہ کسی نے ان کی بات نہ مانی۔ اور تو اور خود ان کا ایک لڑکا اور بیوی کافروں کے ساتھ لگے رہے۔ ان کی جگہ آج کا کوئی مدعی دعوت و اصلاح ہوتا اس قوم کے ساتھ اس کا لب و لہجہ کیسا ہوتا؟ اندازہ لگائیے پھر دیکھئے ان کی تمام ہمدردی و خیر خواہی کی دعوت کے جواب میں قوم نے کیا کہا؟

2: إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (20) "ان کی قوم کے سرداروں، رئیسوں نے کہاکہ اے نوح! بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ "(21) ان کے بعد اللہ تعالیٰ کے آنے والے رسول حضرت ھود علیہ السلام کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود ازراہ عناد کہا کہ آپ نے اپنے دعوے پر کوئی دلیل پیش نہیں کی او ر ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں (بتوں) کو چھوڑنے والے نہیں، ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے معبودوں کی شان میں بے ادبی کی ہے اس کی وجہ سے تم جنون میں مبتلا ہو گئے ہو ۔ حضرت ھود علیہ السلام نے یہ سن کر جواب دیا۔

"إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ۔" (22) ھود علیہ السلام نے کہاکہ بے شک میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں جنہیں تم شریک کرادیتے ہو۔ (23) اور سورۃ اعراف میں ان کی قوم نے اس کو اس طرح کہا کہ: "إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (24) "انہوں نے کہا اےمیری قوم! مجھ میں کوئی حماقت نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث) ہوا ہوں۔" (25) اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اور ان کی قوم میں جو بڑا عیب ناپ تول میں کمی کرنے کا تھا اس سے باز آنے کی ہدایت فرمائی۔ اور ان کی قوم نے ان سے مذاق کیا۔ اور توہین آمیز خطاب کیا۔

3: يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آَبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ (26) "وہ بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اعمال کے بارے میں چاہیں (نہ کریں) بےشک تم ہی ایک بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ رہ گئے ہو۔ "(27)

انہوں نے ایک تو طعنہ دیا۔جو تم نماز پڑھتے ہو یہی تمہیں بے وقوفی کے کام سکھاتی ہے دوسرے یہ کہ مال ہمارے ہیں ان کی خرید و فروخت کے معاملات میں تمہارا یا خدا کا کیا دخل ہے؟ ہم جس طرح چاہیں ان میں تصرف کا حق رکھتے ہیں۔ تیسرا جملہ تمسخر واستحزاء کا ہے، یہ کہا کہ آپ ہی بڑے عقلمند بہت، دین پر چلنے والے ہیں۔ اس ظالم قوم کی اس گفتگو کے بعد اللہ کے رسول کا کتنا ہی خوبصورت جواب ہے۔ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (28) "شعیب علیہ السلام نے کہا اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق بھی عطا فرمایا تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں، اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر حق کے خلاف خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کررہاہوں ، میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے تمہاری اصلاح ہی چاہتا ہوں۔ اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتاہوں۔" (29)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجنے کے وقت جو نرم گفتار من جانب اللہ دی گئی تھی اس کی پوری تعمیل کرنے کے باوجود فرعون کا خطاب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا۔

4: قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ (30) "فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا، اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے۔ اور تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا۔ (31)

اس میں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بڑا احسان بھی جتلایا کہ بچپن میں ہم نے تجھے پالا ہے، پھر یہ بھی احسان جتلایا کہ بڑے ہونے کے بعد بھی کافی مدتوں تم ہمارےپاس رہے،پھر یہ عتاب ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ایک قبطی بغیر ارادہ قتل کے مارا گیا تھا اس پر غصہ اور ناراضگی کا اظہار کرکے یہ بھی کہا کہ تم کافروں میں سے ہو گئے۔ یا کافروں میں سے ہونے کی لغوی معنی بھی ہوسکتی ہے یعنی ناشکری کرنے والا۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تم پر احسانات کیے اور تم نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا جو احسان کی ناشکری تھی۔

اور اصطلاحی معنی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ فرعون خود خدائی کا دعوے دار تھا تو جو اس کی خدائی کا منکر ہو وہ کافر ہوتا۔ اب اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب سننے کے قابل ہے اور پیغمبرانہ آداب ، دعوت الی اللہ اور پیغمبرانہ اخلاق کا شاہکار ہے۔ کہ اس نے سب سے پہلے تو اس کمزوری کا اعتراف کرلیا ۔ جو ان سے سرزد ہوئی۔ یعنی اسرائیلی آدمی سے لڑنے والے آدمی قبطی کو ہٹانے کے لئے ایک مکا اس کے مارا تھا، جس سے وہ مرگیا۔ تو گویا یہ قتل عمدًا ارادتًا نہیں تھا بلکہ شریعت موسوی کے لحاظ سے بھی وہ شخص قتل کا مستحق نہیں تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا : فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ (32) "اور موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا، کہ کیا ایک گھونسنے سے اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ "(33)

5: حضور ﷺ کو دعوت و تبلیغ و واعظ نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پر بار نہ ہونے پائے۔ صحابہ کرام جیسے عشاق رسول ﷺ جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی بات سننے سے اکتا ء جائیں گے ، ان کے لئے بھی آپ ﷺ کی عادت یہی تھی ۔ کہ واعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتے کے بعض دنوں میں فرماتے تھے۔ تاکہ لوگوں کی طبیعت پہ بار نہ ہو۔ بخاری شریف میں حدیث ہے: عن انس ان النبی ﷺ قال یسروا ولا تعسروا و بشروا ولا تنفروا (34) لوگوں پر آسانی کرو دشواری نہ پیدا کرو، ان کو اللہ کی رحمت کی خوشخبری سناؤ، نفرتیں مت پھیلاؤ۔ مایوسیاں ، متنفر نہ کرو۔ "

خلاصہ کلام

مبلغ اور داعی کو تبلیغ اور دعوت الی اللہ میں مخاطب کے مطابق ہم کلام ہونا ہے، اور اس کو اپنی بات سمجھانے اور متاثر کرنے کے لئےاپنے اندر جامعیت پیدا کرنی ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کو دیکھ کر اس کی بات پر توجہ دیں، اور اس پر عمل کریں، اور معاشرے میں بہتری لائی جاسکے۔ قرآن نے تنفیر اور تکفیر کے ذریعے دعوت کی نفی کرتے ہوئے ایسی دعوت دینے کا حکم دیا جس میں انسیت اور جاذبیت کے عناصر موجود ہوں۔ زبان میں شیرنی و نرمی ہو اور کلام میں شائستگی اور برجستگی ہو۔ دعوت الی اللہ کی تشہیر و کامیابی کا راز قرآن مجید کے فلسفہ دعوت پر موقوف ہے جو اسلوب دعوت ہمیں کلام مقدس نے مختلف طرق سے بتائے ہیں، ہر مبلغ اسلام اسی قرآنی اسالیب دعوت کو اختیار کرکے ایک معتبر اور موثر مبلغ اسلام بن سکتا ہے ۔

حوالہ جات

  1. القرآن : 16/125
  2. القادری، ڈاکٹر محمد طاہر ،عرفان القرآن)لاہور: منہاج القرآن پبلی کیشن ، 2014ء( ج1، ص 429
  3. سید قطب شہید، تفسیر فی ظلال القرآن، ترجمہ ساجد الرحمٰن کاندھلوی) لاہور: اسلامی اکادمی ، اردو بازار ، 1989ء(ج5، ص،390
  4. الازہری، پیر کرم شاہ، ضیاء القرآن(لاہور:ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، 1402ھ ) ج2 ، ص، 617
  5. الرازی، فخر الدین ، تفسیر کبیر الجزء تاسع عشر (بیروت: دار احیاء التراب عربی، 1405ھ۔1985ء )ص، 138
  6. محمد شفیع، عثمان معارف القرآن (کراچی: ادارۃ المعرفۃ ، سال اشاعت ذی قعد 1436ھ، اگست 2015ء) ج5 ص: 419
  7. القرآن: 33/46
  8. عرفان القرآن، ص 669
  9. القرآن ۔46/ 31
  10. عرفان القرآن، ص 807
  11. القرآن :3/104۔
  12. عرفان القرآن، ص 93
  13. معارف القرآن,ج 5 ، ص420_ 421
  14. القرآن: 29/ 46
  15. عرفان القرآن، ص 635
  16. القرآن: 20/44
  17. عرفان القرآن، ص 487
  18. القرآن: 7/ 58
  19. عرفان القرآن ص 487
  20. القرآن: 7/60
  21. عرفان القرآن ، ص 237
  22. القرآن:11/54
  23. عرفان القرآن ، ص 343
  24. القرآن:7/66
  25. عرفان القرآن ، ص 238
  26. القرآن: 11/87
  27. عرفان القرآن ، ص 349
  28. القرآن : 11/88
  29. عرفان القرآن ، ص ، 350۔ 349
  30. القرآن: 26/ 18
  31. عرفان القرآن ، ص ، 578
  32. القرآن: 26/ 20
  33. عرفان القرآن ص ، 578
  34. بخاری ، محمد بن اسماعیل، الصحیح البخاری (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1381۔ 1961ء) ج1، ص 16
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...