Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

”غض بصر“ کا اطلاقی پہلو قرآن و حدیث کی روشنی میں |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

مقدمہ

دین اسلام ایک مکمل ضا بطہ حیات ہے جوہمیں پاک وصاف معاشرے کی تعمیر کے لئے بہترین اخلاق کے ضابطے و اصول بتاتا ہے۔ تہذیب نفس اور تہذیب معاشرے کے قیام کے لئے اہم احکامات اسلام نے انسان کو عطا کیا ہے۔ ان معاشرتی احکامات میں سے ایک ”غص بصر“ بھی ہے۔ غص بصر کی اصطلاح قرآنی ہے۔ جس کا مفہوم حفاظت نظر ہے۔ اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے کیونکہ بد نظری کرنا آنکھوں کی زنا میں سے ہے اور گناہ کی ابتدا ہے ،قرآن مجید وا حادیث نے ایسی بات کو معیوب قرار دیا ہے ،بد نظری ظاہر میں تو چھوٹی قسم کی زنا ہے لیکن بڑے زنا کا پیش خیمہ ہے۔ اکثر ماہرین نفسیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ انسان شہوت اور بے راروی کے سب سے پہلے نظر بد کو استعمال میں لاتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زنا جیسے حرام کام کا مرتکب ہوجاتا ہے۔اسلام نے اسی لئے اس اجتناب کرنے کا عمومی حکم صادر فرمایا ہے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے۔

غض بصر کے حکم پر ہم عمل نہیں کرنے کے بڑے نقصانات ہیں۔ اگر راستے میں بیٹھا لڑکا کسی نامحرم لڑکی کو چھیڑ تا ہے اور بات بڑھ جاتی ہے اور یہ بات دو خاندانوں کی بیچ خون ریزی کا سبب بن جاتا ہے اور سالوں لڑا ئی چلتی رہتی ہے اور معاشرے میں عام آدمیوں کا رہنا دشوار ہو جاتا ہے اور پورا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ سیکولر نظام زندگی میں شاہد غص بصر کا حکم کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو لیکن اسلامی نظام زندگی کے اندر اس کی شدید ممانعت موجود ہے۔ لیکن دنیا کے کسی بھی حصےمیں اس گناہ کے روک تھام کے لئے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔ مملکت پاکستان میں بھی اس سلسلے میں کوئی متعین قانون نہیں ہے۔ درحالانکہ یہ ایک ایسا معاشرتی خرابی ہے جو بعض مواقع پر انسانوں کے ضیاع کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے مملکت پاکستان میں اس جرم کو روکنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہےاور پرامن معاشرے کے قیام کے لئے اس حکم پر عمل انتہائی ضروری ہے، اس حکم کو قرآن مجید وا حادیث نے وا ضح طور پر بتایا ہے ۔اس حوالے سے قرآن مجید میں متعدد آیات وارد ہوئی ہیں۔ سب کاتذکرہ طوالت کا باعث ہے اس لئے یہاں پر ایک آیت کا تزکرہ دیا جارہا ہے اور غص بصر کی زیادہ تر بحث بھی اسی آیت کے ذیل میں ہوئی ہے۔ “قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ([1]) “ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لئے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔”

حقیقت یہ ہے کہ “بدنظری”ہی “بدکاری” کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو”حفاظتِ فرج” کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔شریعتِ اسلامیہ نے “بدنظری” سے منع کیا او ر اس کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ “غضِ بصر” کا حکم ہر انسان کو دیا گیاہے۔ نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے،اس لئے کہ عورتوں کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک دفعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ([2]) نگاہ نیچی رکھنا ،اذیت کا ردکرنا ،سلام کا جواب دینا ،اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا۔ غص بصر کوانسان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہیں لاتا ہے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے انسان کی جہاں اپنی انفرادی زندگی تباہ و برباد ہوتی ہے وہی پر اس سے صالح معاشرے کے قیام میں بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ کسی بھی معاشرے کے لئے زیر قاتل کی مانند بن جاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وجہ سے فرمایا ہے۔ “النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ([3]) “بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیرہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا”۔

جیسا کہ ذکر ہوا کہ نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے ۔چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برا نگیختہ و محرک ہونا اسی کے تابع ہے۔بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتاہے ۔

مردوں کے لئے غضِ بصر کا حکم

غص بصر کا حکم مرد و عورت دونوں کے لئے مساوی ہے۔ غص بصر سے مراد شہوت بھری اور گناہ آلود نگاہوں سے دوسروں کی طرف دیکھنا ہے۔ چاہئے مرد کا مردکی طرف یا عورت کو عورت طرف دیکھنا ہو یا اس کا متضاد ہو تمام صورتوں میں اس کی اجازت نہیں ہے۔البتہ اسلام نے اسی علت کے پیش نظر مرد اور عورت کے لئے ستر و حجاب کی پابندی بتائی ہے جس کا خیال رکھنا شہوت ابھرنے کا سبب ہو یا نہیں دونوں صورتوں میں لازم ہے۔ البتہ اکثر علماء کا اس پر اجماع ہے کہ مردکے لئے دوسرے مردکے ستر کے علا وہ پورے جسم کی طرف نظر کرناجائز ہے۔ اور اسی طرح بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے ۔ البتہ مرد کا عورت کی طرف نگاہ کرنے کے احکامات دوسرے ہیں۔ مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں۔

(۱) مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔

(۲) مرداپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتاہے اور"حنفیہ کے نزدیک مواضعِ زینت میں ،سر ،چہرہ ،کان ،گلا،سینہ،بازو،کلائی، پنڈلی،ہتھیلی اورپاؤں شامل ہے ۔"([4])

(۳) مرد کاغیرمحرم عورت کی طرف نظر کرنا۔

مرد کا غیر محرم عوت کو دیکھنے میں نگاہ آلود یا شہوت ابھارنے کی شرط نہیں ہے بلکہ ہر صورت میں دیکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم بعض مواقع پر مواضع زینت کی طرف یہاں تک سر بالوں تک کو بھی دیکھنے کی اجازت ہے۔ اس تفصیل کچھ یوں ہے۔

اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اُس کے لئے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے ۔جیسا کہ امام کاسانی لکھتے ہیں۔" وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلی وجہہا"۔([5])"اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھے" بلکہ ایسی عورت کے چہرہ کی طرف نظرکرنے میں جمہور فقہاء کااتفاق ہے ۔جیسا کہ امام نووی رح (م۶۷۶ھ)مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ "وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا ومذہب مالک وأبی حنیفة وسائر الکوفیین وأحمد وجماہیر العلماء([6]) “اوراس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظرکرنا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا مذہب ہے اورامام مالک رح ،امام ابو حنیفہ رح ، تمام اہلِ کوفہ سمیت جمہور علماء کا ہے ۔ جس طرح بغرض ازدواج نگاہ کرنا جائز ہے اسی طرح طبیب بغرضِ علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتاہے ۔امام رازی لکھتے ہیں۔

یجوز للطبیب الأمین أن ینظر إلیہا للمعالجة([7])"شریف الطبع طبیب کے لئے عورت کی طرف بغرضِ علاج نظر کرنا جائز ہے "۔

گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے ۔علامہ حصکفی لکھتے ہیں ۔

"فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا"۔([8])“پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ،دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔اسی کسی ہنگامی حالات میں مثلا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لئے اس کی طرف دیکھا جاسکتاہے۔امام رازی رح لکھتے ہیں ۔ "لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر إلی بدنہا لیخلصہا"۔([9])“اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے” ۔

اور اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ زلزلہ وسیلاب ،چھتوں کا گرجانا ،آسمانی بجلی کا گرنا ،چوری ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا ۔ اس کے علاوہ کوئی معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خریدوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔امام کاسانی لکھتے ہیں ۔ "لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی الأخذ والعطاء"([10])“اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے”۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کسی نقصان وضرر کے وقت ، یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے۔جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خرید وفروخت کے وقت عورت کا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کو ئی چار ہ کار نہ ہو۔چونکہ عورتیں خرید و فروخت نقاب وحجاب کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں اور یہی بات عصرِ حاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔ اس لئے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید مل جاتی ہے، جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے ۔مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیرکسی حاجت او ر ضرور ت کے غیرمحرم کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے ۔

حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں غیرمحرم عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے۔مگر ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں بلاضرورت غیرمحرم عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ضرور ی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔

یہ بات تو قطعی ہے کہ بد نگاہی معاشرے میں فتنہ برپا کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔اس حکم میں فتنہ سے کیا مراد ہے ۔ علامہ شامی لکھتے ہیں ۔

(قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بہا قاموس أو الشہوة([11]) فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔

علامہ شامی شہوت کو یوں بیان کرتے ہیں۔ "أنہا میل القلب مطلقا([12])"شہوت دل کے مائل ہونے کانام ہے "۔

شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہےوہ یہ کہ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے ۔

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ کسی خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش لڑکے کا) دل کی کیفیات کا متحرک ہونا اور قلبی میلان ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہلاتاہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا۔ " یَا عَلِیُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَکَ الْأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَةُ([13])“اے علی! نظر کی پیروی مت کر۔ اس لئے کہ پہلی نظر تو جائز ہے۔ مگر دوسری نگاہ جائز نہیں”۔ اسی طرح کی ایک اور روایت بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ موجود ہے۔"أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم َأَرْدَفَ الْفَضْلَ فَاسْتَقْبَلَتْہُ جَارِیَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فقَالَ اَبوُہ الْعَبَّاسُ لَوَیْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَیْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّیْطَانَ عَلَیْہِمَا([14])“بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضل کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا آپ کو قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی ملی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضل کی گردن دوسری طرف پھیر دی ۔اس پر ان کے والد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟آپ نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔

یہ تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیرمحرم عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز ہے۔چنانچہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مردوں کے لئے “غض بصر” کاحکم لازمی ہے اوراستثنائی صورتوں کے علاوہ غیرمحرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنامطلقاً حرام ہے۔فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔امام غزالی لکھتے ہیں۔"ومنہم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․ وہو بعید لان الشہوة وخوف الفتنة امر باطن فالضبط بالأنوثة التی ہی من الاسباب الظاہرة أقرب الی المصلحة([15]) “بعض حضرات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کا چہرہ دیکھنے کو جائز قرار دیاہے اور وہ بعید ہے۔اس لئے کہ شہوت اور فتنہ کا خوف باطنی معاملہ ہے، لہٰذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اسباب ظاہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے”۔

اما م غزالی کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظر کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیاجائے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔اس لئے کہ شہوت اورفتنہ کے خوف کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں۔ بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟ کوئی دوسرا فرد نہیں جانتا۔چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کے بجائے اگر یہ ضابطہ بنا یا جائے کہ عورت کی طرف بلاوجہ نظرکرناہی جائز نہیں تو یہ بات زیادہ معقول اور اصلاح معاشرہ کے لئے بہترین بات قرار پائی گی۔ اس لئے اکثر فقاء نے اس علت بغیر بھی جنس مخالف کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیسے کہ مفتی محمد شفیع دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں ۔

“اور غیرمحرم عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا،مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے ۔خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہواور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو لازم کرتاہے اور عام طور پر دل میں میلان پیدا ہوجاتاہے۔ لہٰذاغیرمحرم کی طرف نظر کرنا خود فتنہ کے قائم مقام ہے ۔جس طرح کہ نیند کو خروج ریح کے احتمال کی وجہ سے اس کے قائم مقام کردیا گیاہے۔ اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کاحکم لگادیا جاتاہے خواہ ریح کا خرو ج ہو یا نہ ہو اور اسی طرح خلوت صحیحہ عورت کے ساتھ وطی کے قائم مقام ہے ۔ تمام احکام میں([16]39) علاوہ ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گئی ہو یا نہ پائی گئی ہو” ([17]

یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو۔لیکن اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لئے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا ۔یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف میلان ہوجائے گا۔کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکتے ہوں ،اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے۔امام کاسانی لکھتے ہیں ۔

إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاہرة منہا من غیر شہوة فأما عن شہوة فلا یحل لقولہ علیہ الصلاة والسلام اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ([18]) ولیس زنا العینین إلا النظر عن شہوة ولأن النظر عن شہوة سبب الوقوع فی الحرام فیکون حراما إلا فی حالة الضرورة([19]) “بے شک زینت ظاہرہ کی جگہوں کی طرف نظر اس وقت حلال ہے جب وہ بغیر شہوت کے ہو اور اگر وہ نظر شہوت سے ہو تو پھر حلال نہ ہوگی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “آنکھیں زنا کرتی ہیں”اور آنکھوں کا زناشہوت والی نظرسے ہوتا ہے ۔اور شہوت بھری نظر حرام میں واقع ہونے کاسبب ہے، لہٰذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں ۔

مذکورہ بالا دلائل کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک فتنہ اورشہوت کاخوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہوگا اس لئے کہ عورت کی اصل خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے ۔

امام سرخسی رح لکھتے ہیں۔ولأن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنہا فی وجہہا فخوف الفتنة فی النظر إلی وجہہا أکثر منہ إلی سائر الأعضاء([20]) "اوربے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور عورت کے اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں۔اس لئے دوسرے اعضاء کی طرف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے "۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے۔مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیلاب نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتاجارہاہے اور اس شرط کا فی زمانہ پایا جانا مشکل ہے۔ اس لئے متاخرین علماء حنفیہ نے مطلقاً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیاہے ۔ اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے ۔پس نظر کاحلال ہو نا مقید ہے شہوت نہ ہونے کے ساتھ وگرنہ حرام ہے۔ یہ حکم قدیم فقہاء کے زمانے کا ہےاور جہاں تک ہمارے اس دور کاتعلق ہے،اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظر کرنا ممنوع قرار دیاگیاہے ۔البتہ مجبوری کے پیش نظردیکھنا جائز ہے۔ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لئےنا محرم عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنانا جائز نہیں اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے مامون ہونے کی صورت میں مرد کے لئے عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے، مگر چونکہ اب وہ حالات نہیں رہے ،عریانی اورفحاشی بڑھتی جارہی ہے، اس لئے متاخرین حنفیہ کے نزد یک بلاضرورت مر د کا غیرمحرم عورت کی طرف دیکھناجائز نہیں ہے۔ چنانچہ اب یہ کہا جاسکتاہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے لئے بلا ضرورت نامحرم عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے ۔

حوالہ جات:

  1. القرآن:30/24
  2. مسلم بن حجاج،امام ،الصحیح ) بیروت:داراحیاء التراث العربی ہن ندارد (ج4،ص 1704
  3. المنذری،عبدالعظیم،الترغیب والترھیب (بیروت : دارالکتب العلمیہ،1417ھ )،ج3،ص153
  4. برہان الدین محمود بن احمد،المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی (بیروت: دارلکتب العلمیہ،1424ھ)ج5،ص331
  5. الکاسانی ،علاو الدین ،البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع (بیروت: دارالکتاب العربی،1982 ھ) ،ج5،ص122
  6. النووی ،یحی بن شرف ،شرح صحیح مسلم ،ج9،ص210
  7. رازی،محمد بن عمر بن حسین ،ابو عبداللہ ،تفسیر الفخرالرازی (بیروت : داراحیاء التراث العربی ،1420ھ)،ج23،ص362
  8. حصکفی،الدرالمختار،ج6،ص370،الطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،ج3 ،ص405
  9. تفسیر الفخرالرازی ،ج23،ص362
  10. علاو الدین البدائع والصنائع ، ج5،ص122
  11. ردالمحتارعلی الدرالمختار،(بیروت : دارلفکرللطباعةوالنشر)ج1،ص407
  12. ایضاً ج1،ص406
  13. ابن قدامہ،المغنی، ج7،ص102 ۔ ابن عربی،احکام القرآن،ج3،ص380
  14. الشیرازی،ابو اسحاق ،المھذب ،ج3،ص425 ۔ ابن رشد،البیان والتحصیل،ج18،ص559
  15. الوسیط فی المذھب،ج5،ص32
  16. مفتی صاحب  کا “سائرالاحکام” لکھنا “تسامح”ہے۔ اس لئے کہ خلوت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے۔بلکہ بعض احکا م میں ہے۔
  17. مفتی محمدشفیع دیوبندی ،احکام القرآن،ج3،ص468
  18. ابو بکراحمد بن عمروالبزار،مسند البزارالمنشور باسم البحرالزخار(المدینة المنورة : المکتبة العلوم والحکم،1988 ھ )، ج5، ص 332
  19. البدائع والصنائع ، فی ترتیب الشرائع ج5،ص122
  20. السرخسی ، ،المبسوط،ج10 ،ص 152
  1. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn1
  2. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn2
  3. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn3
  4. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn4
  5. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn5
  6. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn6
  7. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn7
  8. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn8
  9. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn9
  10. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn10
  11. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn11
  12. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn12
  13. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn13
  14. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn14
  15. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn15
  16. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn16
  17. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn17
  18. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn18
  19. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn19
  20. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn20
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...