Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Habibia Islamicus

عہد صحابہ میں شمائلِ نبویﷺکا اسلوب بیان |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029632_973

Pages

1-28

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/8/10

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/8

Subjects

Companions Shaba Seerat-e-Nabawi Prophet Companions Shaba Seerat-e-Nabawi Prophet.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

آنحضرتﷺکےبالارادہ شمائل کا مشاہدہ کرنے والے صغارصحابہ تھےجو اپنی معصومیت اور بھولپن کےساتھ نبی اکرم ﷺکا نظر بھر کا دیدار کر لیتے تھے۔ابو عبداللہ حاکم نے اپنی کتاب علوم الحدیث میں صحابہ کے بارہ طبقات مقرر کئےہیں ان میں سے ہر طبقہ کے لئے مختلف صفات کا لحاظ کیا گیا ہےجیسے سبقت فی الاسلام،ہجرت،غزوات میں حاضری وغیرہ۔امام حاکم نے بارہویں طبقہ کی تشکیل میں اس صفت کو مدنظر رکھا ہے’’وہ چھوٹے بچے اور لڑکے جنہوں نے فتح مکہ کے دن اور حجۃ الوداع وغیرہ دوسرے مواقع میں آنحضرتﷺکو دیکھا ‘‘جیسے سائب بن یزید،عبداللہ بن ثعلبہ،ابو الطفیل،ابوجحیفہ ۔ کبار صحابہ مجلس نبویﷺمیں مارےادب و رعب بمشکل نظر اٹھا پاتے تھے۔

 

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: صحا بۂ کرام مہاجرین وانصار بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور ان میں حضرت ابو بکرؓ اورحضرت عمر ؓ بھی ہوتے۔حضورﷺان کے پاس تشریف لے آتے تو حضرت ابو بکرؓوعمر ؓکے علاوہ اور کوئی بھی حضورﷺکی طرف (عظمت کی وجہ سے) نگاہ نہ اُٹھاتا۔ یہ دونوں حضرات آپ کی طرف دیکھتے اور آپ ان دونوں کی طرف دیکھتے۔ دونوں حضورﷺکو دیکھ کر مسکراتے اورحضورﷺانھیں دیکھ کرمسکراتے (کیوں کہ حضورﷺکو ان دونوں حضرات سے بہت تعلق اور بہت زیادہ مناسبت تھی)۔[1] اسی طرح ایک اورصحابی حضرت براء بن عازبؓ اپنا حال بیان کرتے ہیں:میں کسی چیز کے بارے میں حضورﷺسے پوچھنے کا ارادہ کرتا، لیکن حضورﷺکی ہیبت کی وجہ سے دو سال بغیر پوچھے گزار دیتا۔[2]

 

صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کے ایلچی عروہ نےحضورﷺکے صحابہؓ کابڑےغورسے مشاہدہ کیا وہ کہتے ہیں:اللہ کی قسم! حضورﷺجب بھی تھوکتے تو اسےکوئی نہ کوئی صحابی اپنے ہاتھ میں لے لیتااوراس کو اپنے چہرہ اور جسم پر مَل لیتا، اورحضورﷺجب انھیں کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے تو صحابہؓ اسے فوراً کرتے، اور جب آپ ؐوضو فرماتے تو آپؐ کے وضو کے پانی کو لینے کے لیے صحابہؓ ایک دوسرے پرٹوٹ پڑتے اورلڑنےکےقریب ہوجاتے،اورجب آپؐ گفتگوفرماتےتوصحابہ آپ کے سامنے اپنی آوازیں پست کرلیتے۔ اور صحابہ کے دل میں آپ کی اِتنی عظمت تھی کہ وہ آپ کو نظر بھرکرنہیں دیکھ سکتے تھے۔ چناں چہ عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گئے اور ان سے یہ کہا کہ میں بڑے بڑے بادشاہوں( قیصر، کسریٰ اور نجاشی) کے دربار میں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے ایسا کوئی بادشاہ نہیں دیکھا جس کی تعظیم اس کے درباری اتنی کرتے ہوں جتنی محمدﷺکے صحابہ محمد کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! حضورﷺجب بھی تھوکتے تو اسے کوئی نہ کوئی صحابی اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے چہرہ اور جسم پر مَل لیتا، اور انھیں جس کام کے کرنے کا حکم دیتے اس کام کو وہ فوراً کرتے، اور وہ جب وضو کرتے تو ان کے وضو کا پانی لینے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے اور لڑنے کے قریب ہوجاتے، اور وہ جب گفتگو فرماتے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے یعنی خاموش ہوجاتے، اور تعظیم کی وجہ سے صحابہ آپ کو نظر بھر کر نہ دیکھ سکتے۔ اور انھوں نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے تم اسے قبول کرلو۔[3]

 

ابن شماسہ مہری سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمرو بن عاص کے پا س ان کے آخری وقت میں موجود تھے وہ زار وقطار رو رہے تھے اور دیوار کی طرف اپنا رخ کئے ہوئے تھے ۔ان کے صاحبزادے ان کی تسلی دینے کے لئے کہنے لگے اباجان!کیا نبی کریمﷺ نے آپ کو فلاں بشارت نہیں دی تھی؟ کیا رسول اللہ ﷺنے آپ کو فلاں بشارت نہیں دی تھی؟یعنی آپ کوتو نبی کریم ﷺنے بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے (دیوار کی طرف سے ) اپنا رخ بدلا اور فرمایا سب سے افضل چیز جو ہم نے (آخرت کیلئے) تیار کی ہے وہ اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺاللہ تعالی کے رسول ہیں۔میری زندگی کے تین دور گزرے ہیں ۔ایک دور تو وہ تھا جبکہ رسول اللہ ﷺسے بغض رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اورشخص نہ تھااور جبکہ میری سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ کسی طرح آپ پر میرا قابو چل جائے تو میں آپ کومار ڈالوں۔یہ تو میری زندگی کا سب سے بدتر دور تھا،اگر (خدا نخواستہ) میں اس حال پر مر جاتا تو یقینا دوزخی ہوتا۔اس کے بعد جب اللہ تعالی نے میرے دل میں اسلام کا حق ہونا ڈال دیا تو میں آپ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا اپنا ہاتھ مبارک بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔آپ ﷺنے اپنا ہاتھ مبارک بڑھادیا،میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ ﷺنے فرمایا عمرو یہ کیا؟میں نےعرض کیا میں کچھ شرط لگانا چاہتا ہوں۔فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا یہ کہ میرےسب گناہ معاف ہوجائیں۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:عمرو!کیا تمہیں خبر نہیں کہ اسلام تو کفر کی زندگی کے گناہوں کا تمام قصہ ہی پاک کردیتا ہےاور ہجرت بھی پچھلے تمام گناہ معاف کردیتی ہے اور حج بھی پچھلے سب گناہ ختم کردیتا ہے۔یہ دور وہ تھا جب کہ آپ سے زیادہ پیارا، آپ سے زیادہ بزرگ وبرترمیری نظر میں کوئی اور نہ تھا۔آپ کی عظمت کی وجہ سے میری یہ تاب نہ تھی کہ کبھی آپﷺ کو نظر بھرکردیکھ سکتا،اگر مجھ سے آپ کی صورت مبارک پوچھی جائے تو میں کچھ نہیں بتاسکتا کیونکہ میں نے کبھی پوری طرح آپ کو دیکھا ہی نہیں،کاش اگر میں اس حال پر مرجاتا تو امید ہے کہ جنتی ہوتا۔پھر ہم کچھ چیزوں کے متولی اور ذمہ دار بنے اور نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا حال ان چیزوں میں کیا رہا(یہ میری زندگی کا تیسرا دور تھا)اچھا دیکھو جب میری وفات ہوجائے تو میرے (جنازے کے )ساتھ کوئی واویلا اور شور وشغب کرنے والی عورت نہ جانے پائے نہ( زمانہ جاہلیت کی طرح) آگ میرے جنازے کے ساتھ ہو۔جب مجھے دفن کرچکو تو میری قبر پر اچھی طرح مٹی ڈالنا اور جب (فارغ ہوجاؤ)تو میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹہرنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہاری وجہ سے میرا دل لگارہےاور مجھے معلوم ہوجائے کہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے سوالات کے جوابات کیا دیتا ہوں۔[4]

 

بلکہ آپﷺکا ادب اتنا پیش نظر تھاکہ بعض محتاط صحابہ محب صادق ہونے کے باوجود آپﷺکی مجلس کے مستقل حاضر باش نہ تھے کہ سوئے ادب کا پہلو ان سے سرزد نہ ہوجائے۔حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺنے حضرت ثابت بن قیسؓ کو چند دن نہ دیکھا تو ان کے بارے میں دریافت فرمایا (کہ وہ کہاں ہیں؟) تو ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ابھی اس کا پتا کر کے آ تا ہوں۔ چناں چہ وہ صحابی حضرت ثابت کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا: بڑا برا حال ہے، کیوں کہ مجھے اونچی آواز سے بولنے کی عادت ہے اور میری آواز حضورﷺکی آواز سے اونچی ہو جاتی تھی۔ (اور اب اس بارے میں قرآن کی آیات نازل ہو چکی ہیں جن کے مطابق) میرے پہلے تمام اعمال برباد ہو چکے ہیں اور میں دوزخ والوں میں سے ہوگیا ہوں۔ ان صحابی نے حاضرِ خدمت ہو کر حضورﷺکو بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں۔راوی کہتے ہیں: حضور ﷺنے ان صحابی سے فرمایا: جاکر حضرت ثابت سے کہہ دو کہ تم جہنم والوں میں سے نہیں ہو بلکہ جنت والوں میں سے ہو۔ چناں چہ انھوں نے جا کر حضرت ثابت کو یہ زبردست بشارت سنائی۔[5]

 

البتہ آنحضرتﷺکی رفاقت میں سالہا سال کی مصاحبت میں رہتے ہوئے تمام صحابہ آپﷺکے دیدار جمال سےگاہے بگاہے شرف اندوز ہوتے رہتے تھے،آپ سے اخذ کردہ علم کو کما ل حفظ و ضبط کے ساتھ محفوظ کرتے تھےاور ان تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے آنحضرتﷺکے شمائل وجمال کے تذکرہ کے آمیزش سے سامعین کوبہرہ مند کرتےتھے۔شمائل نبوی ﷺکے بیان کا یہ اسلوب سادہ اور جداگانہ ہے۔ ان چند صفحات میں فخر موجوداتﷺکے دامن فیض سے وابستہ اصحاب کی روا ئداد ہے کہ عاشقان رسالت ماب کی جماعت نے زندگی کے ہر سردوگرم ،صبح وشام، روزوشب ،جنگ وامن،مسجد وگھر میں بشمول مردوعورت ،بچہ وبوڑھا آنحضرتﷺکی ذات اقدس کو پیش نظر رکھا،آپ کے ایک ایک حرف کو بغور سنا،اپنے حبیب کے ان ارشادات کو حرز جاں بنایا،آپ کے ایک ایک جسمانی وصف اور خدوخال کو اپنے مشاہدہ میں رکھا حتی کی آپ کی آنکھوں کی جنبش ،ماتھے کی شکنیں ،انگلیوں کے کھولنے بند کرنے ،آپ کی انفرادی وشخصی امتیازات کی باریک سی باریک جھلک کو یاد رکھا اور بعد میں آنے والوں کو آگاہ کیا۔

 

شمائل کے یہ متنوع اجزاء کتب حدیث وسیرت میں واقعات کے پیرائے میں متفرق طور پرمنتشر ہیں،مگر زمرہ شما ئل میں شمار نہ کئے جانے کے باعث علمی حلقوں میں بھی یہ ضخیم حصہ نظروں سے اوجھل ہے،چناچہ سیرت نبویؐ کا مطالعہ کرنے والا ان اجزاء کو بطور شمائل اخذ نہیں کر پاتا ۔شمائل کی ابتدائی کتابوں میں شمائل کے مخصوص و محدود اجزاء آئے ہیں جبکہ شمائل کے یہ سادہ اجزاء ان کتابوں میں شامل نہیں ہوپائے۔ضرورت تھی کہ کتب حدیث ،سیرت ، طبقات کا اس نقطہ نظر سے مطالعہ کرکے شما ئل کے ان قیمتی اجزاء کی بازیافت ونشاندہی کی جائے تاکہ بطور شمائل ان کی تدوین ہوسکے اور شمائل کے تمام چھوٹے بڑے پہلووں کا احاطہ کیا جائے۔اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے راقم نے کتب سیرت ، حدیث وطبقات کی ورق گردانی میں جابجا موجود آپﷺکے شمائل جمع کرنے کی سعی کی ہے۔ شمائل کی مختلف کیفیات وانداز پرمشتمل یہ حصہ ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

 

مجلس نبویﷺمیں شمائل کا تذکرہ

آنحضرتﷺکی ہزاروں آدمیوں نے زیارت کی اور اسلام قبول کیا۔جب انہوں نے دوسروں سے اپنے اسلام لانے اوراپنا آنکھوں دیکھا آنحضرتﷺکے اوصاف وجسمانی احوال بیان کئے تو وہ آنحضرتﷺکی عدم موجودگی میں ذکر کرتے تھے کیونکہ کسی کے اوصاف کوئی بیان کرتا ہے تو ہمیشہ غائبانہ ہوتا ہے،مگر بعض اوقات آنحضرت ﷺکی موجودگی میں صحابہ آپ ﷺ کے شمائل کا تذکرہ کرکے اپنے تاثرات کا اظہارکردیا کرتے تھے جیسے آپﷺکے سر اور داڑھی میں سفید بالوں کے نمودار ہونے پرکئی صحابہ دل گرفتہ ہوئےاور آٓپﷺسے اس کا ذکر کیا۔ایک مرتبہ کچھ صحابہ نے آنحضرت ﷺسے عرض کیا :آپ پربڑھاپا بہت جلدآگیا،فرمایا :ہاں مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا۔[6] حضرت ابوبکرؓ نے کہا :یا رسول اللہﷺمیں دیکھتا ہوں کہ آپؐ بوڑھے ہو گئے ہیں تو ان کو فرمایا :مجھے تو سورہ ہود ،واقعۃ ،مرسلات، عم یتسالون اور سورہ تکویر نے بوڑھا کردیا۔[7]

 

آپﷺناز ونعمت میں نہیں رہتے تھےکہ آپ کے گھر میں ریشمی بستر اور گدے ہوں ،کبھی چمڑے کا بستر،کبھی بوریا اور بان کی چارپائی پر آرام فرمالیا کرتے تھے۔[8] جس کے کھردرے پن اور سختی کی وجہ سے بدن مبارک پر نشان پڑجاتے تھے ،خوبصورت بدن پر نشانات صاف نظر آیا ہی کرتے ہیں۔صحابہ آپ کی اس مشقت پر روتے تو آپ ﷺان کو تسلی دیتے اور آخرت کی نعمتوں پر ان کو راضی رکھتے اور یقین دلاتے کہ آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہت بہتر ہے۔ایک مرتبہ آ نحضرتﷺکی انگلی میں کھجور کا کانٹا لگ گیا انگلی سے خون نکل آیا آپ ﷺکو چارپائی پر لٹایا گیاجو کھجور کی چھا ل کی رسی سے بٹی ہوئی تھی،حضرت عمرؓ آئےاوردیکھا کہ پہلو میں رسی کے نشان پڑگئے ہیں رونے لگے ۔آنحضرتﷺنے رونے کی وجہ پوچھی عرض کیا:یا رسول اللہﷺمجھے قیصر وکسری یاد آگئےجو سونے چاندی کےتختوں پر بیٹھتے ہیں اور سندس واستبرق کا ریشمی لباس پہنتے ہیں۔آنحضرتﷺنے فرمایا:کیا تم لوگ اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہارےلئے آخرت ہواوران کےلئےدنیا۔ [9]

 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓاپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺایک بوریئے پر لیٹے تھے بدن مبارک پر بوریئے کے کھردرے پن سے نشان پڑگیا،جب آپﷺبیدار ہوئےتو میں آپ ؐکے جسم اطہر کو سہلانے لگا اور میں نے کہا یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس پر کوئی چیز بچھا دیا کریں جو آپﷺکو بوریئے سے بچائے۔آنحضرتﷺنے فرمایا :مجھے دنیا سے کیا غرض ،میں اور دنیا محض اس طرح ہیں جیسے ایک سوار کہ ایک درخت کے سایہ میں آیا اور پھر اسے چھوڑ کر چلاگیا۔[10]

 

مساجد میں شمائل کے تذکرے

عہد صحابہ و تابعین میں باقاعدہ مدارس کاقیام نہ تھا،اسلام کے ابتدائی عہد میں مساجد قرآن وحدیث کے تذکروں سے معمور تھیں۔دینی تعلیم کی مجلسیں اورعلمی حلقات مسجدوں میں منعقد ہواکر تی تھیں اور ایک ایک مسجد میں کئی کئی حلقے لگتے تھے،بعض حضرات اپنے مکانوں پر بھی تعلیم دیتے تھے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو خاص طور سے لکھا تھا کہ تم اہل علم کو حکم دو وہ پھر سے مساجد میں علم کی اشاعت کریں۔ مساجد میں قائم صحابہ کے دینی درس ومذاکرہ کا حلقہ شمائل النبیﷺپر بھی مشتمل ہوتا تھا۔ ایک انصاری کہتے ہیں میں نے حضرت علی ؓبن ابی طالب کو کوفہ کی مسجد میں اپنے حلقہ درس میں آنحضرتﷺکی صفات وشمائل کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ آنحضرتﷺسرخی مائل گورا رنگ لئے ہوئے تھے،آپ کی آنکھیں نہایت خوبصورت سیاہ تھیں ،بال سیدھے(بغیر گھونگر کے)تھے،داڑھی خوب گھنی تھی ،رخسار بھرا ہوا نہیں تھا ،بال کانوں تک تھے(یعنی پٹے تھے)،سینہ پیٹ کے بال باریک تھے،گردن چاندی کا لوٹا معلوم ہوتی تھی ،سینہ سے ناف تک شاخ کی طرح بال تھے،سینہ وشکم میں اس کے سوا کوئی بال نہ تھا، ہتھیلی بھری ہوئی تھی،جب چلتے تھے اس انداز سے گویا نشیب میں اتر رہے ہیں ،جب مڑتے تھے پورا مڑتے تھے(یعنی صرف گردن پھیر کر نہیں دیکھتے تھے)،آپ کے چہرے کا پسینہ موتی معلوم ہوتا تھا،پسینہ کی خوشبو تیز خوشبو والی مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ تھی،چھوٹا قد تھا نہ بلند وبالا،نہ کسی کام میں عاجز تھے اور نہ بد خلق۔خلاصہ یہ کہ میں نے آپ کامثل نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ ؐکے بعد۔[11]

 

ازواجِ مطہرات کی جانب سے شمائل کا تذکرہ

 

ازواجِ مطہرات آنحضرتﷺکے علوم اور روایات کا ایک بڑا ماخذ ہیں۔ان سے بھی آنحضرتﷺکے شمائل کے بارے میں مختلف معلومات امت کو حاصل ہوئیں۔تابعین کی ایک جماعت زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہؓ کے پاس گئی تاکہ آنحضرتﷺ کے بارے میں کچھ سنیں،وہ ایک تھیلی لے کر آ ئیں جس میں آنحضرتﷺکے کچھ بال تھے جو انہوں نے سنبھال کر رکھے تھے،وہ بال مہندی اور نیل کے خضاب سے سرخ تھے۔[12]

 

کسی کو نظربد لگتی یا کوئی بیمار ہوتاتوپانی میں یہ موئے مبارک ڈال دیئے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتےاور شفاء حاصل کرتے۔حضرت عائشہؓ کا کہنا ہے :جب اللہ کے رسول ﷺدو لمبے آدمیوں میں ہوتے تو آپﷺان دونوں سے اونچے دکھائی دیتے اور جب وہ دونوں لمبے آدمی آ پﷺسے جدا ہوتےتو آنحضرتﷺدرمیانے قد کے معلوم ہوتےتھے۔[13]

 

عورتوں میں شمائل کے تذکرے

آنحضرت ﷺنے اپنے عہد کی خواتین کو تحصیل علم اور اشاعت علم کی ذمہ داریوں سے آگاہ کردیا تھا، چنانچہ صحابہ کرام کے ساتھ صحابیات بھی معاشرہ میں علم وعمل کی شمع روشن رکھنے میں اپنا کردار بحسن وخوبی انجام دیتی تھیں۔عہد رسالت ؐکے مردوں کی طرح صحابیات نے حصول علم واشاعت میں بھر پور حصہ لیا،مردوں کی طرح عورتیں بھی شمائل کے مذاکرے اور بحث وتحقیق کرتی تھیں اور آنحضرت ﷺکے وصال کے بعد شمائل کے بارے میں اپنے واقعات اور مشاہدوں سے بعد والوں کو آگاہ کیا۔

 

حضرت ام ہانی کہتی ہیں فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرتﷺکو میں نے دیکھا کہ آپﷺکے بالوں کی چار چوٹیاں )ضفائر)تھیں ۔[14]یہ وہی گیسو ہیں جن کوسفر مکہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر حضرت ام سلمہؓ نے گوندھا تھا اور آپ ﷺنے ان کو فتح مکہ وقیام مکہ میں نہیں کھولا اور جب حنین کی طرف کوچ کا ارادہ کیاتو ان کو کھولا اور حضرت ام سلمہؓ ہی نے ان کو بیری کے پانی سے دھویا۔[15] ام بلال کہتی ہیں میں نے جب کبھی آنحضرتﷺکا پیٹ مبارک دیکھا تو (اس کی ملائمت کی وجہ سے)مجھے تہہ کئے ہوئے کاغذ یاد آگئے جو ایک دوسرے پر جمے ہوئے ہوتے ہیں۔[16]

 

ہمدان شہر کی رہنے والی ایک صحابیہ کہتی ہیںکہ میں نے آنحضرتﷺکے ہمراہ حج کیا۔میں نے دیکھا کہ آپﷺہاتھ میں چھڑی لئے اونٹ پر سوار بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں ۔راوی ابو اسحاق ہمدانی نے ان صحابیہ سے آنحضرتﷺکے رخ انور کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺکا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح پر نور تھا۔میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ ﷺجیسا کوئی نہیں دیکھا۔[17]

 

ایک تابعی ابو عبیدہ بن محمد بن عمار نے حضرت ربیع بنت معوذ سے درخواست کی کہ نبی اکرمﷺکا حلیہ مبارک بتائیں۔ انہوں نے فرمایا:اگر تم نبی اکرم ﷺکو دیکھتے تو یوں لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے سورج کو دیکھ لیاہے۔[18]

 

بچوں میں شمائل کا تذکرہ

 

اسلام نے آغاز وحی سےعلمی ذوق کو ایسا عروج بخشا تھاکہ اس پر مرد وعورت،آزاد وغلام ،بڑے و بچےسب مر مٹے،حصول علم پر اتنا زور دیا گیاکہ طلب علم ہر ایمان والے کی بنیادی صفت بن گئی اور علم کی محبت اور اس کی حصول کی خواہش رگ وریشےمیں پیوست ہوگئی۔ایسےعلم دوست اور مسابقت کے ماحول میں وہ بچے کہاں پیچھے رہنے والے تھےجو جان دینے کے لئے بھی پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنے آپ کو منتخب کرایا کرتے تھے۔

 

ابو زید ؓعمرو بن اخطب انصاری کہتے ہیں مجھ سے آنحضرت ﷺنے فرمایا :اے ابو زید! قریب آؤ اور میری پیٹھ ملو،میں قریب گیا اور آپ کی کمر مبارک پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا پھر میں نے اپنی انگلیاں مہر نبوت پر رکھیں اور انہیں چھوا تو وہ چندبال تھے جو شانوں کے پاس اکٹھا ہوگئے تھے۔[19]

 

ابو جحیفہؓ کہتے ہیں میں نے آنحضرتﷺکو عمر کے ایسے حصےمیں دیکھا کہ آپ کے ہونٹوں کے نیچے والا حصہ سفید ہوگیا تھا، ان سے پو چھا گیا آپ اس زما نے میں کیا کرتے تھے۔[20] انہو ں نے کہا میں(اپنی اس نو عمری کے زمانے میں شغل کے طور پر) تیر کی لکڑی بناتا تھا اور اس میں پر لگاتا تھا۔[21]

 

حضرت جابر بن سمرہ ؓروایت کرتے ہیں میں نے مدینہ منورہ میں آنحضرتﷺکے ساتھ ظہر پڑھی پھر آپ اپنے اہل خانہ کے ہاں تشریف لے گئے،میں بھی آپ کے ساتھ ہولیا،راستے بھرآپ ﷺکمال شفقت اور پیار سے ایک ایک بچے کا رخسار تھپتھپاتے،چونکہ میں بھی بچہ تھا آپ نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا آپ ﷺنے ابھی ابھی عطار کے عطر دان سے ہاتھ نکالا ہے۔[22]

 

حضرت ابو جحیفہؓ(جو صغار صحابہ میں ہیں)فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺوادی بطحا میں تھے،لوگ تبرک کے طور پر آپ ﷺکے ہاتھ مبارک پکڑتے اور انہیں اپنے چہروں سے لگاتے،میں نے بھی آپﷺکا ہاتھ اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔[23]

 

والدین کا اولاد کو شمائل کی تعلیم دینا

 

صحابہ اپنی اولاد کو آنحضرتﷺکے صفات وشمائل کی باقاعدہ تعلیم دے کر ان کو یاد کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔شمائل کے تذکرے موقع بہ موقع بیان کرکے اس کو اجرو ثواب کا باعث سمجھتے تھے۔حضرت معاویہ بن قرۃ کو ان کے والد نے بتایا، قبیلہ مزینہ کے ساتھ وہ آنحضرت ﷺکے پاس قبول اسلام اور بیعت ہونے کےلئے حاضر خدمت ہوئے،آپﷺکا گریبان کھلا ہوا تھامیں نے اپنا ہاتھ کرتے کے گریبان میں ڈالا اور مہر نبوت کو ہاتھ لگایا۔[24] حضرت عروہ راوی کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ (حضرت قُرّہؓ کے صاحب زادے) حضرت معاویہؓ کی اور حضرت معاویہؓ کے بیٹے کی گھنڈیاں گر می سردی ہر موسم میں ہمیشہ کھلی رہا کرتی تھیں۔[25]

 

عبید اللہ بن عبداللہ بن اقرم خزاعی کہتے ہیں میرے والد عبداللہؓ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے والد اقرم خزاعی کے ساتھ ایک میدانی علاقے عزہ میں تھے ۔ہما رے پاس سے آنحضرت ﷺکا قافلہ گزرا ،اس قافلہ نے راستہ کے ایک جانب پڑاو ڈالا،ہم ان کے پاس گئے تو نماز شروع ہوچکی تھی،اس نماز میں ہم بھی شامل ہوئے،وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے( جب آنحضرتﷺسجدہ کرتے تھےاورآپ ؐکے بازو پہلووں سے ایسے جدا ہوتے تھے)کہ میں آپ ؐکی بغلوں کے اندورنی حصوں کو دیکھ رہا ہوں۔[26]

 

عامر بن سعد کہتے ہیں میرے والد سعد بن ابی وقاص نے فرمایاکہ آنحضرتﷺغزوہ خندق کے دن اتنے ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔بیٹے نے پوچھاکہ کس بات پر ہنسے تھے؟حضرت سعد نے کہا:ایک کا فر ڈھال لئے ہوئے تھا اور میں بڑا ماہر تیر انداز تھا،لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر ادھر کرلیتاتھاجس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاو کر لیتاتھا۔(گویا مقابلہ میں حضرت سعد کا تیر لگنے نہ دیتا تھا حالاں کہ یہ مشہو رتیر انداز تھے)میں نے ایک مرتبہ تیر نکالا(اور اس کو کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہا)جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا ،فورا ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے نہیں چوکا اور وہ گر گیا،اس کی ٹانگ بھی اوپر کو اٹھ گئی۔اس پر آنحضرتﷺاتنا ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔راوی کہتے ہیں:میں نے عامر بن سعد سے پوچھا، اس میں کون سی بات پرحضورﷺہنسے؟ انھوں نے کہا:سعد نے اس آدمی کے ساتھ جو ہوشیاری سے معاملہ کیا،اس پر۔[27]

 

ابو قرصافہ بتاتے ہیں میں نے اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ آنحضرتﷺسے بیعت کا شرف حاصل کیا،واپسی پر میری والدہ نے مجھ سے کہا:

 

یا بنی ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منہ وجھا ولا اتقی ثوبا ولا الین کلاما وراینا کان النور یخرج من فیہ۔[28]

 

’’اے میرے نور چشم ،ہم نے آپﷺسے زیادہ خوبرو،آپ ؐسے زیادہ پاکیزہ لباس والااور آپ ؐ سے زیادہ خوش لسان کوئی آدمی نہیں دیکھا،اور( جب آپ گفتگو فرماتے )تو یوں محسوس ہورہا تھا گویا منہ مبارک سے نور نکل رہا ہے۔‘‘

 

شوہر اور بیوی کے درمیان شمائل نبویﷺکا تذکرہ

 

ہجرت کے سفر میں آنحضرتﷺحضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور اس قافلہ کے رہبرعبد اللہ بن اریقط اللیثی ایک خاتون ام معبد خزاعیہ[29] کے خیمہ پر گزرے ،وہ ایک دلیراورقوی خاتون تھیں جو ایک میدان میں اپنے شوہر اور مال مویشیوں کے ساتھ خیمہ گاڑھ کر اس جانب گزرنے والوں کو کھلاتی پلاتی تھیں۔جب یہ قافلہ ان کے پاس پہنچاتو اس قافلہ کا زاد راہ ختم ہوچکا تھا۔ان حضرات نے ان سے پوچھا:محترمہ کیا آپ کے پاس دودھ یا گوشت ہے جو ہم آپ سے خرید لیں؟اس عورت نے کہا:بخدا میرے پاس اگر کچھ دستیاب ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی سے مجھے ہرگز تنگی نہ ہوتی۔آنحضرتﷺنے دیکھا کہ خیمہ کے گوشے میں ایک بکری بندھی ہوئی ہے۔آنحضرتﷺنے پوچھا:یہ بکری جو ہے،اس کا کچھ دودھ ہے؟

 

ام معبد:بکری تو ہے لیکن اس میں دودھ کہاں جو آپ کو پیش کروں؟یہ تو اپنی لاغری کی بناء پر ریوڑ سے رہ گئی ہے(اوران کے شوہرابو معبد دیگربکریاں لے کر چرانے کے لئے گئے تھے)۔آنحضرتﷺنے فرمایا:اجازت ہو تو اسے دوہ لوں؟ام معبد :میرے ماں باپ پر آپ پر قربان،اگر آپ کو اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضروردودھ دوہ لیں۔آپ ﷺنے اس خیمہ میں موجود وہ برتن مانگا جو پوری قوم کو سیراب کردے اور بکری کے تھن پر اللہ کا نام لے کر ہاتھ پھیرا اور اسے دوہنا شروع کیا،یہاں تک کہ اس بکری نے اس کثرت سے دودھ دیا کہ جھاگ اس برتن کے اوپر آگیا۔آپ نے اپنے رفقاء کو سب سےپہلے پلایااور آخر میں خود نوش فرمایا،ایک بار پینے کے بعد سب نے دوبارہ پیا اور سیر ہوگئے۔پھر ام معبد کے گھروالوں کے لئے بھی دودھ کا بھرا برتن چھوڑا اور آنحضرتﷺ سوئے منزل روانہ ہوگئے۔

 

جب ابو معبد اپنی بکریاں ہنکاتے ہوئے گھر لوٹے تو ام معبد نے یہ سارا قصہ سنایاکہ میرے پاس ایک بابرکت بزرگ گزرے جن کی یہ ساری باتیں ہیں۔خاوند نے زوجہ سے کہا :اچھا ذرا ان کی کیفیت تو بیان کرو۔اس پر ام معبد نے نہایت دلکش انداز میں صاحب جمال کے رنگ وروپ کا ایسا نقشہ کھینچا گویا سننے والا آپ ﷺکو اپنے سامنے موجود محسوس کررہاہو۔ ام معبد کہنے لگیں:

 

رایت رجلا ظاھر الوضاۃ ،متبلج الوجہ،حسن الخلق،لم تعبہ ثجلۃولم تزر بہ صعلۃ،وسیم قسیم،فی عینیہ دعج،وفی اشفارہ وطف،وفی صوتہ صحل،احور اکحل ازج اقرن،شدید سواد الشعر،فی عنقہ سطع،وفی لحیتہ کثافۃ،اذا صمت فعلیہ الوقار،واذا تکلم سماو علاہ البھاء وکان منطقہ خرزات نظم یتحدرن،حلو المنطق،فصل،لانزر ولا ھذر،اجھر الناس واجملہ من بعید،ولحلاہ واحسنہ من قریب ،ربعۃ لا تشنوۃ من طول ولا تقتحمہ عین من قصر،غصن بین غصنین،فھو انضر الثلاثۃ منظرا،واحسنھم قدرا،لہ رفقاء یحفون بہ،اذاقال استمعوا لقولہ،واذاامر تبادروا الی امرہ، محفود محشود،لا عابث ولا مفند۔

 

’’چمکتا ہوا رنگ،تابناک چہرہ،خوبصرت ساخت،نہ توند بڑھی ہوئی نہ سر بالوں سے خالی،حسن وجمال سے ڈھلا ہوا پیکر،سرمگیں آنکھیں،لمبی پلکیں،بھاری آواز ،لمبی گردن،ریش گھنی ،سفید وسیاہ آنکھیں،سیاہ سرمگیں پلکیں ،باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو،چمکدار سیاہ بال،خامشی میں وقار ،گفتگو میں کشش،دور سے دیکھیں تو مجسم حسن وجمال،قریب سے دیکھیں تو خوبصورت وشیریں،کلام مین لذت ،بات دوٹوک اور واضح،نہ مختصر نہ فضول،گفتگو کا انداز ایساکہ موتی جھڑ رہے ہوں،درمیانہ قد نہ ٹھگناکہ نظر میں نہ جچے اور نہ لمبا کہ ناگواری کا احساس ہو،دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ترو تازہ جو جاذب نظر ہو،ان کے رفقاء ان کے گرد حلقہ باندھے ہوئے کھڑے رہتے ہیں کہ جو ارشاد فرمائیں اسے توجہ سے سنیں اور اگر حکم کریں تو بجا آوری ہو،مطاع ومکرم،نہ ترش رواور نہ فحش گو۔‘‘

 

آنحضرتﷺکے محاسن سنتے ہی ابو معبد بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں :اللہ کی قسم ،یہ تو وہی قریشی نبی ہیں جس کی زمانہ کوایک مدت سے تلاش وجستجو تھی اور قریش مکہ ان کی جان کے درپے ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ آپ کی رفاقت اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا۔اس واقعہ کے کچھ روز بعد ہی ابو معبد اور ام معبد دونوں آنحضرت ؐکی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوگئے ۔ام معبد عام الرمادہ تک زندہ رہیں ،اس بکری کا(جس کا ذکر اس قصہ میں آیاہے)صبح وشام دودھ دھویا جاتا تھا مگر کم نہیں ہوتا تھا۔[30]

 

بوڑھوں کی جانب سے شمائل کا تذکرہ

 

ایک عمر رسیدہ شخص آنحضرت ٓﷺکی مجلس میں آئےاور آپ کی دیدار سے مشرف ہوجانے کے بعد عرض کیا :اے اللہ کےرسول ؐمیں آپ سے بڑا ہوں اور آپ مجھ سے بہتر وافضل ہیں (پھر آپ مجھ سے پہلے کیوں بوڑھے ہوگئے) آپ نے فرمایا،سورہ ہود اور اس کی ساتھ کی سورتوں ،اور ان واقعات (جو مجھ سے پہلے امتوں کے ساتھ کئے گئے )نے مجھے بوڑھا کردیا۔[31]

 

ابن سعد نے بنو کنانہ کے ایک بوڑھے شخص کی روایت نقل کی ہے میں نے مکی دو ر میں آنحضرتﷺ کو ذوالمجاز کے بازار میں پیدل جاتے ہوئے دیکھا ،آپ کے بال گھونگر والے،سر اور ڈاڑھی کے بال سیاہ تھے۔

 

رشتہ داروں سے شمائل کی تعلیم حاصل کرنا

حسن بن علی اپنے بارے میں بتاتے ہیں میں اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ التمیمی کے ساتھ چپکا رہتا تھا کیونکہ وہ وصاف عن حلیۃ رسول اللہ ﷺکے نا م سے معروف تھے وہ رسول اللہ ﷺکا حلیہ بیان کر تے تھے۔میں چاہتاتھا وہ مجھے بھی خاص طور سے آپ ؐکے شمائل وحلیہ کے بارے میں آگاہ کریں (تاکہ میں ان کے بیان کو اپنے لئے حجت اور سند بناوں)بالاخر انہوں نے آنحضرت ﷺکے حلیہ مبارک کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا،یہ ایک طویل حدیث ہے جس کو امام ترمذی نے بھی اپنی جامع میں نقل کیا ہے۔[32]

 

بھائیوںمیں شمائل کی تعلیم میں سبقت

کمسن صحابہ جن کو آنحضرتﷺکےشما ئل وحلیہ کو اچھی طرح ضبط کر نے کا موقعہ نہیں ملاوہ آپس میں بڑھ چڑھ کر کبا ر صحابہ ؓسے شمائل کی تعلیم کو اخذ کرتے تھے۔حضرت حسن بن علی کہتے ہیں میں نے ایک لمبے عرصے تک اپنے بھائی حسین بن علی سے اس بات کو پوشیدہ رکھا کہ میں ماموں جان حضرت ہند بن ابی ہالہ سےآنحضرتﷺکی شمائل کی تعلیم حاصل کرچکا ہوںاور جب میں نے حسین کو اس بارے میں بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی ہند بن ابی ہالہ سے شمائل النبیؐ کی ساری معلومات اخذ کرچکے ہیں اور ابا جان حضرت علی ؓسے بھی آنحضرت ﷺکی آمد ورفت ،نشست وبرخاست اور صفات وکیفیات کے بارے میں بھی پوچھ چکے ہیں۔[33]

 

تابعی کا صحابی کےساتھ شمائل کا مذاکرہ

حضرت ابو ہریرہؓ کے بارے میں منقو ل ہے وہ جب کسی تابعی سے ملتے تو اسے از خود آنحضرتﷺکے شمائل بتاتےاور سیرت مطہرہ کے بیان سے ایمان ومحبت کو تازگی بخشتے:

 

ان اباھریرۃ کان اذا رای احدا من الاعراب او احدا لم یر النبیﷺ قال،الااصف لکم النبیﷺ ،کان شثن القدمین،ھدب العنین،ابیض الکشحین،یقبل معا ویدبر معا فداہ ابی وامی ،مارایت مثلہ قبلہ ولا بعدہ۔[34]

 

’’سیدنا ابو ہریرہؓ جب کسی ایک شخص سے ملتے جس نےآنحضرتﷺکا دیدار نہیں کیا ہوتا تو اس سے کہتے کہ میں تجھے رسول اللہﷺ کےشمائل بتاتا ہوں۔آپ کے قدم مبارک بھرے ہوئے،آپ توجہ فرماتے تو پورے بدن کے ساتھ توجہ فرماتے (صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتےتھے)پلکیں دراز،بغلیں سفید تھیں ،میرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے آنحضرتﷺسے زیادہ خوبصورت کوئی شخص نہیں دیکھا۔‘‘

 

ایک تابعی یزید فارسی نے آنحضرتﷺکو خواب میں دیکھااور اس خواب کا تذکرہ حضرت ابن عباس ؓسے کیا تو انہوں نے پہلے نبی اکرمﷺکا ارشاد گرامی سنایا کہ جو مجھے خواب میں دیکھتا ہے وہ حقیقت میں مجھ ہی کو دیکھتا ہے اس لئے کہ شیطان میری صورت نہیں بناسکتا۔یہ فرمان مبارک سنانے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ خواب میں دیکھی ہوئی صورت کا حلیہ بیان کرسکتے ہو،یزید فارسی نے عرض کیا جی ہاں!آنحضرتﷺکا ڈیل ڈول ،قد وقامت دونوں معتدل اور درمیانی تھی(جسم مبارک نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا،ایسے ہی قد مبارک نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل،آنکھیں سرمگیں،خندہ دہن ،خوبصورت ماہتابی چہرہ،داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔حضرت ابن عباسؓ نے ان سے کہاکہ اگر تم آنحضرتﷺکو حالت بیداری میں دیکھتے تو اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ آپؐ کا حلیہ مبارک نہ بیان کر سکتے(یعنی ان کے بحالت خواب دیکھے ہوئے حلیہ کی تصویب فرمائی)۔[35]

 

صحابی کا دوسرے صحابہ کے سا تھ شمائل کا تذکرہ

 

حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے اپنا یہ قصہ سنایا اور فرمایا: میں ایک مرتبہ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ چٹا ئی پر تشریف فرما تھے۔ میں اندر جا کر بیٹھ گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ نے صرف لنگی باندھی ہوئی ہے اور اس کے علا وہ جسم پر اور کوئی کپڑا نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ کے جسم ِ اطہر پر چٹائی کے نشانات پڑے ہوئے ہیں اور مٹھی بھر ایک صاع (ساڑھے تین سیر) جَو اور کیکر کے پتے (جو کھال رنگنے کے کام آتے ہیں) ایک کونے میں پڑے ہوئے ہیں، اور ایک بغیر رنگی ہوئی کھال لٹکی ہوئی ہے۔ (اتنا کم سامان دیکھ کر) میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ حضورﷺنے مجھ سے فرمایا: کیوں روتے ہو اے ابن الخطّاب؟! میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ چٹائی کے نشانات آپ کے جسم ِ اَطہر پر پڑے ہوئے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو مجھے نظر آرہی ہے۔ ادھر کسریٰ اورقیصر تو پھلوں اور نہروں (دنیا کی فراوانی) میں ہوں اور آپ اللہ کے نبی اور برگزیدہ بندے ہو کر آپ کی یہ حالت۔ آپ نے فرما یا: اے ابن الخطّاب! کیا تم اس با ت پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے آخرت ہو اور ان کے لیے دنیا۔

 

اور حاکم نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: میں اجازت لے کر حضورﷺکی خدمت میں بالا خانے میں حا ضر ہو ا تو دیکھا کہ آپ ایک بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، اور آپ کے جسم مبارک کا کچھ حصہ مٹی پر ہے، اور آپ کے سرہانے ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے، اور آ پ کے سرہانے ایک بغیر رنگی ہوئی کھال لٹکی ہوئی ہے، اور ایک کونے میں کیکر کے پتّے پڑے ہوئے ہیں۔ چناں چہ میں حضورﷺکو سلام کر کے بیٹھ گیا اور میں نے عرض کیا: آپ اللہ کے نبی اور اس کے خاص بندے (اور آپ کا یہ حال؟) اور کسریٰ اور قیصر سونے کے تختوں پر اور ریشم ودیباج کے بچھو نوں پر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ان لوگوں کو طیّبات اور اچھی چیزیں دنیا میں جلدی دے دی گئی ہیں اور یہ دنیا جلد ختم ہو جانے والی ہے، اور ہمیں بعد میں آخرت میں طیّبات اور اچھی چیزیں دی جائیں گی۔[36]

 

غیر مسلمو ں میں شمائل کا تذکرہ

حضرت علیؓ اپنے بارے میں بتاتے ہیں مجھ کو آنحضرتﷺنے دعوت وتبلیغ کی غرض سے یمن بھیجا ،میں ایک دن یمن کے لوگو ں کو وعظ کر رہا تھا اس مجمع میں میں نےیہود کے ایک عالم کو کھڑے دیکھا اسکے ہاتھ میں ایک صحیفہ تھاجسے وہ دیکھتا چلا جارہا تھا۔اس نے مجھے پکارتے ہوئے کہا:ابو القاسم کے حسن وجما ل کا تذکرہ تو فرما ئیں ۔حضرت علیؓ نے آنحضرتﷺکے خدوخال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:اللہ کے رسول نہ تو کوتاہ قامت ہیں اورنہ ہی زیادہ لمبے(بلکہ میانہ قد ہیں )آپ کی زلفیں نہ تو بہت زیادہ گھنگر بال ہیں اور نہ ہی بالکل سیدھے، ٓآپ کے بال قدرے خمدار گھونگر یالے اور سیاہ ہیں ۔آپ کا سر انور اعتدال کے ساتھ بڑا ہے،آپ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے ،سرور کائنات کی مبارک آنکھیں بڑی ہیں ،آپ کی ہتھیلیاں اور قدم مبارک پر گوشت ہیں ،آنحضرتﷺکے سینہ مبارک پر بالوں کی ایک باریک دھاری ہے ،وہ دھاری سینہ سے ناف تک ہے،نبی کی پلکیں دراز اور ابروئیں پیوستہ ہیں ،آپ کی پیشانی مبارک کشادہ ہے،آپ کے مونڈھوں کے درمیان کا فاصلہ دوسروں کی نسبت قدرے زیادہ ہے ،اللہ کے رسول جب چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا وہ اونچی جگہ سے نیچے اتر رہے ہوں ،انہوں نے فرمایا میں نے آپ جیسا حسین وجمیل انسان نہ تو پہلے دیکھا ہے اور نہ ہی بعد میں دیکھا،جوں ہی حضرت علی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔

 

یہودی عالم پیغمبرﷺکی صفات بیان کرتے ہوئے کہنے لگا ؛ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں ،ان کی داڑھی بے حد خوبصورت ہے ،ان کا منہ نہایت ہی حسین و جمیل ہے،ان کے کان مبارک کامل و مکمل ہیں ،جب سامنے دیکھتے ہیں تو پورے بدن کو پھیر کر دیکھتے ہیں اور جب پیچھے نظر ڈالتے ہیں تب بھی مکمل پشت پھیر کر نگاہ کرتےہیں ۔حضرت علیؓ نے فرمایااللہ کی قسم ،یہی آپ کی خوبی ہے۔اس یہودی عالم نے کہا ان کا ایک اورامتیازی وصف بھی ہے۔حضرت علی دریافت فرمایا،وہ کون سا؟اس نے کہا ؛آپ کی پشت پر مہر نبوت کا نشان ہے۔حضرت علی نے فرمایا یہ وہی ہستی ہیں جن کے بارے میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ جب آپ روانہ ہو تے ہیں تو ایسا لگتا ہے وہ کسی اونچی جگہ سے نیچے اتر رہے ہوں ۔اس صاحب علم وفضل یہودی نے کہا :یہ اوصاف میں نے اپنے آباءواجداد کی کتاب تورات میں پائے ہیں ،ان محاسن کے علاوہ بھی اس یہودی عالم نے رحمت عالم کی بہت سی خوبیاں بیان کیں پھر اس کے بعد اس یہودی عالم نے بھرے مجمع میں اقرار وتصدیق کرتے ہوئے برملا کہا :

 

فانی اشھد انہ نبی وانہ رسول اللہ وانہ ارسل الی الناس کافۃ۔

 

’’اور کہا اسی پر میرا جینا اور اسی پر میرا مرنا اور اسی پر میں اٹھایا جاوں گا۔‘‘

 

پھر وہ حضرت علیؓ کے پاس آیا کرتےتھےاور حضرت علیؓ انہیں قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور شرائع اسلام بتلاتےتھے ،اس کے بعد حضرت علیؓ اور وہ عالم وہاں سے روانہ ہوئے اور مدینہ آئے ،یہاں تک کہ اس عالم کی وفات حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں ہوئی۔[37]

 

حضرت عروہ ؓ کہتے ہیں: حکیم بن حزام ؓ یمن گئے اور انھوں نے وہاں (حمیر کے نواب) ذُویَزن کا جوڑا خریدا اور اسے لے کر حضورﷺکی خدمت میں مدینہ آئے اور حضور ﷺکی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ حضورؐنے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ہم کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتے۔ (اس وقت تک حضرت حکیم مسلمان نہیں ہوئے تھے) چنانچہ حضرت حکیم اسے فروخت کرنے لگے تو حضورؐنے اسے خریدلینے کا حکم فرمایا تو وہ جوڑا آپ کے لئے خریدا گیا۔ آپ اسے پہن کر مسجدِنبویؐمیں تشریف لائے۔ حضرت حکیم فرماتے ہیں: اس جوڑے میں حضورؐبہت خوب صورت نظر آرہے تھے اور میں نے اس جوڑے میں حضورؐسے زیادہ خوب صور ت آدمی کبھی نہیں دیکھا۔ آپ ایسے لگ رہے تھے جیسے چودھویں کا چاند! دیکھتے ہی بے اختیاریہ اشعار میری زبان پر آگئے:

 

 

مَا تَنْظُرُ الْحُکَّامُ بِالْحُکْمِ بَعْدَ مَا   بَدَا وَاضِحٌ ذُوْ غُرَّۃٍ وَّحُجُوْلٖ
’’جب ایک روشن اور چمک دار ایسی ہستی(یعنی رسولِ پاکؐ ) ظاہر ہوگئی ہے جس کا چہر ہ، ہاتھ اور پیر سب ہی چمک رہے ہیں، تو اب اس کے بعد حکام حکم دینے کے بارے میں سوچ کر کیا کر یں گے؟ (یعنی اب تو حضورؐ کی مانی جائے گی اور حامکوں کی نہیں۔‘‘

 

 

إِذَا قَایَسُوْہُ الْمَجْدَ أَرْبٰی عَلَیْھِمْ   کَمُسْتَفْرِغٍ مَاء الذِّنَابِ سَجِیْلٖ
’’جب یہ حکام بزرگی اور شرافت میں ان کا مقابلہ کریں گے تو یہ ان سے بڑھ جائیں گے، کیوں کہ ان پر بزرگی اور شر افت ایسے کثرت سے بہائی گئی ہے جیسے کسی پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈول ڈالے گئے ہوں۔‘‘

 

یہ سن کر حضورﷺ مسکرانے لگے۔[38]

 

شمائل کے بیان میں احتیاط

حضرت جابرؓ بن سمرۃ نے آنحضرتﷺکا حلیہ مبارکہ بیان کیا تو ان سے ایک شخص نے عرض کیا :کیا آنحضرتﷺکا چہرہ تلوار کی طرح (چمکدار)تھا۔حضرت جابرؓ نے کہا نہیں شمس وقمر کی طرح گول تھا۔[39] اسی طرح حضرت براءؓ سے کسی نے پوچھا کیا رسول اللہﷺ کا چہرہ تلوا ر کے مثل تھا ،فرما یا :نہیں ،بلکہ قمر کی مانند تھا۔[40]

 

آنحضرتﷺکے رخ انور کی تابانی کی تلوار کے ساتھ مشابہت میں سوء ادب کا احتمال تھا۔تلوار میں صرف چمک ہوتی ہے نورانیت نہیں،لمبائی ہو تی ہے گولائی نہیں ہوتی اور قابل زنگ ہونے کی بناءپرروشنی دیرپا بھی نہیں ہوتی۔البتہ چاند میں نورانیت بھی ہے اور گولائی بھی،اس کی روشنی تا قیامت ہے، لفظ قمر حسن اور چاشنی کا تاثر عطا کرتا ہے،پس قمر کے مشابہت قرین قیاس تھی اس لئے تلوار سے تشبیہ کی نفی کی گئی۔

 

آنحضرتﷺکے ساتھ اپنی جسمانی خدوخال کے مشابہت پر خوشی

حضرت انس ؓنے حضرت قتادہ بن ربعی انصاریؓ سے کہا آنحضرتﷺکے بالوں کے مشابہہ آپ کے بالوں سے زیادہ کسی اور کے بال نہیں دیکھے۔ یہ سن کر اس روز حضرت قتادہؓ بہت خوش ہوئے۔ قاسم بن فضل سے مروی ہے کہ میں محمد بن علیؓ بن ابی طالب کے پاس آیا اور اصلت بن زبید کی طرف دیکھا جن کے ریش بچہ پر بڑھاپے کی آمیزش دوڑ رہی تھی(زیر لب بال سفید ہوچکے تھے) محمد بن علیؓ نے ان کو دیکھ کر کہا: اس طرح بالوں کی سیاہی اور سفیدی کی آمیزش آنحضرتﷺکے ریش بچہ میں موجود تھی۔ اصلت یہ سن کر بہت مسرورہوئے۔[41]

 

یاد گاری آ ثار وتاریخی ذخیرہ

ابن سیرین فرماتے ہیں:ہمارے پاس نبی اکرمﷺکے موئے مبارک ہیں جو ہمیں حضرت انسؓ یا ان کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں اور مجھے دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پسند ہے کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺکاایک موئے مبارک ہو۔[42]

 

حضرت بحیریّہ کہتی ہیں: میرے چچا حضرت خِداشؓ نے حضورﷺکو ایک پیالہ میں کھاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے حضور ﷺسے وہ پیالہ بطورِ ہدیہ مانگ لیا۔ (حضور ﷺنے ان کو وہ پیالہ دے دیا) چنانچہ وہ پیالہ ہمارے ہاں رکھا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ ہم سے فرمایاکرتے تھے کہ وہ پیالہ میرے پاس نکال کر لاؤ۔ ہم زَم زَم کے پانی سے بھر کر وہ پیالہ حضرت عمرؓ کے پاس لاتے۔ حضرت عمرؓ اس میں سے کچھ پیتے اور کچھ (برکت کے لیے) اپنے سر اور چہرے پر ڈال دیتے۔ پھر ایک چور نے ہم پر بڑا ظلم کیا کہ وہ ہمارے سامان کے ساتھ اسے بھی چوری کر کے لے گیا۔ پیالہ کی چوری کے بعد حضرت عمرؓ ہمارے پاس آئے اور حسبِ دستور پیالہ کا مطالبہ کیا۔ ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ پیالہ تو ہمارے سامان کے ساتھ چوری ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: وہ چور تو بڑا سمجھ دار ہے جو حضورﷺکا پیالہ چرا کر لے گیا۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت عمرؓ نے نہ تو چور کو برا بھلا کہا اور نہ اس پر لعنت بھیجی۔[43]

 

حضرت نافع ؓکہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر ؓ حضورﷺکے آثار ونشانات کا بہت زیادہ اتباع کرتے تھے۔ چنانچہ جس جگہ حضورؐ نے (دورانِ سفر) کوئی نماز پڑھی ہوتی وہاں حضرت ابنِ عمر ضرور نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضورﷺکے آثار کا ان کو اتنا زیادہ اہتمام تھا کہ ایک سفر میں حضورﷺایک درخت کے نیچے ٹھہرے تھے تو حضرت ابنِ عمر اس درخت کا بہت خیال رکھتے اور اس کی جڑ میں پانی ڈالتے تاکہ وہ خشک نہ ہو جائے۔[44]

 

یحیی بن عباد نے اپنے والد عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی ہے ہمارے خاندان میں سونے کا ایک کھنگرو تھا اس میں آنحضرتﷺکے بال تھے جس کو لوگ دھوتے تھے اور اس پانی سے برکت حاصل کرتے تھے۔ کبھی بال نکال کر ان کی زیارت ہوئی تو ان کا رنگ حنا اور نیل کے خضاب سے مزین تھا۔ ابو عبیدہ بن عبداللہ بن زمعہ کے خاندان کے پاس بھی آنحضرت ﷺکے چند بال تھے جو حنا سے رنگے ہوئے تھے۔[45]

 

دیار مدینہ میں آنحضرتﷺکے لمس سے آراستہ پس خوردہ کا اشتیاق

 

آنحضرتﷺکے دست مبارک میں وقتی معجزات کے علاوہ شفاء کی طبعی دائمی خاصیت موجودتھی۔حضرت عائشہؓ اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہیں کہ عموما آپ بیماری میں معوذتین پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کرکے ان کو اپنے سارے جسم پر پھیرتےتھے،مرض الموت میں جب آپ اس سے عاجز ہوگئے تومیں معوذات پڑھ کر آپ کے ہاتھ پر دم کردیتی اور آپ کا دست مبارک لے کر آپ کے جسم اطہر پر پھیرتی۔مولانا بدر عالم میرٹھی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :

 

’’حدیث مذکور سے یہ ثابت ہوتا کہ آنحضرتﷺکے دست شفاء میں شفاء کی خاصیت عام معجزات کی طرح وقتی اور غیر اختیاری نہ تھی بلکہ اس کا طبعی اثر تھا ۔یہاں حضرت عائشہ کی فہم کتنی قابل داد ہے کہ وہ اس رمز کو جانتی تھیں اور اس لیے آپ کی بیماری کے معمول کو اس طرح پورا کرتی تھیں کہ جہاں تک معوذات پڑھنے کا تعلق تھا تو وہ خود پڑھ لیتیں اور بیماری میں آپ کواس کی تکلیف نہ دیتیں لیکن جہاں دیکھتیں کہ اب یہاں وہ نیابت سے قاصر ہیں وہاں مجبور ہوکر آپ ہی کے دست مبارک کو استعمال کرتیں۔معلوم ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں کوئی امتیازی خاصیت ہوتی ہے جس میں عام بشر تو کیا امہات المومنین بھی شرکت نہیں رکھتیں۔‘‘ [46]

 

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺجب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مدینہ کے خادم یعنی غلام اور باندیاں اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے (تاکہ آپ اسے استعمال کرلیں اور پھر وہ اسے برکت کے لیے واپس لے جائے) تو آپ ؐانکار نہ فرماتے، آپؐ کے پاس جو بھی برتن لایا جاتا آپؐ (برکت کے لیے) اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیتے۔ بعض دفعہ یہ لوگ سردیوں کی صبح میں ٹھنڈا پانی لاتے تو حضورﷺاس میں بھی ہاتھ ڈال دیتے۔[47]

 

حضرت ابو ایوبؓ جلیل القدر صحابی ہیں ۔مدینہ میں آنحضرت ﷺکی تشریف آوری کے بعد آپ کی خدمت اور راحت رسانی کی فکر کرنے والے اصحاب میں ہیں ۔آنحضرت ﷺکے اہل خانہ کے لئے مکان کا انتظام ہو نے تک آپ کے قیام کی سعادت حضرت ابوایوبؓ کے نصیب میں ہی رہی۔ا ٓ نحضرت ؐجب تک ان کے مکان میں تشریف فرما رہے ،عموما انصار یا خود حضرت ابو ایوبؓ آنحضرت ﷺکی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے۔کھانے سے جو کچھ بچ جاتا ،آپ ؐابو ایوبؓ کے پاس بھیج دیتے تھے ۔حضرت ابو ایوبؓ آنحضرتﷺکی انگلیوں کے نشان دیکھتے اور جس طرف سے آنحضرتﷺنے کھایا ہوتا،وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے۔

 

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺکا معمول تھا کہ جب کوئی چیز ہدیہ میں آتی تو نبی کریم ﷺاس میں سے میرے لئےبھی بھجواتے تھے ۔ ایک دن حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ اپنے گھر آئے تو ایک پیالہ نظر آیا ،پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اہل خانہ نے بتایا کہ یہ نبی کریم ﷺنے بھجوایا ہے ،وہ مضطربانہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے پہلے جو کھانا بھجواتے تھے میں اسے دیکھتا تھا اور جہاں آپ کی انگلیوں کے نشانات محسوس ہوتے میں اپنا ہاتھ وہیں رکھتا تھا لیکن آج جو کھانا آپ نے مجھے بھجوایا ہے اس میں دیکھنے کے بعد بھی مجھے آپ کی انگلیوں کے نشانات نظر نہیں آئے ، آپ نے تو اس پیالے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔نبی کریم ﷺنے فرمایا:یہ بات صحیح ہے در اصل اس میں پیاز تھاجسے کھانا مجھے پسند نہیں ہے جس کی وجہ وہ فرشتہ ہے جو میرے پاس آتا ہے ۔انہوں نے پوچھا کہ کیا ہمارے لئے پیاز حلال نہیں ہے؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا:کیوں نہیں، تم اسے کھایا کرو البتہ مجھے اس کی بو پسند نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پھر جو چیز آپ کو پسند نہیں وہ مجھے بھی پسند نہیں۔[48] مسلم کی روایت میں پیاز کی جگہ لہسن کاذکر ہے۔[49]

 

آنحضرتﷺسے مشابہ شخص کو انعام واکرام سے نوازنا

جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو اپنے زمانہ خلافت میں اطلاع پہنچی کہ بصرہ میں ایک شخص ’’کابس‘‘ہے جو آپﷺ سے مشابہ ہے تو انہوں نے گورنر بصرہ عبداللہ بن عامر بن کریز کو خط لکھا کہ اس شخص کو میرے پاس روانہ کریں۔گورنر نے کابس کو روانہ کردیا، جب یہ معاویہ کے پاس پہنچے تو وہ اپنے تخت سے ارت پڑے ، چل کر ان کے پاس آئے اور ان کی دونوں آنکھوں کے بیچ بوسہ دیااور ان کو علاقہ مرغاب جاگیر میں دیا۔[50]

 

آنحضرتﷺکے سامنےاپنی مشابہت پر بعض صحابہ کا رقص

صحیح بخاری میں ہےرسول اللہﷺنےحضرت علی ؓسےفرمایا:تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت جعفرؓ سے فرمایا:تم شکل وصورت اور اخلاق میں میرے زیادہ مشابہ ہو۔ طبقات میں امام باقر کی مراسیل سے یہ اضافہ ہے حضرت جعفر ؓنے یہ سن کر آنحضرتﷺ کے گردحجل رقص کیا۔آپؐنے پوچھایہ کیاہے؟انہوں نےجواب دیا:میں نےاہل حبشہ کو اپنے بادشاہوں کے لئےاسی طرح کرتے دیکھا ہے(حجل مخصوص طرز کا رقص ہےاس میں ایکپیر اٹھاکر دوسرے پر چلتے ہیں)۔[51]

 

حافظ عراقی کی تخریج احادیث الاحیاء میں ہے حضرت علیؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت زید بن حارثہ نے غزوہ احد میں حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد ان کی صاحبزادی (ابیہاان کا نام ہے، ماں کا نام زینب بنت عمیس خثعمیہ ہے)۔[52] کی کفالت کے بارے میں جھگڑا کیا تو آنحضرتﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ حضرت علیؓ نے یہ سن کر رقص حجل کیا۔ آنحضرت ؐ نے حضرت جعفرؓ سے فرمایا: تم شکل و صورت میں میرے زیادہ مشابہ ہو اس پر انہوں نے رقص کیا اور حضرت زید بن حارثہ سے فرمایا: تم ہمارے بھائی اورہمارے مولیٰ ہو، اس پر رقص کرنے لگے۔[53] اس حدیث کو ابوداود نے حضرت علیؓ سے بہ اسناد حسن روایت کیا ہے۔[54] صحیح بخاری میں یہ واقعہ حجل رقص کے الفاظ کے بغیر مروی ہے۔ [55]

 

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جعفرؓ اور حضرت زید تینوں نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور ؐ نے حضرت زیدؓ سے فرمایا: تم ہمارے بھائی اور محبت کرنے والے ساتھی ہو۔ یہ سن کر حضرت زید ( خوشی کے مارے) وجد میں آکر اچھلنے لگ گئے۔ پھر حضورﷺنے حضرت جعفرؓ سے فرمایا: تم صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہو۔ اس پر حضرت جعفر حضرت زید سے زیادہ اچھلے۔ پھر حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ یہ سن کر میں حضرت جعفرؓ سے بھی زیادہ اچھلا۔[56]

 

صحابی کا دوسرے صحابی کے شمائل نبویﷺپر حرص پر اظہار تعجب ومسرت

حضرت ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں خالد بن ولید ؓ کے قبل از اسلام ہماری ہر جگہ احد،خندق ،حدیبیہ اور دیگر معرکوں میں ان سے مڈبھیڑ ہوتی رہی۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ ( حجۃ الوداع کے) یوم النحر کو وہ آنحضرتﷺکے اونٹنی کی نکیل تھامے چل رہے تھے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ آنحضرتﷺحلق کرارہے ہیں اور خالد سامنے کھڑے ہوکر التجاکررہے ہیں: اے اللہ کے رسولﷺ!میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، آپؐ کے پیشانی کے بال صرف میں لوں گا، میرے علاوہ کسی اور کو آپ نہیں دیں گے۔ پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ خالد ان موئے مبارک کو لے کر اپنی آنکھوں سے لگا رہے ہیں اور لبوں سے چوم رہے ہیں(حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان موئے مبارک کو ٹوپی کے اندر محفوظ کرکے سی لیا تھا اور عسکری مہمات میں اس ٹوپی کو پہن کر برکت حاصل کرتے تھے)۔[57]

 

حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمایا کرتے تھے کہ اِسلام میں فتح حدیبیہ سے بڑی کوئی فتح نہیں ہے، محمدﷺاور ان کے رب کے درمیان جو معاملہ تھا لوگ اسے سمجھ نہ سکے۔ بندے جلد بازی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی طرح جلد بازی نہیں کرتے، بلکہ (اپنی ترتیب اور ارادے کےمطابق) ہر کام کو اپنے مقرر کردہ وقت پر کرتے ہیں۔ یہ منظر بھی میرے سامنے ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت سہیل بن عمرو قربان گاہ میں کھڑے ہوکر قربانی کی اونٹنیاں حضورﷺکے قریب کررہے تھے اور حضورﷺاُن کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے تھے۔ پھر آپ نے نائی کو بلا کر اپنے بال منڈوائے تو میں نے دیکھا کہ حضرت سہیل حضورﷺکے بالوں کو چن چن کر عقیدت کے مارے اپنی آنکھوں سے لگارہے ہیں، اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ وہی سہیل ہیں جنہوں نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور’’ محمد رسول اللہ ‘‘ کومعاہدہ نامہ میں لکھے جانے سے انکار کردیا تھا۔ (یہ دیکھ کر) میں نے اللہ کی تعریف کی جس نے ان کو اسلام کی ہدایت دی۔[58] 

 

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: حضورﷺنے اپنے اَسفار میں جن مقامات میں قیام فرمایا ان کو جس طرح حضرت ابنِ عمر ؓ تلاش کرتے ہیں اس طرح کوئی بھی تلاش نہیں کرتا۔[59] حضرت عاصم احول ؓ اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمر ؓ میں اتباعِ سنت کا اتنا زیادہ اہتمام تھا کہ جب ان کو کوئی حضورﷺکے نشاناتِ قدم تلاش کرتا ہو ا دیکھ لیتا تو وہ یہی سمجھتا کہ ان پر (جنون کا) کچھ اثر ہے۔ حضرت اسلم ؓکہتے ہیں: اگر کسی اونٹنی کا بچہ کسی بیابان جنگل میں گم ہو جائے تو و ہ اپنے بچے کو اتنا زیادہ تلاش نہیں کر سکتی جتنا زیادہ حضرت ابنِ عمر حضورﷺکے نشاناتِ قدم کو تلاش کیا کرتے تھے۔[60]

 

آنحضرتﷺکی جانب سےموئے مبارک کی تقسیم

حضرت انس سے مروی ہے آنحضرتﷺحج کے موقعہ پر بال ترشوارہے تھےاور صحابہ آپ ﷺکے گرد گھو م رہے تھےجو آپ کے بال ہاتھ میں لینا چاہتےتھے۔رسول اللہ ﷺنے اپنے سر کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کردیا تو اس نے وہ مونڈھ دیا پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور وہ با ل انہیں دے دیئے،پھر سر کی بائیں جانب حجام کی طرف کی اور فرمایا: مونڈھ دے۔تو اس نے وہ حصہ بھی مونڈھ دیا اس کے بعد آپ ﷺنے بال حضرت ابو طلحہ کو دے کر فرمایا انہیں لوگوں میں تقسیم کردو۔[61]

 

حضرت عائشہ سے دریافت کیا گیا آپ کے پاس آنحضرتﷺکے موئے مبارک کس طرح جمع ہوئے۔فرمایا :جب حجۃ الوداع کے موقع پرآنحضرتﷺنے اپنا سر منڈوایا تو آنحضرتﷺکی ہدایت کے بموجب ان بالوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا تو دوسروں کے ساتھ مجھے بھی میرا حصہ دیا گیا ۔اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نےآنحضرتﷺکی جانب سے تقسیم موئے مبارک کی حدیث کے بعدیہ شعر لکھ کر فرمایا:

 

مرا از زلف تو موئے بسند ستہوس را مدہ بوئے بسند ست

 

’’یہ موئے مبارک آنحضرتﷺکے اجزاء شریفہ کےذکرویادداشت کاباعث تو ہوگیا گویا بوئے بسند ست کا بھی مصداق ہوگیا۔‘‘[62]

 

دن کے اوقات میں شمائل نبوی ﷺکا آنکھوں دیکھا حال

حضرت جریرؓ فرما تے ہیں :ہم لوگ دن کے شروع حصہ میں آنحضرتﷺکی خدمت میں بیٹھے تھےکہ اتنے میں کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور ننگے پاؤں ،دھاری دار اونی چادریں اور عبا پہنے ہوئے تھے،اور تلواریں گردنوں میں لٹکارکھی تھیں۔ان میں سے اکثر لوگ قبیلہ مضر کے تھے،بلکہ سارے ہی لوگ مضر کے تھے۔ان کے فاقہ کی حالت دیکھ کر آپﷺکا چہرہ مبارک بدل گیاپھر آپﷺگھرتشریف لے گئے (کہ شاید وہاں ان کے لئے کچھ مل جائے،لیکن وہاں بھی کچھ نہ ملا،یا آپﷺنماز کی تیاری کرنے گئے ہوں گے)پھر باہر تشریف لاکر حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا۔انہو ں نے پہلے اذان دی (ظہر یا جمعہ کی نماز تھی)پھر اقامت کہی۔ آپ ﷺنے نماز پڑھائی پھر بیان فرمایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

 

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ۔۔۔۔۔۔۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔

 

’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان دار سے پیدا کیا، اور اس جان دار سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں۔ اور تم خدائے تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے مطالبہ کیا کرتے ہو اور قرابت سے بھی ڈرو۔ بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب کی اطلاع رکھتے ہیں۔‘‘

 

اور سورۂ حشر میں ہے:

 

اِتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔

 

’’اور اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے۔‘‘

 

آدمی کو چاہیے کہ اپنے دینار، درہم، کپڑے، ایک صاع گندم اور ایک صاع کھجور میں سے کچھ ضرور صدقہ کرے، حتی کہ آپ نے فرمایا: اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو تو اسے ہی صدقہ کر دے۔ (یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کے پاس زیادہ ہو صرف وہی صدقہ کرے، بلکہ جس کے پاس تھوڑا ہے وہ بھی اس میں سے خرچ کرے) راوی کہتے ہیں: چنانچہ ایک اَنصاری ایک تھیلی لے کر آئے (وہ اتنی وزنی تھی) کہ ان کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز ہونے لگا، بلکہ عاجز ہو ہی گیا تھا۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا (اور لوگ بہت سامان لائے) حتی کہ میں نے غلّہ او ر کپڑے (اور درہم ودینار) کے دو بڑے ڈھیر دیکھے۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کا چہرۂ انور (خوشی سے) ایسا چمک رہا ہے کہ گویا کہ آپ کے چہرے پر سونے کا پانی پھیرا ہوا ہے۔ (اس کام کی فضیلت سناتے ہوئے) حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص اسلام میں اچھاطریقہ جاری کرتا ہےتو اسے اپنا اَجر ملے گا، اور اس کے بعد جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اسے اَجر ملے گا اور ان کے اجرمیں سے کچھ کم نہیں ہوگا۔ اور جو اسلام میں برا طریقہ جاری کرتا ہے تو اسے اپناگناہ ملے گا، اور اس کے بعد جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان سب کے برابر گناہ اسے ملے گا اور ان کے گناہ میں سے کچھ کم نہیں ہوگا۔[63]

 

رات کے اوقات میں شمائل نبوی ﷺکا مشاہدہ

حضرت جابر ؓنے بیان فرمایا کہ میں نےایک چاندنی رات میں آنحضرتﷺکو اس حال میں دیکھا کہ آپ ؐسرخ جوڑا زیب تن فرمائے ہوئے ہیں ۔میں آپ کی طرف اور پھر چاند کی طرف دیکھنے لگا مجھے آپ ؐکا چہرہ چاند سے کہیں زیادہ خوبصورت دکھائی دیا۔[64]

 

غزوہ میں آنحضرتﷺکے شمائل کا مشاہدہ

حضرت ابو مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور ﷺکے ساتھ ایک غزوہ میں تھے۔ لوگوں کو (سخت بھوک کی) مشقّت اُٹھانی پڑی (جس کی وجہ سے) میں نے مسلمانوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار اور منافقوں کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھے۔ جب حضور ﷺنے بھی یہ بات دیکھی تو آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لیے رزق بھیج دیں گے۔ جب حضرت عثمان ؓ نے یہ سنا تو انھیں یقین ہوگیا کہ اللہ اور رسول ﷺکی بات ضرور پوری ہوگی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے چودہ اُونٹنیاں کھانے کے سامان سے لدی ہوئی خریدیں اور ان میں سے نو اُونٹنیاں حضور ﷺکی خدمت میں بھیج دیں۔ جب حضور ﷺنے یہ اُونٹنیاں دیکھیں تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ حضرت عثمانؓ نے آپ کو ہدیہ میں بھیجی ہیں۔ اس پر حضور ﷺاتنے زیادہ خوش ہوئے کہ خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر محسوس ہونے لگے، اور منافقوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ میں نے حضور ﷺکو دیکھا کہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور حضرت عثمانؓ کے لیے ایسی زبردست دعا کی کہ میں نے حضور ﷺکو نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی کے لیے ایسی دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! عثمان کو (یہ اور یہ) عطا فرما اور عثمان کے ساتھ (ایسا اور ایسا) معاملہ فرما۔[65]

 

حالتِ غم میں شمائل نبوی ﷺکی کیفیت

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضورﷺکے صاحب زادے) حضرت ابراہیم ؓکو دیکھاکہ حضورﷺ کے سامنے ان پر نزع کی کیفیت طاری تھی۔ یہ دیکھ کر حضورﷺکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپؐ نے فرمایا: ’’آنکھ آنسو بہا رہی ہے اور دل غمگین ہو رہا ہے، لیکن ہم زبان سے وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیمؓ! اللہ کی قسم! ہم تمہارے جانے کی وجہ سے غمگین ہیں۔[66] حضورﷺکی خدمت میں حضرت عبد الرحمنؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اس سے تو آپ لوگوں کو روکتے ہیں، جب مسلمان آپ کو روتا ہوا دیکھیں گے تو وہ بھی رونے لگ جائیں گے۔ جب آپ ؐکے آنسو رک گئے تو آپؐ نے فرمایا: یہ رونا تو رحم یعنی دل کی نرمی کی وجہ سے ہے، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ ہم تو لوگوں کو مردہ پر نوحہ کرنے سے روکتے ہیں اور اس بات سے روکتے ہیں کہ مردہ کی ان خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے جو اس میں نہیں تھیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا سب کو اکھٹا کر دینے کا وعدہ اور موت کا چالو راستہ نہ ہوتا اور ہم میں سے بعد میں جانے والوں کا پہلے جانے والوں سے جا ملنا نہ ہوتا تو ہمیں اس سے زیادہ غم ہوتا۔ اور ہم اس کے جانے پر غمگین ہیں، آنکھ سے آنسو بہہ رہے ہیں، دل غمگین ہے، لیکن ہم زبان سے ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔ اور اس کی دودھ پینے کی باقی مدت جنت میں پوری کی جائے گی۔[67]

 

حالتِ غضب میں آنحضرتﷺکے شمائل کا مشاہدہ

حضرت مطّلب بن ربیعہ ؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عباسؓ حضورﷺکی خدمت میں آئے۔حضرت عباسؓ غصہ میں تھے۔حضورﷺنے فرمایا: کیا بات پیش آئی؟ انھوں نے کہا: یا رسول اللہؐ! ہم بنو ہاشم کا اور قریش کا کیا بنے گا؟ حضورﷺنے پوچھا: تمھیں ان کی طرف سے کیا بات پیش آئی ہے؟ حضرت عباسؓ نے کہا: جب وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑی بشاشت سے کھل کر ملتے ہیں، اور ہم سے ملتے وقت ان کی یہ حالت نہیں ہوتی ہے۔ یہ سن کر حضورﷺکو اتنا غصہ آگیا کہ دونوں آنکھوں کے درمیان کی رگ پھول گئی۔ جب آپ کا غصہ کم ہوا تو آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! کسی آدمی کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ تم (بنو ہاشم) سے اللہ ورسول کی وجہ سے محبت نہ کرے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھے عباسؓ کے بارے میں تکلیف دیتے ہیں، آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے۔[68]

 

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں: میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا میرے ساتھ دو آدمی اور تھے، ہم سب نے حضرت علیؓ کے بارے میں نازیبا بات کہہ دی۔ اتنے میں سامنے سے حضورﷺتشریف لائے۔ آپؐ کے چہرۂ انور پر صاف غصہ نظر آرہا تھا۔ میں حضور ﷺکے غصہ سے اللہ کی پناہ چاہنے لگ گیا۔ حضورﷺنے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوا کہ مجھے تکلیف پہنچاتے ہو؟ جس نے علیؓ کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔[69]

 

عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺنے لوگوں میں کچھ تقسیم فرمایا۔اس پر انصار میں سے ایک شخص نے کہا :اس تقسیم سے اللہ تعالی کی رضامندی کا ارادہ نہیں کیا گیا۔عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کو یہ کہتے سنا تو میں نے کہا:اے اللہ کے دشمن،میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ ﷺکو ضرور پہنچا وں گا ،چنانچہ میں نے جا کر رسول اللہﷺکو خبر دی تو آپ کا روئے اقدس سرخ ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا:

 

رحمۃ اللہ علی موسی لقد اوذی باکثر من ھذا فصبر۔[70]

 

’’موسی پر اللہ کی رحمت ہو ،ان کو اس سے بھی زیادہ ایذا سی گئی ،لیکن انہوں نے صبر کیا۔‘‘

 

نزولِ وحی کے دوران آنحضرتﷺکے شمائل کا مشاہدہ

 

آنحضرت ﷺپر دن ورات کسی بھی وقت وحی کا نزول ہوتا رہتا تھا ،وحی کے نزول کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ آنحضرتﷺپر حالت بیداری وحالت خواب میں وحی اترتی رہتی تھی ،بلکہ وحی میں جو شے سب سے پہلے عطا کی گئی تھی وہ سچے خواب ہی تھے۔نزول وحی کے وقت آپ ﷺپر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔چہرہ انورسرخ ہوجاتا،سانسیں تیز تیز آنے لگتیں، پیشانی مبارک عرق آلود ہوجاتی،بدن اطہر پر کپکپی طاری ہوجاتی ،اور سارے وجود کو ایک اضطرابی کیفیت ڈھانپ لیتی تھی ،چنانچہ جب بھی آنحضرتﷺوحی کا نزول ہوتا تو صحابہؓ پر یہ معاملہ مخفی نہیں رہتا تھا۔صحابہ کرام کوقران کریم کی مختلف آیات و سورتوں کے نزول کے موقعے پر وحی کے متعدد طریقوں کا مشاہدہ ہوتا رہتا تھااور بعض صحابہؓ اس کے مشتاق تھے کہ نزول وحی کے حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں چنانچہ جستجو و کو شش کے بعد اس کیفیت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اسے بیان بھی کیا۔

 

حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺپر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھی اور سخت سردی کے دن میں بھی آپﷺ کی پیشانی عرق آلودہوجاتی تھی بلکہ اس کے خاتمے پرشدت وحی سے عرق رسالت کے موتی بہہ نکلتے تھے ۔انہوں نے فرمایا:

 

ولقد رایتہ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشدید البرد فیفصم عنہ وان جبینہ لیتفصد عرقا۔[71]

 

صحابہ پر وحی کے آنے کا معاملہ مخفی نہیں رہتا تھا جب بھی صحابہ کی موجودگی میں آپ ﷺپر وحی نازل ہوتی تووہ جان جاتے تھے اور اس کے نزول کی شدت کے مارے آنحضرتﷺکی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے تا آنکہ نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا۔ حضرت ابو ہریرہؓ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں :

 

وکا ن اذا جاء الوحی لا یخفی علینا ،فاذا جاء فلیس احد یرفع طرفہ الی رسول اللہﷺ حتی ینقضی الوحی۔[72]

 

حضرت عبادہ بن صامت کا مشاہدہ ہے کہ آنحضرت ﷺپر جب وحی اترتی تھی تو آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا اور شدید تکلیف وکرب کا احساس ہوتا اور ایک روایت میں ہے کہ اپنی دونوں آنکھیں جھپکاتے تھے اور یہ ہم جانتے تھے۔

 

اذا نزل علیہ کربہ ذلک و تربد و جھہ ،وفی روایۃ وغمض عینیہ،وکنا نعرف ذلک منہ۔[73]

 

جب آپﷺکے پاس وحی آتی تو آپ کا روئے انور سرخ ہوجاتا اور آپﷺپر ویسی ہی کپکپی طاری ہوجاتی تھی جیسی کسی نوزائیدہ اونٹ کےبچے پر اور سخت سردی کے دنوں میں بھی آپﷺکی مبارک پیشانی سے پسینہ موتی بن کر پھوٹ نکلتا تھا۔ابن کثیر اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

ولھذا کان علیہ الصلوۃ والسلام اذا جاءہ الوحی یحمر وجھہ و یغط کما یغط البکر من الابل، ویتفصد جبینہ عرقا فی الیوم الشدید البرد۔[74]

 

ایک صحابی حضرت علیانؓ بن عاصم کی روایت ہے ہم خدمت نبویؐ میں موجود تھے کہ آپ ﷺپر وحی کا نزول ہوا اور جب بھی آپ ؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کی نگاہ جم جاتی اور آنکھیں کھلی رہ جاتیں اور آپ ﷺکی سماعت اور قلب اللہ کے پاس سے آنے والے پیغام کے لئے فارغ ہوجاتے ۔[75]حضرت انس ؓ کی روایت میں دورانِ وحی آنحضرت ﷺپر نیند جیسی کیفیت طاری ہو نے کا ذکر ہے:

 

عن انس قال :رسول اللہ ﷺ ذات یوم بین اظھرنا اذ اغفی اغفاءہ ثم رفع راسہ مبسما فقلنا ما اضحکک یا رسول اللہ قال انزلت علی انفا سورۃ فقراء بسم اللہ الرحمن الرحیم انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر ان شانئک ھو الابتر۔[76]

 

حدیبیہ سے واپسی پر سورہ فتح کا نزول ہوا اس وقت آنحضرتﷺاپنی سواری پر تھے تو شدت وحی سے آپ اپنی سواری پر کبھی ادھر ہوجاتے اور کبھی ادھر :

 

قد ثبت فی الصحیحین نزول سورۃ الفتح علی رسول اللہﷺ مرجعہ من الحدیبیۃ وھو علی راحلتہ فکان یکون تارۃ وتارۃ بحسب الحال۔[77]

 

حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ ان دونوں صحابی کی روایت میں ہے جب آنحضرتﷺپر نزول وحی ہوتا تو آپﷺ اپنی چادر یا کپڑے کو اپنے چہرہ انور پر ڈالنے لگتے تھے اور جب نزول پورا ہو جاتا تو آپﷺچہرہ کھول لیا کرتے تھے۔[78] اور کبھی صحابہؓ بھی آپﷺکے چہرے اور جسم اطہر کو چادر سے ڈھانک دیتے تھے۔واقعہ افک میں حضرت عائشہؓ کا مشاہدہ ہے کہ آنحضرتﷺ ان کے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپؐ پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو نزولِ وحی کے مواقع پر طاری ہوا کرتی تھی ۔آپؐ کو لباس سے ڈھانک دیا گیا اور آپ ﷺکے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا پھر رسول اللہ ﷺکی وہ کیفیت دور ہوگئی اور آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ ﷺکے چہرہ انور سے مو تی کی مانند پسینے کے قطرے بہہ رہے تھے حالانکہ وہ سخت سردی کا ایک دن تھا اور آپ ﷺ اپنے چہرے مبارک سے پسینہ پوچھنے لگے۔[79] یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے:

 

فواللہ مادام رسول اللہ ﷺ مجلسہ ولا خرج احد من اھل البیت حتی انزل علیہ، فاخذہ ما کان یاخذہ من البرحاء،حتی انہ لیتحدر منہ العرق مثل الجمان وھو فی یوم شات من ثقل القول الذی انزل علیہ۔[80]

 

حضرت صفوان بن یعلی بن امیہ اپنے والد یعلی بن امیہ کے بارے میں بتا تے ہیں کہ ان کے والد کو آنحضرتﷺپر نزول وحی دیکھنے کا اشتیاق تھا ۔ایک مرتبہ آنحضرتﷺصحابہؓ کے ساتھ مقام جعرانہ میں تشریف فرما تھے۔ایک اعرابی خوشبو میں بسا ہوا جبہ پہنے ہوئے آیا اور مسئلہ پوچھا کہ خوشبو سے معطر جبہ میں عمرہ کا احرام باندھنا کیسا ہے؟حضرت عمر ؓجو حضر ت یعلی کی آرزو سے واقف تھے،ان کو اس موقعہ پر آنحضرتﷺکے قریب بلایا۔حضرت یعلیؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺکا چہرہ انور سرخ ہورہا ہے اور آپؐ گہری گہری سانسیں لے رہے ہیں تھوڑی دیر آپؐ کی یہی حالت رہی اور پھر دور ہوگئی اور آپؐ نے سوالی کو بلایا جو اس وقت ادھر ادھر ہوگیا تھا ،وہ ڈھونڈ کر لایا گیا اور آپﷺنے اس سے فرمایا :خوشبو کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور جبہ اتار ڈالو اور اپنے عمرہ میں بھی وہی کرو جو تم اپنے حج میں کیا کرتے ہو ۔یعنی احرام عمرہ کا ہو یا حج کا دونوں کے احکام یکساں ہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ [81]

 

حالتِ سرور میں آنحضرتﷺکا دیدار

 

حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضورﷺمسجدمیں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام آپ کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت علیؓ سامنے سے آئے۔ انھوں نے آکر سلام کیا اور کھڑے ہو کر اپنے بیٹھنے کی جگہ دیکھنے لگے۔ حضورﷺ اپنے صحابہ کے چہروں کو دیکھنے لگے کہ ان میں سے کون حضرت علی کو جگہ دیتا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ حضور ﷺکے دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی جگہ سے ذرا ہٹ کر کہا: اے ابو الحسن! یہاں آجاؤ۔ اس پر حضرت علی آگے آئے اور اس جگہ حضورﷺاور حضرت ابو بکرؓ کے درمیان بیٹھ گئے۔ ہمیں ایک دم حضورﷺکے چہرہ ٔ انور میں خوشی کے آثار نظر آئے۔ پھر حضورﷺنے حضرت ابو بکرؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: فضیلت والے کے مقام کو فضیلت والا ہی جانتا ہے۔[82]

 

حضرت کعب بن مالک غزوہ تبوک میں اپنی قبولیت توبہ پر آنحضرتﷺکی خوشی اور چہرے کی تابانی کو یوں بیان کرتے ہیں:جب حضور ﷺکو میں نے سلام کیا اور خوشی سے آپ کا چہرہ چمک رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ جب سے تم پیدا ہوئے ہو اس وقت سے لے کر اب تک جو سب سے بہترین دن تمہارے لیے آیا ہے میں تمہیں اس کی خوش خبری دیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ جب حضور ﷺخوش ہوتے تو آپ کا چہرہ چمکنے لگ جاتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ گویا چاند کا ٹکڑا ہے، اور آپ کے چہرے سے ہی ہمیں آپ کی خوشی کا پتہ چل جاتا تھا۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ میری ساری جائیداد اللہ اور اس کے رسول کے نام پر صدقہ ہے، اس میں سے اپنے پاس کچھ نہیں رکھوں گا۔ آپ نے فرمایا: نہیں اپنے پاس بھی کچھ رکھ لو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔= المسلم:کتاب التوبۃ =

حوالہ جات

  1. = اخرجہ الترمذی،کذا فی الشفاء:قاضی عیاض ۲/۳۳،دار الکتاب العربی،بیروت =
  2. = مولانا بدر عالم میرٹھی: ترجمان السنۃ ، ۱/۳۷۰،مکتبہ رحمانیہ،لاہور =
  3. = البخاری:کتاب الشروط،رقم۲۵۸۱ =
  4. = المسلم:باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ،رقم ۳۲۱ =
  5. = البخاری:کتاب التفسیر،باب:سورۃ الحجرات،رقم۴۸۴۶ =
  6. = ابو عیسی ترمذی:الشمائل،رقم ۲۷
  7. = ابو نعیم اصفہانی:دلائل النبوۃ:۱/۳۵۸،معارف عثمانیہ،دکن =
  8. = محمد بن یوسف شامی:سیرۃ الشامی،۷/۵۶۴،دار الکتب العلمیہ،بیروت =
  9. = الصحیح للبخاری:ابواب المظالم و القصاص =
  10. = ملا علی قاری:جمع الوسائل،۲/۱۵۸ ،نور محمد اصح المطابع،کراچی =
  11. = ابن کثیراسماعیل : البدایۃ،۶/۲۱، دار الفکر،بیروت =
  12. = محمد بن سعد الکاتب:الطبقات الکبری،۱/۳۳۶، دارصادر،بیروت،۱۹۷۹ =
  13. = دلائل النبوۃ للاصفہانی:۵۶۱ =
  14. = الشمائل الترمذی:۲۸ =
  15. = واقدی،محمد بن عمر: کتاب المغازی،۸۶۸ ،نشر دانش اسلامی،ایران =
  16. = الطبقات:۱/۳۲۲ =
  17. = البدایۃ:۶/۱۲ =
  18. = الدارمی،عبد اللہ بن عبد الرحمن:سنن دارمی۱/۳۳،دار الکتاب العربی،۱۴۰۷ =
  19. = الشمائل للترمذی:رقم۲۰ =
  20. = ابو جحیفہ کا صغار صحابہ میں شمارہے،آنحضرتﷺ کے وصال کے وقت مراہق تھےالبتہ سماع ان کا ثابت ہے،کوفہ کو اپنا مسکن بنایا ،حضرت علی نے کوفہ کے بیت المال کا ان کو نگران مقرر کیا تھا۔ =
  21. = الطبقات:۱/۳۳۴ =
  22. = الصحیح للمسلم:۲/۲۵۶ ،دار احیاء التراث العربی =
  23. = الصحیح للبخاری:۱/۵۰۱،دار القلم،بیروت،۱۹۸۱ =
  24. = الطبقات:۱/۳۲۷ =
  25. = اخرجہ ابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ ،کذا فی الترغیب للمنذری:۱/۴۵،دار الکتب العلمیۃ،بیروت =
  26. = الطبقات:۱/۳۲۳ =
  27. = الشمائل:۱۶ =
  28. = نور الدین ہیثمی:مجمع الزوائد:۸/۲۵۶ ،دار الکتا ب العربی،۱۹۸۷ =
  29. = نام عاتکہ بنت خالد ہے،کنیت سے مشہور ہیں،خنیس بن خالد معروف صحابی ان کے بھائی ہیں،ہجرت کایہ سارا واقعہ ہشام بن خنیس اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں۔ =
  30. = البدایۃ:باب حدیث ام معبد۴/۴۰۲ =
  31. = القرطبی،محمد بن احمد اموی:۹/۱۰۷،الجامع لاحکام القران،دار احیاء،بیروت =
  32. = طبرانی ،سیلمان بن احمد:المعجم الکبیر،۲۲ْ/۱۵۵،مکتبہ ابن تیمیہ،مصر =
  33. = الطبقات:۱/۳۲۵ =
  34. = دلائل النبوۃ لابی نعیم میں ہے بغل کا سفید ہونا علامات نبوت میں سے ہے،بحوالہ خلاصہ غایۃ السول فی خصائص الرسول:مفتی الہی بخش کاندھلوی،ص۹۰،مفتی الہی بخش اکیڈمی،کاندھلہ،یوپی =
  35. = المستدرک:۳/۱۰ =
  36. = اخرجہ ابن ماجہ باسناد صحیح،واخرجہ الحاکم وقال :صحیح علی شرط مسلم ،کذا فی الترغیب:۵/۱۶۱ =
  37. = الطبقات:۱/۳۱۶ =
  38. = اخرجہ الطبرانی عن حکیم بن حزام بنحوہ کما فی المجمع: ۸/۲۸۷ =
  39. = الطبقات:۱/۳۱۹ =
  40. = البخاری:۴/۲۲۸، الشمائل:۱۱ =
  41. = الطبقات:۱/۳۳۴ =
  42. = البخاری:رقم الحدیث۱۷۰ =
  43. = الطبقات:۷/۵۷ =
  44. = علی متقی:کنز العمال،۷/۵۹ ،موسسۃ الرسالۃ،بیروت =
  45. = الطبقات ۱/۴۳۷ =
  46. = ترجمان السنۃ:مولانابدر عالم میرٹھی ،۳ْ/۲۴۲ =
  47. = المسلم:۲/۲۵۶ =
  48. = احمد بن حنبل:المسند،۱۰/۸۵۴، المکتب الاسلامی،بیروت،۱۹۷۸ =
  49. = المسلم:باب اباحۃ اکل الثوم =
  50. = ابن حبیب بغدادی: المحبر مترجم ،۴۶، قرطاس کراچی =
  51. = الطبقات:۴/۳۶ =
  52. = المعارف :ابن قتیبہ دینوری، ص۱۸۱ =
  53. = عبدالحئی الکتانی: التراتیب الاداریۃ مترجم،۲۹۷،ادارۃ القران کراچی =
  54. = السنن لابی داود:۲۲۸۰ ، دار الفکر،بیروت،۱۹۹۴ =
  55. = البخاری:کتاب الصلح =
  56. = ابن ابی شیبہ:المصنف،۱۲/۱۰۵، مکتبۃ الرشد،ریاض،۱۴۰۹ =
  57. = المغازی للواقدی:۱۱۰۸ =
     
  58. = کنز العمال،۵ْ/۲۸۶ =
  59. = الطبقات:۴/۱۰۷ =
  60. = ابو نعیم:۱/۳۱۰ =
  61. = الواقدی:۱۱۰۸ =
  62. = مولانا اشرف علی تھانوی:وعظ ’’شب مبارک‘‘،رسالہ المبلغ ، ۱۴،مکتبہ تھانوی،ایم اے جناح روڈ،کراچی =
  63. = اخرجہ مسلم والنسائی،کذا فی الترغیب۱/۵۳ =
  64. = الترمذی:رقم،۲۸۱۱ =
  65. = اخرجہ الطبرانی،قال الھیثمی:۹/۸۵ =
  66. = الطبقات:۱/۹۰ =
  67. = الطبقات:۱/۸۸ =
  68. = الحاکم:۳/۳۳۳ =
  69. = البدایۃ:۷/۳۴۷ ،الھیثمی:۹/۱۲۹ =
  70. = المسند:۳۵۹۷ =
  71. = البخاری:کتاب بدء الوحی،رقم۲ =
  72. = مسلم:کتاب الجھاد والسیر،باب فتح مکۃ =
  73. = البدایۃ: ۳/۲۱ =
  74. = البدایۃ:۳/۷ =
  75. = البدایۃ۳/۲۲ =
  76. = مسلم :کتاب الصلاۃ،باب البسملۃ آیۃ من کل سورۃ سوی براءۃ =
  77. = البدایہ ۳/۲۲ =
  78. = المسلم: کتاب المساجد ،باب النھی عن اتخاذ القبور مساجد =
  79. = البدایہ۴/۱۶۲ =
  80. = البخاری :کتا ب المغازی =
  81. = البخاری: کتاب المغازی ،باب غزوۃ الطائف =
  82. = البدایۃ:۷/۳۵۹ =
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...