Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Habibia Islamicus

مغربی اور اسلامی نظریہ ثقافتی اور تہذیبی عالمگیریت تحقیقی جائزہ |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عالمگیریت کی لغوی واصطلاحی تعریف

عالمگیریت کا لفظ عالم سے مشتق ہے اردو زبان میں اس کے معانی ہیں: زمانہ، دنیا،مخلوق،قسم،جنس،حالت،صورت، ڈھنگ،لطف،حسن،مانند۔[1] جبکہ العالمی کا معنی ہے: بین الاقوامی۔[2] اورعالمگیر کا معنی ہے:دنیاکو اپنے گرفت میں کرنے والا، جہاں کو فتح کرنے والا۔ دنیا میں پھیلا ہوا۔[3]

 

پچھلے چند برسوں سے عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور یہ تبدیلیاں چند میدانوں کے دائرے میں رہ کر رونما ہوئی ہیں مثلاً اقتصادی اور معاشی میدان،ثقافتی اور تہذیبی میدان اورسیاسی وغیرہ۔ان پہلوں کے تناظر میں عالمگیریت یا گلوبلائیزیشن کی تعریفیں بھی مختلف کی گیٴ ہیں ۔مغرب کی کوشش یہی ہے کہ اس نظام کو پوری دنیا کے سامنے مثبت پیش کیا جائے تاکہ لوگ اس کی طرف راغب ہوں ، اس وجہ سے وہ عالمگیریت کی اچھی اور مثبت تعریفات کرتے ہیں ، ذیل میں عالمگیریت کی مثبت تعریفات پیش کی جاتی ہیں ۔

 

آکسفورڈ ڈکشنری میں عالمگیریت کی تعریف یوں کی گئی ہے:

 

Globalization is the fact of adapting products or services that are available all over the world to make them suitable for local needs.[4]

 

’’گلوبلائزیشن ایک ایسا نظام ہے جس میں لوگوں کی ضروریات کے اعتبار سے پوری دنیا کے لیے مصنوعات مہیا کی جاتی ہیں۔‘‘

 

جمس روزنو(James Rossenou)کے مطابق گلوبلائزیشن ایک اقتصاد، سیاست،ثقافت اورنظریات کی تبدیلی کی راہ ہے جس پر چلنے کے بعد صنعتیں ایک ملک مین محدود ہوکرنہیں رہتی بلکہ پوری دنیا میں پھیلتی ہے ۔[5]

 

ان تعریفات سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمگیریت ایک مثبت نظام ہے،اس کےمقاصداور اثرات اچھے ہوں گے،لیکن دوسری طرف مسلم مفکرین عالمگیریت کا مکروہ چہرہ اور یہودیوں کا خبث باطن جان چکے ہیں ،انہوں نے جو تعریفات کی ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ منفی تعریفات میں سے بھی چند ایک ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

 

ڈاکٹر مصطفی النشار کہتے ہیں:عالمگیریت کا مطلب یہ نہیں کہ تہذیبیں ایک دوسری کی قریب آجائیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے تمام تہذیبیں مٹاکر سب کو امریکی تہذیب میں رنگ دینے کا نام عالمگیریت یا گلوبلائزیشن ہے ۔[6]

 

مشہورمفکر عبد اللہ ترکی رقم طرا ز ہیں:عالمگیریت امریکہ کی حکمرانی کانام ہے ، جس میں دیگر ثقافت کو مغر ب اور خاص کر امریکہ کی ثقافت میں رنگ دینا ہے۔[7]

 

ان تعریفات سے عالمگیریت کے پرچار کرنے والوں اور یہودیوں کے عزائم کا علم ہوجاتا ہے کہ وہ اس عالمگیریت کے ذریعے کیامقاصد رکھتے ہیں۔

 

عالمگیریت کی قسمیں

عالمگیریت درحقیقت یہودیوں کے آباو واجداد کا پوار دنیا پر حکومت کرنے کا ایک خواب ہے، جسے ان کی نسلیں پوراکرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس مقصد کے لیے درجہ ذیل میدانوں میں عالمگیریت کے فروغ کی کوشش کی جارہی ہے۔

 

۱۔ سیاسی عالمگیریت ۲۔ اقتصادی عالمگیریت ۳۔ معاشرتی ثقافتی اور تہذیبی عالمگیریت

 

یہ گلوبلائزیشن کے نمایاں میدان اور اقسام ہیں ،یہاں ہماری بحث صرف تیسری قسم سے ہوگی۔

 

ثقافت کا لغوی اور اصطلاحی تعارف

ثقافت کا لفظ"ثقف" صفت کےصیغےسے مشتق ہے،جس کےمعنی ہیں:عقلمندوہوش مند ، ماہروباکمال۔ "ثقاف"اس آلہ کو کہتے ہیں جس کی مدد سے نیزہ کو ستوار کیا جاتا ہے، نیزہ کو درست کرنا، اصلاح کرنا۔[8]

 

امام راغب ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ثقافت نام ہے نفس کی اصلاح کرنے کا اس طور پر کہ انسان کمالات اور فضائل کا آئینہ ہو۔[9] یعنی ثقافت ایک ایسا موروثی علم ہے، جس کے مطابق آنے والی نسلیں اپنی زندگیاں گزارتی ہیں۔

 

تہذیب کا تعارف

صاحب لسان العرب ابن منظورکے مطابق تہذیب کا لفظ عربی زبان میں ہ،ذ،ب مادہ سے باب تفعیل کا مصدر ہے، اس کے لغوی معنی ہیں،کانٹ چھانٹ کرنا،اصلاح کرنا،خالص کرنا، سنو ارنا اور تیزی،اچھے اخلاق والے کو مہذب بھی کہتے ہیں۔[10] لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ اس لفظ کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی،چنانچہ اب یہ لفظ طرزِ زندگی اوراندازِ معاشرت کے لیے بھی مستعمل ہے۔

 

اسلام کا تصور عالمگیریت

اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے ۔یہ روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کا دین ہے ۔ اسلام نے پوری انسانیت کو اپنا مخاطب بنایا ہے ۔ اسلام کی بلند تعلیمات ،اعلٰی و ارفع اقدار اور بے مثال عدل و انصاف ہی کا نتیجہ تھا کہ بادشاہ وعوام ،عرب وعجم ، سفید وسیاہ ، سب ہی اس کی آغوش میں سماگئے ۔ اور تمام طبقات کا اسلام کی آغوش میں آنا ہی دراصل اس کی عالمگیریت کی دلیل ہے ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی دعوت ہر انسان کے لئے ہے۔

 

قرآن میں اللہ نے فرمایا:اور ہم نے آپ کو کسی اور بات کیلئے بھیجا مگر دنیا جہاں کے لوگوں پر مہربانی کرنے کے لئے۔[11]

 

دوسری جگہ ارشادباری تعالیٰ ہے : اور ہم نے آپ ﷺکو تمام لوگوں کے واسطہ پیغمبر بنا کر بھیجاہے۔[12]

 

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آپ ﷺکہہ دیجئے کہ اے لوگوں! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجاہوا رسول ہوں جس کی بادشاہی ہے تمام آسمانوں اور زمین پر ۔[13]

 

قرآن کریم کی درج بالا آیا ت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اس کی دعوت عالمگیر ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے اپنی تہذیب و ثقافت دوسروں پر مسلط نہیں کی ۔ اس نے دوسری تہذیبوں کی اچھی باتوں کو قبول کیا ہے اور خود سے نہ ٹکرانے والی عادتوں کو باقی رکھا ہے ۔ اس نے قوموں کی خصوصیات کا احترام کیا ہے اور یہ مقامی تہذیبوں، ثقافتوں کی بقا٫ کا داعی ہے۔[14]

 

جامعہ بغداد کے شعبہ تربیت کے استاد ڈاکٹر محسن عبدالحمید لکھتے ہیں :روئے زمین پر مختلف اقوام ، قبیلوں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے اور الگ الگ زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں ۔ اسی لئے خطہ٫ ارض کی بھلائی اسی میں ہے کہ لوگ آپس میں مفاہمت کریں اور مل جل کر زندگی بسر کریں ۔ ایک قوم اگر دوسری قوم کے رسوم ورواج بہ رضا ورغبت قبول کرے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن کسی قوم کا اپنی عادات واقدار ، اپنے رسوم ورواج اور اپنی زبان و تہذیب دوسروں پر تھوپنا ،بہرحال ایک اخلاقی جرم ہے ۔[15]

 

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ مختلف مذاہب، زبانوں اور قومیتوں کا اعتراف کیا ہے اور غیروں کے ساتھ بھی اپنے جیسا معاملہ فرمایا ہے۔ فقہ اسلامی میں غیر مسلم اقلیتوں( زمیوں) کے حقوق کے بارے میں الگ الگ ابواب قائم کئے گئے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ دیا ہے چاہے وہ جان کا تحفظ ہو یا مال کا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ و افریقہ سے ایشیا تک کہ طول و عرض میں پھیلی ہوئی مسلمانوں کی حکومت یہودی، عیسائی، مجوسی اور دیگر مختلف مذاہب کے پیروکار امن و سلامتی سے رہے مسلمانوں نے ہمیشہ مالک کے کائنات کے ارشادات کو ترجیح دی ۔

 

مغربی تہذیب اور ثقافت کے بنیادی تصورات

۱۔ مغربی تہذیب اور جدیدیت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کو کسی چیز کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔خصوصاً خدا،وحی الٰہی اور اس جیسے تصورات جن کو انسان نے عہدطفولیت میں گھڑ لیا تھا ،ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انسان کو پیدا کرنے والا کوئی خدا ہے اور نہ کوئی نبی اور رسالت ۔یہ باتیں پہلے وہ لوگ کرتے تھے جن کو حقائق کا علم نہیں تھا ۔

 

۲۔ مغربی تہذیب کے فلسفہ علم کی بنیاد یہ ہے کہ علم کا ذریعہ صرف انسانی حواس اور عقل ہے ،سائنسی طریقہ ہے مگر یہ سارا علم بھی ظن ہے ۔جو آج صحیح ہے کل غلط ثابت ہوسکتا ہے ۔ دنیا میں علم یقینی کا وجود ہی نہیں ہے ۔کوئی ایسا معیار نہیں ہے جس کے آگے سر تسلیم خم کرلیں ۔

 

۳۔ مغرب کے نزدیک کوئی بھی چیز فی نفسہ مضر یا مفید نہیں ہے ۔اس کا تعلق دیکھنے والوں کی پوزیشن پر ہے،جس کا جو بھی احساس ہو اس کے اعتبار سے یہ حق اور باطل ہوگا ۔اس کے برعکس خدا اور وحی پر ایمان لانے والوں کے نزدیک چیزوں کی حقیقت وہی ہے جو وحی نے طے کردی ہے ۔پسند اور تجربہ سے ان کے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

لا مبدّل لکلمات اللہ۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں بھی نہیں ہے۔[16]

 

۴۔ مغربی تہذیب کے نزدیک علوم غیبی،اللہ،فرشتے اور وحی وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے،نہ ان کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہے ۔اس کے برعکس اسلامی تہذیب میں زندگی کے معنی اور مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علو م غیبی سے ہی ہوسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ غیب پر ایمان لے آئے ہیں۔[17]

 

اسلامی تہذیب اور ثقافت کے بنیادی تصورات

۱۔ اسلامی تہذیب وثقافت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے، یہی ایک ایسی تہذیب ہے، جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شئی صرف اور صرف ایک ذات کی خلق کردہ ہے۔جیساکہ سورۃ الخلاص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہو اللہ وحدہ لاشریکہ لہ ذات ہے وہ بے نیاز ہے ، آسمانوں اور زمین کا مالک وہی ہے،اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے اور اسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنا چاہیے۔

 

سید ابو الاعلی مودودی ذات باری تعالی کی مرکزیت کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : "دین اسلام کے پورے نظام کا مرکز اور مدار خدا کی ذات ہے ۔یہ پورا نظا م اسی مرکز کےگردگردش کررہاہے ۔ اس نظام میں جو کچھ بھی ہے خواہ وہ نیت اور اعتقاد کے قبیل سے ہویا پرستچ اورعبادت کے قبیل سے ہویا دنیوی زندگی کے معاملات میں سے، بہر نوع اور بہر کیف اس کا رخ اسی مرکزی ہستی کی جانب پھرا ہوا ہے ۔[18]

 

۲۔ اسلامی تہذیب کا دارومدار جس طرح خدا کے دیے ہوئے احکام پر ہے،اسی طرح اسلامی تہذیب اور ثقافت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام انبیا کرام کے دیے ہوئے سیرت اور اوامر کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ یعنی یہ مسلمانوں کی خصوصیت ہے کہ وہ صرف اپنی ترتیب دیے ہوئے نظام پر نہیں چلتے بلکہ اس کے ساتھ ان لوگوں کی طرز زندگی بھی شامل ہوتی ہے جنہیں اللہ رب العزت نے تمام انسانوں میں چنا ہوتا ہے۔

 

۳۔ اسلامی تہذیب وثقافت کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اور پیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام تہذیبیں کسی ایک نسل اور قوم کے مردانِ کارپرناز کرتی ہیں،مگر تہذیبِ اسلامی میں وہ تمام افراد مایۂ افتخار ہیں،جنھوں نے اس کے قصر عظمت کو بلند کیا۔[19]

 

۴۔ اسلام تہذیب و ثقافت کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے تمام ضابطہ ہائے حیات اور زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی؛ چنانچہ علم وحکمت،قوانین شرعیہ،جنگ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اوراس معاملے میں بھی اسلامی تہذیب کا پلڑا تمام جدید وقدیم تہذیبوں پر بھاری نظر آتا ہے؛ کیونکہ اس میدان میں ہماری تہذیب نے قابل فخر آثار چھوڑے ہیں اور دیگر تمام تہذیبوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔ ان ہی اعلی اخلاقی اقدار کی وجہ سے بہت سے لوگ دیگر مذاہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ مسلمانوں کے رویہ نے کتنے لوگوں کو اسلام میں جگہ دی۔

 

۵۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا اور اسلامی تہذیب تنہا ایسی تہذیب ہے جس میں دین وسیاست کا امتزاج بھی رہا؛ مگر وہ اس امتزاج کی زیاں کاریوں سے یکسر محفوظ رہی، حکمراں، خلیفہ اور امیر المومنین ہوا کرتا تھا؛ لیکن فیصلہ ہمہ دم حق کے موافق ہوتا، شرعی فتاوے وہی لوگ صادر کرتے جو فقہ وفتاویٰ پر اتھارٹی ہوتے اور ہرایک قانون اور فیصلے کے سامنے برابر ہوتا، کسی کو کسی پر وجہ امتیاز حاصل نہ ہوتی سوائے تقویٰ اور لوگوں کی عام نفع رسانی کے، نبی پاکﷺکا ارشاد ہے: (رواہ الشیخان) کہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ نے بھی چوری کی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔اس مذہب پر ہماری تہذیب کی اساس ہے، جس میں عام طبقۂ انسانی پر نہ تو کسی حکمراں کو کوئی برتری حاصل ہے، نہ کسی عالمِ شریعت کو، نہ کسی اعلیٰ نسب والے کو ۔

 

عالمگیریت اور مساوات

لوگوں کے رنگ و نسل معاشی اور معاشرت کے اصول آج کل کے نام نہاد تہذیبوں اور ثقافت سے پاک ہیں ، یندوستان میں صدیوں سے ذات پات کا نظام چلا آرہا ہے،جہاں بعض کو ت و خدا کا درجہ دیا گیا اور دوسرے بعض کو بے انتہا درجے تک نیچے گرادیا گیا، یہ ذات پات کا نظام ان کی مذہب کا جزء ہے۔ ذات پات کا نظام ہندو معاشرہ کوپانچ بڑی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے۔

 

(۱) برہمن(پڑھالکھامذہبی گروہ۔)

 

(۲) کشتری(جنگجو اور حکمران گروہ۔)

 

(۳) ویش(تجارتی اور کاشتکار لوگ۔)

 

(۴) شودر(سب سے کم تر ذات جس کا واحد کام برترذات والوں کی خدمت ہے۔)

 

(۵) دلت اور اچھوتے(جو بےذات ہیں اس لیے کہ وہ اصل چاروں ذاتوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ اچھوت اس لیے ہیں کہ ان کاکسی چیز کو چھونا اسے آلودہ کر دیتاہے۔پس یہ دوسری ذات والوں سے ٹھیک ٹھاک فاصلے پر رہنے چاہیں۔ یہ گروہ ہندو معاشرہ کےانتہائی پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں، جہاں یہ اٹھائی سو مخصوص گروہوں کے سربراہ ہیں۔)[20]

 

عیسائیت کےموجودہ تعلیمات میں بھی امتازیات کا تصور پایا جاتا ہے۔متی کے مطابق عیسی علیہ السلام کو جو پیغام ملا تھا وہ صرف ایک قوم کے لیے محدود تھا، چنانچہ متی باب میں ہے: "غیرقوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ [21]

 

ہل اور شیڈل نے ذکر کیا ہے:اسی طرح مغرب میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہمیشہ نامناسب رویہ رکھا گیا ، ان کو یکسر نظر انداز کردیاجاتا ہے، یا تو ان کی قربانیوں کو بھلادیا جاتا ہے یا ان کے کارناموں کو تسلیم نہیں کیاتاہے۔ [22]

 

اسلام اور مساوات

اسلام نے جس طرح ایک خدا یعنی وحدت رب کا تصور دیا اسی طرح وحدت ِ اَب کے متعلق بھی تعلیم دی تاکہ دنیا امن ومحبت کا گہوارا بن سکے۔ قرآن پاک اور نبی مکرمﷺکی احادیث میں جگہ جگہ قوم پرستی اور عصبیت کی نفی کی گئی ہے، کیونکہ عربوں میں قوم پرستی کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔قرآنِ عظیم میں ارشادِ باری ہے: "اے لوگو! ہم نے تم (سب)کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہےاور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سے پرہیزگار، اللہ کے نزدیک معززتر ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے، خبردار ہے۔" [23]

 

نبی کریم ﷺنے اپنے کلیدی خطبہ الوداع میں فرمایا: "اے لوگو! تمہارا رب ایک اور تمہارا مورثِ اعلیٰ بھی ایک ہے، تم سب آدم کے ہو اورآدم مٹی سے تھے، تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ شریف سب سےزیادہ متقی انسان ہے، اور کسی عربی کو کسی عجمی پر فضلیت نہیں ، مگر تقویٰ ہی کے سبب سے۔" [24]

 

گویا اسلام نے انسانوں کو دو مضبوط رشتوں میں جوڑ کر انسانی معاشرہ اور تہذیب وتمدن کومحبت اوربھائی چارے کا پیغام دیا۔ یعنی سب انسانوں کا خالق ، پروردگار، آقا، معبود ایک ہی ہے ۔ اس رشتے کے بعد ایک دوسرے میں پیوست کر کےتہذیب وثقافت کو مزید مستحکم ومنظم کر نے کے لیے مساواتِ انسانی کا درس دیا گیا، اور فرمایا کہ تم سب ایک دوسرے کے بھائی ہو،ہاں جس میں تقویٰ اور خوفِ خدا جتنی زیادہ ہے، اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک عزت مند ہے۔ یہ تقویٰ اور خوف خدا کی بنیاد پر معزز ہونےوالی بات بھی ایک اچھے اور پرامن معاشرے کے قیام کی طرف ایک قدم ہے ۔ اہلِ عرب میں چونکہ قبائلی اورجاہلی تعصب اورتفاخر کا بڑا زور تھا، اس لیے نبی کریم ﷺنے اس جانب بہت توجہ دی۔ چنانچہ آپﷺنے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلی عصبیت اور آباء پر فخر کا طریقہ ختم کردیا ہے، اب یا تو مومن متقی ہو گایا فاجر شقی، لوگ آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے، عربی کو عجمی پر بھی کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ذریعہ۔" [25]

 

عالمگیریت اور رواداری

کوئی تہذیب اگر دعوی کرتا ہے کہ وہ عالمگیریت اورآفاقی ہونے میں ثانی نہیں رکھتا تو اس میں یہ خوبی ہوگی کہ اس نے دوسروں کو برداشت کرنا سیکھا ہوگا۔یہودیت اور عیسائیت کی موجودہ صورت حا ل میں یہ پہلو مفقود نظر آتا ہے۔ صلیبیوں نے یروشلم کی فتح کے وقت مسلمانوں کے ساتھ بہت برا کیا ، یروشلم کا ایک ماہ تک محاصرہ کیا گیا ، اور جب انہیں فتح ہوئی تو ا نہوں نے مردوں ، عورتوں اور بچوں تک کو بے دردی سے مارا اور شہید کیا ۔عیسائیوں کے ایک پادری جس کا نام ریمنڈ ڈیگائل ہے اس نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:فتح یروشلم کے وقت مسلمانوں کے ساتھ بہت برا کیا گیا، بعضوں کو زندہ جلا گیا ، بعضوں کے سر کاٹ دیے گئے اس روز یروشلم کی ہر سڑک پر مسلمانوں کے کٹے سر ، ہاتھ اور ٹانگیں تھیں ، جس کے باعث ان سڑکوں پر چلنا مشکل تھا ۔[26]

 

خلیل توطہ اور بولوس نے لکھا ہے : صلیبیوں نے یسوع کے مصلو ب ہونے والی جگہ میں بڑا ظلم کیا ، یسوع نے تو دشمنوں سے محبت کرنا سیکھایاتھا ۔اس دن عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔"[27] یہی حال آج کل یہودیوں اور صہونیوں کا ہے جو فلسطین میں بوڑھوں، بچوں اورعورتوں پرکررہے ہیں،جس سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوجاتا ہے۔ان کی دیگر اقوام سے نفرت کو دیکھیے اپنے ہی امریکہ کے شہریوں جو یہودی نہیں ہیں ان پر انہوں نے بندوقیں چلائیں ، جیسے سیویج اٹیک میں انہوں نے کیا کہ ایک امریکی بحریہ جہاز " لبرٹی " پر انہوں نے حملہ کیا اور کئی فوجیوں کو مارا ۔[28] اسی طرح بیگن نے امریکیوں کی نسل کشی کی اور جب پوچھا گیا کہ کیوں ہوا؟ تو اس نے کہا کہ ہم اپنوں کے علاوہ کسی کو اپنے کیے پر جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔"[29] یہ ان کے کھوکھلے دعووں کا منہ بولتا ثبوت ہےجو وہ کرتے رہتے ہیں۔

 

بی بی سی لندن نے برطانیہ کی نسلی امتیازات کے حوالے سے یوں کہا :

 

برطانیہ کی پولیس میں نسلی امتیازا کا برتاؤ موجود ہے ، لیبر پارٹی نے اس کے خاتمہ کےلیے آج تک کچھ نہیں کیا ۔ایشیائی اور افریقی نسل کے لوگ اس امتیازی سلوک کے شکار ہوتے ہیں۔[30]

 

اسلام اور رواداری

اسلام چونکہ ایک آفاقی مذہب ہے ، اس لیے یہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ رواداری کا درس دیتا ہے ، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اور اسلام صرف غیروں کے لیے منقوش حرودف کی طرح صرف حکم ہی نہیں کرواتا، بلکہ اسے ایک شریعت کا ایک فریضہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے۔[31]

 

قرآن کریم کی بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ انصاف اور عدل کے ساتھ معاملات کیے جائیں ، چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤکرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔[32]

 

اسلام نےغیروں کو وہ حقو ق دیے ہیں کہ بعض جگہ تو ایسے حقوق انہیں اپنوں کی طرف سے بھی نہیں ملتے ، اسلام نے مسلمانوں کو کہا کہ وہ غیر مسلم جو تمھارے پڑوس میں رہتےہیں ان کے ساتھ اچھا برتاؤکیا کرو ، رواداری کی اصل روح ، جو اچھے رویوں اورشفیق سلوک،ہمسائے کے لیے عزت اور احترام ،رحم ، وفا اور ہمدردی جیسے تمام جذبات میں عیاں ہے ، انہیں ان چیزوں کا کہا ہے۔

 

انسانیت اور عالمگیریت

انسان کو اشرف المخلوقات اسلام اور اس کی مقدس کتاب میں قرار دیا گیا ہے،جیسے آگے ہم تفصیل سے ذکر کریں گے۔اس کے برعکس آج کل کی جدید دنیا میں اس کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ آپ ہندوستان کی مثال لیں ۔ان کی ذات پات کا نظام ان کی مذہب کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔اور یہ ذات پات ان کو چار بڑی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ ان میں سے آخری قسم جسے شودر کہا جاتا ہے کے ساتھ انسانیت والامعاملہ نہیں کیاجاتا ، اس کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کسی برہمن کی خدمت کرے ، ایک انسان ہونے کے ناطے اسے اتنی اجازت بھی نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی جائیداد بناسکے ، اگر شودر نے کسی بڑی ذات کو نقصان پہنچایا تو اسکی سزا یہی ہے کہ اسے اس عضو سے محروم کردیاجائے ، اس کے برخلاف اگر کسی اور نے اس کو نقصان پہنچایا تو اس کا کفارہ وہی کفارہ ہے جو ایک جانور ،جیسے کتے، بلی ،مینڈک ،کوا ، چھپکلی اور الو کا ہوتا ہے۔

 

اس کے علاوہ ایک پانچویں قسم بھی ہے انہیں دلت اور اچھوتے کہاجاتا ہے،جو بےذات ہیں اس لیے کہ وہ اصل چاروں ذاتوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہیں۔ گستیو لی بان نے مانو کی بعض تعلیمات کا ذکر کیا: برہمنوں کو اس قدر تقدس اور فضیلت دی گئ ہے کہ انہیں خدا کے مقام تک پہنچادیا ہے ، کوئی بھی برہمن پیدا ہوتاہے تو وہ تما م مخلوق کا سلطان ہے ۔ زمین میں جو کچھ بھی ہے سب برہمنوں کا ہے ، شودروں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ، وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ [33]

 

اسی طرح امریکہ میں بھی سیاہ فارم کے ساتھ الگ رویہ رکھنا اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ان کے ہاں بھی انسان کی کوئی قدر نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بوڑھوں غریبوں کا بھی یہی حال ہے۔

 

انسانیت اور اسلام

عالمگیریت کے برخلاف اسلامی تہذیب وثقافت میں بین الاقوامی طور پر انسانی مساوات اور کرامتِ انسانی کا پیغام موجود ہے۔ قرآنی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے تمام انسان ایک ایک مرد وعورت سے پیدا کردیے گئے ۔ ان کے درمیان اگر کوئی نسلی یا خاندانی یا علاقائی یا الوانی یا جغرافیائی فرق ہے، تو وہ صرف پہچان کے لیے ہے، نہ کہ برتری وتفوق کے لیے۔ البتہ اسلام تقویٰ کو فوقیت کی وجہ بتاتا ہے۔سورۃ الحجرٰت میں اسی مساوات ِ انسانی کا ذکر ہے کہ اسلامی تہذیب میں چھوت چھات کا کوئی تصور نہیں، نہ کسی کے جائز پیشے کو بُرا اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔بڑے بڑے اہلِ علم مختلف پیشوں سے منسلک تھے ، علم کے ساتھ ساتھ کوئی قصاب تھا، تو کوئی درزی کا پیشہ کرتا تھا، تو کوئی نائی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھا۔ علم و اخلاق حسنہ کی وجہ سے عزت دی جاتی ہے، محض جاہ و نسب کی وجہ سے نہیں۔اسلامی تہذیب وثقافت نے انسان کو انسانیت کا درجہ عطا کیااور اس کو انسانیت سکھلائی۔ اسلامی تہذیب نے سب لوگوں کو اخوت وبھائی چارے کی لڑی میں پرو دیا تھا۔

 

اسی طرح آقائے دوجہاںﷺکی احادیث میں شرفِ انسانیت اور لوگوں پر رحم و شفقت اور حسنِ سلوک کے متعلق بہت سی ہدایات ،اورتاکیدات دی گئی ہیں،نبی کریمﷺکا اشادِ پاک ہے: "اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کی مخلوق میں سب سےزیادہ محبوب وہ ہے، جواس کے کنبہ کے ساتھ اچھاسلوک کرتا ہے۔ "[34] اسی طرح ایک اور مقام پر آپﷺنے فرمایا:"رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔" [35]

 

عالمگیریت اور عورت

تہذیب وثقافت کے اہم حصے یعنی عورت کےمتعلق عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لڑکی پیدائش پر انھیں زندہ گاڑتے، یتیم بچیوں کو مال ِ وراثت کی تقسیم کرتے وغیرہ ۔ ہندوستان میں عورت کی زندگی تو اور بھی بھیانک تھی۔بقول ڈاکٹر گستاؤ لی بان منو شاستر میں توعورت کو کمزور، بے وفا اور حقیر سمجھا جاتا،تمدن ہند میں وہ رسمِ ستی کےمتعلق لکھتے ہیں : "بیواؤں کو شوہر وں کی لاش کے ساتھ جلانے کا ذکر منوشاستر میں معلوم نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہوچلی تھی، کیونکہ یونانی مؤرخین نے اس کا ذکر کیا ہے۔" [36]

 

کئی غیرمسلم مؤرخین اورمحققین نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہےکہ ہندوستان میں"رسم ِ ستی" کا خاتمہ محض اسلام کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے قبل عورتوں کو ایک بے جان کھلونہ سمجھا جاتا تھا کہ مرد اس سےجنسی تسکین حاصل کرنے کے بعد اسے ایک طرف پھینک دے، اس کے متعلق ڈاکٹر برنیئرجو مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں سیاحت کی غرض سے آیا تھا، لکھتا ہے:"آج کل پہلے ستی کی تعداد کم ہوگئی ہے، کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانروا ہیں، اس وحشیانہ رسم کے نیست ونابود کرنے کی حتی المقدورکوشش کرتے ہیں، اگرچہ اس کے امتناع کے واسطے کوئی قانون مقرر کیا ہوا نہیں ہے،لیکن تاہم ستی کی رسم کو بعض ایچ پیچ کے طریقوں سے روکتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ کوئی عورت بغیر اجازت اپنے صوبے کے حاکم کے ستی نہیں ہوسکتی ۔" [37]

 

امریکا کی دفتری اعداد وشمارکے مطابق تقریباً ہر سال تین چار ملین خواتین پر خاوند یا کسی بوائے فرینڈ کے ہاتھوں کا تشدد ہوتا ہے۔مولانا ابو الحسن ندوی لکھتے ہیں :"مغرب ایک اخلاقی جذام میں مبتلاہے ، جس سے اس کاجسم برابر کٹتا اور گلتا جارہاہے ۔اور اب اس کی عفونت پورے ماحول میں پھیلی ہوئی ہے ۔اس جذام کا سبب اس کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انار کی ہے ۔اس کیفیت کا اولین سبب عورتوں کی بے حد بڑھتی ہوئی آزادی ، مکمل بت پردگی ، مردوزن کا غیر محدود اختلاط اور شراب نوشی تھی ۔"[38]

 

عورت اور اسلام

عورت کو ماں کا درجہ اور مقام اسلام نے عطا کیا ، عورت بحیثیت بہن ، بحیثیت بیٹی، بحیثیت بیوی ،اپنے جائز حقوق کی مالکہ بنی، یہ اسلامی تہذیب ہی کی دَین تھی کہ عورت کو والدین کی وراثت میں حق دیا گیا۔بیوی کی حیثیت سے اگر مرد کے حقوق زیادہ تھے، تو ماں کی حیثیت سے عورت کے حقوق زیادہ تھے۔جیساکہ ارشاد ربانی ہے:" نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے،اور ہم انھیں ان کے اچھے کاموں کے عوض ضرور اجر دیں گے۔"[39]اور جو کوئی نیکیوں پر عمل کرے گا، (خواہ ) مرد ہو یا عورت اور صاحبِ ایمان ہو تو ایسے (سب) لوگ جنت میں داخل ہوں گےاور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔"[40] آج دنیا میں مختلف لوگ عورتوں کے حقوق کے نام پر کام کررہےہیں ، اکثر این جی اوز اس معاملے پر بہت سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اور اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو ان کے حقوق نہیں دیے، یہ لوگ حقائق سے منہ پھیرتے ہیں ، کیونکہ جو لوگ ان طرح کے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں ، وہ دراصل عورت کو ،حوا کی بیٹی کو ،بنتِ آدم کو ننگا کر کے شو پیس بنانا چاہتے ہیں اوراسلام نے تو اہل عالم پر عورت کی اہمیت اور اس کی عزت نہ صرف واضح کردی ہے، بلکہ منوایا بھی ہے۔

 

عالمگیریت اور خاندان

مغرب میں خاندانی نظام میں بگاڑ کی وجہ سے پورا معاشرہ کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے ۔اجتماعیت کا تصور ختم ہورہا ہے، انفرادیت پسندی کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ایسے سیکولرزافراد پیدا ہوتے ہیں جنہیں ذاتی مفاد کے علاوہ کسی چیز کی قدر نہیں ہوتی ۔بلکہ روایتی اخلاقی قدروں کو بھی مذمت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔

 

ڈاکٹر انیس نے عالمگیریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انفرادیت پسند رویہ کے متعلق لکھا ہے:"عالمگیریت نے انفرادیت پسندی کے فلسفیانہ تصو ر کومرکزی مقام دے کر اخلاق کو ایک اضافی شے قرار دیا ہے ،اس کے نتیجے میں خاندان کو ایک غیر ضروری شعبہ میں تبدیل کردیا ۔عالمگیریت کا انفرادیت پسندی کے حوالے سے یہ تصور اخلاقیات اور تمدن گزشتہ دو صدیوں سے مقبول رہا ہے۔اس کا اہم نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ میں انسانی رشتوں کا وجود نہیں ہوتا،جس سے معاشرہ میکانیکی ،معاشی اور وقتی مفاد پرستی کا دائمی شکار رہے گا اور تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار جس بنیادی ماحول میں آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی رہے گی اور ماحول کبھی وجود میں نہ آسکے گا اور یہ ماحول صرف اس وقت پید ا ہوتا ہے جب خاندان کے ادارے کو معاشرے میں مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔[41]

 

مغربی مفکرین خاندان کو محض مادی ضرورت قرار دیتے ہیں ،گویا خاندان ان کی ایک معاشی مجبوری ہو یا معاشرتی ۔ذیل میں مائیک جو ایک مغربی مفکر ہے ان کا اقتباس ذکر کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ ان کے ہاں خاندان کی کیا حیثیت ہے۔

 

The family is a social group chracterized by common residence, economic co-operation and reproduction. It includes adults of both sexes, at least two of whom maintain a socially approved sexual relationship, and one or more children, own or adopted, of the sexually cohabiting adults. [42]

 

فیملی ایک سوشل گروپ یعنی معاشرتی گروپ ہے جو ایک ساتھ مل جل کر رہنے ، معاشی تعاون اور تولید سے وجود میں آتا ہے۔اس میں دونوں جنس کے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ایک جنسی تعلق بنتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ بچے پیداہوتے ہیں یا گود لیے جاتے ہیں جب دو بندوں کا سیکسول پراسس ہوتا ہے ۔' '

 

بہرکیف مغر ب میں خاندانی نظام بگڑنے کی وجہ سے درج ذیل مسائل نے جنم لیا ہے :

 

۱۔ جنسی برائیوں میں اضافہ

 

۲۔ بغیر شادی والے افراد میں اضافہ

 

۳۔ طلاقوں میں بے حد اضافہ

 

یہ اہل مغرب کا سرسری نقشہ تھا جو اپنے آپ کو دنیامیں مہذب ترین معاشرے کی صورت میں پیش کرتے ہیں جہاں نہ صرف خاندانی روایات دم توڑ چکی ہیں ،بلکہ خاندانی نظام کا نقشہ ہی بدل چکا ہے ۔یوں عالمگیریت کے طوفان میں خاندانی انتشار کا زہر بھی ہر دوسرے معاشرے میں پھیل رہا ہے ۔

 

اسلام اور خاندان

اگرچہ مسلم معاشرہ میں خاندانی نظام کی حالت اس قدر ابتر نہیں ہےجس قدر مغربی ممالک میں ہے ۔لیکن عالمگیریت کے زیر اثر آکے مسلم معاشرہ میں خاندانی نظام کو متاثر کرنے کیلئے بڑے مظاہروں میں آزادی نسواں ،اباحیت پسندی اور خاندانی منصوبہ بندیوں کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔حتی کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں بھی یہ نعرہ بلند ہوا ،اور اس کے اثرات پاکستان میں واضح طور پر نظر آرہے ہیں ،لیکن ہمارا مذہب مکمل طوپر پُر سکون عائلی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتا ہے ان کا کچھ اختصار سے جائزہ لیتے ہیں ۔

 

۱۔ خا ندا نی استحکا م اور مضبوط سما جی نظا م کی تشکیل میں وا لدین کا تحفظ انتہا ئی اہمیت کا حا مل ہے ۔ اسلام میں والدین کو اس حوالے سے اہمیت دی گئی ہے تاکہ معاشرہ خاندان نہ بگڑے۔ اللہ کا ارشاد ہے:"اور تمھارے رب نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تم اسی یعنی اللہ کی عبادت کرو اور اپنے والدین کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آؤ ،اور جب انکی عمر زیادہ ہوجائے ان میں سے ایک کی یا دونوں کی تو تم انہیں اف تک نہ کہو اور ان سے نرمی سے بات کرو۔ [43]

 

۲۔ نبی کریم ﷺنے اپنی امت کو نکاح کی ترغیب دی تاکہ انسان اپنے خواہشات جائز طریقے سے پورا کریں۔چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا :"اے نوجوانوں کی جماعت !جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح نظر کو نیچے رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ [44]

 

۳۔ اس طرح شا رع نے تمام انسا نیت کی جا ن کی حفا ظت کا حکم دیا اور نا حق قتل کرنے سے روکا ہے ،نا مولود کی حفا ظت کا حکم دیا ہے بلکہ فقر و فا قہ کے خوف سے قتل کرنے سے بھی روکا ہے۔جیسا کہ یہ بے دردی والا قتل زمانہ جاہلیت میں بھی ہوتا تھا ۔اور آج کل مغربی دنیا میں بھی یہی صورت حال ہے کہ بچوں کوقتل کردیا جاتا ہے ۔خاندان کا ایک اہم پہلو حفظ نسل بھی ہے،جس سے خاندان کو استحکام کو دوام ملتاہے ۔حفا ظت نسل کے لیے شریعت نے نکا ح کی تجویز دی چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے: جو عو رتیں تمہیں پسند ہیں ا س سے شا دی کرو۔ [45]نبی ﷺکا ارشا د ہے نو جوا نو ! تم میں سے جو استطا عت رکھے اسے چا ہیے کہ وہ نکاح کرے ۔ [46]

 

حفاظت نسل کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو بھی دور کیااللہ کا ارشا د ہے :"اور زنا کے پا س بھی نہ جا نا کہ وہ بے حیا ئی اور بری راہ ہے۔[47] نبی کریم ﷺنے اپنی امت کو نکاح کی تر غیب دی اور اس کے فضا ئل بیا ن کیے تا کہ اس معا شرےے میں عفت و عصمت رہے ، اور نسل کی حفا ظت ہو سکے ۔ اے نوجوانوں کی جماعت !جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح نظر کو نیچے رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ [48]

 

خلاصہ بحث

اس تقابلی جائزے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسلام نے انسانیت کے مابین جو تہذیب اور ثقافت متعارف کرایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسلام نے مساوات اور اخوت اور رواداری کا جو اسلوب رکھا ہے اس کی مثال کسی دوسرے تہذیب اور مذہب میں نہیں ملتی ہے ۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے دوسروں کو برداشت کرنا سیکھا ہے ۔

 

اسی طرح تقابلی جائزے سے معلوم ہوا کہ اسلام نے ایک ایسا معاشرے کی تشکیل دی ہے جس میں تمام افراد خوش اور خرم زندگی گزارسکتے ہیں،ان تما م رکاوٹوں کو دور کرنے کی ترغیب دی ہے جس کی وجہ سے خاندان میں بد نظمی ہو۔ اس کے مد مقابل دیگر تہذیبوں میں معاشرے کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. فیروزالؤدین، فیروزاللغات ، آٹھویں اشاعت ،2016فیروز سنز،صفحہ نمبر:517
  2. وحید الدین القاموس الوحید ص:1119
  3. فیروزالؤدین، فیروزاللغات ، آٹھویں اشاعت ،2016 فیروز سنز، صفحہ نمبر:517
  4. Oxford dictionary page :647
  5. صالح الرقب ،اتعرف علی العولمة،دار البحار للطبع والنشر صفحہ:8
  6. رسالہ : المنتدی عدد: 193 اگست ،1999
  7. الترکی ، عبد اللہ ، الحوار المبتغی فی ظل العولمۃ ، مجلۃالرابطۃ ، العدد ،123، 2000، صفحہ 12
  8. الصحاح ،ابو نظر اسماعیل بن حمادجوہری،ج4، ص:28،مکتبہ عباس احمد الباز مکہ مکرمہ،دارالکتب العلمیۃ بیروت،اشاعت۱۹۹۹ء
  9. راغب الطباخ ، الثقافۃ، المکتبۃ الاھلیۃ بیروت ۔صفحہ:19
  10. محمد بن مكرم بن على، ابن منظور الافريقى ، لسان العرب،ج۱ص782 ، دار صادر – بيروت،الطبعۃ الثالثۃ –1414ھ
  11. الا٫نبیا٫ :107
  12. سبا :28
  13. الاعراف :157
  14. http://www.islamway.com عمر عبدالکریم: مفھوم العولمۃ:
  15. مولانا یاسر ندیم : گلوبلائزیشن اور اسلام دارالاشاعت کراچی طباعت 2004: صفحہ نمبر:418
  16. الانعام ،سورہ:6، آیت :34
  17. البقرۃ ،سورہ 2، آیت :3
  18. مودودی ، ابو الاعلی ، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول اور مبادی ، اسلامک پبلیکیشنز لاہور طبع 1997، صفحہ: 8
  19. حجرات:13
  20. John Campbell Oman. The Brahmans, Theists and Muslims of India, Delhi, 1973, p 50 and Dalit Voice, 15:4, p
  21. متی ،باب :10 فقرہ 5،6
  22. Jim Hill and Rand Cheadle. The Bible Tells Me So. Anchor Books/ Doubleday: New York, 1996, p.13
  23. سورۃ الحجرٰت،سورۃ نمبرر:49،آیت :13
  24. ۔مسند الامام احمدبن حنبل،ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی،الجزء 38، ص474،رقم الحدیث:23489،1421ھ، الناشر مؤسسۃ الرسالۃ
  25. ۔ الجامع الکبیر۔سنن ترمذی،محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن ضحاک، الترمذی، الجزء5، ص242،اشاعت۱۹۹۸ء،رقم الحدیث: 3270دارالغرب الاسلامی بیروت۔حکم: هذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث عبد الله بن دينار عن ابن عمر إلا من هذا الوجه
  26. In Al-Quds History and Views pp 18-19
  27. Khalil Toutah and Bolous Shehadeh. Jerusalem’s History and Guide. Jerusalem, 1480 p28
  28. For more details see Paul Findley’s book They Dare to Speak, Published in first in 1985 By Lawrenece Hill Books, P (165-179)
  29. T. Pike, P 72 for more information about Jewish atrocities look at the New York Times, August, P.1, and The National Geographic, April 1983, P 514
  30. ( بی بی سی لندن 27/10/2002/صبح پانچ بج کر تیس منٹ)
  31. القرآن ، سورہ: 2، آیت :256
  32. القرآن سورہ:60، آیت :8
  33. John Campbell Oman. The Brahmans, Theists and Muslims of India, Delhi, 1973, p 50 and Dalit Voice, 15:4, p 20. In Fazile, 1997, p 148-149
  34. محمد بن عبداللہ الخطیب العمری، ابوعبداللہ ولی الدین، مشکوٰۃ المصابیح ،الفصل الثالث، الجزء3،ص1392،1985ء، المکتب الاسلامی ، بیروت
  35. ابوداؤد سلیمان بن اشعت ،سنن ابوداؤد،باب فی الرحمۃ،الجزء4،ص285،رقم الحدیث:4941، المکتبۃ العصریۃ، صیدا، بیروت
  36. تمدن ہند، ص236، 238۔
  37. ڈاکٹر برنیئر، سفر نامہ، ج2، ص 172، 174، امرتسر،اشاعت، 1886
  38. ندوی ، ابو الحسن ، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مگربیت کی کشمکش 239۔240 مجلس نشریات اسلام کراچی ،س ن
  39. سورۃ النحل97:16
  40. سورۃ ا لنساء 124:4
  41. انیس احمد ،عالمگیریت اور مستقبل در مجلہ مغرب اور اسلام خصوصی اشاعت،عالمگیریت کا چیلنج اور مسلمان 2011 جلد 14 شمارہ:2 صفحہ:8
  42. Mike Haralambos Martin Holborn. Sociology themes and perspectives, Islamabad, National book foundation, 2000, P. 504
  43. القرآن ، الاسراء ، آیت نمبر:23
  44. البخاری، دا ر ابن کثیر دمشق طبع خا مس 1414ھ کتا ب النکا ح ،با ب قول النبی ﷺمن استطا ع، رقم الحدیث: 4778
  45. القرآن ،النساء، آیت نمبر: 3
  46. البخاری، دا ر ابن کثیر دمشق طبع خا مس ۱۴۱۴ ھ کتا ب النکا ح ،با ب قول النبی ﷺمن استطا ع، رقم الحدیث ؒ: 4778
  47. 32 القرآن ،الاسراء ،
  48. البخاری، دا ر ابن کثیر دمشق طبع خا مس 1414 ھ کتا ب النکا ح ،با ب قول النبی ﷺمن استطا ع، رقم الحدیث : 4778
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...