Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of International Research Journal on Islamic Studies

توبہ و استغفار: قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں ذہنی سکون کا منبع |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

توبہ و استغفار: قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں ذہنی سکون کا منبع

انسان ہمیشہ اس چیز پر خوش اور پر سکون رہتا ہے جو اس کی فطرت میں شامل ہے۔انسان کے لیے خوش گوار موسم ہونا فطرت ہے، ایسا موسم ملے تو خوش ہو گا۔ کھانا پینا اس کی فطرت ہے، مناسب کھانا پینا ملتا رہے گا تو خوش رہے گاجسم کے تمام اعضاء کا درست ہونا فطرت ہے، درست ہونگے تو خوش رہے گا صحت و تندرستی کا ہونا فطرت ہے، یہ نعمت ہو گی توپر سکو ن ہو گا۔ نیکی کرنا اس کی فطرت ہے، کرتا رہے گا تو پر سکون رہے گا۔اگر نیکی کے برعکس گناہ کا شکار ہو گا تو ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر سکون ہو مگر بے سکونی اسکا مقدر بن جایا کرتی ہے۔بعینہ خوش گوار موسم، کھانا پینا اور صحت و تندرستی جب نہیں ہو تی تو بے سکون و بے چین ہو جاتاہے۔آنحضرت ﷺ نے نیکی اور گناہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

”الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاس"[1]

(نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ یہ ہے کہ جو تیرے دل میں کھٹکا(بے سکونی) پیدا کر دے۔اور تو نہ پسند کرے کہ اس (گناہ والے فعل)کی لوگوں کو خبر ہو)۔

حدیث کریمہ کی رو سے گناہ سب سے پہلے ضمیر کو جگاتا ہے۔کہ کوئی الٹ کام ہونے والا ہے یا ہو رہا ہے اور دوسرا فکر یہ لگ جاتا ہے کہ اب یہ غلط کام تو ہو گیا ہے کہیں لوگوں کو پتا چل گیا تو میری مزید رسوائی ہو گی۔گناہ کی وجہ سے جو بے چینی اوربے سکونی پیدا ہو چکی ہے وہ اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ دوبارہ نیکی کی طرف رجوع کیا جائے۔اور گناہ کے بعد نیکی کی طرف رجوع کرنا توبہ تائب ہونا ہے قرآن کریم میں اللہ کریم فرماتے ہیں:

﴿ اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیۡنَ یَعْمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِیۡبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوۡبُ اللہُ عَلَیۡہِمْ ؕ وَکَانَ اللہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۷﴾ وَلَیۡسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعْمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبْتُ الۡـٰٔنَ وَلَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَہُمْ كُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴾[2]

(توبہ قبول کرنا اللہ تعالی کے ذمہ ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو لاعلمی سے کوئی گنا ہ کر بیٹھیں پھر قریب وقت میں توبہ کر لیتے ہیں سوایسوں پر اللہ تعالی توجہ فرماتے ہیں اور اللہ تعالی خوب جانتے ہیں، حکمت والے ہیں،اور اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرتا جو برابر گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو تو وہ کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں)۔

اس کی تفسیر میں ایک مفسر رقم طراز ہیں :

”قرآن کی لطافت و بلاغت یہ ہے کہ قانون اور سزا کو محض ضابطے کے طور پر نہیں بلکہ اسے نصیحت اور خیر خواہی کے طور پر بیان اور نافذ کرتا ہے۔بدکار لوگوں کی سزا کا ذکر کرنے کے فورا بعد توبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ جہالت سے سرزد ہونے والے گناہ کے فورا بعد توبہ کریں گے ان کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا“۔ [3]

جہالت میں گناہ کر بیٹھنا، اس سے متعلقہ تعریف سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے شاگرد سے بیان کرتے ہیں کہ

”حضرت عکرمہ ؓ فرمایا کرتے تھے جو کام بھی اللہ کی تابعداری سے خارج ہو وہ جہالت تصور کیا جائے گا لہذا جس شخص سے گناہ سرزد ہو اسے فوراً توبہ کرنی چاہیئے“۔ [4]

ایک اور مفسر اس کو یوں بیان کرتے ہیں کہ

”جہالت کے معنی عربی میں صرف نہ جاننے کے نہیں آتے بلکہ اس کا غالب استعمال جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی شرارت یا ظلم یا گناہ کا کام کر گزرنے کے معنی میں ہے۔ اور یہ لفظ عام طور پر علم کی بجائے حلم کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے“۔ [5]

یعنی انسان کے جذبات نے اس کوابھارا اور وہ نافرمانی پر اتر آیا مگر بعد میں اس کے ضمیر نے ملامت کیا، اللہ تعالی کا خوف دل میں آیااور شرمندہ ہو کر توبہ تائب ہوا، اللہ اس کا گناہ جو جہالت کی بنا پر ہوا اس کو معاف کرتے ہوئے توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔ چناچہ لکھتے ہیں :

”اللہ تعالی کے اوپر صرف ان کی توبہ کا حق قائم ہوتا ہے۔ جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی برائی کر لیتے ہیں انہیں کی توبہ اللہ تعالی قبول فرماتا ہے“۔ [6]

آیت کے دوسرے حصہ میں ہے کہ وقت موت سے پہلے توبہ تائب ہو۔ توبہ کا دروازہ انسان کے لیے ہر وقت کھلا ہی رہتا ہے، مگر یہ بات کہ موت کی گھڑی یا ملک الموت کے آنے سے قبل تائب ہو جائے۔ حافظ صلاح الدین یوسفؒ لکھتے ہیں کہ:

”قرآن پاک میں اللہ نے بار بار توبہ کی اہمیت و قبولیت کو بیان فرمایا“ [7]

﴿وھو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہٖ﴾ [8]

(وہ رب اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے)۔

﴿الم یعلموا انّ اللہ ھویقبل التوبۃ عن عبادہٖ﴾ [9]

(کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے)۔

حدیث میں آتا ہے کہ

"إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِر" [10]

(اللہ اپنے بندو ں کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اسے موت چھو نہ لے۔ یعنی جان کنی کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی)۔

آیت اور حدیث مبارکہ میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالی توبہ کو قبول فرماتا ہے اور توبہ یہ ہے آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کیاجائے اور موت کے وقت سے پہلے توبہ کی جائے۔یقینا یہ تفسیر ایک گناہ گار کے لیے ایک بہت بڑا حوصلہ ہے اور اس کے ذہن کو اطمینان بخشتی ہے او ر وہ شخص اپنے گناہوں سے تائب ہونے کے لیے جد و جہد کرتا ہے اور اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہوسکتی ہے۔ اور نزع سے مراد وہ وقت ہے جب مرنے والے کو دنیا کی بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔حضور ﷺ نے فرمایاکہ

"کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاء ٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِینَ التَّوَّابُون" [11]

(آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں)۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ بہترین غلطیاں کرنے والے وہ ہیں جو توبہ تائب ہوتے ہیں۔یعنی معافی طلب کرنے والے گناہ کر کے اسی حالت پر قائم رہنے والوں سے کہیں بہتر ہیں۔ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ

”التَّائبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ"[12]

(گناہ سے توبہ کرنے والا‘ گناہ نہ کرنے والے کے برابر ہو جاتا ہے)۔

توبہ کی شرائط کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم ہو،آئندہ گناہ سےرک جانے کا عہداور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے“۔ [13]

یعنی گناہ کرنے کے بعد آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم، گناہ پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ معافی کا طلب گار ہو گا تو یہ توبہ قبول ہو گی اور تب ہی جا کر انسان ذہنی سکون اور اطمینان کی کیفیت سے لطف اندوز ہو گا۔کیونکہ توبہ کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے سکون قلب ملتا ہے۔ جیسے ملفوظات حکیم حضرت اشرف علی تھانوی میں ہے کہ

”استغفار کی جہاں بارش ہو گی وہاں ہی قلب پر سکون کی بارش ہوگی، آپ توبہ کریں کہ خدا کے آگے گڑگڑانے اور استغفار کرنے کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ دل کو سکون ملتا ہے“۔[14]

اور دوسرے نمبر پر یہ مثال دیتے ہیں کہ

”جس طرح بارود کے ڈھیر کو معمولی سی دیا سلائی جلا کر ختم کر دیتی ہے۔اسی طرح بارگاہ خداوندی میں ندامت کے دو آنسو عمر بھر کے تمام گناہوں کو ختم کر کے رکھ دیتے ہیں نیز گناہوں سے پاکیزگی کے لیے توبہ و استغفار کو وہ صابن قرار دیتے ہیں"۔[15]

ارشاد باری تعالی ہے کہ

﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ﴾[16]

(میری (جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو جاؤ، با لیقین اللہ تمام گناہوں کو بخشش دیتا ہے۔واقع ہی وہ بڑی بخشش، بڑی رحمت والا ہے)۔

یہ آیت مبارکہ اللہ تعالی کے ان بندوں کے لیے ہے جو گناہوں کی زندگی بسر کرنے کے بعد بخشش و معافی کے امید وار ہیں، بڑی حوصلہ افزا، امیداور اطمینان بخشش ہے جیسا کہ حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:

”اس آیت میں اللہ کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط ہے۔ (اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو) کا مطلب ہے ایمان لانے سے قبل یا توبہ استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے ہی گنا ہ کیے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ کیو نکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچے دل سے ایمان قبول کرے گا یا توبۃ النصوح کرے گا تو اللہ تعالی تمام گناہ معاف فرمادے گا“۔[17]

اس آیت کریم کے نزول نے ان لوگوں کو تسلی دی اور ذہنی تسکین بہم پہنچائی کہ اسلام قبول کر لینے سے سابقہ تمام تر گناہ بخش دیے جائیں گے اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہ کیوں نہ ہوں۔اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جانتے، بوجھتے اور سمجھتے ہوئے گناہ اس امید پر کرنا کہ اللہ معاف فرمانے والا ہے۔ ایسا فعل موجب سزا ہو گا۔یہاں مفسر ہذا نے سورۃ الحجر کی اس آیت کا اشارہ بھی دیا ہے کہ

﴿نَبیِّءْ عِبَادِیْ أَنِّیْ أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْم﴾[18]

(میرے بندوں کو آگاہ کر دیں میں بہت بخشش والا اور رحم کرنے والا ہوں)۔

دوسرے مفسرکے بقول اللہ نے اپنے بندوں کو بہت دِل رُبا انداز میں بلایا ہے۔جنہوں نے بہت بڑے بڑے جرائم کیے ہیں۔ جیسے فرمایا کہ:

”اے میرے بھٹکے ہوئے بندو! تمہیں مایوس ہونے اور کہیں جانے کی ضرورت نہ ہے آو میری بارگاہ میں آجاؤ تم جیسے بھی ہو میرے بندے ہو میر ی رحمت بے کنار ہے۔لہذا میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا، یقین کرو میں تمھارے تمام کے تمام گناہ معاف کر دوں گا۔کیونکہ میں معاف کرنے والا مہربان ہوں“ [19]

لیکن بقول شاعر۔[20]

ؔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بارگاہ الہی میں ناد م ہو جائیں تب ہی بات بنے گی۔اب اس سے بڑھ کر ذہنی اطمینان و سکون والی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ﴾[21]

(وہ لوگ! جو اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے)۔

اور

﴿ اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَکَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴾[22]

(مگر جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے یہی وہ لوگ ہیں،اللہ تعالی جن کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اللہ تعالی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے)۔

"یعنی آپﷺ نے ایک آیت کے ساتھ دوسری آیت جوڑی اور بتلایا کہ معافی کی صورت ہر حال میں ہے"۔ [23]

بس شرط یہ ہے کہ توبہ صحیح معنوں میں کی جائے تا کہ توبہ کے فوائد کو کما حقہ سمیٹا جا سکے۔ قرآن کریم میں سورۃ طٰحہ آیت ۲۸ کے تحت مفسر لکھتا ہے:

﴿وَإِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہْتَدَی﴾) [24]

مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں:

۱۔توبہ: یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آنا۔

۲۔ایمان: یعنی اللہ تعالی اور رسولﷺ اور کتاب اور آخرت کو صدق دل سے مان لینا۔

۳۔عمل صالح: یعنی اللہ تعالی اور اس کی ہدایت کے مطابق نیک عمل کرنا۔

۴۔راہ راست پر ثابت قدم رہنااور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا۔ [25]

مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ توبہ کی جائے تو یقینا اللہ کریم توبہ قبول فرماتے ہیں۔ گناہ نیکیوں میں بدل دیتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللَّہِ مَتَابا﴾[26]

(جو شخص توبہ کر کے نیک عمل اختیار کرتا ہے وہ اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے)۔

یعنی فطرت کے اعتبارسے بھی بندے کا اصلی مرجع اللہ مالک الملک کی بارگاہ ہے اور اخلاقی حثیت سے بھی وہی ایک بارگاہ ہے جس کی طرف اسے پلٹنا ہے۔ اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی اسی بارگاہ کے حضور پلٹنا مفید ہے۔ورنہ دوسری کوئی جگہ نہیں جہاں رجوع کر کے سزا سے بچ سکے یا ثواب پا سکے۔بندہ مومن توبہ کرتاہے اور اس امید کے ساتھ کہ اس نے رب تعالی کے پاس بھی جانا ہے تو یہ بات اس کے لیے مزید قابل اطمینان اور تسلی بخش ہے۔ماں کی محبت اللہ کریم کی رحمت کو محسوس کرنے کے لئے ہماری مدد کرتی ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔[27]

ؔجہاں میں نہ کہیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

میرے جرم خانہ خراب کوتیرے عفو بندہ نواز میں

قرآن اور مسابقت

قرآن کریم نے اللہ کے بندوں کو دو مقامات پر آپس میں مسابقت (مقابلے) کی دعوت دی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَسَارِعُواْ إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْن﴾[28]

(اللہ سے بخشش اور جنت کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو(مقابلہ کرو) وہ جنت جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمیں کے برابر ہے جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے)۔

احتشام الحق کاندھلوی ؒصاحب لکھتے ہیں کہ

”انسان کے لیے نہایت تسلی اور تشفی ہے کہ اپنے گناہوں اور خطاؤں سے گھبرائے نہیں بلکہ حق تعالی کی رحمت کا امید وار ہو کر اس سے مغفرت طلب کرے اس کے لیے کوئی بھی چیز دشوار نہیں اور اس کی رحمت کے سامنے گناہوں کی کثرت کچھ بھی وقعت نہیں رکھتی“ [29]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ

”توبہ کرنے سے مراد ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنا، اور ایمان لانے سے مراد اپنے رب پر ایمان لاناہے“۔[30]

انہوں نے بھی اسی بات کا حوالہ دیا ہے :(وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَر...)[31]۔ ان آیات کے متعلق ہی (قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا...)[32]۔بھی نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا کہ ہم نے نا حق قتل بھی کیے ہیں، دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کی ہے اور بے حیائی (زنا)کا ارتقاب بھی کیا ہے۔ ہم مسلمان ہو ئے تو ہمارا کیا ہو گا؟اس پر یہ آیت (إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ...) [33]۔نازل ہوئی۔[34]

یقینا یہ بات ان مشرکوں اور کافروں کے لیے باعث اطمینان بن گئی جب وہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پہلے کیے ہوئے گناہوں سے ڈر رہے تھے۔ اب اللہ نے ان کے لیے آسانیاں پیدا فرماتے ہوئے ان کے ایمان لانے کی راہ آسان فرما دی اور اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اطمینان اور سکون بھی تاحیات ملا کہ پرانے گناہ ختم ہو گئے ہیں ان میں کوئی محاسبہ نہ ہو گا۔

جیسا کہ علامہ بغویؒ کے حوالہ سے قاضی صاحب ج8پہ لکھتے ہیں کہ

”رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم دو سال تک آیت (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَر...) [35]۔تک پڑھاکرتے تھے پھر دو سال بعد یہ حصہ نازل ہوا”إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ...“ [36]۔اور آیت”انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر“[37]۔کے نازل ہونے پراتنا خوش رسول اکرم ﷺ کو دیکھا اتنا خوش میں نے حضور ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا تھا“۔ [38]

یعنی معافی اور توبہ کے متعلق آیت کا نازل ہونا ہمارے نبی ﷺ کے لیے خود باعث تسلی و اطمینان ثابت ہوااور آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا کہ وہ لوگ جو اسلام قبول کرنے سے پیچھے تھے وہ بھی آسانی سے اسلام قبول کر سکیں گے۔ گویا آپ ﷺ کے لیے لوگوں کا اصلاح کرنا بھی باعث طمانیت تھا۔ اور جب بندہ مسلمان ہو گیا اور خطائیں بھی معاف ہو جائیں تو باری تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ

﴿وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُواْ اللّہَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِہِمْ وَمَن یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّہُ وَلَمْ یُصِرُّواْ عَلَی مَا فَعَلُواْ وَہُمْ یَعْلَمُون﴾[39]

(اوروہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام یا اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور کون ہے اللہ کے سواء گناہوں کو بخشنے والا اور وہ لوگ اپنے کیے ہوئے (گناہوں) پر جانتے ہوئے ڈٹے نہی رہتے)۔

بہت بڑی اطمینان والی بات ہے کہ گناہ ہو گیا تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے فرمایا کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے استغفار کریں اللہ معاف فرمائے گا۔ جیسا کہ ایک مفسر لکھتے ہیں:

”نیک لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ گناہ کا ارتقاب نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شیطان کی طرح اپنی غلطی پر اسرار کرتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر استغفارکرتے ہیں۔اور ان کا صلہ ان کے رب کے ہاں بخشش اور جنت ہے جس کے نیچے نہریں چلتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ لوگ بہترین اجر پائیں گے“۔[40]

مومن لوگ جان بوجھ کر تو گنانہ نہیں کرتے پھر سہواً یا غلطی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تووہ پریشان ہو جاتے ہیں مومنوں کو ذہنی سکون بہم پہنچانے والی یہ آیت مبارکہ اللہ نے نازل فرمائی۔ جیسا کہ مولانا کیلانی فرماتے ہیں:

”پرہیز گار لوگ دیدہ دانستہ نہ کوئی براکام کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہوا ّ بتقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں اور جب انہیں غلطی کا احساس ہو جاتاہے تو فورا اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں“ ۔[41]

مگر یہاں پر اسی مفسر نے یہ بھی ضروری وضاحت فرمائی ہے کہ

”اگر برائی کا یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالی غفور رحیم ہے وہ یقینا معاف فرما دے گا۔لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہوتو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے۔ اور یہ استغفار (توبہ) کی اہم شرط ہے“ ۔[42]

معافی مانگنے اور اللہ تعالی سے توبہ تائب ہونے کے لیے جو سوالات بندوں کے ذہن میں آسکتے ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا دوبارہ گناہ کر کے بھی معافی مل سکتی ہے؟ یا کتنی بار معافی مل سکتی ہے۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے اسی مفسر نے جواب دیا ہے :

”گناہ پر اسرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد بھی گناہ ہی کرتے جانااصل گناہ سے بڑا گناہ ہے۔اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقینا متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک گناہ سرد ہو گیا تو اس کی معافی مانگ لی۔ پھر دوسرا ہو گیا اس کی بھی معافی مانگ لی، پھر کوئی اور ہو گیا تو اس کی بھی معافی مانگ لی،اسی طرح اگر دن میں ستر بار بھی معافی مانگی جائے تو اللہ معاف فرما دیتا ہے“۔[43]

اللہ تعالی نے توبہ کو بے حد پسند فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں کئی مقامات پر ترغیب دی ہے کہ توبہ تائب ہو جاؤ، گناہوں سے معافی مانگ لو،میرے بندے توبہ کرنے والے، میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے جیسی ترغیبات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا کہ

﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً۔ یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً۔ وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً﴾[44]

(پس کہا میں نے کہ مغفرت مانگو اپنے پروردگار سے بے شک وہ مغفرت کرنے والا ہے۔ تم پر بارش برسائے گا بکثرت اور تم کو مال و اولاد سے نوازے گا۔ بنائے گا تمہارے لیے باغات اور جاری کر دے گا تمہارے لیے نہریں)۔

یہ آیت کریمہ بندہ مومن کے ذہنی سکون و اطمینان، فرحت و خوشی کے لیے بڑی ترغیب ہے کہ توبہ و استغفار کرنے سے درج ذیل فوائد بیک وقت مل رہے ہیں۔

۱۔قحط سالی دور ہونا۔

۲۔مال کا ملنا۔

۳۔اولاد کی نعمت کا عطا ہونا۔

۴۔جنت کا ملنا۔

۵۔نہروں کا جاری ہونا۔

خلاصہ

دنیا کی بڑی نعمتوں میں سےمال اور اولاد کا ملنا ہے۔ اور انسان سب سے زیادہ انہی دو چیزں کا متمنی رہتا ہے۔ فخر کے بھی یہی اسباب ہیں۔ لا محالہ خوشی اور تمانیت بھی انہی کو سمجھتا ہے۔ آخرت میں جنت کا ملنا کامیابی کی معراج ہے اور بھی تسکین کی علامت ہے۔ ایک کام کرنے سے جب اتنا سارا سکون اور اطمینان ملے تو کیوں نہ توبہ و استغفار کو اپنا وطیفہ بنا لیا جائے۔ آئیے توبہ تائب ہونے اور استغفار کرنے میں جلدی کریں۔ اللہ تعالی کی طرف سے دنیاوی اور آخروی انعامات کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالی کا قرب‘اس کی محبت‘حقیقی اطمینان اور سکون حاصل کریں۔

This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)

حوالہ جات

  1. ۔ صحیح مسلم، أبو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري،(المتوفى : ھ261)، : دار الجيل ببيرت ، سنہ1334ھ۔، کتاب البر و الصلہ والاداب، باب البر والاثم، ح 2553
  2. ۔ النساء 4 : 17-18
  3. ۔ فہم القرآن ، میاں محمد جمیل ایم اے،ابو ھریرہ اکیڈمی لاہور،ط اول ، ج 1 ص 664
  4. ۔ ایضا
  5. ۔ تدبر قرآن ،آمین احسن اصلاحی ،فاران اکیڈمی لاہور،ط اول 1997، ج 2 ص 266
  6. ۔ ایضا
  7. ۔ القرآن الکریم ترجمتہ و معانیہ وتفسیرہ الی اللغۃالعربیۃ‘صلاح الدین یوسف‘شاہ فہد پرنٹنگ کیپلیکس سعودی عرب، ص 160
  8. ۔ الشورٰی 42 : 25
  9. ۔ التوبہ 9 : 104
  10. ۔ قرآن و تفسیرہ الی اللغۃ الاردیۃ، ص 160/ سنن الترمذي ،محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279ھ)،المحقق: بشار عواد معروف،دار الغرب الإسلامي – بيروت،سنۃ النشر: 1998 کتاب صفۃ القیامۃ، ح2499
  11. ۔ فہم القرآن ، ج 1، ص 265/ سنن ابن ماجہ، ابن ماجہ،أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273ھ)،المحقق: شعيب الأرنؤوط ،،: دار الرسالہ العالميہ، الطبعۃ الأولى، 1430 ھ 2009 ، کتاب الزھد، باب ذ کر التوبہ
  12. ۔ ایضا / سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذ کر التوبہ
  13. ۔ ایضا
  14. ۔ لوٹ آو اللہ کی طرف المعروف سکون قلب، از افادات اشرف علی تھانوی و دیگرؒ،مشتاق بک سنٹر لاہور ص 231
  15. ۔ ایضا ملخص
  16. ۔ الزمر 39 : 53
  17. ۔ قرآن و تفسیرہ الی اللغۃ الاردیۃ، ص1307
  18. ۔ الحجر 15 : 39
  19. ۔ فہم القرآن، ج5، ص 635
  20. ۔ جواب شکوہ، علامہ اقبال
  21. ۔ الفرقان 25 : 68
  22. ۔ الفرقان 25 : 71
  23. ۔ ملخص فہم القرآن، ج5، 637
  24. ۔ طحہ 20 : 82
  25. ۔ تفہیم القران ج 3 ، ص 112
  26. ۔ الفرقان 25 : 71
  27. ۔ علامہ اقبال ، غزل کا نام "کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں"
  28. ۔ آل عمران 3 : 133
  29. ۔ حقیقت ذکر، احتشام الحق کاندھلوی، مشتاق بک سنٹر لاہور،ص 138
  30. ۔ تفسیر مظہری ، قاضی ثناءاللہ پانی پتیؒ،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ،ج 8،ص 489
  31. ۔ الفرقان 25 : 71
  32. ۔ الفرقان 25 : 68
  33. ۔ الزمر 39 : 53
  34. ۔ تفسیر مظہری ،ج 8،ص 489
  35. ۔ الفرقان 25 : 71
  36. ۔ الفرقان 25 : 68
  37. ۔ الفرقان 25 : 71
  38. ۔ تفسیر مظہری ،ج 8،ص 490
  39. ۔ آل عمران 3 : 135
  40. ۔ فہم القرآن، ج1، ص570-571
  41. ۔ تیسیر القرآن،مولنا عبد الرحمان کیلانی ؒ، مکتبہ السلام لاہور،ج1 ، ص288
  42. ۔ تیسیر القرآن، ج1 ، ص289
  43. ۔ ایضا
  44. ۔ نوح 71 : 10
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...