Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of International Research Journal on Islamic Studies

قرآن و حدیث کی روشنی میں تعمیر کردار و شخصیت اور نصاب اسلامیات: ایک تنقیدی مطالعہ |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

قرآن و حدیث کی روشنی میں تعمیر کردار و شخصیت اور نصاب اسلامیات، ایک تنقیدی مطالعہ

شخصیت کی جامع مانع تعریف کرنا مشکل ہے سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور غیر اکتسابی(قدرتی) و اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ تمہارے دوست کی شخصیت کیسی ہے تو ہم جواب میں فورا اس کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی اور مخلص ہیں ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

شخصیت اور کردار کی تعمیر دین کا اہم ترین موضوع ہے اللہ نے اپنی جو ہدایات انبیاء کرام کے ذریعے دنیا میں بھیجی ہیں ان کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے اسی کا نام تزکیہ نفس ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ [1]

ترجمہ : "وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے"۔

انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے ملیں گے جو کہ قدرتی صفات کہلاتی ہیں دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر سکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے انہیں حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ اقتصادی خصوصیات وصفات کہلاتی ہیں ۔قدرتی صفات میں ہمارا رنگ و نسل ،شکل و صورت کی جسمانی ساخت ،ذہنی صلاحیت وغیرہ شامل ہیں ۔اقتصادی خصوصیات میں انسان کی علمی سطح اس کا پیشہ اور اس کی فکر وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو دلکش اور پرکشش بنانے کے لئے اپنی قدرتی صفات جن کو ہم غیراقتصادی خصوصیات کہتے ہیں ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے۔شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلی و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے اعلی ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آتا، آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔قرآن کریم کی روشنی میں تعمیر شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں۔

قرآن حکیم کی روشنی میں تعمیر شخصیت

اللہ تبارک و تعالٰی قران حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:

قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ۔ [2]

ترجمہ:" یقیناً فلاح پا گیا جس نے (اپنے) نفس کو پاک کرلیا، اور یقیناً نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں دبا دیا"۔

یہ ہے وہ حقیقت جس کو آشکارا کرنے کے لیے اتنی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ فرمایا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب وکامران ہوگیا اور جس نے اسے گناہوں کی خاک میں دبادیا وہ خائب ہوا۔

علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

التزکیۃ الانماء والاعلاء والتدسیۃ النقص والاخفاء

جو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھتا ہے، اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرتا ہے، اس کی فطرت سلیمہ، نشوونما پاتی ہے، اس کی قوت وتوانائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص اپنے اندر ایسا عزم اور ہمت محسوس کرتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل کام کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے، راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو وہ کوئی وقعت نہیں دیتا۔ نہایت ثابت قدمی سے نیکی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ اس کی زندگی کا دامن اعمال حسنہ اور روشن کارناموں سے لبریز ہوجاتا ہے۔ اس کی روحانی قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور آخر کار وہ اس منزل پر فائز ہوجاتا ہے جس کے بارے میں حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے۔

اکون بصرہ الذی یبصربہ [3]

ترجمہ: "میرا نور اس کی بینائی بن جاتا ہے اور وہ مجھ سے دیکھتا ہے"۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ [4]

ترجمہ: "یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی"۔

یعنی آدمی کو بہت خاص نعمتیں عطا کیں‘ حسن صورت۔ سب سے زیادہ معتدل مزاج‘ قد کا اعتدال‘ عقل سے اشیاء میں امتیاز‘ زبان‘ تحریر اور اشاروں سے سمجھانے کی قوت معاش و معاد کی ہدایت‘ زمین کی موجودات پر تسلط یعنی تمام چیزوں سے کام لینا اور مختلف ہنر اور پیشے اور تمام مادی عنصری اور فلکی کائنات کا ربط تاکہ انسان کو مختلف منافع حاصل ہوں اور اسباب رزق فراہم ہوں‘ پھر دوسرے جانوروں کے برخلاف آدمی کو ہاتھ سے اٹھا کر اور پکڑ کر کھانے کی تعلیم یہ تمام امور انسان کے لئے مخصوص کئے پھر محبت و عشق کا جذبہ معرفت وحی اور مراتب قرب کی عطا بھی انسان پر خاص کرم ہے۔ حاکم نے تاریخ میں اور دیلمی نے حضرت جابربن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انگلیوں سے کھانا بھی (انسان کے لئے اللہ کی طرف سے) عزت بخشی ہے۔ [5]

قرآن کریم میں گفتگو کے آداب کے بارے میں ارشادات

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۭ[6]

ترجمہ: "اور آپ حکم دیجیے میرے بندوں کو کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہت عمدہ ہوں"

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ میرے بندوں کو یہ بتا دو کہ باہمی گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ادب و احترام کا خیال رکھیں۔ کوئی ایسی بات زبان پر نہ آئے جس نے کسی کا دل مجروح ہو۔ کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہو جس سے کسی کی دل شکنی ہو۔ تمہارے سامنے ایک عظیم مقصد ہے جس کی تمہیں تکمیل کرنا ہے۔ جب تک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح یکجان اور مضبوط نہ ہوگے اس وقت تک اس مقصد کی تکمیل نہ ہو سکے گی۔ [7]

وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ [8]

ترجمہ: "اور چل بیچ کی چال اور نیچی کر آواز اپنی بے شک بری سے بری آواز گدھے کی آواز ہے"۔

یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، نہ بہت دوڑ بھاگ کر چلو کہ وہ وقار کے خلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ چلنے میں بہت جلدی کرنا مومن کی رونق ضائع کردیتا ہے۔ (جامع صغیر عن ابی ہریرہ) اور اس طرح چلنے میں خود اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو تکلیف بھی پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے، اور نہ بہت آہستہ چلو، جو یا تو ان تکبر اور تصنع کرنے والوں کی عادت ہے جو لوگوں پر اپنا امتیاز جتانا چاہتے ہیں، یا عورتوں کی عادت ہے جو شرم وحیا کی وجہ سے تیز نہیں چلتیں، یا پھر بیماروں کی عادت ہے جو اس پر مجبور ہیں۔ پہلی صورت حرام اور دوسری بھی اگر عورتوں کی مشابہت پیدا کرنے کے قصد سے ہو تو ناجائز ہے اور یہ قصد نہ ہو تو پھر مردوں کے لئے ایک عیب ہے۔ اور تیسری صورت میں اللہ کی ناشکری ہے، کہ تندرستی کے باوجود بیماروں کی ہئیت بنائے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ صحابہ کرام کو یہود کی طرح دوڑنے سے بھی منع کیا جاتا تھا اور نصاریٰ کی طرح بہت آہستہ چلنے سے بھی۔ اور حکم یہ تھا کہ ان دونوں چالوں کی درمیانی چال اختیار کرو۔ [9]

وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ [10]

ترجمہ:"اور بچو جھوٹی بات سے"۔

قول زور سے مراد جھوٹ ہے، حق کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل اور جھوٹ میں داخل ہے خواہ عقائدہ فاسدہ شرک و کفر ہوں یا معاملات میں اور شہادت میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب کبیرہ گناہوں میں سے بڑے کبیرہ یہ گناہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور عام باتوں میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری لفظ وَقَوْلَ الزُّوْرِ کو بار بار فرمایا ۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ [11]

ترجمہ: "اور (تکبر کرتے ہوئے) نہ پھیر لے اپنے رخسار کو لوگوں کی طرف سے اور نہ چلا کر زمین میں اتراتے ہوئے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا کسی گھمنڈ کرنیوالے، فخر کرنیوالے کو"۔

بقول علامہ ابن منظور:

"صعر اونٹوں کی ایک بیماری کا نام ہے۔ جب یہ لگتی ہے تو اونٹ کی گردن ٹیڑھی ہوجاتی ہے" [12]

بقول علامہ ابن اثیر :

"مرح اس نشاط کو کہتے ہیں جس میں خفت یعنی ہلکا پن اور سبکی پائی جائے۔ جس طرح کم ظرف لوگ خوشی اور مسرت کے وقت ادب و اخلاق کے تقاضوں کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ حیاء اور مروت کی چادر بھی اتار کر پرے پھینک دیتے ہیں۔ اور ایسی ناشائستہ حرکتیں کرتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر شم کی آنکھ نمناک ہوجاتی ہے"[13]

علامہ ابن منظور لسان العرب میں مختال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "مختال اس لاف زنی کرنے والے نادان کو کہتے ہیں جو اپنے غریب رشتہ داروں سے نفرت کرتا ہے اور مفلس پڑوسیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا۔

فخور مبالغہ کا صیغہ ہے بہت اترانے والا۔ فخر کرنے والا۔ خصوصا وہ شخص جو ایسی چیزوں پر فخر کرے جو اس کے ذاتی کمالات سے نہیں، بلکہ خارجی امور کی بنا پر اترائے مثلاً مال و دولت، جاہ و منصب وغیرہ۔"[14]

متقین کی صفات کا بیان

قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے:

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ [15]

ترجمہ:"وہ (پرہیز گار) جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں اور تنگ دستی میں اور ضبط کرنے والے ہیں غصہ کو اور درگزر کرنے والے ہیں لوگوں سے اور اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے احسان کرنے والوں سے"

یہاں سے متقین کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کے لئے جنت کی بہاریں چشم براہ ہیں۔ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ خوش حالی میں اور تنگ دستی وافلاس میں اپنا عزیز مال اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ ایسا کرنا کمال تقویٰ کی واضح علامت ہے۔ اس صفت کو سب سے پہلے ذکر کیا گیا۔ کظم غیظ ان کی دوسری صفت ہے۔ غیظ شدت غضب کو اور کظم بھری ہوئی مشک کے منہ باندھنے کو کہتے ہیں بعض اوقات ایسی ناپسندیدہ حرکات اور جرر رساں امور رونما ہوتے ہیں جن سے انسان برافروختہ ہوجاتا ہے اور جذبہ انتقام سے اس کا دل لبریز ہوجاتا ہے۔ ایسے حال میں اپنے غصہ کو پی جانا بے شک بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس کی تیسری صفت عفو ہے۔ عفو کہتے ہیں باوجود قدرت کے انسان کسی کی خطا اور ضرر رسانی پر صرف خاموش ہی نہ رہے بلکہ دل سے اسے معاف بھی کر دے۔ ھو التجافی عن ذنب المذنب مع القدرۃ علیہ۔ یہ چیز کظم غیظ سے اعلیٰ ہے۔ ان کی چوتھی صفت احسان ہے۔ یہ مرتبہ تمام پہلے مراتب سے بلند تر ہے کہ انسان دشمن سے انتقام بھی نہ لے۔ اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پر لطف واحسان بھی کرے۔ اس کی جلالت شان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اسلوب کلام بدل دیا۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ ان کو محبوبیت کا شرف بخشا جاتا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا [16]

ترجمہ: "رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام

عربی میں جاہل کا معنی اَن پڑھ یا بےعلم آدمی نہیں ‘ بلکہ اس سے مراد اجڈ اور مشتعل مزاج شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتاؤ کرے"

"عباد الرحمن کی یہاں صفت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ جاہل اور اجڈ قسم کے لوگ ان کی بات کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کی بجائے پنجابی محاورہ کے مطابق ان سے محض سینگ پھنسانا چاہتے ہیں یعنی انہیں خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں الجھانا چاہتے ہیں تو انہیں سلام کرکے وہ اپنی راہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ایسی گفتگو یا بحث سے وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک سمجھدار اور معقول آدمی کو چاہیے کہ وہ مناسب انداز میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے ‘ لیکن جب اسے محسوس ہو کہ اس کا مخاطب جان بوجھ کر بات کو سمجھنا نہیں چاہتا اور خواہ مخواہ کی بحث میں الجھنا چاہتا ہے تو وہ کسی قسم کی بد مزگی پیدا کیے بغیر خود کو ایسی صورت حال سے الگ کرلے ۔"[17]

وہم و گمان اور ظن نہ کرنے کا حکم

ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا [18]

ترجمہ: "جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے "

یہاں امت مسلمہ کو یہ تعلیم بھی دی جا رہی ہے کہ وہم و گمان اور ظن و تخمین کے پیروکار نہ بنیں بلکہ علم ویقین کا روشن چراغ ہاتھ میں لے کر زندگی کے نشیب و فراز کو طے کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے چلیں۔ عقائد کی دنیا ہو یا عمل کا میدان اخلاق کا گلستان ہو یا معاملات کی پرخاروادی جہاں بھی زمام کار یقین کے ہاتھ سے نکل کر ظن و تخمین کے ہاتھ میں آئی۔ سمجھو کہ اب گرداب ہلاکت میں ڈوبا کہ ڈوبا ۔ مزید بتایا جا رہا ہے کہ ملت کا ہر فرد اپنے تمام افعال کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور میں جوابدہ ہے۔ اس کے دیکھنے کی قوتیں، اس کی عقل و فہم کی صلاحیتیں ہر ایک کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے انہیں کیسے اور کہاں استعمال کیا ہے۔ وہ قوم جس کو اس کے خالق نے واشگاف الفاظ میں احساس ذمہ داری کا درس دیا۔ وہی قوم آج اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ کاش ! ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سچے دل سے کوشش کریں تو جن تکالیف پر ہم شکوہ سنج رہتے ہیں اور جن مصائب میں گھرے ہوئے ہیں وہ خود ہی ختم ہوجائیں گے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں کی بے راہ روی اور بے اعتدالی ہماری بے راہ روی اور بے اعتدالی کے لئے دجہ جواز نہیں بن سکتی۔ اگر آپ اپنے موجودہ معاشرہ سے مطمئن نہیں ہیں اگر آپ اصلاح احوال کے تہ دل سے خواہاں ہیں تو اس انتظار میں وقت ضائع نہ کیجئے کہ دوسرے لوگ ٹھیک ہو لیں تو میں بھی ٹھیک ہوجاؤں گا۔ اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے فرمائیے۔ آپ کو دیکھ کر کئی بگڑے ہوئے اصلاح پذیر ہوجائیں گے۔ [19]

ارشاد ربانی ہے:

وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ [20]

ترجمہ: "اور ہر جاننے والے سے اوپر ہے ایک جاننے والا"

یعنی ہر ذی علم مخلوق سے زیادہ اللہ علیم ہے۔ علیم کا معنی ہے : بہت زیادہ علم رکھنے والا (مراد اللہ) یا ہر ذی علم مخلوق سے اوپر دوسری ذی علم مخلوق ہے‘ خواہ یہ فوقیت علمی لحاظ سے ہو‘ جیسے حضرت خضر کو بعض اعتبار سے حضرت موسیٰ پر علمی فوقیت حاصل تھی (اگرچہ حضرت موسیٰ نبی مرسل ہونے کی وجہ سے صاحب شریعت تھے اور حضرت خضر پر علمی برتری رکھتے تھے‘ مگر بعض کائناتی واقعات کا انکشاف حضرت خضر کو تھا‘ حضرت موسیٰ کو نہ تھا) اسی بناء پر حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا : موسیٰ١ جو علم مجھے اللہ نے عطا فرمایا ہے‘ اس سے تم ناواقف ہو اور جو علم تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے‘ اس کو میں نہیں جانتا۔ یہ حدیث بخاری نے حضرت خضر و حضرت موسیٰ کے طویل قصہ کے ذیل میں نقل کی ہے۔ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : تم اپنی دنیا کے کاموں کو (خود ہی) مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص ہر اعتبار اور ہر حیثیت سے دوسرے سے برتر ہے ورنہ تسلسل علمی لازم آئے گا (اگر علم کی انتہا اللہ کی ذات پر نہ مانی جائے اور یونہی مخلوق میں باہم علمی برتری اور کامل برتری کا سلسلہ قائم کیا جائے تو یہ برتری کہیں جا کر نہیں ٹھہرے گی۔ علمی تسلسل کا یہی معنی ہے) حضرت ابن عباس نے فرمایا : ہر عالم کے اوپر دوسرا عالم ہے اور یہ سلسلہ اللہ کی ذات پر جا کر ختم ہوتا ہے‘ پس اللہ ہر عالم سے بڑھ کر علم رکھنے والا ہے۔

تمسخر اڑانے اور بد گمانی اور تجسس کی ممانعت

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ [21]

"اے ایمان والو! نہ تمسخر اڑایا کرو مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا شاید وہ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں مذاق اڑایا کریں دوسری عورتوں کا شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عیب لگاؤ ایک دوسرے پر اور نہ برے القاب سے کسی کو بلاؤ کتنا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا"

اس آیت میں مسلمانوں کو تمام ایسی باتوں سے سختی سے روکا جا رہا ہے جن کے باعث اسلامی معاشرہ کا امن و سکون برباد ہوتا ہے، محبت و پیار کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور خون خرابہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا حکم یہ دیا کہ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا کرو۔ مذاق اسی کا اڑایا جاتا ہے جس کی عزت اور احترام دل میں نہ ہو۔ جب آپ کسی کا مذاق اڑاتے ہیں تو گویا آپ اس چیز کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اس شخص کی میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ جب آپ اس کی عزت نہیں کرتے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کا احترام کرے۔ جب دلوں سے ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے تو انسان عداوت و دشمنی کی گہری کھڈ کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ کوئی رکاوٹ ایسی نہیں رہتی جو اسے اپنے انجام سے دو چار ہونے سے روک سکے۔ استہزاء کی کئی صورتیں ہیں۔ زبان سے مذاق کرنا، نقلیں اتار کر اس کا منہ چڑانا۔ اس کے لباس یا رفتار و گفتار پر ہنسنا سب ممنوع ہیں۔

لفظ لمذ کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔ اللمز : العیب فی الوجہ والاصل الاشارۃ بالعین والرأس والشفۃ مع کلام خفی۔کسی کے منہ پر اس کی عیب جوئی کرنے کو اللمز کہتے ہیں۔ اصل میں آنکھ، سر کے اشارے یا زیر لب آہستہ سے کسی کی عیب چینی کی جائے تو کہتے ہیں لمز فلان۔ لاتلمزوا فرما کر بتا دیا کہ کسی طرح بھی تمہیں یہ اجازت نہیں کہ اپنے بھائی کے عیب گنواؤ اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو اچھالتے رہو۔ مقصدیہ ہے کہ جس کی برائیاں کرتے تم نہیں تھکتے وہ کوئی غیر تو نہیں۔ تمہارا بھائی ہے۔ اس کی بدنامی تمہاری بدنامی ہے۔ اس کی فضیحت ہوئی تو شرمندہ تم ہوگے۔ اس سے یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ جب تم کسی کی پردہ روی کروگے تو وہ تمہارے عیوب و نقائص کو طشت ازبام کرے گا۔ تم اس کی عیب جوئی نہ کرتے تو وہ تمہاری نہ کرتا۔ اب تمہیں جو خجالت ہو رہی ہے یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا ثمر ہے۔ اگر اپنی عزت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو کسی کی عزت پر ہاتھ مت ڈالو۔

کسی اندھے کو اندھا اور کانے کو کانا کہنا بھی جائز نہیں۔ ہمیشہ ایسے اسماء اور القاب سے ایک دوسرے کو بلاؤ جس سے سننے والا خوش ہوتا ہوبڑے پیارے انداز سے اپنے بندوں کو تنبیہہ فرمائی جا رہی ہے کہ تم اب میرے ہوچکے ہو، تمہیں اب ایسی کوئی نازیبا حرکت نہیں کرنی چایے جس کی وجہ سے تمہیں بدکار اور فاسق کہا جائے۔ اگر تم اسلام قبول نہ کرتے، میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے اور شر بے مہار بنے من مانیاں کرتے رہتے تو تم سے کسی کو شکایت نہ ہوتی۔ اب تم مشرف بہ اسلام ہوچکے ہو۔ لوگ بجا طور پر تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم خیر و صلاع کا عملی نمونہ پیش کرتے رہو گے۔ نیکی اور پارسائی تمہارا شعار ہوگا۔ غلامان مصطفی کہلا کر اگر تم فسق و فجور سے اپنا دامن نہیں بچاتے تو بڑی بے حیائی اور افسوس کی بات ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا [22]

ترجمہ: "اے ایمان والو! دور رہا کرو بکثرت بد گمانیوں سے بلاشبہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کیا کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کیا کرو"

"انسان اپنے دل کو دوسروں سے متعلق بدگمانیوں کی پرورش گاہ نہ بنالے کہ جس کی نسبت جو براگمان بھی دل میں پیدا ہوجائے اس کو کسی گوشے میں محفوظ کرے۔ انسان کو جن سے زندگی میں واسطہ پڑتا ہے ان کی بابت کوئی اچھا یا برا گمان دل میں پیدا ہونا ایک امر فطری ہے۔ یہی گمان آدمی کو آدمی سے جوڑتا یا توڑتا ہے اس پہلو سے معاشرے میں یہ وصل و فصل کی بنیاد ہے۔ اس کی اس اہمیت کا تقاضا ہے کہ آدمی اس کے رد و قبول کے معاملے میں بھی بے پروا و سہل انکار نہ ہو بلکہ نہایت ہوشیار اور بیدار مغز ہے اہل ایمان کو اسلام نے اس بابب میں یہ رہنمائی دی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھے الا آنکہ یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اس نیک گمان کا سزاوار نہیں ہے۔ یہ نیک گمانی اس ایمانی اخوت کا لازمی تقاضا ہے جس پر اسلام نے معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اور جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے اگر کوئی شخص اس کے برعکس یہ اصول ٹھیرا لے کہ جو رطب و یا بس گمان اس کے دل میں پیدا ہوتے جائیں ان سب کو سنت کے رکھتا جائے تو گمانوں کے ایسے شوقین کی مثال اس شکاری کی ہے جو مچھلیاں پکڑنے کے شوق میں ایسا اندھا ہوجائے کہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے سانپ بھی پکڑ لے۔ ظاہر ہے کہ مچھلیوں کے شوق میں جو شخص ایسا اندھا بن جائے گا اندیشہ ہے کہ اسی شوق میں کسی دن وہ اپنی زندگی ہی گنوا بیٹھے گا۔ قرآن نے یہاں اسی خطرے سے مسلمانوں کو روکا ہے کہ گمانوں کے زیادہ در پے نہ ہو کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں جو انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے یہ تعلیم نکلی کہ ایک مومن کو بدگمانیوں کا مریض نہیں بن جانا چاہئے بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں سے حسن ظن رکھنا چاہئے۔ اگر کسی سے کوئی ایسی بات صادر ہو جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہو تو حتی الامکان اسکی اچھی توجیہ کرے اگر کوئی اچھی توجیہ نکل سکتی ہو۔ اس کے برے پہلو کو اسی شکل میں اختیار کرناجائز ہے جب اس کی کوئی اچھی توجیہ نہ نکل سکے۔ اگر بدگمانی کے سزا وار سے آدمی کو خوش گمانی ہو تو یہ اس بات کے مقابل میں اہون ہے کہ وہ کسی خوش گمانی کے حقدار سے بدگمانی رکھے۔

دوسری بات آیت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ ولاتجسسوا (ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لوگ) جس طرح اوپر والے ٹکڑے میں اچھے گمان سے نہیں بلکہ برے گمان سے روکا گیا ہے اسی طرح یہاں ممانعت اس ٹوہ میں لگنے کی ہے جو برے مقصد سے ہو۔ یعنی تلاش اس بات کی ہو کہ دوسرے کی پرائیویٹ زندگی سے متعلق کوئی بات ہاتھ آئے جس سے اس کی خامیوں سے آگاہی اور اس کے اندرون خانہ کے اسرار تک رسائی ہو۔ یہ چیز کبھی تو حسد کے جذبہ سے پیدا ہوتی ہے کہ حریف کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو سامنے آئے جس سے کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ کبھی بغض و عناد کی شدت اس کا باعث ہوتی ہے کہ کوئی ایسی بات ہاتھ لگے جس کی عند الضرورت تشہیر کر کے مخالف کو رسوا کیا جا سکے۔ اس زمانے میں اس نے ایک پیشہ کی شکل بھی اختیار کرلی ہے جس کو جدید اخبار نویسی نے بہت ترقی دی ہے۔ بعض اخبار نویس رات دن کسی نہ کسی اسکینڈل کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ شاطر وہ اخبار نویس سجھا جاتا ہے جو کسی نمایاں شخصیت کی پرائیویٹ زندگی سے متعلق کوئی ایسا اسکینڈل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے جس سے اس کا اخبار یا رسالہ ہاتھوں ہاتھ بکے۔ اس طرح کا تجسس ظاہر ہے کہ اس اخوت اور باہمی ہمدردی کے بالکل منافی ہے جو اسلامی معاشرہ کی اساس ہے، اسی وجہ سے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا ہے۔ رہا وہ تجسس جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حالات کا اس مقصد سے کرتا ہے کہ اس کی مشکلات و ضروریات میں اس کا ہاتھ بٹا سکے یا ایک اسلامی حکومت اس غرض سے کرتی ہے کہ رعایا کے حالات سے وپری طرح باخبر رہے تو یہ تجسس نہ یہاں زیر بحث ہے اور نہ یہ ممنوع ہے بلکہ ہر شریف پڑوسی کے لئے یہ نہایت نیکی کا کام ہے کہ وہ اپنے پڑوسویں کے حالات و مسائل سے آگاہ رہے تاکہ ان کی مشکلات میں انکی مدد کرسکے اور حکومت کے لئے تو یہ صرف نیکی ہی نہیں بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ رعایا کے اچھے اور برے دونوں طرح کے حالات سے پوری طرح باخبر رہنے کا اہتمام رکھے تاکہ اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہو سکے۔

تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ ولایغتب بعضکم بعضاً (تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے) غیبت کے معنی کسی کی اس کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنے کے ہیں۔"[23]

اجازت لینے کا حکم

اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا [24]

ترجمہ: "اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو"

"یہاں سے معاشرے میں بے حیائی پھیلنے کے بنیادی اسباب پر پہرہ بٹھانے کے لیے کچھ احکام دئیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس میں ایک تو حکمت یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بے جا مداخلت نہ ہو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ دوسرے بلا اجازت کسی کے گھر میں چلے جانے سے بحیائی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور اجازت لینے کا طریقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ باہر سے السلام علیکم کہا جائے، یا اگر یہ خیال ہو کہ گھر والا سلام نہیں سن سکے گا، اور اجازت دستک دے کر یا گھنٹی بجا کرلی جا رہی ہے تو جب گھر والا سامنے آجائے اس وقت اسے سلام کیا جائے۔"[25]

حسن سلوک کی ترغیب

اس سلسلے میں ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا [26]

ترجمہ: "اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا"

قرآن حکیم میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا تذکرہ ہے۔ یہ بھی ہمارے خاندانی نظام کے لیے بہت اہم بنیاد ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک ہو ‘ ان کا ادب و احترام ہو ‘ ان کی خدمت کی جائے ‘ ان کے سامنے آواز پست رکھی جائے۔ مخاطب کو یہ یاد دلایا جا رہا ہے کہ تیرا تعلق صرف گھر اور گھر والی سے ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ تیرا رشتہ اپنے خالق سے بھی ہے اور اس کی مخلوق سے بھی۔ ان کے حقوق کی ادائیگی بھی تم پر لازم ہے۔

مزید ارشاد پاک ہے کہ:

اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا [27]

ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠ [28]

نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو۔

خود نمائی کی ممانعت

ارشاد ربانی ہے:

فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ [29]

ترجمہ: "پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو"

بعض کم ظرف لوگ اپنی نیکیوں پر اترانے لگتے ہیں، اپنی پارسائی اور پرہیزگاری کے قصے جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں۔ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔ یہ خود نمائی اور خود ستائی ان کے سارے اعمال حسنہ کا بیڑا غرق کردے گی، اس لیے منع فرمایا جا رہا ہے کہ لوگوں پر اپنے تقویٰ اور نیکی کا رعب جمانے کی عادت ترک کردو، کیونکہ تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے جو تمہارے ظاہر اور باطن کو خوب جانتا ہے۔

حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت کی ترغیب

ارشاد پاک ہے کہ:

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ [30]

ترجمہ: "اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور ان کے ساتھ اس طریقہ سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے"

ایک نادان اور غیر تربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لئے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہوئے دلائل بودے اور کمزور ہونگے۔ اگر اس کا انداز خطابت درشت اور معاندانہ ہوگا۔ اگر اس کی تبلیغ اخلاص وللہیت کے نور سے محروم ہوگی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کر دے گا۔ کیونکہ اسلام کی نشرو اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے۔ اس کو قبول کرنے کے لئے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان، ایمان ہی نہیں جس کے پس پردہ کوئی دنیاوی لالچ یا خوف و ہراس ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت اسلامی کے آداب کی تعلیم دی۔ اس آیت کا ایک ایک لفظ غور طلب ہے۔ دین اسلام کو سبیل ربک کے عنوان سے تعبیر کرکے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دعوت کسی سیاسی جتھ بندی کے لیے، کسی معاشی گروہ سازی کے لیے نہیں دی جا رہی بلکہ اس راستہ کی طرف بلایا جا رہا ہے جو بندے کو اپنے مالک حقیقی کی طرف لے جاتا ہے جو دوری اور بیگانگی کے صحراؤں سے نکال کر قرب و لطف کی منزل تک پہنچانے والا ہے۔ اس جادہ منزل حبیب سے دور بھاگنے والوں کو قریب لانے کے آداب بتائے جا رہے ہیں۔ حکمت، موعظہ حسنہ اور پسندیدہ انداز سے مجادلہ۔ ان تین چیزوں کے التزام کا حکم فرمایا گیا۔ حکمت سے مراد وہ پختہ دلائل ہیں جو حق کو روز روشن کی طرف عیاں کردیں۔ اور شک و شبہ کی تاریکیوں کو نور یقین سے بدل دینے کی قوت رکھتے ہوں۔

عہد و پیمان کی اہمیت

ارشاد پاک ہےکہ:

وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚاِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا [31]

ترجمہ:"اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے"

وعدہ کرکے اس کو توڑنا اسلام کی نظر میں بڑا معیوب ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعدہ شکنی کو منافقت کی تین علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا ہے اس لئے یہاں ایفاء عہد کی تاکید کی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ اگر تم نے اس میں سستی کی تو تم سے باقاعدہ بازپرس ہوگی۔

مال ناحق لینے کی ممانعت

ارشاد باری تعالٰی ہے کہ:

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ [32]

ترجمہ:"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کرلیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔

اسلامی نظام معاشیات کا ایک اور قاعدہ بیان ہو رہا ہے۔ یعنی ناجائز طریقہ سے لوگوں کے مال نہ کھاؤ۔ "

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔

من اخذ مال غیرہ لاعلی وجہ اذن الشرع فقد اکل بالباطل[33]

وہ شخص جس نے ایسے طریقے سے مال حاصل کیا جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی تو اس نے باطل ذریعہ سے کھایا۔

فیدخل فیہ القمار والخداع والغصوب وحجد الحقوق وما لا تطیب بہ نفس مالکہ

اس میں جوا، دھوکہ دہی، زبردستی چھین لینا کسی کے حقوق کا انکار اور وہ مال جسے اس کے مالک نے خوشی سے نہیں دیا سب اکل باطل میں شامل ہیں۔

حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔

إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْهَا۔ [34]

تم میرے پاس جھگڑے چکانے کے لئے آتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے ایک فریق زیادہ چرب زبان ہو اور میں، (بفرض محال) اس کے حق میں فیصلہ دے دوں۔ اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دے دوں۔ اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دے دوں تو وہ ہرگز نہ لے، بے شک وہ اس کے حق میں آگ کا ایک ٹکڑا ہے۔

اگر ہمارا باہمی لین دین قرآن کے اس حکم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس واضح ارشاد کے مطابق ہوجائے تو کتنی مقدمہ بازیاں ختم ہوجائیں، ان کی پیروی پر جو بے محابا روپیہ اور بے انداز وقت ضائع ہوتا ہے وہ بچ جائے۔ ان مقدمہ بازیوں کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ قریبی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ باہمی محبت اور اخلاص کی جگہ نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر ہم قرآن کے اس حکم کو سچے دل سے مان لیں تو اسلامی معاشرہ ان سب خرابیوں سے پاک ہوجائے گا۔ اور اس کا ماحول اتنا پاکیزہ اور خوشگوار بن جائے گا جس کا ہم اس وقت تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کاش ! قرآن کو سینے سے لگانے والا مسلمان اس پر عمل کرنے کی اہمیت کا بھی احساس کرے۔ دوسروں کے مال ناجائز طور پر کھانے کا یہ بھی ایک مروج اور موثر طریقہ تھا جو اب بھی ہے کہ حکام کو رشوت دے کر ان سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لیا جائے۔ اس ناپاک طریقہ کی ممانعت کو الگ ذکر فرمایا۔

تعمیر شخصیت سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں

اخلاق کی اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَخْيَرِکُمْ أَحْسَنَکُمْ خُلُقًا [35]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کہ عادت کے اعتبار سے اچھا ہو۔

ایک اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ شَيْئٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ [36]

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میزان اعمال میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں۔

عمدہ اخلاق پر ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ:

عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِي نَفْسِکَ وَکَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ [37]

حضرت نو اس بن سمعان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نیکی عمدہ اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم لوگوں کا اس سے مطلع ہونا پسند نہ کرو۔

موطا امام مالک کی حدیث ہے کہ:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِکُلِّ دِينٍ خُلُقٌ وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَائُ [38]

زید بن طلحہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔

حسد کرنے والا اور غنی

ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:

عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ [39]

حضرت سالم (رضی اللہ عنہ) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کے سوا کسی پر حسد کرنا جائز نہیں ایک وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا فرمایا ہو اور وہ رات دن اس پر عمل کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کرتا ہو اور وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ رات اور دن اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہو۔

شکر بجا لانے کی ترغیب

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَشْکُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْکُرُ النَّاسَ [40]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ وہ شخص اللہ کا شکر گذار نہیں ہوسکتا جو بندوں کا شکر گذار نہ ہو۔

بچوں سے محبت اور شفقت کا بیان

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ فِي الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ وَقَدْ دَعَاهُ بِلَالٌ لِلصَّلَاةِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِي الْعَاصِ بِنْتُ ابْنَتِهِ عَلَی عُنُقِهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مُصَلَّاهُ وَقُمْنَا خَلْفَهُ وَهِيَ فِي مَکَانِهَا الَّذِي هِيَ فِيهِ قَالَ فَکَبَّرَ فَکَبَّرْنَا قَالَ حَتَّی إِذَا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْکَعَ أَخَذَهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ حَتَّی إِذَا فَرَغَ مِنْ سُجُودِهِ ثُمَّ قَامَ أَخَذَهَا فَرَدَّهَا فِي مَکَانِهَا فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِکَ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [41]

حضرت ابوقتادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ہم ظہر یا عصر کی نماز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور بلال (رضی اللہ عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کے لئے بلا چکے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی امامہ بنت ابی العاص (رضی اللہ عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاندھے پر سوار تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جائے نماز پر کھڑے ہوئے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے لیکن امامہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاندھے ہی پر رہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی تو ہم نے بھی تکبیر کہی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع میں جانا چاہا تو امامہ کو اتار کر نیچے بٹھا دیا اس کے بعد رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوئے تو امامہ کو پھر سے اٹھا کر کاندھے پر بٹھا لیا اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوگئے۔

نرمی سے پیش آنے کی ترغیب

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَی مَا سِوَاهُ [42]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اللہ رفیق ہے اور رفق (یعنی نرمی) کو پسند کرتا ہے اور نرمی اختیار کرنے کی بناء پر وہ اس قدر عطا فرماتا ہے کہ جو سختی یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے اس قدر عطا نہیں فرماتا۔

ظلم کی نفی

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِيهِ لَا تُشْهِدْنِي عَلَی جَوْرٍ [43]

حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے باپ سے ارشاد فرمایا مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔

سوال نہ کرنے اورصلح رحمی کی ترغیب

سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنْ كُنْتُ لَحَالِفًا عَلَيْهِنَّ لَا يَنْقُصُ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ فَتَصَدَّقُوا وَلَا يَعْفُو عَبْدٌ عَنْ مَظْلَمَةٍ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا و قَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ بِهَا عِزًّا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ [44]

حضرت عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، تین چیزیں ایسی ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں، ایک تو یہ کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اس لئے صدقہ دیا کرو، دوسری یہ کہ جو شخص کسی ظلم پر ظالم کو صرف رضاء الٰہی کے لئے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا اور تیسری یہ کہ جو شخص ایک مرتبہ مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے، اللہ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّی إِذَا نَفَدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ مَا يَکُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْکُمْ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَمَا أَعْطَی اللَّهُ أَحَدًا مِنْ عَطَائٍ أَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ [45]

حضرت ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دے دیا۔ انہوں نے پھر مانگا آپ نے پھر دے دیا یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جو کچھ بھی ہوگا میں اس کو تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا لیکن جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے کی ذلت سے بچائے گا اور جو شخص غنی بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی دولت سے نواز دے گا اور اللہ تعالیٰ نے صبر سے بڑھ کر کوئی نعمت کسی کو نہیں دی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ [46]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا تو اللہ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جب کہ اس کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ [47]

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائیں گے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ [48]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے دے یا معاف کردے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطاء فرمائے گا۔

إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ کِسَائٌ وَفِي يَدِهِ شَيْئٌ قَدْ الْتَفَّ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُکَ أَقْبَلْتُ إِلَيْکَ فَمَرَرْتُ بِغَيْضَةِ شَجَرٍ فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي کِسَائِي فَجَائَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَی رَأْسِي فَکَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ مَعَهُنَّ فَلَفَفْتُهُنَّ بِکِسَائِي فَهُنَّ أُولَائِ مَعِي قَالَ ضَعْهُنَّ عَنْکَ فَوَضَعْتُهُنَّ وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلَّا لُزُومَهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ أَتَعْجَبُونَ لِرُحْمِ أُمِّ الْأَفْرَاخِ فِرَاخَهَا قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الْأَفْرَاخِ بِفِرَاخِهَا ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّی تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ فَرَجَعَ بِهِنَّ [49]

ایک شخص آیا جس نے کمبل اوڑھ رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں کچھ دبا ہوا تھا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آنے لگا راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ پڑتا ہے وہاں میں نے چڑیوں کے بچوں کی آواز سنی اور میں نے ان کو پکڑ کر اپنے کمبل میں چھپا لیا تو ان کی ماں آئی اور میرے سر پر چکر لگانے لگی میں نے اس کے بچوں کو کھولا تو وہ بچوں پر آ پڑی اور ان کے ساتھ خود بھی قید ہوگئی۔ اب میں ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ کر لایا ہوں۔ آپ نے فرمایا ان کو یہاں رکھ دے تو میں نے رکھ دیا لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت فرمایا کہ کیا تم کو چڑیا کی اپنے بچوں سے محبت پر تعجب نہیں ہو؟ انہوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے سچائی کے ساتھ پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے جتنا کہ یہ چڑیا اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ ان کو لے جا اور وہیں چھوڑ آ جہاں سے تو ان کو پکڑ کر لایا تھا اور بچوں کی ماں کو بھی انہی کے ساتھ لے جا۔ پس وہ شخص ان سب کو لے گیا۔

صدقہ و خیرات کی ترغیب

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا ثُمَّ ذَکَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا ثُمَّ قَالَ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِکَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ [50]

عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوزخ کا ذکر کیا تو اپنا منہ پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی، پھر فرمایا کہ دوزخ سے بچو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو(صدقہ کر کے) اور جس شخص کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی باتوں کے ذریعہ (اس سے بچے)۔

وَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ بَنَی مَسْجِدًا قَالَ بُکَيْرٌ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَی اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ [51]

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضامندی کیلئے مسجد تعمیر کرے، اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اسی طرح کا ایک مکان جنت میں تیار کرا دیتا ہے۔

غصہ نہ کرنے کی تلقین

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصِنِي قَالَ لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا قَالَ لَا تَغْضَبْ [52]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو اس نے کئی بار عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ غصہ نہ کرو۔

نصاب اسلامیات کا جائزہ

نصاب تعلیم و تدریس اور تربیتی محدودات ہوتی ہیں جن کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہیں تعلیمی ادارے نوجوان نسل کو ذہنی، فکری، علمی اور عملی طور پر تیار کرتے ہیں۔ تاکہ ایک موئژ معاشرہ تشکیل پاسکے اور ملک و قوم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے ترقی کی طرف گامزن ہو سکے۔

پاکستان کے نظام تعلیم میں مختلف ادوار میں ہمہ قسم کی تبدیلیاں کی گئیں جن میں حقیقت پسندی کو پس پشت ڈالا گیا اور زمینی حقائق سے ہٹ کر پالیسیاں ترتیب دیں گئیں۔ کسی بھی مضمون کے نصاب کے عمومی و خصوصی مقاصد بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کا مقصد ان مقاصد کا حصول ہوتا ہے جس پر وہ ملک وجود میں آیا ہوتا ہے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے سلیبس کو ترتیب دیا جاتا ہے اور سلیبس کو پڑھا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں اس سلسلے میں اگر نصاب اسلامیات کے عمومی مقاصد نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ مقاصد حاصل ہوجائیں تو ہر حال میں ایک اچھا مسلمان اور مفید شہری معاشرے میں پروان چڑھے گا مثلا نصاب اسلامیات میں مذکور ہے کہ ثانوی و اعلی ثانوی نصاب اسلامیات کی تدریس مکمل ہونے کے بعد طالب علم اس قابل ہو جائیں گے کہ

1۔ وہ قرآن کریم کا اس طرح مطالعہ کرسکیں کہ فہم قرآن ان پر آسان ہو جائے گا اور وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر کسی حد تک کر سکیں گے۔

2۔ وہ حدیث و سنت کی اہمیت اور ضرورت کو جان سکیں گے

3۔ وہ مشہور کتب حدیث اور منتخب اصطلاحات حدیث سے متعارف ہوں گے۔

4۔ وہ اسلام کے تصور امت سے آگاہ ہو کر عصر حاضر کے ان مسائل کو حل کر لیں گے جو امت مسلمہ کو درپیش ہیں۔

5۔ وہ عربی زبان میں اس قدر مہارت حاصل کرلیں گے کہ اسلامی تعلیمات عربی متن میں پڑھ اور سمجھ سکیں گے۔

6۔ وہ عصر حاضر میں دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات کو اپنے کردار اور روایوں سے رد کرنے کی ترغیب پا سکیں گے۔

7۔ وہ قرآن کریم کی کتابت، رسم الخط کو جان سکیں گے اور قرآن کریم میں موجود رموز اوقاف سے واقفیت کے ذریعے قرآن مجید کو درست طریقے سے پڑھ سکیں گے۔

8۔ وہ قرآن مجید میں توحید، رسالت، آخرت، ملائکہ، عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و منصب کے حوالے سے آیات کا تفصیلی مطالعہ کرنے کی استعداد پا سکیں گے۔ اور مجوزہ آیات قرآنیہ کا ترجمہ اور تشریح کر سکیں گے۔

9۔ وہ قرآن کریم کے دیگر زبانوں اور خاص کر اردو زبان میں تراجم کی اہمیت سے واقف ہو جائیں گے چند اہم تراجم کی خصوصیات کو جان جائیں گے نیز یہ کہ وہ عالم اسلام کی چند نمایاں تفاسیر کے اسالیب سے متعارف ہو جائیں گے۔

10۔ وہ و عبادات کا وسیع تر مفہوم سمجھتے ہوں گے اور اس کی مختلف صورتوں مثلا نماز، روزہ، انفاق و زکوۃ وغیرہ کی عبادتی و معاشرتی اہمیت سے آگاہ ہوں گے اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔

11۔ وہ فقہ، اصول فقہ اور علم منطق کے حوالے سے مسلمانوں کی خدمات سے آگاہ ہو سکیں گے۔

بحث، نتیجہ اور سفارشات

بیان کردہ مقاصد بہت بہتر ہے اور اگر ثانوی و اعلی ثانوی تعلیم کے بعد ایسا ممکن ہوتا تو آج امت مسلمہ اور خاص کر پاکستان تنزلی کا شکار نہ ہوتا آج معاشرہ قحط الرجال کی بجائے قحط الکردار کا شکار ہے ہر طرف افراتفری ہے مقاصد تو بنا دیے گئے لیکن نوجوان نسل کا کردار نہ بن پایا اس سلسلے میں اقبال کا شعر یاد آرہا ہے۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات کو پس پشت رکھتے ہوئے ہمسائیوں، غریبوں اور یتیموں کا مال غصب کیا جارہا ہے ۔صبروتحمل نوجوان نسل میں فوت ہوچکا ہے دین سے دوری ہے اور اخلاقیات نام کی چیز باقی نہیں رہی۔ رشوت اور سود معاشرے میں رچ بس گیا ہے دنیاوی اور مادی ترقی کو لے کر حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی ہے۔

قرآن حکیم کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آج کی نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہیں قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر کرنا تو دور کی بات آج نوجوان نسل قرآن حکیم کو صحیح طور پر بڑھ بھی نہیں سکتی آج کی نوجوان نسل حدیث و سنت کی اہمیت و کتب حدیث سے بھی نا بلد ہے۔ عربی زبان میں مہارت صرف خواب کی حد تک ہے عصرحاضر میں دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات کو اپنے کردار اور رویوں سے رد کرنا تخیلاتی دنیا میں کہیں ممکن نظر آتا ہے۔ آج موجودہ دور میں اہل مغرب نےاپنی چال چل کر ایسے سیکولر افراد پیدا کر دیے ہیں جو دین اسلام کا نام بدنام کرنے میں سرگرم ہیں۔

طالب علم توحید ،رسالت، آخرت ،ملائکہ، عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومنصب کے حوالے سے صرف امتحانات کی حد تک واقفیت رکھتے ہیں جیسے ہی امتحانات ختم طالبعلموں کا ان سے ناطہ ختم۔ مزید برآں ان بیان کردہ عقائد و عبادات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا تودور کی بات ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل بنانا آج صرف الفاظ تک محدود ہے اساتذہ کرام اور والدین کی محنت اور کاوشوں سےقحط الکردار کا قحط ختم کیا جاسکتا ہے۔ انسانی طبیعت میں حرص و ہوس ،حسد ،بغض، عداوت ،ظلم اور انتقام نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ شخصیت سازی کا فقدان ہے جس نے معاشرے کو بانجھ بنا رکھا ہے ۔موجودہ سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات کے تناظر میں شخصیت سازی زوال کا شکار ہے۔ ہمارے تمام ادارے یا تو دینی تعلیم کا انتظام کر رہے ہیں یا جسمانی و دنیاوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تربیت کا پہلو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اساتذہ کرام اور والدین کو ملکر معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہوگا کہ جس کو دیکھ کر نوجوان نسل دین اسلام کی طرف گامزن ہو سکے اور مثبت معاشرہ پروان چڑھ سکے آج معاشرے میں اساتذہ کرام اور والدین اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ بچوں میں عدم برداشت، غصہ ،دین سے دوری اوراخلاقیات کی گراوٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اور اس کے حل کے لیے ہر وقت کوشاں نظر آتے ہیں مگر انہی بیان کردہ باتوں کا خود میں جائزہ نہیں لیتے۔کاش کہ ہم سب اپنی اصلاح کریں ۔اور اپنی زندگیوں کو قرآن حکیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالیں اور کردار کے حوالے سے بیان کردہ تمام آیات قرآنی اور احادیث نبویہ پر من و عن عمل کریں ۔مزید برآں نصاب بنانے والے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب کی تشکیل کرے اور مقاصد کے حصول کے لیے اساتذہ کرام اور والدین مل کر لائحہ عمل بنائیں ۔ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم سب کو اپنی اخلاقی قانونی اور ہمہ قسم کی کرداری ذمہ داریوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات تمام عالم انسانیت تک مکمل، احسن اور اعلی ترین انداز میں پہنچا دی ہیں اب یہ اساتذہ کرام اور علمائے کرام کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کی شخصیت سازی کریں اور معاشرے کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالیں اور ملک و قوم کو ترقی کی طرف گامزن کریں ۔ مزید برآں تمام تعلیمی ادارے مختلف مجالس کا انتظام کریں جس میں شخصیت سازی اور کردار سازی کو موضوع سخن بنایا جائے اور قرآن حکیم اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں طالبعلموں کی تشنگی کو دور کیا جائے اور ساتھ میں نصاب تعلیم کو بھی اسکی روح کے مطابق پڑھایا جائے جس سے تمام مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے ۔اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے اور دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے آمین۔

This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)

حوالہ جات

  1. القرآن 62: 2
  2. القرآن 91: 9-10
  3. مشکوۃ شریف، جلد دوم، حدیث 787
  4. القرآن 17:70
  5. تفسیر مظہری، ثنا ءاللہ پانی پتی،سن اشاعت 1820ء
  6. القرآن 17:53
  7. تفسیر ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ اظہری
  8. القرآن 31:19
  9. تفسیر معارف القرآن، مفتی محمد شفیع
  10. القرآن 22:30
  11. القرآن 31-18
  12. لسان العرب، علامہ ابن منظور
  13. الکامل فی التاریخ، ابن اثیر
  14. لسان العرب، علامہ ابن منظور
  15. القرآن 3:134
  16. القرآن 25:63
  17. تفسیر بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار احمد
  18. القرآن 17:36
  19. تفسیر ضیاء القرآن
  20. القرآن 12:76
  21. القرآن 49:11
  22. القرآن 49:12
  23. تفسیر ضیاء القرآن
  24. القرآن 24:27
  25. تفسیر آسان قرآن، مفتی تقی عثمانی
  26. القرآن 4:36
  27. القرآن 76:9
  28. القرآن 5:2
  29. القرآن 53:32
  30. القرآن 16:125
  31. القرآن 17:34
  32. القرآن 2:188
  33. الجامع لأحکام القرآن، شمس الدين قرطبی
  34. بخاری، جلد 1، حدیث 2568
  35. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 987
  36. سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1395
  37. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 278
  38. موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1545
  39. صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1888
  40. سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1407
  41. سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 919
  42. صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2100
  43. صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1691
  44. مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 1584
  45. سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1640
  46. جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1327
  47. سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 575
  48. مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1533
  49. سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1322
  50. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1507
  51. صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 442
  52. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1069
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...