Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of International Research Journal on Islamic Studies

نصوص شرعیہ اور عصر حاضر کے تناظر میں قومی قیادت کے رہنما اصول |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

اسلامی ریاست میں حاکم کے اختیارات

اسلامی تعلیمات کے مطابق حاکم کے لئے امامت ،خلافت ،استخلاف، امارت اور راعی کے الفاظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔اسلام نے صحیح طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کو ہدایت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے،جیسا کہ سورۃالفاتحہ میں یہ لفظ وارد ہواہے﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ [1]اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کو جزوی اور بعض کو کلی قیادت کے منصب پر سرفراز فرمایا۔اس تناظرمیں دیکھاجائے تو قیادت کا مطلب یہ ہوگا کہ انسانی زندگی کے اجتماعی معاملات پر اثر انداز ہوکر جزوی یا کلی طور پر لوگوں کی راہنمائی کرنا۔لہذا قیادت کو جزوی قیادت اور کلی قیادت کے تحت دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی ریاست کی بنیاد

سیاست انسانی سوسائٹی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ اجتماعی معاملات میں قوم کی راہنمائی کرنا، نظام حکومت وضع کرنا اور اس نظام کواحسن طریقے سے چلانے کو سیاست کہتے ہیں۔خلافت وامارت کا منصب ہر شخص کو انفرادی حیثیت میں حاصل ہے۔ رسول اﷲﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز سے ہی ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کی طرف توجہ فرمائی جس میں انسان کی مثبت اور تعمیری صلاحیتیں پروان چڑھیں اوروہ اپنے مقصد حیات کو سمجھ کر اپنے فرائض کی تکمیل کر سکے۔ آپﷺنے جن بنیادوں پر تشکیل معاشرہ کا کام جاری فرمایا ان میں پہلی چیز عقائد اسلام کے ذریعے ذہنی تربیت اور فکری اصلاح ہے۔تشکیل معاشرہ کے لئے دوسری بنیادی چیز جو آ پ ﷺکے پیش نظر رہی وہ تزکیہ نفس ہے، اس لئے کہ درست عقیدہ سے ایک کامل اور مستحکم شخصیت وجود میں آتی ہے ۔تیسری بنیادی چیز جس پر عہد رسالت میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہوئی وہ اخلاق حسنہ ہیں۔انسانی تہذیب و تمدن کا تمام تر دارومدار اخلاق پر ہی ہو تا ہے،یہی وجہ ہے کہ رسول ﷲﷺ نے عقائد کے ساتھ ساتھ جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی وہ اخلاق حسنہ ہیں۔

پہلی اسلامی ریاست کے پہلے حکمران کی قائدانہ بصیرت

جناب نبی کریمﷺ کی ہجرت سے قبل یثرب کے علاقہ میں ریاست کا ماحول بن چکا تھا اور اس خطہ میں قبائلی معاشرہ کو ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی شکل دینے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ انصار مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج کے سردار سعد بن عبادہؓ نے آنحضرت ﷺکو بتایا کہ آپ ﷺ کی یثرب تشریف آوری سے پہلے لوگوں نے باقاعدہ حکومت کے قیام کا فیصلہ کر کے عبد اﷲ بن أبی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا تھا اور صرف تاج پوشی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا کہ آپﷺ تشریف لے آئے اوراس کی بادشاہی کا خواب بکھر گیا،البتہ وہ ریاست تشکیل پا گئی ۔ رسول اﷲﷺنےاس خطہ کے قبائل کے درمیان میثاق مدینہ کے عنوان سے معاہدہ کرا دیا جس میں آپﷺ کو حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔[2]

میثاق مدینہ کی دفعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسےمدبراور ماہر قانون کا تیار شدہ ہے جو حالات کی جزئیات تک سے کلی طور پر واقف ہو۔ میثاق مدینہ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس کا نقطۂ آغاز تھا ۔آپﷺ کی تشریف آوری سے اس ریاست کو نظریاتی اساس فراہم ہوئی جس کی وجہ سے اسے علاقائی محدودیت سے نکال کر دنیا کی وسعت کے ایسے امکانات میسر آگئے کہ یہ ریاست رسول اﷲﷺ کے وصال تک صرف دس سال کے عرصہ میں پورے جزیرۃ العرب کا احاطہ کر چکی تھی۔

ریاست کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ کسی معین علاقہ کے رہنے والے لوگ ایک باقاعدہ حکومتی نظم کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو وہ علاقہ ریاست کہلاتا ہے ۔ چنانچہ ریاست مدینہ کو یہ حیثیت آنحضرت ﷺ کے دور میں حاصل ہوگئی تھی کہ ایک مستحکم نظام حکومت قائم تھا جس میں،مشاورت ، داخلی نظم و نسق، دفاع ،معیشت، عدلیہ اور ، خارجہ تعلقات و معاہدات کے اہم شعبے منظم طریقہ سے کام کر رہے تھے ۔ جبکہ اس ریاست کی حدود بھی متعین اور واضح تھیں جیسا کہ غزوۂ تبوک سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ کو جب معلوم ہوا کہ سلطنت روم کی افواج مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے شام میں تیاریاں کر رہی ہیں۔رسول للہ ﷺنے خود پیش قدمی کر کے شام کی طرف سفر شروع کر دیا لیکن تبوک جا کر رک گئے جو کہ شام کی سرحد پر واقع ہے اور آج بھی سعودی عرب کا سرحدی شہر ہے ۔ قیصر روم کو جب پتہ چلا کہ محمدﷺلشکر کی قیادت کرتے ہوئے تبوک تک آگئے ہیں تو اسے حملہ کی ہمت نہیں ہوئی اور آپ ﷺ ایک ماہ قیام کرنے کے بعد لشکر سمیت مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے ۔[3] اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺکے دور میں اسلامی ریاست کا نقشہ بالکل واضح تھا، اس کی سرحدات متعین تھیں اور بین الاقوامی سرحدات کے بارے میں واضح قوانین و ضوابط بھی موجود تھے ۔

اسلامی ریاست میں حکومت و امارت کی اہمیت

سیاست فطرت انسانی کا تقاضا اور انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔کسی نظام کو اسی صورت میں قیام و بقا ء نصیب ہوسکتا جب اس کی ضرورت کا شدید احساس ہو اورگہرے شعور کے ساتھ یہ بھی یقین ہو کہ اس طرح ایک اعلیٰ انسانی مقصد تک پہنچنا ممکن ہوسکے گا۔ ساتھ ہی مادی حالات ایسے ہونے چاہئیں کہ فرد اس نظام سے وابستہ رہنےاوراس کی حفاظت پر کمر بستہ ہوں۔ لہذاضروری ہے کہ افراد کے اندر ایسے پختہ عقائد موجود ہوں جو سیاسی نظام کی تائید کریں اور خارجی حالات بھی ایسے ہوں کہ اس کا قیام عملاً ممکن ہوسکے۔ اس مقصد کےلئے انبیاء علیہم السلام نے سیاسی امور میں نہ صرف عملی حصہ لیا بلکہ اس کے اصول بھی متعین کئے۔ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ:

کَانَتْ بَنُوإِسْرَائِیلَ تَسُوسُہُمْ الْأَنْبِیَائُ کُلَّمَاہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ وَإِنَّہُ لَانَبِیَّ بَعْدِی وَسَیَکُونُ خُلَفَائ [4]

بنی اسرائیل کی سیاست ان کےانبیاء کےہاتھ میں ہوتی تھی،جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتاتو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا،لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اورمیرے خلفاء موجود ہوں گے۔

اسلام میں ریاست وحکومت کی اہمیت کا اندازہ اس امرسے کیاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ دعا سکھلائی کہ”اے پروردگارمجھ کوجہاں بھی توداخل کرسچائی کےساتھ داخل فرما اورجہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اوراپنی طرف سےایک اقتدار کومیرامددگاربنا دے۔‘‘ [5]مطلب یہ کہ اے پروردگاریا تو مجھے خود اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرامددگار بنادے تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے بگاڑ کو درست کر سکوں،فواحش اور معاصی کے سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانون عدل کو جاری کرسکوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ :

إِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالْقُرْآنِ [6]اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں ہو سکتا۔

رسول اللہ ﷺنےاجتماعیت اور قیادت کی اہمیت کے پیش ِنظر بوقت سفرکسی ایک کوامیروقائدبنانے کاحکم دیاہے۔[7] جب محدودومختصرسفرکے لیے انتخاب ِامیرکی اہمیت ہے توزندگی کے سفرکےلیے اس کی اہمیت اورزیادہ ہوگی۔قیادت کی اسی اہمیت کے پیش ِنظرعلمائے امت کااس بات پراجماع ہے کہ امام وقائدکاتقررواجب ہے۔[8] لہذا اقامت دین اور معاشرتی اصلاح کے لئے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے۔مستحکم سیاسی نظام اور صالح قیادت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے دین و سیاست کی دوئی کے تصور کو ختم کردیا۔حدیث مبارکہ میں قوم کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ داری اس کے قائدین اور امراء پر رکھی گئی ہے۔ کیونکہ زمامِ کار انہی لوگوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔ اگر فرمانروا خدا پرست اور صالح ہوں تو زندگی کا سارا نظام خیر و صلاح پر چلے گا۔کسی دانشورکا کیا خوب قول ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کی ڈگر پر ہی چلتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہےکہ:

الْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ أخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا إلَّا بِصَاحِبِه فَالإسْلَامُ أُسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِسٌ وَّمَا لَا أُسَّ لَهُ ھَادِمٌ وَّمَا لَا حَارِسَ لهُ ضَائِعٌ. [9]

اسلام اور حکومت و ریاست، دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے جس عمارت کی بنیاد نہ ہو ،گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔

اسلامی ریاست کا قیام اسی صورت میں ممکن ہے جب قومی قیادت بھی خدا کے احکام کے تابع ہواورزندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں طے پائیں۔معاشی سطح پر عدل، قانونی سطح پر کامل مساوات اور سیاسی سطح پر حریت کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺنے عدل اجتماعی پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا۔مستشرق ایچ جی ویلزآپ ﷺکی قائدانہ بصیرت اور معاملہ فہمی سے متأثر ہوکر لکھتاہے کہ:

انسانی حریت،اخوت اورمساوات کےوعظ تو دنیامیں پہلے بھی کہےگئےتھےلیکن اس حقیقت کوتسلیم کئے بغیرچارہ نہیں کہ ان اصولوں پربالفعل ایک معاشرہ تاریخ انسانی میں پہلی بار محمدﷺنےقائم کیا[10]

اسلامی ریاست میں قیادت کے اہداف و مقاصد

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زریں اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے۔اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسانی کی قیادت و رہبری کا فریضہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد کیا ہے۔امت وسط ہونے کی وجہ سے اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ کی مجموعی ذمہ داری ہے۔اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے قومی قیادت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قیادت کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نےقرآن و سنت کی صورت میں تفصیلی ہدایات بھی دی ہیں اور اہداف کا بھی تعین کر دیا ہے، تاکہ قیادت اپنے تمام وسائل اورمساعی حقیقی نصب العین تک رسائی کے لیے صرف کرے۔قومی قیادت کےاہداف کودوبنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  1.  
  1.  

قومی قیادت کے دینی اہداف

اسلامی ریاست اسلامی فلسفہ حیات کی بنیادپرمعرض ِوجودمیں آتی ہے۔اس لیے اس کااصل مطمع ِنظردینی اہداف کا حصول ہے۔مجموعی طورپرقرآن وسنت میں اسلامی ریاست کےدو مقاصد نشاندہی کی گئی ہے۔*

اقامت ِدین
امربالمعروف ونہی عن المنکر

اقامت ِدین کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔پہلی صورت یہ ہے کہ دین کی حفاظت ونصرت کی جائے ۔ دعوت وارشادکے ذریعےدین کی نشرو اشاعت کی جائے۔ حفاظت دین کی دوسری صورت معاندین ومستشرقین کے اسلام کے خلاف پھیلائے گئے پرپیگنڈے کادفاع اوراعتراضات کاازالہ ہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی دوسروں کوبھلائی کی دعوت دینااورمعاصی سے روکنامجموعی طورپرامت مسلمہ پرلازم ہے۔اسی سبب کی وجہ سے اس امت کوخیر الامۃ کالقب عطاکیاگیاہے۔قومی قیادت کے لئےیہ فریضہ سرانجام دینابوجوہ زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔نصوص سے یہ بات واضح ہے کہ اطاعت ِامیراللہ اور رسولﷺ کی اطاعت سے مشروط ہے۔اطاعت کےلیےایک طرف امیرکاکتاب وسنت کے تابع رہنالازم ہے تودوسری جانب نیکیوں کی دعوت اورمعاصی سے روکنابذات ِخوداہم مقصدہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ[11]

یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تونماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔

قومی قیادت کااس مقصدکوسمجھنااوراس کےحصول کی کوشش کرنالازم ہے ۔حقیقی قیادت دوسروں پراثراندازہوکرقوم کی تمام کاوشوں کوبامقصد اہداف کی طرف گامزن کرتی ہے۔جب یہ واضح ہے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ شارع کی طرف سے لازم ہے تو قومی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود بھی اس کے لئے اقدامات کرےاورقوم کو بھی اس طرف متوجہ کرے.#

  1.  

دنیاوی اہداف

دنیاوی اہداف سے ہرگزیہ مرادنہیں کہ یہ دین سے لاتعلق اورآخرت میں بے سود ہیں۔ان کودنیاوی مقاصدکے نام سے اس لیے تعبیرکیاگیاہے کہ ان کاظاہری تعلق عوام الناس کی دنیاوی ضروریات سے ہے۔ان کاپوراہونادنیاوی زندگی کےلیے سہولت اورپورانہ ہونامشکلات کاباعث ہے۔نیز ان مقاصدکے اصول توقرآن وسنت میں واضح ہیں البتہ عملی تطبیقات ارباب ِحل وعقدکوسونپ دی گئی ہے کہ اپنے اپنےزمان ومکان کے لحاظ سےطےکریں۔اس بناپرانہیں دنیاوی مقاصدسے موسوم کیاگیاہے۔ چنانچہ اگرخلوص ِنیت اورجملہ اسلامی تعلیمات ان کے حصول میں پیش ِنظررہےتونہ صرف دنیاوی زندگی پرسکون ومطمئن ہوگی بلکہ اخروی اجربھی یقینی ہے۔

اسلامی ریاست میں قیادت کےفکری اور اعتقادی امتیازات

انسانی زندگی چونکہ بنیادی طور پر نظریات پر استوار ہے، اس لئے نظریات و افکار میں بگاڑ انسان کی پوری سیرت و کردار کو متأثر کرتا ہے۔ فکری بگاڑ کی زد سب سے پہلے انسان کی شخصیت پر پڑتی ہے اورپھر اس بگاڑ سے انسانی زندگی کے جملہ احوال متأثر ہوتے ہیں۔اسلامی ریاست جس حقیقت پر قائم ہے وہ یہ ہےکہ زمین میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اسلام میں حاکمیت کے اقرار کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ اس کی تکوینی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریعی حکومت کا بھی اقرار کیا جائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیےاللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہﷺکی رسالت کا اقرار ضروری ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ کی تکوینی حاکمیت کی طرح اس کی تشریعی حاکمیت جبر پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے انسانوں کے اختیار پر چھوڑا ہے۔ اگر چاہیں تو اس کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے صالح بندے بن کر اپنے لیے اس کے ہاں بڑا اجر حاصل کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس سے منحرف ہو کر اپنے آپ کو اس کے عذاب کا مستحق بنا سکتے ہیں۔

اسلامی مملکت میں حکومت کا حق

اس کائنات کو عدم سے وجود بخشنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئےوہی اس کا خالق حقیقی اور مالک حقیقی ہے۔انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ کرکے خلافت الٰہی اورنیابتِ خداوندی کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ اور نائب ہونے کی حیثیت سے حضرتِ انسان کو کچھ قوتیں اور محدود قدرتیں عطا کی ہیں تاکہ انہیں استعمال میں لا کر وہ زمین پر اللہ کے احکام نافذ کرے۔ اسلام کا حکومتِ اسلامی میں اصل اقتدار اعلیٰ ربِ کائنات کو حاصل ہے، مملکتِ اسلامی میں خلیفہ حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کا نائب اور اس کے تفویض کردہ اختیارات کے صحیح استعمال کا پابند ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ [12] "دیکھو مخلوق کو اسی نے پیدا کیا ہے اور حکم بھی اس کا ہے۔"

﴿ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ﴾ [13]"لوگ پوچھتے ہیں کیا حاکمیت میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ حاکمیت تو بس اللہ ہی کی ہے"﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ [14]" اور لوگ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے درحقیقت وہ کفرکا ارتکاب کر رہے ہیں"

انسان کو صرف اس قانون کی پیروی کرنی ہے جو مالکُ الملک نے بنایا ہے۔جو ریاست قرآن وسنت سے متصادم قانون بناتی ہے یا اس قانون کے علاوہ کسی اور قانون کو تسلیم کرتی ہے تو قرآن حکیم اسے طاغوت اور باغی قرار دیتا ہے۔اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگ دوسرے انسانوں کو اربابا من دون الله کے بجائے ایک اللہ کو اپنا رب مانیں اور اسی کی حاکمیت اور قانون کو تسلیم کریں۔ سیاستِ شرعیہ اورمملکتِ اسلامی کے مذکورہ بالا نصوص کےمطالعہ سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان میں اولین نتیجہ یہ ہے کہ مملکتِ اسلامی دراصل ایک ایسی نیابتی حکومت ہےجسے حکومتِ الہی کی شکل میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سپرد کرتا ہے۔جسے ادا کرنا لازم ہے۔ علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں کہ" سنتِ رسولﷺ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ولایت و حکومت ایک امانتِ الہی ہے ، جس کا ادا کرنا اس کے موقع ومحل میں واجب ہے۔" [15]

تمکن فی الارض کو وعدہ عمل صالح سے مشروط ہے

قیادت ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ مستحکم ریاست کے قیام کی تمام کاوشیں اسی صورت میں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں جب کوئی منظم حکومت اس جدوجہد کی پشت پناہی کے لئے موجود ہو۔ حقو ق و فرائض کی تنفیذ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ریاست کی قوت بھی خدا کے احکام کے تابع ہواورزندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں طے پائیں۔ حکومت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے اس پورے عمل کی نگران و محافظ ہو ۔چونکہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ بندے ہوتے ہیں لہذا اس عہدہ کے لئے اُن سے بڑھ کر اور کوئی اہل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں غلبہ اقتدار اورر قیادت کی ذمہ داری بھی صرف اہلِ ایمان ہی کا حق ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَر‌ضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ار‌تَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا﴾[16]"اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ اُن کے لئے، اُن کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ۔"

خلافت ایک امانت ہے اور یہ اسی شخص کو دی جائے جو اس کا حقدار ہو:﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ  إِنَّ اللَّهَ نِعِمّا يَعِظُكُم بِهِ .إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعًا بَصيرً‌ا﴾ [17]"بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے"

مذکورہ آیت میں بنی اسرائیل کی ایک معاشرتی برائی کی گئی ہے،وہ یہ کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی مذہبی پیشوائی اور قومی قیادت کے مناصب ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دئیے جو نااہل، بداخلاق، بددیانت اور بدکار تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں۔احادیث مبارکہ میں بھی حکومتی مناصب کو امانت قرار دیا گیا ہے۔حضرت ابوذرغفاریؓ نے جب ایک بارعرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرما دیں تو آپ ﷺ فرمایا:

"يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا۔ " [18]

"اے ابوذر تو کمزور ہے اور امارت ایک ایسابار امانت ہے جواسے اٹھائے گاقیامت کےدن یہ اس کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا۔ ماسوائے اس شخص کے جس نے اسے ذمہ داری سمجھ کر لیا اور اس کا حق ادا کیا۔"

حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ"بے شک تم لوگ امارت کی حرص کرو گے اور قیامت کے دن تمہیں اس کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی ہو گی۔ پس یہ امارت دودھ پلانے والی آیا کی طرح ہے کہ دودھ پلاتے وقت تو مزہ اور دودھ چھٹتے وقت تکلیف۔" [19]حدیث مبارکہ میں ایک بلیغ اور عمدہ مثال کے ذریعے امارت کی قباحت بیان کی گئی ہے یعنی جب حکومت ملتی ہے تو بڑا لطف آتا ہے لیکن جب یہ چِھن جاتی ہے تو اس کا شدید رنج ہوتا ہے اور قیامت کے دن اس پر جو ندامت و شرمندگی ہو گی تو اس کی شدت کا اندازہ ہی مشکل ہے۔

مذکورہ احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلافت و امارت ایک امانت ہے اور یہ امانت اسی شخص کے سپرد کی جانی چاہئےجس کے دل میں منصب وامارت حاصل کرنے کا لالچ و حرص ہو۔قومی قیادت کے انتخاب کے لئے مسلمانوں کے اہل حل و عقد میں سے جو مجلس شوریٰ منتخب ہو وہ اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی، عالم اور باصلاحیت شخص کا انتخاب کرے۔حضرت ابوھریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی کریمﷺ لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور آپﷺ سے پوچھا قیامت کب آئے گی تو آپﷺ نے فرمایا:

فَإِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: «إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ

أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ۔[20]

"جب امانت کو ضائع کر دیا جائے تو تو قیامت کا انتظار کر۔ اس نے پوچھا: امانت کو کس طرح ضائع کیا جائے گا؟ توآپﷺ نے ارشاد فرمایا: جب حکومت نا اہل کے حوالے کر دی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو"

اسلامی سیاست کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اس میں ریاستی وانتظامی امورکے تمام مناصب پر اہل، باصلاحیت اور امانت دار افراد کا تقرر کیا جائے ۔رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض قرابت کی بنیادپر بغیر اہلیت کے دیاتو اس پر اﷲکی لعنت ہے ،نہ اس کا فرض مقبول ہے اورنہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ۔[21] اسی خدشہ کے پیش نظر آپﷺ نے فرمایا تھاکہ جب قوم کی قیادت اور اختیارات نااہل لوگوں کو تفویض کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو ، نااہل اور بد دیانت عمال لوگوں پر وقت سے پہلے ہی قیامت ڈھادیں گے۔ نصوص کے استقراء سے پتا چلتا ہے کہ اسلامی ریاست مندرجہ ذیل اعتقادات پر قائم ہے ۔

  1. وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوں۔
  2. خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو آخری دینی و قانونی سند مانتے ہوں۔
  3. یہ لوگ متقی، خدا ترس اور نیک ہوں گے اور ان کے دل میں خلافت وامارت کی طمع و حرص نہیں ہو گی۔
  4. یہ نماز اور زکاۃ کے نظام کو قائم کرنے والے ، امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہوں گے۔
  5. یہ لوگ خداخوفی ،اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کے تصور اور احساس ذمہ داری سے سر شار ہوں گے۔
  6. اسلام کے احکام و شرایع کے پابند ہوں۔

قومی قیادت ازروئے قانون اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے خدا کے رسول کے ذریعے سے ملا ہے اس کو بے کم و کاست جاری کرے، ورنہ خدا کی حاکمیت میں رخنہ ڈالنے کی مجرم قرار پائےگی۔ زندگی کے جن معاملات سے متعلق اس کو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ہے ان کے بارے میں بھی اس کو یہ حق نہیں دیا گیا ہے جس کا اصلی مفہوم اسلام میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات کی پیروی کرنے کے بجائے خدا اور اس کے رسول کی دی ہوئی ہدایات کے اشارات و مقتضیات پر غور کر کے ان حالات کے لیے خدا اور رسول کے احکام سے لگتی بات متعین کرے اور اس کاحکم دے۔

قومی قیادت کےشخصی اوصاف

رسول اللہﷺکی قیادت میں زندگی بسر کرنے کا نام اسلام ہے۔قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے صرف اس کی عظمت و جلالت کے پیش نظر ہی ہر حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر وہ پورا اترے تو قابل قبول اور واجب العمل ہوگا۔عوام الناس کےلیےقائدکی شخصیت رول ماڈل کی حیثیت رکھتی۔مختلف حالات وکیفیات میں افراد اورمعاشرہ کواس کے کے مطابق ڈھالنااور قوم کوساتھ لے کرچلنامتاثرکن شخصیت کی بدولت ہی ممکن ہے۔ نامساعدحالات میں بھی قومی قیادت کاشخصی تفوق ایساہوکہ وہ قوم کو منظم و مربوط کر کےمطلوبہ اہدف حاصل کرسکے۔ الماوردیؒ نےالاحکام السلطانیہ میں قومی قیادت کے شخصی اوصاف میں مندرجہ ذیل سات امتیازات کاذکر کیا ہے۔* قومی قیادت میں عدالت کا وصف بدرجہ اتم موجود ہو،یعنی وہ صادق و امین، بااخلاق اور شرعی موانع سے اجتناب کرنے والی ہو۔

  • قومی قیادت کا دوسراوصف یہ ہے کہ وہ علوم شرعیہ کا اس قدر عالم ہو کہ بوقت ضرورت اجتہاد کرسکے۔
  • قائد سمعی ، بصری اورلسانی اعتبار سےصحت مند ہو۔
  • قائدسلیم الاعضاء ہو تاکہ کار سرکار میں خلل نہ آئے اور اس کی نشست وبرخاست میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
  • قومی قائدفہم و فراست کا مالک ہو تاکہ وہ مصالح عامہ کو پیش نظر رکھے۔
  • قومی قائد جرأت مند،بہادر اورمرد میدان ہو تاکہ ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جاسکے۔
  • حسب ونسب کے اعتبار سے ضروری ہے کہ امام کا تعلق قبیلہ قریش سے ہو۔[22]

قومی قیادت کاصاحب ِایمان ہونا

اسلام کا یہ امتیازہے کہ وہ سب سے پہلے قومی قیادت کےانتخاب کے لئے کچھ اوصاف مقرر کرتا ہے،جب تک مطلوبہ اوصاف کسی شخص میں نہ پائے جائیں اسے قومی قیادت کی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی۔اسلامی ریاست کی ماہیت میں قیادت کا صاحب ِایمان ہونالازم ہے۔اسلامی ریاست کی باگ دوڑکسی کافرکے ہاتھ سونپنے کی نہ توکوئی عقلی وجہ ہے اورنہ ہی شرع اس کی اجازت دیتی ہے۔ قرآنی ضابطہ کے تحت کفارکومومنین پرکوئی ولایت حاصل نہیں ہے۔[23] عہد رسالت سے کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ آپ ﷺنے کسی جگہ کی امارت کسی غیرمسلم کوسونپی ہو۔البتہ ملکی معاملات میں ذمیوں سے مشاورت کی گنجائش بہرحال موجودہے اورخلفاء راشدین کے طرز ِعمل سے اس کا ثبوت بھی ملتاہے۔

صادق و امین اورشرعی موانع سے مجتنب ہونا

قومی قیادت میں عدالت کا وصف بدرجہ اتم موجود ہونا چاہیئے،یعنی وہ صادق و امین، بااخلاق اور شرعی موانع سے اجتناب کرنے والی ہو۔قرآن حکیم میں بہتر ین ملازم اور عہدیدارکی پہچان یہ بتا ئی گئی ہے کہ وہ قوی اور امین ہو۔مو سیٰ علیہ السلام نے مدائن کے سفر میں جب شعیب علیہ السلام کے ریوڑ کوپا نی پلا نے میں ان کی بیٹیوں کی مدد کی توانہوں نے اپنے باپ سے موسیٰ علیہ السلام کی تعر یف و تو صیف کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں وہ شخص جسمانی اعتبار سے مضبوط اور روحانی طور پر امانت دار ہے، اور سفا رش کی کہ آپ اُن کواپنا خدمت گار رکھ لیجئے ۔لہذا جب کوئی منصب کسی کے سپرد کیا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی اہلیت کا پو را ثبو ت دے اور اپنے فرائض منصبی کو پو ری امانت داری کے ساتھ انجام دے۔ ارشاد ِ با ری تعا لیٰ ہے:

﴿ قَالَتْ اِحْدٰھُمَا یٰاَبَتِ اسْتَاجِرْہُ اِنَّ خَیْرَمَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ ﴾ (۱۳(

"ان دو عو رتوں میں سے ایک نے کہا ، اے ابا جا ن !اس شخص کو اپناخدمت گار رکھ لیجئے ، بہترین آدمی جسے آپ ملا زم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو طا قت وربھی ہو اور امانت دار بھی ہو۔"

مذکورہ بالا نص سے یہ اصو ل فراہم ہوتاہے کہ قومی قیادت کے انتخاب میں متعلقہ ادارے اس بات کو مد نظر رکھیں کہ امیدوار میں کا م کی قو ت و صلاحیت بھی موجود ہواور وہ صادق اور امین بھی ہو۔

علمی اور جسمانی اعتبار سے مضبوط ہو

قومی قیادت کا دوسراوصف یہ ہے کہ وہ علوم شرعیہ کا اس قدر عالم ہو کہ بوقت ضرورت اجتہاد کرسکے۔قومی قیادت کا ریاستی معاملات اور ان سے متعلقہ امورومقاصدسےباخبر ہوناضروری ہے، کیونکہ ریاست کے تمام شعبہ جات کی اصلاح وبگاڑاسی پر منحصرہے۔وسعت ِعلمی میں اساسیات ِدین کا علم ،علم سیاست سے آگاہی،بنیادی علم اجتہاد کا ادراک اور جدیدعلمی تقاضوں کا شعور قومی قیادت کا زیور ہیں۔قومی قیادت کے لئے جہاں مقننہ ،انتظامیہ ، عدلیہ اورافواج کے احوال سےباخبر رہنا ضروری ہے وہاں ماضی حال اور مستقبل کی پہچان اورمتبوعین کے حالات وکیفیات کاادراک بھی ضروری ہے۔قرآن حکیم میں قومی قیادت کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ان میں ایک وصف قائد کا علمی اور جسمانی اعتبار قوی ہونا ہے۔

﴿إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ﴾ [24]

"اللہ تعالیٰ نےاس کوتم پرفضیلت دی ہے اوربادشاہی کے لیے منتخب فرمایاہےاوراسے علم بھی بہت سابخشاہے اورتن وتوش بھی بڑاعطاکیاہے۔"

مذکورہ آیت سے انتخاب ِقیادت کے لیے وسعت علم کاشرط ہونامعلوم ہوتاہےجو کہ کمال ِعقل اوررفعت ِشان کی علامت ہے۔علم انسان کونیک وبدکی تمییزاورپہچان عطاکرتاہے۔چنانچہ ایک ماہرِفن اورصاحب ِعلم قائدہی صحیح غلط کی پہچان کرتے ہوئےاپنی تمام ترتوانائیاں قومی مقاصدکے حصول کے لیے صرف کرتاہے۔قومی قیادت کےفیصلہ کا براہ راست اثر قوم اورملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں پر پڑے گا۔ بعض اوقات قائد کی ناقص معلومات کی وجہ سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسی خدشہ کے پیش نظررسول اللہ ﷺ کو ہدایات دیں ہیں کہ کوئی بھی پیش قدمی کرنے سے قبل معلومات کی ثقاہت کے بارے خوب تحقیق کرلیا کریں۔[25]

قومی قیادت کا سلیم الأعضاء ہونا

قومی قیادت کا متوازن ،عیوب سے پاک اورباوقار شخصیت کا مالک ہونا اس کے نمایاں شخصی اوصاف ہیں۔قائدکاجسمانی طورپرتوانااورمضبوط اعضاء کامالک ہوناایک لازمی عنصرہے۔ قائد سمعی ، بصری اورلسانی اعتبارسے صحت مند ہو۔اعضاءوجوارح کی سلامتی اورحواس کی مضبوطی مشکل اورکٹھن حالات کامقابلہ کرنے میں معاون ہے۔ طاقتور انسان جن مشکلات کاسامناکرنے کی اہلیت رکھتاہے وہ کمزورکے بس کی بات نہیں۔راہِ قیادت میں آنے والی مشکلات کامقابلہ کرنے کےلیے اعضاء وجوارح کی سلامتی لازم ہے۔قومی قیادت کاجسمانی طورپرتندرست وتواناہونا اورکسی بھی جسمانی عیب سے پاک ہوناقیادت کوزینت اورتحاریک کوجلابخشتاہے۔رسول اللہﷺنےجسمانی قوت کے حامل مومن کوکمزورمومن سے بہتر قراردیا۔[26]البتہ حواس اوراعضاء کی سلامتی ان حواس سے مشروط ہے جو علم وعمل کی کیفیت پراثرانداز ہوتے ہوں۔نعمان عبدالرزاق السامرائی لکھتے ہیں کہ:

"سلامۃ الحواس والاعضاء ممالہ بالعلم والعمل صلۃ۔مثل سلامۃ الحواس اوالاعضاء بالقدرالذی یؤثرفی العلم والعمل فالاعمی لایجوزان یلی الخلافۃ ولکن فاقد الشم والذوق لاباس بہ۔" [27]

"اُن حواس اوراعضاءکاسلامت ہوناجن کاعلم وعمل سے تعلق ہے۔مثال کے طورپرحواس واعضاء کی اس قدرسلامتی جوعلم وعمل پراثراندازہو۔چنانچہ نابیناکوخلیفہ بناناجائزنہیں جبکہ سونگھنے اورچکھنے کی حس سے محروم کے خلیفہ بننے میں کوئی حرج نہیں۔"

جرأت منداور باہمت ہونا

قومی قیادت للہیت، خداخوفی اوراخلاص جیسے اوصاف عالیہ سے مزین ہونی چاہیئے۔ پرخلوص قومی قیادت کی راہنمائی میں ریاست سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے ترقی کرے گی۔مذکورہ اوصاف حمیدہ کے ساتھ قومی قیادت میں ایسی جرأت اور حوصلہ بھی ہو ناچاہیئے کہ بوقت ضرورت وہ معاندین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ملکی سالمیت اور قومی مفاد کے تحفظ کی خاطر سخت مؤقف اختیار کرکے اس پر قائم رہ سکے۔قومی قیادت میں جرأت وہمت کے ساتھ ساتھ قوت برداشت کا ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ مشکل اور صبر آزما حالات میں جسمانی اور ذہنی قوتِ کار کو برقرار رکھتے ہوئےاپنےفرائض کی انجام دہی میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اورزیردستوں کے ساتھ ہمیشہ مثبت رویئے کا مظاہرہ کرتا ہے۔قومی قیادت کے معاملے میں تدبر، سیاست اور صلاحیت کارکو دینی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔امامت تمام شرائط دوافراد میں مساوی طور پر پائی جائیں تو اس صورت میں الماوردیؒ لکھتے ہیں کہ :

"اگر امیر کے انتخاب کا سوال درپیش ہو، ایک طرف ایک دیندار شخص ہو لیکن اسے انتظام کا تجربہ نہ ہواور دوسری طرف ایک ایسا مسلمان ہو جو زیادہ دیندار نہ ہو لیکن اسے انتظام ملک کا تجربہ ہو تو ترجیح اس کم دیندار اور زیادہ تجربہ کار کو دی جائے گی۔"[28]

اسی طرح جب مسلمانوں کے سامنے امامت و امارت کے لیے انتخاب کا سوال آئے تو وہ مجبوری میں ایک فاسق مسلمان کا انتخاب تو کر سکتے ہیں لیکن ایک عورت کا انتخاب نہیں کر سکتے اگرچہ وہ زاہدہ و عابدہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جو اپنی باگ ایک عورت کے ہاتھ پکڑا دے گی۔[29] یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ حکومت کا مزاج فاعلانہ ہونا چاہیے نہ کہ منفعلانہ۔عورت کا مزاج منفعلانہ ہوتا ہے اور اس کے اصل فطری فرائض کے لحاظ سے اس کا یہی مزاج اس کے لیے موزوں ہے۔ اپنے اس مزاج کے لحاظ سے عورت حکومت کے لیے فطرتاً ناموزوں ہے۔ شریعت میں قومی قیادت کو امامت سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس کی دواقسام ہیں۔ * امامت صغریٰ

  • امامت کبریٰ

امامت صغریٰ یعنی نماز کی امامت اور امامت کبریٰ یعنی حکومت کی سربراہی ۔یہ بات متفق علیہ ہے کہ عورت امامت صغریٰ کے لئے نااہل ہے،یعنی وہ نماز میں مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی ۔عورت میں جب امامت صغریٰ کی اہلیت نہیں ہے تو امامت کبریٰ کے لئے وہ بدرجہ اولیٰ نا اہل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں مرد وزن کی مساوات کا نعرہ لگا کر عورت کے مقاصد زندگی تعین کرنے میں مغربی مفکریں نے ٹھوکر کھائی ہے۔مردو زن کی مساوات سے کچھ معاشی فوائد تو ضرور حاصل ہوئےہیں لیکن خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔

قومی قیادت کا قبیلہ قریش سے ہونا

نصوص شرعیہ اور عصر حاضر کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ قومی قیادت کے شخصی اوصاف میں قبیلہ قریش کی شرط پراصرار درست نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری امت کے اولوالامر یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی۔ وہ اس بات کے لیے مسؤل قرار پائے کہ وہ خدا کی زمین میں خدا کے احکام و قوانین نافذ کریں۔ اولوالامر درحقیقت رسول اللہ ﷺکے خلفا ءکی حیثیت رکھتے ہیں اس وجہ سے مطلقاًان کی اطاعت لازم ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

" اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ کَأَنَّ رَأْسَہُ زَبِیبَۃٌ "[30]

"حکم سنو اور اس کی تعمیل کرو،خواہ تم پرایسا حبشی حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی مانند ہو۔"

خلیفہ کے قریشی ہونے کی شرط میں فقہاء کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ اسلام نے اپنے احکام کا دارومدار کسی خاص نسل ،زمانے یا قوم پرنہیں رکھا بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ ایسے شخص کو امیر مقرر کیا جائے جسے قبولیت عامہ حاصل ہو۔قرن اولیٰ میں یہ خوبی صرف قریش میں پائی جاتی تھی جس کو انہوں نے عصبیت غالبہ سے تعبیر کیا ہے۔عصبیت غالبہ سے مراد کسی گروہ کا لوگوں کےدلوں میں ایسا اقتدار جس کی بناپر لوگ اُس کی بات سننے اور ماننے پر تیار ہوں۔سربراہ کسی ایسے طبقے سے لیا جائےجس پر لوگ اعتماد کرتے ہوں ، اُس کو سربراہ ماننے اور اُس کے احکام کی اطاعت کے لئے بخوشی تیار ہوں اُس وقت یہ امتیاز صرف قبیلہ قریش کو حاصل تھا کیونکہ تمام قبائل عرب ان کے سوا کسی اور کی قیادت پر متفق نہیں ہوسکتے تھے اس لئےآپ

ﷺ نے قریش کے لئے یہ بات ارشاد فرمائی کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔ [31]

قیادت کے قومی و ملی اوصاف

اسلام بطور کامل دین اورمکمل دستور حیات کےزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زریں اصول وضع کرتاہے۔انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔قوم کا سربراہ اگر وہ اپنے فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گےاور جانثاری کے جذبے ساتھ ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے۔رسول اللہ ﷺنےحکومتی نظام کو چلانے کے لیے راہنما اصول دیے اور اس کے لیے قیادت نافذہ تیار کی۔ قومی قیادت کے قومی و ملی اوصاف میں سےمندرجہ ذیل اوصاف نمایاں ہیں۔

سادہ اور باوقار معیار زندگی

رسول اللہ ﷺ نے اپنے طرز زندگی سے خود اس کی مثال پیش کی کہ سربراہِ مملکت اور قائدکا معیار زندگی کس طرح کا ہونا چاہئے ۔ آپﷺکے بعد اصحابِ خلافت راشدہ نے بھی اسی طرز کا معیارِ زندگی برقرار رکھا۔ رسالت مآبﷺ نے اپنے دور کے سب سے کمزور طبقے کے برابر اپنا معیارِ زندگی رکھا۔ رسول اللہﷺ نے قصدا فقر اختیار کیا اور پھر اس کا حق بھی ادا کیا۔ آپﷺکے گھر میں کئی کئی دن تک آگ نہیں جلتی تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بسااوقات ایسا ہوتا کہ پورا مہینہ گزرجاتا اورہمیں چولہا جلانے کی نوبت نہ آتی اور ہم صرف پانی اورکھجور پر گذارہ کرلیتے۔ [32]آپﷺ نےبطورایک پیغمبر ، سپہ سالار، منتظم اعلیٰ اور حاکم وقت کے اپنا معیارِ زندگی معاشرے کے عام طبقے کے برابر رکھا۔

عہد رسالت میں جب مسلمانوں کی معاشی صورت حال میں آسانی پیدا ہوئی تو معیارِ زندگی کچھ بہتر ہوا۔ ازواجِ مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے گھروں میں بھی سہولت آنی چاہئے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ جب ایک زوجہ محترمہ کے گھر تشریف لائے تو سب ازواج وہاں اکٹھی ہوگئیں اور اپنا مدعا بیان کیا۔ حضرت عائشہؓ نے اپنی گفتگو اس انداز سے کی کہ یارسول اللہﷺ! ہمارا زیادہ وقت پھٹے ہوئے کپڑے سینے سلانے میں گزر جاتا ہے اگر تھوڑی سہولت ہمیں بھی حاصل ہو جائے تو اچھی زندگی گزار سکیں گی اور اطمینان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں گی۔ رسول اللہﷺبحیثیت قائد اس مطالبے پر خفا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے وعید نازل فرمادی کہ تم لوگوں کے دلوں میں دنیاداری کا خیال بھی نہیں آنا چاہئے تھا۔

﴿یَا أَیُّھَا النَّبِیُّ قُل لِأَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاً﴾ [33]

"اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش منظور ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔"

بطور حکمرا ن نبی کریمﷺکا سادہ مگر باوقار طرز زندگی سیرۃ البنی ﷺکاایک اہم پہلو تھااور پھر آپﷺکے وصال کے بعد آپﷺ کے جانشینوں نے اِس طرزِ عمل کی جس طرح پیروی کی وہ بھی امت مسلمہ کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔

احساس ذمہ داری اور جوابدہی کا تصور

شریعت اسلامیہ میں حقوق وفرائض کے تعین میں توازن رکھا گیا ہے ،لیکن اصل توجہ اور زور فرائض کی ادائیگی پر دیا گیا ہے،اس لئے کہ ادائیگی فرض کا احساس وشعور انسان میں مثبت اور تعمیری اندازفکر پیدا کرتاہے جو معاشرہ کی تعمیر واصلاح اور وحدت و یکجہتی کے لئے بہت ضروری ہے۔تعلیمات نبویﷺ کا ماحاصل یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی عظیم امانت ہے اور کوئی شخص اس امانت سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ"جس شخص کو اﷲ تعالیٰ رعیت کی نگہبانی سپرد کرے اوروہ بھلائی اور خیر خواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے وہ بہشت کی مہک بھی نہ پائے گا۔"[34] عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:

"قال رسول اﷲﷺ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"[35]

"رسول اﷲﷺنے فرمایاکہ تم میں سے ہر شخص اپنے زیردستوں پر نگہبان ہے ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کی بابت باز پرس ہوگی۔ حاکم سے اس کے ماتحت علاقہ کے لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا ۔ "

صالح قیادت کافقدان تمام تر معاشرتی بگاڑ باعث ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺنے غیر منظم معاشرے کو سدھار نے کے لئےانسانوں کی خود سری کو ختم کر کے انہیں اطاعت سکھائی اورعوامی سوچ کا رُخ انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کی طرف موڑ دیا۔ عوام کو ان کے حقوق وفرائض سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں معاشرتی آداب سکھائے۔رسول اللہ ﷺ نے عدل اجتماعی پر مبنی جونظام قائم کیا اس میں معاشرے کے ہر فرد کوحکومتی قائدین اور ذمہ داران کے احتساب کا حق دیا۔ آپﷺ نےایک مرتبہ ایک صحابیؓ کو باتوں باتوں میں ہلکی سی چھڑی مار دی جس سے اس کے جسم پر خراش آگئی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ میں آپ سے بدلہ لوں گا۔ آپ ﷺنے اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوراً چھڑی اس کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر دی۔[36] ایک صحابی نے جب رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ دین کیا ہے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

"إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَة قِيلَ: لِمَنْ قَالَ: لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ " [37]

" دین خیرخواہی کا نام ہے،عرض کیا گیا کہ :کس کی خیرخواہی، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خیر خواہی،یعنی ان کےاحکام پر عمل کرنااورمسلم حکمرانوں اور عوام الناس کی خیرخواہی،یعنی اطاعت اور خیرخواہی کاجذبہ "

مذکورہ بالاسطور میں عہد نبویﷺ کے نظام حکومت کی دو خصوصیات کاذکر کیا گیا ہے ۔ پہلی یہ کہ آپﷺ نے بطورحکمران اپنا معیارِ زندگی عام لوگوں کے مطابق رکھا۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ حاکم وقت عام لوگوں کے مسائل سے صحیح طور پر آگاہی اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جبکہ وہ خودبھی روز مرّہ زندگی کے ان مسائل و مشکلات سے دوچار ہو۔ رسول اللہﷺ نے جو طرزِ حکومت متعارف کروایا اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ معاشرے کے ہر فرد کو حاکم وقت کے احتساب کا حق دیا۔ بالخصوص معاشرے کے اصحابِ علم و دانش کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ وہ حکمرانوں کے غلط اقدمات کی نشاندہی کرتے رہیں کہ احتساب کا یہ عمل حکومتی نظام کو صحیح رخ پر چلنے میں مدد دیتا رہے۔ اہل علم اگر امراء کے احتساب سے صرف نظر کریں گے اور ان کے غلط اقدامات کی نشاندہی نہیں کریں گے تو وہ مجرم ٹھہریں گے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں قصوروار ہوں گے۔

سماجی انصاف اوراصول پسندقیادت

انصاف کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے جس قدرعام ہے اپنی عملی ضرورت کے پہلو سے اسی قدر اہم اور خاص بھی ہے۔ قومی قیادت کے شب و روز کے معمولات، انفرادی و اجتماعی معاملات، عائلی و سیاسی حالات اعتدال کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں تاکہ کسی جگہ عدم توازن کی شکایت نہ ہو۔قومی قیادت کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط کا سختی سے پابند ہوناچاہئے کیونکہ اس کی پابندی کا عکس معاشرہ اور ماحول پر پڑے گا۔ اصول پسند قیادت کے دور میں جب اصولوں کی بالادستی ہوگی تو ایسے قائد کی مقبولیت اور سیاسی وقار میں اضافہ ہو گا ۔

عہد رسالت میں ایک معزز خاندان کی ایک باأثر خاتون نے چوری کی تو مقدمہ آپ ﷺ کی بارگاہ انصاف میں آیا تو آپﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری فرمادیا۔ اہل قبیلہ نے سفارش کروائی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب بڑے قبیلہ کا آدمی کوئی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو مختلف حیلوں، بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی غلطی مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔اس کی جگہ اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔[38] اس واقعہ سے ایک اہم نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ جہاں اصولوں کی پاسداری کی بات آتی ہے تو وہاں تعلقات اور قرابت داری کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ جب قومی قیادت اس قدر اصول پسندی کا ثبوت دے گی تو نہ صرف وہ معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گا بلکہ ایسی قیات کی باقیات تادیر قائم رہتی ہیں۔

مذہبی رواداری اوروسعت قلبی

اسلامی مملکت میں مختلف الخیال لوگ مصروف کار ہوتے ہیں،جن کے مابین مذہبی و اعتمادی اور نظری و فکری اختلاف کا ہونا بھی بین امر ہے۔ جس طرح ایک مملکت میں اکثریت کیساتھ ساتھ اقلیت بھی ایک عام شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہیں تو ایسے میں ان کے مذہبی رجحانات کا خیال رکھنا اور اعتقادی لحاظ سے اسلوب عبادت میں ان کی آزادی کا پورا پورا پاس کرنا رواداری کا تقاضا ہے۔ قرآن حکیم میں مذہبی آزادی کا اور اسلامی رواداری کا قرآنی تصور اس قدر واضح اور غیر مبہم ہے کہ مسلمان باطل معبودوں کو بھی گالیاں نہ دیں کہیں کفار اس کی پاداش میں ان کے سچے خدا کو گالیاں نہ دیں۔ [39]

مدینہ منورہ میں عیسائیوں کا ایک وفد نجران سے آیا جو کسی سیاسی یا سماجی معاہدے کیلئے نہیں آیا تھا بلکہ آپ ﷺ سے مناظرہ کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ آمد کے مقاصد میں دشمنی کا عنصر غالب تھا۔ جب اس وفد کے قیام کی بابت استفسار کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایاکہ ان کو مسجد نبوی میں ٹھہراؤ اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں ان کو اپنے طریق کے مطابق عبادت کی اجازت دی۔[40]حضور ﷺ کا قائدانہ کردار اپنے ہم مذہبوں کیلئے ہی نہیں بلکہ اغیار اور وہ بھی غیر ملکیوں سے بہترین سلوک کا نمونہ ہے۔ قائد صرف فرمودات اور ارشادات ہی دینے والا نہ ہو بلکہ دور اندیش اور حسن سلوک میں اعلیٰ ترین عادات کا خوگر ہو۔ رواداری میں اغیار کو قریب ہونے کا موقع ملتا ہے تو اچھائیاں اپنی جگہ خود تلاش کرلیتی ہیں جواوروں کیلئے قبولیت اسلام کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

حلیم الطبع اور شفیق ہونا

دین ِاسلام میں نرمی کاپہلوہمیشہ غالب رہاہے۔متعددمواقع پرجہاں سختی کارگرنہیں ہوتی وہاں نرمی مقصودکے حصول میں معاون رہتی ہے۔رفق اورنرمی تمام امورمیں بہتری اوررحمت ِالٰہی کے حصول کاسبب ہے۔اللہ تعالیٰ جس شخص کو منصب ِقیادت عطافرمائےاس پر عوام الناس کی خیرخواہی اوربھلائی لازم ہے۔قومی قیادت کا اپنی قوم سے نرم رویہ خوشگوارتعلقات کوجنم دیتاہے۔ ذاتی معاملات اورمخالف نظریات کے حامل افراد سے قوت برداشت اور حلم و بردباری کا اظہار کرنا قیادت کی مقبولیت میں اضافہ کرتا ہے۔عوام الناس کے لیے آسانی اورنرمی کاپہلواختیارکرنا رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اور امت میں خیروبرکات کاباعث ہے۔

رسول ِاکرم ﷺکے بارے ارشادِخداوندی ہے:

﴿لَقَدْجَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌعَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾[41]

"لوگوتمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبرآئےہیں تمہاری تکلیف ان کوگراں معلوم ہوتی ہےاوروہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمندہیں اورمومنوں پرنہایت شفقت کرنے والے ہیں مہربان ہیں۔"

رسول اللہ ﷺ مومنین پرانتہائی شفیق اورمہربان تھے اوران کاکسی بھی قسم کی تنگی وحرج میں مبتلاہوناآپ ﷺ کےلیے دشواراورتکلیف کاباعث تھا۔ اسی بناپرآپ ﷺنے دوسروں کوبھی نرمی اورسہولت سے کام لینے کاحکم دیا۔[42] سیرت ِطیبہ پرنظرڈالنے سےمعلوم ہوتاہےکہ آپﷺکامزاج،گفتگو رافت ورحمت کاآئینہ دارہے۔شرعی احکام میں بھی ہمیشہ نرمی کاپہلوپیش ِنظررہتا۔ہروہ چیزآپ ﷺکےلیےشاق گزرتی جولوگوں کےلیےباعث ِمشقت ہوتی۔ آپﷺکے اسوہ حسنہ کی روشنی میں قومی قیادت کواس وصف سے بھی متصف ہوناچاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

"اللہم من ولی من امرامتی شیئافشق علیہم فاشقق علیہ ومن ولی من امرامتی شیئا فرفق بہم فارفق بہ ۔" [43]

"اے اللہ جومیری امت کاوالی بنے اوران پرسختی کرے اس پرسختی فرمااورجومیری امت کاوالی بنے پھرنرمی سے کام لے اس پرنرمی فرما۔ "

معلوم ہواکہ رعایاپروری میں شفقت ونرمی کابرتاؤحصول رحمت کاسبب جبکہ سختی موجب مشقت ہے۔البتہ یہاں رفق کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ مجرم کوسزادینے میں تساہل سے کام لیاجائے۔حدوداللہ میں نرمی اورتساہل نہ صرف شرعاًممنوع ہے بلکہ ایساکرناجرائم کے سدباب میں رکاوٹ کاباعث ہے۔جرم پرسزاعدل کاتقاضااورعین خیرخواہی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جہاں عوام کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں وہیں مجرم کوتائب ہونے کاموقع ملتاہے اوریوں وہ اخروی اورابدی عذاب سے محفوظ ہوجاتاہے۔

قومی قیادت کےپیشہ ورانہ اوصاف

قومی قیادت کوحالات حاضرہ سے واقفیت ،ریاستی اموراورداخلی و خارجی امور کا تجربہ ہونا چاہیئے۔قائدانہ بصیرت،مثبت سوچ،اورمثبت عمل قومی قیادت کے اہم پیشہ ورانہ اوصاف ہیں۔قومی قیادت کے پیش نظرواضح اہداف اور قومی ترقی کا واضح خاکہ ہونا چاہیئے تاکہ وہ پوری قوم کو متحرک کرسکے۔قوم کو اپنے قائد پر اس درجہ اعتماد ہو کہ وہ محسوس کریں اگر ان کا قائد قوم کےآگے ہوگا تو رہنمائی کرے گا اور پیچھے ہوگا تو پشت پناہی کرے گا۔سیاست وقیادت ایک مستقل اورباقاعدہ فن ہے جوبہت سی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اورمہارتوں کامتقاضی ہے۔دیگرعلوم وفنون کی ماننداس کے بھی اپنے اصول وضوابط ہیں جن کاجاننااس فن کے حامل کے لیے ضروری ہے۔ حالات وزمانہ کے بدلنے سے ان صلاحیتوں میں کمی بیشی اورتغیروتبدل عین ممکن ہے۔البتہ اصولی طورپر چند پیشہ ورانہ جوہر ایسے ہیں جن کا قومی قیادت میں پایاجانا ہردوراورزمانے میں مطلوب ہے۔#

  1.  

تقریر اور تحریر کا ملکہ

قومی قیادت کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہیئے۔بین الاقوامی سفارتکاروں اور وفود کا براہراست تعلق چونکہ قومی قیادت سے ہوتا ہےاس لئے قائد کا انداز گفتگوشستہ اور متأثر کن ہونا چاہیئے۔گفتگو میں باوقار طرزتکلم گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ خوبصورت اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز  قومی قیادت کا امتیازی وصف ہے ۔زبان وبیان کی اثر انگیزی سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ المَشْرِقِ فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ لِبَيَانِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِنَّ مِنَ البَيَانِ لَسِحْرًا، أَوْ: إِنَّ بَعْضَ البَيَانِ لَسِحْرٌ"[44]

"عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ مشرق سے دو آدمی آئے اور انہوں نے خطبہ دیا اور ان کے بیان سے لوگ حیران ہوئے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلا شبہ بعض بیان جادوئی اثر رکھتے ہیں، یا فرمایا کہ بعض بیان جادو ہوتاہے۔"

قومی معاملات پرباہمی مشاورت کے بعدعزم مصمم

اسلامی نظام ِسیاست میں شورائیت کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔اسلامی نظامِ سیاست یہی خوبی اسے دیگرنظام ہائے سیاست سے ممتازکرتی ہے۔ اسلامی ریاست کے اساسی عناصرمیں سے مجلس ِشوری ٰ کومرکزیت حاصل ہے۔نبی کریم ﷺ کو اگرچہ براہ راست وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل تھی اور آپ کسی معاملے میں دوسروں سے مشورہ لینے کے پابند نہیں تھے لیکن شورائی نظام ،قانون سازی اور تدبیر مملکت کے نقطہ نظر سے چونکہ ضروری تھا اس وجہ سے حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ نبی کریمﷺ خود اپنے طرز عمل سے اس کی بنیاد رکھیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو یہ حکم دیا گیا:

﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ﴾ [45]

"سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور معاملات میں ان سےمشورہ لیتے رہیں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں۔"

مذکورہ آیت میں نبی کریم ﷺ کو صحابہؓ سے معاملات میں مشورہ لیتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحابہؓ سے مشورہ لیتے رہنے کا یہ حکم محض رسمی اور ظاہر دارانہ نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ مشورہ لینے کے بعد ان مشوروں پر عمل بھی کیا جائے۔نبی کریم ﷺ نے جس قسم کے معاملات میں صحابہ سے مشورے لیے ہیں ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان میں جنگی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی ہر قسم کے معاملات داخل ہیں۔چنانچہ اسی اصول پر نبی کریمﷺکے بعد صحابہؓ نے نظام خلافت کی بنیاد رکھی جس میں خلیفہ کے انتخاب میں بھی جمہور مسلمین کے مشورہ کی شرط لازم ٹھہرائی اور خلافت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی شوریٰ کو ضروری قرار دیا گیا۔ قومی قیادت کی مجموعی روش سے متعلق آپﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ:

"قال رسول اللہ ﷺإذا کان أمراؤکم خیارکم وأغنیاؤکم سمحاء کم وأمور کم شوری بینکم فظہر الأرض خیر لکم من بطنہا وإذا کان أمراؤکم شرارکم وأغنیاؤکم بخلاء کم وأمورکم إلی نسائکم فبطن الأرض خیر لکم من ظہرہا۔" [46]

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارے حاکم تم میں سے بہترین لوگ ہوں، تمہارے مال دار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہم مشاورت سے طے ہوں تو زمین کی پیٹھ اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے حاکم برے ہوں تمہارے مال دار بخیل ہوں اور معاملات وعورتوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہترہے۔"

معروضی اور ہنگامی حالات میں بروقت درست فیصلہ ملک و ملت کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ قومی قیادت کو چاہئے کہ وہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اصحاب حل و عقد سے مشاورت کرے ۔ مشورہ کے بعدجب ایک جانب متعین ہوجائے توقائدکوچاہیے کہ اس بارےمزیدکسی قسم کے شک وشبہ یاترددمیں مبتلا ہوئے بغیراللہ پرتوکل کرتے ہوئے اس پرکاربندرہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو باہمی مشاورت کے بعدعزم مصمم اورتوکل علی اللہ کا حکم دیاگیاہے:

﴿فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴾ [47]

"جب تم کسی کام کاپختہ ارادہ کر چکوتوپھراللہ پراعتماد رکھوکیونکہ اللہ بھروسہ کرنے والوں کودوست رکھتاہے۔"

قومی قیادت کاپرعزم اوراللہ پربھروسہ رکھناایک نمایاں وصف ہےجس کااثرعوام الناس کی جملہ مساعی پربھی پڑتاہے۔ اگرچہ عزم وتوکل ایک اخلاقی وصف ہے لیکن قیادت میں اس کاشمارپیشہ وارانہ اوصاف میں اس بناپرکیاگیاہے کہ قائد کوقدم قدم پراس کامظاہرہ کرناپڑتاہے۔قومی قیادت کافریضہ پختہ عزائم کے بغیر سرانجام ہی نہیں دیاجاسکتا۔

ریاستی امور میں تفویض کار

ریاستی امور کو سرانجام دینا فرد واحد کا کام نہیں ہے۔حکومتی معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لئے ضروری ہے کہ صائب الرائے معاون افراد کو کار سرکار میں ذمہ داریاں سونپی جائیں تاکہ ہر شعبہ پر انفرادی توجہ دی جا سکے۔ ریاستی امور میں تفویض کار کامطلب یہ ہے کہ حامل ِعہدہ آزادانہ تصرف کرسکے اورمعاملات میں ہروقت امیرکی اجازت کامنتظرنہ ہو۔ قومی قیادت کاتمام انتظامی اموربذات ِخودانجام دینا امور ِسلطنت میں تعطل کاباعث ہوگا۔لہذا قومی قیادت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرے اورہرعہدہ دار اپنے اپنے دائرہ کارکی حدتک امور کی انجام دہی یقینی بنائے۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حکمرانوں کو مخلص رفقائے کار میسر آئے ان کی حکمرانی کو دنیا نے تسلیم کیا۔قرآن حکیم میں موسیٰ علیہ السلام کی درخواست وارد ہوئی ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کی کہ میرے بھائی ہارون کو میراشریک ِکاربنادے:

﴿وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴾

"اور میرےکنبے میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بناکر اس سے میری ہمت بندھادےاور اسےمیرا شریک کار بنادے۔" [48]

ریاست کانظم ونسق چلانے کےلیے قومی قیادت پرجوذمہ داریاں عائدہوتی ہیں ان کی ادائیگی معاونین کے بغیرممکن نہیں ہے۔قومی قیادت کے لئےشریک ِکار بناکراختیارسونپنا مستحسن ہے تاکہ اس کے لئےسہولت بھی ہواورغلطیوں کا امکان بھی کم سے کم ہو۔تاہم محض ا ختیارات کی تفویض سے قومی قیادت کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی بلکہ بعدازتفویض اس پر عمال کا محاسبہ اوران نگرانی بھی لازم ہے تاکہ جہاں کہیں کوئی عامل کوتاہی کامرتکب ہواس کے خلاف تادیبی کا روائی کی جاسکے۔ معلوم ہواکہ ریاستی امورمیں نظم ونسق کی بروقت اوربے مخل ادائیگی کے لیے اختیارات کی تفویض لازم ہے۔

رفقائے کارپر اعتماد اور ان کی نفسیات سے واقفیت

ملکی ترقی ،خوشحالی اور استحکام مملکت کے لئے ضروری ہے کہ قومی قیادت اپنی ذمہ داری سے متعلق باخبر رہے اور اپنے کام کی تفصیلات کا علم رکھے۔ قائد ہمہ وقت جزئیات پر اصرار کرے گاتوماتحتوں کو ایسا لگے کہ وہ ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتا ہے تو اس سے عدم اعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔ قائد کواس بات سے ضرور باخبر رہنا چاہئے کہ دوسرے کیا کام کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس نہیں دلانا چاہیئے کہ ہروقت ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔قومی قیادت کوعمومی نوعیت کے معاملات پر توانائی صرف کرنے کی بجائےقومی سلامتی کے امورتوجہ دینئ چاہیئے۔عمومی نوعیت کا ایک واقعہ عہد رسالت میں پیش آیاتو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

"عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ:لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ:مَا لِنَخْلِكُمْ؟ قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ" [49]

"حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جوکھجوروں کو گابھا دے رہے تھے، آپ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم ایسانہ کرو تو بھی ٹھیک ہے۔کھجور عمدہ قسم کی نہ اتری تو آپ ﷺنے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ آپﷺ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا،توآپ ﷺنے فر مایا کہ تم اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں بہتر جانتے ہو۔"

قومی قیادت کی عوامی اور نجی زندگی کو قابل تقلید ہونا چاہئے۔اگرقائد اپنے ماتحتوں سے ایک خاص طرح کے رویئے کی توقع کرےمگر خود ویسے رویئے کا مظاہرہ نہ کرے تو اس کا وقار مجروح ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ جب قائد کسی پراعتمادکا اظہار کرتا ہے تو اس کی خوداعتمادی اور عزت نفس بڑھ جاتی ہے ۔لوگوں کی موجودگی میں کسی کی تعریف کرنا ایسا احسان ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاتا ۔تعریف مثبت ترین تنقید سے بھی زیادہ موثر ہواکرتی ہے ۔ تنقید عام طور پر رنج دیتی ہے اورحوصلہ پست کرتی ہے ۔ اگرچہ یہ عامیانہ سی بات لگتی ہے مگر ماہرین نفسیات اس طریقہ کار کی افادیت کے قائل ہیں ۔

بین الاقوامی معاملات میں قومی قیادت کاطرزعمل

بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائےتوقومی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں مسلم دنیا نے ترقی کی بہت سی منازل طے کی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی امور سےمتعلق منصوبہ سازی کرتے ہوئے قومی قیادت کو امت مسلمہ میں رونما ہونے والی ترقی اور نمایاں پیش رفت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ امت مسلمہ کو درپیش اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں پائے جانے والے غلط تاثر کو کس طرح ختم کیا جائے ۔مغربی ذرائع ابلاغ اسلام کو ایک انتہاپسند اور عسکریت پسند مذہب کے طور پر پیش کررہاہے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ اس کے قائدین،محققین، ذرائع ابلاغ اور اہل علم و دانش کا اہم ترین فریضہ ہے کہ و ہ اسلام سے متعلق غلط تاثر کو ختم کریں اور دنیا پر واضح کریں کہ اسلام امن و آشتی، محبت و رواداری اور برداشت کا دین ہے۔

 گزشتہ چار سو سال کے عرصے میں پوری اسلامی دنیا بدترین دور سے گزری ہے۔ کیونکہ اس دوران مکمل مسلم آبادی والے علاقوں کے ساتھ ساتھ اکثریتی مسلم آبادی والے ممالک پر بھی مغربی اقوام کا غاصبانہ قبضہ رہا ہے۔ اس طرح پوری مسلم دنیا کو ناکامی ، علیحدگی اور خوف و ہراس کی دلدل میں دھکیل دیا گیاہے۔ بیسویں صدی میں مغربی اقوام کی کالونیاں اپنے اختتام کو پہنچیں اور ان ممالک میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہونے والے ان ممالک میں مشرقی وسطیٰ، افریقہ، برصغیر اور مشرق بعید کے بہت سے ممالک شامل ہیں جہاں اسلامی روایات اور اقدار کے فروغ کا آغاز ہوا۔ اس عرصے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے فضا انتہائی سازگار تھی۔ اچانک پوری مسلم دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بہت سے چھوٹی بڑی تحریکیں شروع ہو گئیں۔

غیر ملکی تسلط ختم ہونے کے بعد بدقسمتی سے بہت سے مسلم ممالک بادشاہت یا آمرانہ سیاسی تسلط میں چلے گئے۔ ان حکمرانوں کی آمرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے سبب اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں زیر زمین چلی گئیں اور ان میں سے بعض جماعتیں ظالمانہ سیاسی تسلط کے رد عمل کے طور پر جارحیت اور عسکریت کے راستے پر چل پڑیں۔موجودہ دور کا اہم ترین چیلنج یہی ہے کہ کس طرح مسلم امت کو انتہاپسندی سے نجات دلا کر اعتدال اور تحمل و بردباری کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کوئی مضبوط اور قابل عمل تلقین کی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیابھرکےمسلمان قائدین باہمی اتفاق رائے سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انتشار وافتراق اور شدت پسندی کے رجحان کےاسباب و محرکات کیا ہیں اور کس طرح تحمل وبرداشت،امن و آشتی جیسی شاندار اسلامی روایات کو کس طرح پروان چڑھایا جا سکتاہے۔ مسلم اقوام کو اپنی گمشدہ متاع حاصل کرنے اور مثبت تبدیلی کے لئے جامع حکمت عملی اور صالح قیادت کی ضرورت ہے ۔

بین الاقوامی مسائل میں قومی قیادت کا طرز عمل میثاق مدینہ کے تناظر میں

مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی ۔ریاست مدینہ تاریخ کی پہلی ریاست ہے جو تحریری دستور کی بنیاد پر وجود میں آئی اور اسی دستور کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ اس ریاست کے حکمران مقرر ہوئے۔اس معاہدہ کی ہر دفعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے مدبراور ماہر قانون کا تیار شدہ ہے جو حالات کی جزئیات تک سے کلی طور پر واقف ہو۔ڈاکٹر محمدحمیداللہ ؒنے بجا طور پر اسے دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے۔[50]ریاست مدینہ تاریخ انسانی کی پہلی ریاست تھی جو کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اور کثیراللسانی معاشرے پر مشتمل تھی۔ ہر گروہ کے تمام جائزحقوق کی حفاظت کے ساتھ سب کو اجتماعی امن و ترقی کی راہ پر لگا دینے کا کاکوئی نقشہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔

میثاق مدینہ صرف ریاست مدینہ کی تاسیس کے لئے ہی اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ اس میں آنے والے تمام مسلمان قائدین کے لئے بھی رہنما اصول مہیا کئے گئے ہیں۔میثاق مدینہ قائد اسلامﷺ کا یہ ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب ﷺنے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، روحانی بالیدگی ، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کا سبب بنے۔

غیر مسلم اقوام اور ممالک سے متعلق قومی قیادت کا طرز عمل

بین الاقوامی تناظرمیں مسلم اور غیر مسلم ممالک کےتعلقات باہمی اعتماداور رواداری پر مبنی ہوں گے۔قومی قیادت کے ماتحت چونکہ مختلف العقائدومختلف الخیال لوگ بکثرت ہوتے ہیں ،سب کو ساتھ لیکر چلنا اس کی پیشہ وارانہ مہارت متقاضی ہے۔ اکثریت کے ساتھ ساتھ اقلیت کے حقوق کاتحفظ قومی قیادت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔اسلام ہرایک کوعقیدہ اوررائے کی آزادی دیتاہے اوردوسروں کواس آزادی کے احترام کادرس دیتاہے۔اس آزادی کااحترام کرنااورفراخدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے مختلف العقائد افرادسے حسن ِسلوک سے پیش آنارواداری کاتقاضہ ہے۔وہ غیرمسلم افرادجواسلامی ریاست کے پرامن شہری کے طورپرزندگی گزاررہےہیں ان سے حسن ِسلوک اوررواداری اسلام کی واضح تعلیم ہے:

﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ﴾ [51]

"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اورنہ تم کوتمہارےگھروں سے نکالاان کے ساتھ بھلائی اورانصاف کاسلوک کرنے سےاللہ تم کومنع نہیں کرتا۔"

سیرت النبی ﷺمیں بین المذاہب رواداری کی متعددمثالیں موجود ہیں ۔قومی قیادت پرلازم ہوتاہےکہ اپنے ماتحت اقلیتوں سے رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئےان کی بنیادی ضروریات،مذہبی رسوم ورواج کاخیال رکھے اوران اپنے مذہبی شعائر پرآزادانہ عمل کرنے کےمواقع فراہم کرے۔رسول اللہ ﷺ نے ایسا معاشرہ قائم کیا جس سے بلاتخصیص مذہب وجنس سب فیض یاب ہوئے۔آپﷺ نے بحیثیت حکمران قبائل سےجو معاہدات کئے ان سےآپﷺ کی سیاسی بصیرت، مذہبی رواداری،احترام آدمیت،تحمل و بردباری اور برداشت کا پتہ چلتا ہے۔ آپﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کے مندرجات قابل غور ہیں۔[52] سیاسی و مذہبی سطح پر حریت اور آزادیٔ ضمیر سے متعلق یہ ایک ایسی وقیع یادگار ہے جس کے نہ صرف قرون اولیٰ میں عظیم الشان مثبت نتائج برآمد ہوئے بلکہ موجودہ دور میں بھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستحکم فلاحی اسلامی مملکت قائم کی جاسکتی ہے۔

خلاصہ بحث

 اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اصولی راہنمائی موجود ہے۔ سیاست وحکمرانی دنیاوی زندگی کا اہم ترین باب اور انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے۔تعلیمات نبویﷺ میں حکومت کی تشکیل وتاسیس اور طریقہٴ انتخاب سے لے کر اس کی توسیع واستحکام تک اور آئینی اور اصولی نظریات سے عملی جزئیات تک ہر مرحلے کے لیے مکمل ہدایات موجود ہیں۔قومی قیادت کےلئے لازم ہے کہ وہ مسلمان ہو، عاقل وبالغ آزادمرد ہو، ذہنی یا جسمانی معذوری سے پاک ہواور حکومتی امور کی انجام دہی کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔قومی قیادت کے جملہ امتیازات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ صادق وامین اور اوصافِ حمیدہ کا حامل ایساصائب الرائےشخص ہو نا چاہیئےجو ملکی اور بین الاقوامی مسائل میں درست فیصلے کر سکے۔

قومی قیادت میں مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ ملک و ملت کی حفاظت اورعصری مسائل سے عہدہ برا ہونے کی بھر پور صلاحیت موجود ہونی چاہیئے۔قومی وبین الاقوامی امور میں حسن تدبیراورحکمت سے کام لینا قومی قیادت کاامتیازی وصف ہے۔ آغاز ِوحی کے بعدخفیہ تبلیغ،ہجرت کے بعدمواخات ِمدینہ،یہودِمدینہ سے میثاق،صلح حدیبیہ کےموقع پربظاہراپنے خلاف نظر آنے والی شرائط پرآمادگی، دیگرریاستوں سے خط وکتابت ،سفارتی تعلقات اورمعاہدات آپ ﷺکی حکمتِ عملی اور حسن ِتدبیر کامنہ بولتاثبوت ہے۔ پاکستان میں معاشرتی اصلاح مخلص اورایماندار قیادت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مروّجہ ناقص جمہوری نظام کی بدولت صالح قیادت کا قانون ساز اداروں میں پہنچناتقریباً ناممکن ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی بجائے جمہوری رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔قومی قائدین اُسوہ رسول ﷺ کا اتباع کریں تو اس کے مندرجہ ذیل اثرات برآمد ہوں گے۔* نظام عدل اجتماعی کے قیام سے رضائے الٰہی کا حصول۔

  • معاشرتی انتشار کا خاتمہ اور مستحکم سیاسی نظام کا قیام۔
  • عوام کی معاشی ،اخلاقی،ذہنی اورنفسیاتی فلاح و امن۔
  • حقوق و فرائض کی مکمل واحسن ادائیگی۔
  • ریاستی اداروں کی عمدہ ساکھ سے بین الاقوامی اچھی شہرت کا حصول۔
  • ملکی سالمیت اور مضبوط داخلی اور خارجی نظام ۔

تجاویزوسفارشات

  • فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہےجس کی درستگی معاشرے کی اصلاح ہے۔ہر فرد دوسروں کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرے تاکہ جب قومی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ آئے توصالح افراد منتخب ہوکر قومی قیادت کا فریضہ سر انجام دیں
  • افراد کے ذہنوں میں خدا کا صحیح تصور اور عقیدۂ آخرت کی اہمیت پر زور دیا جائے۔تاکہ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے تصور کو مردہ نہ ہونے دیں اور صحیح نصب العین اور اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کے حصول کی خاطر کوشاں رہیں۔
  • دورِ حاضر میں ذرائع ابلاغ عوامی رجحانات کو بدلنے اور نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہذا ان ذرائع کےذریعے دینی اقدار اور اسلامی طرزِ حیات کی تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جائےاورمعاشرے کا اجتماعی شعور بیدار کیا جائے۔
  • امت مسلمہ کا صالح عنصر مجتمع ہو جائے اور اس کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستبازی، انصاف، حق پسندی، خلوص اور دیانت پر قائم ہو جائے تو منظم نیکی کے سامنے منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت کے باوجود شکست کھا جائے گی۔
  • اصلاح معاشرہ کے لئے مسجد کو مرکزی حیثیت دی جائے اورمسجد کی دینی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا جائے۔عوام الناس مسجد سے اپنا تعلق مضبوط کر ےاوران میں پورے معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔
  • معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقاء کا دارومدار تعلیمی اداروں پرہوتا ہے۔مناصب کے ذمہ دارانہ استعمال سے متعلق تعلیمات نبویﷺ کوپرائمری سے لیکر اعلیٰ ترین سطح تک تعلیمی نصاب میں شامل کرکے نصاب تعلیم کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
  • انتخابات کے طریقہ کار میں اصلاحات اوردستور کےآرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ پرسختی سےعمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے
  • قومی قیادت کے مقدس فریضہ میں بد دیانتی بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سخت اور فوری سزا دی جائے۔اس مقصد کے لئے مؤثر قانون سازی اور قومی ادارۂ محتسب کے کردارکو مؤثر بنانے اور اس کی تشکیل نو کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
  • امت مسلمہ کے قائدین کو اقوام متحدہ میں مؤثر کردار اداکرنےکے لئے پالیسی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
  • پاکستان میں معاشرتی اصلاح مخلص قیادت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مروّجہ ناقص جمہوری نظام کی بدولت صالح قیادت کا قانون ساز اداروں میں پہنچناتقریباً ناممکن ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی بجائے جمہوری رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)

 

حوالہ جات

  1. الفاتحۃ 6:1
  2. البخاري ،صحيح البخاري ، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ، سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ۔۔۔، رقم الحدیث 4566
  3. ابن هشام, عبد الملك ,السيرة النبوية , غَزْوَةُ تَبُوكَ فِي رَجَبٍ سَنَةَ تِسْعٍ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر,1955 ء
  4. البخاري ،صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء ، بَاب مَا ذُکِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، رقم الحدیث 4355
  5. بنی اسرائیل 80 : 17
  6. أحمد بن یحیی بن فضل اللہ القرشی ، شہاب الدین ، التعریف بالمصطلح الشریف، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃ: الأولی، 1998ء، باب والتقالید والتفاویض والتواقیع،140/1 ابن کثیر ؒ نے اس حدیث کوالبدایۃ والنہایۃ میں اور ابن الاثیرؒ نے جا مع الاصول میں نقل کر کے اسے حضرت عثمان ؓ کا قول کہا ہے، علی المتقی ؒنےکنز العمال میں نقل کیا ہے او ر اسے حضرت عمرؓ کا قول کہا ہے۔
  7. ابوداؤد،سلیمان بن اشعث السجستانی،سنن ابی داؤد،بیت الافکارالدولیۃریاض، س ن،کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون احدہم،رقم 2628
  8. ابویعلیٰ،محمدبن حسین الفراء حنبلی،الاحکام السلطانیۃ،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2000ء،صفحہ 19
  9. السیوطی،عبدالرحمٰن بن أبی بکر،جلال الدین،جامع الاحادیث،الہمزۃ مع الیاء ،رقم الحدیث 1056
  10. بحوالہ : ڈاکٹر اسرار احمد ،اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور،2002ء ، ص 14
  11. الحج 41:22
  12. الاعراف 7:54
  13. آل عمران 3 :154
  14. المائدہ 5: 44
  15. ابن تيمية ،تقي الدين ،السياسة الشرعية، فصل أنواع أداء الأمانات،القسم الأول الولايات، وزارة الشئون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد، المملكة العربية السعودية ، 1418هـ ،ص10
  16. النور 55:24
  17. النساء 58:4
  18. القشيري ،مسلم بن الحجاج ، كِتَابُ الْإِمَارَةِ، بَابُ كَرَاهَةِ الْإِمَارَةِ بِغَيْرِ ضَرُورَةٍ رقم الحدیث 16 - (1825)
  19. البخاري ،صحيح البخاري ،كِتَابُ الأَحْكَامِ ،بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحِرْصِ عَلَى الإِمَارَةِ، رقم الحدیث 7148
  20. أَيْضًا ،صحيح البخاري، كِتَابُ العِلْمِ، بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ ۔۔۔،رقم الحدیث 59
  21. محمد بن محمد بن سلیمان ،جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد ، طاعۃ الإمام ولزوم الجماعۃ ، مکتبۃ ابن کثیر، الکویت ،الطبعۃ: الأولی، 1418 ہـ/ 1998ء، رقم الحدیث 6058،461/2
  22. الماوردي، الأحكام السلطانية،الباب الأول: في عقد الإمامة،فصل ،الشروط التي ينبغي توافرها في الخليفة، دار الحديث ، القاهرة،ص12
  23. النساء 4:141
  24. البقرۃ 2:247
  25. الحجرات 6 : 49
  26. مسلم،صحیح مسلم،کتاب القدر،باب فی الامربالقوۃوترک العجز والاستعانۃ ۔۔۔،رقم الحدیث 2664
  27. السامرائی،نعمان عبدالرزاق،النظام السیاسی فی الاسلام،مکتبۃالملک فہدریاض، 2000ء،صفحہ 116
  28. الماوردی، الاحکام السلطانیہ ،نفیس اکیڈمی کراچی ،1965ء ،ص15
  29. البخاری، صحيح البخاري ،کتاب المغازی، باب کتاب النبی ﷺ الی کسری وقیصر، رقم الحدیث 4425
  30. أَيْضًا ،کِتَاب الْأَحْکَامِ ،بَاب السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ لِلْإِمَامِ مَا لَمْ تَکُنْ مَعْصِیَۃً ، رقم الحدیث7142 ۔
  31. ابن خلدون،مقدمہ ابن خلدون فصل 26،فی اختلاف الأمۃ فی حکم ہذالمنصب وشروطہ،ص 243
  32. البخاري،صحيح البخاري،كِتَابُ الرِّقَاقِ، بَابٌ: كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النَّبِيِّ ﷺوَأَصْحَابِهِ،رقم الحدیث 6458
  33. الاحزاب 28 : 33
  34. البخاری،صحیح البخاری،کتَابُ الأَحْکَامِ،بَابُ مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ،رقم الحدیث 7150
  35. أَيْضًا ،صحیح البخاری ,ایضاً ،کِتَابُ الجُمُعَۃِ،بَابُ الجُمُعَۃِ فِی القُرَی وَالمُدُنِ،رقم الحدیث 893۔
  36. الہیثمی،نورالدین علی بن أبی بکر،مجمع الزوائد ،کتاب الدیات،دارالکتب العلمیۃ بیروت 1988،289/2
  37. أحمد بن محمد بن حنبل ،مسند الإمام أحمدبن حنبل،حَدِيثُ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ،مؤسسة الرسالة، 2001ء، رقم الحدیث16941
  38. صحیح مسلم ،کتاب الحدود، باب قطع السارق الشریف ،رقم الحدیث 4410
  39. الانعام 108: 6
  40. عثمانی ، محمد شفیع ، معارف القرآن ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ، 1933 ء ، 51/2
  41. التوبۃ 9:128
  42. البخاری،صحیح البخاری،کتاب العلم،باب11،رقم الحدیث69
  43. مسلم،صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب فضیلۃ الامام العادل،رقم الحدیث1828
  44. البخاري ،صحيح البخاري،كِتَابُ الطِّبِّ،بَابٌ: إِنَّ مِنَ البَيَانِ سِحْرًا،رقم الحدیث 5767
  45. اٰل عمران 159:3
  46. جامع الترمذی،کتاب الفتن عن رسول اللہﷺ، باب 78 متی یکون ظہرالارض، رقم الحدیث 2666
  47. اٰل عمران 3 : 159
  48. طہٰ 32/30 29-
  49. القشيري،صحیح المسلم ،كتاب الْفَضَائِلِ، بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا،رقم الحدیث 2363
  50. ڈاکٹر،مقالاتِ حمیداللہ ، مرتبہ زیبا افتخار ،قرطاس ، 2004ء ،ص 76
  51. الممتحنۃ8 : 60
  52. محمد مسعد یاقوت، نبی الرحمۃ، الزہراء للإعلام العربی،الطبعۃ الأولی 2007 ، القاہرۃ ،ص 112
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...