Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Islamabad Islamicus

تعلیم نسواں: اسلامی روایت اور عصری تحدیات |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060033219_674

Pages

70-87

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Dr.%20Zafar%20Iqbal,%20Hafiz%20Muhammad%20Naveed.pdf

Subjects

Islam Education Muslim Prphet(SAW) Hadith Commentary Iftaa.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

1۔موضوعِ تحقیق کا تعارف ، اہمیّت اور پسِ منظر

یقیناً علم ایک ایسی نعمت ہے جس کے ذریعے اِنسان کرامت ،شرافت اور دونوں جہانوں کی سعادتوں کو بہتر طریقے سے حاصل کر سکتا ہَے ،یہ ایک ایسی کلید ہَے جِس کو استعمال کر کے لاتعداد مخلوقات سے اشرف اور فِطری اور خِلقی برتری میں چار چاند لگا سکتا ہَے ، بلکہ حقیقت یہ ہَے کہ علم کے ذریعے ہی تخلیقِ انسانی کے مقاصد تک رسائی ہو سکتی ہَے ، اِسی کے ذریعے انسانوں نے زمینوں ،پہاڑوں اور میدانوں کو چمن زار اور سبزہ زار بنایا ہَے ،دریاؤں اور سمندروں میں پائے جانے والے قیمتی ذخائر تک رسائی پائی ہَے اورفلک کی رِفعتوں کو چِیر کر نئی نئی ایجادات کے پرچم لہرائے ہیں،بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دُنیا میں ہونے والی تمام محیرالعقول ایجادات علم ہی کی مرہونِ منّت ہیں ۔ اِسی وجہ سے اِسلام میں تعلیم و تعلُّم کو غیر معمولی اہمیّت حاصل ہَے ۔ قرآن کریم میں ۸۰ مرتبہ لفظ "علم" ،سینکڑوں مرتبہ "لفظ علم کےمشتقات "،۱۶ دفعہ لفظ "اَلباَب"۱۸ مقامات پر" لفظ عقل کے مشتقات "۲۱ جگہوں پر "لفظ فقہ کے مشتقات"،۲۰ دفعہ لفظ "حِکمت"اور ۷ مقامات پر لفظ "بُرہان" کاتذکرہ کر کے حصولِ علم پر ترغیب دی گئی ہے ۔ علم اور حاملین ِ علم کے فضائل اور تعلیم و تعلُّم کی اہمیّت کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے اقوال سے بھی واضح فرمایا ۔اسی اہمیّت کے پیشِ نظر اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے علم کا حُصول لازمی قرار دیا ۔مردوں کا زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونا جِس قدر ضروری ہے اُسی قدر خواتین کی علم سے واقفیّت لازمی ہَے۔ خاندان کی اصلاح میں پڑھی لکھی خواتین کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے ۔تعلیم سے نابلد خواتین اصلاحِ معاشرہ میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں ۔خواتین کی تعلیم اِس لیے بھی اَہم ہے کہ وہ دینِ اسلام کے احکامات کو سمجھیں ،نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو یاد کریں ،خاندان اور معاشرہ میں تبلیغ کا فریضہ ادا کریں ،اپنی عائلی زندگی کو بہتر بنائیں اوراپنی اولاد کی اِسلامی اُصولوں کے مطابق تربیّت کریں ۔ ماں کا تعلیم یافتہ ہونا خاندان کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالتا ہے ،معاشرےکے ماحول کو صالح بنا تا ہے اوربچوں پر صالح اور خوشگوار اثرات مُرتّب کرتا ہے ۔اسی تناظُرمیں اُمّتِ مسلمہ کی ترقِّی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا جائے تواُن میں سے ایک رکاوٹ خواتین کا تعلیم و تعلُّم سے دور ہونا ہے ۔ جہالت کی بناء پر وہ حلال و حرام میں تمییز کرنے اور اللہ و رسول ﷺ کے مقام و مرتبہ کو پہچاننے سے قاصر ہیں ۔حقوق اللہ سے نابلد ہونے کی وجہ سے بے حجابی اور عریانیت کی دلدادہ نظر آتی ہیں اور حقوق العباد سے عدمِ واقفیّت کی وجہ سے سُسرال اور ہمسایوں کے حُقوق کی پامالی اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اُن کا شیوہ بن چکی ہے ۔ایسے حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جائے اور تعلیم ِ نسواں کو درپیش تحدِّیات کو سمجھا جائے نیز اِن تحدِّیات کو رفع کرنے لیے مفید ومؤثر اقدامات کیے جائیں ۔ اِن مقاصد تک رسائی پانے کے لیے ہی زیرِ نظر مقالہ ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے۔

سابقہ کام کا تحقیقی جائزہ

اِسلام میں تعلیمِ نسواں غیر معمولی اہمیّت کی حامل ہے ،اِسی لیے مُسلم محققین نے اِس پر خصوصی توجُّہ دی ہے۔زیرِ نظر مو ضوع کے مختلف پہلوؤں پر تحریر کی جانے والی کتب میں سے سید ابو الاعلیٰ مودودی کی "اِسلامی نظامِ تعلیم "[1] ،غُلام عابد خان کی "عہدِ نبویﷺ کا نظامِ تعلیم ایک تاریخی و تحقیقی مطالعہ "[2] ،محمد حسین طباطبائی کی "دینی تعلیم "[3] ،سید حسین بن عثمان عمری کی "دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور حصول علم کے بعض اہم آداب "[4] ،مولانا عبد اللہ روپڑی کی "حُکومت اور علماء ربانی "[5] ،مریم خنساء کی "ہمارا نظام تعلیم اور نصابی صلیبیں "[6] ،اُم عمیر سلفی کی "حُصولِ علم کے ذرائع "[7] ،ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی "تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم "[8]،"اِسلام کا تصوُّر علم (سورہ علق کی روشنی میں )"[9] ،"فروغِ علم و شعور کی اَہمیّت و فضیلت " [10]اور "علم اور مصادرِ علم "[11] ،مولانا نجم الحسن تھانوی کی "علمائے کرام اور اُن کی ذِمّہ داریاں "[12] ،محمد بن صالح العُثیمین کی "آداب العلم "[13] ،اراکینِ نظام ایجوکیشن سوسائٹی کی "علمِ دین اور ہمارے بچے "[14] ،مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی "پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیّت"[15] ،نعیم صدیقی کی "تعلیم کا تہذیبی نظریہ "[16]،ڈاکٹر احمد شلبی کی "تاریخِ تعلیم و تربیّتِ اِسلامیّہ"[17] ،سلامت اللہ کی "ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم "[18] اور ڈاکٹر راحت ابرار کی "مسلم تعلیم نسواں کے سو سال چلمن سے چاند تک "[19] دستیاب ہوئی ہیں ۔ان موضوعات پر تحریر کردہ مضامین میں سے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کا "تعلیم نسواں ؛ارشادات نبویہ ﷺ کی روشنی میں "[20] اور تحسین سرور اور ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ کا "تعلیم نسواں۔سیرت طیبہ اور بائبل کی روشنی میں "[21] مل سکے ہیں ۔درج بالا مضامین و کتب میں زیرِ نظر موضوع کے جزوی پہلوؤں کو ضرور بیان کیا گیا ہے لیکن تعلیم ِ نسواں سے متعلق اِسلامی روایت کو تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا نیز تعلیمِ نسواں کو درپیش تحدِّیات کو بھی واضح نہیں کیا گیا ۔اِس تاریخی ، علمی اور تہذیبی خلا کو پُر کرنے کے لیے زیرِ نظر کو اختیار کیا گیا ہے ۔زیرِ نظر موضوع کو پانچ اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلی جزو میں موضوعِ تحقیق کا تعارف ، ضرورت و اہمیّت اور پسِ منظر کو بیان کیا گیا ہے ۔اِس ضمن میں سابقہ کام کا تحقیقی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے نیز اِس مقالے کی تقسیم کو بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری جزو میں تعلیمِ نسواں سے متعلق اِسلامی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے ۔ تیسری جزو میں تعلیم ِ نسواں کو درپیش عصری تحدّیات کو بیان کیا گیا ہے ۔ چوتھی جزو میں سفارشات کو بیان کیا گیا ہے اور پانچویں اور آخری جزو میں خلاصۂ بحث بیان کیا گیا ہے ۔

2۔تعلیمِ نسواں سے متعلق اِسلامی تعلیمات

اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس نے خواتین کو بے شمار حُقوق عطا کرتے ہوئے نہ صرف معاشرے میں ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز کیا بلکہ تعلیمی میدان میں مرد و زن کے امتیاز کو مِٹا کر تعلیمِ نسواں کی ترغیب دی ۔ایک تعلیم یافتہ خاتون کی وجہ سے نسلیں سنور جاتی ہیں اور معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔اِس لیے دینِ اسلام نے جس طرح رجال کی تعلیم کے لیے تمام دروازے کھلے رکھے ہیں ،اُن کو ہر طرح کی مفید و مؤثرتعلیم کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اِس پر اُن کا حوصلہ بھی بڑھایا ہے ۔ بالکل اِسی طرح صنفِ نازک کو مکمل تعلیمی حُقوق عطا کیے ہیں۔ اِسلامی تعلیمات میں حُصول ِ تعلیم کے لیے کہیں مردو خواتین دونوں کے لیے ایک ہی صیغہ استعمال کیا گیا ہے جبکہ کہیں خاص مؤنث کا صیغہ لا کر تعلیمِ نسواں کی اہمیّت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

﴿وَ اذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ وَ الْحِکْمَۃِ ا ِنَّ اللہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا﴾[22]

"اور اللہ تعالیٰ کی اُن آیات اور حکمت کو یاد کرو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے ،بے شک اللہ تعالیٰ ہر باریکی کو جاننے والا خبررکھنے والا ہے ۔"

علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدی لکھتے ہیں :

" جب ازواج مطہرات ؓکو اللہ تعالیٰ نے کچھ کام کرنے اور کچھ کے نہ کرنے حکم فرمایا تو انہیں حُصولِ علم کا حکم دیتے ہوئے علم سیکھنے کا طریقہ بتایا کہ تم اپنے گھروں میں ذکر کی جانے والی آیاتِ الہیہ اور حِکمت کو یاد کر لو۔اِس آیت میں آیات سے قرآن کریم اور حکمت سے قرآن کریم کے اسرار و رُموز اور حضور ﷺ کی سنت مراد ہے اور قرآن کریم کے الفاظ کو یاد کرنا ،اِس میں غوروفکر کرنا اور اِس کے معانی کو یاد رکھنا ہی ذکر ہے ۔[23] "

مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں :

"آیات اللہ سے قرآن کریم اور حکمت سے نبی اکرم ﷺ کی سنت اور تعلیمات مراد ہیں ۔"اذکرن"کے یہاں دو مفہوم سمجھے جا سکتے ہیں :پہلا یہ ہے کہ اِن چیزوں کو یاد کر کے عمل کرنا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ازواج مطہرات ؓ کے گھروں میں نازل ہونے والا قرآن کریم کا حصہ اور اُن کو دی جانے والی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہے ۔ "[24]

سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :

"اس آیت کریمہ میں "اذکرن"کے دو معنیٰ بیان کیے جا سکتے ہیں "یاد رکھو"اور "بیان کرو"۔پہلے معنی کے اعتبار سےمطلب یہ ہو گا کہ اے رسول اللہ ﷺ کی بیویو!تم کبھی یہ نہ بھول جانا کہ تمہارے گھر سے آیات الٰہیہ اور دانائی کی دنیا بھر کو تعلیم ملتی ہے ،لہذا تمہاری ڈیوٹی بہت سخت ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ تمہارے گھروں سے لوگوں کو جاہلیت کے نمونے نظر آنے لگیں ۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہو گا کہ اے رسول اللہ ﷺ کی بیویو!جو کچھ تم سنتی اور دیکھتی ہو اُسے دوسرے تک پہنچاؤکیونکہ نبی اکرم ﷺکے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت سی ایسی ہدایات تمہارے علم میں آئیں گی جن پر لوگ تمہارے علاوہ کسی اور کے واسطہ سے مطلع نہیں ہو سکیں گے ۔ "[25]

۲۳ سال کے عرصہ میں نبی اکرمﷺ سے بطورِ معلِّم مردوزن نے یکساں فوائد حاصل کیے ۔ارشادات نبویّہ ﷺ کو جن مرد حضرات نے دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیا اسی طرح خواتین نے بھی اُن کی تبلیغ کی ۔محدّثین عظام نے احادیث بیان کرتے ہوئے مرد و زن میں کوئی امتیاز نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہر اسلامی دور میں ایسی خواتین پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کرکے اپنے علم و فضل کا لوہا منوایا ۔نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو علم کے حُصول کی نہ صرف اجازت عطا فرمائی بلکہ اِس کام پر ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

مَنْ کَانَتْ لَهُ ابْنَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا، وَأَوْسَعَ عَلَيْهَا مِنْ نِعَمِ اﷲِ الَّتِي أَسْبَغَ عَلَيْهِ، کَانَتْ لَهُ مَنَعَةً وَسُتْرَةً مِنَ النَّارِ۔[26]

"جس کی ایک بیٹی ہو ، اُس نے اُسے عمدہ اور احسن ادب سکھایا ،اچھی تعلیم سےآراستہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو جو نعمتیں عطا کی ہیں اُس کو اُن سے وافر مقدار میں عطا کرتا ہے تو اُس کے لیے وہ بیٹی جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی ۔ "

لونڈیوں اور باندیوں کی تعلیم و تربیّت کی ترغیب اِن الفاظ کے ذریعے دی:

مَنْ کَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ۔[27]

"جس نے اپنی لونڈی کو عمدہ ادب اور عمدہ تعلیم سکھانے کے بعد آزاد کر کے نکاح کر لیا ، اُس کو دوہرا ثواب ملے گا۔"

یہ حکم صرف لونڈیوں اور باندیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اپنی سگی بیٹیوں اور عام آزاد لڑکیاں بھی اِسی حُکم میں داخل ہیں ۔[28] نبی اکرم ﷺ نے تعلیمِ نسواں پر بھرپور طریقے سے تاکید اور تلقین فرماتے ہوئے اِس کو لازمی قرار دیا ہے ۔آپ ﷺ نے اِس حقیقت کی اِن الفاظ کے ذریعے وضاحت فرمائی :

طَلَبُ اَلْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔[29]

"علم کا حُصول ہر مسلمان پر لازمی و ضروری ہے۔"

شریعتِ اِسلامیہ نے اُناث کے لیے نہ صرف قرآن و سنت کے علم کاحُصول لازمی قرار دیا بلکہ ہر اُس مُفید علم کی تحصیل ضروری و لازمی قرار دی جس کی خواتین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے ۔ حضرت شفاء بنت عدویہ ؓ کو مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی ۔نبی اکرم ﷺ نے اِن کو ارشاد فرمایا:

"جس طرح تم نے حفصہ ؓکو لکھنا سکھایا تھا اسی طرح تم اِن کو مرضِ نملہ کا دَم کیوں نہیں سکھا دیتی ؟"[30]

نبی اکرم ﷺ کی ترغیب ،تلقین اور تاکید کی وجہ سے مردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی حُصول ِعلم کے لیے اپنی کوششوں کوتیز کر دیا ۔ عالَمِ نسواں کی اِس تحریک کی قیادت اُمّہات المُؤمنین ؓ کر رہی تھیں ۔نبی اکرم ﷺ کے اقوال ، معمولات ،باہمی تعلقات ، معاشرتی زندگی اور آداب و اخلاق کا ایک بڑاحصہ اِن عالی مرتبت ہستیوں کے ذریعےہی اُمّتِ مسلمہ کو ملا۔ نبی اکرمﷺ کے اخلاقِ کریمہ سے متعلق سوال کرنے والے کو سیدہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے ہی "کان خلقه القرآن"کی صورت میں جواب دیا تھا ۔[31] اِس کے علاوہ عالَمِ اُناث کے مخصوص مسائل کے حوالے سے بڑی اہم چیزیں اُمّہات المؤمنین ؓ سے روایت کی گئی ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف روایت ِ حدیث میں اپنا لوہا منوایا بلکہ افتاء اور تفکر و تدبر میں بھی اپنا نام پیدا کیا ۔ سیدہ عائشہ ؓ قرآنی علوم ،حلال و حرام ،فرائض ،شعر و ادب ،حسب و نسب اور اہلِ عرب کی تاریخ میں مہارت ِ تامہ رکھتی تھیں ۔[32] یہی وجہ تھی کہ سیدہ عائشہ ؓ نےحضرت عبد اللہ بن عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی کی بیان کردہ اِس روایت کو رّد کر دیا کہ نوحہ کرنے کی وجہ سے میّت عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے ،اِس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مرنے والی عذاب میں مبتلا ہے اور اُس کے لواحقین اُس کے مرنے کی وجہ سے چیخ و پکار کر رہے ہیں ۔[33] اُمّ المؤمنین سیدہ اُمّ سلمہ ؓ پختہ عقل اور درست رائے کی مالکہ تھیں ۔[34] اسی علمی تحریک کا نتیجہ تھا کہ حضرت ام سلمہ ؓ کی بیٹی زینب ؓ [35]اور لونڈی و خادمہ حضرت اُمّ الحسن کا شمار بھی اہلِ علم میں ہوتا ہے ۔حضرت اُمّ الحسن ؓ کی صلاحیتوں کا یہ عالَم تھا کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتی تھیں ۔[36] حضرت سیدہ اُمّ الدرداء ؓ کو فقہ میں مہارت ،عقل و فہم اور جلالت و بزرگی وافر مقدار میں عطا کی گئی تھی ۔[37] فقہی مہارت اور علمی تفوُّق کی وجہ سے حضرت فاطمہ بنت قیس ؓنے سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ سے کسی مسئلہ میں لمبے عرصے تک بحث و مباحثہ کے بعد اپنی رائے تبدیل نہیں کی ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فقہ کے بہت سے ائمہ نے اِس مسئلہ میں سیدہ فاطمہ بنت قیس ؓ کی رائے کو راجح قرار دیا ۔ [38]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا شمار مفتی اور مجتہد صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے ،[39] قبیلہ بنو اسد کی اُمّ یعقوب نامی خاتون اُن کے بیان کردہ ایک مسئلہ پرنقد کرتی نظر آتی ہیں ۔[40] حضرت سمرہ بنت نہیک اسدیہ ؓکو علم میں اچھی خاصی دسترس حاصل تھی ۔قابل توجُّہ امر یہ ہے کہ بازاروں میں وعظ کیا کرتی تھیں اور احکام الہیہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کو کوڑے سے سزا دیا کرتی تھیں ۔ [41]

اُمّہات المؤمنین ؓ کی قیادت میں چلنے والی علمی تحریک جب تابعینؒ کے دور میں داخل ہوتی ہے تو حضرت سعید بن مسیّب ؒ جیسے جلیل القدر تابعی کی صاحبزادی اپنے شوہر کو "اِجلِس، اُعَلِّمُکَ عِلمَ سَعِیدٍ"جیسے الفاظ کہتی ہوئی نظر آتی ہے ۔[42] حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن ؒ (متوفیہ ۱۰۳ھ)کی سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے پرورش کی ،علم فقہ و علم حدیث میں نابغۂ روزگار تھی،امام زہریؒ ایسے عظیم محدث نے اُن کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے ،آپ ؒکے بھتیجے ابو بکرؒ بن محمد مدینہ منورہ کے قاضی تھے ،حضرت عمرہ ؒ اِن کی اجتہادی خطاؤں کی درستگی کیا کرتی تھی۔[43] حضرت فاطمہ ؒ بنت حسن ؓعلم و فضل کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھیں،اِن کو فاطمہ الصغریٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،حدیث و فقہ میں مہارتِ تامّہ حاصل تھی ۔ [44]حضرت امام محمد بن سیرین ؒ کی بہن حفصہؒ (متوفیہ ۱۰۱ھ)اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک تھی،انہوں نے صرف ۱۲ ماہ کے مختصر عرصہ میں قرآن کریم معنیٰ و مفہوم سمیت حفظ کر لیا ۔[45] فن تجوید میں اِمامت کا درجہ رکھتی تھی،امام محمد بن سیرین ؒ کو جب تجوید کے کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو اپنے طلباء کرام کو اپنی بہن کی طرف بھیج دیتے ۔ [46]حضرت حسن بن زید بن حسن بن علی ؒ کو شیخ الشیوخ کہا جاتا تھا ۔اِن کی بیٹی حضرت سیدہ نفیسہ ؒ(متوفیہ ۲۰۸ھ)تفسیر ، حدیث اور دیگر بہت سے علوم میں امامت کا درجہ رکھتی تھی ،مردوزن دونوں یکساں طور پر اِن کے علم سے سیراب ہوئے، اِن کا لقب" نفیسة العلم والمعرفة " تھا۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ امام شافعی ؒ ایسے جلیل القدر عالم ، فقیہ اور مجتہد بہت سے مسائل میں اُن سے رائے لیتے تھے ۔[47] فقہ مالکی کے بانی حضرت امام مالک ؒکے سامنے جب کوئی طالب علم مؤطا پڑھتے ہوئے غلطی کرتا تو آپ ؒکی صاحبزادی دورازہ کھٹکھٹاتی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ امام مالک ؒ کو اپنی بیٹی کے علم پر اتنا یقین تھا کہ وہ فوراً "اِرجِع فَالغَلَطُ مَعَکَ" فرما کر غلطی پر تنبیہ فرماتے۔[48] حضرت عائشہ بنت طلحہ قریشیہ تابعیہ ؒنے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی صحبت میں رہ کر علمِ کتابت میں مہارتِ تامہ حاصل کر لی ۔قابل توجُّہ امر یہ ہے کہ یہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی بھانجھی تھیں اور سائلین کے خطوط کا سیدہ عائشہ ؓ کی جانب سے جواب لکھا کرتی تھیں ۔[49] حضرت شہدہ بنت ابو نصر ؒ(متوفیہ۵۷۴ھ)فقہ و کتابت میں کمال حاصل تھا۔[50] حضرت خدیجہ بنت مفتی محمد بن محمودؒ(متوفیہ۶۹۹ھ) نے فقہ ،علم نحو اور کتابت میں مہارت تامہ حاصل کی ۔[51] حضرت شہدہ بنت الصاحب ؒ(متوفیہ۷۰۹ھ)فقہ ، کتابت اور بہت سے علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھی،حیران کُن امر یہ ہے کہ حافظ ذہبی ؒ ایسے جلیل القدر عالم اور حافظ الحدیث نے اُن کی شاگردی اختیار کی ۔[52] حضرت فاطمہ بنت علاء الدین سمرقندی ؒ (متوفیہ۵۸۱ھ)کتابت ، فتویٰ اور فقہ ایسے علوم میں انفرادی حیثیت کی حامل تھیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اِن کے والد نے تحفۃ الفقہاء کے نام ایک کتاب تحریر کی ۔علامہ سمرقندیؒ کے ایک شاگرد علامہ ابوبکر بن مسعود کاسانی ؒ نے اِس کتاب کی "بدائع الصنائع " نام سے شرح لکھ کر پیش کی ۔یہ شرح اتنی جامع اور مدلل تھی کہ علامہ سمرقندی ؒ نے خوش ہو کر اپنی بیٹی کا نکاح اُن سے کر دیا ۔اُن کی بیٹی علم و فنون میں اتنی مشہور تھیں کہ علامہ سمرقندیؒ نے کئی بادشاہوں کے بھیجے ہوئے پیغامِ نکاح کو ردّ کر دیا تھا ۔حیران کُن بات یہ ہے کہ اِس گھر سے جب فتویٰ دیا جاتا تو اُس پر علامہ سمرقندی ؒ،علامہ کاسانی ؒ اور اُن کی بیوی فاطمہؒ کے دستخط ہوتے تھے ۔ [53]مظفرالدین امام احمد بن علی اپنے دور کے مایہ ناز محقق تھے ۔ اِن کی کتب میں سے "البدائع فی اصول الفقہ "اور "مجمع البحرین "زیادہ مشہور ہیں ۔ اِن کی بیٹی فاطمہ نے انہی سے تعلیم حاصل کرکے فتویٰ ، کتابت اور فقہ ایسے علوم میں نام پیدا کیا ۔ [54]نیشاپور کے قاضی ابو رجاء محمد بن احمد کی بیٹی خدیجہ (متوفیہ۳۷۳ھ)نے عربی زبان اور کتابت میں شہرت حاصل کی ۔[55] عماد الدین محمد بن عبد الکریم بن عثمان اپنے دور کے مایہ ناز محقق اور مفتی تھے ،ابن سماع کے لقب سے مشہور تھے ،اِن کی بیٹی ستّ الوزراء(متوفیہ ۷۳۶ھ) نے انہی سے علم حاصل کر کے کتاب ، قراءت اور فقہ ِ حنفی ایسے علوم میں شہرت حاصل کی ۔ [56]شہزادی علیّہ(متوفیہ ۲۱۸ھ) خلیفہ مہدی کی بیٹی اور ہارون الرشید کی علاتی بہن تھی،اِن کی تعلیم و تربیّت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے ،شاہی پرورش پانے کے باوجود قرآن و سنت اور باقی متداول علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی ،شعرو ادب اور موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔[57] اُمِّ عباس مشہور عباسی خلیفہ مامون الرشید کی بیوی تھی،اِن کی پرورش اگرچہ خالص صحرائی علاقہ میں ہوئی لیکن عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ ساتھ شعرو ادب اور علم الانساب پر اچھی خاصی دسترس رکھتی تھی ، ذہانت ،حاضر جوابی اور علمی ذوق کی وجہ سے مامون الرشید نے اِن سے شادی کر لی ۔[58] مذکورہ اہلِ علم خواتین کے علاوہ جنہوں نے علمی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا اُن میں عمرہ بنت عبد الرحمن ؒ(متوفیہ ۱۰۶ھ)[59] ،ام ہذیل حفصہؒ (متوفیہٰ ۱۰۰ھ)[60] ،اُمّ صہبا معاذ بنت عبد اللہ عدویہ بصریہ ؒ(متوفیہٰ ۸۳ھ)[61] ،اُمّ درداء صغریٰ ؒ(متوفیہٰ بعد از ۸۱ھ)[62] ،عابدہ مدنیہؒ [63]،علیہ بنت حسان ؒ [64]،فاطمہ بنت عبد الرحمن ؒ(متوفیہ ۳۱۲ھ)[65] ، فاطمہ بنت استاذ ابو علی حسن بن علی دقاقؒ(متوفیہ ۴۸۰ھ) [66]،اُمّ الفتح عائشہ بنت حسن بن ابراہیم اصفہانیہ ورکانیہ ؒ(متوفیہ ۴۶۶ھ)[67] ،عائشہ بنت محمد بن حسین بسطامی ؒ(متوفیہ ۴۶۵ھ)[68] ،اُمّ فضل بی بی بنت عبد الصمد بن علی ہرثمیہ ؒ(متوفیہ ۴۷۷ھ)[69] ،کریم بنت احمد بن محمد بن حاتم مروزیہ ؒ(متوفیہ ۴۶۳ھ) [70]،زینب بنت مظفرؒ (متوفیہ ۷۰۹ھ)[71] ،ام الخیر فاطمہ بنت علیؒ (متوفیہ ۵۳۲ھ) [72]،صفیہ بنت احمد ؒ(متوفیہ ۷۴۱ھ)[73] ،فاطمہ جوزدانیہ ؒ(متوفیہ ۵۲۴ھ) [74]،عفیفہ بنت احمد فاء فانی ؒ(متوفیہ ۶۰۶ھ)[75] ،عائشہ بنت معمر ؒ(متوفیہ ۶۰۷ھ) [76]،عاتکہ بنت حافظ ابو العلاء حسن بن احمد عطار ہمدانی ؒ(متوفیہ ۶۰۹ھ) [77]،زینب بنت مکی حرانیہ ؒ(متوفیہ ۶۸۸ھ)[78] ،جویریہ بنت عمروؒ(متوفیہ ۷۸۲ھ) [79]،زینب بنت احمد بن عمر ؒ(متوفیہ ۷۲۲ھ) [80]،زینب بنت احمد کمال ؒ(متوفیہ ۷۴۰ھ)[81] ،فاطمہ بنت محمد بن ابو سعید ؒ(متوفیہ ۵۳۹ھ)[82] ،فاطمہ بنت ابو الحسن علی بن مظفربن زعبل ؒ(متوفیہ ۵۳۳ھ)[83] ،فاطمہ بنت سعد الخیر ؒ(متوفیہ ۶۰۰ھ)[84] ،شہدہ بنت احمد ؒ(متوفیہ ۵۷۴ھ) [85]،شیخہ جلیلہ زینب بنت شعری ؒ(متوفیہ ۶۱۵ھ)[86] ،محدثہ امّ عبد الکریم فاطمہ بنت محدث تاجر ابو الحسن سعد الخیر بن محمدبن سہل انصاری ؒ(متوفیہ ۶۰۰ھ)[87] ،نعمت بنت علی بن یحییٰ بن علی بن طراح ؒ(متوفیہ ۶۰۴ھ) [88]،اُمّ ہانی عفیفہ بنت ابو بکر بن عبد اللہ فارفانیہ ؒ(متوفیہ۶۰۶ھ)[89] ،عین الشمس بنت احمد بن ابو الفرج اُم النور اصفہانیہ ؒ(متوفیہ ۶۱۰ھ)الکحالہ،[90] ،ام عبد اللہ یاسمین بنت سالم بن علی بن سلامہ حریمیہؒ (متوفیہ ۶۳۴ھ) [91]،شیخہ ست العرب بنت محمد بن الشیخ فخر الدین ابو الحسن علی بن احمد بن عبد الواحد ؒ(متوفیہ ۷۶۷ھ)[92] ،شیخہ جویریہ بنت شیخ امام محدث شہاب الدین احمد بن احمد بن حسین ہکاری ؒ(متوفیہ ۷۸۳ھ)[93] ،شیخہ اُمّ الحسن فاطمہ بنت امام شہاب الدین احمد بن قاسم بن عبد الرحمن بن ابو بکر عمری حرازی ام نجم الدین مکیہ ؒ(متوفیہ ۷۸۳ھ)[94] ،گلبدن بیگم بنت ظہیر الدین بابر (۱۶۰۳ء)[95] ،جہاں آرا بنت شاہ جہاں (۱۶۸۱ء)[96] ،زیب النساء بیگم بنت شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر (۱۷۰۲ء)[97] ،زینت النساء بنت شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر (۱۷۲۱ء)[98] ،شہنشاہ جہانگیر کی بیوی ملکہ نور جہاں بیگم (۱۶۴۵ء)[99] اورشاہ جہاں کی زوجہ اعزاز النساء [100]قابل ذکر ہیں ۔ اِس پسِ منظر سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں تعلیم ِ نسواں کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے مختلف علوم و فنون میں بے شمار مسلم خواتین نے اپنا لوہا منوایا ۔

3۔عصری تحدِّیات

عالمِ نسواں کو تعلیم سے آراستہ کرنا شرعی ضرورت بھی ہے اور معاشرتی ضرورت بھی ۔ایک بے علم خاتون نہ صرف معاشرے پر بوجھ ہوتی ہے بلکہ بہتر طریقے سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کرنے سے بھی قاصر ہوتی ہے ۔ اِسی ضرورت کے پیشِ نظر اسلام نے عالمِ اُناث کی تعلیم پر خصوصی توجُّہ دی اور ماضی کے مسلم حکمرانوں نے اِن کی تعلیم و تربیّت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ۔پچھلی کچھ دہائیوں سے تعلیمِ نسواں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے ۔ اِس حوالے سے درپیش مسائل کی دو جہتیں ہیں ۔ ذیل میں اُن دونوں کا ذکرکیا جا رہا ہے :

i۔حکومتی بے توجہی

اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پرائمری کے بعد مڈل اور میٹرک کی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے ۔اِس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ مڈل اور ہائی سطح کے گرلز سکولز کم ہیں کیونکہ اس سطح کے اسکولز پاکستان میں صرف ۹ فیصد ہیں ۔یکساں نظام و نصاب تعلیم کا فقدان بھی تعلیم کے حُصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ یقیناً تعلیم کا مقصد ظاہری و باطنی پاکیزگی ،باہمی پیارو محبت ،احترام اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں کے ماحول کی وجہ سے اِس کا حُصول ناممکن ہو چکا ہے ،مخلوط نظامِ تعلیم کی وجہ سے بے حیائی اور بے راہ رَوَی میں اضافہ ہو رہا ہے اورتجارتی اُصولوں پر تعلیمی اداروں کے قیام کی وجہ سے تعلیم مہنگی ہو رہی ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ طالبات کی تعداد کےمطابق اِن کے لیے پرائمری ، مڈل ،ہائی اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے ،تعلیمی اداروں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے ،خواتین کو آسان اور محفوظ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظام اور نصابِ تعلیم میں اصلاحات کی جائیں ۔

ii۔سماجی پہلو

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے ۔ناقص علم و شعور کے سبب اکثر والدین اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواتے یاپھر اُن کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم نہیں کرتے ۔وہ مخلوط تعلیمی اداروں میں اپنی بیٹیوں کو بھیجنے کے بجائے گھر کے کام اور دیگر فنون سکھانے میں بہتری سمجھتے ہیں ۔تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور بداخلاقی بھی بہت سی باصلاحیت طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے حُصول میں رُکاوٹ ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت طالبات کےلیے تعلیمی اداروں سے گھر تک اور گھر سے تعلیمی اداروں تک کے سفر کو محفوظ اور پاکیزہ بنائے اور تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اخلاقی و دینی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ اہتما م کرے ۔

4۔سفارشات

i۔تعلیمِ نسواں سے متعلق شعور کو بیدار کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی جائے خصوصاً دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اِس حوالے سے ترغیب دینا بہت زیادہ ضروری ہے ۔

i i ۔عالمِ نسواں کے لیے مڈل اور ہائی سطح کے سکولز،کالجز اور یونیورسٹیوں کا اُن کی تعداد کی مناسبت سے انتظامات کیےجائیں ، تاکہ وہ پُرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں ۔

iii۔تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے پاکیزہ اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔

iv۔تمام تعلیمی اداروں میں اخلاقی و دینی تعلیم و تربیّت کا خصوصی انتظام کیا جائے تاکہ ایک بچی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بھی امین ہو ۔

v۔طالبات کے لیے گھروں سے تعلیمی اداروں تک اور تعلیمی اداروں سے گھروں تک کے سفر کو محفوظ اور پاکیزہ بنایا جائے تاکہ والدین اپنی بچیوں کو اِن اداروں میں بھیجتے وقت عدمِ تحفّظ کا شکار نہ ہوں ۔

vi۔تجارتی بنیادوں پر تعلیمی اداروں کے قیام کو روک کر مفت اور سستی تعلیم کا آغاز کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ طالبات زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو جائیں ۔

vii ۔نصاب اور نظامِ تعلیم میں اصلاحات کر کے تعلیم کو اِسلامی اور مشرقی روایت کے مطابق بنایا جائے تاکہ ایک لڑکی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اسلامی اور مشرقی اقداروروایات کی بھی امین ہو۔

5۔خلاصۂ بحث

دین ِاسلام نے تعلیمی میدان میں مردو خواتین کو برابر کے حقوق عطا کیے ہیں ،مردوں کے لیے تعلیم کا حُصول لازمی قرار دیا گیا تو خواتین کو بھی حُصولِ تعلیم کی ترغیب دی گئی ۔ حُصولِ تعلیم کے لیے کہیں مذکر کے صیغے استعمال کر کے مردوخواتین دونوں مراد لیے گئے جبکہ کہیں مؤنث کا صیغہ لا کر خواتین کوخصوصی طور پر تلقین و تاکید کی گئی ۔تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نبی اکرمﷺ نے صنفِ نازک کے لیے خصوصی نشستوں کا بھی اہتمام فرمایا ۔ یہی وجہ تھی کہ خواتین میں حُصولِ تعلیم کا جذبہ اتنا پروان چڑھ گیا کہ کئی خواتین مردوں سے علمی مسائل پر بحث کرتی اور مردوں کے فتاویٰ جات کو رَدّ کرتی نظر آتی ہیں ۔ اِسی علمی تحریک کا ہی اثر تھا کہ علمِ تفسیر ، حدیث ، کتابت ، قراءت ، افتاء،علم ہندسہ، اور دیگر بہت سے علوم و فنون میں بے شمار مسلم خواتین نے نہ صرف اپنا نام پیدا کیا بلکہ مختلف تحقیقی موضوعات پر کتب بھی تحریر کیں ۔اِس علمی انقلاب کی بدولت مسلم حکمرانوں نے نہ صرف اپنی بچیوں کو تعلیم کے لیے علمی ماحول فراہم کیا بلکہ عام خواتین کے لیے بڑے بڑے تعلیمی ادارے بھی قائم کیے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اِس شاندار ماضی کے ہوتے ہوئے بھی آج مسلم اُمّہ خواتین کو تعلیم کے لیے محفوظ اور پاکیزہ مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔

 

حوالہ جات

  1. اسلامک پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۱۲ء
  2. عوامی کتب خانہ ،لاہور،۱۹۷۸ء
  3. مجمع جہانی اہلِ بیت ،ج۔ن،س،ن
  4. العلم فاؤنڈیشن ،حیدرآباد،۲۰۱۴ء
  5. مکتبہ نذیریہ ،لاہور،س۔ن
  6. مشربہ علم و حکمت ،لاہور،۱۴۳۳ھ
  7. سلفی بک سنٹر ،کراچی ،۲۰۱۱ء
  8. منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۵ء
  9. منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۹ء
  10. منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ء
  11. منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ء
  12. دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی ،اسلام آباد،۲۰۰۷ء
  13. مترجم :علم کے آداب ،ترجمہ ازعبد القوی لقمان کیلانی،مرکز الکتاب ، لاہور،س۔ن
  14. نظام ایجوکیشن سوسائٹی ،کراچی ،۲۰۰۵ء
  15. مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،س۔ن
  16. الفیصل ناشران و تاجران کتب ،لاہور،۲۰۰۹ء
  17. مترجم:محمد حسین خان زبیری،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ،لاہور،۱۹۸۹ء
  18. مکتبہ جامعہ ،نئی دہلی ،۲۰۱۱ء
  19. ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ،۲۰۱۱ء
  20. القلم ،جون ۲۰۱۴ء،ص:۲۴۷۔۲۲۷
  21. القلم ،اپریل ۲۰۱۷ء،ص:۱۹۴۔۱۸۰
  22. سورۃالاحزاب ۳۴:۳۳
  23. السعدی، عبد الرحمن بن ناصر،تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان (مکتبہ دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض،۲۰۰۲م)،ص:۴۱۲
  24. عثمانی ،مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن (سروسز بک کلب ، روالپنڈی،۲۰۰۷ء)،۷/۱۴۱
  25. مودودی، سید ابو الاعلیٰ ، تفہیم القرآن(ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور،۲۰۰۲ء) ،۴/۹۴
  26. طبرانی،ابو القاسم سلیمان بن احمد ، المعجم اللکبیر(مکبتۃ الزہراء ،موصل،۲۰۰۸م)حدیث:۱۰۴۴۷، ۱۰/۱۹۷
  27. احمد بن حنبل ،امام،المسند(مؤسسۃ قرطبۃ ، مصر،۲۰۰۰م)،حدیث:۱۹۷۲۷، ۴/۴۱۴
  28. ملا علی قاری ،علی بن سلطان محمد ہروی، مرقات المفاتیح ،(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۱۹۹۸ء)۱/۷۹
  29. ابن ماجہ ،،محمد بن یزید،ابو عبد اللہ، القزوینی ،السنن،المقدمۃ،باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم(مکتبہ ، رحمانیہ ، لاہور،۲۰۱۶ء)، حدیث:۲۲۴،ص:۱۱۶
  30. السجستانی ، سلیمان بن اشعث،السنن( مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء)،حدیث:۳۸۹۱، ۲/۱۸۶
  31. القشیری ، مسلم بن حجاج ، الجامع الصحیح ،کتاب صلوٰۃ المسافرین ،باب جامع صلوٰۃ اللیل ( مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء)،حدیث:۱۷۳۹
  32. ذہبی ،ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان ،تذکرۃ الحُفّاظ (دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۱۱م)،۱/۲۷
  33. القشیری ،الجامع الصحیح ،کتاب الجنائز،باب المیّت یعذب ببکاء اہلہ علیہ ،حدیث:۲۱۵۳
  34. ابن حجر عسقلانی ،احمد بن علی بن محمد ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(المکتبۃ العصریۃ ، بیروت،۱۹۹۸م)،۴/۴۵۹
  35. ابن حجر عسقلانی ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۴/۳۱۷
  36. ابن سعد ، ابو عبد اللہ محمد ،الطبقات الکبریٰ (دارِ صادرللطباعۃ والنشر، بیروت،۱۹۵۷م)،۸/۳۵
  37. النووی ، ابو زکریا محی الدین بن شرف ،تہذیب الاسماء والصفات(دار الکتب العلمیہ ، بیروت،۲۰۰۱م)،۲/۳۶
  38. عمری ،جلال الدین انصر ،عورت اسلامی معاشرے میں (اسلامک پبلی کیشنز ،لاہور ،۲۰۰۸ء)،ص:۱۱۱
  39. ذہبی ، محمد بن احمد بن عثمان ، سیر اعلام النبلاء (دار الکتب العلمیہ ، بیروت، ۲۰۰۹م)،۳/۲۰۷
  40. القشیری، الجامع الصحیح ، کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریک الواصلۃ ،۲/۱۱۵
  41. ابن عبد البرّ،ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(دار الجبل، بیروت،۱۹۹۲م)،۲/۷۲۶
  42. ابن الحاج ،ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد ،المدخل (دار التراث، بیروت،۲۰۱۰م)،۱/۲۱۵
  43. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ۲/۲۷۶
  44. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ۲/۳۱۵
  45. ابن حجر عسقلانی ،احمد بن علی بن محمد بن علی بن احمد ،تہذیب التہذیب (موسسۃ الرسالۃ ،بیروت،س۔ن)،۱۱/۴۰۹
  46. ابن جوزی ،ابو الفرج عبد الرحمن ، صفۃ الصفوۃ(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۴۲۳ھ)،۴/۱۶
  47. طالب ہاشی ، تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین ،ص:۱۲۳
  48. ابن الحاج ،المد خل ، ۱/۲۱۵
  49. بخاری ، محمد بن اسماعیل ، امام ، الادب المفرد ، باب الکتابۃ الی النساء و جوابہن (مکتبہ رحمانیہ ، لاہور،۲۰۱۰ء)،ص:۲۸۷
  50. یافعی ، عبد اللہ اسعد بن علی بن سلیما ن یمنی ، مکی ، مرأۃ الجنان (مؤسسۃ العلمی ، بیروت ،۱۹۹۸م)، ۳/۴۰۰
  51. یافعی ، مرأۃ الجنان ، ۴/۲۳۱
  52. یافعی ، مرأۃ الجنان ، ۳/۴۰۰
  53. ابن عابدین شامی ، سید محمد امین ، رد المختار (مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ ،۲۰۰۸ء)، ۱/۹۳
  54. عبد القادر ، محمد ، علامہ ، محدث ، حنفی ، الجواہر المضیۃ (مطبع میر محمد ، کراچی ،۲۰۰۰ء)، ۲/۲۷۷
  55. عبد القادر ، الجواہر المضیۃ ، ۲/۲۷۸
  56. عبد القادر ، الجواہر المضیۃ ، ۲/۲۷۷
  57. الاندلسی ،احمد بن محمد بن عبد ربہ عقد الفرید(دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۸۳م) ،۲/ ۲۸۸
  58. الاندلسی ،احمد بن محمد بن عبد ربہ ،عقد الفرید،۳/۲۵۶
  59. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ،۸/۴۸۰
  60. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ،۸/۴۸۴
  61. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ،۸/۴۸۳
  62. محمد بن حبان بن احمد ،الثقات( دائرۃ المعارف العثمانیۃ،حیدر آباد دکن ، ہندوستان ،۱۹۷۳ء)،۲/۳۲۷
  63. ابو عبیدہ مشہور بن حسن آلِ سلمان ،عنایۃ النساء بالحدیث النبوی(مترجم:روایت حدیث میں خواتین کا مقام ،ترجمہ از ابو نور محمد انیس) (دار الاشاعت ،کراچی ،۲۰۰۱ء)،ص:۸۲
  64. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۲
  65. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۴
  66. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۹۸
  67. الحموی ،یاقوت بن عبد اللہ ،معجم البلدان(دار صادر ، بیروت،۱۹۹۳م) ،۵/۳۷۳
  68. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۹۵
  69. العکری ،عبد الحی بن احمد بن محمد بن عماد ،شذرات الذہب فی اخبار من ذہب (دار ابن کثیر ،بیروت،۱۹۸۶م) ،۳/۳۵۴
  70. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۵
  71. ذہبی ، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان ،معجم الشیوخ (دار الکتب العلمیہ بیروت،۲۰۰۰م)،ص:۲۸۱
  72. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۶
  73. ذہبی ،معجم الشیوخ ،ص:۳۳۷
  74. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۷
  75. العکری،شذرات الذہب ،۵/۱۹
  76. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۷
  77. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۸۷
  78. ذہبی ،معجم الشیوخ ،۱۹۸
  79. ذہبی ،معجم الشیوخ ،۱۹۸
  80. ذہبی ، معجم الشیوخ ،۱۹۸
  81. العکری،شذرات الذہب ،۶/۱۲۶
  82. ابراہیم کردی، شیخ ، الامم لایقاظ الہمم(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۸۹م)،ص:۸۸
  83. ابراہیم کردی،الامم لایقاظ الہمم،ص:۸۸
  84. ابراہیم کردی ،الامم لایقاظ الہمم،ص:۸۸
  85. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۹۰
  86. ابن خلکان ،احمد بن محمد بن ابو بکر ،وفیات الاعیان (دار صادر ، بیروت،۱۹۷۲م)،۲/۲۴۴
  87. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۹۶
  88. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۹۸
  89. الکحالہ،عمر رضا ،اعلام النساءفی عالمی العرب والاسلام (موسسۃ الرسالۃ ، بیروت،۲۰۰۸م) ،۳/۲۹۹
  90. اعلام النساء فی عالمی العرب والاسلام ،۳/۲۸۷
  91. الکحالہ،اعلام النساء فی عالمی العرب والاسلام ،۳/۲۸۷
  92. العکری،شذرات الذہب ،۶/۲۰۸
  93. ابن العراقی ،ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبد الرحیم بن حسین ،الذیل علی العبر فی خبر من عبر(موسسۃ الرسالۃ ، بیروت،۱۹۸۹م) ،۲/۵۱۴
  94. ابو نور محمد انیس ،روایت حدیث میں خواتین کا مقام ، ص:۱۰۲
  95. ندوی، سید سلیمان،مقالات شبلی (اعظم گڑھ،ج۔ن،۱۹۵۶ء)،۴/۵۶
  96. سید صباح الدین عبد الرحمن ،ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے (اعظم گڑھ ،ج۔ن،۱۹۶۳ء)،ص:۲۱۲
  97. مستعدخان ،مآثر عالمگیری(کراچی،۱۹۶۲ء)،ص:۴۷۹
  98. سر سید احمد خان ،ڈاکٹر ،آثار الصنادید (اردو بازار ،جامع مسجد،دہلی ،ہندوستان ،۱۹۶۵ء،ص:۳۰۰
  99. ہاشم علی خان ، منتخب اللباب(کراچی ،ج۔ن،۱۹۶۳ء)،ص:۲۷۷
  100. سر سید احمد خان ،آثار الصنادید ،ص:۲۴۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...