Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Islamabad Islamicus

تعمیر شخصیت کے بنیادی اصول قرآن و سنت کی روشنی میں |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060033219_675

Pages

1-17

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Muhammad%20Furqan%20Gohar.pdf

Subjects

Hazrat Ali(RA) Human Quran Books

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خداوند عالم نے انسان کو تعلیمی صلاحیتوں کی بنیاد پر فرشتوں پر برتری عطا کی اور فرشتوں نے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس برتری کو عملی طور پر تسلیم کر لیا۔ ساتھ میں تسخیرِ کائنات کی قدرتی صلاحیت دے کر انسان کو دیگر مخلوقات سے جدا کر دیا اور یوں اسے ایک باعز ت اور باکرامت مخلوق کے طور پر روئے زمین پر بھیجا گیا۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ اٰدَمَ وَحَـمَلْنَاهُـمْ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُـمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُـمْ عَلٰى كَثِيْـرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا﴾[1]

"اور ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی"۔

اس آیت کریمہ کے مطابق پوری کی پوری انسانیت ،تکریم و عزت کی حامل ہے ۔ کیونکہ یہ ایسی کرامت ہے جو انسان کا لازمی جز ہے ۔ وہ نیک ہو یا بد ، مومن ہو یا کافر سب میں یکساں پائی جاتی ہے ۔اس لیے تو قرآن نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مومنوں کو کرامت عطا کی ہے بلکہ فرمایا اولاد آدم کو کرامت عطا کی ہے ۔ کیونکہ یہ اسی عظمت و بلندی کا ذکر ہے جس کے تحت وہ اس کائنات کی خشکی اور تری پر تسلط حاصل کرتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ کرامت انسان کی ذات میں شامل ہے ۔

اس کرامت ہی سے انسان کی ذمہ داری پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ جتنا انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری حاصل ہو گی، منطقی طور پر اسی تناسب سے اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گا ۔

سیکھنے اور سمجھنے کا یہ عمل انسان کو آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان اس کائنات میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ بہت کچھ کما سکتا ہے۔ یہی زندگی کی کمائی اس کی انسانیت کا پیمانہ معین کرتی ہے۔ اور یوں وہ کبھی" راضیۃ ًمرضیۃٌ "کا مصداق بن جاتا ہے، تو کبھی حیوانیت کی حدیں کراس کرجانے کے باعث" کاالانعام بل ہم اضل "بن جاتا ہے ۔ در اصل مسئلہ انسان کی اچیومینٹ کا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ﴾ [2]

"ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے۔"

لہذا انسان کی تعمیرِ شخصیت اس کے کردار سے جڑی ہے۔کردار ہی انسان کو حسین بناتا ہے اور کردار ہی انسان کو یزید بناتا ہے ۔ یہاں پر ہم ان اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے بلند کرداری کے راستے کھلتے ہیں۔ انسان ان اصولوں کی روشنی میں اپنی شخصیت کی تعمیر کر کے کمال کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے ۔قبل اس کے کہ ان عناصر کی طرف اشارہ کیا جائے ،اس بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ ان اصولوں سے مراد کیا ہے ؟

شخصیت ساز اصولوں سے مراد ایسے بنیادی دستورات اور قوانین ہیں جو اللہ تعالی نے انسان کی فردی اور معاشرتی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ،اسے فلاح و بہبود کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے قرار دیے ہیں ۔یعنی ایسے قوانین اور الہی دستورات جو انسان کی خود سازی میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں ۔ بنا بر ایں ایسے شرعی احکام جو جزئیات پرمشتمل ہیں ،اگرچہ وہ بھی انسان کی کامیابی میں دخالت رکھتے ہیں لیکن انہیں بنیادی عناصر یا شخصیت ساز اصولوں میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ بہت ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ ان اصولوں کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جن میں جزئی احکام یعنی شریعت جگہ پالیتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ عناصر راہ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں طے کرنے کے لیے جزئی احکام کی ضرورت ہر صورت میں رہتی ہے ورنہ منزل نہیں ملتی، جبکہ ان اصولوں کو فراموش کر دیا جائے تو سرے سے راستہ ہی نہیں ملتا ۔

پہلا اصول:ذاتِ اقدس ِحق پر ایمان

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ [3]وہ اپنے ماننے والوں کو جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی دیتا ہے۔[4] لہذا تعمیر ِ شخصیت کی اولین ضرورت خداوند عالم پر قلبی اعتقاد اور دل سے اس کے وجود کو تسلیم کرناہے ۔ یعنی انسان اس بات کو اپنے دل میں جگہ دے کہ یہ عظیم کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کا ایک خالق ہے کہ جس نے اس کائنات کو خاص نظم کے ساتھ، مخصوص اہداف کے لیے تخلیق فرمایا ہے ۔ مناجات شعبانیہ کا ایک جملہ اسی حقیقت کا عکاس ہے جس میں امام حسین رضی اللہ عنہ خداوند کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

الهِي إِنَّ مَنِ انْتَهَجَ بِكَ لَمُسْتَنِيرٌ[5]

"اے پروردگار! جس نے تیرے ذریعے راستہ ڈھونڈا وہ یقینا ہدایت کی روشنی پا گیا۔ "

ہم اگر انسانی تفکرات کو کلی نظر سے دیکھیں تو دو قسم کے لوگ سامنے آتے ہیں ۔ ایک وہ جو اس کائنات کو اتفاقی خیال کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی اور خود بخود چل رہی ہے ۔ اس کائنات کا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہے ۔

اور دوسرے وہ کہ جو کائنات کو ایک خاص نظم کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ان کی نگاہ میں اس کائنات کے خالق نے اسے ایک مخصوص مقصد کے تحت ، بڑے متقن انداز میں بنایا ہے اور یہ کائنات اسی کی مشیت سے چل رہی ہے۔ اگر آپ ان دو قسم کے انسانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو وہ ایک دوسرے سے مکمل فرق کرتی ہیں ۔اس لیے کہ ان دونوں کا کائناتی تصورجدا جدا ہے ۔اور یوں پھر انسان کی تعریف، اس کی ذمہ داریاں، سماجی روابط اور دیگر موجودات سے متعلق جوتصور ہے وہ بھی جدا ہے ۔

ایک کی نظر میں فقط چند روزہ زندگی ہے اور بس ۔ ایسے لوگ مشینری کی طرح دن رات دنیا وی لذات کے پیچھے بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں اور لا شعوری طور پر اپنے آپ کو تھکاتے رہتے ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دن رات کام کرنے سے انہیں سکون نصیب ہو جائے گا حالانکہ یہی کثرت سے محنت ہی ان کے اعصاب کو کمزور بنا دیتی ہے اور یونہی وہ اس دنیا سے سرگردان ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔

قرآن کریم ایسے لوگوں کی زندگی کو سراب سے تعبیر کرتا ہے، جو ہر وقت پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ جبکہ آخری سانسوں تک پیاسے رہتے ہیں، اور پھر اسی حالت میں خداوند متعال سے ان کی ملاقات ہو جاتی ہے ، اور یوں ان کی حساب رسّی کا وقت آن پہنچتا ہے۔ [6]

اس کے مقابلے میں دوسری قسم کے لوگ ہیں جو اس ہستی کو ایک خالق کی عطا سمجھتے ہیں ،اس عظیم کائنات کو ایک ہی محور کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں جس کانام توحید ہے ۔اس نکتہ نگاہ کے مطابق کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی حمد و ثناء میں مشغول ہے اور فقط انسان ہی ہے جو اس کائنات سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے باوجود کفران نعمت میں مشغول ہے اور فقط مٹھی بھر لوگ ہیں جو شکر خداوند بجا لاتے ہیں ۔ایسے لوگوں سے خداوند بات بھی کرتا ہے اور انہیں یہ بتاتا ہے کہ اے لوگو ؛کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں بیہودہ پیدا کیا گیا ہے اور تم اپنے خالق کی طرف نہیں پلٹو گے [7]۔نہیں یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ ایک دن ضرور تمہیں خالق کی بارگاہ میں لوٹایا جائے گا ۔

ایسے انسانوں کی زندگی امید سے مالا مال ہوتی ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس اللہ کی ذات کا سہارا ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی خوف کا شکار ہوتے ہیں نہ حزن و اندوہ ان تک پہنچ پاتا ہے۔ یوں تقوی اور خدا خوفی کا لباس زیب تن کرکے بے باک ہو کر اپنے اہداف کی طرف بڑھتے ہیں۔اس کی روشن مثال ہمیں کربلا کے میدان میں ملتی ہے ، جہاں مٹھی بھر افراد ہزاروں کے لشکر کے آگے صبر و استقامت کی مثال نظر آتے ہیں ۔

دوسرا اصول :ذکر الہی

ذکر کا حقیقی مفہوم :

عام طور پر ذکر سے مراد خاص قسم کے ورد لیے جاتے ہیں جو نماز کی تعقیبات میں یا چلتے پھرتے گاہے بگاہے زبان پر جاری کیے جاتے ہیں ۔مثلا سبحان اللہ ،الحمد للہ وغیرہ۔ لیکن عربی زبان دانوں کی آراء میں غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ذکر ، کسی چیز کو یاد رکھنے کے معنی میں ہے [8]۔اور اس لحاظ سے زبان سے تسبیحات جاری کرنا ذکر کاایک جزء ہے ۔ پس یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ذکر دو طرح سے ہو سکتا ہے :ایک قلبی اور دوسرے لفظی

قلبی ذکر سے مراد یہ ہے کہ انسان کو جب بھی گناہ کا سامنا ہو یا کوئی ایسا موقع آجائے کہ گناہ میں مشغول ہو رہا ہو مثلا،رشوت ،جھوٹ ،غیبت ،تہمت ،زنا یا ایسا ہی کوئی اور گناہ انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو ،ایسے میں خدا کو یاد کر کے اسے ترک کر دینا ذکر قلبی کہلاتا ہے ۔بلکہ پیغمبر اعظم کے فرمان مبارک سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ در اصل ذکر ہوتا ہی دل کے طریقے سے ہے ۔جیسا کہ آپ نے فرمایا :

يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُطِيقُهَا هَذِهِ الْأُمَّةُ الْمُوَاسَاةُ لِلْأَخِ فِي مَالِهِ وَ إِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِهِ وَ ذِكْرُ اللَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَ لَيْسَ هُوَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَكْبَرُ وَ لَكِنْ إِذَا وَرَدَ عَلَى مَا يَحْرُمُ عَلَيْهِ خَافَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَهُ وَ تَرَكَه۔‏[9]

"اے علی !تین چیزین ایسی ہیں کہ اس امت [کے عام لوگ] اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔ پہلی یہ کہ اپنے مال میں دینی بھائیوں کی مدد کرنا ۔دوسرے یہ کہ اپنے آپ سے لوگوں کو انصاف دینا [یعنی اپنے خلاف بھی ہو تب بھی منصفانہ برتاو کرنا ]اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا ۔[پھر آپ نے فرمایا ] ذکر سے مراد سُبْحَانَ اللَّهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَكْبَرُ نہیں ہے بلکہ ذکر یہ ہے کہ جب کسی ایسی چیز کا سامناہو جواس پرحرام ہے تو اس وقت اللہ سے ڈرے اور اسے چھوڑ دے ۔"

تعمیر شخصیت میں ذکر کا کردار :

ذکر کی حیثیت کیا ہے اور اسے شخصیت سازی میں کیا مقام حاصل ہے ؟اس حوالے سے جب ہم قرآن پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ ذکر کو ہدایت کی سیڑھی قرار دیتے ہوئے اسے قرآن کے نزول کے اہداف میں سے ایک مہم ہدف قرار دیتا ہے ۔اس آیہ پر غور کیجیے:

﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳)﴾[10]

"اللہ نے ایسی کتاب کی شکل میں بہترین کلام نازل فرمایا ہے جس کی آیات باہم مشابہ اور مکرر ہیں اور جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہو کر ذکر خدا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم کیوں بار بار آیات کا تکرار کرتے رہتے ہیں ،کسی آیت کو دوبار اور کسی کو تین ،چار یا اس سے زیادہ مرتبہ بھی دہراتے ہیں ،یہ اس لیے ہے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور خدا کی یاد میں پڑ جائیں ۔دوسرے لفظوں میں ؛ قرآن تربیتی کتاب ہے اور تربیت کرنے کے لیے کسی بات کا ایک دفعہ سمجھا دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ بار بار دہرائے جانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

دوسری آیت میں خداوند حضرت موسی علیہ السلام کوذکر کے لیے نماز برپا کرنے کا حکم دیتا ہے :

﴿وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْري﴾ [11]

"اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔"

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا اصلی ہدف بھی ذکر الہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ خدا کی یاد سے انسانی شخصیت کے ارتقاء کا رابطہ کیا ہے ؟

اس کا جواب مشابہت رکھتا ہے اس بیان سے کہ جو ہم پہلے اصول کے ضمن میں عرض کر چکے ہیں۔ باین معنی کہ خداوند عالم پر اعتقاد اور ایمان جس طرح سے انسان کو زندگی سے متعلق ایک نیا تصور ،نیا مفہوم اور نئی ذہنیت عطا کرتا ہے باالکل اسی طرح سے خدا وند عالم کی یاد بھی اس تصور کو باقی رکھنے میں مددگا ر ثابت ہوتی ہے ۔دوسر ے لفظوں میں جس طرح سے خداوند عالم کو خالق ہستی مان لینے سے زندگی کے متعلق انسان کا تصور بدل جاتا ہے ،اسی طرح اس تصور کو برقرار رکھنے کے لیےبلکہ مضبوط بنانے کے لیے بھی ایک اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے یاد خداوند ۔یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ قلبی ذکر کی اہمیت اور فوقیت کس جہت سے ہے ؟کیونکہ فقط یہ مان لینا کافی نہیں ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر مجھے کیا کرنا ہے ؛کیانہیں کرنا ؟ کس عمل کو زندگی کا حصہ بنانا ہے اور کونسے عمل سے اجتناب کر نا ہے یہ سب بھی خالق کی مرضی پر موقوف ہو نا چاہیے۔

لہذا ذکر الہی کا دائرہ کہیں وسیع ہے اور یوں نہیں ہے کہ ہم اسے فقط ورد کی حد تک محدود رکھیں ۔جیسا کہ اس حقیقت کو ہم پیغمبر اکرم ﷺکی زبانی بیان کرچکے ہیں ۔مسجد میں بیٹھ کر تھوڑی دیر اللہ اللہ کریں اور باہر جا کر وہی حرام خوری اور حرام کاری اپنا شیوہ ہو یہ ذکر الہی نہیں ہے ۔عام لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم جتنی زیادہ تسبیح پڑھ لیں اتنا ہی زیادہ درجات بلند ہونگے ۔ لیکن یہ تصور قرآنی دستورات سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ابلیس نے بہت تسبیح پڑھی ،بلعم باعور بھی ایک عابد و زاہد تھا [اس کا قصہ سورہ اعراف میں تلویحا موجود ہے ][12]لیکن ان میں جو نقص پایا گیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے تسبیح کے ذریعے اس مقصد کو حاصل نہ کیا جو خداوند عالم کے مد نظر ہے ۔ ہماری نماز اور روزے ،ذکر اور تسبیحات کا اگر خود ہمیں فائدہ نہ ہو تو اور کسی کو تو یقینا نہیں ہو گا ،یہ سب کے سب خدائی احکامات انسانی تربیت کے لیے ایک کورس کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس میں انسان ہی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے خدا کی یاد کو سب سے بڑ ی عبادت قرار دے دیا ۔ [13]یعنی خدا کی یاد ہماری نمازوں ،روزوں ،حج اور دیگر سب چیزوں سے بزرگ و برتر ہے کیونکہ اگر یہ سب عبادات یاد خدا سے خالی رہ جائیں تو فقط ظاہری حرکات و سکنات کے سوا کچھ نہیں ۔پھر وہ نماز نہ ہی کسی ظلم سے روکتی ہے نہ نا انصافی سے ، اور نہ ہی فحشاء اور منکرات سے ۔اور پھر یوں ہوتا ہے کہ روزہ سوائے بھوک اور پیاس کے اور کوئی اثر انسان پر نہیں چھوڑتا ۔اور پھر حج فقط خانہ ِکعبہ کی چاردیواری کے گرد چکر لگانے کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں دیتی ۔

ان کی حیثیت اگر ہے تو ذکر الہی اور خدا کی یاد کی وجہ سے ہے ورنہ کچھ نہیں ۔پس یاد رہے کہ کمال کے سفر میں پہلا مرحلہ خدا کو مان لینا اور دوسرا مرتبہ اس کی یاد کو ہمیشہ اور ہر حالت میں اپنے دل میں جگہ دیناہے ۔اور یہی وہ یاد ہے جو انسان کو ہربرائی سے روکتی ہے اور ہر اچھائی پر اکساتی ہے ۔

تیسرا اصول : موت کی یاد

قرآن کریم نے کئی مقامات پر موت کی یاد دلائی ہے، سورہ واقعہ میں اس کا تذکرہ کچھ اس انداز میں ہے:

﴿فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْـقُوْمَ۔وَاَنْتُـمْ حِيْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ۔وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔فَلَوْلَآ اِنْ كُنْـتُـمْ غَيْـرَ مَدِيْنِيْنَ۔تَـرْجِعُوْنَهَآ اِنْ كُنْـتُـمْ صَادِقِيْنَ﴾[14]

٨٣"۔ پس جب روح حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے،٨٤۔ اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو،٨٥۔ اور (اس وقت) تمہاری نسبت ہم اس شخص (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے۔٨٦۔ پس اگر تم کسی کے زیر اثر نہیں ہو،٨٧۔ اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو (اس نکلی ہوئی روح کو) واپس کیوں نہیں لے آتے۔"

ان آیات میں جہاں انسان کو موت کی یاد دلائی گئی ہے، وہیں اس بے بسی کا تذکرہ بھی ہے جو انسان موت کی نسبت رکھتا ہے۔ آج ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی موت اتنی ہی ناقابل تسخیر حقیقت ہے، جتنی اس سے قبل تھی۔ اس حقیقت کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ اہل ایمان کے لیے موت ایک عظیم کامیابی ہے، جبکہ اہل کفر و الحاد کے لیے ایک بھیانک خواب۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو جب وہ مصر کے والی تھے ایک خط لکھا جس میں آپ نے فرمایا :

وَ أَكْثِرُوا ذِكْرَ الْمَوْتِ عِنْدَ مَا تُنَازِعُكُمْ إِلَيْهِ أَنْفُسُكُمْ مِنَ الشَّهَوَاتِ وَ كَفَى بِالْمَوْتِ وَاعِظاً وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص كَثِيراً مَا يُوصِي أَصْحَابَهُ بِذِكْرِ الْمَوْتِ فَيَقُولُ أَكْثِرُوا ذِكْرَ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ هَادِمُ اللَّذَّاتِ حَائِلٌ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ الشَّهَوَاتِ۔[15]" جب تمہارے نفس تمہیں خواہشات پر اکسائیں توموت کو بہت زیادہ یاد کیا کرو اور موت انسان کی نصیحت کے لیے کافی ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو بہت زیادہ موت کو یاد کرنے کی نصیحت کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرو کیونکہ وہ [دنیاوی ]لذتوں کو ختم کر دیتی ہے اور تمہارے اور تمہاری نفسانی خواہشات کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔"

پیغمبر اسلام ﷺنے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

يَا أَبَا ذَرٍّ أَ تُحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ نَعَمْ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي قَالَ فَاقْصُرِ الْأَمَلَ وَ اجْعَلِ الْمَوْتَ نُصْبَ عَيْنِكَ وَ اسْتَحْيِ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاء۔[16]

"اے ابوذر !کیا تم جنت میں جانا پسند کرو گے ۔ابوذر نے فرمایا ہا ں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ،تو آپ ص نے فرمایا :تو پس اپنی امیدوں میں کمی کر دو اور موت کو اپنا نصب العین قرار دو اور اللہ سے ایسے شرم کرو جیسے شرم کرنے کا حق ہے ۔"

اس حدیث سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ موت کو اپنا نصب العین قرار دینا انسان کی فلاح اور کامیابی کا ضامن ہے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موت کو نصب العین قرار دینے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ؟

نصب العین یعنی آنکھوں کے سامنے قرار دینا اور موت کو اس طرح یاد رکھنا کہ گویا وہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہے ۔ یہ اسلامی دستورات میں سے ایک اہم کلیدی دستور ہے ۔البتہ موت ایک اٹل حقیقت ہونے کے باوجود نامعلوم بھی ہے یعنی کسی انسان کو علم نہیں ہے کہ اس کی عمر کتنی ہے ؟لمبی عمر ہے یا کوتاہ ؟ کیونکہ قرآن میں چند چیزوں کے علم کو خداوند عالم کا مخصوص علم قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اسے کس سر زمین پر مرنا ہے؟[17]

موت کو انسانوں سے مخفی رکھنے میں اللہ کا خاص کرم شامل ہے کیونکہ اگر کسی کو علم ہو جائے کہ اس نے کہاں اور کب مرنا ہے تو اس میں زندگی کی امید ختم ہو جائے گی اور وہ دن گننے لگے گا۔لہذا زندگی کی مٹھاس برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ موت کا علم اس سے مخفی رکھا جائے ۔

اب ایک طرف سے اسے علم نہیں دیا گیا کہ کب مرنا ہے اور دوسری طرف سے دستور بھی ہے کہ موت کو یاد رکھو ، اس میں کیا راز ہے ؟

یہی وہ تربیتی اصول ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مرنے کا وقت معلوم نہ ہونے کے باعث انسان کی پریشانی بھی تو ختم ہو گئی اور وہ موت سے لاپروا ہو کر اسی چند روزہ زندگی کو ہی اپنا نصب العین سمجھنے لگتا ہے ۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے اسلام نے دستور دیا ہے کہ موت کو یاد رکھا جائے ۔

جب انسان موت کو یاد رکھے گا تو اس کی زندگی میں خواہشات نفسانی کی شدت میں کمی آئے گی۔ جیسا کہ احادیث نے بھی اس امر کی وضاحت کی ہے اور موت کو "مادم اللذات"[18] یعنی لذتوں کو مسمار کرنے والی حقیقت کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔

یہ نفسانی خواہشات ہی ہیں جو انسان کی بہت سی بد بختیوں کا باعث بنتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام علی ع نے فرمایا کہ؛" بتحقیق سب سے زیادہ مجھے ،تمہارے دو چیزوں میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے ؛ایک خواہشات کی پیروی اور دوسرے لمبی آرزوئیں ۔ پھر آنحضرت نے ان دونوں کے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا کہ خواہشاتِ نفسانی کی پیروی حق سے روک دیتی ہے اور لمبی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہیں۔[19]

چوتھا اصول :عالم ِ آخرت کی طرف توجہ

قرآن حکیم نے تقریبا ۱۴۰۰ کے قریب مقامات پر قیامت کا تذکرہ کیا ہے ،حالانکہ فقہ اور انسانی زندگی کے احکام سے متعلقہ آیات کی تعداد-مشہور قول کی بناء پر-سات سو سے آگے نہیں بڑھتی ۔اس کی ایک وجہ تو خود زمانہ جاہلیت کا عرب معاشرہ بھی ہو سکتا ہے جو قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا بلکہ اسے ناممکن سمجھتا تھا ۔لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر قیامت کا اعتقاد راسخ کرانا اتنا آسان امر نہیں ہے ،تیسری بات یہ ہے کہ اخروی زندگی کا تصور دنیاوی زندگی کی کیفیت پر بہت ہی گہرا اثر چھوڑتا ہے ۔

ہم میں سے بہت سے لوگ روز عالم آخرت پر اس طرح سے یقین و ایمان نہیں رکھتے جس طرح رکھنا چاہیے ورنہ کون ہے جو یقین کرلے کہ دوزخ کی آگ کا وجود ہے پھر بھی گناہوں پر اصرار کرے ؟جہنم کے شعلوں کی تپش محسوس کر رہا ہو اور پھر بھی اسی میں کود رہا ہو ؟ اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ وہ اس بات کا یقین پیدا نہیں کرسکا کہ اسے ایک دن خدا کے حضور جواب دینا ہے ۔

قرآن کریم نے مختلف انداز میں عالم آخرت کا تذکرہ کیا ہے ۔کبھی حساب کی منظر کشی کر رہا ہے، تو کبھی نامہ اعمال ہاتھ میں تھمائے جانے کی بات ،کبھی قبروں سے نکلنے کا تذکرہ تو کبھی شفاعت قبول ہونے یا نہ ہونے کی بات،کبھی جہنمیوں کی حسرتوں کا ذکر تو کبھی جنت والوں کی بے انتہا خوشیوں کا تذکرہ ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن جس بات کو قرآن نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے وہ یہ کہ اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا قیامت نے ایک دن واقع بھی ہونا ہے یا نہیں ۔اس بات کو سب سے زیادہ قرآن نے چھیڑ ا ہے ۔ بطور مثال سورہ قیامت میں فرماتا ہے :

قسم کھاتا ہوں روز قیامت کی۔ قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر) کی۔ کیا انسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔ بلکہ انسان چاہتاہے کہ آگے بھی برائی کرتا جائے۔ وہ پوچھتا ہے: قیامت کا دن کب آئے گا. پس جب آنکھیں پتھرا جائیں گی۔اور چاند بے نور ہوجائے گااور سورج اور چاند ملا دئیے جائیں گے،۔ تو انسان اس دن کہے گا: بھاگ کر کہاں جاؤں؟ نہیں ! اب کوئی پناہ گاہ نہیں۔ اس روز ٹھکانا تو صرف تیرے رب کے پاس ہو گا۔ اس دن انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو وہ آگے بھیج چکا یا پیچھے چھوڑ آیا ہو گا۔[20]

ان آیات میں اللہ تعالی نے قیامت کے واقع ہونے کی دلیل خدا کی قدرت کو قرار دیتے ہوئے اس بات کا بھی اعادہ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کا اصلی نقص یہ ہے کہ اس نے خالق کو ہی نہیں پہچانا ،یعنی ابھی تک اس نے پہلا زینہ ہی طے نہیں کیا تو آخری تک کیسے پہنچے گا ۔ اس کے ضمن میں خداوند عالم نے یہ بات بھی واضح کردی کہ انسان اس لیے قیامت کا انکار کر رہا ہے کہ وہ اپنے گناہ آلود زندگی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا ورنہ جو شخص خدا کو مان لیتا ہے اس کے لیے تو قیامت کو نہ ماننے کی کوئی وجہ ہی باقی نہیں رہتی ۔

رہا یہ سوال کہ قیامت پر یقین کا انسان کی شخصیت سازی سے کیا تعلق ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں طغیان ہے یعنی جونہی وہ آسانی اور بے نیازی محسوس کرتا ہے طغیان پر اتر آتا ہے ۔تھوڑا سا مال کیا ہاتھ آیا غرور نے ڈیرے جمالیے۔کرسی ، مقام و منصب ،عزت و شہرت وغیرہ سب مختلف عوامل ہیں جو انسان کو غلط راستے پر چلانے کے بہانے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔ کہیں شہوت رانی شروع ہوئی تو کہیں رشوت کی بازی لگی ، کہیں سود خوری شروع ہوئی تو کہیں بے جا سفارش کا سلسلہ ؛ یہ سب طغیان ہی کے چہرے ہیں ۔ یہ اس لیے وجود میں آیا کہ وہ بھول گیا کہ ایک دن یہ چیزیں ہاتھ سے جابھی سکتی ہیں اور وہ یہ بھی بھول گیا کہ ایک دن ان سب نعمتوں کا جواب بھی دینا ہے ۔وہ لا شعوری طور پر یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ تو اب ہمیشہ میرے پاس رہیں گی ۔

اس کا علاج خود قرآن نے یہی تجویز کیا ہے کہ اسے عالم آخرت کی یاد دلاتا ہے۔اسے اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ایک اور دنیا ہے جس کی طرف پلٹنا ہے ۔ قرآن نے جہاں انسانی طغیان کا ذکر کیا ہے اس کے بعد بلا فاصلہ قیامت کا تذکرہ کیا ۔ارشاد ہوتا ہے :

﴿كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى۔اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى﴾[21]

" انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔"

پھر اس کے فورا بعد فرماتا ہے :

﴿اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى﴾[22]

"یقینا آپ کے رب کی طرف ہی[انہیں ] پلٹنا ہے۔"

یعنی طغیان اور سر کشی کرنے والے انسان جان لیں کہ انہیں ایک دن اپنے رب اور خالق کی طرف پلٹنا ہے ۔اگر وہ اپنی زندگی میں اس بات کی طرف توجہ دیں اور قیامت کے دن کو یاد رکھیں تو اس طغیان تک نوبت ہی نہ پہنچے گی اور یہاں سے ان کی فلاح و بہبود کا سفر شروع ہو جائے گا اور وہ کمال کی راہوں پرگامزن ہو جائیں گے ۔

خلاصہِ سخن اور آخری بات:

انسان کو اس دنیا میں نقص سے کمال کا سفر طے کرنا ہے۔ اور یہ کام کردار سازی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔ بلند کردار بننے کے کچھ بنیادی اصول ہیں، جو قرآن و سنت سے استنباط کیے جا سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا اصول انسانی سماج کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے اور اس پر باقی رکھنے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ فقط ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ طغیان سے نکل کر عالم آخرت پر اپنی توجہات مرکوز کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں ایک پریکٹیکل راہنما کی ضرورت ہے وہ راہنما کون ہے ؟کون ہمیں ہر وقت یہ احساس دلائے کہ آپ غلط راستوں پر چل نکلے ہیں ؟ کون ہمیں ہر وقت خدا کی یاد دلائے ؟ وغیرہ۔

اس سوال کا جواب جب ہم ائمہ طاہرین کے کلام میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں ہمیں یکساں طور پر ایک چیز کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ نمونے کے طور پر حضرت علیؓ کے اس خطبے پر توجہ فرمائیں :

وَ إِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ وَ بَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ وَ سَمْعٌ لِلْأُذُنِ الصَّمَّاءِ وَ رِيٌّ لِلظَّمْآنِ وَ فِيهَا الْغِنَى كُلُّهُ وَ السَّلَامَةُ كِتَابُ اللَّهِ تُبْصِرُونَ بِهِ وَ تَنْطِقُونَ بِهِ وَ تَسْمَعُونَ بِهِ وَ يَنْطِقُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ وَ يَشْهَدُ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ وَ لَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّهِ وَ لَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِهِ عَنِ اللَّه۔[23]" قرآن وہ حکمت بھرا کلام ہے جو مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور نابینا آنکھوں کو بینائی عطا کرتا ہے۔بہرے کانوں کو شنوا بناتا ہے اور پیاسے کو سیراب کرتا ہے ۔اس میں ساری بے نیازی ہے اور مکمل سلامتی بھی ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جس سے تمہیں بصیرت ملتی ہے ، بولنے کا سلیقہ آتا ہے اور سماعت کا سامان بھی ۔ اس کا ایک حصے دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے اور اس کا ایک جز دوسرے جزو کی گواہی دیتا ہے ۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا اور اپنے ساتھی کو خدا سے جدا بھی نہیں کرتا ۔"

اس خطبے کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے سماج کے عمومی رجحانات سے کس قدر نالاں ہیں ، جہاں لوگ دنیا پرستی میں مکمل طور پر غرق ہو چکے تھے ۔ آج ہماری حالت یہی ہے کہ سب لوگ مال و دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہیں اور دنیاطلبی مختلف انداز میں سب کا ہدف واحد بن کر رہ گئی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسے میں قرآن حکیم کو ہی راہ حل کے طور پر پیش فرمایا اور اسے زندگی کی کتاب قرار دیتے ہوئے انسانی سماج کی تمام مشکلات کا حل اس پر عمل پیرا ہونے کو قرار دیا ۔ اب یہ بات تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ فقط ثواب کی خاطر تلاوت کرنے سے یہ مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ قرآنی تعلیمات کو سمجھنااور اس کے بلند مفاہیم پر تدبر کرنا ہی واحد راہِ حل ہے۔

امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں تعمیر شخصیت کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے قرآن کریم کو اپنی زندگی کا محور قرار دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین ۔و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المکرّمین۔

حوالہ جات

  1. سورۃ الاسراء، ۷۰:۱۷
  2. سورۃالمدثر۳۸:۷۴
  3. سورۃ النور۳۵:۲۴
  4. سورۃ البقر۲۵۷:۲
  5. رضی الدین علی بن طاوس ، الاقبال بالاعمال الحسنۃ ، تحقیق: جواد قیومی اصفہانی( دفتر تبلیغات اسلامی، قم ایران، طبع اول، ۱۴۱۵ہجری) ، ۳/۲۹۸
  6. سورۃ النور۳۹:۲۴
  7. سورۃ المومنون۱۱۵:۲۳
  8. فراہیدی،خلیل احمد،کتاب العین(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۸م)،۵/۳۴۶
  9. شیخ صدوق ،محمد بن علی بن بابویہ،من لا یحضرہ الفقیہ ( دفتر انتشارات اسلامی، قم ایران، طبع دوم، سنہ ۱۴۱۳ہجری )،۴/۳۵۸
  10. سورۃ الزمر ۲۳:۳۹
  11. سورۃطہ ۱۴:۲۰
  12. سورۃ الاعراف۱۷۶:۷۔۱۷۵
  13. سورۃ العنکبوت۴۵:۲۹
  14. سورۃ الواقعہ۸۳:۵۶۔۸۴۔۸۵۔۸۶۔۸۷
  15. حرعاملی ،محمد بن حسن ،وسائل الشیعہ (موسسہ آل البیت، قم ایران، طبع اول، ۱۴۰۹ہجری )،۲/۴۳۷
  16. حر عاملی، وسائل الشیعہ۱/۳۰۴
  17. سورۃ لقمان ۳۴:۳۱
  18. موسوی ،سید رضی محمد بن حسین ، نہج البلاغہ ، ( موسسہ نہج البلاغہ، قم ایران، طبع اول، ۱۴۱۴ہجری )، ص:۱۰۹، خطبہ:۹۸
  19. کلینی ،محمد بن یعقوب ،اصول کافی ، تحقیق: علی اکبر غفاری( دار الکتب الاسلامیہ، تہران ،ایران،۱۴۰۷ ہجری )، ۲/۳۳۵
  20. سورۃالقیامۃ۱۳:۷۵۔۱
  21. سورۃ العلق ۷:۹۶۔۶
  22. سورۃ العلق ۸:۹۶
  23. موسوی، نہج البلاغہ ،ص: ۱۹۲، خطبہ:۱۳۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...