Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Islamabad Islamicus

صدقات جمع کرنے پر ریاستی پابندی کا اختیار پنجاب چیرٹیز ایکٹ 2018ء کے تناظرمیں تحقیقی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060033219_902

Pages

70-83

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Article4.pdf

Subjects

Keywords=

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خلاصہ

۲۰۱۸ء کے اوائل میں پنجاب اسمبلی نے ایک ایسا قانون وضع کیا، جس کے ذریعے تمام فلاحی و خیراتی بنیاد پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کو کنٹرول کرنا پیش نظر تھا۔ پنجاب بھر میں اس قانون کے ذریعے فلاحی اداروں کو ایک پرپیچ سرکاری طریقہ کار کا پابند کر دیا گیا۔ اس طریقہ کار کی خلاف ورزی کو جرم قرار دینے کے ساتھ ساتھ سربراہان ادارہ کو سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔

 

اس قانون پر علمی حلقوں میں بحث کا آغاز ہوا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ زیرنظر مضمون میں اس قانون کی تفہیم، بنیادی دفعات اور ان کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نفلی صدقات و خیرات کے لیے اس قسم کا پرپیچ نظام بنانے اور اس کی خلاف ورزی کو جرم کے زمرہ میں شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

لہٰذا حکومت وقت کو اس قانون پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں مناسب اصلاح و ترمیم کرنی چاہیے۔

 

مؤرخہ 28؍ فروری 2018ء کو پنجاب اسمبلی نے چیرٹیز ایکٹ 2018ء منظور کیا جس پر 7؍ مارچ 2018ء کو گورنر نے دستخط کردیے، یوں یہ ایک قانون بن گیا۔ یہ قانون کل 43 دفعات پر مشتمل ہے۔ جس میں صدقات وخیرات جمع کرنے والے اداروں کے حوالے سے ایک قانونی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایک کمیشن قائم ہوگا جو خیراتی مقاصد کے لیے چندہ جمع کرنے کے نظام کو کنٹرول کرے گا۔ کمیشن اپنے پاس تمام خیراتی اداروں کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کا انتظام کرے گا اور اسی کی اجازت سے صدقات وخیرات اور چندہ جمع کیا جاسکے گا۔

 

چندہ وغیرہ جمع کرنے کے لیے کسی بھی ادارے کو پہلے رجسٹریشن کروانی ہوگی، اس کے بعد چندہ جمع کرنے کی اجازت حاصل کرنا ہوگی۔ اس قانونی طریقہ کار کے بغیر چندہ جمع کرنے کا کوئی بھی اقدام جرم تصور ہوگا اور اس پر سزا لاگو ہوگی۔ نیز یہی کمیشن ان اداروں کے آڈٹ کا بھی انتظام کرے گا۔

 

اس قانون کی وجہ سے پنجاب کے ان تمام اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے جو عوامی تعاون پر چلتے ہیں اور ان کی طرف سے اس قانون پر اعتراضات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

 

قانون کاتجزیہ:

اس قانون کی کل ۴۳ دفعات ہیں، پہلی دفعہ تعریفات اور دیگر اکثر دفعات انتظامی قسم کے اقدامات کو بیان کرتی ہیں، جیسے کمیشن کی تشکیل، کمیشن کے فرائض منصبی اور اختیارات، اداروں کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کا طریقہ کار، اداروں کے متولی کے فرائض و ذمہ داریاں وغیرہ۔

 

قانون کی دفعہ ۲۰، ۲۴، ۳۱ اور ۳۲: بنیادی دفعات ہیں، جن میں چندہ لینے کے لیے کمیشن کی اجازت و منظوری کی شرط لگائی گئی ہے یا پھر اجازت کی منسوخی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

 

دفعہ ۲۰ کی پانچ ذیلی دفعات میں چندہ لینے کے لیے کمیشن کی اجازت و منظوری کی شرط اور اجازت نامہ کی منسوخی کی تفصیلات ہیں جو حسب ذیل ہیں:

 

دفعہ ۲۰-فنڈز اكٹھا كرنے پر پابندی:

(۱) پروموٹرز كو فنڈز اكٹھا كرنے كی كسی صورت بھی اجازت نہ ہوگی، جب تك كہ چندہ لینے سے پہلے وہ تصدیق نامہ جس میں چندہ لینے کے مقاصد درج ہوں اور مجاز اتھارٹی سے باقاعدہ منظوری لی گئی ہو اور مجاز اتھارٹی کی طرف سے تحریری طور پر اجازت نامہ جاری نہ کردیا گیا ہو۔

 

(۲) مجاز اتھارٹی، دفعہ ہذا كے تحت اگر وہ یہ سمجھے كہ پروموٹر یا جو شخص چندہ لے رہا ہے اس كے حق میں بہتر ہے یا پھر اتھارٹی فنڈكے حوالے سے مطمئن نہیں یا چندہ جس مقصد كے لیے اكٹھا كیا جارہا ہے اس میں نظم نہیں توكسی بھی اجازت نامہ كو منسوخ كرسكتی ہے۔

 

(۳) مجاز اتھارٹی چندہ كی باقاعدہ تحویل كے حوالے سے كسی امر سے مشروط حكم جاری كرسكتی ہے اور انتظامیہ اور چندہ كے استعمال اور مقاصد كے حوالے سے كسی چیز كو مشروط بنا سكتی ہے۔

 

(۴) اگر مجاز اتھارٹی چندہ جمع كرنے كی اجازت دیتی ہے تو اسے خصوصی مدت کے لیے ایک سرٹیفیکیٹ کمیشن کی ہدایت پر جیسا کہ ریگولیشنز، ہدایت نامے میں درج ہے۔ جس میں مخصوص کلیکٹرز اور چندہ اکٹھا کرنے کی باقاعدہ اجازت موجود ہو، جاری کرنا ہوگا۔

 

(۵) ڈپٹی كمشنر كو ضلع كی سطح پر اسسٹنٹ كمیشن كی طرف سے دی گئی منظوری كی منسوخی یا ترمیم كا اختیار حاصل ہوگا۔

 

دفعہ ۲۴ میں انتظامی اقدامات کے عنوان کے تحت فرائض میں کوتاہی پر کارروائی (رجسٹریشن کی منسوخی اور جرمانہ عائد کرنا) کا ذکر ہے، متن حسب ذیل ہے:

 

۲۴۔انتظامی اقدامات :

(۱)نگرانی اور آڈٹ كرانے كے بعد اگر كمیشن كو اس حوالے سے اطمینان ہو كہ خیراتی ادارہ بل ہذا كے تحت مذكورہ فرائض كو پورا كرنے سے قاصررہا ہے تو كمیشن درج ذیل كارروائی عمل میں لا سكتا ہے:

 

(اے) ایكٹ ہذا كے تحت اس خیراتی ادارے كی رجسٹریشن منسوخ یا معطل كر سكتا ہے۔

 

(بی) خیراتی ادارے یا تنظیم پر دس لاكھ روپےتك جرمانہ عائد كر سكتا ہے۔

 

(۲)۔ضمنی دفعہ(۱) كے تحت كمیشن كسی خیراتی ادارے كے خلاف اس وقت تك كوئی كارروائی نہیں كر سكتا جب تك كہ اس ادارے كو مذكورہ عمل كے خلاف اپنا دفاع كرنے اور اس عمل كو سر انجام دینے كی وجہ بتانے كے لیے مناسب وقت نہ دیا گیا ہو۔

 

دفعہ ۳۱ فنڈز کے غلط استعمال کے عنوان سے ہے جس کا متن حسب ذیل ہے:

 

۳۱۔فنڈز كا غلط استعمال:

(۱)خیراتی ادارہ ،صدقات یا خیراتی فنڈز وصول كرنے كے بعد كمشنر كی پیشگی اجازت كے بغیر فنڈز كو كسی دوسرے مقاصد كے لیے استعمال نہیں كرے گا۔

 

(۲)جس شخص كے پاس خیراتی فنڈ جمع كرنے كا اختیار ہو وہ كمشنر یا مجاز اتھارٹی كی پیشگی تحریری اجازت كے بغیر فنڈ كوكسی دوسرے شخص كی تحویل میں نہیں دے سكتا۔

 

(۳) خیراتی فنڈ كے لیے جمع شدہ رقم كاكوئی حصہ اگر اس مقصد كے علاوہ جس كے لیے اسے جمع كیا گیا تھا كسی دوسرے مقصد كے لئے استعمال كر تا ہے یا دوسری صورت میں كسی طرح كی خیانت یا غبن سے كام لیتا ہے تو فنڈ جمع كرنے والے یا انتظامی امور سے وابستہ افراد جو صدقات جمع کرتے ہیں یا خیراتی فنڈ وصول كرنے والے کو خیراتی فنڈ كے غلط استعمال، اس میں خیانت یا غبن كا ذمہ دار سمجھا جائے گا جب تك كہ وہ یہ ثابت نہ كرے كہ فنڈ كا غلط استعمال یا اس میں خیانت و غبن ہونے كا اسے علم نہیں تھا اور یہ كہ اس نے اپنی طرف سے فنڈ كے غلط استعمال یا اس میں خیانت اور غبن كے ایکٹ ہذا کے تحت روكنے كی پوری كوشش كی تھی۔

 

دفعہ ۳۲ میں سزا کا ذکر ہے جس کی عبارت حسب ذیل ہے:

 

۳۲۔ سزا:

(۱) كوئی بھی شخص جو بد دیانتی یا دھوكہ دہی میں ملوث پایا گیا یا پھر خیراتی فنڈ كو جمع كرنے سے متعلق ریكارڈ میں تبدیلی كرے ، ریكارڈچھپائے یا ضائع كرے تو یہ سمجھا جائے گا كہ اس نے قانون كی مخالفت كی۔

 

(۲) كوئی شخص جو ایكٹ ہذاكے كسی دفعہ یا اصول یا ایكٹ ہذا كے تحت دیے گئے كسی حكم یا ہدایات یا عائد شدہ شرط كی خلاف ورزی كرے گا وہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور كم از كم ۱۵ دن قید كا مستوجب ہو گا اور اس كے ساتھ كم از كم پچیس ہزار روپےاور زیادہ سے زیادہ ایك لاكھ روپے كا جرمانہ ادا كرناہو گا۔

 

فقہی تکییف:

اس قانون کی رو سے صورت مسئلہ یہ بنتی ہے کہ حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی مقصد کے لیے چندہ اکٹھا کرنا، جس میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ، صدقہ فطر، قربانی کی کھالیں وغیرہ) صدقات نافلہ، ھدا یا اور ہبہ وغیرہ جمع کرنا شامل ہیں، جرم ہے، اور اس جرم پر حکومت کو قید اور مالی جرمانہ کی سزا کا اختیار ہے۔ نیز حکومتی اجازت نامہ کے حصول کے لیے ایسی شرائط رکھی گئی ہیں، جن کی وجہ سے اجازت نامہ کا حصول مشکل نظر آتا ہے جبکہ کمیشن کے لیے اجازت نامہ کی منسوخی کا وسیع اختیار ہے اور کھلا میدان ہے۔

 

مزید برآں! اس قانون میں حکومت کو خیراتی اداروں کے آڈٹ کرانے اور حسابات میں شفافیت برقرار رکھنے کا بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔

 

ان سب امور کا شرعی و قانونی حکم معلوم کرنا ضروری ہے۔

 

یہ حکم معلوم کرنے کے لیے حسب ذیل تین سوالات کو سامنے رکھا جائے تو قانون کے بارے رائے قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے:

 

(1) کیا موجود رجسٹرڈ اداروں پر خیرات وصدقات جمع کرنے کے لیے حکومت سے پیشگی اجازت کی پابندی لگانا جائز ہے؟

 

(2) کیا پیشگی اجازت کے بغیر صدقات وغیرہ جمع کرنے والے پر سزا نافذ کی جاسکتی ہے؟

 

(3) کیا حکومت اداروں کے پاس جمع شدہ صدقات وخیرات کے خرچ وغیرہ کا آڈٹ کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے؟

 

پہلے سوال پر بحث:

جہاں تک پہلے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو اس حوالےسے قرآن وسنت کی ان نصوص کو پیش نظر رکھنا ہوگا، جن میں انفاق فی سبیل اللہ کے احکام اور صورتیں مذکور ہیں، جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 177 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ﴾([1])

 

"اور دے مال اس کی محبت پر رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو۔"

 

اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے، چاہے وہ واجب صدقات وخیرات ہوں یا نفلی صدقات وخیرات ہوں جیسا کہ امام جصاص اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔

 

"وليس في الآية دلالة على أنها الواجبة وإنما فيه حث على الصدقة ووعد بالثواب عليها۔ وهذا لفظ ينطوي على الفرض والنفل إلا أن في سياق الآية ونسق التلاوة ما يدل على أنه لم يرد به الزكاة۔" ([2])

 

"اس آیت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس انفاق سے واجب صدقہ مراد ہو، اس میں تو صرف صدقہ کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ ہے اور یہ ایسا لفظ ہے جو فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے البتہ آیت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے اس سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے (کیونکہ اس کا تذکرہ بعد میں موجود ہے۔"

 

اس آیت کریمہ میں ایک عمومی ہدایت کے انداز میں افراد امت کو ازخود خرچ کرنے کی ہدایت مذکور ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مساکین، مسافروں اور سائلین کو صدقات وخیرات دیا کریں لہٰذا جس کسی خیراتی ادارہ میں ان انواع میں سے لوگ موجود ہوں تو ان کو بغیر کسی شرط کے اپنی خیرات دینے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، جب خيرات دینے والے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں تو اگر کوئی استحقاق رکھنے والا ان سے وصول کرے تو اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

 

اسی طرح ایک اور آیت کریمہ ہے

 

﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾([3])

 

"اگر ظاہر کرکے دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے، اور اگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو وہ بہتر ہے تمہارے حق میں۔"

 

اس آیت کریمہ میں ظاہری اور پوشیدہ دونوں طرح کے صدقات و خیرات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے لیکن ایسے صدقات وخیرات کی زیادہ فضیلت کی طرف اشارہ ہے جو پوشیدہ طور پر کیے گئے ہوں۔ جیسا کہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

 

"وفيه دلالة على أن إسرار الصدقة أفضل من إظهارها لأنه أبعد عن الرياء"([4])

 

"اس آیت میں دلالت ہے کہ بلا شبہ خفیہ صدقہ کرنا اسے ظاہر کرکے کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ یہ ریا کاری سے دور ہے۔"

 

اس سے اشارۃًمعلوم ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات کا ایسا طریقہ کار جو نہ صرف پوشیدہ ہو بلکہ کسی سرکاری میکنزم سے ہٹ کر ہو وہی زیادہ باعث اجر و فضیلت ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی متعدد آیات، جن میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب اور فضیلت مذکور ہے ان میں کلام الٰہی کا انداز اسی طرف دال ہے کہ یہ کسی محکمانہ جکڑبندیوں کے بغیر ہی زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ البتہ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت مبارکہ

 

﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا﴾([5])

 

"لیجیے آپ ان کے مال میں سے زکوٰۃ کہ پاک کریں آپ ان کو اور بابرکت کریں ان کو اس کی وجہ سے۔"

 

سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اولی الامر اور حکومت کو انفاق فی سبیل اللہ کے اموال وصول کرنے یا ان کا انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن یہ استدلال تام نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں فقہاء کرام تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ولی الامر صرف زکوٰۃ وعشر کے اموال خود وصول کرنے کا انتظام کرسکتا ہے، عام نفلی صدقات و خیرات کے بارے میں سربراہ ریاست کے کسی اختیار کا اس آیت میں تذکرہ نہیں ہے۔ مزید اس سلسلے میں بھی یہ تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ کن اموال کی زکوٰۃ وصول کرنے کا حکومت انتظام کرسکتی ہے اور کن اموال کی زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتی۔

 

چنانچہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ادوار میں اس حوالے سے کوئی واضح تقسیم نہیں کی گئی تھی لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس حوالے سے اموال ظاہرہ اور اموال باطنہ کی تقسیم کردی گئی اور صرف اموال ظاہرہ سے زکوٰۃ وصول کرنے کا انتظام جاری رکھنے کا حکم دیا گیا اور لوگوں کو تفتیش کے ضرر سے بچانے کے لیے اموال باطنہ پر سے حکومت کے اختیار کو ختم کردیا گیا۔ اسی تفصیل کی طرف علامہ کاسانی علیہ الرحمۃ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

 

"فقد قال عامة مشايخنا إن رسول الله طالب بزكاته وأبوبكر وعمر طالبا وعثمان طالب زمانا ولما كثرت أموال الناس ورأى أن في تتبعها حرجا على الأمة وفي تفتيشها ضررا بأرباب الأموال فوض الأداء إلى أربابها۔ وذكر إمام الهدى الشيخ أبو منصور الماتريدي السمرقندي رحمه الله وقال لم يبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث في مطالبة المسلمين بزكاة الورق وأموال التجارة ولكن الناس يعطون ذلك" ([6])

 

"ہمارے اکثر مشائخ نے کہا ہے کہ بیشک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے زکوٰۃ وصول کرنے کا مطالبہ کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ایک عرصہ تک زکوٰۃ کی وصولی کا مطالبہ کیا لیکن جب لوگوں کے مال کی کثرت ہوگئی اور ان کی رائے میں اس طرح پیچھے پڑنے میں امت پر حرج تھا اور اصحاب مال افراد کی تفتیش میں ان کے لیے ضرر ہے تو زکوٰۃ ادا کرنا انہی کے سپرد کردیا۔ شیخ ابو منصور ماتریدی علیہ الرحمہ نے کہا ہے کہ ہم تک ایسی کوئی روایت نہیں پہنچی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے سونا، چاندی اور مال تجارت کی زکوٰۃ کا مطالبہ کرنے کے لیے کسی کو بھیجا ہو، پس لوگ خود ہی ادا کرتے تھے۔"

 

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ خیر القرون میں بھی جو اس حوالے سے انتظامات کیے گئے تھے وہ صرف زکوٰۃ وعشر سے متعلق تھے اور اس میں بھی یہ تقسیم رکھی گئی تھی کہ اموال باطنہ کی زکوٰۃ لوگ از خود اداکرسکتے ہیں، حکومت اس حوالے سے کوئی انتظام نہیں کرسکتی اور نفلی صدقات وخیرات کے حوالے سے اس قسم کے کسی ا نتظام کی کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ نصوص شرعیہ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک آزادانہ نظام کے تحت ہو نہ کہ حکومتی قواعد وضوابط کی پیچیدگیوں کے تحت۔

 

لہٰذا حکومت کی طرف سے خیرات وصدقات وصول کرنے والے اداروں پر پیشگی اجازت لینے کی شرط عائد کرنا درست معلوم نہیں ہوتا، اور تقاضائے نصوص کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔

 

دوسرے سوال پر بحث:

اسی سے دوسرے سوال کا جواب بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جب حکومت کی طرف سے پیشگی اجازت لینے کی شرط عائد کرنا شرعاً درست نہیں ہے تو اگر کسی ادارے نے حکومت کی اجازت کے بغیر صدقات وخیرات وصول کرلیے تو اس پر سزا کا نفاذ بھی درست عمل نہیں ہے بلکہ ظلم و جبر کی ایک صورت ہے کیونکہ سزا کا دارومدار اجازت پر ہے، جب اجازت لینے کی شرعاً کوئی پابندی نہیں ہے تو اس پر سزا جاری کرنے کی بھی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

 

تیسرے سوال پر بحث:

جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ صدقات وخیرات وصول کرنے والے اداروں کا آڈٹ کیا جائے تو یہ حکومتی اختیار میں آتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ایک نقطہ نظر تو یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ لوگوں کے اموال ان اداروں کے پاس امانت ہوتے ہیں لہٰذا ان کو درست جگہ پر خرچ کرنے کا پابند بنانا اور اس میں خیانت کو روکنا حکومت کا اختیار ہے۔ لہٰذا ان اداروں کے آڈٹ کا ا نتظام کیا جاسکتا ہے لیکن دوسرا نقطۂ نظر جو درحقیقت آئین و قانون پر مبنی ہے یہ ہے کہ حکومت کو یہ بھی اختیار حاصل نہیں ہے، چنانچہ یہ معاملہ جب اسلامی نظریاتی کونسل میں زیربحث آیا تو اس مخصوص نقطہ کے بارے میں ماہر قانون جناب جسٹس (ر) محمد رضا خان نے اس انداز سے قانونی رائے دی:

 

"آئینی طورپر حکومت کو آڈٹ کروانے کا اختیار صرف ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں اس نے خود فنڈ دیا ہو لیکن جہاں حکومت نے فنڈ نہ دیا ہو تو وہاں اسے آڈٹ کروانے کا کوئی اختیار نہیں"([7]

 

البتہ یہ اختیار ضرور ہے کہ حکومت ان اداروں کو پابند کرے کہ کسی مستند ادارے سے خود آڈٹ کرانے کا انتظام کرے اور اس کی رپورٹ جمع کرائے اور اس قانون سے قبل ایسا ہی معمول جاری ہے۔

 

عمومی اور وسیع تناظر

وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس قانون کے کئی پہلو ہیں، جن میں بعض کے جائز ہونے میں کلام نہیں مگر بعض پہلو محل نظر لگتے ہیں۔

 

مثلاً: اگر اس حوالے سے دیکھا جائے کہ اداروں کو نظم میں لانے اور قانونی حیثیت دے کر تحفظ فراہم کرنا حکومت وقت کو اختیار ہے تو اس کے جواز میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح حسابات میں شفافیت قائم کرنے اور صدقات و خیرات کے ذریعے حاصل شدہ فنڈز میں بے ضابطگیوں، بدعنوانی اور خیانت کے راستوں کو مسدود کرنے کے لیے جانچ پڑتال کی پابندی عائد کرنے کا جواز بھی ظاہر ہے۔

 

جبکہ محل نظر پہلوؤں کی تفصیل یہ ہے کہ چندہ جمع کرنے کا مجموعی عمل یا نظام فی الجملہ عبادت ہے۔ اس لیے کہ یہ نظام صدقات واجبہ و صدقات نافلہ دونوں پر مشتمل ہے اور چندہ دینے والوں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ شرعی احکام کے تابع صدقات کی ادائیگی کریں، جس طرح افراد کوبراہ راست صدقات کی ادائیگی شرعی و قانونی طریقہ ہے تو صدقات کی ادائیگی کے لیے دوطرفہ توکیل بھی شرعی و قانونی طریقہ ہے، یعنی شریعت نے اس کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص صدقہ دینے والے کی طرف سے اور صدقہ لینے والے کی طرف سے وکیل بنایا جائے تو یہ امور کئی قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور اجماع امت سے ثابت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ہمہ جہت پہلو مالی عبادت کی ادائیگی کو کڑی حکومتی شرائط کے تابع کرنا کیا درست ہے؟ جیسا کہ اس قانون میں کیا گیا ہے۔

 

مزید برآں! عبادت کی انجام دہی کو فی الجملہ جرم قرار دینا اور اس جرم پر سزا دینا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟

 

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صدقات و خیرات جیسی مالی عبادات کی ادائیگی کا جہاں نصوص شرعیہ میں پرزور حکم دیا گیا ہے، وہاں ترغیب کے لیے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں، یہ فضائل و اجر و ثواب جس طرح صدقہ دینے والوں کے لیے ہیں، اسی طرح صدقات کے نظام کا کسی بھی مرتبے میں حصہ بننے والوں کے لیے بھی ہیں، تو ان فضائل اور اجر و ثواب کے حصول کے لیے منفی اثرات کے حامل حکومتی اجازت ناموں کی شرط لگانا اور شرط پوری کیے بغیر اجر و ثواب کے حصول کی کوششوں کو قابل تعزیر جرم قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟

 

اطلاقی لحاظ سے منفی پہلو

اس قانون کا ایک منفی پہلو اطلاقی لحاظ سے ہے، اس لیے کہ ہمارے ملک میں عمومی طورپر فلاحی ادارے اور دینی مدارس لوگوں کے صدقات و خیرات سے چلتے ہیں، جہاں دینی علوم کی اشاعت ہوتی ہے، اس قانون کی براہ راست زد انہی مدارس پر پڑی ہے جیسا کہ گزشتہ سالوں میں چرمہائے قربانی کے جمع کرنے کے مواقع پر نظر آیا، اس قانون کے نتیجے میں دینی علوم کی اشاعت، جو امت کا اجتماعی فریضہ ہے، متاثر ہوگا، اور اس میں رکاوٹیں پیش آئیں گی، جبکہ علماء و مفسرین نے ارشاد باری تعالیٰ

 

﴿لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ﴾[8]

 

"خیرات ان فقیروں کے لیے ہے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں، چل پھر نہیں سکتے ملک میں، سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے، تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرے سے، نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر، اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز، وہ بے شک اللہ کو معلوم ہے۔"

 

کے تحت لکھا ہے کہ دینی علوم کے حصول و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے طلباء اور علماء کو صدقات واجبہ دینا اس آیت کا مصداق ہے۔ چنانچہ مفتی محمد شفیع عثمانی لکھتے ہیں:

 

"یہاں فقرا سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو دینی مشغولیت کی وجہ سے دوسرا کوئی کام نہیں کر سکتے"([9]

 

نیز ان پر انفاق کرنے میں دگنا اجر ہے، ایک انفاق مال کا دوسرا اشاعت علم دین میں مددگار بننے کا۔

 

مالی جرمانہ عائد کرنا

مزید برآں! اس قانون میں بعض ایسی جزئیات ہیں جو شرعاً درست نہیں، مثلاً متولیوں یا ادارے پر مالی جرمانہ عائد کرنا اور وہ بھی دس لاکھ تک، جیسے دفعہ ۲۴ (۱) (بی) میں ہے۔ ایک تو مالی جرمانہ بذات خود محل نظر ہے، پھر ادارے پر مالی جرمانہ عائد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ادارہ چندے کی رقم میں سے یہ جرمانہ ادا کرے گا جبکہ وہ رقم زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ سے حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی رقوم کو حکومتی جرمانوں میں جبراً وصول کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟!

 

سرکاری اہل کاروں کا تحفظ

اس قانون کی دفعہ ۴۰ تحفظ (indemnity) سے متعلق ہے جس میں سرکاری اہل کاروں پر سے سزا معافی کا ذکر ہے اور ان کی طرف سے اس قانون پر عملدرآمد کرانے کے دوران کسی قسم کا عمل نہ جرم قرار پائے گا نہ ہی اس پر کوئی سزا ہوگی۔ اس دفع کی عبارت حسب ذیل ہے:

 

==۴۰۔تحفظ۔== ایكٹ ہذا كے تحت كسی بھی قسم كی قانونی چارہ جوئی، مقدمہ یا دیگر قانونی كارروائی كسی بھی فرد كے خلاف خیر خواہی كے طور پر كئے گئے اقدام یا كئے جانے والے اقدام پر نہیں كی جا سكتی یا نہیں كی جا سكے گی۔

 

یہ دفعہ بھی غیر شرعی ہے جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی ایک سفارش میں اس حوالے سے حسب ذیل فیصلہ کیا تھا:

 

"مختلف قوانین پر غوروخوض کرتے ہوئے کونسل کے علم میں یہ بات آئی کہ بہت سی دفعات نیک نیتی یا حسن ظن کے تصور پر مبنی ہیں۔ حقیقت میں یہ انگریزی قانون کا خاصہ ہے کہ وہ نیک نیتی سے کیے گئے کسی فعل کے بارے میں ملزم کو ہر قسم کی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ اگر نیک نیتی سے کیے گئے کسی فعل کے نتیجے میں کوئی آدمی مارا جائے یا کسی جائیداد کو کوئی نقصان پہنچ جائے یا کوئی شخص دوسری مضرت کا شکار ہو جائے تو متضرر شخص کو مروجہ قوانین کے تحت ہرجانہ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہر معاملے میں ایسا استثناء یا برأت اسلامی احکام کے منافی ہے"([10]

 

خلاصۂ کلام

  • صدقات وخیرات کرنے کی قرآن وسنت میں ایسی عمومی ہدایات ہیں کہ ان پر کسی مخصوص طریقہ کار کی پابندی نہیں ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ کی ترغیب وارد ہے۔
  • جو ادارے صدقات وخیرات جمع کرتے ہیں ان پر پیشگی حکومت سے اجازت لینے کی پابندی عائد کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
  • جو ادارے حکومتی اجازت کے بغیر صدقات وخیرات جمع کریں ان پر سزا کا نفاذ درست نہیں ہے۔
  • صدقات وخیرات جمع کرنے والے اداروں کا آڈٹ کرنا حکومت کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار صرف ان اموال میں ہے جو حکومت نے دیے ہیں۔
  • یہ قانون اپنی روح، مقاصد اور اطلاقی پہلو کے حوالے سے درست نہیں۔

حوالہ جات

  1. سورۃ البقرۃ ۱۷۷:۲
  2. الجصاص ،أحمد بن علی، أبوبکر ، احکام القرآن (داراحیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۵ھ)، ۱/ ۱۶۲
  3. سورۃالبقرۃ۲۷۱:۲
  4. دمشقی،أبو الفدا إسماعیل بن عمر بن کثیر،تفسیر القرآن العظیم(دارطیبۃ للنشر والتوزیع، ۱۴۲۰ھ)، ۱/ ۷۰۱
  5. سورۃالتوبہ۱۰۳:۹
  6. الکاسانی ، أبوبکر بن مسعود بن أحمد،بدائع الصنائع( دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۰۶ھ)، ۲/ ۳۶
  7. اسلامی نظریاتی کونسل، اجلاس نمبر: ۲۱۴، روداد ،ص: ۲۷
  8. سورۃالبقرۃ۲۷۳:۲
  9. عثمانی ،مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن(ادارۃ المعارف، کراچی، ۱۹۹۱ء)، ص: ۶۴۲
  10. اسلامی نظریاتی کونسل، فائنل رپورٹ، رہنما اصول نمبر: ۸، ص: ۱۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...