Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Islamabad Islamicus

صوفیہ خام اور علمائے سوء کا علمی محاسبہ کشف المحجوب کی روشنی میں |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060033219_903

Pages

62-80

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article3.pdf

Subjects

Kashf al-Maḥjūb Alī bin ‘Uthmān al Hujvairī Ṣūfiyā-iKhām ‘Ulamā-i Sū’ Critical Appraisal Rectification

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

تعلیم و تعلم کا بنیادی بنی مقصد نوع انسان کو اعلیٰ اخلاقی قدروں سے مزین و آراستہ کرنا ہے ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں علم و علماء کی فضیلت و شرف بیان کیا وہیں علم سے منفی مقاصد کے حصول کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا اور اسے آخرت میں باعث عقاب و ندامت ٹھہرایا ۔جہاں دین متین کی خدمت کے لئے علمائے حق کی ایک بڑی تعداد میدان عمل میں محو سفر رہی وہیں درباری ملاؤں کی بھی ایک کھیپ ہمیشہ ساتھ ساتھ رہی جن کا مطمع نظر ہمیشہ نان جویں رہا جنہوں نے شریعت کے قوانین کی من مانی تعبیریں پیش کیں اور حکام وقت سے داد و دام وصول کیے ۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اخلاقی تربیت میں علماء کے ساتھ ساتھ صوفیہ کا کردار بھی بے مثل رہا لیکن ہر دور میں اس مقدس جماعت میں بھی ہوائے نفس کی اتباع کرنے والوں کی کمی نہ رہی اور تصوف کا لبادہ اوڑھے کئی کالی بھیڑوں نے اس مقدس فریضے کو تلبیس سے داغدار کیا ۔ بالخصوص آج ہمارے زمانے میں جعلی پیروں اور ملنگوں نے تصوف کے پاکیزہ رستے کو جس قدر مکدر کیا ہے شاید اتنا پہلے کبھی نہ ہوا ہو ۔ لہذا ضروت اس امر کی تھی کہ تصوف کی حقیقی تصویر عوام کے سامنے رکھی جائے ۔

 

اس مقالہ میں قرآن سنت کی روشنی میں تمہیدی انداز میں علمائے سوء اور صوفیہ خام اور ان کے منفی کردار کو واضح کیا گیا ہے بعد ازاں اصل موضوع کے تحت سیدی علی بن عثمان ہجویری علیہ الرحمہ کی کتاب کشف المحجوب سے علمائے سوء اور صوفیہ خام کے مزاج و عادات کو زیر بحث لایا گیا جس سے نہ صرف ان طبقات کی نشاندہی ہو ئی بلکہ معاشرے پر ان کے منفی و مضر اثرات کو سمجھنے کا موقع ملا اور ان سے بچاؤ کی عملی تدابیر بھی زیر بحث لائی گئیں ۔ حسب ضروت مقالہ میں آیات قرآنیہ کے ساتھ احادیث نبویہ سے استفادہ کیا گیا ہے اور بالخصوص امام صوفیہ حضرت علی بن عثمان ہجویری علیہ الرحمہ کی کتاب کشف المحجوب سے آراء کو زیر بحث لایا گیا ہے اور تکمیل بحث کے طور پر حاصل ہونے والے اہم نتائج اور تجاویز و سفارشات پیش کی گئی ہیں ۔

 

سیدی علی بن عثمان ہجویری علیہ الرحمہ پانچویں صدی ہجری کے اُن جلیل القدر صوفیہ میں سے ہیں جو علم و عمل کی دولت سے مالا مال تھے اور ہمیشہ اصلاح احوال میں مگن رہے ۔ آپ کا نام علی اور کنیت ابو الحسن ، لقب الھُجْوِیری الجلابی ، آپ افغانستان کے شہر غزنی میں پیدا ہوئے ۔حسنی و حسینی نسبت سے سید ہیں۔ فقہ میں امام ابو حنیفہ ؒکے مقلّد تھے داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ کا وصال 465 ھ میں ہوا [1]اور آپ کا مزار لاہور، پاکستان میں ہے۔آپ نے کشف المحجوب کے نام سے تصوف کی حقیقی تعلیمات پر مبنی جو کتاب تالیف کی وہ تصوف کی اُمہات کتب میں سے ہے اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی تصانیف ہیں ۔

 

علمائے سوء کی مذمت :

بلا شبہ علم حقیقی و نافع کا بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ اس کے حامل علماء کے گروہ کو خشیت اور طاعت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں کئی مقامات پر تعریفی کلمات سے نوازا ۔ زبان نبوت سے بھی اس گروہ کو انبیائے کرام کے وارث ہونے کا شرف سے آگاہ کیا گیا ۔ لیکن اگر یہ گروہ اپنی روش چھوڑ دے اور راہ حق کو ترک کر تے ہوئے دعوت حق میں زہر گھولنا شروع کر دے ، اپنی زبان کو نفرت و شر انگیزی کے لئے استعمال اس کا شعار بن جائے ، تکبر و نخوت ان کی رگ رگ میں بس چکی ہو ، آیات الہیہ کی باطل تاویل ان کے لئے ایک معمولی کام ہو ، جنہیں دیکھ کر آنکھوں کو تکلیف اور دل کو بے چینی ملتی ہو ایسے گروہ کی اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں واضح مذمت بیان فرمائی ۔ اور اُن کی قبیح صفات کی بنیاد پر ایک مقام پر گدھے سے تشبیہ دی اور دوسری جگہ کتے سے ۔

 

کیونکہ یہی وہ گروہ مذموم ہے جو محبت دنیا میں راہ حق سے روگردانی کرتا ہے علم چھپاتا یا اس کی من مانی تاویلیں کرتا ہے ۔ حکومت اور ارباب حکومت سے ، ان کے محلات سے عشق کی حد تک پیار کرتا ہے۔ اُن کے لباس ، اُن کے مسکن اور اُن کے ذرائع آمدن سے اُن کی حب دنیا کی بُو کو میلوں سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ مفسرین و محدثین نے نصوص کے تحت اس گروہ کی کارستانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔ یہ مقام ان تفصیلات کا نہیں ہم یہاں صرف مذکورہ بالا دو قرآنی مقامات سے نصوص ذکر کریں گے اور فرامین نبویہ سے ان کی تائید کے بعد اصل موضوع پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ قرآن حکیم کا پہلا مقام جہاں علمائے سوء کی مذمت کی گئی

 

﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ۔ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾[2]

 

"اور اے محمدﷺ! اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں۔

 

امام قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس شخص سے مراد بلعم باعور ہے جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تھا ۔ [3]

 

اور دوسرے مقام پر فرمایا :

 

﴿مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾[4]

 

"جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ "

 

امام طبری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں اس سے مراد وہ یہود و نصاریٰ ہیں جنہیں کتاب تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل نہ کیا۔ ان کی مثال گدھے سے اس لئے دی کہ اگر اُس پر کتابیں لاد دی جائیں تو اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر کیا لادا ہوا ہے۔[5] نیز فرمایا:

 

وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ العِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ القُرْآنَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ قَالَ : تَعَلَّمْتُ العِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ : وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ . قَالَ : كَذَبْتَ ، وَلَكِنَّكَ، تَعَلَّمْتَ العِلْمَ لِيُقَالَ عَالِمٌ. وَقَرَأْتَ القُرْآنَ لِيُقَالَ : هُوَ قَارِئٌ . فَقَدْ قِيلَ ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلقِيَ فِى النَّارِ۔ [6]

 

"وہ شخص جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پاک پڑھا ، اسے بروز قیامت میدان میں لایا جایا گا اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا جب وہ اعتراف کر لے گا تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا تُو نے اس میں یا عمل کیا؟ تو وہ کہے گا : میں نے علم سیکھا اور لوگوں کو سکھایا ۔ اور تیری خاطر قرآن پڑھتا رہا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تُو جھوٹ بول رہا ہے ۔ تُو نےعلم اس لئے سیکھا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور تُو نے قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے ۔ پھر حکم ہو گا تو اسے اوندھے منہ گھسیٹو یہاں تک کہ اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ "

 

حصول علم کے بعد اُس کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے کو مالک کائنات سے دوری کا سبب ٹھہرایا لہذا نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

مَن اِزدَادَ عِلماً ، وَلمَ يَزدَد هُدىً لمَ يُزدَد مِنَ اللَّهَ إلاّ بُعداً.[7]

 

"جس کو علم کا وفور حاصل ہو لیکن عمل وافر و ہدایت نصیب نہ ہوئی تو اُسے اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ نصیب نہیں ہوتا۔"

 

اور علم کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی سخت ترین سزا بیان فرمائی ارشاد نبوی ہے:

 

مَن تَعَلَّمَ عِلمًا مَمَّا يَبتَغِى بِه وَجهَ اللهِ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لَيُصِيبَ بِه عِرضًا مِنَ الدُنيَا لمَ يَجِد عُرفَ الجَنَّةِ يَومَ القَيَامَةِ ۔[8]

 

"جس کسی نے رضائے الہی کا باعث بننے والا علم اس نیت سے سیکھا کہ اس کے ذریعے دنیا کی جاہ و عزت پائے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ پائے گا۔"

 

حضرت سیدی علی بن عثمان ؒ فرماتے ہیں کہ حرص بادشاہ کو ظلم پر آمادہ کر دیتا ہے اور طمع ایک عالم کو بدکاری و زنا میں ڈال دیتا ہے ۔[9] یعنی حرص دنیا اِس قدر تباہ کن ہے کہ زنا جیسے قبیح فعل تک کو آسان بنا دیتا ہے ۔ اور ظلم و تعدی ایسے انسان کا شیوہ بن جاتا ہے۔

 

حقیقت تصوف:

حقیقی تصوف دراصل احکام الہی کے سامنے اپنے آپ کو اطاعت کے لئے پیش کر دینے اور سنت حبیب کو قدم قدم جانچ جانچ کر اتباع کے لئے متعین کرنے کا نام ہے ۔ علمائے تصوّف نے تصوّف کی مختلف تعریفات کی ہیں لیکن ہم یہاں فقط کشف المحجوب سے تعریف و توضیح نقل کر رہے ہیں تاکہ مقالہ کا حجم بھی اس کا متحمل رہے۔

 

چنانچہ ابو علی قزوینی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے :

 

اَلتَصَوُّفُ هُوَ الأَخلَاقُ الرَضِيَّةُ ۔[10]

 

"تصوف اخلاق پسندیدہ کا نام ہے پسندیدہ کار انسان وہ ہے جو ہر حال میں حق تعالیٰ کی پسند پر گامزن ہو اسی کو راضی برضا کہتے ہیں ۔ ط

 

حقیقت تصوف سے متعلق حضرت مرتعش علیہ الرحمہ کا قول ہے:

 

هٰذَا مَذهَبُ كُلُّهُ جَدٌّ فَلَا تُخلِطُوهُ بِشَيئٍ مِنَ الهَزلِ۔[11]

 

"یہ کوشش اور سوچ بچار کا راستہ ہے اس میں ہزل اور مسخرے پن کو شامل نہ کرو ۔"

 

ظاہر پرستوں کی خرافات کی وجہ سے جس طرح لوگ اہل حق سے بدظن ہوتے اور انہیں مورد الزام ٹھہراتے اس سے پرہیز لازم ہے تاکہ انسان اُن کے انجام میں شامل نہ ہو ۔

 

اگر اس زمانے میں کچھ لوگ خرقہ پہنتے ہیں اور اپنی عادت میں پاکیزہ نظر آتے ہیں مگر اُن کا مقصد صرف جاہ طلبی اور شہرت پسندی ہے ۔ اُ ن کا باطن مختلف ہے تو ممکن ہے انبوہ کثیر میں مرد حق بھی ہو ۔ہر جماعت میں صحیح مقتدی کم ہی ہوا کرتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں تو ہر وہ شخص صوفی ہو جاتا ہے جس میں کوئی ایک علامت بھی صوفی ہونے کی موجود ہو۔ [12]

 

آپ کی تعلیمات کامحور یہ ہے کہ آج کل ایسے خود ساختہ صوفیوں کی کثرت ہے جو کچھ یہ کرتے ہیں اس سے پرہیز لازم ہے ۔ صوفیہ اور اہل حق کا لباس پہن کر اُس کے لوازمات کو پورا کرنا ایک صوفی کی اولیں ذمہ داری ہے جو شخص اُن صفات کو بجا نہ لا سکے جو ایک اللہ والے کی ہیں تو اسے بظاہر یہ حلیہ بھی نہیں اپنانا چاہیے تاکہ عوام الناس کسی تلبیس کا شکار نہ ہوں ۔

 

ابو یزید بسطامی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا :"ولی اسے کہتے ہیں جو باری تعالیٰ کے امر و نہی پر قائم رہے "[13] ملحدوں کا ایک گروہ صوفیائے کرام میں شامل ہو گیا اس گروہ کے لوگ کہتے ہیں کہ اتنی خدمت کرو کہ ولایت حاصل ہو جائے جب ولایت حاصل ہو گئی خدمت کی ضرورت نہیں یہ صریح گمراہی ہے راہ حق میں کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خدمت (اطاعت ) ساقط ہو جائے ۔ [14]

 

"حقیقت کے خلاف دعویٰ کرنا کذب ہے اور کاذب ولی نہیں ہو سکتا یاد رہے کرامت بجز مومن مطیع کے کسی سے معرض ظہور میں نہیں آتی جھوٹ اطاعت نہیں بلکہ گناہ ہے " [15]

 

ابو بکر الوراق علیہ الرحمہ ا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

 

اَلنَّاسُ ثَلَاثَةٌ: اَلعُلَمَاءُ وَ الفُقَرَاءُ ، وَ الأُمَرَاءُ ، فَإِذَا فَسَدَ العُلَمَاءُ فَسَدَتِ الطَاعَةُ وَ إِذَا فَسَدَ الفُقَرَاءُ فَسَدَ الأَخلَاقُ وَ إِذَا فَسَدَ الأُمَرَاءُ فَسَدَ المعَاشُ۔[16]

 

لوگوں کے تین گروہ ہیں علماء ، امراء ، اور فقراء ۔ علماء تباہ ہو جائیں تو عمل شریعت ختم ہو جائے ، امراء تباہ ہو جائیں تو معیشت خلق برباد ہو جائے ۔ اور اگر فقراء مٹ جائیں تو لوگوں کے اخلاق نیست و نابود ہو جائیں "۔

 

صوفیہ کے باطل فرقوں پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :" مختلف الفاظ تراشی محض الحاد کو چھپانے کے لئے کی جاتی ہے ۔ روح و مادہ ، نور و ظلمت یا بھٹکے ہوئے گروہ صوفیاء کی اصطلاحات فنا و بقا ، جمع و تفرقہ ، سب کفر و الحاد کو لپیٹ کر پیش کرنے کا ذریعہ اظہار ہیں۔ صحیح تصوف کے علمبردار ان سے بیزار ہیں "۔ [17]

 

آپ اہل ولایت اور اصحاب معرفت کے متعلق فرماتے ہیں :"

 

معرفت دل کی حیات کا نام ہے اور ما سوی اللہ سے منہ پھیرنے کا نام ہے ۔ ہر شخص کی قیمت معرفت سے ہے اور بغیر معرفت کوئی شخص قابل منزلت نہیں ۔ علماء اور فقہاء خداوند کے صحیح علم کو معرفت کہتے ہیں

 

اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ عارف عارف ہی نہیں ہوتا جب تک وہ عالم حق نہ ہو ۔

 

صوفیہ کے گروہ اور تلبیس:

آپ نے تصوف کے طالبوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا ہے ۔ لہذا چوتھے گروہ کے بارے فرماتے ہیں : "وہ لوگ جن کی حماقت اور روحانی کمزوری کی حب مرتبہ بغیر استطاعت کے اور خواہش عظمت بغیر علم کے ان کو اس مغالطہ میں مبتلا کر دیتی ہے کہ صوفیائے کرام کا ظاہر ہی سب کچھ ہے صوفیا کی مجلس میں ان کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ صوفیا کو علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ حق سے ناواقف ہیں در اصل ان کا مقصد صوفیا کا لباس پہن کر اپنی کج اندامی کو چھپانا ہوتا ہے ان کی مثال کتابوں سے لدے ہوئے گدھے کی سی ہے "[18]

 

صوفیہ کے خرقہ کی حقیقت یہ کہ یہ لباس تقویٰ ہے لیکن اگر اس سے منفی مقاصد کا حصول پیش نظر ہو تو یہی لباس ننگ و عار بن جاتا ہے چنانچہ آپؒ رقمطراز ہیں:

 

اَلمرَقَعَةُ قَمِيصُ الوَفَاءِ لِأِهلِ الصَّفَاءِ و سَربَالُ السُّرُورِ لِأِهلِ الغُرُورِ۔[19]

 

"خرقہ لباس وفا ہے اہل صفا کے لئے اور جامہ سرور ہے اہل غرور کے لئے ۔"

 

معلوم ہوا کہ صوفیا کے لبادے میں اہل غرور و اہل ہوس اپنی خواہشات کو چھپا کر دھوکہ دے سکتے ہیں ۔ یہ لباس اُن کے لئے حق تک پہنچانے کا زینہ بننے کی بجائے اُن کے لئے حق تعالی سے دوری کا سبب اور ثقیل حجاب بن جاتا ہے ۔سیدی علی ہجویریؒ فرماتے ہیں :

 

"لباس صوفیا پہن کر رضا خداوندی ہی مقصد ہونا چاہیے ورنہ ایسی خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اپنے دین کی فکر و نگہداشت کرنا جھوٹی ولایت کا دعویٰ کرنے سے بہتر ہے " [20]

 

طلب دنیا اورخواہش جاہ وحشم :

یقیناً اہلِ حق دین کے بدلے دولت کمانے کو ذریعہ روزگار نہیں بناتے نہ ہی پارہ نان اُن کی زندگیوں کا مقصد ہوتا ہے بلکہ ہر لمحہ رضائے الہی کا حصول ہی پیش نظر رہتا ہے لیکن جھوٹے مدعیان تصوف نے جیب تراشی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور اہل حق کو جس قدر طعن و تشنیع کا مرکز بنا دیا ہے اہل اللہ اس سے قطعی طور پر بری ہیں ۔ سیدی علی ہجویریؒ نے اہل حرص و طمع کا ایک واقعہ نقل کیا اور اس سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنے ہاں ذکر فرمایا:

 

" میں ایک دفعہ اپنے شیخ طریقت کے ساتھ آذربائیجان کے دیار میں سفر کر رہا تھا دو تین خرقہ پوشوں کو گندم کے ایک کھلیان کے پاس اپنے دامن پھیلائے دیکھا یہ منظر دیکھ کر شیخ نے یہ فرمان پڑھا :

 

﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاالضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ﴾[21]

 

میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا ان کے پیروں کو مرید جمع کرنے کی ہوس تھی اور ان کو متاع دنیا جمع کرنے کی۔ ایک ہوس دوسری ہوس سے بالاتر نہیں ہوتی اور بے حقیقت دعوی ہوس پروری کا ذریعہ ہے" [22]

 

سامان زیب و زینت رکھنے والا نہ صرف جادہ طریقت کے مخالف چلتا ہے بلکہ یہ حرص اس کے لئے باعث ذلت و ہلاکت ہوتی ہے۔

 

فرمان نبوی ہے

 

تَعِسُ عَبدُ الدِّينَارِ ، تَعِسُ عَبدُ الدِّرهَمِ ، تَعِسُ عَبدُ الخَمِيصَةِ ۔[23]

 

" ہلاک ہوا بندہ درہم کا ہلاک ہوا بندہ دینار کا ہلاک ہو ا بندہ لباس و کمخواب کا۔"

 

رب العزت کے ساتھ لَو لگانے والے حصول مال و جاہ کی خاطرکبھی غیر اللہ اور امراء کے محلات کے چکر نہیں لگاتے بلکہ آپ ؒ فرماتے ہیں سالک کبھی غیر اللہ کو منعم نہیں سمجھتا منعم حقیقی خدا کی ذات پاک ہے " [24]

 

حبیب بن سلیم الراعی علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ " ایک شیخ نے آپ سے نصیحت طلب کی تو آپ نے فرمایا :

 

لَا تَجعَل قَلبَكَ صَندُوقَ الحِرصِ وَ بَطَنَكَ وِعَاءَ حَرَامٍ ۔[25]

 

"دل کو محض حرص اور پیٹ کو جائے حرام نہ بنا ۔ کیونکہ انسان کی ہلاکت و تباہی حرص و حرام میں ہے اور ان سے دور رہنے میں ہی حقیقی نجات ہے ۔ "

 

اَلدُّنيَا مَذبَلَةٌ وَ مَجمَعُ الكَلَابِ وَ أَقَلُّ مِنَ الكَلَابِ مَن عَكَفَ عَلَيهَا فَإِنَّ الكَلبَ يَأخُذُ مِنهَا حَاجَتُهُ وَ يَنصَرِفُ عَنهَا وَالمحِبُّ لَهَا لَايَزُولُ عَنهَا بِحَالٍ۔[26]

 

" یہ دنیا کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے جس پر کتے جمع ہوتے ہیں جو اس پر زیادہ دیر ٹھہرے وہ کتے سے بھی بدتر ہے کیونکہ کتا ڈھیر میں سے اپنے مطلب کی چیز حاصل کر کے پرے ہٹ جاتا ہے مگر دنیا دار پرے ہٹنے کا نام نہیں لیتا"۔

 

آپؒ لکھتے ہیں :

 

أَذَلُّ النَّاسِ اَلفَقِيرُ الطَمُوعُ وَ المحِبُّ لِمَحبُوبِهِ ۔ [27]

 

"لوگوں میں ذلیل ترین شخصیت طمع کرنے والے فقیر کی ہے اور عزیز ترین محبوب سے سچی محبت رکھنے والے کی۔ "

 

طمع درویش کے لئے رسوائی کا باعث ہے کیونکہ درویش تو پہلے ہی دنیا کی نظر میں حقیر ہوتا ہے اور اگر دنیا کی طمع رکھے تو اور بھی حقیر ہو جاتاہے ۔ابو حامد احمد بن خضرویہ علیہ الرحمہ کا قول ہے :

 

أَستِر عِزَّ فَقرِكَ۔[28]

 

"اپنے فقر کی شان کو چھپائے رکھو اور لوگوں سے یہ نہ کہتے پھرو کہ ہم درویش ہیں ۔"

 

کیونکہ فقر وہ راز خداوندی ہے جس کا راز فاش نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ مختلف انداز بیان اور حیلوں بہانوں سے اپنی فقیری کے اعلانات کروانا پسند کرتے ہیں اُن کے لئے یہ ایک واضح رہنمائی ہے ۔

 

اہل علم اور دنیا کی حقیقت:

ابو حسن علی الجرجانی علیہ الرحمہ کا قول ہے:

 

اَلخَلقُ كُلُّهُم فِي مَيَادِينِ الغَفَلَةِ يَركُضُونَ وَ عَلَى الظُنُونِ ۔[29]

 

" اہل دنیا غفلت کے میدان میں گھوڑے دوڑاتے ہیں ۔ اپنے وہم و گمان پر اعتقاد رکھتے ہیں۔"

 

کیونکہ اُن کے نزدیک اُن کے اعمال حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اُن کا کلام کشف پر۔ اس بات میں رعونت نفس کی طرف اشارہ ہے ۔ بے علم جھوٹے صوفیا کی طرح جاہل بھی کبھی اپنی جہالت کا اعتراف نہیں کرتا صاحب علم صوفی تمام مخلوق میں قابل توقیر ہوتے ہیں اور بے علم ذلیل و خوار ۔ آج ہم سیدی علی ہجویریؒ کے زمانہ سے تقریباً ایک ہزار سال کی مدت پہ کھڑے ہیں آپ کے مبارک زمانہ میں دروغ گوئی راہ پکڑ چکی تھی اور تصوف کے لبادے میں راہزنوں نے جادہ حق کے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا تھا ہمارا عہد تو اپنے دامن میں اُس سے کئی درجے زیادہ خرافات لیے ہوئے ہے ۔آپؒ کا قول ہے:

 

" کہ ہمارے زمانے میں دو چیزیں بہت کمیاب ہیں ایک عالم جو اپنے علم پر کاربند ہو اور دوسرا عارف جو اپنی حقیقت حال کو معارض بیان میں لائے علم بے عمل علم نہیں ہوتا اور معرفت بے حقیقت معرفت نہیں ہوتی ۔"[30]

 

ہمارے زمانے کا ہر مبتدی طالب علم بھی خطیب اعظم اور غزالی دوراں کے القابات نہ صرف خوشی سے قبول کرلیتا ہے بلکہ ان کی سماعت سے اُس کا نفس رعونت و تکبر میں آجاتا ہے وعظ و خطابت کو حصول مال کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جبکہ اہل اللہ ایسے امور پر پریشان و مضطرب ہو جاتے تھے کیونکہ اُن کے نزدیک پہلے خود کو وعظ کرنا اور تعلیمات حق پر عمل پیرا ہونا لازم ہے اس کے بغیر سب بے فائدہ و رائیگاں ہے۔ چنانچہ ابو صالح حمدون بن احمد علیہ الرحمہ بزرگ صالح نے لوگوں کی طرف سے وعظ کے مطالبہ پر ارشاد فرمایا :

 

"مجھے وعظ کرنا زیبا نہیں ، کیونکہ میرا دل ابھی دنیا اور جاہ و مرتبت دنیا پر مائل ہے میرے وعظ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس کا کسی دل پر اثر نہیں ہو گا اور بے اثر بات شریعت کا مذاق اُڑانے کے برابر ہے۔" [31]

 

تکمیل تعلیم کے بعد طالب کو پیشوائی کے مقام پر آنے سے پہلے ہی اپنے علم پر کاربند ہو جانا چاہیے ۔ حضرت سید ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت داؤد طائی علیہ الرحمہ نے علم حاصل کر لیا اور اُن کو پیشوائی کا مقام مل گیا تو وہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ اب کیا کروں ،فرمایا :

 

" عمل کی ضرورت ہے کیونکہ علم بلا عمل ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو " جو شخص صرف علم پر اکتفا کرتا ہے اور عمل سے عاری رہتا ہے اس کا دل خلوص سے خالی اور نگاہ مشاہدہ سے عاری رہتی ہے ۔ "[32]

 

علم کا اصل مقصد طبع انسانی کو حدود حق میں پابند کرنا ہے اور فرمان حق تعالیٰ کے مطابق علم والے ہی اللہ عزوجل کی ذات سے ڈرتے ہیں چنانچہ ابویزید بسطامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 

" در حقیقت طبع انسانی مائل بہ جہالت ہوتی ہے اور بے علم بہت سے کام جہالت کے باعث بلا تکلف کر گزرتا ہے صاحب علم کوئی چیز بے تکلف نہیں کر پاتا ۔" [33]

 

سید ی علی ہجویری کے خیال کے مطابق علم محل کمال ہے اور جہل محل طلب اور علم کا مقام عمل سے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ عمل بندہ کی صفت ہے اور علم اللہ تعالیٰ کی ۔" [34]

 

ائمہ اسلاف حدود اللہ اور دین حق کے اوامر پر سختی کے ساتھ کاربند ہوتے تھے اور باقی لوگوں کو بھی اسی طرح دیکھنا پسند کرتے تھے۔ آپ ؒ نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ :

 

إِذَا رَأَيتَ العَالِمَ يَشتَغِلُ بِالرُخَصِ فَلَيسَ يَجِيئُ مِنهُ شَيئٌ۔[35]

 

"جب کوئی عالم دین میں آسان طلبی کا شائق ہو تو سمجھ لو کہ اس کے دامن میں کچھ بھی نہیں۔"

 

کیونکہ رخصت و تاویل باطل وہی کرتے ہیں جنہیں حقیقت سے رو گردانی منظور ہوتی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے حالات میں عہدہ قضاء سے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے آپؒ نے امام صاحب کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے مقابل علمائے سوء کی مذمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

" آج کل سب اہل علم اس کام یعنی قضاء کو پسند کرتے ہیں نفسانی خواہشات میں مبتلا ہیں اور راہ حق سے نفور ہیں امیروں کے دولت کدے اُن کی قبلہ گاہ ہیں "۔ [36]

 

جو دین و طریقت کی راہ کو مجروح کرنے کے متمنی ہوتے ہیں وہ اپنی خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے ہزار رستے تلاش کر لیتے ہیں اُن کا امراء و وزرا ء کے ہاں آنا جانا ہی محض اس لئے ہوتا ہے کہ وہ علمائے حق اور اہل صفاء کے خلاف حکمرانوں کے ہاں اپنی بات منوا سکیں بناء بریں وہ اکثر و بیشتر شرعی احکام کی من مانی تاویلیں اور باطل تشریحات گھڑ لیتے ہیں تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسے بد طینت ہر دور میں موجود رہے چنانچہ آپ نے ابو الحسن سمنون علیہ الرحمہ کے متعلق لکھا ہے:" کہ آپؒ غلام الخلیل کے ہاتھوں اس لئے مصائب اٹھاتے رہے کیونکہ وہ ایک جھوٹا مدعی طریقت تھا خلیفہ وقت اور امراء کے منہ چڑھا ہوا تھا دین کو دنیا کے بدلے فروخت کرتا تھا مشائخ طریقت کی امراء کے سامنے برائی بیان کرتاتھا۔"[37]

 

 

 

 

ملامت اور مخالفت شریعت :

ملامت کا مقصود یہ ہے کہ صاحب طریقت اپنے افعال کو اور اپنی حالت قرب کو عام لوگوں سے چھپا سکے لیکن ایسی حالت میں احکام شریت کی ایسی مخالفت کہ جو دوسروں کو بھی راہ طاغوت پہ ڈال دے کسی طور بھی جائز نہیں ۔ سیدی علی ہجویری بھی اسی تعلیم کے علم بردار نظر آتے ہیں کہ صوفی ملامت کو بھی اُسی صورت اختیار کر سکتا ہے جب وہ شریعت اور شرعی احکام کے مخالف نہ ہو آپ فرماتے ہیں:

 

" مائل بحق ہونے لئے ملامت خلق برداشت کرے اور کوئی ایسی چیز کر گذرے جو شریعت کے خلاف نہ ہو مگر اس کی وجہ سے خلقت کو اس سے نفرت ہو جائے "۔ [38]

 

ملامت ترک کے ضمن میں آپ نے یہ اُصول وضع فرمایا ہے کہ شریعت کی مخالفت سے حصول ملامت صریح فتنہ و گمراہی ہے ۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

 

" ملامت ترک کی صورت یہ ہے کہ آدمی قانون شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے اور خلاف مذہب چیز کا مرتکب ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں راہ ملامت پر گامزن ہوں دراصل وہ واضح گمراہی ، صریح فتنہ اور پوری ہوس میں مبتلا ہوتا ہے اس زمانے میں بہت سے لوگ اسی قماش کے ہیں "۔ [39]

 

آپ ؒ نے اس سلسلے میں سخت موقف اختیار فرمایا اور ایسی ملامت کے اختیار کرنے کو ترک مذہب اور خروج از اسلام قرار دیا ہے ۔ ایک جھوٹے مدعی ولایت کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن وہ بحالت خراب نمودار ہوا اور ملامت طلبی کا بہانہ کیا لوگوں کی ملامت کی وجہ سے وہ برافروختہ ہوا تو سیدی علی ہجویری نے اس کی فریب کاری اور مخالفت سنت کی وجہ سے فرمایا کہ تم دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے "۔ [40]

 

آپؒ اتنے بڑے مقام مرتبہ پر فائز ہونے اور علم کا ایک بحر بے کراں ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور باطل کے رستے اور نفس کی اتباع سے حفاظت کے لئے دعا گو ہیں:

 

" میں علی بن عثمان ہمیشہ بارگاہ حق سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس چیز کی توفیق عطا فرمائے (کہ تہمت والی باتوں سے دور رہوں)مگر فی زمانہ ظاہر دار لوگوں کی صحبت میں بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔ اگر سیاہ کاری اور فریب میں ان کی موافقت نہ کی جائے تو وہ عداوت پر کمر باندھ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ جہالت سے اپنی پناہ میں رکھے " [41]

 

صحبت و دوستی اور اطاعت طاغوت :

صحبت و دوستی کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے قرآن حکیم نے باطل کی دوستی کو باعث ہلاکت و ندامت بتلایا ہے اور تعلیمات نبویہ میں بھی دوستی اور خلت کو دین کا مرتبہ قرار دیا لہذا جب کوئی کسی کی صحبت اختیار کرے تو اسے خوب غور و فکر کر لینی چاہیے کہ کہیں یہ دوستی اسے ہلاکت میں مبتلا نہ کر دے ۔ بالخصوص اغنیاو اہل ثروت اور جہلاء کی صحبت سے کنارہ کشی لازم ہے ۔

 

سیدنا حضرت عمر بن خطاب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 

اَلعَزَلَةُ رَاحَةٌ مِن خَلطَاءِ السُّوءِ۔[42]

 

"گوشہ نشینی بری صحبت کی نسبت باعث رحمت ہے ۔ "

 

سیدنا امام زین العابدین علیہ الرحمہ نے تو اس صحبت کو طاغوت قرار دیا جو حق کے مطالعہ و مشاہدہ سے غافل کر دے چنانچہ فرمایا:

 

كُلُّ مَن شَغَلَكَ عَن مُطَالَعَةِ الحَقِّ فَهُوَ طَاغُوتُكَ۔[43]

 

" جو کام تجھے یاد الہی سے غافل کردے وہ تیرا طاغوت ہے ۔ "

 

اہل اللہ کے یہ امر طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ما سوی سے دور کر دیتی ہے لہذا فرمایا:

 

من عرف الله أعرض عمن سواه ۔[44]

 

" جس نے اللہ تعالیٰ کو جانا اُس نے ما سویٰ سے منہ پھیر لیا۔"

 

صحبت بد دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ ایک یہ نقصان بھی پہنچاتی ہے کہ عارف کو اہل اللہ اور اصحاب خیر کی مخالفت اور ان سے بد گمانی پر آمادہ کرتی ہے ۔ اس ضمن میں حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 

إِنَّ صُحبَةَ الأَشرَارِ يُورِثُ سُوءَ الظَّنِّ بِالاَخيَارِ۔ [45]

 

" بروں کی صحبت اچھوں کے متعلق بد گمانی پیدا کرتی ہے ۔ "

 

ابو عثمان سعید بن سلام مغربی علیہ الرحمہ کا قول ہے :

 

مِن آثَرِ صُحبَةِ الأَغنِيَاءِ عَلٰى مَجَالَسَةِ الفُقَرَاءِ اِبتَلَاهُ اللهُ بِمَوتِ القَلبِ۔ [46]

 

" جو امراء کی صحبت کو فقراء کی مجلس پر ترجیح دے خدا ئے عز وجل اس کو مرگ دل میں مبتلا ء کردیتا ہے ۔ صوفیائے متاخرین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ریاضت کا بار تو اٹھا نہیں سکتے مگر ریاست کے طلب گار ہیں ۔ "

 

اطاعت حق اور صوفیہ خام کے دعوے:

سیدی ہجویری علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:"اس کے بر عکس عشق حق کے انداز کچھ اور ہی ہیں ۔ عاشقان حق تعمیل احکام کو تعمیل محبوب سمجھتے ہیں" جو کوئی بھی بغیر عجز و خوف عارف ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جھوٹا اور ریا کار ہے صحیح عرفان کا نشان خلوص ارادت ہے ۔"[47]

 

جو کوئی آدمی خلوص دل سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اُسی کو اپنے خالق کا قرب نصیب ہوتا ہے ۔اللہ کا قرب ، ولایت اور اس کی نور کی تابانیاں اور رضا نفاق بھرے دل کے ساتھ حاصل نہیں کی جا سکتیں ۔ حبیب عجمی علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

فيِ قَلبٍ لَيسَ فِيهِ غَبَارُ النِّفَاقِ ۔[48]

 

" جس دل میں نفاق کا غبار نہ ہو اُسی میں اللہ رب العزت کی محبت و رضا جاگزیں ہوتی ہے کیونکہ نفاق و محبت دو متضاد چیزیں ہیں ۔ "

 

رقص و سرُور اور صوفیہ خام کا طریق:

سماع کی حقیقت پر اہل حق کے ہاں بیسیوں دلائل ہیں قرآن و سنت اور اسلاف کے عمل سے سماع کی تاثیر اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کی کئی مثالیں اور دلائل اصحاب تصوف کی کتب کی زینت ہیں لیکن عوام کے اکثر طبقات سماع کے آداب و شرائط سے نابلد ہوتے ہیں جس بنیاد پر وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں سیدی علی بن عثمان ؒ اس ضمن میں رقمطراز ہیں کہ :

 

" سماع کے عالم میں غلبہ حال ایسا ہونا چاہیے جو بد کاروں کو بدکاری سے نجات دے۔ اس زمانے میں تو ایسے گمراہ موجود ہیں جو بدکاروں کے سماع میں شامل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم راہ حق میں سماع کرتے ہیں فاسق و فاجر لوگ ان کے ہم خیال ہو کر زیادہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اور یہی ان کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے ۔"[49]

 

سماع کی حقیقت کیونکہ معرفت سے منسلک ہے اور اس کا مقصد بھی مشاہدہ میں ترقی کرنا ہے لہذا ابتداءً کسی کو سماع نہیں سننا چاہیے ۔ آپ فرماتے ہیں:

 

"مبتدی سماع نہ سنے کیونکہ ایسی محافل کو سننے عورتیں چھتوں پر آجاتی ہیں جس سے اس کی طبیعت پراگندہ ہو تی ہے اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس کی ممانعت کی بنیادی علت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کیونکہ جاہل صوفیوں نے ان تمام باتوں کا طریق بنا لیا ہے اور صداقت سے دست بردار ہو گئے ہیں ۔ اس لئے ان امور سے دور رہنے میں ہی بہتری پنہاں ہے۔" [50]

 

بعض لوگ آج کل اپنی محافل میں رقص کرتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے دلائل بیان کرتے ہیں جو بالکل باطل ہیں۔ سیدی علی بن عثمان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : " شریعت اور طریقت میں رقص کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ دانشمند وں کے نزدیک باتفاق رائے جب اچھی طرح کیا جائے تو کھیل تماشا ہوتا ہے اور جب بے ہودہ طور پر کیا جائے تو بجز لغویت کے کچھ بھی نہیں مشائخ عظام میں سے کسی بھی بزرگ نے رقص کو قابل تعریف نہیں سمجھا ۔"[51]

 

رقص و سماع کی محافل گرم رکھنا اور عبادت و ریا ضت نہ کرنے سے متعلق ایک تفصیلی واقعہ ابو الحارث علیہ الرحمہ سے نقل فرمایا جس میں شیطانی گروہ کے رقص و سرور کے متعلق ابلیس کو حاصل ہونے والے دو فائدوں کا ذکر کیا ایک یہ کہ وہ اس سے اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ عابد لوگوں کو راہ حق سے دور کرتا ہے ۔ [52]

 

خارق عادت اُمور اور حقیقت ولایت:

خارق عادت کا غیر ولی سے بھی ظہور ہو سکتا ہے کیونکہ جب ایک غیر ایمان دار یا فاسق شخص کے ہاتھوں خارق عادت امر کا ظہور ہو گا تو وہ اُس کے لئے باعث عزت و کرامت نہیں بلکہ باعث تذلیل و ندامت ہوتا ہے چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں :

 

" کہ خارق عادت اُمور کا اظہار فرعون ، شداد ، نمرود وغیرہ کافر کے ہاتھوں بھی نمودار ہو سکتا ہے جیسا کہ فرعون کو کئی خارق عادت اُمور حاصل تھے لیکن اس کے دعوئے الوہیت کے لچر ہونے میں اہل خرد کو کوئی شک و شبہ نہیں ۔" [53]

 

کتنے شعبد باز سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر مختلف کرامتوں کی مشہوری کرواتے ہیں ۔ دم درُود کو جس طرح دام میں پھانسنے کا حیلہ بنا لیا گیا ہے اس کا تصوفِ خالص سے کچھ تعلق نہیں ۔ ہمارے زمانے میں تو الحفیظ و الامان پیری فقیری اور کرامتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے حالانکہ اظہار کرامت میں اہل حق نہ صر ف محتاط تھے بلکہ یہ امر روحانی ترقی اور قرب الہی کے لئے حجاب گردانا جاتا تھا ۔ لیکن آج اسلاف کی روش کے برعکس کرامتوں کی باقاعدہ اشتہار بازی کی جاتی ہے جس کے لئے ان نام نہاد پیروں کے ہاں باقاعدہ اشتہاری مہم کو جاری رکھنے والا گروہ ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت اہل حق کی تعلیمات کو سمجھنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

نتائج بحث و سفارشات :

* سیدنا علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ ایک عظیم صوفی بزرگ اور عالم برحق شخصیت ہیں جن کے دیگر علمی کارناموں کی طرح ان کی تالیفات بھی زندہ جاوید ہیں زیر بحث کتاب کشف المحجوب اس دعوی پر شاہد عدل ہے۔

  • تصوف ایک ثابت شدہ حقیقت اور شریعت کا انتہائی مقصود ہے لیکن اس کو تلویث و تلبیس سے پاک رکھنا اہل حق کا فریضہ ہے ۔ جس کے لئے سیدنا علی بن عثمان ہجویری ؒ جیسے جلیل القدر اولیاء اللہ نے ہر عہد میں ذمہ داری ادا کی ۔
  • کرامت کا اظہار صرف اہل حق سے ہی ہوتا ہے جبکہ خارق عادت امر کا اظہار کسی بھی شخص سے ہو سکتا ہے ۔
  • علمائے حق کا اللہ تعالیٰ کے ہاں علم کی بنیاد پر انتہائی اہم مقام ہے ۔
  • علمائے سوء ہر دور میں رہے اور امت مسلمہ نے اُن کی ریشہ دوانیوں سے ہمیشہ نقصان اٹھایا عصر حاضر میں بھی اُن کی پہچان اور اُن سے پرہیز لازم ہے ۔
  • رقص و سرور کی محافل جب معرفت الہی کی بنیاد پر منعقد نہ ہوں تو ہوا و ہوس کی تکمیل اور طاغوت کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ۔
  • صحبت و دوستی کے بے حد فوائد ہیں لیکن اگر وہ دوستی اور صحبت اہل باطل کی ہو تو دنیا و آخرت کی رسوائی و ہلاکت کا باعث ہے ۔
  • ملامت کے نام پر جاہل صوفیوں ، اور اصلاح کے نام پر علمائے سوء نے جو اصول وضع کیے ، اور جن خرافات کو رواج دیا اُن سے آگہی کے ساتھ ساتھ کنارہ کشی از حد ضروری امر ہے۔

 

حوالہ جات:

  1. دیکھیے مقدمہ کشف المحجوب از پیر محمد کرم شاہ الازھریؒ ۔
  2. سورۃ الاعراف۷:۱۷۶ ۔۱۷۵
  3. قرطبی ، امام أبو عبد الله محمد بن أحمد(المتوفیٰ ۶۷۱ھ) ، الجامع لاحکام القرآن (دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۹۶م)،۷/۳۲۱
  4. سورۃالجمعۃ۵:۶۲
  5. طبری، امام محمد بن جریر (المتوفیٰ ۳۱۰ھ ) جامع البیان عن تاویل آی القرآن(مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،۲۰۱۰م)،۷/۲۹۳
  6. مسلم ، ابو الحسین مسلم بن حجاج نیشاپوری (المتوفیٰ ۲۶۱ھ) ، الجامع الصحیح( دارالسلام ، الریاض،۲۰۱۱م)، حدیث نمبر: ۱۹۰۵،
  7. السبکی ، ابو النصر عبدالوھاب بن علی ، (المتوفیٰ ۷۷۱ ھ )، الطبقات الشافعیہ الکبری ( هجر للطباعۃ والنشر والتوزيع، مصر،۲۰۰۸م)،۶/۲۸۹
  8. ابن حبان، الامام ابو حاتم محمد بن حبان ، (المتوفیٰ ۳۵۴ ھ )، صحیح ابن حبان( مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت،۲۰۱۰م) ،حدیث نمبر: ۷۸
  9. ہجویری ، سید علی بن عثمان ، کشف المحجوب ،مترجم : فضل الدین گوہر( ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۰ ء )، ص :۹۳
  10. ن۔م
  11. ن۔م
  12. ہجویری، کشف المحجوب ، ص :۹۳
  13. ن۔م، ص:۲۹۵
  14. ن۔م
  15. ن۔م
  16. ن۔م، ص:۲۰۷
  17. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۲۰۸
  18. ن۔م، ص:۹۸
  19. ن۔م، ص:۹۹
  20. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۱۰۵
  21. سورۃ البقرۃ۱۶:۲
  22. ہجویری، کشف المحجوب، ص:۱۰۷
  23. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۱۱، دیکھیے صحیح بخاری ، حدیث نمبر :۲۸۸۷
  24. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۱۶۸
  25. ن۔م، ص:۱۵۲
  26. ن۔م،ص :۱۸۱
  27. ن۔م، ص:۲۰۰
  28. ہجویری،کشف المحجوب، ص:۱۸۴
  29. ن۔م ، ص:۲۱۲
  30. ن۔م، ص:۱۹۶
  31. ہجویری، کشف المحجوب، ص:۱۸۸
  32. ن۔م، ص:۱۵۷
  33. ن۔م، ص:۱۶۹
  34. ن۔م، ص:۱۷۱
  35. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۱۷۹
  36. ن۔م ، ص:۱۵۵
  37. ن۔م، ص:۲۰۱
  38. ہجویری،کشف المحجوب ، ص:۱۱۵
  39. ن۔م، ص:۱۱۷
  40. ن۔م، ص:۱۱۷
  41. ہجویری،کشف المحجوب ، ص:۲۵۱
  42. ن۔م ، ص:۱۲۵
  43. ن۔م، ص:۱۳۵
  44. ن۔م، ص:۱۳۷
  45. ہجویری،کشف المحجوب ، ص:۱۴۶
  46. ن۔م ، ص:۲۲۷
  47. ن۔م، ص:۱۶۳
  48. ن۔م، ص:۱۵۰
  49. ہجویری، کشف المحجوب ، ص:۵۳۵
  50. ن۔م، ص:۵۴۸
  51. ہجویری،کشف المحجوب ، ص:۵۴۴
  52. ن۔م، ص:۵۳۷
  53. ن۔م ، ص:۳۰۱
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...