Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Islamabad Islamicus

عصر حاضرمیں تربیت کی راہ میں حائل رکاوٹیں: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انکا حل |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060033219_975

Pages

118-133

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article6.pdf

Subjects

Allah Human Prblems Prophet(PBUH) Education Company

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

انسانیت کی تربیت کا نظام ،خالق ِ لم یزل نے اپنے انبیاءکے ذریعے سے کیا۔تربیت ،انسانیت کو اسکی معراج پر پہنچانے کا نام ہے۔اس دور میں تربیت کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہو چکی ہیں۔ جن کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ضروری اور اہم ہے۔وقت کی دوڑ نے والدین اور اساتذہ کو ایسا مادیت پرست بنا دیا ہے کہ بچوں کی تربیت ایک ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔والدین اور اساتذہ بچوں کو وقت نہیں دیتےاور نہ ہی انہیں دینی رحجان دیتے ہیں۔ دینی اثرات نہ ہونے کی وجہ سےبچوں کا ماحول انہیں متاثر کر رہا ہے ۔ بچوں کی سوچ اور فکر کو مار نہیں پیار کا نعرہ بھی متاثر کر رہا ہے۔ تعلیمی نظام اور معاشرتی ماحول بھی اس سلسلہ میں ان پر اثر اندازہوتاہے۔ ہمارے ماحول اور معاشرتی و تعلیمی نظام پر مغربیت کی ایسی چھاپ آن پڑی ہے کہ تربیت بداخلاقی اور دین سے دوری کا نام بن چکا ہے۔سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں نے بچوں کو مغربی و دین سے دوری کا ماحول دے دیا ہے جس سے تربیتی نظام متاثر ہو ا ہے۔ والدین اور اساتذہ کےرعب اور ڈر کی وجہ سے بچے اچھے اثرات کو قبول نہیں کرتے۔بچوں کی بیرونی صحبت کا بھی اس معاملہ میں عمل دخل ہے ۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں کی اچھی تربیت کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری کو قبول کریں، انہیں وقت دیں، انکی مذہبی تعلیم کا بندوبست کریں اورانکی صحبت کی خبر گیری کریں ۔ رسول اکرمﷺ کی زندگی اس سلسلہ میں ہمارےلئے احسن نمونہ ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرت کو اعلیٰ بنانے کے لئے اسے کچھ اصول و ضوابط بھی سکھائے۔جس کے لئے اس نےانبیاء بھیجے اور کتب بھی نازل فرمائیں یہاں تک کے قرآن کاموضوع بھی انسان اور اسکی معاشرت ہی ہے۔ تعلیم و تربیت بھی اسی معاشرت کا ایک اہم جزو ہے۔

 

تربیت:باب تفعیل کا مصدر ہے، جس کے معنی "بچہ کی پرورش کرنا"، "پالنا"اور"مہذب بنانا" ہیں۔[1]اسی طرح تربیت سے مراد ہے۔" تبليْغ الشیء الی کماله شيْئا فشيْئا" کہ کسی چیز کو آہستہ آہستہ اس کے کمال اور تمام کی حد تک پہنچادینا۔[2] جبکہ اس کا مقصد ایسے لوگوں کو تیار کرنا ہے جو خالق کی عبدیت کے جذبہ سے سرشارکردار اور اخلاق کے مثالی نمونے ہوں۔[3]انگریزی میں تربیت کے لئیے مندرجہ ذیل کئی الفاظ استعمال ہو تے ہیں:

 

Cultivation, Tuition, Coaching, Instruction, Training, Bringing up and Education

 

اصطلاح میں اس سے مراد انسان کے اندر کچھ خاص افکار و خیالات کا بیج بودیا جائےاور اس کے جذبات و میلانات کو ایک خاص رخ عطا کیا جائے۔ اس طور پر کہ کچھ مخصوص رجحانات کی آبیاری ہوسکے اور اس کے اخلاق و کردار ایک مخصوص سانچے میں ڈھل جائیں۔[4]

 

ابن بادیس کے نزدیک انسان میں تبدیلی، اس کی راہ راست کی طرف ہدایت اوراس کی اخلاقیات کی اصلاح ہی تربیت ہے۔[5] مفتی محمدشفیع کےالفاظ میں تربیت اسکوکہتےہیں کہ کسی چیزکواسکےتمام مصالح پررعایت کرتے ہوئے درجہ بدرجہ آگےبڑھایاجائے یہاں تک کہ وہ حدکمال کوپہنچ جائے۔[6]

 

آج کل تعلیمی اصطلاح میں جس چیز کے لئے لفظِ تربیت بولا جاتا ہے اسی معنیٰ میں قرآن نے تزکیہ اور تادیب کا لفظ استعمال کیاہے۔[7] اسی کا نام تعمیرسیرت وکرداربھی ہے انگریزی میں اس کےلیے Training کالفظ ہےجوتعلیمی سرگرمیوں میں نصابیCurricular وغیرنصابی Co- Curricular دونوں activities کےلئے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ جین شاتو[8] (Jean Cheateu) کے نزدیک تربیت بچے کو ایک بااخلاق اورمنظم شخصیت میں پرونے کا نام ہے۔[9]

 

سنت نبویہﷺ سے ہمیں جو تربیت کا مفہوم ملتا ہے وہ انسان کی تمام تر ذہنی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کی اس طرح سے نشوونما کا نام ہے جو انسان کو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے تیار کر دے، چاہے ان کا تعلق انسان کے انفرادی معاملات سے ہو یا اجتماعی، وہ داخلی پہلو سے متعلقہ ہوں یا خارجی۔[10] اسلامی تصورِعلم میں تعلیم اورتربیت جدانہیں ہیں بلکہ ان دونوں ہی کا مقصد کردارسازی(Character Building) ہے۔

 

کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اسکی نسل نو کی تربیت پر ہو تا ہے ۔ اسی لیے خالقِ ارض و سماء نے انسانیت کو تزکیہ کے لفظ سے آشنا کیا۔ اور اسی مقصد کے لیے نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے بھی جہاں انسانیت کی اصلاح فرماتے ہوئے ہر شعبہ سے متعلقہ اصول دئیے، وہیں تزکیہ نفسِ انسانیت اور تربیتِ نسلِ نو کے لیے بھی عملی اصول دئیے۔خالق ِارض وسماء نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

 

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾[11] 

 

" اے ایمان والواپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔"

 

اس میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمے داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرو ، اس کی اطاعت کرو، اور اس کی نافرمانی سے منع رکھو، اور والدین بچوں کو نظم و تدبیر کے ذریعہ سے بچائیں اور ان کو تعلیم دیں اور انہیں اللہ کی اطاعت کرنےپر مجبور کریں۔[12]حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے نزدیک اس سے مراد گھر والوں کو نیکی کی تعلیم دینا تاکہ وہ آگ سے بچ جائیں۔[13]

 

تربیت کا مقصدہے کہ انسان روح، نسل اور معاشرے کو تعلیم دینے کے لئے، خدا پر ایمان لائے ،اسلام کے قانون کو پورا کرے اور اس کے سامنے پیش کرے۔ اس طرح اسلامی تعلیمات تمام والدین اور اساتذہ کی طرف سے اگلی نسل تک پہنچانا واجب ہے۔ اور پھراس طرح اللہ اور اس کے رسول کی حکمرانی میں انسان کو شرمندگی نہیں ملتی جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار رہے۔رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے۔

 

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ۔[14]

 

"ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اسکا باپ ہے جو اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتا ہے۔"

 

یہ حدیث واضح طور پر اعلان ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔لیکن اس کے ماں باپ جو اسکو نصیحت کریں گے اسی لحاظ سے وہ یہودی ،عیسائی اور مجوسی بن جاتا ہے۔اس سے ہم تربیت ِ والدین کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔اصلاح انسان کے لئے صرف تعلیم کا ہونا کافی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔[15]

 

جوں جوں وقت کادھارابہہ رہا ہے انسانیت کا معیارگرتاچلا جارہا ہے۔ مگرمعاشرے کےاس بگاڑکےکچھ ایسےاسباب بھی ہیں جن کی وجہ سےعصرحاضرمیں والدین ومربیاں اس فکروسوچ میں ہیں کہ انکی تربیت بچوں پراثر نہیں کرتی اوربچےفکری ومعاشرتی طورپربےراہ روی کاشکارہورہے ہیں۔ بچوں کی تربیت کیونکر اسلامی نہج پرنہیں ہو پارہی اور اس سلسلہ میں آج کےدور میں کن مسائل کا مُرَبِّیَان کو سامنا ہے ، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

 

عصرحاضرمیں تربیت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بچوں اوربڑوں کادین سےدورہوناہے۔جب بچہ اپنےدینی شعار مسجد وقرآن اورعقائد و عبادات سےدورہوگا تو اسکی تربیت بھی صحیح نہج پر ممکن نہیں ہوگی۔ یہ بھی المیہ ہے کہ والدین بچے کی عصری تعلیم پر توذوردیتے ہیں مگرمذہبی و دینی تربیت کا نام بھی نہیں لیتے۔بچہ دن بھر 8 سے 16 گھنٹے عصری علوم اورمدرسہ، اتالیق،ٹیوشن اور ہوم ورک کو دیتا ہے مگربچے کو مسجدمیں قرآن پڑھنےکے لئےبھیجنے کانام لیتےہی والدین کو خیال آجاتا ہے کہ اگر مسجد جائے گا تو صبح اٹھتے نیند خراب ہو جائے گی،تھکان ختم نہیں ہو گی،وغیرہ وغیرہ۔ آج کےدورمیں کئی گھرانےایسےہیں جہاں بچہ دینی ماحول میں پروان چڑھتا ہےلیکن یہ اسکی دین داری بےبنیاد عقائداورخرافات سےبھرپورہوتی ہے۔اور گھرانےایسے ہیں جن میں بچےدین داری سے بالکل دامن چھڑا لیتے ہیں۔[16] ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کس حد تک دینی تعلیم کا فقدان ہے یہی چیزیں بچے کی تربیت میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں کہ وہ جب مسجد کا رخ نہیں کرےگا وہاں بیٹھ کرحقوق و فرائض نہیں سیکھےگا تو وہ عملی زندگی میں،لڑکپن و جوانی میں یا عصری علوم کےساتھ اسلامیات پڑھ کرکیا سیکھےگا؟

 

بچےکی شروع سےہی دینی تربیت کی جائےاور اس کےعقائدکی بنیاداسکے بولنا شروع کرتے ہی ڈال دی جائے۔بچے کی تربیت کے لئے اسے بولنا شروع کرتے ہی لا الہ الا اللہ سکھایا جائے جو اللہ کی حمد و ثناء کے ذریعے خالق کی عظمت اور اس پر پختہ یقین سکھانے کا سبب ہے۔آپﷺنے فرمایا جب بچہ بولنے لگے تو اسے لا الٰہ الا اللہ بولنا سکھایا جائے۔[17] اسی طرح جب سات سال کی عمرکوپہنچےتونمازکی باقاعدہ پابندی کروائی جائے بلکہ جب دس سال کی عمرکو پہنچےتوسختی بھی کی جائے۔[18]

 

قرآن پڑھنے کا باقاعدہ اہتمام کیاجائے اوراسےمسجدمیں بھیجاجائے یا قاری اتالیق مقررکیاجائے۔ اسے قرآن کےپڑھنے کا شوق دلانے کے لئےاجروثواب اورفضیلت بیان کی جائے۔اساتذہ بھی باقاعدہ نمازاورقرآن کی ترغیب دیں۔

 

عصرحاضرمیں والدین واساتذہ کی تربیت کےبےاثرہونےکی سب سےبڑی وجہ تعلیمی اداروں میں" مار نہیں پیار" کا ڈھونگ ہےجوپچھلےکچھ سالوں سےرچایاجارہاہے۔اس کانتیجہ یہ نکلاہےکہ بچےاب والدین اوراساتذہ کو کچھ نہیں سمجھتےاور انکی جرأت نہیں کہ وہ بچوں کو تربیت کرنےکےلئے ان پرسختی کریں۔قوانین ہی ایسےبنادئیے گئےہیں کہ اساتذہ بچےکومارنہیں سکتے،جس کا نتیجہ یہ ہےکہ بچےاساتذہ کی چھوٹی سی ڈانٹ ڈپٹ کوبھی منفی سمجھتے ہیں ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ اساتذہ کاعزت ووقار معاشرے سےختم ہوگیاہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ بچےکی تربیت حتیٰ الامکان شفقت اور پیار سےکرنی چاہیے۔مگر کیسا وقت آگیاہےکہ اسلامی معاشرےمیں مغربیت کےایسےاثرات چھاگئےہیں کہ والدین کو بھی اصلاح کےلئےاپنے بچےکو مارنےکی جرات نہیں۔جبکہ رسول اللہﷺنے تادیب کے لئے کوڑا گھر میں لٹکانے کا حکم دیا۔آپﷺکا فرمان ہے۔

 

عَلِّقُوا السَّوْطَ حَيْثُ يَرَاهُ أَهْلُ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ لَهُمْ أَدَبٌ۔[19] 

 

"کوڑاایسی جگہ لٹکایاکروجہاں گھروالوں کی نظر پڑے،یہ انکی تادیب ہے۔"

 

اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کو رسول اللہﷺنے، تربیت کی غرض سے اپنی لاٹھی اپنے گھر والوں سے نہ اٹھانےاور الله تعالیٰ کے احکام کے بارے میں ان کو ڈرانے اورسمجھانےکاحکم دیا۔ [20]

 

تربیت کے سلسلہ میں مارآخری حربہ اوردوائی ہے۔یہ کھانے میں نمک کی طرح ہے۔جب کھانے میں زیادہ ڈالا جائےتو سارا مزہ خراب کردیتا ہےاوراگر نہ ڈالا جائے توبھی مزاجاتارہتاہے۔لہذامناسب اندازسےتھوڑی بہت سزادینےمیں کوئی قباحت نہیں۔[21] بچوں کووالدین اوراساتذہ ہلکا پھلکا مار سکتے ہیں وہ اس لئے کہ یہ بعض اوقات انتہائی ضروری ہوجاتاہے۔مگراس کے لئےافراط یعنی غصہ کاشکارہونابالکل غلط ہے،اس میں اعتدال ہوناچاہیےکہ بچےکےجسم پر نشان نہ پڑےاورمزید یہ کہ غصہ کی حالت میں مارا بھی نہ جائے۔[22]

 

تربیت کی راہ میں ایک رکاوٹ حلال روزی کانہ ہونابھی ہے جب والدین کا ذریعہ معاش حرام ہویاحلال روزی میں حرام(Mix) ہوتو اسکے بچوں پرہونےوالےاثرات میں ایک یہ بھی ہےکہ والدین کی تربیت ان پراثر نہیں کرتی۔تربیت کی راہ میں حرام رزق اس طرح بھی رکاوٹ بنتا ہے کہ والدین کی دعائیں اولادکے حق میں قبول نہیں ہوتیں اوررسول اللہﷺنےدعاکے قبول نہ ہونے کی وجہ حرام رزق کوقراردیاہے۔[23]

 

بچے کی عملی تربیت گاہ گھرہے جواس کےسیکھنے کی سکون دہ جگہ ہے مگراس وقت ان کی تربیت کامعیارگرجاتاہےجب وہ گھرمیں سکون نہیں پاتا۔اکثروالدین آپس میں چپقلش رکھتے ہیں وہ بچوں کےسامنے ہمہ وقت گالی گلوچ اورلڑائی جھگڑاکرتےرہتے ہیں۔ اس سےبچے کاسکون چھن جاتاہےاوروہ اضطراب کا شکارہوجاتاہے۔[24]اس حالت میں انکی تربیت بچےپرکوئی اثر نہیں چھوڑتی۔جب باہمی ناچاقی ہوتووالدین اولادکےسامنےصبروتحمل سے بھی اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرسکتے ہیں۔ اس سےان میں صبروتحمل کی ایک صفت پروان چڑھےگی اوروہ بھی چیخ وپکاراورلڑائی جھگڑاکرنےسے اجتناب کریں گے۔بعض اوقات کھانے میں یا کچھ غلط ہوجانے پر ہم چیخ و پکار کرتے ہیں ۔ حالانکہ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے میں صبروتحمل سے کام لیں ۔ کیونکہ ایسے میں ماں باپ کے درمیان علیٰحدگی یا طلاق کی نوبت ان کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔

 

بچوں کی اچھی تربیت کے لئے انہیں حلال کھلایا جائے کیونکہ حرام کے اثرات بے ادبی ،بدتمیزی ،بات کا اثر نہ لینا اور دینی شعار سے دوری کی شکل میں ظاہر ہونگے۔پیغمبر اکرم ﷺنےحلال رزق سے اولاد کی تربیت فرمانے کا حکم دیا۔آپﷺکافرمان ہے

 

اَدِّبُوا اَولَادَکُم فِی بُطُونِ اُمَّهَاتِهِم، قِیلَ: وَکَیفَ ذٰلِکَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ: بِاِطعَامِهِمُ الحَلَالَ۔[25]

 

"اپنے بچوں کی انکے ماؤں کے پیٹوں میں ہی تربیت کرو۔پوچھا،یارسول اللہ کیسے؟آپﷺنے فرمایا انہیں حلال کھلاؤ۔"

 

اگراولادکی تربیت کے سلسلے میں ماں کےپیٹ میں ہی بچےکو حلال رزق لازم ہےتو پھرولادت کے بعداور باقی زندگی میں یہ بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔

 

تربیت کی کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دورمیں والدین بچےکوسکول یامدرسہ میں داخل کروانے کےبعدسمجھتے ہیں کہ وہ اس ذمہ داری سےسبکدوش ہوچکےہیں جبکہ اساتذہ کےپا س بچےصرف چند گھنٹےجاتےہیں۔اور اساتذہ بھی بس اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں سرانجام دینےمثلاًحاضری وداخلہ،نصاب ختم کرنا اورفہرستیں بنانا،پرہی معمورہیں۔انہیں بچوں کی معاشرتی، ذہنی، اخلاقی اور مذہبی تربیت سے کوئی سروکار نہیں۔رشتہ داراورخاندان کےدیگر افرادیا ادارےبھی اس معاملےمیں کہیں کوئی کردارادا کرتے نظرنہیں آتے۔

 

اگروالدین اوراساتذہ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہماری مذہبی ذمہ داری ہے اورہمیں قیامت کواسکے بارےمیں پوچھ گچھ ہوگی اورہر کوئی بچوں،شاگردوں اورماتحتوں کو امانت سمجھے توتربیتی سرگرمیاں بہتر ہو سکتی ہیں۔[26]

 

بچےکی تربیت میں ایک رکاوٹ اس میں جنم لینے والا ڈراورخوف ہےچاہےوہ اساتذہ کی طرف سےہو یا والدین کی طرف سے یا کسی اور وجہ سے۔اس ڈرکی وجہ سے وہ ذہنی دباؤاورنفسیاتی مسائل کاشکار ہو جاتاہے اور اسکا تربیتی عنصردب جاتا ہے ۔

 

بعض والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ انہیں مسلسل کوستے ہیں ،وہ اس بات کا قطعی احساس نہیں کرتے کہ بچے نازک مزاج ہیں،اس سے بچوں میں کمتری اور ناکامی کااحساس پیدا ہوتا ہے۔[27]

 

بچےمیں موجودڈراورخوف کوختم کرنےکےلئےاسکےساتھ شفقت اورمحبت سےپیش آیاجائے، اسے نرمی سےچیزیں سمجھائی جائیں حتیٰ کہ غلطی پربھی نرم رویہ اختیارکرکےغلطی کااحساس دلایاجائےکہ وہ آئندہ اس سے اجتناب کرےنہ کہ سختی سے بغاوت کاشکارکیاجائےاورغزواتِ نبوی اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہادری کے واقعات سنائے جائیں۔ امام زین العابدین﷫فرماتےہیں "ہمیں مغازی ایسے سکھلائے جاتے جیسے قرآن سکھلایا جاتا"[28] صحابی رسول حضرت سعدبن ابی وقاص﷜کے پوتےاسماعیل بن محمد﷫بیان کرتےہیں: "میرے والد ہمیں رسول اللہﷺکے غزوات وسرایا کو بیان کیاکرتے اورانکے ذریعے ہماری کردارسازی بھی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھےکہ یہ تمہارےآباء کی نشانیاں ہیں پس انہیں ضائع نہ کرو۔"[29]

 

اسکے علاوہ بچوں کوجرأت مندانہ کھیل کود سکھلائے جائیں جورسول اکرمﷺ نے بتائے مثلاً تیراندازی اورگھڑ سواری[30] گھوڑےسدھانا،دوڑاورتیراکی۔[31]

 

بچوں کی اچھی تربیت کے سلسلہ میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب کو دینی و اخلاقی تعلیمات سے مبرا کر دیاگیا ہے۔ یہ اس مغربی یلغار کا اثر ہےجس کا شکار ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہیں۔اب تو معاملہ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اس نصاب میں صحابہ کرام﷢اور رسول اکرمﷺکے متعلق ایسی باتیں کردی جاتی ہیں جنہیں تسلیم کرنا تو درکنارسوچنا بھی محال ہے۔ جماعت نہم کی اسلامیات لازمی کےسلیبس سےسورۃ التوبہ کونکال دینا اور پھرنصاب میں" Mr. Chips" جیسے ناول اوررومانوی افسانے اورغزلیات کاشامل ہونا انکی بے راہ روی کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح"Aids "سےآگاہی کے لئے نصاب میں مواد شامل کر دیا گیا ہے جوسوائے بے حیائی سکھانے کے اور کچھ بھی نہیں۔اکثر یورنیورسٹیزکےایم ۔اے "English"کےسلیبس میں شامل مواد فحاشی،بے راہ روی اورسیکولرازم سکھانے والا ہے۔جس میں ناول، افسانے،ڈرامےاور شاعری سب ہی شامل ہے۔

 

ہمیں خود انتہائی ذمہ دارانہ طور پر مغرب کے زیر اپنے نظام تعلیم کواثر تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ہمارے بچے اسلام، نظریہ پاکستان اوراپنے شاندار ماضی سے واقف ہوں۔اور انکے خیالات و نظریات اسلام یا ملک دشمن نہ ہوں۔بچوں کی تربیت کے لئے نصاب میں بھی ایسا مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے جو انہیں صحیح طور پر اسلامی روح(Spirit) دے۔

 

اگرطلبہ کےلئےسیرتِ مبارکہﷺسےایسےواقعات اورارشادات نقل کردئیےجائیں جن کا تعلق انسان کی روزمرہ زندگی سےہےاوریہ آدابِ زندگی بھی قراردئیےجاسکتےہیں تومعاشرےکی تربیت کا فرض ممکن حدتک اداکرنےمیں مددمل سکتی ہے۔[32]

 

موجودہ دور میں بچے بہت زیادہ سوشل میڈیا اور دیگر انٹرنیٹ کی سہولیات کےنشہ کی حد تک عادی (Addicted) ہوچکےہیں۔جو انکی تربیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ بچہ اپنی تفریحات والدین،اساتذہ اور دیگر لوگوں سےبانٹنے( Share) کی بجائے میڈیا سے لےرہا ہوتا ہے،جس سے اسے سیکھنے کا موقع میسر نہیں آتا۔کیونکہ اگر وہ اپنے اہلِ خانہ کو وقت دے تو وہاں کچھ نہ کچھ شعوری اور غیر شعوری طور پر ماحول سے یا گفتگو سے سیکھتا ہے۔والدین و اساتذہ یا دیگر معاشرے کے افراد اسکی اچھی رہنمائی کرتے ہوئے اسے آداب سکھا سکتے ہیں ۔ جنہیں وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے سیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔

 

اس میڈیا نےفحاشی وعریانی،رقص وسرود،بےدینی پھیلانےنیزنظریہ پاکستان اور اسلامی اقدارکو پامال کرنے کی انتہا کردی ہے۔اس سلسلہ میں ہمارےحکمران، بیوروکریسی شعبہ تعلیم کےافسران، اور علم فروش تاجران ذمہ دار ہیں۔[33]

 

ایک بہت بڑی رکاوٹ جوتربیت کےسلسلے میں ہے وہ نوجوان نسل کا لادینیت سےمتعلقہ لٹریچر کا مطالعہ ہے۔ہمارے ملک میں جو غیر ملکی لائبریریاں اس وقت کام کررہی ہیں، ان کا اکثر و بیشتر لٹریچرمذہبی ودینی لحاظ سےٹھیس پہنچانےوالاہے اوراس میں بےراہ روی اورلادینی تصورات کی بھرمارہے۔لیکن ہمارے نوجوان ان مغربی لائبریریوں میں اکثروبیشترجاتے اور اس لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں، مزیدیہ کہ ان لائبریریوں میں مفت سروس کےساتھ ساتھ یورپین عورتیں ہمارے نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے موجود ہیں۔ پھر ان کتب کا مواد ایسا ہے کہ بچے اس لٹریچرکو پڑھنےکے بعداساتذہ اوروالدین کی تربیت قبول نہیں کرتےاوردین سےبھی بیزاری،دوری اوراکتاہٹ ظاہرکرنے لگتے ہیں۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کی علوم نوازی ہے، جبکہ یہ ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی بڑی سازش و کوشش ہے اور ہماری نسل کی اخلاقیات کی قتل گاہیں ہیں۔

 

بچوں کوگھرمیں ایک لائبریری دی جائےجس میں موجودکتب کامطالعہ کرکےلغو باتوں سےبچیں اورخوش رہیں۔[34]بچوں کو اسلامی کتب کے مطالعہ کا شوق دلایا جائے۔اس مقصدکےلئے والدین انہیں بچپن میں ہی کتب مہیا کریں۔پاکستان میں طلباءکی فکری ترقی کےلئےکتب خانےبہت اہم ہیں۔اگران خالی ذہنوں کوجرائم سے بچانا،اور فکری انقلاب دیناہےتو کتب خانوں کی اصلاح لازم ہے۔[35]

 

تعلیم وتربیت کے فقدان کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سفارش اوررشوت کاکلچرعام ہو چکا ہے،اکثراساتذہ اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پرنہیں،بلکہ سفارش،جعلی کاغذات اوردیگرناجائز ذرائع سے عہدے حاصل کرنےمیں کامیاب ہوجاتے ہیں۔توایسے حالات میں وہ کیاپڑھائیں اورکیا تربیت کریں گے؟اساتذہ کامعیاربہت ہی کم درجہ کاہے اوراسکی بڑی وجہ انکی کم خواندگی ہےاورغیر تربیت یافتہ ہونا ہے [36]یہی معاملہ پرائیویٹ سکولوں کابھی ہےجو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔جہاں اساتذہ کی تعلیم، تربیت اور اساتذہ کےلئے دیگر تدریسی سہولیات نہ ہونےکےبرابرہیں،سوائےچند ایک بڑے سکولوں کےجو کہ کسی Brand کےنیٹ ورک کا حصہ ہیں۔[37]

 

اعلیٰ پیشہ وارانہ، تعلیمی مہارتوں، تربیت اوراعلیٰ تعلیم رکھنے والےاساتذہ مقرر کیے جائیں،اساتذہ کاتقرراہلیت کی بنیادپرکیا جائے،محکمہ تعلیم کی بے ضابطگیوں اوررشوت وسفارش کلچرکوسختی سےروکاجائے۔ رسول اللہﷺنےرشوت دینےاورلینےوالوں کوآگ کی وعیدسنائی ہے۔[38] اورآپﷺنےان پرلعنت بھی کی ہے۔[39]

 

آنحضرتﷺجب کسی علاقےمیں کسی صحابی کومعلم بناکربھیجتے تو علمی دسترس رکھنے والوں کو ترجیح دیتے جیسا کہ معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا۔[40] نیزانکی وقتاً فوقتاً اصلاح بھی فرماتےاورمزیدانہیں نئےنازل شدہ احکامات سےبھی آگاہ رکھتے جیسا کہ وائل بن حجر﷜کو انکےعلاقےمیں جاتےہوئےآپﷺنے نماز،روزہ،ربوٰاور شراب کےاحکام لکھوا کربھیجا۔[41]عمرو بن حزم کو جب یمن کی طرف گورنر بنا کر بھیجا تو انہیں فرائض،صدقات اور دیت وغیرہ کے احکام آپﷺ نے لکھوا کر بھیجا۔[42] اسی طرح عبداللہ بن الحکیم﷜کوبھی مردہ جانورکےاحکام قلمبندکروا کربھیجا۔[43] لہذٰااساتذہ کےریفریشرکورسز باقاعدہ کروائے جائیں،ماسٹر ٹرینرزکی تعدادمیں اضافہ کیا جائے،نجی سکولوں کے معیارِ تعلیم اور اساتذہ کی تربیت وتعلیم کا خصوصی معائنہ کیا جائے۔ اس سلسلہ میں پرائیویٹ اداروں کی تربیت کے لئے بھی پروگرام مرتب کئے جائیں۔

 

بچوں کی تربیت کاستیاناس کرنےمیں اس جنون کا بھی عمل دخل ہے جو والدین،اساتذہ،عزیز واقارب اور معاشرےکی طرف سے بچےمیں پیداہوتاہےکہ اسےاوّل پوزیشن حاصل کرنی ہے۔اکثر والدین بچوں کےسامنے مقاصدرکھتے ہیں اورانکی ناکامی پرمار کی دھمکی بھی دی جاتی ہے اس سے بچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتاہے۔[44]

 

نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا مقصدصرف دوسروں سےآگےنکلناہوتاہےچاہےاسکےلئےاسےکوئی بھی ناجائز اورحرام ذریعہ اختیارکرنا پڑے۔ اس سےاسکے دل میں کینہ بغض،نفرت،نفسیاتی مسائل اور بلا وجہ جنونی شدت پیدا ہوتی ہیں جواسے اخلاقیات سےگرا دیتی ہیں اور وہ صرف اپنی تعلیم کو تربیت کی بجائے جنون بنا بیٹھتا ہے ۔ اس سے اسکو کئی ایک نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

اسکاحل یہ ہےکہ بچےکوبچپن سےہی اخلاقیات کادرس دیاجائےاسکومثبت مسابقت سکھائی جائےاور ساتھ میں اسے وقتاً فوقتاًاس چیزکاپابندبنایا جائےکہ وہ دوسروں کےکام آنے والا ہو کسی کا نقصان اسکی وجہ سےنہ ہو۔وہ دوسروں کےنوٹس اورکتب کو ضائع کرکےیاانکی محنت کاپھل خودحاصل کرکےآگے نہ بڑھے۔ یہ دراصل والدین کی بنیادی غلطی ہوتی ہےجس کاحل بھی والدین ہی احسن طریقے سےکر سکتےہیں۔

 

اسی طرح بری صحبت کا ہونا بھی تربیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ موجودہ دورمیں بچےتعلیمی سرگرمیوں کےلئے یاویسے کسی کام سےگھرسےباہرجاتےہیں تو اس معاشرتی ماحول میں انکی دوستیاں بننامعمولی امرہے۔ گھروالے یہ سمجھتے ہیں کہ گھرکاماحول اچھا ہے اور بچہ بھی شریف ہےجس کی وجہ سے وہ اسکی صحبت اور اُٹھنے بیٹھنے والےلوگوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اور ہوش تب آتی ہےجب بچے جرائم اور اخلاقی تباہی میں ملوث ہونے کی وجہ سے خاندان کی عزت کا جنازہ نکال چکے ہوتے ہیں۔

 

بچےدوستوں سےایسی بےہودگی سیکھتے ہیں جس کا والدین کواندازہ تک نہیں ہوتا۔اس لئے والدین انکےدوستوں پر خصوصی نظر رکھیں۔[45] اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ذہین طلباء پر ناسمجھ طلباء اپنی صحبت کا اثر ڈال دیتے ہیں جس سےمستقبل میں قوم کا رہنماء بننے والا اپنے گاؤں یابستی والوں کی تربیت کرنے والا ایک آوارہ شخص بن جاتا ہےجس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔[46]

 

مُرَبِّیَان کو چاہیے کہ وہ بچوں کی صحبت کی خبر رکھیں کہیں اسکے احباب دین سے دور بے راہ رو تو نہیں وگرنہ بچہ انکے اثرات کو کسی نہ کسی انداز میں قبول کرے گا اوربےراہ روی کاشکارہوگا۔پس اسےکسی بھی طرح کی بری صحبت سے بچایا جائے اور بری محفل کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔کیونکہ کریم آقاﷺکا فرمان ہے۔

 

{anchor|Toc520664498}} المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ[47]

 

"آدمی انکے ساتھ ہوتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔"

 

اچھی صحبت اختیارکرناایمان اوراعمالِ صالحہ کی مضبوطی کا اور بری صحبت ایمان اوراعمالِ صالحہ کی بربادی کاذریعہ ہے۔[48]

 

بچےکی جب کچھ سمجھ بوجھ رکھنے لگےاسکی پانچ طرح کے لوگوں سے دوستی نہ بننے دی جائے اور انہیں اسکے بارے میں سمجھایا جائے۔اول جھوٹا،کیونکہ دھوکے میں رکھے گا۔ دوم بخیل،کیونکہ ضرورت کے وقت ساتھ نہ دے گا۔ سوم: فاجر و فاسق،کیونکہ وہ خدا کا وفادار نہیں تو تمہارا بھی نہیں۔چہارم بیوقوف،وہ اس لئے کہ اسکا نفع والا کام بھی گھٹا دے گا۔ پنجم قطع تعلقی کرنے والا،وہ بے وفا ہے اور بیوفائی ہی کرے گا۔[49]

 

بچوں کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ایسی صحبت میں رکھیں جس میں پاکیزہ ماحول ہو تا کہ اس کے اخلاق و خصائل میں حُسن آئے۔ رسول اللہ ﷺ کا بھی معمول اقدس یہ تھا کہ بچوں کو اپنی صحبت میں رکھتے تھے۔

 

ابتدائی عمر میں ابھی چونکے بچہ گھر سے باہر نکلنا ہی شروع کرتا ہے پس والدین اور اہل خانہ کی ذمہ داری ہے کہ اسکے مزاج کے بچوں سے اسکی دوستی بنائیں۔اور وقت کے ساتھ ساتھ اسکے دائرہ کار میں آنے والے دوست احباب کا بھی پتہ رکھا جائے کہ کیسے لوگ اس کی صحبت میں حصہ دار ہیں۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺہے۔

 

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ [50]

 

" آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا اسکی محفل پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔"

 

یہ دور فتنہ وفساد کا دور ہے، ہر جانب سے فتنے کی ہوائیں چل رہی ہیں،لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ان فتنوں سے بچائیں اوران کی حفاظت پر سختی سے توجہ دیں،نیز اس جانب بھی توجہ دیں کہ بچوں کی ہم نشینی اور کھیل کود کس قسم کے بچوں کے ساتھ ہے، اس لئے کہ صحبت کا اثر ہوتا ہےاور بچہ اپنی فکری پختگی محفل اور ماحول سے بھی کرتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ﷜سےروایت ہے، رسولِ اکرمﷺنےارشاد فرمایا

 

مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ المِسْكِ وَكِيرِ الحَدَّادِ، لاَ يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ المِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ، أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ، أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً[51]

 

"نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے ۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے ۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے ۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرور پا لو گے۔"

 

والدین کااپنے بچوں کےدرمیان فرق کرنا،ایک کودوسرےپرترجیح دینا،خاص طورپربچیوں پربچوں کو ترجیح دیناانہیں کئی طرح کےذہنی،نفسیاتی اورمعاشرتی مسائل کاشکارکردیتاہے۔ "بچیوں سےنفرت اوربیزاری کامظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔لڑکیاں اللہ کی رحمت ہیں۔لڑکے اورلڑکی کی تربیت پر مساویانہ توجہ دینی چاہیے۔"[52]

 

اسی طرح اداروں میں اساتذہ کاایسا رویہ بھی بچوں کی تباہی کاسبب بنتاہے۔ان میں منفی سوچ پیدا ہوتی ہے اورتربیت حاصل کرنےکی صفت ماندپڑجاتی ہےانکےاخلاقی اوصاف ختم ہوجاتےہیں اوروہ اپنےبہن بھائیوں یا ہم جماعت بچوں سےنفرت کرنےلگتا ہےساتھ ہی والدین اوراساتذہ کامقام واحترام بھی انکےدل سےختم ہوجاتا ہے۔

 

بچے ماحول کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور معاشرے میں اس وقت بےبرائی اورفضولیات اس قدر عام ہیں کہ بچے اور نوجوان اس میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔معاشرےمیں ان فضولیات کوتو اپنایا جاتا ہےمگرتعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی۔[53]

 

یہ مسائل فی الحقیقت بچوں کی تربیت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں اوررکاوٹوں کا دور کرنا اس دور کی اہم ضروریات میں سے ہے ورنہ ایک بے راہ رو قوم کا وجود کسی صورت بھی روکا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچے تباہی وبربادی سے بچ جائیں اورملتِ اسلامیہ و پاکستانی معاشرہ اصلاحی راہ لے تو ان بچوں کی تربیت اسلامی نہج پرکرنا والدین و مُرَبِّیَان کےلئیےلازم ہے ۔

 

تربیت کاصحیح نہج پر نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہےکہ نوجوان طبقہ والدین و اساتذہ کاگستاخ اورعلماء و اسلام کا دشمن بنتاجارہاہے اور لادینی عقائدکی پرورش کرنا انکے لئےکوئی بڑی بات نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ سےدعا ہے کہ وہ ہماری اس نسل کی حفاظت فرمائے اورانہیں دین ِاسلام کی صحیح اورعملی سمجھ عطافرمائے۔ آمین

 

حوالہ جات

  1. ابن منظور،جمال الدین،لسان العرب (دارصادر،بیروت،۲۰۰۶م)، ۲/۳۳
  2. اظہر،محمد منیر،مقالات تربیت(دارالتربیۃ للنشروالتالیف، فیصل آباد،نومبر۲۰۰۹ء)،ص:۲۴۹
  3. ن۔م
  4. یوسف قرضاوی،ڈاکٹر،فطری تربیت کے اہم تقاضے(اسلامک پبلشرز لمیٹڈ، لاہور)، ص۲۹۷
  5. ابن بادیس، عبد الحميد، محمد،آثاَرُ ابْنُ بَادِيسَ(دار ومكتبۃالشركۃالجزائریۃ، طبع اول۱۳۸۸ھ)، ۱/۱۰۱
  6. عثمانی، محمد شفیع، مفتی، معارف القرآن(مکتبہ معارف القرآن ،کراچی،اپریل ۲۰۰۸)، ۱/۱۶۸
  7. محمدامین،ڈاکٹر،ہمارا دینی نظام تعلیم(دار الاخلاص، لاہور،جولائی۲۰۱۴ء)،ص:۱۶۵
  8. ماہر نفسیات اور فرانس کی ایک یونیورسٹی کا پروفیسر تھا۔ جولائی ۱۹۰۸کو سینٹ کوئینٹن سر چرانتے،فرانس میں پیدا ہوااور اگست ۱۹۹۰میں وفات پائی۔
  9. Jean Chateau, Philosophy of education, Paris, 1969, P 58: Natasha Gill, Educational Philosophy in French Enlightenment, Ashgate publishing limited, UK, P:183
  10. محمدامین،ڈاکٹر،عنوان مقالہ:"نبی اکرمﷺ کامنہاج تربیت"،مشمولہ در ماہنامہ مجلہ السیر،شمارہ ۲(رمضان، ۱۴۲۱ھ)ص:۲۵۴
  11. سورۃ التحریم ۶:۶۷
  12. ابن کثیر،اسماعيل بن عمر،ابوا الفداء،تفسيرالقرآن العظيم (تفسیرابن كثير)(دار الكتب العلمیۃ،منشورات محمد علی بيضون، بيروت،طبع اول، ۱۴۱۹ھ)، ۸/۱۹۰
  13. فیروز آبادی، محمد بن یعقوب،ابو طاہر،تفسیرابن عباس (اردو)(مکی دار الکتب، مزنگ روڈ،لاہور،۲۰۰۹ء)،۳/۳۹۳۔۳۹۲
  14. بخاری ،محمد بن اسماعیل، الصحیح الجامع، بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ(دار طوق النجاة ،طبع اولیٰ،۱۴۲۲ھ )،حدیث نمبر:۱۳۵۸
  15. عثمانی ،محمد شفیع ،مفتی ،معارف القرآن، ، ۱/۳۹۴
  16. ارم سلطانہ،عنوان مقالہ:"اسلام کا تصورِتعلیم و تربیت"،مشمولہ در ششماہی البصیرہ،نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئیج، شمارہ۲( دسمبر، ۲۰۱۲)ص:۹۶
  17. ابن السنی،احمدبن محمدبن اسحاق،عمل الیوم واللیلۃ، بَابُ مَا يُلَقَّنُ الصَّبِيُّ إِذَا أَفْصَحَ بِالْكَلَامِ (طباعۃ للنشر والتوزيع ،بیروت، لبنان، طبع اول، ۱۴۱۸ھ)، حد یث نمبر: ۴۲۳
  18. احمد بن حنبل،ابوعبد الله،المسند،مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ (مؤسسۃ الرسالۃ،طبع اول،۲۰۰۱م) ، حدیث نمبر: ۱۵۳۳۹
  19. طبرانی،ابوالقاسم،سليمان بن احمد ، معجم الاوسط،باب العین،من اسمہ عبد اللہ(دار الحرمین، قاہرہ،مصر،س ن)، حدیث نمبر: ۴۳۸۲
  20. احمد بن حنبل ،المسند،تتمہ مسندالانصار،حدیث نمبر:۲۲۰۷۵
  21. جانس خاں،ڈاکٹر:محمدکامران،عنوان مقالہ:"شاگرد کےخلاف تادیبی کاروائی کادائرہ کار"،مشمولہ در مجلہ علوم اسلامیہ ودینیہ،جنوری-جون،۲۰۱۶، شمارہ۱،ص:۵۷
  22. علوی،شفیق الرحمٰن،مولانا،عنوان مقالہ"اولادکی ظاہری وباطنی تربیت،اہمیت۔۔۔انداز"،مشمولہ در ماہنامہ دارلعلوم،کراچی،(جون،۲۰۱۶ء) ص:۳۱
  23. مسلم بن حجاج، نیشاپوری،صحیح مسلم،بَابُ قَبُولِ الصَّدَقۃ مِنَ الْكَسْبِ الطَّيِّبِ وَتَرْبِيَتِهَا(دار احیاء تراث العربی، بیروت،لبنان، س ن)، حدیث نمبر:۱۰۱۵
  24. امینی،استادابراہیم،آئینِ تربیت، (مترجم:قیصرعباس ثاقب نقوی)(مصباح الہدیٰ پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۱۲ء)،ص:۳۲
  25. نژاد،مہدی قمی: پورجوادی،نصرا للہ،جُنگ مہدوی(مرکز نشر دانشکدہ، تہران،ایران،طبع اول،۱۳۸۰ھ)،ص:۱۳۲
  26. عطاءالرحمٰن،ڈاکٹر،عنوان مقالہ:"نوجوانوں میں تعلیم و تربیت کےفقدان کاتدارک"،مشمولہ در ششماہی راحۃ القلوب،کوئٹہ،ج:۲،شمارہ۱(ج۲۰۱۸)ص :۶۰
  27. بد رالقادری، مولانا،اسلام اور تربیتِ اولاد،اداررہ معارفِ نعمانیہ،لاہور،مئی ۱۹۹۳،ص:۳۴
  28. عواجي،محمدبن محمد،مرويات الإمام الزهري في المغازي(م ن،طبع اول،۱۴۲۵ھ)،۱/۳۶
  29. ن۔م،۱/۳۵
  30. ترمذی، محمد بن عیسیٰ،الجامع ،بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ(دار الغرب اسلامی، بیروت، لبنان، ۱۹۹۸م)، حدیث نمبر:۱۶۳۷
  31. نسائی،احمد بن شعیب،السنن ،باب مُلَاعَبَةُ الرَّجُلِ زَوْجَتَهُ(موسسۃ الرسالہ،بیروت،۲۰۰۱م)، حدیث نمبر:۸۸۹۰
  32. شاہ،منورحسین، سید:اعوان،عبدالغفور،پروفیسر،ڈاکٹر،پنجاب کےسرکاری تعلیمی اداروں کےنصاب میں مطالعہ سیرت کی اہمیت :(ابتدائی تا ثانوی جماعتوں کےنصابِ اسلامیات کاجائزہ(،گلوبل جرنل آف مینجمنٹ،سوشل سائنسز اینڈ ہیومنیٹیز، شمارہ ۳،(اکتوبر۔دسمبر ،۲۰۱۷ء)ص:۲۴۲
  33. ڈاکٹر محمد امین (مدیر)،"میڈیا اور جدید تعلیم"،ماہنامہ البرہان، لاہور،دسمبر ۲۰۱۶، ص:۲۷
  34. جمیل، محمد ریاض ،اولاد کی تربیت کیسے کریں؟( ایم اے پرنٹرز،طبع اول،س ن)،ص:۳۳۵
  35. نیازی،لیاقت علی خاں،ڈاکٹر،پاکستان کے لئیے مثالی نظام تعلیم کی تشکیل،تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں(سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، فروری :۲۰۰۲ء) ص:۱۴۸
  36. Memon, Ghulam Rasool, Education in Pakistan: The Key Issues, Problems and The New Challenges, Journal of Management and Social Sciences,Vol. 3, No.1, 2007, p49
  37. Memon, Ghulam Rasool, Education in Pakistan: The Key Issues, Problems and The New Challenges, Journal of Management and Social Sciences, Vol.3, 2007, p50
  38. الطبرانی، سليمان بن احمد ،معجم الاوسط،باب الف،من اسمہ احمد(،دار الحرمين،القاهرة،۲۰۱۰م)حدیث نمبر: ۲۰۲۶
  39. ابوداؤد،سلیمان بن اشعث،السنن،بَابٌ فِي كَرَاهِيَةِ الرَّشْوَةِ(المكتبۃ العصریۃ، بيروت،س ن )حدیث نمبر:۳۵۸۰
  40. بخاری ،الجامع الصحیح، بَابُ بَعْثِ أَبِي مُوسَى وَمُعَاذٍ إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ، حدیث نمبر:۴۳۴۷
  41. طبراني،ابوالقاسم، سليمان بن احمد،الروض الداني (المعجم الصغير) ،من اسمہ یحییٰ ( المكتب الاسلامي ،دارعمار، بيروت،عمان،طبع اول،۱۴۰۵ھ،) ، حدیث نمبر:۱۱۷۶
  42. شاذلی،هندی، علاء الدين،علی بن حسام الدين،كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، فصل فی القضاء و الترغیب(مؤسسۃ الرسالۃ،طبع پنجم،۱۹۸۱م )، حدیث نمبر:۱۴۵۷۲
  43. طبراني،ابوالقاسم، سليمان بن احمد،المعجم الأوسط، من اسمہ محمد،حدیث نمبر: ۵۵۲۵
  44. جمیل، اولاد کی تربیت کیسے کریں؟، ص:۷۱
  45. ن۔م،ص:۳۳۳
  46. ندیم ظہیر،حافظ،عنوان مقالہ:ذرا سنبھل کے رہنا…کہ،مشمولہ در ماہنامہ الحدیث، خضرو،شمارہ۲۸،ستمبر۲۰۰۶،ص:۲
  47. بخاری ،الجامع الصحیح ، بَابُ عَلاَمۃ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ،حدیث نمبر:۶۱۶۸
  48. ندیم ظہیر،ذرا سنبھل کے رہنا…کہ،ص:۳
  49. جمیل،اولاد کی تربیت کیسے کریں؟،ص:۳۳۴
  50. الجستستانی،ابو داؤد،السنن، بَابُ مَنْ يُؤْمَرُ أَنْ يُجَالِسَ،حدیث نمبر:۴۸۳۳
  51. بخاری ،الجامع الصحیح، بَابٌ فِي العَطَّارِ وَبَيْعِ المِسْكِ،حدیث نمبر:۲۱۰۱
  52. میمونہ تبسم،عنوان مقالہ:"اسلامی تناظرمیں بچوں کی تربیت اوروالدین کی ذمہ داریوں کاجائزہ"،مشمولہ در ششماہی الثقافۃ الاسلامیہ،جامعہ کراچی، شمارہ:۱۱(۲۰۰۶،)ص:۳۳
  53. عطاء الرحمن،نوجوانوں میں تعلیم و تربیت کےفقدان کاتدارک،ص :۵۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...