Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Islamabad Islamicus

عہد نبوی میں مذہبی تعلیم کے رجحانات کا تحقیقی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060033219_977

Pages

42-69

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Dr.%20Nisar%20Ahmad,%20Rehana%20Kanwal.pdf

Subjects

Muslim Education Religious Islam Curriculum Mosque

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اپنی اصل کے اعتبار سے تعلیم لفظ "علم"سے ماخوذ ہے۔ علم کے معنی کسی چیز کو جاننا یا حقیقت کی گہرائی کا ادراک کرنا کے ہیں ۔انگریزی زبان میں تعلیم کا متبادل لفظ ایجوکیشن (Education) ہے جو کہ لاطینی زبان کے لفظ “educere” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب رہنمائی کرنا ہے۔[1] آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:

Education is “a process of teaching, training and learning, especially in schools or colleges, to improve knowledge and develop skills.”[2]

"تعلیم خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں میں سکھانے، تربیت دینے اور سیکھنے کا ایک عمل ہے جس سے علم میں اضافہ ہو اور مہارت حاصل کی جائے۔"

“Education, discipline that is concerned with methods of teaching and learning in schools or school-like environments…Education can be thought of as the transmission of the values and accumulated knowledge of a society.” [3]

"تعلیم ایک تربیت کا نظام ہے جس کا تعلق اسکولوں یا اسکول جیسے ماحول میں سکھانے اور سیکھنے کے طریقوں کے ساتھ ہے۔ تعلیم کو ایک معاشرے کی اقدار اور مجموعی علم منتقل کرنے کا عمل سمجھا جا سکتا ہے۔"

اس طرح ایجوکیشن کے لغوی معانی ہیں: معلومات جمع کرنا، رہنمائی کرنا اور پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا۔

تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں مفکرین نے تعلیم کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ ذیل میں چند مشہور مسلم مفکرین کی آراء پیش کی جاتی ہیں:

"تعلیم"مسلم مفکرین کے نزدیک:

الغزالی Al-Ghazali (1058-1111)

“Education is the activity of enabling an individual to recognize God and discriminate between good and evil.”

"تعلیم وہ عمل ہے جس کے ذریعے فرد کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکے اور نیکی و بدی میں تمیز کرسکے۔"

ابن خلدون Ibn Khaldun (1332-1406)

“Education is the activity of acquisition of revealed knowledge that has been delivered to us by prophets.”

"تعلیم کا مقصد حقیقت کا علم حاصل کرنا ہے جو پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔"

شاہ ولی اللہ Shah Wali Allah (1703-1763)

“Education is the activity of developing the sense of good and evil so that an individual can choose the good and reject the evil.”

"تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے فرد میں خیر و شر کا شعور پیدا کرکے خیر کو اپنانے اور شر کو دبانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔"

اقبال Iqbal (1877-1938)

“Education is the activity of recognizing God and understanding self.”

"تعلیم عرفان خداوندی اور تکمیل خودی کا نام ہے۔"

ابو الاعلیٰ مودودی Abul Ala Modoodi (1903-1979)

“Education is the activity of activating the forces of good. God has granted man the sense of good and evil. Education enables man to employ the forces of good and secure the Divine will.”

"علیم خیر کی قوتوں کو فعل میں لانے کا عمل ہے۔ پیدائشی طور پر انسان میں خیر و شر کی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ تعلیم شر کی قوتوں کو دبا کر خیر کی قوتوں کو اجاگر کرتی ہے اور انسان کو رضائے الٰہی کے حصول کے قابل بناتی ہے۔"[4]

مسلم و غیر مسلم مفکرین کے مندرجہ بالا افکار سے تعلیم کا مفہوم کچھ یوں نکلتا ہے:

  1. انسان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی نشوونما
  2. آئندہ زندگی کو خوشگوار بنانے کی تیاری
  3. انسان کو مثالی شہری بنانا
  4. نیکی و بدی کی پہچان
  5. معرفت خودی
  6. عرفان خداوندی اور رضائے الٰہی کا حصول

اسلام کی نظر میں تعلیم کی اہمیت:

اسلام میں تعلیم کی جو اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آنحضور ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی الہی نازل ہوئی، اس کا آغاز لفظ "اقراء"سے ہوا تھا جس کا معنی ہے"پڑھ"۔

﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ. اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴾[5]

"اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔"

یوں اسلام میں تعلیم کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ بنیادی طور پر مذہب اسلام تعلیم و تربیت کا ایک نظام ہے جس کی عمارت کی پہلی اینٹ "اقراء"ہے۔

خدا نے جب آدمؑ کو پیدا کیا تو سب سے پہلے اسے اسمائے اشیاء کا علم دیا گیا۔ قرآن مجید کہتا ہے:

﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾[6]

"جو لوگ نہیں جانتے کیا وہ ان لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں جو جانتے ہیں؟"

چنانچہ سید المرسلین ﷺ کو اپنے معلم "کتاب و حکمت" ہونے پر بڑا فخر تھا۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایا ہے:

عن عبدالله بن عمرو قال خرج رسول الله ذات یوم من بعض حجرہ فدخل المسجد فاذا هو بحلقتین احدهما یقرون القرآن و یدعون الله ،والاخری یتعلمون و یعلمون فقال النبی کل علیٰ خیر هَـؤُلاء یقرؤن القرآن و یدعون الله فان شاء اعطاهم و ان شاء منعهم و هَـؤُلاء یتعلمون و یعلمون و انما بعثت معلما فجلس معهم ۔[7]

"آنحضور ﷺ ایک دن مسجد نبویؐ میں تشریف لائے اور صحابہ کرام کے دو حلقے دیکھے۔ ایک تلاوت و دعا میں مصروف تھا، دوسرا درس و تدریس میں مصروف تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پہلے ارشاد فرمایا: دونوں گروہ اچھے کام میں مشغول ہیں۔ پھر انما بعثت معلما کہہ کر علمی حلقے میں بیٹھ گئے۔"

آنحضور ﷺ نے فرمایا:

"طلب العلم فریضة علی کل مسلم"[8]

"علم کی طلب ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔"

گویا یہ اسلام ہی ہے جس نے عام تعلیم اور ہر شخص کے لیے علم کا تصور پیش کیا۔ ایک طرف اسلام نے تعلیم کو بنیادی ضرورت قرار دیا تو دوسری طرف اس کو حاصل کرنے کی ذمہ داری فرد اور معاشرے دونوں پر عائد کی ہے۔ اسلام کا یہ اصول ہے کہ جو چیز سب پر فرض ہو، اس کی فراہمی کی اوّلین ذمہ داری فرد پر جبکہ آخری ذمہ داری معاشرے اور ریاست پر عائد کرتا ہے۔ اصحاب صفہ میں سے کچھ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود ہی تگ و دو کرتے تھے۔ پھر مسلمان اہل ثروت ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دل کھول کر عطیات و وظائف دیتے تھے اور محمد ﷺ خود ان کی ضروریات پوری کرتے۔ بلکہ جب تک ان کے کھانے کا بندوبست نہ ہو جاتا، آپ ﷺ کھانا تناول نہ فرماتے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں تعلیم ہمیشہ مفت رہی ہے۔ [9]

نظام تعلیم:

نظام تعلیم ایک کلی وحدت کا نام ہے جس کے تمام عناصر باہم مربوط، منظم، مرتب، متعامل اور متعاون ہوتے ہیں جن کی روح ایک ہوتی ہے اور وہ سب عناصر مشترک مقاصد تعلیم کے حصول کے لیے باہم متحد ہوتے ہیں۔[10]

نظام تعلیم کے واضح اجزاء یہ ہیں: نئی نسل کے افراد جنہیں طالب علم کہا جاتا ہے، تہذیب و ثقافت کے ترجمان یعنی استاد، تہذیب و ثقافت کی ترسیل کا پروگرام یعنی نصاب، ترسیل کی ترتیب یعنی مدارج تعلیم، اثرات کا جائزہ یعنی امتحان اور دیکھ بھال کا نظام یعنی انتظام۔

نظام تعلیم، نظام پیداوار سے مشابہ ہوتا ہے۔ جس طرح کسی نظام پیداوار میں خام مال کو کسی خاص عمل یا عملوں کے مجموعے سے گزار کر مطلوبہ ساخت اور خصوصیات کی حامل یکساں اشیاء حاصل کی جاتی ہیں، اس طرح نظام تعلیم میں نئی نسل کے خام افراد کو مخصوص عملوں سے گزار کر مطلوبہ کردار و خصوصیات کے حامل افراد میں ڈھالا جاتا ہے۔ اور جس طرح نظام پیداوار میں کارکن کی تربیت و کردار پیدا شدہ اشیاء کے معیار کو اچھا یا بُرا بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اسی طرح نظام تعلیم میں بھی کارکن یعنی استاد کے تربیت و کردار بھی زیر تعلیم افراد کے کردار کو اچھا یا بُرا بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔[11]

اسلامی نظام تعلیم

تعلیم کے عناصر کا ایسا مجموعہ جو باہم مربوط ہو کر اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہوں اور ہم آہنگ ہو کر ایک واحدہ کی حیثیت اختیار کرلیں تو یہ عناصر کا مجموعہ اسلامی نظام تعلیم کہلائے گا۔[12]

اسلامی نظام تعلیم سے مراد ایسا نظام تعلیم ہے جس میں ایک مسلمان حصول تعلیم کے بعد خاص مہارت اور قابلیت حاصل کرتا ہے، اپنے لیے معزز پیشہ اختیار کرتا ہے اور بحیثیت مسلمان اپنا فرض انجام دیتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ایم۔ اے۔ عزیز لکھتے ہیں:

"اسلامی نظام تعلیم سے مراد ایسا تعلیمی نظام ہے جس میں ایک مسلمان بچہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے خاص علم و فن میں مہارت اور قابلیت حاصل کرنے کے ساتھ ایک اچھا مسلمان بھی بنے، جس کا قلب ایمان اور تقویٰ سے سرشار ہو، ضروری عقائد سے واقف ہو، ضروریات دین اور فرائض کا علم رکھتا ہو اور اسلامی اعمال و اخلاق کا صحیح نمونہ ہو۔ اگر کسی نے اپنے لیے طب کا پیشہ اختیار کیا ہے تو وہ اپنے فن میں ایک مسلمان ڈاکٹر کا کردار ادا کرے اور اگر اس نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا ہے تو وہ اپنی تجارت میں ایک مسلمان تاجر کا رول ادا کرے اور اگر اس نے اپنے لیے ایک فوجی زندگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ اپنی عسکری زندگی میں ایک مسلمان مجاہد کا کردار ادا کرے۔ اس طرح زندگی کے جس شعبے سے اس کا تعلق ہو، بحیثیت مسلمان اپنا فرض انجام دے، اس لیے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق کچھ احکام و آداب بیان کیے ہیں۔"[13]

اسلام نظام تعلیم سے انسان کی اخروی اور دنیوی فوز و فلاح حاصل ہوتی ہے۔ اخروی فلاح و بہبود سے انسان جہنم کے عذاب سے بچ جاتا ہے اور جنت کی نعمتوں کو پا لیتا ہے۔ دنیاوی فلاح و بہبود حاصل ہونے سے انسان امن و سکون کی زندگی گزارتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ایم۔ اے عزیز لکھتے ہیں:

"وہ نظام تعلیم جس کے ذریعے ان تمام امور و اشیاء سے آگاہی اور واقفیت حاصل ہوسکتی ہے جس کا انسان کی اخروی اور دنیوی فوز و فلاح سے تعلق ہو، اس فوز و فلاح سے جو اسلام چاہتا ہے۔۔۔اخروی فوز و فلاح کا مطلب ہے انسان کا جہنم کے عذاب سے بچ جانا اور جنت کی نعمتوں کا پالینا اور دنیاوی فوز و فلاح کا مطلب ہے انسان کا اپنی طبعی عمر تک امن و اطمینان کے ساتھ زندہ رہنا اور اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق ارتقاء کے اس درجے تک پہنچنا جو اس کے لیے مادی اور روحانی طور پر ممکن ہے۔"15

اسلامی نظام تعلیم کے عناصر

اسلامی مقاصد تعلیم

اسلام نہ صرف ایک دین بلکہ ایک ضابطۂ حیات ہے۔ یہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ قرآن پاک ہے جو کہ رشد و ہدایت کا خزانہ ہے۔ اس میں انسان کے تمام معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی مسائل کے حل موجود ہیں۔ حصول علم کے لیے اسلام نے تعلیمی مقاصد کا واضح طور پر تعین کیا ہے۔ اسلام علم برائے علم کا قائل نہیں۔ وہ تعلیم کو منزل مقصود تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کی منزل، اسلامی نظریہ حیات سے آگاہی ہے۔ تعلیم مسلمان طلباء کو اسلامی اصول حیات سے روشناس کراتی ہے تاکہ وہ انہی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور ہر میدان میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنا راستہ خود بنا سکیں۔اسلام کے نزدیک تعلیم کا ایک مقصد خدا کی معرفت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے روشنی اور ہدایت کا سامان فراہم کرنا ہے۔ تعلیم کے مقاصد کے حوالے سے منور ابن صادق لکھتے ہیں:

"تعلیم کا بنیادی مقصد ذات باری تعالیٰ کی رضا اور معرفت کا حصول ہے۔ اس وجہ سے وہ علوم آخرت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔"[14]

تعلیم کا مقصد انسان کے اندر خوف خدا پیدا کرنا ہے تاکہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کرے۔ تعلیم نے اگر طالب علم کے اندر خدا کی شکر گزاری اور احسان مندی کا جذبہ پیدا کردیا تو وہ خدا شناسی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر شمیم حیدر ترمذی لکھتے ہیں:

"اسلام میں تعلیم کا مقصد انسان اور خدا کے درمیان اس تعلق کو استوار کرنا ہے جس کے نتیجے میں انسان بخوشی و خاطر اپنی زندگی کے تمام امور میں خداوندی احکام پر عمل کرتا اور رضائے الٰہی کو اپنی پسند و ناپسند کا معیار ٹھہراتا۔"[15]

اسلامی نظریہ تعلیم کے مطابق سب سے زیادہ اہمیت طالب علم کے کردار کی تشکیل کو حاصل ہے۔ تعلیم جب تک اچھا کردار تعمیر نہ کرے، اپنا حقیقی مقصد حاصل نہ کرپائے گی۔ نبی کریم ﷺ کے بنیادی مشن میں تزکیہ نفس یعنی انسانی زندگی اور روح کی تطہیر شامل تھی اور اسے اوّلیت حاصل تھی۔[16] ارشاد ربانی ہے:

﴿كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْن﴾[17]

"جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔"

امام غزالی کے نزدیک تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف علم کی تشنگی دور ہو بلکہ طلباء کے اخلاقی کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف کو بھی بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے مولانا صدر الدین اصلاحی لکھتے ہیں:

"اسلام ایک طرف فرد کی انفرادیت کی تکمیل کرتا ہے تو دوسری طرف اسے معاشرے کا ایک صالح اور مفید رکن دیکھنا چاہتا ہے جو اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر اپنے ماحول کو حسین تر اور صالح تر بنا سکے۔ اس طرح اسلامی تعلیم کا مقصد انفرادیت اور اجتماعیت میں بہترین توازن پیدا کرنا ہے۔"[18]

انسان کو معقول معاش کے قابل بنانا، اس کی تمام تر صلاحیتوں، معاش، رویے، امتیازات میں توازن اور بالیدگی و نشوونما کے ساتھ اللہ کا اطاعت گزار بندہ بنانا ہے۔ علوم دینی، وصفی، عمرانی، طبعی، فنی اور حرفتی کی تربیت دینا تاکہ وہ رزق حلال کمانے کے قابل ہوسکیں۔

اسلامی ریاست چلانے کے لیے افراد تیار کرنا اور استحکام معاشرہ کے لیے معیار اخلاق بلند کرنا۔[19]

ابو عمار زاہد الراشدی کے نزدیک اسلامی نظام تعلیم کا بنیادی محور یہ ہے کہ:

نئی نسل کو اللہ تعالیٰ کے احکامات قرآن مجید کی صورت میں پہنچائے جائیں۔ قرآن کا معنی و مفہوم اور مقاصد نبی کریم ﷺ کی وحی الٰہی کی روشنی میں سمجھائے جائیں۔ نئی پود کے افراد کو "حکمت و سنت" یعنی زندگی گزارنے کے نبوی اسلوب سے آگاہ کیا جائے جس میں بول چال سے لے کر تجارت، زراعت، دیگر ذرائع معیشت اور مختلف علوم و فنون میں مہارت سمیت زندگی کے تمام مسائل شامل ہیں۔[20]

محمد مصلح الدین کے نزدیک اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم کا مقصد دین کو سمجھنا اور اس میں بصیرت حاصل کرکے اس کے مزاج اور روح سے آشنا ہونا ہے۔ اسلام کے تعلیمی نظام میں مقصود نہ دولت دنیا ہے، نہ علمی تفاخر، نہ شہرت و مباہات۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے جن مقاصد محمودہ کی ترغیب دلائی،وہ یہ تھے: خدا کی ناراضی کا ڈر (خشیت الٰہی)، فرائض دینی کا علم اور ان کی ادائیگی کا اہتمام، تزکیہ نفس یا تعمیر کردار، دنیا سے بے نیازی اور اللہ تعالیٰ کے دین کا احیاء و غلبہ۔[21]

معلم و متعلم کے تعلقات

اسلام میں عالم اور متعلم دو الگ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی شخصیت کےد و پہلو ہیں۔ ہر عالم کے لیے لازمی ہے کہ وہ معلم بھی ہو، اس کے پاس جو علم ہے اس کو دوسروں تک پہنچائے ورنہ وہ کتمان علم کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔

اسلامی نظام تعلیم میں آپ ﷺ پہلے معلم اعلیٰ تھے۔ اکابر صحابہ تعلیم و تربیت کے فریضہ کی انجام دہی میں ان کے معاون تھے، معلمین شفیق و رحیم تھے۔ شاگرد مؤدب و فرمانبردار تھے۔ ان میں حضرت سلیمان فارسیؓ اور ابوذر غفاریؓ جیسے زاہد اور خرقہ پوش تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور علی مرتضیٰؓ جیسے عالم اور فقیہ تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ اور خالد بن ولیدؓ جیسے فاتح اور مجاہد تھے۔ ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ جیسے دنیا کے جہاں بان اور ملکوں کے فرمانروا تھے۔ یہاں ہر رنگ اور ہر مذاق کے طالب علم تھے اور مسجد نبوی ﷺ ایک جامع اور عمومی درسگاہ تھی جہاں ذوق، مناسب طبع اور استعداد کے لحاظ سے سب لوگوں کو تعلیم مل رہی تھی۔[22]

مسلمان اساتذہ نے ہمیشہ طلبہ کی فضیلت علمی اور سیرت سازی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ مسلمان اساتذہ کا کردار مثالی تھا۔ دوسری طرف مسلمان طلبہ بھی اپنے اساتذہ سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور وہ بلاشبہ سعادت مندی، جفا کشی اور علم دوستی کا مظہر تھے۔ اسلامی نظام تعلیم میں استاد اور شاگرد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مثبت ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں:

"اس نظام میں صرف استاد اور شاگرد میں قلبی تعلق ہی نہیں تھا بلکہ استاد طلبہ کے تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کی فکر بھی کرتے تھے اور انہیں ہر وقت یہ خیال دامن گیر رہتا تھا کہ طلبا کا معیار علم ہی بلند نہ ہو بلکہ ان کا معیار اخلاق بھی بلند ہو اور وہ اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن کر نکلیں۔ اگر اس معاشرے میں تقویٰ، ایفائے عہد، عفت و عصمت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی، اخلاق و مروّت اور ہمدردی و اخوت کا دور دورہ تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ تعلیم ایک اخلاق ساز قوت کا کردار ادا کرتی تھی۔"[23]

استاد اور شاگرد کے درمیان ذاتی تعلق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پروفیسر حمید احمد خان لکھتے ہیں:

"استاد کے لیے لازم ہے کہ اپنے شاگردوں میں سے ہر ایک فرد بشر کو بطور ایک فرد کے پہچانے اور یہ پہچان بجز صحیح ہمدردی کے حاصل نہیں ہوتی۔ دلی شفقت اور موانست کے بغیر استاد اور شاگرد کا رشتہ، خواہ اس میں کتنی ہی مقدار علم داخل کیا جائے، کھوکھلا اور مصنوعی رہتا ہے۔ تعلیم کی بنیاد لفظوں کے ڈھیر پر نہیں، ایک ذاتی تعلق پر قائم ہوتی ہے۔"[24]

اسلامی نظام تعلیم میں استاد اور شاگرد کے تعلق کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے خرم جاہ مراد لکھتے ہیں:

"مسلمانوں کے نظام تعلیم کی ہمیشہ یہ خصوصیت رہی کہ اس میں استاد اور شاگرد کے درمیان ذاتی تعلق رہا۔ استاد شاگرد کی ذات سے گہری دلچسپی رکھتا تھا اور بڑی بڑی کلاسوں کے باوجود استاد صرف لیکچر دے کر نہ چلا جاتا تھا بلکہ اس انسانی مواد میں پوری دلچسپی لیتا تھا جس کی حیثیت اس کے لیے ایک امانت تھی۔"[25]

معلم کا منصب پیغمبرانہ منصب ہے۔ اس کی ذمہ داری بڑی عظیم ذمہ داری ہے۔ پیغمبر اپنے کام پر اجر طلب نہیں کرتے۔ صاحب مال معلمین کے لیے پسندیدہ یہی ہے کہ وہ مشاہرہ نہ لیں۔ معلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام غزالی فرماتے ہیں:

"شاگردوں کی خیر خواہی اور رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے، اپنی اولاد کی طرح سمجھے، برائیوں سے روکنے کے لیے پیار و محبت کا طریقہ اختیار کرے، طلباء کے سامنے اپنے مضمون کے مقابلے میں دوسرے مضامین کی بُرائی نہ کرے، اپنے علم کے مطابق عدل کرے۔ مؤثر تدریسی عمل کے لیے ضروری ہے کہ معلم سبق اچھی طرح تیار کرکے آئے۔"[26]

سرکار رسالت ﷺ کی حکمت تعلیم کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ جس طرح معلم کو متعلمین کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے، اسی طرح متعلمین کے لیے لازم ہے کہ وہ معلم کا ادب و احترام کریں۔

وتواضعو لمن تعلمون منه۔[27]

"جس سے علم حاصل کرو، اس سے عاجزی سے پیش آؤ۔"

اس ہدایت کا یہ تقاضا از خود مضمر ہے کہ معلم بلحاظ قابلیت، کردار اور معلمانہ روش کے ایسے اوصاف کا متصف ہو۔

مسجد کا کردار:

ایک اور چیز تعلیم اور مسجد کا باہمی تعلق ہے ۔ مسجد نبویؐ میں پہلی تعلیم گاہ کے قیام نے اس روایت کو قائم کردیا اور بعد میں مسلمانوں کی پوری تاریخ میں اس روایت کو فروغ دیا گیا اور اس کے ذریعے طلبہ کی زندگیاں ہمارے مخصوص ثقافتی نظام کے سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔[28]

مسجد اسلامی معاشرے کے مستقل اور مرکزی ادارے کے طور پر ہر اسلامی دور میں اہم رہی ہے۔ مسجد صرف ایک عبادت خانہ نہیں بلکہ دربار، عدالت، مقام مشاورت، مکتب، اقامت گاہ، کتب خانہ، مطب، فنون لطیفہ کی نمائش اور اعلانات کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہ اخلاق ساز ادارہ دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص رہا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ جاتے ہوئے مدینہ سے باہر مسجد قبا کی بنیاد ڈالی جو اسلام میں سب سے پہلی مسجد ہے۔ آپ ﷺ جب مدینہ پہنچے تو آپ نے" المربد" میں مسجد نبویﷺ کی بنیاد ڈالی اور اس مسجد میں مسلمانوں نے دینی و دنیاوی تعلیم دینی شروع کی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں مدینہ میں نو اور مساجد تھیں جہاں تعلیم و تدریس کا مقدس فریضہ سر انجام دیا جاتا تھا۔ مہر گل محمد ان مساجد کی فہرست دیتے ہیں:

"مسجد بنی زریق، مسجد بنی غفار، مسجد اسلم، مسجد جہنیہ، مسجد بنی عمرو، مسجد بنی ساعدہ، مسجد بنی عبید، مسجد بنی سلم، مسجد بنی رائح۔"[29]

تعمیر مسجد اور کردار مسجد پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر بختیار حسین صدیقی لکھتے ہیں:

"مسجد اسلام کا روایتی ادارہ ہے جس کی ابتداء مسجد نبوی سے ملحق اصحاب صفہ کی درس گاہ سے ہوئی جو باہر سے آنے والے طلبہ کے لیے دارالاقامہ کا کام دیتی تھی اور مدرسے کا بھی۔ پہلی صدی ہجری میں جہاں جہاں بھی اسلام کے قدم جمے، مسجد تعلیم کا مرکز رہی۔"[30]

نصاب تعلیم

اسلامی تعلیم کے نصاب کے ضمن میں مولانا محمد طاسین لکھتے ہیں:

"ایک اسلامی معاشرے کے لیے صحیح نظام تعلیم وہ ہو سکتا ہے جس میں روحانی علوم کے ساتھ مادی علوم پڑھنے اور پڑھانے کا بھی پورا انتظام ہو۔ چنانچہ جو نظام تعلیم محض روحانی علوم پر مشتمل ہو یا محض مادی علوم پر مشتمل ہو، مکمل طور پر اسلامی نظام تعلیم نہیں کہلا سکتا۔ مکمل طور پر اسلامی نظام تعلیم وہ ہوگا جس میں دین و دنیا کے نام پر دو قسم کے علوم نہ ہوں بلکہ تمام علوم دین کے نام پر ہوں اور ان سب کا مقصد انسانی فوز و فلاح کے اس مقصد کو بروئے کار لانا ہو جو دین اسلام نے بتایا ہے۔"[31]

آنحضور ﷺ مسلمانوں کے پہلے معلم تھے اور صفہ مسجد نبوی پہلا باقاعدہ اسلامی دارالعلوم تھا۔ یہاں نصاب تعلیم کا مرکز و محور قرآن حکیم تھا۔زمانہ رسالت کے بعد خلفائے راشدین کے عہد میں قرآن و حدیث شامل نصاب رہے۔ حضرت عمرؓ کےد ور میں شعر و ادب بھی شامل نصاب ہوگئے۔ عربی زبان و ادب کی تعلیم فہم قرآن و حدیث کے لیے ممد تھی۔

عربی زبان چونکہ قرآن و حدیث کی زبان ہے لہٰذا اس کے متعلقہ علوم یعنی نحو، صرف، لغت اور معانی بھی شامل نصاب ہوگئے۔ احادیث کی جانچ پرکھ کا سوال ہوا تو علم اسماء الرجال ظہور پذیر ہو کر نصاب کا جزو بن گیا۔

دینی اور دنیوی علوم میں قرآن و حدیث اور فقہ و تفسیر کے علاوہ تاریخ و فلسفہ، شعر و ادب، کتابت و خطابت، نقاشی و خوشنویسی، علم کیمیا اور موسیقی جیسے علوم و فنون بھی عہد بنو امیہ میں شامل نصاب ہوگئے۔

دور عباسیہ میں قرآن و حدیث کے علاوہ قرآن و کتابت، خوشخطی، عربی گرائمر اور سیرت نبوی ﷺ کے متعلق تاریخی حقائق نیز علم حساب اور صرف و نحو کی مبادیات کی تعلیم بھی شامل نصاب تھی۔ اس دور میں مروج نصاب تعلیم میں شامل علوم کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا گیا۔

اوّلوہ علوم جن کا تعلق تفہیم القرآن سے ہے۔ ان میں قرأۃ و تفسیر، فقہ، کلام، صرف و نحو، شعر و ادب اور لغت و بیان جیسے علوم شامل ہیں۔

دوموہ علوم جو مسلمانوں نے غیر عربوں سے حاصل کیے، انہیں علوم عقلیہ کہتے ہیں۔ ان میں فلسفہ، اقلیدس، طب، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ، موسیقی اور نجوم شامل ہیں۔

علوم و فنون

العلم کے علاوہ حضور ﷺ نے ہر قسم کے مفید علوم و فنون کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ صحت زبان کے اہتمام کی تلقین کی۔ فن کتابت کے لیے ہدایت دی۔ صحابہؓ کو عبرانی زبان سیکھنے اور تورات کا علم حاصل کرنے پر متوجہ کیا۔

"عن زید بن ثابت قال امرنی رسول الله ﷺ ان تعلم السریانیة "[32]

"حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھےسریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔"

نوجوانوں کو تعلیم جہاد دینے کے لیے دوڑ اور تیر اندازی کے مقابلے کرائے۔ عین میدان جنگ سے قلعہ شکن آلات بنانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو مقام جرش کی طرف بھیجا۔ قرآن پاک میں ہے:

﴿وَأَعِدُّوۡا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ﴾[33]

"تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیا ررکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی۔"

جبکہ خواتین کو اس دور کی ضروریات کے مطابق چرخہ کاتنے کی نصیحت کی۔

عہد نبوی ﷺ میں عام تعلیم کا خاکہ یوں تھا:

دینی علومقرآن، حدیث، فقہ، تجوید۔

عقلی و دنیوی علومہیئت، انساب، ریاضی، طب۔

لغت و ادبعربی زبان و ادب، غیر ملکی زبانیں بالخصوص عبرانی۔

فنونخطاطی، اسلحہ سازی۔

ہم نصابی مشاغلگھڑ سواری،، گھڑ دوڑ، تیراکی، نشانہ بازی۔

شعائر اسلام کی پابندی ان کے علاوہ تھی جس کی لازمی حیثیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

آنحضورﷺ کا وسیع تصور تعلیم قرآن کے جس کلمہ حکمت پر مبنی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو آخرت کی بھلائی کے ساتھ دنیا میں بھی بھلائی حاصل کرنی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾[34]

"اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں اور ہمیں بچا آگ کے عذاب سے۔"

اسلامی نظام تعلیم کے نصاب کے حوالے سے منور ابن صادق لکھتے ہیں:

"اسلامی نظام تعلیم نے دنیائے علم و دانش میں انقلاب عظیم برپا کردیا۔ مختلف علوم و فنون میں بے شمار تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آئیں اور نئے نئے علوم ایجاد ہوئے۔"[35]

اسلامی نصاب تعلیم سے متعلق ایک عام غلط فہمی کا مثبت جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ایم۔ اے عزیز رقمطراز ہیں:

"نصاب کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ جو مضامین ان مدرسوں میں پڑھائے جاتے تھے یا جو اس وقت پڑھائے جاتے ہیں، ان کا تعلق صرف قرآن و حدیث اور متعلقہ مضامین سے ہے۔ دوسرے مضامین یا تو پڑھائے نہیں جاتے یا ان کے نفس مضمون قطعی دور ازکار ہیں جن میں نہ کوئی ربط ہے اور نہ کوئی تسلسل۔ یہ بات اتنی صحیح نہیں ہے جتنی آسانی سے کہہ دی جاتی ہے۔ ان تعلیم گاہوں میں علم کی ہر نئی جہت کا ایک مقام تھا اور تدریس و تحقیق کی نوعیت کے اعتبار سے اس کا اہتمام ہوتا تھا۔"[36]

آنحضور ﷺ کا طریقۂ تدریس

حضور ﷺ نے کار تعلیم کے لیے مختلف دائرے اور مختلف سطحیں مقرر فرمائیں۔* ایک دائرہ عمومی تعلیم کا تھا۔

  • دوسرا دائرہ خصوصی مجالس کا تھا۔ جس کا مقصد معیاری علماء اور قائدین کو تیار کرنا تھا۔
  • تیسرا دائرہ خواتین کی تعلیم کا تھا جس کے لیے آپ نے ہفتے میں ایک دن مخصوص کردیا تھا اور جس کے لیے حضرت عائشہ کو مامور فرما کر لوگوں کو تلقین فرمائی کہ دین کا آدھا علم یعنی نظام معاشرت اور خواتین کے متعلق معلومات ان سے حاصل کرو۔
  • چوتھا دائرہ خاص خاص موقعوں پر خاص خاص افراد کو انفرادی توجہ سے تعلیم و تربیت دینے کا تھا۔
  • پانچواں دائرہ باہر سے حصول تعلیم کے لیے آنے والے وفود کو تیار کرکے قبائل میں فروغ تعلیم کے لیے واپس بھیجنے کا تھا۔[37]

دین سے متعلق ہر قسم کی بات آپ ﷺ سے دریافت کی جاتی تھی۔ آپ ﷺ سائل کو سمجھاتے تھے۔ اس کی تشفی فرماتے تھے۔ اس درس میں شرکت کی نیت سے صحابہ کرامؓ کی اکثریت فجر کی نماز مسجد نبویؐ میں ادا کرتی تھی اور اس درس میں شریک ہوتی تھی۔ مجبوری کی وجہ سے جو صحابہ کرامؓ مجلس میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، وہ حاضر باش صحابہؓ سے آپ ﷺ کی گفتگو سن لیتے تھے اور باخبر ہو جاتے تھے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے باہمی اتفاق کرلیا تھا۔ ایک روز ایک صحابیؓ جاتے اور وہ اپنے دوست کو باخبر کرتے اور دوسرے روز دوسرے صحابیؓ جاتے اور وہ آکر اپنے دوست کو باخبر کرتے۔ اس طرح تعلیم سے ان کا ناغہ نہ ہوتا تھا۔[38]

حضور اکرم ﷺ فصیح زبان میں ایک ایک لفظ مخاطب اور سامع کے دل و ذہن میں اتارتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:

انا افصح العرب۔

"میں اہل عرب میں فصیح تر ہوں۔"

ادبنی ربی فاحسن تادیبی۔

"میری تربیت خالق کائنات نے خود کی ہے اور مجھے بولنے کا انداز اس نے خود سکھایا ہے۔"[39]

آپ ﷺ کے دل نشیں انداز گفتگو کا اعجاز تھا کہ سامعین بول اٹھتے تھے:

"اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ جس انداز میں وعظ فرماتے ہیں، ہمیں گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ آپ ﷺ کا آخری وعظ ہے، لہٰذا ہمیں اور سنائیے۔"[40]* آپ ﷺ کی تدریس کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر تھی۔ جبر و تشدد کا کہیں گمان تک نہ تھا۔ حضور اکرم ﷺ اپنےساتھیوں کو ہدایت دیتے ہیں کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو، مشکلات نہ پیدا کرو۔[41]

  • آپ ﷺ نے علمی خدمات کا اجر کبھی نہ لیا۔
  • آپ ﷺ نے لوگوں سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کی۔
  • آپ ﷺ نے تعلیم و تربیت میں اصول تدریج کو ہمیشہ سامنے رکھا۔
  • آپ ﷺ سامعین کی اکتاہٹ کا پورا خیال رکھتے تھے اور مناسب وقفوں پر خطاب فرماتے تھے۔
  • آپ ﷺ اصول تکرار سے کام لیتے تھے تاکہ ہر طبقے اور ذہنی استعداد کے لوگوں تک بات پہنچ جائے۔
  • آپ ﷺ گفتگو میں سوال اٹھاتے اور سامعین کے سوالات کے جوابات خندہ پیشانی سے دیتے تھے۔[42]

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو طریقہ تدریس یوں بتایا:

"بلاؤ اپنے رب کی راہ پر، حکمت اور عمدہ طریقے سے، نصیحت کے ذریعے اور ان سے بحث کر بہترین طریقے سے۔"

معلمین اپنے شاگردوں کو حکمت آمیز پیرائے میں تعلیم دیں تاکہ طالب علم میں تعلیم کا شوق باقی رہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی سے واضح ہے:

عن ابی وائل قال: کان عبدالله یذکر الناس فی کل خمیس، فقال له رجل: یا ابا عبدالرحمٰن، لوددت انک ذکرتنا کل یوم، قال: اما انه یمنعنی من ذلک انی اکرہ ان املکم، وانی اتخولکم بالموعظة کما کان النبی یتخولنا بها مخافة السامة علینا۔[43]

"حضرت عبداللہ بن مسعود ہر جمعرات کو وعظ کیا کرتے تھے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضرت روزانہ وعظ کیا کریں۔ فرمایا میں تم کو تھکانا نہیں چاہتا اور میں تمہارا ایسا ہی خیال رکھتا ہوں جیسا رسول اللہ ﷺ ہمارا خیال فرماتے تھے۔"

تعلیم نسواں:

آپ ﷺ کی ازواج مطہرات عورتوں کی تعلیم کا اہم ذریعہ بن گئیں۔ خاص طور پر حضرت عائشہؓ نے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرمایا۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

خذو نصف دینکم عن الحمیرا۔[44]

"نصف دین تم حمیرا (حضرت عائشہؓ) سے سیکھو۔"

لہٰذا نہ صرف عورتیں حضرت عائشہؓ سے تعلیم پاتی تھیں بلکہ صحابہ کرام بھی آپؓ سے علمی فیض پاتے تھے۔ چنانچہ مسروق کہتے ہیں:

والله لقد رأیت اصحاب محمد ﷺ الاکابر یسالونها عن الفرائض۔[45]

"خدا کی قسم میں نے بہت پڑھے لکھے صحابہ کرامؓ کو (حضرت عائشہؓ سے) سے علم الفرائض کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے دیکھا۔"

عورتوں کو نماز جمعہ میں شریک کیا جاتا تھا تاکہ وہ مسائل سیکھ سکیں۔ آنحضور ﷺ کے ان ہی احکامات و ترغیبات کی بناء پر علماء اسلام نے عورت کی تعلیم کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی۔

امتحانات و نظام جائزہ

امتحان ایک ایسا عمل ہے جس سے معلوم کیا جاتا ہے کہ طالب علم نے مقررہ عرصہ میں تعلیمی مقاصد کس حد تک حاصل کیے، وہ علم، رویے، کردار سازی اور مہارتوں کے میدان میں کس حد تک آگے بڑھا ہے۔

انسان کوئی سا بھی کام کرے اس کی تکمیل کے بعد وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کام سے جو نتائج وہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ حاصل ہوئے کہ نہیں؟ پورے حاصل ہوئے یا ادھورے؟ اس سلسلے میں اس نے جو اقدامات کیے، وہ موزوں تھے یا نا موزوں اور آیا ان سے زیادہ موزوں اقدامات ہوسکتے تھے یا نہیں؟ اس سے کہاں کہاں اور کیا کیا غلطیاں سر زد ہوئیں؟ ان غلطیوں سے نتائج پر کیا اثر پڑا؟ ان غلطیوں سے سے کس طرح بچا جا سکتا تھا؟ جب وہ یہ سب کچھ جاننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ حقیقتاً اپنے عمل، اس کے محرکات اور اقدامات کا بغور جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی ذہنی و عقلی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ تجربہ کار بنتا ہے اور اپنے آئندہ کاموں کی انجام دہی کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔[46]

جائزے کی اسلامی ماہیت

کسی بھی نظام تعلیم میں جائزہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام میں تدارک و توازن (Check & Balance) پر کافی زور دیا ہے۔ اسلامی تناظر میں جائزہ "احتساب" کے ہم معنی ہے۔ جائزے کا مطلب ہے کہ کسی طے شدہ پروگرام کے تحت فیصلہ دینا۔ جائزے کا قرآنی تصور توازن، انصاف، فرض اور اعتماد پر مشتمل ہے۔ جائزے کا مقصد اشیاء کی حقیقی نوعیت کو جاننا ہے۔ جائزے کے دوران ہم اشیاء کی صحیح قدر و اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کے اچھے یا برے ہونے کا پتا لگاتے ہیں۔ تاہم جائزے کے لیے یہ ضروری ہے کہ متعلقہ مواد مہیا کیا جائے۔

اسلام میں جائزے کے معنوں میں احتساب کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ زندگی بذات خود ایک امتحان ہے کیونکہ آخرت میں ہر عمل کا احتساب ہونا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا﴾[47]

"قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک ترازو رکھ دیں گے۔ پھر کسی شخص پرذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا، وہ ہم سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔"

اسلام محض علم ہی کو اہم نہیں سمجھتا جب تک کہ اس کے مطابق عمل نہ ہو۔ حضور ﷺ نے ایسے علم سے بچنے کے لیے خدا کی پناہ طلب فرمائی ہے جس سے لوگوں کو نفع نہ ہو۔حدیث قدسی ہے:

عن ابی ھریرہؓ قال کان رسول الله یقول اللهم انی اعوذبک من الا ربع من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعاء لا یسمع۔[48]

"حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں رب سے چار چیزوں کی پناہ مانگتا ہوں، وہ علم جس سے لوگوں کو نفع نہ ہو، وہ دل جس میں خوف خدا نہ ہو، وہ نفس جو سیر نہ ہو، وہ دعا جو قبول نہ ہو۔"

جائزے کا اسلامی نقطہ نظر:

اسلام کے اوّلین دور میں موجودہ زمانے کی طرح امتحانات رائج نہیں ہوتے تھے۔ آپ ﷺ اپنے بعض اصحاب کا امتحان لیتے تھے۔ آپ ﷺ ان کی علمی ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی سوال کر لیتے۔ اگر کوئی جواب دینے میں کامیاب ہوجاتا تو آپ ﷺ اس کی تعریف کرتے اور حوصلہ بڑھاتے بلکہ جواب دینے میں کامیاب ہو جانے پر بے پایاں محبت و شفقت کی وجہ سے اس کے سینے پر ہاتھ مارتے۔ حدیث قدسی میں ہے:

"امام مسلم اپنی کتاب میں ابی کعبؓ (کنیت ابو المنذر) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یا ابا المنذر! ایّ آیة من کتاب الله معک اعظم؟ یعنی کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے نزدیک بڑی ہے؟ ابو منذر نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا: کون سی آیت؟ راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا میرے نزدیک" الله لا اله الا هو الحی القیوم" سب سے بڑی آیت ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے راوی کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا:" لیھنک العلم" یعنی تمہیں علم مبارک ہو۔"[49]

حضور ﷺ کی تعلیمی حکمت عملی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تکمیل نصاب کی سند تکمیل بھی عطا فرماتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے قرآن حکیم کے چار بڑے معلمین کو علم کی سند عطا کی۔ ان میں عبداللہ بن مسعودؓ، ابی کعبؓ، سالم مولیٰ حذیفہؓ اور معاذ بن جبلؓ شامل تھے۔[50]

اسلام کے ابتدائی دور میں سند دینے کا رواج نہ تھا۔ طالب علم کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ آیا وہ کسی خاص فن میں کاملیت کے درجے پر پہنچ گیا ہے یا نہیں نیز وہ اس خاص علم میں دوسروں کو پڑھانے کے قابل ہوا ہے یا نہیں۔ علم حدیث کے حوالے سے کچھ عرصہ بعد اسناد دینے کا رواج ہوا۔ احمد شبلی سند دینے کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

"کچھ عرصہ بعد احادیث نبوی ﷺ کی اہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے محدث شاگردوں کو سند دینے لگے تاکہ ان کے حوالے سے وہ حدیث بیان کرسکیں۔ بعد ازاں یہی عمل دیگر مضامین کے ساتھ کیا جانے لگا۔ اس طرح ہر مدرس اپنے شاگردوں کو سند دینے لگا۔"[51]

نتائج بحث:

  1. الغرض درج بالا بحث سے معلوم ہوتا ہے اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت علم کو حاصل ہے۔ یہ صرف ایک انسانی ضرورت ہی نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے۔ انسانی زندگی کے دوسرے معاملات کی طرح اسلام نے تعلیم کا بھی ایک مکمل نظام ہمیں دیا ہے ۔
  2. اسلام میں تعلیم کا مقصد معرفت خدا اور اسلامی اصولوں کے مطابق انسانی کردار کی تشکیل ہے۔ اسلامی نصاب تعلیم قرآن و حدیث پر مشتمل ہے؛ قرآن جو کہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں انسان کے لیے رہنمائی دیتا ہے اور حدیث جس میں انسان کے لیے مکمل نمونہ ہے۔
  3. برصغیر میں مغلیہ دور حکومت میں علمی، ادبی اور اسلامی تعلیم کے رجحانات غالب رہے۔ مسلم علماء کرام نے اپنی تمام تر توجہ تفسیر، حدیث، فقہ اور عقلی علوم و فنون کی تعلیم پر مرکوز رکھی۔
  4. مسلمانوں کا نظام تعلیم دین اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیمات پر مبنی تھا۔
  5. مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے ساتھ طلباء کے درس قرآن کا بھی انتظام تھا۔ مساجد سے ملحق مدارس قائم کیے جاتے تھے۔

تجاویز و سفارشات:

ہمارے تحقیقی مقالہ کا ایک مقصد موجودہ پاکستانی نظام تعلیم کا جائزہ لینا اور اس کی بہتری کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں اس کے نظام تعلیم کا کردار اہم ہوتا ہے۔ موجودہ پاکستانی نظام تعلیم کو دینی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

  1. نظام تعلیم کی تصحیح کے لیے اور اس کو اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کے لیے یہ نظام ان لوگوں کو بنانا چاہیے جو اسلام اور اسلامی نظام تعلیم سے واقف ہوں۔
  2. عقیدہ ختم نبوت کو دوبارہ شامل نصاب کیا جائے۔
  3. سب سے پہلے تعلیم کے معاملے میں دین اور دنیا کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔
  4. نظام تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول اور ذریعہ معاش نہ ہو بلکہ انسان کے کردار کی تشکیل ہو۔
  5. نصاب تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ اپنے مذہب اور تہذیب سے لگاؤ پیدا ہو۔
  6. سائنس، معاشیات، سیاسیات ،تاریخ اور دوسرے مضامین کو بھی اسلامی نقطہ نظر سے پڑھایا جائے ۔
  7. ہم نصابی سرگرمیاں بھی اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار کی جائیں۔
  8. غیر اسلامی سرگرمیوں اور مشاغل سے اجتناب کیا جائے۔

حوالہ جات

  1. Oxford Advanced Learner’s Dictionary, 8th ed., S.V. “Education”.
  2. Oxford Advanced Learner’s Dictionary, 8th ed., S.V. “Education”.
  3. Encyclopædia Britannica, S.V. “education”.
  4. مقبول احمد،علمی اساسیات علم التعلیم( علمی کتاب خانہ، لاہور،۲۰۱۵ء)، ص: ۵۔۸
  5. سورۃ العلق۱:۹۶۔۵
  6. سورۃ الزمر۹:۳۹
  7. القزوینی،محمد بن یزیدبن ماجہ، السنن، کتاب السنۃ،باب فضل العلماء(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۴ء)ص: ۳۵
  8. القزوینی،السنن،کتاب السنۃ، باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم،ص: ۳۴
  9. محمد اقبال، قاری، پروفیسر،مقالات اسلامیہ، فیصل آباد(انجمن نوجوانان اسلام ،رجسٹرڈ،۲۰۰۵ء) ص: ۱۴۰
  10. محمد امیر ملک، پروفیسر،نظام تعلیم کی اسلامائزیشن، ایک نعرہ یا حقیقت، پاکستان کا نظام تعلیم،(ادارہ تعلیمی تحقیق،لاہور ،۲۰۰۰ء)،۱/۸
  11. حمیرا اقبال ،تعلیمی زاویے، دینی مدارس کا نظام تعلیم(م۔ن، ۱۹۹۶ء)، ص:۶۲
  12. عبدالرشید ارشد،پاکستان میں تعلیم کا ارتقاء(ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور،۱۹۹۵ء)، ص: ۱۶
  13. عزیز، ایم اے، ڈاکٹر، تعلیم اور معاشرتی تبدیلی(کاروان ادب، ملتان ۱۹۸۳ء)، ص: ۲۷۲۔۲۷۳
  14. منور ابن صادق،تعلیم و تعلم( صادقہ پبلی کیشنز ، لاہور،۱۹۷۳ء) ،ص: ۷
  15. شمیم حیدر ترمذی، ڈاکٹر، اسلام کا نظام تعلیم(کاروان ادب ، لاہور،۱۹۹۳ء) ،ص: ۵۱
  16. خورشید احمد، پروفیسر، اسلامی نظریہ حیات( شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، کراچی،۱۹۶۸ء)، ص: ۲۷
  17. سورۃ البقرہ۲: ۱۵۱
  18. صدر الدین اصلاحی، مولانا،اسلام ایک نظر میں(اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور،۱۹۹۰)، ص: ۵۱
  19. خورشید احمد، پروفیسر، اسلام کا نظریہ تعلیم(اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ ، لاہور،۱۹۸۰ء)، ص: ۴۲۹
  20. ابو عمار زاہد الراشدی،اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی خدوخال، عزم نو، جنوری تا جون ۱۹۷۹ء، ص: ۵۹۶
  21. محمد مصلح الدین، اسلامی تعلیم اور اس کی سرگزشت(اسلامک پبلی کیشنز ، لاہور ،۱۹۸۸ء) ص: ۱۶
  22. شبیر احمد جامعی، پروفیسر، تفہیم الاسلام(سبحان بک سنٹر، بہاولپور،۲۰۰۵ء)،ص: ۵۸۷۔۵۹۰
  23. خورشید احمد، پروفیسر، اسلامی نظریہ حیات،ص: ۴۴۴
  24. حمید احمد خان، پروفیسر،تعلیم و تہذیب( مجلس ترقی ادب ،لاہور،۱۹۷۵ء)، ص: ۲۴۱
  25. خرم جاہ مراد، احیائے علوم اسلامیہ اور تعلیم (تحقیق تنظیم اساتذہ پاکستان ، لاہور،۱۹۸۱ء)، ص: ۴۱
  26. الغزالی،محمد بن محمد ، احیاء علوم الدین( ترجمہ :مذاق العارفین،مترجم:محمد احسن صدیقی(شیخ غلام حسین اینڈ سنز ،لاہور،س۔ن)، ص: ۷۴
  27. مناوی ،عبد الرؤف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر(دارالمعرفہ،بیروت،س۔ن)،حدیث:۲۳۸۱،۲/۲۸۳
  28. خورشید احمد، پروفیسر، نظام تعلیم: نظریہ، روایت، مسائل(انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد،س۔ن)، ص: ۶۷
  29. مہر گل محمد،پاکستان میں پرائمری تعلیم( بیکن بکس، ملتان،۱۹۸۸ء)، ص: ۶۶
  30. بختیار حسین صدیقی، پروفیسر،مسلمانوں کی تعلیمی فکر کا ارتقاء (ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۱۹۸۳ء)، ص: ۴۰
  31. محمد طاسین، مولانا،اسلامی نظام تعلیم کا مفہوم و مطلب، عزم نو، اسلامی تعلیم نمبر ،۱۹۷۹ء،ص: ۳۸۰
  32. الترمذی،محمد بن عیسیٰ ،الجامع، کتاب الاستئذان، باب فی تعلیم السریانیۃ( مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن) ، حدیث: ۲۷۱۵،ص:۶۱۵
  33. سورۃ الانفال۸: ۶۰
  34. سورۃ البقرہ۲: ۲۰۱
  35. منور ابن صادق،تعلیم و تعلم( صادقہ پبلی کیشنز ، لاہور،۱۹۷۳ء)، ص: ۹۱
  36. عزیز، ایم اے، ڈاکٹر،تعلیم اور معاشرتی تبدیلی، ص: ۲۸۷۔۲۸۸
  37. مشتاق الرحمٰن صدیقی، ڈاکٹر، تعلیم و تدریس، مباحث و مسائل(پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن، اسلام آباد،۱۹۹۸ء)، ص: ۱۶۰
  38. البخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب التناوب فی العلم(مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن) ،حدیث: ۸۹، ص: ۲۰۔۲۱
  39. الغزالی،احیاء العلوم فی الدین،۲/۳۲۲
  40. العجلونی،اسماعیل بن محمد بن الہادی ، کشف الخفاء و مزیل الالباس( دارالکتب العلمیہ، بیروت ،۲۰۰۱ء)، حدیث: ۱۶۴، ۱/۶۲
  41. البخاری،الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب ماکان النبیؐ ینخولھم بالموعظۃ، حدیث: ۶۹، ۱/۱۷
  42. السجستانی،سلیمان بن اشعث،ابو داؤد، السنن، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،س۔ن) ، حدیث: ۳۶۵۰،۱/۵۲۳
  43. البخاری، الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب من جعل لاھل العلم ایاما معلومۃ، حدیث: ۷۰،۱/۱۷
  44. عبدالحئی بن العماد،شدرات الذھب فی اخبار من ذھب، الجزء الاوّل( دارالفکر ، بیروت،۱۹۸۸م)، ص: ۶۲
  45. ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، سیرا علام النبلاء(مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ،۱۹۹۳م)،۱/ ۱۸۱۔۱۸۲
  46. عبدالرشید، ڈاکٹر، پاکستان میں تعلیم کا ارتقاء،ص: ۵۰
  47. سورۃ الانبیاء ۴۷:۲۱
  48. القزوینی، السنن،باب انتفاع بالعلم، حدیث: ۲۵۰، ۱/۳۸
  49. القشیری، الجامع الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل سورۃ الکھف و اٰیۃ الکرسی،حدیث: ۱۸۸۵،۱/۳۲۷
  50. غلام عابد خان، عہد نبویؐ کا نظام تعلیم(عوامی کتب خانہ، لاہور،۱۹۷۸ء)، ص: ۷۸
  51. احمد شبلی، ڈاکٹر،مسلمانوں کا نظام تعلیم(مترجم:ادریس صدیقی) (بک ہوم، لاہور،۲۰۰۴ء)، ص: ۱۴۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...